ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل(ذہن کے متعلق نمبر۷) (قسط ۳۲)
(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل‘‘ کی ریپرٹری یعنی ادویہ کی ترتیب بلحاظ علامات تیار کردہ THHRI)
کاسٹیکم
Causticum
٭…ایسے مریضوں میں جہاں خوف وجہ نہ ہو بلکہ ہکلانے کا آغاز زبان کے جزوی فالج سے ہوا ہو کاسٹیکم بہترین علاج ہے۔ اس فالج کے نتیجے میں اگر بچہ ایک دفعہ ہکلانا شروع کر دے توخوف بھی ساتھ شامل ہو جاتا ہے ایسے موقع پر اگر سٹرامونیم کے ساتھ کاسٹیکم ملاکر دی جائے تو فالج کا اثر بہت جلد زائل ہو نے لگتا ہے۔ (صفحہ ۲۶۳)
٭…ہسٹیریا بھی آہستہ آہستہ بڑھتا ہے اور اس کے دوروں میں رفتہ رفتہ شدت پیدا ہونے لگتی ہے۔یہاں تک کہ تشنج شروع ہوجاتا ہے۔ کاسٹیکم کی علامات رکھنے والا مریض بہت حساس ہوتا ہے،شور اور ذرا سی لمس بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ سردی اور گرمی دونوں ہی موافق نہیں۔ (صفحہ۲۶۳-۲۶۴)
٭…کاسٹیکم کا مرگی کے آغاز سے بھی تعلق ہے۔ سر کی ساخت کی خرابیوں میں اور خطرناک حادثات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی مرگی کسی علاج سے ٹھیک نہیں ہوا کرتی بلکہ اس کا علاج اگر ممکن ہے تو سرجری سے ممکن ہے۔ (صفحہ۲۶۴)
٭…کاسٹیکم کی ایک علامت یہ ہے کہ اگر جلدی امراض کو دبا دیا جائے تو دماغی امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔ (صفحہ ۲۶۴)
٭…اگر وضع حمل کے وقت عورت کے گردوں پر اثر ہو، خوف،دباؤ یا سوزش کی وجہ سے پیشاب بند ہوجائے تو بسا اوقات کاسٹیکم ناگزیر ہو جاتی ہے۔ (صفحہ ۲۶۵)
٭…اگرماہانہ ایام کے دوران کوئی صدمہ پہنچ جائے یا کسی وجہ سے خوف طاری ہو یا کسی عزیز کی وفات ہوجائے تو حیض بند ہو جاتے ہیں۔تو اس صورت میں کاسٹیکم بھی دوا ہوسکتی ہے۔اسی طرح کسی صدمہ یا غم کی خبر سے دودھ پلانے والی عورتوں کا دودھ خشک ہوجاتا ہے اس وقت بھی کاسٹیکم مفید ہے۔(صفحہ۲۶۶)
کیمومیلا
Chamomilla
٭…یہ بہت حساس اور زود رنج بچوں کی دوا ہے جو بہت ضدی اور غصیلے ہوتے ہیں۔ذرا ذرا سی بات پر ان کا پارہ آسمان پر چڑھ جاتا ہے۔بیمار ہوجائیں تو ان کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جس طرح بھی بہلانے کی کوشش کریں غصہ کم نہیں ہوگا۔کوئی چیز مانگیں گے لیکن ملنے پر پھینک دیں گے۔کہیں جانا چاہیں تو وہاں پہنچ کر دھکے دیں گے کہ مجھے کیوں یہاں لائے ہو ؟ غصہ کی حالت میں بدتمیز ہوجاتے ہیں۔ا س کی ایک وجہ یہ ہے کہ کیمومیلا کا مریض واقعتاًعام لوگوں کی نسبت تکلیف کو زیادہ محسوس کرتا ہے۔اس کی بیماریاں اعصاب اور جذبات سے تعلق رکھتی ہیں۔یہ بے انتہا حساس لوگوں کی دوا ہے جو بظاہر بدخلق بھی ہوں لیکن اندرونی طور پر بے حد حساس ہوتےہیں۔