خلاصہ تقریر: احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی طرف میرا سفر(انگریزی)
جلسہ سالانہ یوکے کے دوسرے دن کے صبح کے اجلاس مستورات کی آخری تقریر محترمہ قدسیہ دارڈ صاحبہ کی تھی۔ آپ کی تقریر کا موضوع تھا ’’میرا احمدیت کی جانب سفر‘‘۔
آپ نے کہا کہ یہ ۱۹۷۰ء کے موسم خزاں کی بات ہے جب میں نے پہلی بار اسلام احمدیت کے بارے میں سنا۔ لیکن میرا یقین ہے کہ میرا سفر اس سے بہت قبل شروع ہو چکا تھا۔
میں جب پیچھے نظر دوڑاتی ہوں تو یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری زندگی کے اس سفر میں میری راہنمائی کی ہے۔اور میری اسلام کی طرف راہنمائی کی اور مجھے میرا سفر جاری رکھنے میں مدد کی اور میرے اسلام کے علم میں جماعت احمدیہ،حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعودؑاور مہدی معہودؑ اور خلفاء کی تعلیمات کے ذریعے اضافہ کیا۔
میری پیدائش مغربی مڈ لینڈ ز برطانیہ میں ایک متوسط گھرانے میں ہوئی اور میرا پانچ بہن بھائیوں میں چوتھا نمبر ہے۔عقائد کے لحاظ سے مسیحی،لیکن سختی سے ان پر عمل پیرا نہ ہوتے ہوئے میرے والدین نے وہی کیا جو اس وقت اکثر لوگ کیا کرتے تھے۔ جب میں بچی تھی تو مجھے چرچ آف انگلینڈ میں بپتسمہ دیا گیا پھرایک چرچ کے ایک سنڈے سکول میں بھیجا گیا۔
سنڈے سکول میں میں نے بائبل کی کہانیاں،نظمیں اور دعائیں سیکھیں۔ میری ماں مجھے کھانے سے پہلے اور سونے سے پہلے کی دعائیں سکھاتی تھی سکول کی ابتدا بھی مسیحی دعاؤں اور نظموں سے ہوتی تھی۔
میرے خیال میں اپنے بچپن اور ابتدائی جوانی کی عمر میں میں ایک باعمل مسیحی تھی۔ میری سماجی زندگی کلیسا کے کاموں،براؤنیزمیتھوڈسٹ چرچ،بپٹسٹ چرچ کی گرلز بریگیڈاور بعد میں یوتھ کلب کے ساتھ جڑ ی ہوئی تھی۔ گیارہ سے سولہ سال کی عمر کے درمیان میں نے مسیحیت پر عمل پیرا ہونے کا انتخاب کیا۔میں بپتسمہ لینا چاہتی تھی۔لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔اور یہ نہ ہو سکا۔اس کو میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے سفر کی جانب پہلا قدم سمجھتی ہوں۔
اپنی نوجوانی کی عمر میں میں نے چرچ کے کاموں میں شامل ہونا اور میل جول چھوڑ دیا۔اور میں نے باسکٹ بال کھیلنا شروع کر دیا۔میں اپنی پڑھائی کی طرف متوجہ ہو گئی اور اس طرح میں کلیسا سے دور ہوتی چلی گئی۔اگرچہ میں نے جی سی ای ’او‘ لیول میں مذہبی علوم کا بھی انتخاب کیا تھا۔
میں نے اساتذہ کی تربیت کے ایک کالج میں داخلہ لینے کا فیصلہ کیا۔کلیرنگ سسٹم کے ذریعے مجھے ایک ایسے کالج میں نشست ملی جو میری فہرست میں نہیں تھا۔یہ کالج ڈونکاسٹر جنوبی یارکشائر میں تھا۔ یہ دوسرا قدم تھا۔
