الفضل کے لیے خلفائے سلسلہ کی محبت اور راہنمائی
الفضل کا علمی معیار،اشاعت،وسعت بڑھانے اور نافع بنانے کی کوششیں
الحمدللہ کہ الفضل آج اپنی زندگی کا ۱۱۰ واں سال مکمل کرچکا ہے۔ وہ نازک سا پودا جس کی بنیاد صرف دعاؤں پر تھی اور جس کی پہلی خوراک چند بزرگ ہستیوں کی بے لوث مالی قربانی تھی۔ وہ آج ساری دنیا میں پھل پھول رہا ہے۔ باوجود ہزاروں حاسد آنکھوں کے اور تُند وتیز آندھیوں کے اس کا چراغ جلتا ہی رہا اور بیسیوں پابندیوں کے باوجود اس کی تحریریں اپنے وطن میں ہی نہیں بلکہ الیکٹرانک لہروں پر سفر کرتے ہوئے کل عالم میں پھیل رہی ہیں۔ پہلےاس کا ہفتہ وار ایڈیشن پھرروزنامہ آن لائن اور اب روزنامہ کے طور پرلندن سے شائع ہوتا ہے اور دنیا بھر میں جماعت احمدیہ کے رسائل جو سینکڑوں مقامی زبانوں میں ہیں وہ بھی الفضل کی شاخوں پر کھلنے والے نئے نئے پھول ہیں۔یہ سب خلافت احمدیہ کی الفضل سے محبت اور راہنمائی کا نتیجہ ہے۔
کہانی تو الحکم اور البدر سے شروع ہوتی ہے۔ جو نہایت نامساعد حالات میں جاری ہوئے اور اہم ترین فرائض سرانجام دیے۔ الفضل انہی کا تسلسل ہے۔ جسے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ (مصلح موعودؓ ) نے ۱۸؍جون ۱۹۱۳ء کو جاری فرمایا اور پھر اسے جماعت کے حوالے کر دیا۔ اس کے اندر وقف کی ایسی روح پھونکی کہ وہ خلافت احمدیہ کی آواز بن گیا۔ ایسی روحانی نہر بن گیا جو احمدیہ ٹیلی ویژن کے قیام سے قبل بلاشرکت غیرے آب حیات لے کر پیاسوں تک پہنچتا رہا۔ یہ ایسا ساز اور ایسی قرنا تھی جس کی لَے پر جماعت احمدیہ توحید کے نغمے الاپتی رہی، قربانیاں پیش کرتی رہی اور خدا کی راہ میں دل جھکائے مگر سر اٹھائے آگے بڑھتی رہی۔
خلفائے سلسلہ کے ذریعہ آسمان سے بہت دودھ اترا جسے الفضل نے محفوظ کیا اور کر رہا ہے، کونسا علم ہے جو اس میں رچابسا نہیں۔ صداقت حق کی کونسی دلیل ہے، عظمت قرآن کا کونسا گوشہ ہے جو اس سے باہر رہا ہے، تاریخ احمدیت اور اشاعت احمدیت کا کونسا پہلو ہے جو اس سے مخفی ہے، شہادتوں اور اذیتوں کی کونسی یاد ہے جو اس سے محو ہے اور حق و باطل کا کونسا معرکہ ہے جس کی اسے خبر نہیں۔
یہ خوشیوں کا گلستاں ہے غم کی خبروں کا پاسبان ہے۔ جماعت احمدیہ کی عظمت کردار کی داستان ہے۔ اس کے ذریعہ ساری کمیونٹی ایک خاندان ہے۔ اسی لیے تو احمدی اس پر قربان ہے اور دشمن پریشان ہے۔ اس سے ہماری روح کی جلا اور دل کا اطمینان ہے۔ خدا کا خلیفہ اس کا باغبان اور خدا خود ہی اس کا نگہبان ہے۔ اس لیے اس کا زندہ اور جاری رہنا بھی ایک نشان ہے۔
پس سب سے بڑھ کر ہمارے پیارے امام حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ ا لعزیز کو مبارک ہوجن کے دور پُر انوار میں خلافت کے اس فدائی نے پہلے ۱۰۰ سال مکمل کیےاور اب ۱۱۱ ویں سال میں قدم رکھا ہے۔ جن کی والدہ کے زیور الفضل کی رگوں میں اترنے والی پہلی غذاتھی۔ جن کی دعائیں ہمیشہ اس کے شامل حال رہتی ہیں۔ جن کی راہنمائی اس کے لیے سعادت اور برکت کا موجب ہے۔ جن کے الفاظ ہر کٹھن موقعہ پر اس کی ڈھارس بندھاتے اور حوصلہ بڑھاتے ہیں جن کے خطبات، تقاریر، پیغامات اور دوروں کی ایمان افروز رپورٹس اس کی زینت ہیں۔
خلافت اولیٰ میں آغاز
حضرت مصلح موعودؓ نے اللہ تعالیٰ کے خاص تصرف سے سلسلہ احمدیہ کو مضبوط کرنے کے لیے جو روحانی نہریں چلائیں۔ ان میں سے ایک الفضل بھی ہے جس کی بنیاد اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعودؓ سے خلافت اولیٰ میں رکھوائی تاکہ حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کی دعائیں اور برکات بھی اس کے شامل حال رہیں۔حضرت مصلح موعودؓ نے اجازت حاصل کی کہ قادیان سے ایک نیا اخبار نکالا جائے جس میں علاوہ مذہبی امور کے دنیاوی معاملات پر بھی مضامین لکھے جاویں تاکہ ہماری جماعت کے لوگ سلسلہ کے اخبارات سے ہی اپنی سب علمی ضروریات کو پورا کر سکیں۔ پھر حضور کواطلاع ملی کہ کچھ احباب لاہور سے ایک اخبار نکالنے لگے ہیں تو آپ نے حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کی خدمت میں لکھا کہ میرے اخبار کی تجویز رہنے دی جاوے۔ اس کے جواب میں حضرت خلیفة المسیحؓ نے تحریر فرمایا کہ اس اخبار اور اس اخبار کی اغراض میں فرق ہے۔ آپ اس کے متعلق اپنی کوشش جاری رکھیں۔ (آئینہ صداقت، انوارالعلوم جلد۶ صفحہ۲۱۴)اخبار کے اجرا سے قبل آپ نے استخارہ کیا اور حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کی خدمت میں اجازت کے لیے عرض کیا تو آپ نے فرمایا: ’’جس قدر اخبار میں دلچسپی بڑھے گی خریدار خود بخود پیدا ہوں گے۔ ہاں تائید الٰہی، حسن نیت، اخلاص اور ثواب کی ضرورت ہے۔ زمیندار، ہندوستان، پیسہ میں اور کیا اعجاز ہے وہاں تو صرف دلچسپی ہے اور یہاں دعا نصرت الٰہیہ کی امید بلکہ یقین توکلا ًعلی اللہ کام شروع کردیں‘‘۔
الفضل کا نام بھی حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے عطا فرمایا آپ نے فرمایا: مجھے رؤیا میں بتایا گیا ہے کہ الفضل نام رکھو۔ (الفضل ۱۹؍نومبر ۱۹۱۴ء صفحہ۳) چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اس مبارک انسان کا رکھا ہوا نام ’’الفضل‘‘ فضل ہی ثابت ہوا۔ (یادایام،انوارالعلوم جلد۸صفحہ۳۷۱)
حضرت خلیفہ اولؓ کی راہنمائی
الفضل کے پہلے پرچہ میں حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کا تازہ خطبہ جمعہ ۱۳؍جون ۱۹۱۳ء درج کیا گیا اور حضور کی راہنمائی اور دعائیں ہمیشہ اخبار کو میسر رہیں۔ حضرت خلیفہ اولؓ نے جب پہلا پرچہ پڑھا تو آپ نے فرمایا ’’پیغام صلح‘‘ بھی میں نے پڑھا ہے اور الفضل بھی مگر میاں شَتَّانِ بَیْنَھُمَا یعنی کجا وہ کجا یہ۔
حضرت خلیفة المسیح الاولؓ الفضل بڑی دلچسپی سے ملاحظہ فرماتے تھے اور ضروری ہدایات دیتے تھے۔ چنانچہ الفضل میں قادیان کی خبروں کے تحت لکھا ہے:’’حضور اخبار الفضل کو بڑے شوق سے مطالعہ فرماتے ہیں‘‘۔ (الفضل ۸؍اکتوبر ۱۹۱۳ء) حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے الفضل کے پہلے شمارہ میں ایک خاص مضمون ’’اسلامی اخبارات کے لئے دستورالعمل‘‘ بھی تحریر فرمایا۔ حضور کی جو راہنمائی الفضل کو میسر تھی اس کے متعلق ادارہ الفضل لکھتا ہے:’’ان (قادیان سے نکلنے والے اخبارات) سے اگر کوئی غلطی سرزد ہوتی ہے تو خلیفة المسیح فوراً اس پر نوٹس لیتے ہیں۔ کیونکہ ہر ایک اخبار آپ کی خدمت اقدس میں پیش کیا جاتا ہے۔ الفضل کا اجرا اس غرض سے بھی ہوا تھا کہ جب کوئی امر من الخوف والامن پیش آئے تو خلیفة المسیح کی زبان بن کر گائیڈ کرنے کے لئے ایک اخبار ضروری چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے جب کوئی مضمون لکھا جس میں جماعت کو کسی خاص روش پر چلنے کی تاکید ہو تو خلیفة المسیح کو دکھا کر اور ان سے تصدیق لکھوا کر شائع کیا۔ (الفضل۳؍ستمبر۱۹۱۳ء صفحہ۹) اس ضمن میں ایک احمدی کا خواب بھی بہت ایمان افروز ہے۔ مولوی میر اسحق علی صاحب احمدی سررشتہ دار عدالت گدوال (حیدر آباد دکن) تحریر فرماتے ہیں کہ میں حضرت خلیفہ اول کی صحت وعافیت اور احمدی بیماروں کی شفایابی کے لیے دعا کرکے سویا تھا خواب میں حضرت خلیفہ اول نے الفضل خریدنے کی تاکیدی ہدایت فرمائی اور روپے خود اپنی جیب سے نکال کر دیے۔ (الفضل ۲۳؍دسمبر ۱۹۱۵ء صفحہ۲)
