عالمی سیاسی منظر نامہ میں الفضل کا کردار
اخبارات کی دنیا میں الفضل کو منفرد مقام حاصل ہے۔جماعت احمدیہ کےمرکزی ترجمان کی حیثیت سے کلیدی کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ گذشتہ ایک سو دس سال سے الفضل کی سماجی اورسیاسی خدمات کی ایک طویل فہرست ہے جو سینکڑوں صفحات کی متقاضی ہے۔ الفضل کا آغاز مالی تنگی،افرادی قوت کی کمی،مہارت اور تجربہ کی کمی سے عبارت نظر آتا ہے لیکن دوسری طرف خدا کی تائید و نصرت اور حضرت اقدس مصلح موعودؓ کا لازوال عزم و استقلال ایسے مضبوط قرائن تھے جنہوں نے اس ناتواں پودے کو طاقتور، دور دور تک جڑیں رکھنے والا با ثمر اور با اثر درخت بنا دیا۔
اخبار کی تازگی،قرب زمان و مکان اور سچائی ہی اِس کاحُسن ہیں۔ موجودہ زمانے میں اخبارات اور نیوز چینلز ہی قوموں کی ذہن سازی کرتے ہیں۔ایک اچھے اخبار کی نشانی ہے کہ حقیقت پسند ہو اورذمہ دارانہ رپورٹنگ کرے نہ کہ محض سنسنی پھیلائے۔دنیائے صحافت میں الفضل کی یہ نمایاں خوبی ہے کہ اس نےکبھی سچائی کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا،کوئی دنیوی مصلحت آڑے نہیں آئی۔کسی سیاسی پروپیگنڈا کو ترویج نہیں دی گئی۔ بلکہ ہر موقع پر ملکی اور قومی مفاد میں اقوام عالم کی راہنمائی کی۔اسلامی تعلیم کی روشنی میں لوگوں کو شعورو فہم دیا۔خاکسار کے ناقص علم کے مطابق یہ خوبی دنیا کے کسی اور اخبار میں نہیں۔دنیا کے بڑے سے بڑے چینل اور بزعم خُود غیر جانبدار اخبار بھی کسی نہ کسی خاص مقصد اور مطمح نظر کو فروغ دینے والے ہیں۔
سیاسی امور میں الفضل کی اہمیت کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’میں تو حیران ہوتا ہوں کہ بعض دوست شکایت کرتے ہیں کہ الفضل میں سیاسی مضامین شائع ہوتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اگر وہ دنیا کی سیاسیات سے واقف نہیں ہوں گے تو اس کی اصلاح کیسے کریں گے۔ کیا سیاست قرآن کریم کا حصہ نہیں؟ ہاں اگر کوئی بات غلط شائع ہو تو اعتراض ہو سکتا ہے۔ ایک دوست کو شکایت ہے کہ جاپان کے حالات اخبار الفضل میں کیوں درج ہوتے ہیں۔ اور یہی لوگ ہیں جن کو میں کنویں کے مینڈک کہتا ہوں۔فکر تو یہ ہونی چاہئے کہ جاپان کے حالات تو شائع ہوتے ہیں فلپائن کے کیوں نہیں ہوتے؟ روس کے کیوں نہیں ہوتے؟ یہ غم تمہیں کھائے جانا چاہئے کہ کیا یہی ہماری پہنچ ہے کہ ہمارے اخبار میں صرف جاپان کے حالات ہی شائع ہوتے ہیں۔ ہمارے دوستوں کو اس پر گلہ ہونا چاہئے کہ جو نہیں چھپا۔ نہ کہ اس پر جو چھپ رہا ہے۔انہیں سوچنا چاہئے کہ کیا جاپان کی اصلاح ہمارا فرض نہیں؟ اگر ہے تو اس کے حالات کا علم نہ ہوگا تو ہمارے دل میں اس کے لیے دردکس طرح پیدا ہوگا اور ہم اس کی اصلاح کس طرح کر سکتے ہیں۔ پس ہماری جماعت کو اپنے فرائض کو سمجھنا چاہئے اور یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں دنیا کی اصلاح کے لیے پیدا کیا ہے۔ ( خطبات محمودجلد ۱۸ صفحہ۱۰)