کالج کے آغاز کے ابتدائی ہفتوں میں میری ملاقات Nevilleسے ہوئی۔ اس نے بھی خود اس کالج کا انتخاب نہیں کیا تھا بلکہ کلیرنگ سسٹم کے ذریعے ہی اس کو بھی نشست ملی تھی۔بعد میں وہ میرا شوہر بن گئےہیں اوروہ اس سفر میں گذشتہ پچاس سال سے میرے ساتھ ہی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ پہلی ملاقات ہم نے حضرت مریم ؑ حضرت عیسیٰؑ کی والدہ کے متعلق بات کی۔میرا خیال ہے کہ اس موضوع کے متعلق ہم کچھ علم اور اپنی مخصوص رائے رکھتے تھے۔ یہ تیسرا قدم تھا۔
جب ہم نے اپنی تربیت مکمل کی تو نویل اور میں نے اساتذہ کی نشستوں پر برمنگھم شہر میں عرضی گزارنے کا فیصلہ کیا تو ہمیں ہینڈ ورتھ میں تعینات کر دیا گیاجو کہ اس وقت بھی برمنگھم کا کثیر ثقافتوں پر مبنی علاقہ تھا۔ یہ چوتھا قدم تھا۔
کچھ ہفتوں بعد نویل نے میری ملاقات ایک ہم منصب استاد سے کروائی جوسکول میں اس کا مربی تھا جہاں وہ کام کرتا تھا اور وہ دونوں ہی چھٹے سال کے طلبہ کو پڑھاتے تھے۔یہ مطیع اللہ ڈار صاحب تھے جو ایک احمدی مسلم تھے اور میرا خیال ہے کہ وہ اس احمدیہ مسلم جماعت برمنگھم کے صدر تھے۔ڈار صاحب نے اسی طرح سے ہمیں تبلیغ کی جس طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ہمیں بعد میں تبلیغ کرنا سکھایا جب وہ یہاں بعد میں یوکے آگئے تھے۔لیکن مجھے اور نویل کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ ڈار صاحب ہمیں بھی اسی طرح تبلیغ کر رہے تھے۔
جب پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو سمجھ آتا ہےکہ یہ نظام کتنا مؤثر ہے۔ڈار صاحب نے مجھے اور نویل کو اپنی گاڑی میں میرے گھر تک چھوڑنا شروع کیا۔ ابتدا میں تو انہوں نے کافی یا چائے کے کپ کے لیے میرے کھرآنے سے منع کیا لیکن کچھ ہفتوں کے بعد انہوں نےاس پیشکش کو قبول کر لیا۔ یہ پانچواں قدم تھا۔
ڈار صاحب کو پہلے سے ہی علم ہو گیا تھا کہ نویل کو تاریخ میں دلچسپی ہے۔چنانچہ رومن تاریخ اور مشرق وسطیٰ میں رومیوں سے شروع ہونے والی بحث جلد ہی حضرت عیسیٰ اور ان کے قرآن میں ذکر کی طرف مڑ گئی۔اس موقع پر میں زیادہ سرگرمی سے اس بحث میں شامل ہو گئی کیونکہ میں نے سکول اور کالج میں مذہبی علم حاصل کیا ہوا تھا۔ اور میں ایک باعمل مسیحی رہ چکی تھی۔
ہم دونوں کو یہ معلومات متاثر کن لگیں۔اور گفتگو کا یہ سلسلہ کئی ہفتوں تک چلا۔میں دیکھ رہی تھی کہ نویل سنجیدگی کے ساتھ ان خیالات کی طرف مائل ہو رہا تھا۔ چنانچہ اس سال جب نویل کی سالگرہ قریب آرہی تھی تو میں نے ڈار صاحب کو کہا کہ کیا وہ ان موضوعات کے متعلق کتابیں مہیا کر سکتے ہیں جن پر ہم گفتگو کرتے ہیں کیونکہ میں یہ کتابیں نویل کو اس کی سالگرہ کے موقع پر تحفہ کے طور پر دینا چاہتی ہوں۔میں نے کتابیں خریدنے کےلیے ان کو دس پاؤنڈ یا اس وقت دس شلنگ دیے۔