خلافت ثانیہ میں ترقی کا سفر
حضرت مصلح موعودؓ ۱۹۱۴ءمیں خلیفہ بن گئے تو الفضل آپ کی انگلی پکڑ کر چلتا رہا اس نے حضرت مصلح موعودؓ کی راہنمائی میں کامیابیوں کے بے پناہ سفر طےکیے اس کی زندگی کے ہر شعبہ پر حضور کی گہری چھاپ ہےاخبار کا علمی معیار،اس کا دورانیہ،اس کی طباعت و اشاعت،اس کی ترسیل،اس کی خریداری،اس کے مالی امور،اس کی راہ میں مشکلات،ہر مرحلہ پر حضور کی دعائیں اور نگرانی اس کو حاصل رہی۔ آئیے ان مختلف مراحل پر نظر ڈالتے ہیں۔
حضرت مصلح موعودؓ کی مالی اعانت
الفضل کسی تجارتی مقصد کے لیے جاری نہیں کیا گیا۔ اس کا مقصد خالص خدمت دین اور اشاعت اسلام تھا۔ اس لیے احباب سے خریداری میں کم سے کم رقم وصول کی جاتی رہی اور پرچے معمول سے زیادہ شائع کیے جاتے رہے اس لیے اخبار مدتوں زیرِ بار رہا اور سیدنا حضرت مصلح موعودؓ اپنے پاس سے رقم عطا فرما کر نقصان پورا کرتے رہے۔ ایڈیٹر صاحب الفضل لکھتے ہیں:’’جب حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے الفضل جاری کیا تو علاوہ اس ذاتی محنت اور مشقت کے جو حضور خود اخبار کے لئے کرتے رہے۔ ایک رقم خطیر اس پر صرف فرمائی اور جب خداتعالیٰ نے منصب خلافت پر ممتاز فرماکر جماعت کی ہر طرح کی حفاظت اور نگہبانی تعلیم و تربیت اور دیگر بیشمار فرائض آپ کے سپرد کیے۔ تو بھی حضورکو الفضل کا خاص خیال رہا اور جیب خاص سے اس کے اخراجات مرحمت فرماتے رہے۔ پہلے سال کے خاتمہ پر جب آمد و خرچ کا مقابلہ کیا گیا۔ تو معلوم ہوا کہ قریباًچار ہزار روپیہ حضور کو اپنی گرہ سے دینا پڑا۔ اس کے بعد بھی حضور ذاتی مصارف سے الفضل کے اخراجات پورے فرماتے رہے۔ ایک دفعہ کے متعلق مجھے یاد ہے کہ جب روپیہ کی کمی کی وجہ سے کام رکنے لگا تو حضور نے ایک نہایت عمدہ موقع کا قطعہ زمین فروخت کرکے روپیہ اخبار پر صرف کرنے کا ارشاد فرمایا اور چونکہ تنگی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ اس لئے اعلان اس طرح کیا گیا کہ جو صاحب بذریعہ تار روپیہ بھیجیں گے۔ انہیں وہ زمین دی جائے گی۔ اس طرح وہ قطعہ فروخت کرکے اخراجات چلائے گئے۔ یہ صرف ایک واقعہ عرض کیا گیا ہے۔ ورنہ بیسیوں دفعہ حضور نے اخبار کے لئے تکلیف اٹھائی۔ان حالات میں سے گزر کر جب اخبار خدا کے فضل سے اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا اور اپنے اخراجات خود برداشت کرنے کے قابل ہو گیا تو حضور نے اخبار مع کئی ہزارکے سازوسامان کے سلسلہ کے لئے وقف فرما دیا اور اس کی آمدنی سلسلہ کے سپرد کردی۔‘‘ (الفضل ۱۱؍جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ۳)
خدمت کے لیے وقف اخبار
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے ذاتی روپیہ سے اخبار جاری کیا اور پھر ۱۹۱۷ء میں اسے جماعت کی خدمت کے لیے وقف کر دیا اور یہی اس کی لمبی زندگی کی علامت بن گیا۔ وقف کی تفصیل اس طرح ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ نے تقریر جلسہ سالانہ ۲۷؍دسمبر ۱۹۱۷ء میں علم حاصل کرنے کے سات طریق بیان کیے۔
۱۔مرکز سلسلہ قادیان میں بار بار آنا اور حضور سے علم سیکھنا۔ ۲۔دوسرے مقامات پر درس قرآن میں شرکت۳۔اسباق القرآن (تحریری مواد جو ڈاک کے ذریعے ملے گا)۔ ۴۔جتنا علم آتا ہے دوسروں کو سکھایا جائے۵۔کتب حضرت مسیح موعودؑ کا مطالعہ۔ ۶۔اخبارات اور رسائل سلسلہ کا مطالعہ۔
چھٹے طریق کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے حضورؓ نے فرمایا: میں نے اخبارات اور رسالے خریدنے کی طرف توجہ نہیں دلائی کیونکہ ایک اخبار سے مجھے بھی تعلق ہے اس کے لئے میں نے سوچا کہ اس اخبار کو کسی اور کے سپرد کردوں اور موجودہ تعلق کو ہٹا کر تحریک کروں مگر اس وجہ سے کہ ابھی تک وہ اخبار گزشتہ گھاٹے میں ہے کسی کے سپرد نہیں کرسکا۔ اب ایک اور طریق خیال میں آیا ہے اور وہ یہ کہ اس اخبار کو وقف کردوں، اس کے سرمایہ میں ایک اور صاحب کا بھی روپیہ ہے لیکن ان کی طرف سے بھی مجھے یقین ہے کہ وہ بھی اپنا روپیہ چھوڑ دیں گے۔ پس میں آج سے اس اخبار کو بلحاظ اس کے مالی نفع کے وقف کرتا ہوں۔ ہاں اگر خدانخواستہ نقصان ہوا تو اس کے پورا کرنے کی میں انشاء اللہ کوشش کروں گا۔ ہم اس کی کمی کے پورا کرنے کی تو کوشش کریں گے لیکن جو نفع ہوگا اسے نہ میں لوں گا اور نہ وہ۔ بلکہ اشاعت اسلام میں خرچ کیا جائے گا۔(اس تقریر کے بعد گورداسپور جا کر میں نے باقاعدہ طور پر ’’الفضل‘‘ کو انجمن ترقی اسلام کی ملکیت میں دیے جانے کی درخواست دے دی اور اب وہ انجمن ترقی اسلام کی ملکیت میں ہے۔ خاکسار مرزا محمود احمد)
’’اس اعلان کے بعد چونکہ مالی منافع کے لحاظ سے کسی اخبار کے ساتھ میرا تعلق نہیں رہا اس لئے اب میں تحریک کرتا ہوں کہ ہمارے دوست اخبارات کو خریدیں اور ان سے فائدہ اٹھائیں۔ اس زمانہ میں اخبارات قوموں کی زندگی کی علامت ہیں کیونکہ ان کے بغیر ان میں زندگی کی روح نہیں پھونکی جاسکتی‘‘ (انوارالعلوم جلد۴ صفحہ۱۴۲،۱۴۱)حضورؓنے فرمایا: ’’الفضل میرے ذاتی روپے سے جاری ہوا اور ۱۹۲۰ء تک میں نے اس کو چلاکے اس کی خریداری بڑھائی۔ جب چل گیا اور ایک بڑا اخبار بن گیا تو میں نے مفت بغیر معاوضہ کے وہ انجمن کو تحفہ دے دیا۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد۱۹ صفحہ۶۸)
ہفتہ وار سے روزنامہ تک
الفضل ہفتہ وار تھا مگر خلافت کی محبت میں احباب جماعت کی روزانہ الفضل کی خواہش ۱۹۲۰ء تک شدت اختیار کرچکی تھی۔ چنانچہ ۱۲؍جولائی ۱۹۲۰ء کے الفضل میں اداریہ میں حافظ عبدالعزیز صاحب صدر جماعت سیالکوٹ کا خط شائع ہوا ہے جس میں الفضل کو روزانہ کرنے کی تحریک کی گئی ہے۔