بیسویں صدی کا نصف اول خصوصاً ہندوستان اور عموماً ساری دنیا میں ایک تہلکہ خیز اور ہنگامہ برپا کرنے والا دور تھا۔ ہندوستان میں انگریزوں کےقدم جمانے کے بعد سیاسی جماعتوں اور سیاسی شعور کا پروان چڑھنا،تعلیمی اداروں کی نشوونما،جنگ عظیم اول اور دوم،تحریک خلافت،ترک موالات،شدی تحریک،ہندوستانیوں کے حقوق،تقسیم ملک،کشمیریوں کے حقوق،بعد ازاں قیام و استحکام پاکستان وغیرہ وغیرہ۔الغرض الفضل کی پیدائش ایسے ماحول میں ہوئی جب ہر طرف ایک سیاسی ہلچل اور نظریاتی ہیجان کی کیفیت تھی۔
مذہبی پس منظر رکھنےاورقادیان جیسی دور دراز بستی سے جاری ہونے کے با وجود اس نوزائیدہ اخبار نے اس کٹھن دور میں اپنا لوہا منوایا۔ ہر اہم سیاسی واقعہ، ملکی اور عالمی حالات، علاقائی اور عالمی جنگوں، برصغیر کے سیاسی مد و جزر،عرب اورافریقی ممالک کے حقوق کی جنگ، نظام نو میں عالمی سطح پرہونے والی ناانصافیوں میں الفضل نے خلافت کے زیر سایہ ہمیشہ جاندار اورشاندار کردار ادا کیا۔
اتحاد امت اور مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت
مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے ہندوستان میں مسلمانوں کا اتحاد نہایت اہم تھا۔آل انڈیا مسلم لیگ ۱۹۰۶ء میں قائم تو ہوئی مگر اس کی حالت بہت کمزورتھی اور اکثر مسلمان لیڈر اور علماء اس کے مخالف تھے۔اتحاد امت کے لیے حضرت مصلح موعودؓ نے آغاز سے ہی مسلم لیگ کی ہر ممکن مالی اور عددی معاونت کی۔ ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ ’’جب مسلم لیگ قائم ہوئی تو اس کی مالی حالت اتنی کمزور تھی کہ انہیں اپنے جلسے کرنے کے لیے بھی روپیہ نہیں ملتا تھا اور ہمیشہ میں انہیں مدد دیا کرتا تھا‘‘(الفضل ۱۴؍جون ۱۹۵۶ء)آپؓ کی اس مہم میں الفضل نے بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا۔۱۴؍نومبر ۱۹۲۳ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے لاہور میں مسلمانوں میں اتحاد اور تعاون کے موضوع پر ایک لیکچر دیا جسے الفضل نے لوگوں تک پہنچایا۔ آپؓ نے فرمایا:مسلمان اپنے تئیں مضبوط کریں۔ اس کے لیے مسلم لیگ جیسی تنظیموں کو قائم کرنا اور مضبوط کرنا ضروری ہےتاکہ مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ ہو سکے۔(ماخوذ از پیغام صلح،انوار العلوم جلد ۷صفحہ ۳۱۴)
الفضل کی کوششوں کا اعتراف اغیار نے بھی کیا۔ اخبار مشرق(گورکھپور) نے لکھا :الفضل قادیان یہ پرچہ سہ روزہ قادیان سے نکلتا ہے اور سلسلہ احمدیہ کا آرگن ہے۔آجکل مسلمانان ہند کے متعلق اس کا نقطہ خیال بہت صحیح ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ہر انجمن اسلامیہ اور ہر مسجد میں اس کی رسائی ہو۔عقائد سے کوئی واسطہ نہ رکھو،نہ ان کو پڑھو۔صرف اتحاد بین المسلمین کے مسئلہ کو دیکھو وہ کیا کہتا ہے۔(الفضل ۲؍ستمبر ۱۹۲۷ء)
۱۹۲۷ءمیں ہندوستانیوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے برطانوی حکومت کی طرف سے سائمن کمیشن برصغیر بھجوایا گیا۔ ابتدا میں کانگریس اور مسلم لیگ نے اس کا بائیکاٹ کیا۔ الفضل نے اس بائیکاٹ کی مخالفت کی اور مسلمانوں کے سامنے تجویز رکھی کہ حکومت کے سامنے اپنے مطالبات پیش کریں تاکہ ان کو حقوق اور مراعات مل سکیں۔ (الفضل ۲۹؍نومبر۱۹۲۷ء)کمیشن کی رپورٹ کے بعداس کی تجاویز پرحضرت مصلح موعودؓ نے ایک کتاب ’’سائمن رپورٹ پر تبصرہ ‘‘بھی تصنیف فرمائی۔اس کتاب کی اشاعت میں بھی الفضل نے کردار ادا کیا۔( الفضل نومبر ۱۹۳۰ء )