خاموش رہتے ہیں لیکن معمولی بات پر بھی ایک دم غصہ میں آجاتےہیں، اعصابی تناؤ پیدا ہو جاتا ہے۔بظاہر بہت خاموش اور سست رو دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے مریض کو کیمومیلا اونچی طاقت میں فوری فائدہ پہنچاتی ہے۔ ایک تو احساسات اعتدال پر آجاتے ہیں، دوسرے باقی دواؤں کو کا م کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔(صفحہ ۲۶۹)
٭…کیمومیلا غیرمعمولی حساس مریضوں کی دوا ہے اس لیے اس میں اعصابی بے چینی سے جھٹکے بھی لگتے ہیں اور عضلات پھڑکتے ہیں۔ شکنجے پڑنے کا احساس بھی ہوتا ہے اور عضلاتی اور اعصابی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ کیمومیلا میں کافیا، نکس وامیکا اور اوپیم کی بھی کچھ مشابہتیں پاِئی جاتی ہیں۔ کافیا اور نکس وامیکا کا مریض بھی کافی زود حس ہوتا ہے۔اوپیم کا مریض بظاہر بے حس،بے پرواہ اور غنودگی کی سی حالت میں رہتا ہے لیکن درحقیقت وہ اندرونی طور پر بہت حساس ہے۔ اوپیم اگر زہر کے طور پر کام کرے تو مریض کا دماغ سخت مشتعل، بے چین اور بے سکون ہوجاتا ہے۔ بڑی مقدار میں دی جائے تو پہلا ردعمل بے ہوشی کی صورت میں اور دوسرا اعصاب میں تناؤ اور خشکی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور کیمومیلا کی بعض علامتیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ اس لیے اوپیم مزاج کے بعض مریضوں میں سخت غصہ پایا جاتا ہے۔ الگ تھلگ رہتے ہیں، تنہائی اور خاموشی کو پسند کرتے ہیں، ہر چیز ان کے اعصاب میں جھنجناہٹ پیدا کرتی ہے اور بہت زود حس ہو جاتے ہیں۔(صفحہ۲۷۰)
٭…کیمومیلا کےمزاج کی یہ مستقل علامت ہے کہ اس کے مریضوں میں فراخ دلی کی کمی ہوتی ہے، طبیعت میں کسی قدر خساست پائی جاتی ہے۔کسی دوسرے کی پرواہ نہیں کرتے، نہ کسی کی تکلیف محسوس کرتے ہیں۔نہ کسی کی ضرورت کا خیال رکھتے ہیں۔لیکن ہر وقت اپنے معاملہ میں بے حد زودحس ہوتے ہیں۔ہروقت اپنی ہی ذات سے چمٹے رہتےہیں اور صرف اپنا ذاتی مفاد ہی پیش نظر رہتا ہے۔دوسروں پر اچانک غصہ آنا بھی اسی مزاج کا حصہ ہے۔(صفحہ ۲۷۱)
٭…گلے میں درد،تشنج اور سوزش کے ساتھ طبیعت میں غصہ بھی ہو تو کیمومیلا بہترین دوا ہے۔ (صفحہ ۲۷۲)
٭…کیمومیلا کھانسی کے لیے بھی مفید دوا ہے۔ بچہ کو سوتے ہوئے یا غصہ آنے پر کھانسی شروع ہوجائے تو کیمومیلا بہت اچھا کام کرتی ہے۔کالی کھانسی کی وبا پھیلی ہو تو بھی کیمومیلا اس کے خلاف دفاع کو مضبوط کرتی ہے۔ اگر بچے کا مزاج غصے والا ہو تو کیمومیلا اور بھی اچھا کام کرے گی لیکن اس کے بغیر بھی یہ بعض موسمی کھانسیوں میں کافی مفید ہے۔ (صفحہ۲۷۳)
٭…دانت نکالنے کے زمانے میں جب شیر خوار بچہ بہت ضدی،چڑچڑااور بے چین ہو،اسہال آتےہوں،تشنج بھی ہو جائے تو اس کے لیے کیمومیلا بہت ضروری دوا ہے۔ اگر بچہ نیند میں روئے اور چیخے اور اسے ڈراؤنے خواب آئیں تو بھی کیمومیلا دینی چاہئے۔ (صفحہ ۲۷۳)