۱۹؍مارچ ۱۹۳۱ء کو حضورؓ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ مدیران انقلاب مولانا غلام رسول صاحب مہر اور مولانا عبدالمجید صاحب سالک نے اخبار الفضل کے کام کی تعریف کی اور کہا۔ اس میں حالات حاضرہ اور مسلمانوں کی ضروریات کے مطابق بروقت اورموزوں مضامین شائع ہوتے ہیں اور کوئی امر جس پر لکھنے کی ضرورت ہو رہ نہیں جاتا… پھر الفضل کو روزانہ کیوں نہیں کر دیا جاتا۔ جب انہیں یہ بتایا گیا کہ ضروری سامان اور اسباب میسر نہ ہونے کی وجہ سے قادیان سے روزانہ اخبار چل نہیں سکتا تو انہوں نے کہا اسے پھر لاہور لے آنا چاہئے۔ کہا گیا قادیان میں جو کام الفضل کررہا ہے۔ وہ حضرت خلیفة المسیح الثانی کی ہدایات کے ماتحت ہے۔ لاہور میں یہ راہنمائی حاصل نہیں ہوسکتی۔ حضور نے یہ ساری گفتگو سن کر فرمایا۔ الفضل تو ہمارامذہبی اخبار ہے۔ مجبوراً اس سے سیاسی کام لیا جاتا ہے۔ اسے کسی صورت میں بھی مرکز سے باہر نہیں لے جایا جاسکتا۔ (الفضل ۳۱؍مارچ ۱۹۳۱ء)
۲۶؍جنوری ۱۹۳۵ء کو جماعت احمدیہ چھاؤنی لاہور کے غیرمعمولی اجلاس میں یہ قرارداد پاس کی گئی کہ حضور کی خدمت میں الفضل کو روزنامہ بنانے کی درخواست کی جائے۔ (الفضل ۳؍فروری ۱۹۳۵ء) اس کے بعد دیگر جماعتوں نے بھی حضور کی خدمت میں بار بار درخواستیں کیں۔
۵؍فروری ۱۹۳۵ء کے الفضل کی رپورٹ ہے کہ احباب جماعت کی کثرت سے درخواستوں پر حضور نے فیصلہ فرمایا ہے کہ الفضل کو فی الحال چھ ماہ کے لیے روزانہ کر دیا جائے چنانچہ ۸؍مارچ ۱۹۳۵ء وہ مبارک دن تھاجب الفضل روزنامہ ہو گیا اور چھ ماہ کی بجائے ہمیشہ کے لیے ہو گیا۔ یہ احباب کے لیے انتہائی خوشی کا موجب تھا۔ حضور نے اس موقع پر خاص پیغام بھی عنایت فرمایا۔ حضرت اقدس کے ذہن میں الفضل کی اشاعت بڑھانے، الفضل کو جلد از جلد جماعت تک پہنچانے اور اس میںمذہبی علوم کے علاوہ عام سیاسی و دنیاوی خبریں اور معلومات شائع کرنے کاجو وسیع نقشہ تھا اس کو حضور نے متعدد بار بیان فرمایا اس کا ایک نمونہ حضور کے اس ارشاد سے لگایا جاسکتا ہے جو حضور نے الفضل کے روزنامہ ہونے پر ارشاد فرمایا۔ ۲۰؍اپریل۱۹۳۵ء کو مجلس مشاورت میں فرمایا:’’الفضل دوستوں کی تحریک سے روزانہ کر دیا گیا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ ہر جگہ اس کے ایجنٹ ہوں۔میں نے بارہا اس طرف توجہ دلائی ہے کہ ہماری جماعت کے لکھے پڑھے مگر بیکار لوگ ہر طرف توجہ کریں۔ ہوشیار اور محنتی آدمی کافی آمدنی پیدا کرسکتا ہے۔ اپنے سلسلہ کے اخبارات جن میں سے ایک روزانہ ہے اور دو ہفتہ وار، کے علاوہ دوسرے اخبارات میں سے بھی وہ لئے جاسکتے ہیں جو ہمارے ساتھ تعاون کرتے ہیں اور یہ کام قصبات اور شہروں میں چل سکتا ہے۔ کم از کم دو اڑھائی سو شہر ایسے ہیں جہاں یہ کام کیا جاسکتا ہے۔ اگر ان شہروں میں کام کرنے والوں کو ماہوار دس پانچ روپے ہی آمدنی ہو تو بیکار رہنے سے بہت اچھا ہے۔ پھر ایجنٹوں کے ذریعہ اخبار جلد بھی پہنچ سکتا ہے جیسا کہ الفضل والوں نے اعلان کیا ہے۔ ایجنٹوں کو صبح کی گاڑی سے اخبار بھیجا جائے گا اور اس طرح آج کا پرچہ آج ہی جہاں جہاں ایجنسی ہو گی پہنچ جائے گا۔اسی طرح الفضل والے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ یہاں کے ڈاک خانہ کا تار کا وقت بڑھ جائے۔ تو خبررساں ایجنسیوں کی تاریں لینے کا انتظام کیا جائے۔ اس کے بعد موٹرسائیکل یا سائیکلوں کے ذریعہ امرتسر، لاہور اور دوسرے شہروں میں صبح ہی صبح اخبار پہنچا دیا جائے۔ یہ کام اس وقت تک شروع نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ تاریں وقت پر نہ ملیں۔ خبررساں ایجنسیوں کی تاریں رات کو آتی ہیں مگر یہاں تار گھر رات کو بند ہوتا ہے۔ کوشش کی جارہی ہے کہ تاریں حاصل ہونے کا انتظام ہوجائے۔ جب یہ صورت ہو گئی تو صبح ہی الفضل دو دو سو میل تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔ اب بھی صبح کی گاڑی سے روانہ ہو جایا کرے گا مگر یہ سارے انتظامات اسی وقت کیے جاسکتے ہیں جبکہ الفضل کے خریدار بڑھائے جائیں اور اس کی اشاعت کے لئے خاص کوشش کی جائے۔‘‘ (خطابات شوریٰ جلد اول صفحہ۶۲۵) اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ حضور کس باریک بینی سے اشاعت کے معاملات پر نظر رکھتے تھے۔ ۲۷؍دسمبر ۱۹۵۱ء کو فرمایا:’’سالہا سال سے اس کی اشاعت ۲۰ اور ۲۵سو کے درمیان ہی گھوم رہی ہے۔ حالانکہ جماعت پھیل رہی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ روزانہ اخبارہونے کی وجہ سے اس کا چندہ زیادہ ہے۔ مگر کمزور جماعتیں مل کر خرید سکتی ہیں۔ اسی طرح اگر افراد بھی اکیلے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ تو دو دو تین تین چار چار مل کر خرید سکتے ہیں۔ پس میں احباب کو تحریک کرتا ہوں کہ الفضل کی اشاعت کو بڑھانے اور ترقی دینے کی کوشش کرو۔‘‘ (الفضل ۳۱؍دسمبر ۱۹۵۲ء صفحہ۳)پھر فرمایا:’’اخبار قوم کی زندگی کی علامت ہوتا ہے۔ جو قوم زندہ رہنا چاہتی ہے اسے اخبار کو زندہ رکھنا چاہئے اور اپنے اخبار کے مطالعہ کی عادت ڈالنی چاہئے۔‘‘ (روزنامہ الفضل ۳۱؍دسمبر ۱۹۵۴ء)ایک اور موقعہ پر آپؓ نے فرمایا:’’آج لوگوں کے نزدیک الفضل کوئی قیمتی چیز نہیں مگر وہ دن آرہے ہیں اور وہ زمانہ آنے والا ہے جب الفضل کی ایک جلد کی قیمت کئی ہزار روپیہ ہوگی لیکن کوتہ بین نگاہوں سے یہ بات ابھی پوشیدہ ہے‘‘۔ (الفضل ۲۸؍مارچ ۱۹۴۶ء)حضرت مصلح موعودؓ نے الفضل کے مطالعہ اور اس کی قدر وقیمت کا متعدد بار ذکرکیا۔ فرماتے ہیں:’’ایک طبقہ ایسے لوگوں کا بھی ہے جو اپنے آپ کو ارسطو اور افلاطون کا بھائی سمجھتے ہیں انہیں توفیق بھی ہوتی ہے اور اخبار کی خریداری کی استطاعت بھی رکھتے ہیں مگر جب کہا جاتا ہے کہ آپ الفضل کیوں نہیں خریدتے تو کہہ دیتے ہیں اس میں کوئی ایسے مضامین نہیں ہوتے جو پڑھنے کے قابل ہوں۔ ان کے نزدیک دوسرے اخبارات میں ایسے مضامین ہوتے ہیں جو پڑھے جانے کے قابل ہوں۔مگر خداتعالیٰ کی باتیں ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتیں کہ وہ انہیں سنیں اور ان کے پڑھنے کے لئے اخبار خریدیں ایسے لوگ یقیناً وہمی ہوتے ہیں اور ان میں قوت موازنہ نہیں پائی جاتی۔میرے سامنے جب کوئی کہتا ہے کہ الفضل میں کوئی ایسی بات نہیں ہوتی جس کی وجہ سے اسے پڑھا جائے تومیں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ مجھے تو اس میں کئی باتیںنظر آجاتی ہیں۔آپ کا علم چونکہ مجھ سے زیادہ وسیع ہے اس لئے ممکن ہے کہ آپ کو اس میں کوئی ایسی بات نہ نظر آتی ہو۔ ‘‘(تقریر فرمودہ ۲۷؍دسمبر ۱۹۳۹ء بمقام قادیان۔ الفضل یکم مئی ۱۹۶۲ء صفحہ۳)