یہ جنوری۱۹۷۱ء کی بات ہے۔ہم اسی طرح سے چلتے رہے کہ سکول کے بعد چائے کے ساتھ پر لطف گفتگو اور کتابیں پڑھنا۔نویل اور مجھے لند ن میں مسجد فضل کے بارے میں کچھ پتا چلا اور اگلی چھٹیوں کے دوران ہم نے اس مسجد میں جانے کا فیصلہ کیا۔
ایک نرم خو نوجوان نے دروازہ کھولا۔ اورہمارے آنے کامقصد دریافت کیا اور ہمیں اندر آنے کی دعوت دی۔یہ عطاء المجیب راشد صاحب سے ہماری پہلی ملاقات تھی۔جو اس وقت مسجد کے نائب امام تھے۔انہوں نےکافی وقت ہمارے ساتھ بات کرنے میں گزارا۔ ہمیں چائے اور بسکٹ پیش کیے اور محمود ہال کے اوپر لائبریری دکھائی۔انہوں نے ہمیں وہاں چھوڑا اور نماز پڑھانے چلے گئے اور پھر واپس ہمارے پاس آکر شریک گفتگو ہو گئے۔میرا خیال ہے کہ ہم نے وہاں کئی گھنٹے گزارے۔
جب ہم برمنگھم واپس آئے تو ہم نے یہ گفتگو اور کتابیں پڑھنا جاری رکھا۔ زیادہ تر کتب چودھری سر ظفر اللہ خان صاحب کی تھیں۔
کئی ماہ تک گفتگو، کتابوں اور کافی کا یہ سلسلہ چلتا رہا۔بتدریج میں ایک ایسے مقام پر آگئی جہاں میں نے کہا کہ ’’اب یہ سب قابل فہم ہے‘‘۔یہ بہت ساری باتوں کی وضاحت کرتا ہے۔مذہب کو بامقصد ثابت کرتا ہےاور مذہبی تاریخ اور سائنس کو ایسے انداز میں جوڑتا ہے جو کہ مکمل طور پر منطقی ہے۔اس سب سے یہ بھی وضاحت ہوتی ہے کہ دنیا میں کیوں اتنے سارے مذاہب پر عمل کیا جا رہا ہے۔
میں نے فیصلہ کیا کہ ایک طریقہ ہے کہ جس سے سو فیصد یقین ہو سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا سے خود پوچھا جائے۔میں اپنے مسیحی پس منظر کی وجہ سے جانتی تھی کہ عیسیٰ ؑ نے کہا ہےکہ ’’پوچھو تمہیں بتایا جائے گا، تلاش کرو تو تم پا لو گے‘‘۔ چنانچہ میں نےپوچھنے کا فیصلہ کیا۔اس وقت تک ہم ابھی جماعت کے کسی اور ممبر سے نہیں ملے تھے۔
چالیس روز سے قبل ہی مجھے میری دعاؤں کا جواب مل گیا۔مجھے یقین ہو گیا کہ یہ اسلام احمدیت ہی درست راستہ ہے۔میں یہ نہیں کہہ سکتی کہ مجھے خواب آیا یا کشف ہوا یا کسی بیرونی شکل میں کوئی جواب ملا۔لیکن میں اس بات کو یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ مجھے خدا کی طرف سے یقین دہانی نصیب ہو گئی۔اس کےعلاوہ جو یقین ہے اور جو میری دعاؤں کے جواب کا حصہ ہے وہ یہ ہےکہ گذشتہ پچاس سالوں سے مجھے اس بات(احمدیت کی سچائی ) کا یقین مستحکم ہے۔ اور کبھی کسی شک نے مجھے اسلام احمدیت کی سچائی کے متعلق پریشان نہیں کیا۔