چینوپوڈیم
Chenopodium
(Jeros Oak)
٭…چینوپوڈیم کے مریض میں بھی اوپیم کی طرح Apoplexy ہو جانے کا رجحان ملتا ہے۔جو اوپیم میں بہت زیادہ ہے۔لیکن چینوپوڈیم کی Apoplexy بھی اوپیم کے مشابہ ہوتی ہے۔ (صفحہ ۲۸۰)
چینینم آرس
Chininum ars
(Arsenite of Quinine)
٭…چینینم آرس میں لیکیسس کی طرح سونے کے بعد تکلیفیں بڑھتی ہیں۔ جسم میں بے چینی رہتی ہے جو شام کو بڑھ جاتی ہے۔ بعض مریضوں کو یہ احساس رہتا ہے کہ وہ ایسے گناہ گار ہیں جوبخشے نہیں جائیں گے۔چینینم آرس میں مریض بالکل معمولی چیزوں پر اپنے آپ کو بہت گناہ گار سمجھنے لگتا ہے اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر وہم میں مبتلا ہو کر خوف اور توہمات کا شکار ہوجاتا ہے۔ایسے مریض کو بعض دفعہ عجیب وغریب نظارے بھی نظر آنے لگتے ہیں۔ (صفحہ ۲۸۴)
٭…چینینم آرس کے مریض کو بخار ہو تو وہ گھبرا کر بستر سے باہر نکلتا ہے۔ ہر وقت بے چین رہتا ہے۔آہستہ آہستہ زندگی سے مایوسی اور نفرت ہونے لگتی ہے،شور ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔اور یادداشت کمزور پڑ جاتی ہے۔ ایسے مریض جنہوں نے اپنی زندگی اوباشی اور عیاشی میں گزاری ہو ان میں چینیم آرس کی علامات کا پیدا ہونا زیادہ قرین قیاس ہے۔ (صفحہ۲۸۴)
سیکوٹا وروسا
Cicuta virosa
(Water Hemlock)
٭…سیکوٹا وروسا کی بعض علامات Catalepsy سے ملتی ہیں اس بیماری میں ذہن تشنج کے نتیجہ میں عارضی طور پر سن ہوجاتا ہے۔ مریض بھول جاتا ہے کہ وہ کون ہے اور کہاں ہے۔دماغ میں ایک لہر سی اٹھتی ہے جس کے نتیجے میں مریض گرد وپیش سے کلیۃًبے تعلق ہوجا تا ہے۔ اس بیماری میں یہ دوا بہت اہم ہے۔(صفحہ۲۹۱-۲۹۲)
٭…Catalepsy اور Apoplexyمیں یہ فرق ہے کہ Apoplexy میں مریض دماغ میں خون جمنے کے نتیجہ میں بالکل بے حس و حرکت اور مفلوج سا ہو جاتا ہے۔ Catalepsy میں گو بظاہر غافل دکھائی دیتا ہے لیکن اس سے کوئی بات کی جاِئے تو اس کا درست جواب دیتا ہے۔بعد ازاں اسے بالکل یاد نہیں رہتا کہ کیا ہوا تھا۔ حال کے واقعات کو ماضی سے ملادیتاہے۔پرانے دوست کو مل کر بہت حیران ہوتا ہے کہ شائداس سے پہلے بھی کبھی مل چکا ہو۔ (صفحہ۲۹۲)
٭…سیکوٹا کی ذہنی علامات نیٹرم میور سے مشابہ ہیں۔اگر بوڑھے آدمیوں میں آرٹیریو سکلروسس (Arteriosclerosis) کی وجہ سے شریانیں تنگ ہو جائیں اور دماغ میں خون کادوران پوری طرح سے نہ ہو تو ایسے مریضوں کا معدہ خراب ہونےپر برین فیگ (Brainfag) (یعنی وقتی طور پر یادداشت کا غائب ہو جانا) کے دورے پڑنے لگتے ہیں۔ اس میں نکس وامیکا مفید ہے۔(صفحہ۲۹۲)