سیدنا حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اجتماع انصاراللہ یوکے سے خطاب کرتے ہوئے ۴؍اکتوبر۲۰۰۹ء کو فرمایا:’’حضرت مصلح موعود نے ایک مرتبہ فرمایا کہ الفضل جماعت کا اخبار ہے۔لوگ وہ نہیں پڑھتے اور کہتے ہیں کہ اس میں کون سی نئی چیز ہوتی ہے،وہی پرانی باتیں ہوتی ہیں۔حضرت مصلح موعودؓ جن کے بارے میں خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو بتایا تھا کہ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا،وہ فرماتے ہیں کہ شائد ایسے پڑھے لکھوں کو یا جو اپنے زعم میں پڑھا لکھا سمجھتے ہیں کوئی نئی بات الفضل میں نظر نہ آتی ہو اور وہ شائد مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہوں لیکن مجھے تو الفضل میں کوئی نہ کوئی نئی بات ہمیشہ نظر آجایا کرتی ہے۔(مصری صاحب کے خلافت سے انحراف کے متعلق تقریر،انوارالعلوم جلد۱۴صفحہ۵۴۶,۵۴۵)تو جس کو علم حاصل کرنے کا شوق ہو وہ تو پڑھتا رہتا ہے اور بغیر کسی تکبر کے جہاں سے ملے پڑھتا رہتا ہے۔جو علم رکھتے ہیں انہیں اپنا علم مزید بڑھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔‘‘(روزنامہ الفضل۲۸؍جنوری۲۰۱۰ء)
نصرت الٰہی کی مثال
الفضل کے ساتھ خداتعالیٰ کی جو نصرت اور خلافت کی دعائیں ہیں اس کے لیے صرف ایک مثال پیش کی جاتی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’۱۹۱۳ء میں جب میں نے الفضل نکالا تو سید انعام اللہ شاہ صاحب گھبرائے ہوئے میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ نے مسجد کانپور کے متعلق مضمون لکھ دیا ہے۔ مولوی ظفر علی کہتا ہے کہ میں قلم کی ایک جنبش سے احمدیت کو تباہ کر دوں گا۔میں نے جواب دیا احمدیت تو خدا کی چیز ہے اسے کون تباہ کرسکتا ہے اس واقعہ کو پندرہ دن ہی گزرے تھے کہ ظفر علی کا پریس گورنمنٹ نے ضبط کرلیا۔ اس نے پھر ہمارے خلاف لکھنے کی کوشش کی مگر دوبارہ ضبط کرلیا گیا۔‘‘(خطبات محمود ۱۹۳۱ء جلد۱۳ صفحہ ۲۷۷ نیز الفضل ۹؍اگست ۱۹۳۴ء صفحہ۷)
ڈاکخانہ کا عدم تعاون
الفضل کو مقامی ڈاکخانہ کی طرف سے متعدد اوقات میں مشکلات کا سامنا رہا۔ خصوصاً ڈاکخانہ کے عملہ نے کئی دفعہ جماعت کے دفاتر کو دق کیا جس میں الفضل بھی شامل تھا۔ سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے ۲۷؍مارچ ۱۹۳۶ء کے خطبہ جمعہ میں جماعت کے خلاف کی جانے والی سازشوں اور شرارتوں کے ذکر میں فرمایا:’’چوتھا امر ڈاکخانہ کا رویہ ہے یہ بھی قریب کے عرصہ سے جاری ہے۔‘‘اس کے بعد حضور نے اپنی ڈاک کے لیٹ ہونے کے تذکرہ کے بعد فرمایا: ’’اسی طرح الفضل کو دق کیا جارہا ہے اور متواتر اس کے پرچے لیٹ کیے جاتے ہیں یا بعض دفعہ پرچے خریداروں کو پہنچتے ہی نہیں۔ اسی طرح جوابی کارڈ غلط مہریں لگا کر بعض دفعہ خط لکھنے والوں کو واپس کر دیے جاتے ہیں۔ یہ کارروائیاں ہورہی ہیں اور ان کی طرف متواتر افسروں کومتوجہ کیا جاتا ہے مگر اب تک کوئی توجہ نہیں کی گئی۔‘‘ (الفضل ۴؍اپریل ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۱)
قادیان سے لاہور منتقلی
۱۹۴۷ء میں فسادات اور نامساعد حالات کے باوجود الفضل بڑی شان سے نکلتا رہاجب حضرت مصلح موعودؓ نے لاہور میں مرکز قائم کیا تو فوری طور پر الفضل کے پاکستان سے باقاعدہ اجرا کی کوششیں شروع کر دیں جو دو ہفتوں کے اندر نتیجہ خیز ثابت ہوئیں اور حکومت نے روزنامہ الفضل کی منظوری دے دی اور ۱۵؍ستمبر ۱۹۴۷ء سے اسے جاری کر دیا گیا۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس دوران الفضل قادیان سے مسلسل شائع ہورہا تھا اور ۱۷؍ستمبر ۱۹۴۷ء کو اس کا آخری پرچہ قادیان سے شائع ہوا تھا۔ اس طرح ۳ دن ایسے تھے جب الفضل پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں سے شائع ہورہا تھا۔
۱۹۴۷ء میں ’’الفضل‘‘ کے ابتدائی پاکستانی دور کی ایک بھاری خصوصیت یہ تھی کہ اس زمانہ میں خود حضرت المصلح الموعود اپنی گوناگوں اور بیشمار مصروفیات کے باوجود ’’الفضل‘‘ کے لیے پورے التزام کے ساتھ نہایت درجہ معلومات افزا مضامین تحریر فرماتے۔ جو (حضور کا نام لکھے بغیر)ادارہ کی طرف سے شائع کیے جاتے تھے۔ حضور کی اس خصوصی توجہ اور غیرمعمولی راہنمائی کی بدولت یہ نیا جاری شدہ اخبار جلد ہی پاکستان کے معیاری روزناموں میں اپنا خاص مقام پیدا کرنے کے قابل ہو گیا۔
ذیل میں حضورؓ کے لکھے ہوئے ان بلند پایہ رشحات قلم کی فہرست دی جاتی ہے جو بطور اداریہ سپرد اشاعت کیے گئے اور جن میں اسلامی دنیا خصوصاً پاکستان کے اہم مسائل پر سیر حاصل روشنی ڈالی گئی تھی۔ یہ فہرست محترم مولانا دوست محمدصاحب شاہد نے مرتب کی ہے۔
۱۔پاکستان اورہندوستان کے تعلقات ۲۰؍ستمبر۱۹۴۷ء
۲۔برطانیہ اور مسلمان۲۰؍ستمبر ۱۹۴۷ء
۳۔گوالیار کے مسلمان خطرے میں ۲۰؍ستمبر ۱۹۴۷ء
۴۔ قومیں اخلاق سے بنتی ہیں ۲ ؍اکتوبر ۱۹۴۷ء
۵۔ مشرقی اور مغربی پنجاب کا تبادلہ آبادی۳ اکتوبر ۱۹۴۷ء
۶۔ پاکستان کی سیاست خارجہ۴؍اکتوبر۱۹۴۷ء
۷۔ کچھ تو ہمارے پاس رہنے دو ۸؍اکتوبر ۱۹۴۷ء
۸۔ قادیان ۹؍اکتوبر ۱۹۴۷ء
۹۔سیاست پاکستان ۱۴؍اکتوبر۱۹۴۷ء
۱۰۔پاکستان کا دفاع۱۵؍اکتوبر۱۹۴۷ء
۱۱۔پاکستان کا دفاع (۲) ۱۶؍اکتوبر۱۹۴۷ء
۱۲۔پاکستانی فوج اور فوجی مخزن۱۷؍اکتوبر ۱۹۴۷ء
۱۳۔کشمیر اور حیدرآباد۱۹؍اکتوبر ۱۹۴۷ء
۱۴۔کشمیر کی جنگ آزادی۷؍نومبر۱۹۴۷ء
۱۵۔پاکستان کی اقتصادی حالت ۹؍نومبر ۱۹۴۷ء
۱۶۔کشمیر ۱۲؍نومبر ۱۹۴۷ء
۱۷۔ کشمیر اور پاکستان ۱۴؍نومبر۱۹۴۷ء
۱۸۔ سپریم کمانڈر کا خاتمہ ۱۵؍نومبر۱۹۴۷ء
۱۹۔ مسٹر ایٹلی کا بیان ۱۶؍نومبر۱۹۴۷ء
۲۰۔ صوبہ جاتی مسلم لیگ کے عہدیداروں میںتبدیلی۲۰؍نومبر۱۹۴۷ء
۲۱۔ کانگرس ریزولیوشن ۲۱؍نومبر۱۹۴۷ء
۲۲۔کانگرس ریزولیوشن ۲۳؍نومبر۱۹۴۷ء
۲۳۔تقسیم فلسطین کے متعلق روس اور یونائیٹڈ سٹیٹس کے اتحاد کا راز ۲۸؍نومبر۱۹۴۷ء
۲۴۔مسلم لیگ پنجاب کا نیا پروگرام ۲۹؍نومبر۱۹۴۷ء
۲۵۔کشمیر کے متعلق صلح کی کوشش ۳۰؍نومبر ۱۹۴۷ء
۲۶۔ آخر ہم کیا چاہتے ہیں ۱۵؍مئی ۱۹۴۸ء
۲۷۔ خطرہ کی سرخ جھنڈی ۲۸؍جنوری ۱۹۴۸ء
(تاریخ احمدیت جلد ۱۱صفحہ۵۷،۵۶)
الفضل ہندوستان میں مسلمانوں کا قدیم ترین زندہ اخبار ہے۔ یہی وہ واحد اخبار ہے جو قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے پاکستان منتقل ہوا۔ ڈاکٹر عبدالسلام خورشید لکھتے ہیں: ’’اتنے غیرمسلم اخباروں کی روانگی کے باوجود ہندوستان کا کوئی مسلم روزنامہ لاہور نہ آیاالبتہ جماعت احمدیہ کا روزنامہ الفضل قادیان سے لاہور منتقل ہو گیا … اب یہ ربوہ سے نکلتا ہے۔‘‘ (داستان صحافت صفحہ ۱۲۶ مطبع مکتبہ کارواں لاہور)یہ سب خلافت کا کارنامہ ہے۔
الفضل میں شذرات کا دلچسپ سلسلہ
غیروں کی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے اور الفضل کو پہلے سے زیادہ مفید بنانے کے لیے سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی خصوصی ہدایت پر شذرات کا ایک دلچسپ علمی سلسلہ شروع کیا گیا جو ۲۰؍اگست ۱۹۵۲ء سے لے کر ۲۷؍فروری ۱۹۵۳ء تک جاری رہا۔ اس نئے کالم کو یہ امتیازی خصوصیت حاصل تھی کہ حضور نہایت باقاعدگی اور التزام کے ساتھ اس پر نظرثانی فرماتے۔ حضور کے ملاحظہ کے بعد اس کا مسودہ روزانہ لاہور بھجوادیا جاتا تھا جہاں سے ان دنوں اخبار الفضل کی طباعت واشاعت ہوتی تھی۔ اس تعلق میں حضرت مصلح موعودؓ نے ۲۲؍اگست۱۹۵۲ء کو ایک ضروری مکتوب رقم فرمایا جس سے اس کے پس منظر کا پتا چلتا ہے۔ حضور نے ایڈیٹر صاحب الفضل کو لکھا ’’آپ کو ہدایت جاچکی ہے کہ ایڈیٹوریل چھوٹا لکھا کریں اور موجودہ فتنوں کے متعلق اور قومی مسائل پر زیادہ لکھا کریں اور ایڈیٹوریل کے بعد مولوی دوست محمد صاحب کے لکھے ہوئے شذرات شائع کیا کریں۔ … الفضل کے متعلق عام شکایت آرہی ہے کہ اس کا سٹینڈرڈ گر رہا ہے سوائے خاتم النبیین نمبر کے کہ اس کی بیشک بہت تعریف آئی ہے۔ کثرت سے اعتراض ہوتے ہیں جن کے کوئی جواب نہیں دیے جاتے اور اسی لئے ہم نے شذرات لکھوانے شروع کیے ہیں۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد۱۵ صفحہ۴۱۲)