میں یہ تو نہیں کہتی کہ میں بہترین طریق پر خود کو انتہائی مطیع و فرمانبردار اور اپنے آپ کو مکمل طور پر سر نگوں کرنے والی ہوں۔ لیکن میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ یقین مستحکم نے مجھے کبھی نہیں چھوڑا اور یہی وہ بات ہے جس کے لیے میں نے دعا کی تھی۔
بطور اساتذہ ہمارا پہلا سال اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا۔اور گرمیوں کی طویل چھٹیاں قریب آرہی تھیں۔مجھے پتا تھا کہ اب شاید ہماری گفتگو بھی اختتام کو پہنچ جائے۔میں نے ڈار صاحب کو پوچھا کہ اب ہم کیا کریں؟ یہ وہ وقت تھا جب انہوں نے جماعت میں شامل ہونے اور بیعت کرنے کا کہا۔چنانچہ جولائی ۱۹۷۱ء میں ہم باقاعدہ احمدیہ مسلم جماعت میں شامل ہو گئے۔اور برمنگھم میں باقی ممبران جماعت کو ملنا شروع کر دیا۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور ڈاکٹر نذیر احمد صاحب اور ان کی جرمن اہلیہ جولیانہ کو پ مین تھیں جن کو میں آنٹی خدیجہ کے نام سے جانتی تھی۔جب ہماری بیعت منظور ہوئی تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے میرا نام والین قدسیہ رکھا اور میرے شوہر کا نام ناصر وسیم۔اس وقت سے میں قدسیہ ہی ہوں۔
ان گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران ہم میرے شوہر کے آبائی شہر لیڈز چلے گئے اور ایک مہم جو بن چکے تھے۔ہم اس وقت کے صدر جماعت لیڈز کے گھر گئے اور اپنا تعارف کروایا۔بلاشک وشبہ ہمیں کھلی بانہوں اور کھلے دل سے خوش آمدید کہا گیا۔چنانچہ جماعت کے ساتھ ہمارے وسیع پیمانے پر تعارف کا آغاز ہوا۔
اس وقت تک میں اور میرا شوہر شادی شدہ نہیں تھے۔ہم اس کے گھر والوں سے مل کر آئے اور شادی کی منصوبہ بندی کا آغاز کر دیا۔ ۲۱؍اکتوبر ۱۹۷۱ء کو ہم ایک عوامی تقریب میں قانونی طور شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ یہ شاید رمضان کا پہلا دن تھا اور اس موقع پر خاندان کے افراد،ڈاکٹر نذیر اور آنٹی خدیجہ موجود تھیں۔تئیس اکتوبر کو ہم لندن گئے اور مسجد فضل میں ہمارے نکاح کااعلان۔باجوہ صاحب امام تھے جنہوں نے ہمارا نکاح پڑھایا۔ عطاء المجیب راشد صاحب اور عزیز دین صاحب گواہ تھے۔
چونکہ ہمارے خاندان کے افراد مسلمان نہیں تھے اس لیے ہمیں اسلامی شادی کے متعلق کچھ بھی علم نہیں تھا۔ چنانچہ ہم نے راشد صاحب سے صلاح لی۔انہوں نے بتایا کہ جب نکاح کی تقریب ہوتی ہے تو مٹھائیاں اور کھانے کی چیزیں بانٹی جاتی ہیں۔چنانچہ دوبارہ دس پاؤنڈ دیے گئے۔کیونکہ رمضان تھا اس لیے کھانا مغرب کے بعد پیش کیا گیا۔میرے علم کے بغیر اس وقت کی صدر لجنہ یوکے نے لوکل جماعت کے نئے شادی شدہ جوڑوں کو مسجد میں ہمارے ساتھ شامل ہونے کی دعوت دے دی۔