٭…سیکوٹا وروسا کے مریض کی ایک ذہنی علامت یہ ہےکہ بعض اوقات زیادہ گیا گذرا مریض کھانے پینے کی چیزوں کے مزہ میں فرق نہیں کرسکتا۔مزہ چکھنے کے غدود متاثر ہوتے ہیں،زود حسی کی بجائے بے حسی پائی جاتی ہے۔ (صفحہ۲۹۲-۲۹۳)
٭…سیکوٹا کا مریض بچوں والی حرکتیں کرتا ہے۔ بستر پر چھلانگیں لگائے گا،عجیب وغریب باتیں کرے گا۔ناچے گا، گائے گا۔ وہ بچوں کی طرح چیختا ہے۔ بےو قوفانہ خیالات رکھتا ہے۔اگر مرگی کا دورہ کسی کو اچانک خوف کے نتیجے میں پڑے تو ایکونائٹ ایک ہزار طاقت میں فوری فائدہ پہنچا سکتی ہے۔مستقل فائدہ نہیں پہنچاتی۔(صفحہ۲۹۳)
٭…سیکوٹا وروسا ایسے خوف سے پیدا ہونے والے تشنج یا مرگی کی مستقل دوا ہے۔ جب دورہ کی شدت ختم ہو توایسے مریضوں کا خوف غم میں تبدیل ہوجاتا ہے اور اداسی چھا جاتی ہے۔یہ ایک زائد علامت ہے جو سیکوٹا وروسا کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ (صفحہ۲۹۳)
٭…یہ دوا پرانی چوٹوں سے پیدا شدہ تکالیف میں بھی مفید ہے۔خصوصاً سر پر چوٹ کے بد اثرات بعض اوقات فالجی بیماریوں پر منتج ہوجاتے ہیں۔ عام طور پر اس میں نیٹرم سلف اور آرنیکا کام آتے ہیں۔ ان کے بعد اوپیم اور پلمبم کا نمبر آتا ہے۔ہاں اگر چوٹ سے تشنج ہونے لگے یا مرگی کے دورے پڑنے لگیں تو سیکوٹا وروسا خدا کے فضل سے مفید ثابت ہوگی۔اگر چوٹ کے نتیجہ میں بھینگا پن پیدا ہوجائے تو اس کی بھی دوا ہے۔اس سے پہلے آرنیکا اور نیٹرم سلف بھی ضرور دینی چاہیے۔اگر خوف کے نتیجہ میں آنکھیں اوپر کو چڑھ جائیں،پتلیاں پھیل جائیں اور بھینگا پن پیدا ہو تو سیکوٹا وروسا سے بہتر اور کوئی دوا نہیں۔ (صفحہ۲۹۳)
سائنا
Cina
٭…سائنا بچوں کی دوا ہے اور پیٹ کے کیڑوں کے لیے مشہور ہے۔ اس کے مزاج کی خصوصیت بدمزاجی ہے۔ اس کے مریض بچے چھوٹی چھوٹی بات پر ناراض ہو جاتے ہیں کوئی چیز انہیں خوش نہیں کرسکتی۔بہت حساس ہو تے ہیں۔کوئی اجنبی آجائے تو اس سے بھی بہت گھبراتا ہےکیمومیلا کے مریض کی طرح یہ طرح طرح کی فرمائشیں کرتا ہے۔لیکن جب فرمائش پوری کر دی جائے تو اپنی مانگی ہوئی چیز پرے پھینک دیتا ہے۔اگر کوئی اسے ٹکٹکی لگا کر دیکھے تو ناراض ہو جاتا ہے۔ (صفحہ۲۹۵)
٭… جو مریض سائنا کا تقاضا کرتے ہیں وہ سوتے میں دانت پیستے ہیں۔نیند میں جھٹکے لگتے ہیں۔آنکھ بار بار کھل جاتی ہے۔ڈر کر اور گھبرا کر اٹھ جاتے ہیں کتوں،جنوں اور بھوتو ں کی خوفناک خوابیں آتی ہیں۔ نیند میں چیخیں مارتے ہیں اور کانپ کر اٹھ جاتے ہیں۔ (صفحہ۲۹۵)
بعض عورتوں کو اگر حمل کے دوران غیر متوقع خوشی یا غم کی خبر پہنچے تو بعض تکلیفیں مثلاًسر درد یا پیٹ دردشروع ہوجاتی ہیں اورایسی خبر کے بعد بھی عرصہ تک جاری رہتی ہیں۔ ایسی تکلیفوں میں سائنا بہت مفید ہے۔اس کی تکلیفیں کھانا کھانے کے بعد،رات کو اور موسم گرما میں بڑھ جاتی ہیں۔ (صفحہ۲۹۶-۲۹۷)
٭…٭…٭