الفضل کی علمی نگرانی اور راہنمائی
حضرت مصلح موعودؓ نہ صرف الفضل کے بانی تھے بلکہ ایک مقدس اور دوربین نظر رکھنے والے روحانی لیڈر بھی تھے اس لیے الفضل پر ہمیشہ آپ کی کڑی نگاہ رہی۔
اچھے مضامین پر حوصلہ افزائی فرماتے اور غلط باتوں پر مدلل تنقید کرکے جماعت کی راہنمائی فرماتے۔ اس کے چند نمونے پیش ہیں۔
حضرت مصلح موعودؓ خطبہ جمعہ ۲۹؍جون ۱۹۲۳ء میں اخبارات پڑھنے کے شوق اور دلچسپی کے متعلق فرماتے ہیں (اس وقت الفضل ہفتہ میں دو بار شائع ہوتا تھا): ’’الفضل‘‘ ہفتہ میں دوبار میرے سامنے آتا رہا ہے اور میں اس لحاظ سے کہ سلسلہ کا آرگن سمجھاجاتا ہے اور اس لحاظ سے کہ چونکہ اس کے مضامین ہماری طرف سے سمجھے جاتے ہیں اور ہماری طرف منسوب کیے جاتے ہیں۔ اس لئے یہ دیکھنے کے لئے کہ اگرکوئی غلطی ہو۔ یوں تو انسان سے غلطیاں ہوجاتی ہیں۔ لیکن اگر کوئی ایسی غلطی ہو جس سے سلسلہ پر حرف آتا ہو۔ تو اس کی اصلاح کروادی جائے الفضل سارا پڑھتا ہوں اورہمیشہ پڑھتا ہوں۔‘‘ (الفضل ۶؍جولائی ۱۹۲۳ء)
۴؍فروری ۱۹۳۸ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا: ’’میں نے دیکھا ہے کام کی کثرت کی وجہ سے کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ادھر میں کھاناکھا رہا ہوتا ہوں اور ادھر اخبار پڑھ رہا ہوتا ہوں۔ بیویاں کہتی بھی ہیں کہ اس وقت اخبار نہ پڑھیں کھانا کھائیں مگر میںکہتا ہوں میرے پاس اور کوئی وقت نہیں۔‘‘ (خطبات محمود سال ۱۹۳۸ء جلد۱۹ صفحہ۶۶)
سفر یورپ ۱۹۲۴ء کا ذکر کرتے ہوئے حضرت بھائی عبدالرحمان صاحب قادیانی لکھتے ہیں: ’’۸؍ستمبر ۱۹۲۴ء کو ملاقات کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے میرے ہاتھ میںاخبار دیکھ کر فرمایا اخبار آگیا؟ میں نے عرض کیا حضور الحکم ہے۔ فرمایا الفضل نہیں آیا؟ میں نے پٹنی کے دوستوں سے الفضل بھی منگایا ہوا تھا عرض کیا حضور ہے۔ فرمایالاؤ۔ میں تو بہت تلاش میں ہوں چنانچہ وہ پیش کیا اور حضور اسے لے کر کمرہ میں تشریف لے گئے۔‘‘ (سفر یورپ ۱۹۲۴ء صفحہ۲۱۱)
حضورؓ نے خطبہ ۲۹؍جون ۱۹۲۳ء میں فرمایا:’’جمعہ کے وقت سے تھوڑی دیر پہلے میں جو غسل کرنے کے لئے کمرہ میں داخل ہوا تو دروازہ بند کرتے ہوئے الفضل کا ایک ٹکڑا میری آنکھوں کے سامنے آگیا اور وہ اس کا پہلا صفحہ تھا۔ جو دروازہ کے اوپر چسپاں تھا۔ اس کے اوپر ایک عبارت تھی جو خودبخود میری آنکھوں کے سامنے آگئی اور وہ یہ تھی کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔ یہ الہام ایک لمبا عرصہ تک الفضل پر لکھاجاتا رہا ہے۔‘‘ (الفضل ۶؍جولائی ۱۹۲۳ء) اس کے بعد حضور نے اس مضمون پر تفصیلی خطبہ ارشاد فرمایا۔
۱۷؍ستمبر ۱۹۲۴ء کو حضورؓ لندن میں تھے۔ الفضل میں ایک نظم پڑھ کر فرمایا کہ ’’نظم بالکل غلط ہے۔ الفضل کیوں ایسی نظموں کو چھاپ دیتا ہے۔ اس سے تو اخبار کی بھی ہتک ہوتی ہے اور بعض باتیں تو اس میں قادیان اور حضرت مسیح موعود پر اعتراض ہیں بلکہ کفر تک بھی بن جاتی ہیں۔‘‘ (سفر یورپ صفحہ۲۷۹)
فرمایا کہ’’الفضل نے ایک بڑی غلطی کی ہے وہ یہ کہ شائع کیا ہے کہ چونکہ ہمارے اخبارات کابل نہیں جاسکتے۔ لہٰذا مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی شہادت کے متعلق نفرت کے ریزولیوشن یہاں نہ بھیجے جائیں۔ یہ ٹھیک نہیں تھا۔ ہمارے اخبارات کابل میں جاتے یا نہ جاتے۔ لوگوں کو دلوں کی بھڑاس تو نکال لینے کے لئے موقعہ دینا چاہئے تھا۔ ایک آدمی کسی جنگل بیابان میں ہوتا ہے۔ اس کوکوئی تکلیف ہوتی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کی آواز کوئی نہیں سن رہا اور کوئی اس کی مدد نہیں کرسکتا۔ مگر وہ روتا پکارتا اور چیختا ہے۔ یہ ایک طبعی امر ہے۔ اس کو روکنا گویا فطرت کو مارنا ہے۔‘‘ (الفضل ۱۵؍نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ۶)
حضورؓ نے خطبہ جمعہ ۲۸؍اگست ۱۹۳۶ء میں فرمایا: ’’پچھلے جمعہ میں نے الفضل میں ایک دلچسپ بحث دیکھی اور وہ یہ کہ جماعت احمدیہ کاماٹو کیا ہونا چاہئے اس مضمون پر دو دوستوں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جو اخبار الفضل میں شائع ہوچکے ہیں اور یہ دونوں اصحاب میرے ماموں ہیں۔ اسی ماٹو کے بارہ میں ایک تیسرا مضمون بھی میری نظر سے گزرا ہے۔ جس کے بارہ میں مجھے ابھی تک یہ علم نہیں ہے کہ وہ اخبار میں بھی شائع ہوا ہے یا نہیں؟‘‘ (الفضل ۲۶؍دسمبر ۱۹۳۶ء صفحہ۱) اس کے بعد حضور نے اپنے خیالات کا اظہار فرمایا۔
مجلس مشاورت ۱۹۳۷ء میں فرمایا:’’کچھ دن ہوئے الفضل میں حضرت عمر کی سادگی کے متعلق بعض مضامین شائع ہوئے ہیں جن میں یہ لکھا گیا ہے کہ حضرت عمرؓ کے کپڑوں پر ۱۲ پیوند ہوتے تھے۔ اب ایک دفعہ کے متعلق تو یہ تسلیم کیا جاسکتا ہے لیکن ۱۲ پیوند ہوتے تھے کے معنے تو یہ ہیں کہ جب بھی وہ کوئی نیا کپڑا پہنتے تھے۔ اس میں قینچی سے ۱۲ موریاں کرکے ۱۲ پیوند لگا لیتے تھے۔ حالانکہ اسے کوئی عقل تسلیم نہیں کرسکتی۔ پھر ۱۲ پیوند لگانے کوئی ذاتی خوبی نہیں کہ اسے بیان کیا جائے اور اس پر زور دیا جائے۔‘‘
اس کے بعد حضورؓ نے تفصیل سے اپنا موقف بیان فرمایا ہے۔ (خطابات شوریٰ جلد۲ صفحہ۲۱۷)
حضورؓ نے تحریر فرمایا:’’ ۱۹؍دسمبر کے الفضل میں ایک افتتاحیہ حکومت برطانیہ میں تازہ انقلاب کے نام سے چھپا ہے میں اس کے بارہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں گو جو کچھ الفضل میں شائع ہوتا ہے ضروری نہیں کہ میری نظروں سے گزرے نہ یہ ضروری ہے کہ اسے پڑھ کر اگر مجھے اختلاف ہو تو میں اس اختلاف کا اظہار کروں کیونکہ الفضل اجمالی طور پر جماعت احمدیہ کا ترجمان ہے نہ کہ تفصیلی طور پر۔ تفصیلی طور پر لوگوں میں اختلاف پایا جاتا ہے اور ضروری نہیں کہ ہر اختلاف پر گرفت کی جائے بعض باتوں کو ایسی اہمیت نہیںدی جاتی کہ علم ہونے پر بھی ان کی تردید کی جائے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس مقالہ کی تردید ضروری ہے کیونکہ اس میں بعض اصول کا سوال ہے۔‘‘ (الفضل ۲۲؍دسمبر ۱۹۳۶ء صفحہ۱) اس کے بعد حضورؓ نے تفصیلی دلائل دے کر الفضل کے مضمون سے اختلاف کیا اور راہنمائی فرمائی۔
