پھر جلسۂ سالانہ کے سامان کے دن ہیں
جلسہ سالانہ یوکے کی آمد آمد ہے۔ مساجد اور جماعتی عمارتوں میں جلسے کی رونقیں دن بدن بڑھتی جارہی ہیں اور دور دیسوں سے آنے والے چہرے جماعتی منظر نامے پر محبتوں اور عقیدتوں کے رنگ بکھیر رہے ہیں۔
میرا سالہا سال کا تجربہ ہے کہ جلسہ سالانہ کے قریب آنے کے ہفتوں اور دنوں میں حضرت صاحب کے چہرۂ مبارک پر آپ کی دلی مسرت کھِلتی نظر آتی ہے۔
اس مرتبہ تو یہ خوشی میں نے مہینوں پہلے سے بارہا مشاہدہ کی۔ اس سال کتنے ہزار لوگوں کے شامل ہونے کی توقع ہے۔ کہاں کہاں سے آرہے ہیں۔ انتظامات میں کیا کچھ ردوبدل اور بہتری کی صورت ہے۔یہ اور ایسی بہت سی باتیں کرتے ہوئےمحبت کے کئی رنگ چہرۂ مبارک پر لہراتے ہوئے دیکھے۔ آخر اتنے سالوں کے بعد جلسہ، جلسے کی طرح جوہو رہا ہے۔ لاکھوں محبتوں کا امین، دور دراز سے آنے والے اپنے پیاروں کا منتظر محسوس ہوا۔
ایسی ہی ایک انمول گھڑی میں فرمایا: ’’تمہارے شعبے کا خیمہ لگ گیا ہے؟‘‘
عرض کی کہ آج کل میں لگنا تھا۔ کل جا کر دیکھوں گا۔ فرمایا: ’’آج تو سارا دن بارش ہوتی رہی۔ کل بھی کچھ بارش ہے۔ لیکن کام مسلسل چل رہا ہے۔ اگلے چند دن موسم ٹھیک ہے۔ دیکھتے ہیں جلسے کے دنوں میں موسم کیسا رہتا ہے۔‘‘
عرض کی کہ شکر ہےگرمی کا زور بھی کچھ ٹوٹ گیا ہے۔ فرمایا: ’’یہاں گرمی کا زور ٹوٹا ہے۔ ربوہ میں تو چالیس بیالیس چل رہا ہے۔ یہاں پر رہنے والے اوروں کا تو پتہ نہیں دیکھتے ہیں یا نہیں۔ میں تو ہمیشہ ربوہ کا موسم بھی دیکھتا ہوں۔ ‘‘
اس سے پہلے کہ آگے کچھ بھی عرض کروں۔ ربوہ اور پاکستان میں رہنے والے احمدیوں کو مبارکباد پیش کرنا ضروری سمجھتاہوں۔ جلسےمیں شمولیت انگلستان حاضری کی تو محتاج نہیں۔ جس کی محبت میں ہزاروں کھنچے چلے آتے ہیں، اس کے دل میں آباد رہنے والوں سے زیادہ خوش قسمت کون ہوگا؟
سو آگے چلنے سے پہلے پاکستان کے احمدیوں کو اپنی طرف سے اور دنیا بھر کے احمدیوں کی طرف سے مبارکباد کہ ان کا تو جلسہ ہوگیا۔ عید ہوگئی۔ تمہارا محبوب تمہیں کس محبت سے یاد رکھتا ہے۔ تمہارے شہر کے موسموں کو بھی۔ تمہارے ہر موسم کو، جو شدید سے شدید تر ہوتا جاتا ہے۔ کون کہتا ہے تمہاری قربانیاں رائیگاں گئیں؟ اللہ اکبر!
