کلام امام الزّماں علیہ الصلوٰۃ والسلام
ایک شاخ تالیف وتصنیف کا سلسلہ ہے جس کا اہتمام اس عاجز کے سپرد کیا گیا۔ اور وہ معارف ودقائق سکھلائے گئے جو انسان کی طاقت سے نہیں بلکہ صرف خدا تعالیٰ کی طاقت سے معلوم ہو سکتے ہیں… دوسری شاخ اس کار خانہ کی اشتہارات جاری کرنے کا سلسلہ ہے جو بحکم الٰہی اتمام حجت کی غرض سے جاری ہے۔
(فتح اسلام،روحانی خزائن جلد ۳صفحہ ۱۳،۱۲)
اس آخری زمانہ کے بارہ میں جس میں تمام قومیں ایک ہی مذہب پر جمع کی جائیں گی صرف ایک ہی نشان بیان نہیں فرمایا بلکہ قرآن شریف میں اور بھی کئی نشان لکھے ہیں… زمینی علوم بہت سے ظاہر ہو جائیں گے۔ اور ایک یہ کہ ایسے اسباب پیدا ہو جائیں گے جن کے ذریعہ سے کتابیں بکثرت ہو جائیں گی ( یہ چھاپنے کے آلات کی طرف اشارہ ہے) اور ایک یہ کہ ان دنوں میں ایک ایسی سواری پیدا ہو جائے گی کہ اونٹوں کو بیکار کر دے گی اور اس کے ذریعہ سے ملاقاتوں کے طریق سہل ہو جائیں گے۔ اور ایک یہ کہ دنیا کے باہمی تعلقات آسان ہو جائیں گے اور ایک دوسرے کو بآسانی خبریں پہنچا سکیں گے… یہ سب علامتیں اس زمانہ میں جس میں ہم ہیں پوری ہو گئیں۔
(لیکچر لاہور، روحانی خزائن جلد ۲۰صفحہ ۱۸۳۔۱۸۴)
اللہ فرماتا ہے اَلَمْ نَجْعَلْ لَّکَ سَھُوْلَۃً فِیْ کُلِّ اَمْرٍ یعنی کیا ہم نے ہر ایک امر میں تیرے لیے آسانی نہیں کر دی۔ یعنی کیا ہم نے تمام وہ سامان تیرے لیے میسر نہیں کر دیے جو تبلیغ اور اشاعت حق کے لیے ضروری تھے۔ جیسا کہ ظاہر ہے کہ اس نے میرے لیے وہ سامان تبلیغ اور اشاعتِ حق کے میسر کر دیے جو کسی نبی کے وقت میں موجود نہ تھے۔ تمام قوموں کی آمد و رفت کی راہیں کھولی گئیں …طے مسافرت کے لیے وہ آسانیاں کر دی گئیں کہ برسوں کی راہیں دنوں میں طے ہونے لگیں اور خبر رسانی کے وہ ذریعے پیدا ہوئے کہ ہزاروں کوس کی خبریں چند منٹوں میں آنے لگیں۔ ہر ایک قوم کی وہ کتابیں شائع ہوئیں جو مخفی اور مستور تھیں اور ہر ایک چیز کے بہم پہنچانے کے لئے ایک سبب پیدا کیا گیا۔کتابوں کے لکھنے میں جو دقتیں تھیںوہ چھاپہ خانوں سے دفع اور دور ہوگئیں۔ یہاں تک کہ ایسی ایسی مشینیں نکلی ہیں کہ ان کے ذریعہ سے دس دن میں کسی مضمون کو اس کثرت سے چھاپ سکتے ہیں کہ پہلے زمانوں میں دس سال میں بھی وہ مضمون قید تحریر میں نہیں آسکتا تھا۔
( براہین احمدیہ حصہ پنجم،روحانی خزائن جلد ۲۱،صفحہ ۱۱۹، ۱۲۰)
ہم کو الہام ہوا۔ اَلَمْ نَجْعَلْ لَّکَ سَھُوْلَۃً فِیْ کُلِّ اَمْرٍ کیا ہم نے تیرے ہر امر میں سہولت نہیں کر دی۔ حقیقت میں یہ اشیاء کسی کے لیے ایسی مفید نہیں ہوئیں جیسی کہ ہمارے واسطے ہوئی ہیں۔ ہمارا مقابلہ دین کاہے اور ان اشیاء سے جو نفع ہم اٹھاتے ہیں وہ دائمی رہنے والا ہے۔ لوگ بھی چھاپےخانوں سے فائدے اٹھاتے ہیں لیکن ان کے اغراض دنیوی اور ناپائیدار ہیں۔ برخلاف اس کے ہمارے معاملات دینی ہیں۔ اس واسطے یہ چھاپے خانے جو اس زمانے کے عجائبات ہیں دراصل ہمارے ہی خادم ہیں۔
(ملفوظات جلد ۷صفحہ ۳۶۶، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)