الفضل میں حضرت یحییٰؑ کے متعلق کئی مضامین شائع ہوئے جن میں سے بعض حضرت مسیح موعودؑ کی واضح تحریرات کے خلاف تھے۔ اس کا نوٹس لیتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا: ’’پھر مجھے الفضل پر بھی تعجب آتا ہے۔ الفضل سلسلہ کا آرگن ہے اور الفضل کے ایڈیٹر گو عالم نہ ہوں۔ مگر خداتعالیٰ نے ان کودماغ دیا ہوا ہے۔ کیا ان کا یہ فرض نہیں تھا کہ وہ اس مسئلہ کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑکی نصوص صریحہ پیش ہو جانے کے بعد کسی شخص کا مضمون نہ لیں۔ چاہے وہ کتنا بڑا عالم کیوں نہ ہو…محض اس لئے کہ وہ مولوی ابوالعطاء صاحب کا ہے۔ جو سلسلہ کے نوجوان علماء میں سے سابقون میں نظر آرہے ہیں۔ حالانکہ مولوی ابوالعطاء کیا اگر اس مضمون پر مولوی سید سرور شاہ صاحب۔ یامیر محمد اسحق صاحب یا مولوی غلام رسول صاحب راجیکی کا نام بھی لکھا ہوا ہوتا تو الفضل والوں کا فرض تھا کہ وہ کہتے تم سب شاگرد اور تابع ہو اپنے آقا کے…
الفضل سلسلہ کا اخبار ہے وہ اس لئے جاری نہیں کہ اس میں حضرت مسیح موعودؑ کی باتوں کی تردید کی جائے بلکہ اس لئے جاری ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی تعلیم اس کے ذریعہ دنیا میں پھیلائی جائے اور گو یہ ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ حضرت مسیح موعودؑ کی تعلیم کو دنیا میں پھیلائے۔ مگر جو شخص اسی بات کی تنخواہ لیتا ہو اس کی تو یہ انتہائی بددیانتی ہو گی اگر وہ دیدہ و دانستہ ایسا کرے اور سلسلہ کا کارکن ہوتا ہوا کام وہ کرے جو حضرت مسیح موعود ؑکی تعلیم کو رد کرنے والا ہو۔ ان کو تو مقرر اس لئے کیا گیا ہے کہ وہ ان باتوں کو شائع کریں جو حضرت مسیح موعودؑ کی تعلیم کی اشاعت کرنے والی ہوں۔‘‘ (الفضل ۳؍ دسمبر ۱۹۳۸ء صفحہ۱۳)
خطبہ جمعہ ۱۸؍ نومبر ۱۹۳۸ء میں فرمایا: ’’چار دن ہوئے الفضل میں قاضی اکمل صاحب کا ایک مضمون حضرت مسیح موعودؑ کی ایک پیشگوئی کے متعلق شائع ہوا ہے جو تحریک جدید کے ذریعہ پوری ہوئی۔ وہ دراصل ایک پرانا کشف ہے جو حضرت مسیح موعودؑنے دیکھا۔ یہ رویا حضرت مسیح موعودؑ کو ۵ ہزار سپاہی ملنے کے متعلق ہے اس رویاء کا ذکر کرنے کے بعد حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: قاضی صاحب نے لکھا ہے کہ اس رویا کے متعلق میرے دل میں یہ خیال گزرا کہ یہ تحریک جدید میں قربانیاں کرنے والوں کے ذریعہ پورا ہو رہا ہے۔ چنانچہ میں نے منشی برکت علی صاحب فنانشل سیکرٹری سے پوچھا کہ تحریک جدید کے چندہ میں حصہ لینے والوں کی کس قدر تعداد ہے تو انہوں نے بتایا کہ پانچ ہزار چار سو بائیس۔ چونکہ ہر جماعت میں کچھ نہ کچھ نادہند ہوتے ہیں اس لئے اگر ان کو نکال دیا جائے تو پانچ ہزار ہی تعداد بنتی ہے۔‘‘ (خطبات محمود ۱۹۳۸ء جلد۱۹ صفحہ۸۲۶)
جلسہ جوبلی ۲۸؍دسمبر ۱۹۳۹ء کو فرمایا: ’’جب سے یہ خلافت جوبلی کی تحریک شروع ہوئی ہے میری طبیعت میںہمیشہ ایک پہلو سے انقباض سا رہتا آیا ہے اور میںسوچتا رہا ہوں کہ جب ہم خود یہ تقریب منائیں تو پھر جو لوگ ’’برتھ ڈے‘‘ یا ایسی دیگر تقاریب مناتے ہیں انہیں کس طرح روک سکیں گے۔ اب تک اس کے لیے کوئی دلیل میری سمجھ میں نہیں آسکی اور میں ڈرتا ہوں کہ اس کے نتیجہ میں ایسی رسوم جماعت میں پیدا نہ ہو جائیں جن کومٹانے کے لئے احمدیت آئی ہے۔ … میں یہی سوچتا رہا ہوں کہ ایسا کرتے ہوئے ہم کوئی ایسا روشن دان تو نہیں کھول رہے کہ جس سے شیطان کو حملہ کا موقع مل سکے اور اس لحاظ سے مجھے شروع سے ہی ایک قسم کا انقباض سا رہا ہے کہ میں نے اس کی اجازت کیوں دی اور اس کے متعلق سب سے پہلے انشراح صدر مجھے مولوی جلال الدین صاحب شمس کا ایک مضمون الفضل میں پڑھ کر ہوا جس میں لکھا تھا کہ اس وقت گویا ایک اور تقریب بھی ہے اور وہ یہ کہ سلسلہ کی عمر پچاس سال پوری ہوتی ہے۔ تب میں نے سمجھا کہ یہ تقریب کسی انسان کے بجائے سلسلہ سے منسوب ہو سکتی ہے اور اس وجہ سے مجھے خود بھی اس خوشی میں شریک ہونا چاہئے۔‘‘ (خلافت علیٰ منہاج النبوة جلد۲ صفحہ۳۳)
مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء میں فرمایا: ’’ہم لوگوں پر بڑی ذمہ داری ہے آئندہ نسلیں ہم کو انتہائی ادب اور احترام کی نظر سے دیکھیں گی۔ اس زمانہ میں ایک یہ خرابی پیدا ہوچکی ہے کہ روایات بہت غلط ہو جاتی ہیں کیونکہ اس زمانہ میں کتابوں کی اشاعت عام ہوجانے کی وجہ سے حفظ کرنے کی عادت بہت کم ہو گئی ہے۔ پچھلے دنوں ’’الفضل‘‘ میں بعض غلط روایات شائع ہوئیں میں نے خود تو ان کی تردید مناسب نہ سمجھی مگر بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانی سے کہا کہ آپ کو تو سب واقعات کا علم ہے آپ کیوں صحت نہیں کرتے؟ میاں مہر اللہ صاحب نے لکھا تھا کہ ایک دفعہ یہاں ڈپٹی کمشنر آیا تو حضرت مسیح موعودؑ خود اس کے استقبال کے لئے گئے۔ حالانکہ ڈپٹی کمشنر نہیں بلکہ فنانشل کمشنر آیا تھا اور آپ خود تشریف نہیں لے گئے تھے بلکہ آپ نے مجھے دوسرے دوستوں کے ساتھ بھیجا تھا۔‘‘ (خطابات شوریٰ جلد ۲ صفحہ۵۲۶)
مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء میں فرمایا: ’’یہ بھی کہا گیا ہے کہ روزانہ اخبار کی ضرورت نہیں ہفتہ وار ہی کافی ہے۔ اس کے متعلق میں یہ کہوں گا کہ پانچ نمازوں کی کیا ضرورت ہے؟ اللہ تعالیٰ نے پانچ وقت کی نمازیں کیوں فرض کر دیں جبکہ ہر نماز میںوہی بات دہرائی جاتی ہے، ساری عمر میں ایک ہی نماز کافی تھی۔ ہر دو تین گھنٹے کے بعد نماز کا حکم کیوں دے دیا گیا؟ پس جس طرح اللہ تعالیٰ نے نماز کا تکرار ضروری قرار دیا ہے اسی طرح دین کی باتوں کا تکرار بھی ضروری ہے۔ یہ بات بھی صحیح نہیں کہ مولوی ابوالعطاء کے مضامین کے سوا الفضل میں کام کا کوئی مضمون ہی نہیںہوتا۔ میں علماء کے مضامین کا اس وقت ذکر نہیں کرتا۔ لاہور کے ایک طالب علم خورشید احمد صاحب کے مضامین بعض اوقات الفضل میں چھپتے ہیں جو بہت اچھے ہوتے ہیں اور میں ہمیشہ ان کو دلچسپی سے پڑھتا ہوں۔ حوالے بھی گو بالکل نئے تو نہیں ہوتے تاہم ایسے ضرور ہوتے ہیں جو عام طور پر مستعمل نہیں ہیں۔ پس یہ بالکل صحیح نہیں کہ مولوی ابوالعطاء کے مضامین کے سوا کوئی اچھا مضمون نہیںہوتا۔ پھر میر محمد اسحق صاحب کا درس حدیث چھپتا ہے۔ اس کی کسی بات سے مجھے اختلاف بھی ہوسکتا ہے مگر اس میں شک نہیں کہ وہ بہت مفید سلسلہ ہے۔ آنحضرتﷺکے ارشادات اور آپ کی زندگی کے واقعات نہایت مؤثر پیرایہ میں اور تکرار کے ساتھ سامنے آتے رہتے ہیں اور یہ سلسلہ علمی اور عملی دونوں لحاظ سے بہت مفید ہے۔‘‘ (خطابات شوریٰ جلد۲ صفحہ۵۴۱)