میں جانتی ہوں کہ آپ میں سے کچھ یہاں موجود ہیں جو اس وقت نئے شادی شدہ جوڑ وں میں شامل تھے۔مجھے یاد ہے کہ سلام صاحب مجھے مکمل سفید لباس میں دیکھ کر حیران ہوئے تھے کیونکہ دلہن کا یہ لباس برطانوی روایت ہے لیکن پاکستان کے برعکس جہاں یہ بیوہ کا لباس ہے۔انہوں نے مجھے اس بات پر قائل کیا کہ سفید دوپٹے کو سرخ سے تبدیل کر لیں۔ یہ میرا جماعتی اور اسلامی کلچر کے امتیاز کا پہلا موقع تھا۔میں اس کھانے کا تنوع دیکھ کر حیران رہ گئی جو دس پاؤنڈ میں راشد صاحب اور سلام صاحب نے تیار کیا تھا۔بہت سال بعد مجھے اس بات کا علم ہوا کہ وہ اصل میں افطاری تھی جس کے لیے رقم کسی اور نے مہیا کی تھی۔وہ جو کوئی بھی تھے اللہ ان کو اس دعوت کا اجر دے جو انہوں نے ہمیں دی تھی۔
برمنگھم واپسی پر اسلامی تعلیمات کے متعلق ہماری تعلیم پوری جد وجہد سے شروع ہو گئی۔چونکہ یہ رمضان تھا اس لیے ہم روزانہ سکول کے بعد مغرب کی نماز اور روزہ کھولنے کے لیے ڈاکٹر نذیر صاحب کے گھر جاتے جہاں کچھ دوسرے ممبران جماعت بھی پہنچنے کی کوشش کرتے تھے۔یہ وہ وقت تھا جب میں آنٹی خدیجہ کے پاس بیٹھتی تھی اور نماز اور روزہ کے متعلق بنیادی تعلیم حاصل کرتی اور اس کا مطلب جانتی تھی۔ہم نے ایسے بہت سے خوشگوار اوقات گزارے جہاں ہم یہ بات کرتےکہ کن چیزوں کی اہمیت ہے،اسلامی روایات کیا ہیں اور ثقافتی عادات کیاہیں۔یہ ایک ایسی دوستی تھی جو بہت سالوں تک چلی اورآنٹی خدیجہ میری اور میرے بچوں کی زندگی کے انتہائی اہم مواقع پر ساتھ رہیں۔
جب بھی میں اپنے گذشتہ پچاس سالوں پر نظر دوڑاتی ہوں تو میں وہ راستہ دیکھنے میں کامیاب رہتی ہوں۔ یعنی اسلام احمدیت کا راستہ۔
اللہ کے فضل سے یہ سفر جاری رہا اور مجھے یوکے میں جماعتوں، مڈلینڈز اور فرانس میں جماعت کے مختلف حصوں کا جز بننے کی سعادت ملتی رہی۔میں نے مختلف لوگوں سے جو مجھے ملے بہت کچھ سیکھا۔ان کے قصے سننے اور ان کے اللہ اور جماعت سے تعلق کے تجربات میرا ایمان مضبوط کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
میں نے خلافت کو یوکے آتے دیکھا ہے۔اور ان برکات کو جو خلافت یوکے جماعت کے لیے لائی۔اور آپ سب نے جماعت کی وہ ترقی بھی مشاہدہ کی ہے جو خلافت کی راہنمائی میں ہوئی ہے۔ان برکات میں سے ایک جو مجھے ملی وہ خلافت کی وسیع سمجھ بوجھ ہے جو مجھے اپنے ابتدائی ایام میں نہیں تھی۔