ایک روزشام کو حضورنے بذریعہ فون یاد فرمایا۔ ایک کام سپرد فرمایا تھا اس سے متعلق دریافت فرمایا۔ میرے خیال میں کام ہو چکا تھا اور میں اپنی طرف سے تسلی کر چکا تھا۔ مگر حضور نے ایک مقام کی نشاندہی فرمائی کہ وہاں پر وہ کام مکمل نہ ہوا تھا۔ اس پر جو نصیحت فرمائی وہ افادۂ عام کے لیے ضبطِ تحریر میں لانا ضروری سمجھتا ہوں۔
فرمایا: ’’جب اپنے ماتحتوں کو کام دو تو بعد میں اچھی طرح تسلی کیا کرو۔ کبھی اس خیال سے بیٹھ نہیں جانا چاہیے کہ میں نے کہہ دیا ہے اور ماتحت اسے کرنے کے پابند ہیں، اس لیے وہ کر ہی لیں گے۔ جب وہ کر لیں اور تمہیں بتادیں کہ کام ہوگیا ہے تو پھر تفصیل سے دیکھا کرو کہ ان کی رپورٹ درست ہے یا نہیں۔ ہوسکتا ہے انہیں مکمل لگ رہا ہو اور اپنی طرف سے وہ درست ہی کہہ رہے ہوں۔ مگر چونکہ ہدایت براہِ راست تمہیں ملی ہے، اس لیے تم ہی دیکھ سکتے ہو کہ ہدایت کے مطابق کام ہو گیا یا نہیں۔‘‘
یہ ہدایت ارشاد فرمانے کے بعد فرمایا: ’’کیا کررہے تھے؟‘‘
عرض کی کہ حضور دفتر میں تھا۔ فرمایا: ’’اچھا؟ میں تو سمجھا کہ موسم اچھا ہے، تم کہوگے کہ گھر میں پکوڑے کھا رہا تھا اور چائے پی رہا تھا!‘‘
عرض کی کہ حضور، ان دنوں تو جلسے کا زور چل رہا ہے۔ مزدور بنے ہوئے ہیں۔
فرمایا: یہاں رہنے والوں کو کیا پتہ مزدوری کیا ہوتی ہے۔ یہاں تو سہولتیں اور آسائشیں ہی بہت ہیں۔ مزدوریاں تو ربوہ کےجلسوں میں ہوتی تھیں۔ مجھے یاد ہے میری ڈیوٹی لنگر خانے میں روٹی پکوائی پر ہوتی تھی۔ہر طرف تنور بھڑک رہے ہوتے تھے۔ ہمارے ایک نگران تھے،وہ اکثر ہمیں کام پر لگا کر خود یہاں وہاں چلے جایا کرتے۔ ہم پیچھے رہ کر کام کرتےرہتے۔ مگر اس زمانے میں افسر بھی کارکنوں پر گہری نظر رکھا کرتے۔ جو محنت کرتا اس کے کام کو سراہتےتھے۔
’’ہر جلسے کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ جلسے کے اہلکاروں اور کارکنوں کے ساتھ ایک عشائیہ میں شرکت فرمایا کرتے۔ سب نیچے زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے۔ حضورؒ بھی۔
’’ایک مرتبہ جلسے کے بعد مجھے سردرد کی شکایت ہوگئی۔درد بہت شدید تھا اور میں گھر میں آرام کرنے کو لیٹا ہی تھا کہ گھر کا فون بجا۔ میرداؤد احمد صاحب تھے۔ وہ تب افسر جلسہ سالانہ تھے۔ مجھے پوچھا کہ کہاں ہو اور حضور کے ساتھ عشائیے کےلیے کیوں نہیں پہنچے؟
’’میں نے بتایا کہ مجھے شدید سردرد کی شکایت ہے۔ آرام کررہا تھا۔ اور میرے نگران نے مجھے وہاں حاضر ہونے کو کہا بھی نہیں تھا۔کہنے لگے کہ جو بھی ہے ابھی پہنچو۔ جلسے میں دن رات ڈیوٹی کرتے رہے ہو۔ اس تقریب میں تمہیں ضرور شامل ہونا چاہیے۔میں فوراً تیار ہو کر وہاں پہنچ گیا اور تقریب میں شامل ہوا۔
’’تو ایسے افسران بھی ہوا کرتے تھے۔ میر داؤد صاحب تو جلسہ سالانہ کے اعلانات کے نیچے اپنے نام کے ساتھ ’’افسر جلسہ سالانہ‘‘ لکھنے کی بجائے ’’خادم جلسہ سالانہ‘‘ لکھا کرتے۔
’’ افسر ایسا ہونا چاہیے جس کو اپنے ساتھیوں کے کام کی خبر بھی ہو اور قدر بھی۔اور افسر کی بجائے خود کو خادم سمجھ کر کام کرتاہو۔‘‘
جلسے ہی کی بات تھی کہ ایک ایسے افسر کا ذکر فرمایا جن کی طبیعت میں سختی کا عنصر حاوی تھا۔ میں نے نام بوجھنے کی کوشش کی۔ فرمایا:’’نام تو خیر نہیں بتاؤں گا۔ بزرگ آدمی تھے۔ ایک اور افسر کاواقعہ سنادیتا ہوں۔ میں نے کام سے رخصت لے رکھی تھی اور by airکہیں جانا تھا۔ جانا اندرونِ ملک ہی تھا۔ رخصت بھی منظور ہوچکی تھی اور میں نے ٹکٹ بھی خرید لی ہوئی تھی۔