۱۹۲۸ء میں پنڈت جواہر لال نہرو کی سربراہی میں نہرو رپورٹ سامنے آئی جس میں مسلمانوں کے حقوق کی تلفی کا مقصد پوشیدہ تھا۔حضرت مصلح موعودؓ نے اس رپورٹ پر مفصل مضمون ’’نہرو رپورٹ اور مسلمانوں کے مصالح‘‘تحریر فرمایا۔ الفضل نے یہ مضمون اکتوبر ۱۹۲۸ء سے نومبر۱۹۲۸ءتک سات قسطوں میں قارئین تک پہنچایا۔اس مضمون میں آپ ؓنے مسلمانوں کے اصولی مطالبات پر روشنی ڈالی۔
تحریک آزادی کشمیر میں الفضل کا کردار
کشمیر کی آزادی کے لیے خلافت کی قیادت میں الفضل نے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا۔حضرت مصلح موعودؓ نے اہل کشمیرکی زبوں حالی اور کس مپرسی کو دور کرنے کے لیے انتھک کاوشیں فرمائیں۔ آپؓ نے کشمیریوں کے حالات کی بہتری کے لیے تین اہم مضامین تصنیف فرمائے۔ الفضل نےجون اور جولائی ۱۹۳۱ءمیں یہ مضامین شائع کیے۔
حضرت مصلح موعودؓ کی کوششوں سےہی کشمیر کے متعلق شملہ میں پہلا اجلاس ہوا۔جس میں کشمیر کمیٹی کی بنیاد رکھی گئی۔اس اجلاس میں آپؓ کو بطور صدر کمیٹی منتخب کیا گیا۔ آپؓ کے ارشاد پر ہندوستان کے طول و عرض میں ۱۴؍اگست ۱۹۳۱ءکو یوم کشمیر منایا گیا۔الفضل نے حضرت صاحب ؓکے پیغامات، ارشادات اور احکامات کی ہندوستان کے اکناف تک خوب اشاعت کی۔کشمیریوں کے حقوق کے لیے خوب مضامین شائع کیے۔ حضرت مصلح موعودؓ اور الفضل کی ان خدمات کو ہندوستان کے اخبارات اور اہل علم نے خراج تحسین پیش کیا۔انہی کوششوں سے کشمیر کے راجہ نے ابتدائی طور پر نومبر۱۹۳۱ء میں عوام کو ابتدائی حقوق آزادی دینے کا اعلان کیا۔قیام پاکستا ن کے بعد کشمیر کی آزادی کے لیے فرقان بٹالین کے قیام اور کارناموں میں بھی الفضل کی خدمات نمایاں ہیں۔
قیام و استحکام پاکستا ن
قیام پاکستان کی کوششوں میں حضرت مصلح موعودؓ کی قیادت میں الفضل کے کردار کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔تحریک آزادی کے آغاز سے قیام پاکستان تک الفضل نے ہر موڑ پر اپنا کردا ر ادا کیا جس میں قرارداد لاہور کی منظوری،مسلمانوں کو مسلم لیگ کےجھنڈے تلے جمع رکھنااور جداگانہ انتخابات پر زور دینا شامل ہے۔ جب ہرطرف سے مسلم لیگ اور قائد اعظم کی مخالفت ہو رہی تھی تو روز نامہ الفضل مسلم لیگ کی حمایت میں مصروف تھا۔
۱۹۴۵ءکے انتخابات میں الفضل نے فیصلہ کن کردار ادا کیا جب بہت سے مسلمان علماء اور اخبارات قائد اعظم اور مسلم لیگ کے مخالف کانگریس کے ساتھ کھڑے تھے۔الفضل نےاہلیان ہندوستان اور خصوصاً مسلمانوں کی انتھک راہنمائی کی کہ مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت مسلم لیگ کو ووٹ دینے میں ہی ہے۔الفضل نے حضرت مصلح موعوؓدکا پیغام ۲۲؍اکتوبر۱۹۴۵ء کو مفصل طور پر شائع کیا جس میں آپ نے جماعت کو حکم دیا کہ’’وہ اپنی تمام حمایت،تعاون اور قوت مسلم لیگ کے پلڑے میں ڈال دیں‘‘۔ نیز دیگر مسلمانوں کو بھی ایسا ہی کرنے کی تاکید فرمائی۔۱۹۴۶ء کے آخر میں بھارت میں فرقہ وارا نہ فسادات پھوٹ پڑے اور ہندوؤں کی جانب سے مسلمانوں پر حملے ہونے لگے۔ اس پر الفضل نے بہت سے مضامین شائع گئے۔ اس موقعہ پر کثرت سے الفضل میں دعا کی درخواستیں بھی شائع کی گئیں تا کہ یہ فسادات ختم ہوں اور مسلمانوں کو سکھ چین نصیب ہو۔