جلسہ سالانہ ۱۹۵۱ء کے دوسرے دن ۲۷؍دسمبر کو الفضل کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا:’’ میں اصل تقریر سے قبل الفضل کی اشاعت کوبڑھانے کی بھی تحریک کرتا ہوں۔ اس سال الفضل کا خاتم النبیین نمبر شائع ہوا تھا اور وہ فتنے کے ایام میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے باقی سارے لٹریچر سے زیادہ کامیاب رہا۔ اس کا مضمون ایک تھا۔ مگر اس کے متعلق مختلف پہلوؤں کوجمع کر دیا گیا تھا۔ گویا وہ ایک باغیچہ تھاجس میں مختلف پھل اورپھول جمع کر دیے گئے تھے۔مگر خوبی یہ تھی کہ وہ سب ایک ہی قسم کے تھے۔ چنانچہ ختم نبوت کے مسئلہ کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کی تحریریں۔ قرآن مجید کی آیات، احادیث نبوی اور ائمہ سلف کے خیالات کو جمع کر دیا گیا تھا تاکہ ہر قسم کی طبائع کو اپنے اپنے مذاق کے مطابق مواد مل سکے۔ جماعتوں کی طرف سے جو اطلاعیں آئیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑے بڑے مخالفوں نے بھی مانگ مانگ کر یہ پرچہ پڑھا ہے۔ ان میں سے متعدد نے بعد میں اس خیال کااظہار کیا کہ پہلے ہم احمدیت کو ایک خلاف اسلام تحریک سمجھتے تھے مگر اس نمبر کو پڑھنے سے معلوم ہوا کہ احمدی اسلام کے یا قرآن کے منکر نہیں ہیں۔ بلکہ دوسرے مسلمانوں سے ان کا اختلاف محض تاویل کا اختلاف ہے۔ متعدد جماعتوں نے خاتم النبیین نمبر کے متعلق لکھا کہ اس کی اشاعت کے بعد مخالفت کی رو بدل گئی۔ پس الفضل کی اشاعت کو بڑھانے کی کوشش کرو۔‘‘(الفضل ۳۱؍دسمبر۱۹۵۲ء صفحہ۳)
کئی بار مجالس شوریٰ میں الفضل سے متعلق تجاویز پیش ہوئیں۔ بعض احباب نے جب الفضل پر تنقید کی تو حضورؓ نے جماعت کو الفضل کی مشکلات اور وسائل سے مطلع فرمایا اور ادارہ کو بھی اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی تاکید فرمائی۔ مجلس مشاورت ۱۹۴۱ء میں فرمایا:’’ایک دوست نے کہا ہے کہ خبریں چار روز کی باسی ہوتی ہیں۔مجھے افسوس ہے کہ ہمارے بعض دوست ایسی غلط باتیں کہنے میں بھی تامل نہیں کرتے۔ ممکن ہے کوئی ضروری خبر ایک دن رہ جائے تو بعد میں بھی دے دی جائے۔ اگر کسی ایسی خبر کی بناء پر خبروں کوباسی کہا گیا ہے تو ایسی باسی خبریں تو سول اور سٹیٹسمین میں بھی ہوتی ہیں۔ ورنہ یوں میں نے دیکھا ہے کہ الفضل کی خبریں سول کے ساتھ ہوتی ہیں۔ ایک خبر میں صبح الفضل میں پڑھ لیتا ہوں تو بعد میں سول آتا ہے تو اس میں بھی وہی ہوتی ہے۔ (آنریبل سر ظفراللہ خان صاحب نے بھی اس بات کی تائید آہستہ سے کی) پس یہ بالکل غلط ہے کہ چار چار روز کی باسی خبریں اس میں ہوتی ہیں۔ خبریں سول کے ساتھ ہوتی ہیں بلکہ بعض لوگ تو یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ یہ خبریں کہیں سے چوری کی جاتی ہیں۔ … الفضل والوں کے پاس کوئی ہوائی جہاز تو ہیں نہیں کہ اسی روز اخبار کالاباغ پہنچا دیں۔ انسان کو چاہئے کہ بات کرنے سے پہلے دیکھ لے کہ اس میں معقولیت کہاں تک ہے۔ یہ صحیح ہے کہ سول اور دوسرے اخبار جو لاہور سے نکلتے ہیں دوسرے شہروں میں پہلے پہنچ جاتے ہیں۔ مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ لاہور سے صبح سویرے گاڑیاں چلی جاتی ہیں اور الفضل وہاں بعد میں پہنچتا ہے۔ اگر تو گاڑیاں شام کو چلیں تو الفضل بھی ان کے ساتھ پہنچ سکتا ہے مگر وہ تو لاہور سے صبح سویرے پوسٹ ہو جاتے ہیں اور الفضل شام کو لاہور پہنچتا ہے، ایسی صورت میں دونوں کامقابلہ کس طرح ہوسکتا ہے۔‘‘ (خطبات شوریٰ جلد۲ صفحہ۵۴۱)
حضورؓ الفضل کے بجٹ پر بھی خصوصی نظر رکھتے تھے۔ مجلس شوریٰ ۱۹۳۷ء میں فرمایا: ’’جب میں نے الفضل کے بجٹ کو دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ الفضل کا مالی پہلو خطرناک ہو رہا ہے۔ چونکہ خود میں نے الفضل جاری کیا تھا اس لئے مجھے بھی چھپوائی کا تجربہ ہے اور میں بجٹ کو دیکھتے ہی سمجھ جاتا ہوں کہ اس میں کس جگہ غلطی ہو رہی ہے۔ اسی وجہ سے میں نے الفضل کے بجٹ کی تفصیلات محکمہ متعلقہ سے طلب کیں۔ ‘‘ پھر حضورؓ نے تفصیل سے بجٹ کے بارہ میں ہدایات دیں۔(خطابات شوریٰ جلد۲صفحہ۲۲۶)
الفضل کی بندش ۱۹۵۳ء
۱۹۵۳ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف فسادات میں ایک ظالمانہ فعل یہ بھی کیا گیا کہ صوبہ پنجاب کی مسلم لیگی حکومت نے ۲۷؍فروری ۱۹۵۳ء کو جماعت احمدیہ پاکستان کے واحد روزنامہ الفضل کی اشاعت ایک سال کے لیے جبراً بند کردی۔ (تاریخ احمدیت جلد۱۵ صفحہ۴۸۹)
حضورؓ نے خداتعالیٰ کی تحریک خاص سے ۳؍مارچ ۱۹۵۳ء کو جماعت احمدیہ کے نام پُرشوکت پیغام دیا۔ جو ۴؍ مارچ کو ہفت روزہ فاروق کے صفحہ اول پر جلی قلم سے شائع ہوا اور ملک بھر میں پہنچ گیا۔ فرمایا: ’’الفضل کو ایک سال کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ احمدیت کے باغ کو جو ایک ہی نہر لگتی تھی اس کا پانی روک دیا گیا ہے پس دعائیں کرو اور اللہ تعالیٰ سے مددمانگو اس میں سب طاقت ہے ہم مختلف اخباروں میں یا خطوں کے ذریعہ سے آپ تک سلسلہ کے حالات پہنچانے کی کوشش کرتے رہیں گے اور انشاء اللہ آپ کو اندھیرے میں نہیں رہنے دیں گے۔ آپ بھی دعا کرتے رہیں میں بھی دعا کرتا ہوں، انشاء اللہ فتح ہماری ہے۔ کیا آپ نے گزشتہ چالیس سال میں کبھی دیکھا ہے کہ خداتعالیٰ نے مجھے چھوڑ دیا؟ تو کیا اب وہ مجھے چھوڑ دے گا؟ ساری دنیا مجھے چھوڑ دے مگر وہ انشاء اللہ مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا سمجھ لو کہ وہ میری مدد کے لئے دوڑا آرہا ہے۔ وہ میرے پاس ہے وہ مجھ میں ہے۔ خطرات ہیں اور بہت ہیں مگر اس کی مدد سے سب دور ہوجائیں گے۔ تم اپنے نفسوں کو سنبھالو اور نیکی اختیار کرو۔ سلسلہ کے کام خدا خود سنبھالے گا۔ (خاکسار مرزا محمود احمد ۳-۳-۵۳ )‘‘
مجلس خدام الاحمدیہ کراچی نے ۱۵؍جولائی ۱۹۵۰ء سے پندرہ روز اخبار المصلح جاری کیا تھا۔ الفضل لاہور کی بندش کے بعد المصلح کراچی کو روزنامہ کی شکل دینے کی کوشش شروع ہوئی جو ۲۹؍مارچ ۱۹۵۳ء کو کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور ۳۰؍مارچ ۱۹۵۳ء کو اس اخبار کی روزانہ اشاعت کا آغاز ہو گیا۔ اب المصلح کراچی عملاً الفضل کا ہی دوسرا ایڈیشن تھا۔ اس کی اشاعت اور ادارت کے جملہ انتظامات بھی الفضل کا مستعد اور فرض شناس سٹاف ہی انجام دیتا تھا۔ اور ۳۱؍مارچ ۱۹۵۴ء تک یعنی الفضل کے دوبارہ اجرا تک نہایت باقاعدگی سے روزنامہ کی شکل میں شائع ہوتا رہا۔ (تاریخ احمدیت کراچی جلد۲ صفحہ۱۶۹ )
اس کے علاوہ بھی الفضل کو متعدد بار بندش اور دیگر ظلموں کا نشانہ بنایا گیا۔ چنانچہ ۱۹۸۴ء میں ۴سال، ۱۹۹۰ء میں ۲ ماہ ۲۰۰۵ء اور ۲۰۰۶ء میں بھی ایسے ہی اقدامات کیے گئے۔ الفضل جسے ایک ملک میں پابندیوں کا نشانہ بنایا گیا اسے خدا نے عالمی شہرت عطا کی اور ۱۹۹۴ء میں حضرت خلیفة المسیح الرابع نے لندن سے ہفت روزہ الفضل انٹرنیشنل کا اجرا کیا۔
