بنیادی مسائل کے جوابات (قسط نمبر ۵۹)
٭…بعض عورتیں کئی مہینوں تک حیض سے پاک نہیں ہوتیں۔ کیا ایسی عورتیں چلہ کشی کی حامل ہو سکتی ہیں؟
٭…مسئلہ تقدیر کی وضاحت
٭… سورۃ عبس میں بیان کردہ واقعہ کی روشنی میں غیر احمدی تفاسیر پڑھنے کے متعلق راہنمائی
سوال: انڈیا سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں تحریر کیا کہ بعض عورتیں کئی مہینوں تک حیض سے پاک نہیں ہوتیں۔ کیا ایسی عورت چلہ کشی کی حامل ہو سکتی ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۸؍ جون ۲۰۲۲ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔حضور نے فرمایا:
جواب: اگر کسی خاتون کو اس کے معمول کے ایام سے زیادہ حیض شروع ہو جائے، اسی طرح بچہ کی پیدائش کے بعد اگر چالیس دنوں سے زیادہ نفاس کا خون آتا رہے تو یہ ایک قسم کی بیماری ہے، اور ایسی عورت کو مستحاضہ کہا جاتا ہے۔ اس بارہ میں حدیث میں وضاحت موجود ہے کہ ایسی عورت کو اس کے معمول کے ایام حیض کے مطابق عبادتوں سے رخصت ہو گی۔ اورمعمول کے یہ دن گزرنے پر اسے پاک ہو کر عبادات بجا لانی ہوں گی۔ ایسی صورت میں اسے ہر نماز کےلیے وضوکرنا ہو گا۔
چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ فاطمہ بنت حبیشؓ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ میں ایک مستحاضہ عورت ہوں جو ایک عرصہ تک پاک نہیں ہو پاتی تو کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ اس پر حضورﷺ نے فرمایا نہیں۔ یہ تو ایک رگ کا خون ہے اور حیض نہیں ہے۔ پس جب تمہارے حیض کا زمانہ آجائے تو نماز چھوڑ دو اور جب یہ مخصوص دن گزر جائیں تو اپنے سے خون دھو ڈالو۔ اس کے بعد نماز پڑھو۔ راوی کہتے ہیں کہ اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد میرے والد نے یہ بھی کہا کہ پھر ہر نماز کےلیے وضو کیا کرو، یہاں تک کہ پھر معمول کے حیض کا وقت آجائے۔(صحیح بخاری کتاب الوضوء بَاب غسل الدم)
سوال: قادیان سے ایک دوست نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں قسمت اور تقدیر کے حوالہ سے لکھا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ پہلے سے ہی جانتا ہے کہ ہم نے آگے کیا کرنا اور کیا حاصل کرنا ہے، یا ہم جنت میں جائیں گے یا جہنم میں، اور اللہ تعالیٰ پہلے سے ہی ہر چیز جانتا ہے۔ تو اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ یہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ ہے اور انسان کےلیے اپنی کوئی مرضی نہیں۔ اس سوال کا ہم کیا جواب دے سکتے ہیں؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۸؍ جون ۲۰۲۲ء میں اس بارہ میں درج ذیل ارشادات فرمائے۔ حضور نے فرمایا:
جواب: مسئلہ تقدیر کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اس قسم کے سوال ہر زمانہ میں اٹھتے رہے ہیں۔ کوئی بات کسی کے علم میں ہونا اور بات ہے اور کسی سے زبردستی کوئی کام کروانا اور بات ہے۔ لوگوں نے اپنی کم علمی کی وجہ سے ان دونوں باتوں کو اکٹھا کر دیا ہے اورسمجھتے ہیں کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ ہم نے آگے کیا کرنا ہے اور کیا بننا ہے، یا ہم نے جنت میں جانا ہے یا جہنم میں جانا ہے، اس لیے یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہو رہا ہے۔ انسان کا اس میں کچھ بھی دخل نہیں ہے۔ لیکن یہ بات درست نہیں۔
