خلاصہ تقریر: معاشرے میں امن پیدا کرنے میں احمدی خواتین کا کردار(اردو)
جلسہ سالانہ یوکے کے دوسرے دن کے صبح کے اجلاس مستورات کی دوسری تقریر محترمہ شرمین بٹ صاحبہ، سلاؤ جماعت کی تھی جس کا عنوان ’’معاشرے میں امن پیدا کرنے میں احمدی خواتین کا کردار‘‘ تھا۔
انہوں نے تقریر کے شروع میں سورة الحشر کی آیت ۲۴ مع ترجمہ پیشز کی۔ اور اس سوال کہ ایک احمدی مسلمان کے لیے امن کے اصل مفہوم کیا ہے؟ کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ کا اقتباس کے حوالہ سے بتا یا کہ ’’اللہ تعالیٰ کا ایک نام مُؤْمِن ہے۔ جو ترجمہ مَیں نے پڑھا ہے، اس میں مُؤْمِنْ کے معنی امن دینے والے کے کیے گئے ہیں۔ پس ہر شخص کا انفرادی امن بھی اور معاشرے کا امن بھی اور دنیا کا امن بھی اُس ذات کے ساتھ وابستہ رہنے سے ہے جو امن دینے والی ذات ہے جس کا ایک صفاتی نام جیسا کہ آپ نے سنا اَلْمُؤْمِنْ ہے۔ پس اِس نام سے فیض بھی وہی پائے گا جو اللہ تعالیٰ کے حکم صِبْغَۃَ اللّٰہ کہ اللہ کے رنگ میں رنگین ہو، پر عمل کرنے کی کوشش کرے گا۔‘‘
مقررہ نے حضور انور ایدہ اللہ کے ارشاد کے حوالہ سے بتایا کہ معاشرے کی بنیادی اکائی مرد اور عورت ہیں۔ گو مختلف صنف سے اُن کا تعلق ہے لیکن میاں بیوی کے رشتے میں منسلک ہونے کے بعد ایک اکائی بن جاتے ہیں۔ حضور نے فرمایا کہ اگر اِس اکائی میں تقویٰ نہ ہو تو پھر آئندہ نسل کے تقویٰ کی بھی ضمانت نہیں اور معاشرے کے اعلیٰ اخلاق اور تقویٰ کی بھی ضمانت نہیں کیونکہ ایک سے دو اور دو سے چار بن کے ہی معاشرہ بنتا ہے۔ حضور نے یہ بھی فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ تقویٰ سلامتی کا تعویذ ہے۔
مقررہ نے کہا کہ امن کا منبع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور معاشرے کی بنیادی اکائی میاں اور بیوی ہیں، چنانچہ معاشرے میں امن پیدا کرنےکا آغاز ایک پُر امن گھر سے ہوتا ہے اور گھر کی روایتی ذمہ داری عورت کی ہے اور میرا عنوان معاشرتی امن کے پیدا کرنے میں بالخصوص احمدی خواتین کے کردار سے ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اسلامی تعلیم کے لحاظ سے معاشرے کے امن کی تشکیل کی بنیادی اینٹ یعنی فرد کے اعلیٰ اوصاف میں مسابقت فی الخیرات، اعزہ و اقرباء سے محبت، خدمتِ خلق، رضائے باری تعالیٰ کا حصول، لوگوں کے دکھ درد سے ہمیشہ باخبر رہنا اور محبت و شفقت کو بھی شامل فرمایا۔
اسلام کی خوبصورت تعلیمات ایک پرامن معاشرے کی ضامن ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ا ن کی تجدید فرما کر دنیا اور جماعت کو نصائح کیں۔ جن سے ۱۳۴ سالوں میں احمدی خواتین کی پرامن معاشرہ پیدا کرنے کی کاوشوں میں راہنمائی ہوئی۔ بے شمار احمدی خواتین معاشرے کو پُر امن بنانے کی کوشش میں انفرادی طور پر بھی،بیٹی، بہن، ماں، بیوی، ساس اور بہو کی حیثیت سے بھی اسلام کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ایک لجنہ ممبر کی حیثیت سے بھی اور ایک شہری کی حیثیت سے بھی بھر پور کردار ادا کرتی ہیں۔
احمدی خواتین کے کردارمیں لازم ہے کہ حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا زوجہ محترمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر ہو جنہیں ہم احمدی حضرت اماں جان کہتے ہیں۔
حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا نے اپنی مثالی شخصیت کے ذریعہ گھروں میں، معاشرے میں امن پیدا کرنے میں عظیم الشان کردار ادا کیا جو احمدی خواتین کے لیے ایک لائحہ عمل بن گیا۔ ضروری ہے کہ ہماری نسلیں اِس لائحہ عمل کو جاری رکھنے کی کوشش کریں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کےبیان کردہ بنیادی اوصاف وسیع دائرہ میں حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کی ذات میں نمایاں تھے۔
ایک بیوی کی حیثیت سے حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کا کردار، کے بارہ میں ان کی اپنی صاحبزادی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ تحریر کرتی ہیں: ’’حضرت اماں جان کا وجود بھی اس زمانہ کی مستورات کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک نمونہ بنا کر اپنے مُرسل حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور مہدی موعود علیہ السلام کے لے رفیقِ حیات منتخب فرما کر بھیجا تھا اور آپ کی تمام حیات، آپ کی زندگی کا ہر پہلو اِس پر روشن شہادت دیتا رہا اور دے رہا ہے اور ہمیشہ تاریخِ احمدیت میں مہرِ درخشاں کی مانند چمک دکھلا کر شہادت دیتا رہے گا۔ آپ نیک عصمت مآب اور تابعدار بیٹی رہیں۔ بہترین رفیق اشاروں پر چلنے والی سچے دل سے ایمان لانے والی اور اپنے عالی شان شوہر کی عاشق بیوی رہیں۔ ‘‘
ایک ماں گھر کی فضا پر امن بناتی ہے جومعاشرے پر اثر انداز ہوا ہے۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ لکھتی ہیں:’’آپ بہترین ماں تھیں آپ کا پُر از محبت سینہ صافی نازک ترین مادرانہ جذبات کا حامل تھا۔ اتنا پیار اور اتنا خیال آخر ضعیفی کی عمر تک شاید ہی کسی ماں سے اولاد کو ملا ہو گا۔ ‘‘
حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کی ذات میں لوگوں کے دکھ درد سے ہمیشہ باخبر رہنا اور محبت و شفقت کا وسیع دائرہ بےحد نمایاں اوصاف تھے۔ مقررہ نے حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی تحریرات سے حضرت اماں جان کے اوصاف وعادات بتائے۔
حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے اس اسوہ کو احمدی خواتین نے اپنی زندگیوں میں ذاتی طور پر بھی اور مِن حَیثُ الجماعت بھی اپنانے کی ہمیشہ کوشش کی ہے۔ اور یہاں اس اثنا میں لجنہ اماء اللہ نے ایک تنظیم کی حیثیت سے جو کردار ادا کیا ہے اور کر رہی ہے، اُس کا ذکر بھی ضروری ہے۔
امسال الحمد للہ لجنہ کے قیام کو ایک سو سال پورے ہو گئے ہیں۔ لجنہ کی تنظیم کی بنیاداسلامی اصولوں پر رکھی گئی تا احمدی عورتیں تعلیمی ذہنی، فکری اورعملی ترقی کریں۔ یہ ایک زبردست احسان تھا ہم سب پر۔ قادیان میں چودہ ممبرات سے شروع ہونے والی وہ تنظیم جلد ہی ایک بین الاقوامی تنظیم بن گئی۔ لجنہ کی تنظیم بنانے سے قبل حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اِس کے سترہ بنیادی مقاصد بیان فرمائے۔اِن میں سے دو کا تعلق براہِ راست معاشرے میں امن پیدا کرنے سے ہے۔