آخری وقت پر وہ افسر کہنے لگے کہ کام بہت ہے،کہیں نہیں جانا۔ میں نے بتایا کہ میں نے بکنگ بھی کروالی ہوئی ہے۔ کہنے لگے کہ بس نہیں جانا۔ میں یہ سُن کر واپس آگیا اوراپنی رخصت کو منسوخ سمجھ کر اپنا کام کرنے لگا۔ خود ہی تھوڑی دیر بعد کچھ خیال آیا تو میر ے پاس آئے اور کہنے لگےکہ چلو بکنگ کروالی ہوئی ہے تو چلے جاؤ۔‘‘
اسی طرح ایک اور واقعہ بیان فرمایا کہ ’’ایک مرتبہ میں اپنا الاؤنس لینے گیا۔ اکاؤنٹنٹ کہنے لگا کہ آپ کو اس مہینے الاؤنس نہ دینے کا آرڈر ہے۔ میں نے پوچھا کہ یہ آرڈر کہاں سے آگیا؟ کہنے لگا کہ ’یہی حکم ہے!‘
’’میں وہاں سے خاموشی سے واپس آگیا اور اُن افسر کے پاس گیا اور پوچھا تو کہنے لگے کہ ہاں میں نے ہی منع کیا ہے۔ میں نے اُن سےکہا کہ سب خیر ہی ہے؟ کیا وجہ بن گئی؟
کہنے لگے کہ تم نے فلاں کام مکمل نہیں کیا۔ میں نے کہا کہ کام تو تقریباً مکمل ہے۔ یہ بھی بتا دیا کہ اِن اِن وجوہات کی وجہ سے مکمل نہیں ہوسکا۔لیکن ساتھ میں نے یہ بھی بتادیا کہ میں واقفِ زندگی ہوں، مطالبہ نہیں کروں گا۔
بہرحال، افسر بھی ہر طرح کے ہوتے ہیں۔ ماتحت بھی ہر قسم کے ہوتے ہیں۔ میں اپنے تجربات کی بنیاد پر توجہ دلاتا رہتا ہوں کہ افسر کو چاہیے کہ مطالبوں کی نوبت نہ آنے دے اور ماتحت کو چاہیے کہ وقف کی روح کو کبھی نہ بھولے۔اللہ تعالیٰ آپ ہی سب کام کردیتا ہے۔
ماتحتوں اور کارکنوں کو بھی توجہ دلاتا رہتا ہوں کہ وہ بھی اپنے وقف کے تقاضوں کو سمجھیں۔ اطاعت کا اعلیٰ نمونہ دکھائیں۔ کبھی کسی واقفِ زندگی کی طرف سے مطالبہ آتا ہے کہ یہ سہولت نہیں ہے، وہ سہولت نہیں ہے۔ تو مجھے حیرت ہوتی ہے۔ ہم توجہاں بھی رہے، کبھی اس طرف خیال بھی نہ گیا۔ بلکہ بعض اوقات تو بہت دقت کا سامنا ہوتا۔ مگر ذہن کبھی مطالبہ کرنے کی طرف نہ گیا۔‘‘
میں اس بات پر نادم ہوا کہ اتنی آسائشوں اور سہولتوں میں جو تھوڑا بہت کام کرلیتا ہوں، اس پر اپنے لیے مزدور کا’’لقب‘‘ استعمال کیا۔ مگر اس چُوک سے جو موتی مجھے اپنے دامن میں بھرنے اور قارئین تک پہنچانے کا موقع میسر آ گیا، یہ نہ آتا۔
مجھے امید ہے کہ میرے سب واقفِ زندگی بھائی مجھے اس بات کی اجازت دیں گے کہ میں اپنی طرف سے اور ان سب کی طرف سے حضور کی خدمت میں ان سطور کے ذریعے وہی عرض کروں جو مجھے بالمشافہ کہنے کا موقع ملا،کہ ’’حضور! ہم آپ پر قربان۔ ہمارے ماں باپ آپ پر قربان۔ آپ نے تو ہمیں بڑے لاڈمیں رکھا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم احسان فراموش نہ ہوں اور اپنی صلاحیتوں اور طاقتوں اور توانائیوں کا ہر ذرہ خدمتِ دین کے لیے وقف کردیں‘‘۔
آغاز میں ربوہ کا ذکر ہوا۔ آخر پر بھی پاکستان میں رہنے والے احمدی بھائیوں بہنوں اور بزرگوں کو ایک اور امانت پیش کرتا چلوں۔
جہاں موسمی پکوان کی بات ہوئی، وہاں فرمایا: ’’پکوڑوں کے ساتھ پُوڑے بھی بناکرتے تھے۔ پتہ ہے نا پُوڑا کیسے بنتا ہے؟‘‘
میری لاعلمی کے اظہار پر پُوڑا بنانے کا طریقہ بتایا، اور فرمایا: ’’تو ربوہ میں موسم اچھا ہوتا توپکوڑے بنتے۔ میٹھے میں پوڑے ہوتے۔ چائے ہوتی۔ اور ربوہ کے سادہ سے ماحول میں اچھے موسم کی یہی ہماری تفریح ہوتی۔‘‘
تو پاکستان کے احمدی بھائیو اور بہنو! تمہاری قربانیوں کو سلام۔ تم ہمارے لیے قابلِ رشک ہو کہ تمہارا محبوب آقا تمہارے شب و روز اور تمہارے موسموں کو یاد رکھتا ہے۔ مبارک صد مبارک!
مجھے ایک غریب الوطن محبوب کایہ شعر، اِس غریب الوطن محبوب کے لیے بے اختیار یاد آکر رہ گیا کہ
دیس بدیس لیے پھرتا ہوں، اپنے من میں اُس کی کتھائیں
میرے من میں آن بسی ہے، تن من دھن جس کے اندر تھا