الفضل کا عربی ایڈیشن
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ خطبہ جمعہ ۹؍مارچ ۱۹۴۵ء میں فرماتے ہیں: ’’میری ہمشیرہ مبارکہ بیگم صاحبہ ان دنوں بیمار ہیں۔ کل میں ان سے ملنے گیا تو ان کو اس بات کا کوئی علم نہ تھا۔ میرے وہاں پہنچتے ہی انہوں نے کہا کہ جب سے نواب صاحب فوت ہوئے ہیں، میں نے ان کو خواب میں نہ دیکھا تھا۔ آج رات پہلی دفعہ میں نے انہیں خواب میں دیکھا ہے اور انہوں نے جو خواب سنایا، وہ بھی اسی واقعہ کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ نواب صاحب مرحوم اپنے خاندان کا ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب میں بیمار تھا تو بیماری کی حالت میں بھی ان کو تبلیغ کرتا رہا اور جب میری زبان بند ہوگئی تو میں اشاروں سے ان کو تبلیغ کرتا رہا۔ یہ بات کہتے کہتے آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور کہا کہ بڑی خوشی کی خبر آئی ہے، بڑی خوشی کی خبر آئی ہے۔ مصر اور لیبیا وغیرہ عربی ممالک میں احمدیت خوب پھیل گئی ہے۔ یہاں تک کہ اب الفضل کا ایک عربی ایڈیشن بھی شائع ہونے لگا ہے اور عربی ممالک کے بادشاہ اور بڑے بڑے لوگوں کو اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک کہ وہ اسے پڑھ نہ لیں۔‘‘ (الفضل ۱۴؍مارچ ۱۹۴۵ء) معلوم ہوتا ہے کہ یہ مستقبل کی پیشگوئی ہے اللہ اس کے متعلق بہتر جانتا ہے۔
خلافت ثالثہ اور رابعہ
خلافت ثانیہ کے بعد خلافت ثالثہ اور رابعہ میں بھی الفضل کو خلفاءکی راہنمائی حاصل رہی اور اس کی اشاعت اور معیار بڑھانے کے لیے کوشاں رہے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے اپنے دورہ یورپ ۱۹۸۰ء میں ایڈیٹر الفضل مکرم مسعود احمد دہلوی صاحب کو قافلہ کا حصہ بنایا اور ان کی رپورٹس بعد میں دورہ مغرب کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہو گئیں۔
حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ فرماتے ہیں: ’’سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر گھر میں الفضل پہنچے اورالفضل سے ہر گھر فائدہ اٹھارہا ہو۔ابھی جماعت کے حالات ایسے ہیں کہ شاید ہر گھر میں الفضل نہیں پہنچ سکتا۔لیکن جماعت کے حالات ایسے نہیں کہ ہر گھر اس سے فائدہ بھی نہ اٹھا سکے۔اگر ہر جماعت میں الفضل پہنچ جائے اور الفضل کے مضامین وغیرہ دوستوں کو سنائے جائیں تو ساری جماعت اس سے فائدہ اٹھاسکتی ہے۔خصوصاًخلیفہ وقت کے خطبات اور مضامین اور درس اور ڈائریاں وغیرہ ضرور سنائی جائیں۔خصوصاًمیں نے اس لیے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے خلیفہ وقت کو امربالمعروف کا مرکزی نقطہ بنایا ہے۔…ہر جماعت میں کم ازکم ایک پرچہ الفضل کا جانا چاہئے۔
جلسہ سالانہ ۱۹۸۲ء کے موقع پر حضرت خلیفة المسیح الرابع نے الفضل کی اشاعت ۱۰ہزار تک بڑھانے کی تحریک فرمائی اور جب مارچ ۱۹۸۴ء میں مینیجر الفضل کی طرف سے سیدنا حضرت خلیفة المسیح الرابع کی خدمت میں ایک چٹھی لکھی گئی جس میں یہ ذکر تھا کہ ماہ فروری ۱۹۸۴ء میں الفضل کی اشاعت سات ہزار تھی (خطبہ نمبر کی اشاعت آٹھ ہزار تھی) اس پر حضور انور نے اپنے دست مبارک سے رقم فرمایا۔’’ابھی تک اشاعت تھوڑی ہے۔ دس ہزار تومیں نے کم سے کم کہی تھی۔ پندرہ بیس ہزار ہونی چاہئے۔‘‘
۱۹۸۴ء میں الفضل کو بند کر دیا گیا اور جب ۱۹۸۸ء میں جاری ہوا توالفضل کے ایڈیٹر مکرم نسیم سیفی صاحب تھے ان پر اور دیگر انتظامیہ پر مقدمات کی بھرمار ہو گئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع اس تمام عرصہ میں ان کی ڈھارس بندھاتے رہے اپنے ہاتھ سے خط لکھتے جن میں سے کئی خطوط سیفی صاحب نے الفضل یا اپنی کتب میں شائع کر دیے ہیں۔ ان کی گرفتاری ہوئی تو محبت سے یاد کرتے رہے حضور نے ایڈیٹر الفضل کے نام ایک خط میں تحریر فرمایا:بڑی توجہ سے الفضل کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دن بدن ترقی کررہا ہے۔ … آپ کی کوششیں قابل تحسین ہیں۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ میں دعا میں اس نکتے کو یاد رکھتا ہوں کہ الفضل کی زبان محض ۳۲ دانتوں میں نہیں بلکہ ۳۲ دشمن دانتوں میں گھری ہوئی عمدگی سے مافی الضمیر ادا کرنے کی توفیق پا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اس کی حفاظت فرمائے۔ چشم بد دور۔ اپنے ساتھیوں کو میری طرف سے محبت بھرا سلام کہیں۔ آپ سب کو نیا سال مبارک ہو۔ قارئین الفضل تک میرا محبت بھرا سلام اور سال نو کی مبارک بھی پہنچا دیں۔ اللہ آپ کے ساتھ ہو۔ (الفضل ۱۸؍جنوری ۱۹۸۹ء صفحہ۱)
حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ نے۱۹۹۸ءمیں مجھے الفضل کا ایڈیٹر مقرر فرمایا یہ ایک بہت مشکل ذمہ داری تھی جب پہلا پیغام ملا تو خاکسار نے گھر میں ہی مصلیٰ بچھایا اور خدا سے مدد مانگی حضور اقدس سے دعا کی درخواست کی اورحضور کی ہدایت پر حضرت مرزا مسرور احمد صاحب ناظر اعلیٰ کی راہنمائی میں کچھ نمونے بنا کر حضورؒ سے منظوری حاصل کی اور الحمدللہ کہ ۱۱؍مارچ ٫۱۹۹۸ سے لےکر ۱۴؍نومبر ۲۰۱۷ء تک اس کی خدمت کی توفیق پائی گو کہ اخبار ۵؍دسمبر ۲۰۱۶ء کو حکومت کی طرف سے بند کر دیا گیا تھا۔
ایک بار ایک ربوہ کی لڑکی کی چھوٹی سی غزل صفحہ نمبر ۷ پر شائع کی تو چند دن بعد حضور کا خط آیا کہ اس کا تعارف بھجوائیں مجھے اس لڑکی کے محلہ کے علاوہ کچھ پتا نہیں تھا فورا ًصدر محلہ سے رابطہ کر کے اس کا تعارف لیا اور حضور کوبھجوا دیا کچھ دن کے بعد حضور کا خط اس لڑکی کے نام خاکسار کے توسط سے آیا جس میں اس کی بہت حوصلہ افزائی کی گئی تھی۔جس میں ہماری بھی حوصلہ افزائی تھی۔یہ صرف ایک مثال ہے
خلافت خامسہ
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیزکی مسلسل شفقت اور راہنمائی میں جماعت کے اس روزنامہ نے ترقی کے نئے سنگ میل قائم کیے۔جس کی تفصیل الگ ہے۔آپ ہر سال سالانہ نمبر کے لیے پیغام اورتصاویر عنایت فرماتے ہیں۔الفضل نے ۱۰۰ سال پورے کیےتو ایک ضخیم نمبر کے لیے خاص پیغام بھیجا۔ جب دشمنوں کی سازشیں بہت بڑھ گئیں تو ایڈیٹر اور مینیجر کو ملک سے باہر بھجوا دیا اور نئی خدمات سپرد کر دیں۔ ہفتہ وار الفضل روزنامہ ہو گیا۔آڈیو میں سنائی دینے لگا بچوں کے لیے الگ شائع ہونے لگا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ الفضل خلافت احمدیہ کی آواز ہے اور اسی حوالہ سے وہ خلفاء کی مسلسل راہنمائی اور شفقت کا مورد ہے کوئی غلطی ہو تو گرفت کرتے ہیں اور اچھی خدمت ہو تو حوصلہ افزائی کرتے ہیں اس کے لیے وہ بھی باریکی سے مطالعہ کرتے ہیں یہ سلسلہ پہلے بھی دعاؤں سے چلا تھا اور آئندہ بھی دعاؤں پر ہی مدار ہے۔