اگرچہ میرے سفر کا آغاز کتابوں سے ہوا تھا۔ لیکن اپنی دائمی راہنمائی کے ساتھ خلافت،حضور انور ایدہ اللہ کا نماز کے قیام اور اللہ سے ذاتی تعلق پر زور،قرآن کریم اور حضرت مسیح موعودؑ کی کتب ہی ہیں جو آپ کے دل اور روح تک پہنچتی ہیں۔اور آپ کو یہ سفر طے کرنے کے لیے سہارا مہیا کرتے ہیں۔یہ سب باتیں میں ترجمے کی وجہ سے ہی سمجھ پاتی ہوں۔اور میں دعا کرتی ہوں کہ تمام طاقتوں کا مالک اللہ ان سب پر بہت برکتیں نازل کرے جو ان کتب اور حضور انورایدہ اللہ کے الفاظ کا ترجمہ کرتے ہیں۔جب بھی میں یہ کتب پڑھتی ہوں تو انہی کے ذریعے مجھے علم ہوتا ہے کہ علم و دانش کی دولت میرے لیے موجود ہے۔ سفر کبھی ختم نہیں ہوتا اور راہنمائی کےلیے یہ کتب موجود ہیں۔
سفر کا ایک بڑا حصہ لوگوں سے ملاقات اور وہ چیزیں جو آپ سیکھتے ہیں اور تجربے جو آپ حاصل کرتے ہیں وہ آپ کے ایمان کو مضبوط کرتے ہیں۔اللہ کے فضل سے میں بہت سے ایسے افراد جماعت سے ملی ہوں جنہوں نے میرے ایمان کو مضبوط کیا ہے۔میں خوش قسمت تھی کہ میں بہت سی جماعتوں میں قیام پذیر رہی ہوں۔ اور ہر بار میں نے کوئی نئی چیز ہی سیکھی ہے۔نئے ایمان افروز واقعات سنے ہیں۔ان کی اور اپنی دعاؤں کو قبول ہوتے دیکھا ہے۔ میں سمندر پار جماعتوں کا بھی حصہ رہی ہوں اور جہاں بھی میں رہی ہوں میں نے حیرت انگیز جہاندیدہ نظام جماعت احمدیہ سے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔آپ جتنا زیادہ سیکھیں،تجربہ حاصل کریں،عقل و دانش کو سمجھیں اور خدا کا سہارا حاصل کریں اس طریق پر جس پر اس نے اپنا فضل کیا ہے تو اتنا ہی زیادہ آپ کا ایمان مضبوط ہوتا ہے۔
میں کوئی ایسی شخصیت نہیں ہوں جس کو سچے خواب آتے ہوں یا کوئی خاص وحی ہوتی ہو۔لیکن میں نے ہزاروں چھوٹی،غیر اہم چیزوں کے ذریعے دیکھا ہےکہ کیسے اللہ حفاظت کرتاہے،مدد کرتا ہے او ر کیسے ان کی راہنمائی کرتا ہے جو اس پر یقین کرتے ہیں اور اس کی اطاعت کرتے ہیں۔وہ ہماری دعائیں سنتا ہے اور ان کا جواب دیتا ہے۔اسلام ہماری حفاظت کے لیے ہے۔ اور اللہ ہماری مدد کرنا چاہتا ہے۔اگر آپ دیانتداری سے اللہ پر یقین رکھیں اور اس کی طرف متوجہ ہوں وہ ضرور رد عمل دیتا ہے اوراس کا رد عمل لا متناہی ہوتا ہے۔چنانچہ میرا سفر نہ ختم ہونے والا ہے اور میں دیکھتی ہوں نئی چیزیں خدا پر میرے ایمان کو بڑھاتی ہیں۔
مجھے یہ بات بھی حیرت میں مبتلا کرتی ہے کہ ہمارے چالیس سال کے اکٹھے سفر کے بعد جب میرے شوہر کواللہ نے اپنے پاس بلا لیا تا کہ اب وہ اپنا سفر اکیلے جاری رکھے وہ تب بھی حضرت مریمؑ، حضرت عیسیٰ ؑ کی والدہ کے متعلق سوچ رہا تھا، کیونکہ وہ قرآن کریم کی سورہ مریم کی اپنی تفسیر لکھ رہا تھا۔
اللہ کرے کہ اس کی رحمت اور عفو ہمیشہ ہمارے شامل حال رہے اور وہ ہمیں اپنے قرب میں آنے کے لیے ہماری راہنمائی کرے۔