یہ اسی طرح کی بات ہے کہ جیسے ایک استاد اپنے تمام شاگردوں کو پڑھاتا ہے اور چاہتا ہے کہ سب شاگرد ہی اچھے نمبر حاصل کریں۔ لیکن استاد اپنے تجربہ کی بنا پر یہ بھی جانتا ہے کہ اس کے لائق شاگرداگر اسی طرح محنت کرتے رہے تو پاس ہو جائیں گے۔ اور نالائق شاگردوں کے بارہ میں جانتا ہے کہ اگر انہوں نے محنت نہ کی تو وہ یقیناً فیل ہو جائیں گے۔ اب یہ استاد کا تجربہ اور علم ہے لیکن پاس ہونے والے شاگردوں کو نہ استاد نے محنت کرنے پر مجبور کیا اور نہ ہی فیل ہونے والے شاگردوں کو محنت نہ کرنے پر استاد نے مجبور کیا ہے۔ یہ تو دونوں قسم کے شاگردوں کا اپنا اپنا فعل تھا، جس کے مطابق بعد میں استاد نے نتیجہ نکال دیا۔
بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ کا علم بھی چونکہ تمام کائنات پر حاوی ہے اور وہ جس طرح ماضی کو جانتا ہےبعینہ ٖمستقبل کو بھی جانتا ہے اور اس کے ساتھ اس نے نظام کائنات کو چلانے کےلیے کچھ قوانین بھی بنائے ہیں اور انسان کو اس نے اختیار دیا کہ اگر وہ چاہے تو اچھے کام کرے اور چاہے تو بُرے کام کرے۔ اب انسان جس قسم کے کام کرے گا، اس کے ان کاموں کے مطابق اللہ تعالیٰ انسان کےلیے نتیجہ ظاہر کر دے گا۔ ہاں اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو یہ بھی علم ہے کہ کوئی انسان کس قسم کے کام کرے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا علم کسی انسان کو اچھے یا بُرے کام کرنے پر مجبور نہیں کرتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس مضمون کو اپنی مختلف تصانیف اور ملفوظات میں مختلف پیرایوں میں بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ ایک جگہ آپؑ تحریر فرماتے ہیں:آج کل مسلمانوں میں ایک ایسا گروہ بھی پایا جاتا ہے جو کہتے ہیں کہ دُعا کچھ چیز نہیں ہے اور قضا و قدر بہرحال وقوع میں آتی ہے۔ لیکن افسوس کہ یہ لوگ نہیں جانتے کہ باوجود سچائی مسئلہ قضا و قدر کے پھر بھی خدا تعالیٰ کے قانونِ قدرت میں بعض آفات کے دُور کرنے کےلیے بعض چیزوں کو سبب ٹھہرا رکھا ہے جیسا کہ پانی پیاس کے بجھانے کےلیے اور روٹی بھوک کے دور کرنے کےلیے قدرتی اسباب ہیں پھر کیوں اس بات سے تعجب کیا جائے کہ دُعا بھی حاجت براری کےلیے خدا تعالیٰ کے قانونِ قدرت میں ایک سبب ہے جس میں قدرتِ حق نے فیوض الٰہی کے جذب کرنے کےلیے ایک قوت رکھی ہے۔ ہزاروں عارفوں راستبازوں کا تجربہ گواہی دے رہا ہے کہ درحقیقت دُعا میں ایک قوتِ جذب ہے اور ہم بھی اپنی کتابوں میں اس بارے میں اپنے ذاتی تجارب لکھ چکے ہیں اور تجربہ سے بڑھ کر اور کوئی ثبوت نہیں۔ اگرچہ یہ سچ ہے کہ قضا و قدر میں پہلے سب کچھ قرار پا چکا ہے مگر جس طرح یہ قرار پا چکا ہے کہ فلاں شخص بیمار ہو گا اور پھریہ دوا استعمال کرے گا تو وہ شفا پا جائے گا اسی طرح یہ بھی قرار پا چکا ہے کہ فلاں مصیبت زدہ اگر دُعا کرے گا تو قبولیت دعا سے اسباب نجات اس کےلیے پیدا کئے جائیں گے۔ اور تجربہ گواہی دے رہا ہے کہ جس جگہ خد ا تعالیٰ کے فضل سے یہ اتفاق ہو جائے کہ بہمہ شرائط دُعا ظہور میں آوے وہ کام ضرور ہو جاتا ہے۔ اسی کی طرف قرآن شریف کی یہ آیت اشارہ فرما رہی ہے۔ اُدۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ(المؤمن:۶۱) یعنی تم میرے حضور میں دُعا کرتے رہو آخر میں قبول کر لوں گا۔ تعجب کہ جس حالت میں باوجود قضا و قدر کے مسئلہ پر یقین رکھنے کے تمام لوگ بیماریوں میں ڈاکٹروں کی طرف رجوع کرتے ہیں تو پھر دُعا کا بھی کیوں دوا پر قیاس نہیں کرتے؟(ایام الصلح،روحانی خزائن جلد۱۴ صفحہ ۲۳۲ حاشیہ )
مسئلہ تقدیر پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک جگہ ملفوظات میں حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:آریہ لوگ اعتراض کر تے ہیں کہ قرآن شریف میں لکھا ہے خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ(البقرۃ:۸) کہ خدا نے دلوں پر مہر کر دی ہے تو اس میں انسان کا کیا قصور ہے ؟یہ ان لوگوں کی کوتا ہ اند یشی ہے کہ ایک کلام کے ما قبل اور مابعد پر نظر نہیں ڈالتے ورنہ قرآن شریف نے صاف طور پر بتلا یا ہے کہ یہ مہر جو خدا کی طرف سے لگتی ہے یہ دراصل انسانی افعال کا نتیجہ ہے کیو نکہ جب ایک فعل انسان کی طرف سے صادر ہوتا ہے تو سنت اللہ یہی ہے کہ ایک فعل خدا کی طرف سے بھی صادر ہو۔ جیسے ایک شخص جب اپنے مکان کے دروازے بند کر دے تو یہ اس کا فعل ہے اور اس پر خدا کا فعل یہ صادر ہو گا کہ اس مکان میں اندھیرا کر دے۔ کیو نکہ روشنی اندر آنے کے جوذریعے تھے وہ اس نے خود اپنے لئے بند کر دیئے ۔اسی طرح اس مہر کے اسباب کا ذکر خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں دوسری جگہ کیاہے جہاں لکھا ہے فَلَمَّا زَاغُوۡۤا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوۡبَہُمۡ ( الصف:۶) کہ جب انہوں نے کجی اختیار کی تو خدا نے ان کو کج کر دیا ۔ اسی کا نام مہر ہے لیکن ہمارا خدا ایسا نہیں کہ پھر اس مہر کو دور نہ کر سکے۔ چنا نچہ اس نے اگر مہر لگنے کے اسباب بیان کئے ہیں تو ساتھ ہی وہ اسباب بھی بتلا دیئے ہیں جن سے یہ مہر اُٹھ جا تی ہے جیسے کہ یہ فر مایا ہے فَاِنَّہٗ کَانَ لِلۡاَوَّابِیۡنَ غَفُوۡرًا۔ (بنی اسرائیل:۲۶)(یعنی وہ باربار رجوع کرنے والوں کو بہت ہی بخشنے والا ہے)(ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۲۶۹ تا ۲۷۰۔ مطبوعہ ۲۰۱۶ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تقدیر اور قسمت کامسئلہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:شاید کسی کے دل میں خیال آئے کہ میں نے جو کتاب ازلی کا ذکرکیا ہے تو اس سے معلوم ہؤا کہ تقدیر اور قسمت کا مسئلہ اُسی شکل میں ٹھیک ہے جس طرح عوام الناس سمجھتے ہیں مگر یہ غلط ہے۔ قرآن تقدیر اور قسمت کا مسئلہ اُس طرح بیان نہیں کرتا جس طرح کہ عام مسلمان اپنی ناواقفیت سے سمجھتے ہیں بلکہ قرآن کریم کے نزدیک تقدیر اور قسمت کے محض یہ معنے ہیں کہ ہر انسان کیلئے ایک قانون مقرر کر دیا گیا ہے کہ اگر وہ ایسا کام کرے گا تواس کا یہ نتیجہ نکلے گا۔ مثلاً اگرمرچیں کھائے گا تو زبان جلے گی، اگر تُرشی کھائے گا تو نزلہ ہو جائے گااور گلا خراب ہو جائے گا، اگر کوئی سخت چیز کھا لے گاتو پیٹ میں درد ہو جائے گایہ تقدیر اور قسمت ہے۔ یہ تقدیر اور قسمت نہیں کہ فلاں شخص ضرور ایک دن سخت چیز کھائے گا اورپیٹ میں درد ہو جائے گا۔ یہ جھوٹ ہے۔ خدا ایسا نہیں کرتا۔ قرآن اِس سے بھراپڑا ہے کہ یہ باتیں غلط ہیں۔ پس یہ جو ہمیشہ سے لکھا ہؤا ہونا ہے اس کا تقدیر اور قسمت سے کوئی تعلق نہیں اس لئے کہ تقدیر اور قسمت تب بنتی ہے جب خداکے لکھے ہوئے کے ماتحت انسان کام کرے۔ اگر یہ ضروری ہو کہ جو کچھ خدا نے لکھاہے اُسی کے مطابق اس کو کام کرنا چاہیے تو پھر یہ جبر ہو گیااور تقدیر اور قسمت ٹھیک ہو گئی لیکن جو قرآن سے تقدیر ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ خدا اس بات میں بندے کے تابع ہوتاہے اورجو اس بندے نے کام کرنا ہوتاہے خدا اُسے لکھ لیتا ہے۔ تقدیر اور قسمت تو تب ہوتی جب خدا مجبور کرتا اور یہ بندہ خدا کے جبر سے وہ کام کرتا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ بندہ وہ کام کرتا ہے اور خدا ا س کے جبرکے ماتحت وہی بات لکھتاہے جو اُس نے کرنی ہے۔ اس لئے یہ تو تم کہہ سکتے ہو کہ لکھنے کے بارہ میں خدا پر وہ تقدیر حاوی ہے جو انسانوں پر قیاس کی جاتی ہے۔ یہ تم نہیں کہہ سکتے کہ بندوں کی قسمت میں خدا نے جبر کرکے کوئی اعمال لکھے ہوئے ہیں۔(سیرروحانی نمبر ۸،انوار العلوم جلد۲۵ صفحہ ۵۱، ۵۲)
پس ان ارشادات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تقدیر اور قسمت کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اللہ تعالیٰ نعوذ باللہ انسان کو مجبور کر کے کوئی کام کرواتا ہے اور پھر اسے جنت یا جہنم میں ڈالتا ہے۔ بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کےلیے ایک قانون مقرر کیا ہوا ہے کہ انسان جیسا کام کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے مطابق اس کےلیے نتیجہ نکال دے گا۔
سوال: ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے استفسار کیا کہ کیا ہم غیر احمدی تفاسیر پڑھ سکتے ہیں یا ہمیں انہیں ہاتھ بھی نہیں لگانا چاہیے کہ کہیں وہ ہماری گمراہی کا باعث نہ بنیں۔جبکہ سورت عبس میں بیان حضرت ابن ام مکتومؓ کے واقعہ کی بابت Five Volume Commentaryمیں بیان تفسیر کے مقابلہ میں بعض غیر احمدی تفاسیر میں زیادہ مفصل اور زیادہ وضاحت کے ساتھ اور اچھی زبان میں اس واقعہ کی تفسیر بیان ہوئی ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۸؍جون ۲۰۲۲ء میں اس سوال کے بارہ میں درج ذیل ہدایات فرمائیں ۔ حضور نے فرمایا:
جواب: اصل بات یہ ہے کہ آپ کو صرف Five Volume Commentaryپڑھنے کا موقع ملا ہے، جو جماعت احمدیہ نے اپنے وسائل کے مطابق حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کی معرکہ آرا تفسیر القرآن (تفسیر کبیر) کے خلاصہ نیز حضورؓ کے تفسیر کبیر کےلیے تیار کردہ نوٹس کی مدد سے انگریزی زبان سمجھنے والوں کیلئے انگریزی زبان میں ایک مختصر سی تفسیر تیار کی ہے تا کہ انگریزی پڑھنے والے احباب اس مختصر تفسیر کے ذریعہ قرآن کریم کے مضامین کو کسی حد تک سمجھ سکیں۔اور چونکہ یہ خلاصہ کی صورت میں ہے اس لیے اس میں تفصیل درج نہیں کی جا سکی۔
علاوہ ازیں جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اردو زبان میں تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام (حضورعلیہ السلام کی تالیفات، ملفوظات، مکتوبات وغیرہ سے ماخوذ)،حقائق الفرقان (حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی تالیفات، خطبات و خطابات اور دروس القرآن سے ماخوذ) اور انوار القرآن (حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے خطابات و خطبات سے ماخوذ ) بھی شائع کرنے کی توفیق ملی ہے ۔اسی طرح حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم کے بعض حصوں کی جو تفسیر بیان فرمائی ہے، اسے تفسیر کبیر کے نام سے شائع کرنے کی توفیق ملی ہے۔ ان تفاسیر میں بیان ہونے والے قرآنی معارف ایسے ہیں ، جن کی نظیر دنیا کی کسی اور تفسیر میں نہیں ملتی۔ ان تفاسیر کی خوبیوں کا اظہار اپنوں کے علاوہ غیروں نے بھی برملا کیا ہواہے۔
آپ نے اپنے خط میں سورت عبس میں حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان ہونے والا واقعہ کا جو ذکر کیا ہے، اس کی ایک تفسیر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلرضی اللہ عنہ نے بھی فرمائی ہے، جو دیگر تفاسیر سے مختلف اور حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کے مقام و مرتبہ کو بلند کرنے والی ہے۔ اسی طرح حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تفسیر کبیر میں سورت عبس کے اس واقعہ کی جو نہایت بصیرت افروز تفسیر بیان فرمائی ہے، اس کی مثال گذشتہ چودہ سو سالہ تفاسیر میں ملنی محال ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بیان فرمودہ تفسیر میں جہاں اس واقعہ کے حوالہ سے غیروں کی طرف سے آنحضور ﷺ کی ذات اطہر پر کیے جانے والے اعتراضات کا ردّ کیا گیا ہے وہاں یہ تفسیر حضورﷺ کی شان، رتبہ اور مقام کو بلند تر کرنے والی ہے۔ پس اگر ممکن ہو تو تفسیر کبیر کے اس حصہ کو آپ ضرور پڑھیں۔
باقی جہاں تک غیروں کی تفاسیر کے پڑھنے کا تعلق ہے تو ان کے پڑھنے میں کوئی ہرج کی بات نہیں۔ لیکن چونکہ ان تفاسیر میں بہت سے قصے کہانیاں راہ پا گئے ہیں۔ اس لیے ان کے بارہ میں یہ اصول ضرور یاد رکھیں کہ اگر کوئی چیز قرآن کریم ، آنحضور ﷺ کی سنت اور آنحضورؐ کی سیرت کے خلاف ہو یا ان تفسیروں میں بیان کسی بات سے خدا تعالیٰ کی صفات، قرآن کریم کی صداقت اور آنحضور ﷺ کی ذات طیبہ پر کوئی اعتراض پیدا ہو تو اسے آنکھیں بند کر کے قبول کر لینا درست نہیں۔ کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ قرآن کریم میں بیان کوئی بھی بات خدا تعالیٰ کی ہستی، قرآن کریم کی حقانیت اور آنحضورﷺ کی ذات بابرکات کے خلاف نہیں ہو سکتی۔