مقصد نمبر پندرہ میں بیان فرمایا: چونکہ جماعت کسی خاص گروہ کا نام نہیں۔ چھوٹے بڑے، امیر غریب سب کا نام جماعت ہے اس لئے ضروری ہے کہ انجمن میں غریب و امیر کی تفریق نہ ہو بلکہ غریب و امیر دونوں میں محبت اور مساوات پیدا کرنے کی کوشش کی جائے اور ایک دوسرے کی حقارت اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کا مادہ دلوں سے دور کیا جائے کہ باوجود مدارج کے فرق کے اصل میں سب مرد بھائی بھائی اور سب عورتیں بہنیں بہنیں ہیں۔
اور مقصد نمبرسولہ میں مز ید فرمایا: اس امر کی ضرورت ہے کہ عملی طور پر خدمتِ اسلام کے لئے اور اپنی غریب بہنوں اور بھائیوں کی مدد کے لئے بعض طریق تجویز کیے جائیں اور اُن کے مطابق عمل کیا جائے۔
معاشرے کو پُر امن بنانے کے لیے یہ جامع تدابیر ہیں۔ پچھلے ایک سو سال میں لجنہ نے اِن مقاصد پر عمل کرنے کی پوری کوشش کی ہے اور یقیناً یہ کوشش جاری ہے۔ لجنہ کےدوسرے ملکوں میں قیام سے اِن کاموں کی نوعیت بین الا قوامی ہو گئی اور معاشرے میں امن پھیلانے کے اِن اقدام پر دنیا میں ہر جگہ عمل درآمد ہونے لگا۔
لجنہ کے تمام شعبے کسی نہ کسی رنگ میں معاشرے میں امن قائم کرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔ لجنہ کی اپنی تنظیم آپس میں پیار محبت اور مساوات کو اس طرح فروغ دیتی ہے کہ یہ سب ہماری زندگیوں کا حصہ بن گیا ہے اور یہ ہماری بے حد خوش قسمتی ہے کہ ہم اِس خوبصورت نظام میں بندھے ہیں۔
لجنہ کے دو شعبے خدمت خلق اور تبلیغ خاص طور پر اور فعال طور پر معاشرے میں امن اور ہم آہنگی پیدا کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے کام کرتے ہیں۔
خدمت خلق کا شعبہ معاشرے میں مستحقین کی مدد، بنی نوع انسان کے دکھ درد کو دور کرنے اور نسل، ثقافت اور مسلک سے بالاتر ہو کر معاشرے میں محبت اور ہم آہنگی قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے اور اس کے کاموں میں شامل ہو کر احمدی خواتین اپنے اپنے دائرے میں امن کی فضا پیدا کرنے میں مدد کر رہی ہیں۔
پھر شعبہ تبلیغ کا بنیادی مقصد اسلام اور احمدیت کا صحیح پیغام دوسروں تک پہنچانا ہے۔ یہ کام مختلف اقدامات، اور تقریبات منعقد کرنے کے ذریعے سےحاصل کیا جاتا ہے، جن میں بین المذاہب سمپوزیم، امن سمپوزیم شامل ہیں۔ یہ نقطہ کہ تبلیغ کا پیغام جو کہ حقیقی اسلام کا پیغام ہے مکمل طور پر امن اور ہم آہنگی پر مبنی ہے اور ہمارا مَقُولہ یا ماٹو محبت سب کے لیے، نفرت کسی سے نہیں، اِس بات کا ضامن ہے کہ لجنہ کا یہ کام کُلیۃً معاشرے میں امن پیدا کرنے اور اُسے فروغ دینے کا کام ہے جو احمدی خواتین ایک سو سال سے سر انجام دے رہی ہیں۔
مقررہ نے آخر میں حضور اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا اقتباس پیش کیا۔ جس میں حضور انور نے فرمایا تھا کہ ’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اپنے قریبی رشتہ داروں کا بھی خیال رکھو، اُن سے بھی احسان کا سلوک کرو۔ یہ حسنِ سلوک ہے جس سے تمہارے معاشرے میں صلح اور سلامتی کا قیام ہو گا قریبی رشتہ داروں میں تمام رحمی رشتہ دارہیں… یہ سلوک ہے جو اللہ کے سلامتی کے پیغام کے ساتھ سلامتی پھیلانے والا ہوگا۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اِن تمام تر فیضان سے فائدہ اٹھا کر معاشرے میں امن کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