برصغیر کی تقسیم کے وقت پنجاب کی تقسیم کےخلاف بھی الفضل نے بھر پور مہم چلائی۔ اس سلسلہ میں ایک ٹیلی گرام کا متن بھی شائع کیا گیا جوپنجاب کی تقسیم کے خلاف برطانوی وزیر اعظم کوبھجوائی گئی تھی۔ اس میں پنجاب کی تقسیم کو غیر طبعی قرار دیا گیا۔الفضل سکھوں سے بھی اپیلیں کرتا رہا کہ وہ پنجاب کی تقسیم کے مطالبہ سے دستبردار ہو جائیں۔
تقسیم ہند کے وقت قائداعظم محمد علی جناح نے ’’پاکستان فنڈ‘‘کا اجرا کیا تاکہ مہاجرین کےمسائل کا حل کیا جائے۔الفضل نے اس کی بھر پور حمایت کرتے ہوئے اس کے حق میں تحریک چلائی اور احمدیوں سے بالخصوص اور مسلمانوں سے بالعموم اس میں بڑھ چڑھ کر چندہ دینے کی اپیل کی گئی۔جولائی۱۹۴۷ء میں صوبہ سرحد میں جب استصواب رائے کا فیصلہ کیا گیا تو اس پر بھی الفضل نے مسلمانوں اور مسلم لیگ کے حق میں مضامین لکھے۔غرض اگر ہم ۱۹۴۷ء کے الفضل اخبارات کا جائزہ لیں تو ہمیں کثرت سے مسلم لیگ کے حق میں اور کانگریس کی بعض پالیسیوں کی مذمت میں مضامین ملیں گے۔
الفضل وہ پہلا اردو اخبار تھا جو تقسیم ہند کے بعد ہندوستان سے پاکستان منتقل ہوا۔قیام پاکستان کے بعد حضرت مصلح موعودؓنے پاکستان کے مستقبل کے بارے میں لیکچرز دیے۔یہ پر معارف اور نہایت قیمتی لیکچرز الفضل کے ذریعہ سے ہی عوام الناس اور ار باب حل وعقد تک پہنچے۔ ابتدا میں ہی حکومت نے ملکی معاملا ت چلانے کے لیے قرض لینے کا ارادہ ظاہر کیا۔اس سلسلہ میں الفضل نے ۱۷؍اگست ۱۹۴۷ء کے شمارہ میں ’’کیا پاکستان ہندوستان سے قرض لے گا‘‘کے عنوان سے تبصرہ کیا کہ گوحکومتیں چلانے کے لیے بعض اوقات قرض لینا پڑتا ہے لیکن ہماری رائے میں قرض نہ ہی لیا جائے تو بہتر ہے۔حکمران طبقہ نے اس انتباہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا جس کا نتیجہ آج ہم سب دیکھ رہے ہیں۔
پاک بھارت جنگیں اور ہر اول دستہ کا مجاہد الفضل
اگرچہ حضرت مصلح موعودؓ کی خداداد لیاقت اور ذہانت الفضل کے ذریعہ پاکستان کے حکمران طبقہ کو میسر رہی لیکن متعدد سیاسی اور جغرافیائی مجبوریوں اور مادی حرص کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے سیاسی حالات ساز گار نہ رہے۔ دونوں ملکوں میں متعدد جنگیں بھی ہوئیں۔ خطرناک جنگی حالات میں جہاں احمدی فوجیوں نے کارہائے نمایاں سر انجام دیے جو تاریخ پاکستان کا درخشندہ باب ہیں وہاں روز نامہ الفضل نے بھی بھر پور کردار ادا کیا ہے۔
۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ
ستمبر ۱۹۶۵ء میں پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ ہوئی۔ جنگی حالات میں الفضل نے احباب جماعت کو بار بار مختلف رنگ میں پاکستانی افواج کی فتح کے لیے دعا کرنے کی طرف توجہ دلائی۔اس سلسلہ میں ۷؍ستمبر ۱۹۶۵ء کے الفضل نے حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ کی طرف سے ایک اعلان بعنوان ’’کشمیر آپ کی دعاؤں کا متقاضی ہے‘‘نمایاں کر کے شائع کیا۔
جنگ کی خبر ملتے ہی حضرت مصلح موعود ؓ نے صدر پاکستا ن ایوب خان کو پیغام ارسا ل فرمایا جس کو الفضل نے ۸؍ستمبرکے شمارے میں اہتمام سے شائع کیا۔آپؓ نے فرمایا:’’میں اپنی طرف سے اور جماعت احمدیہ کی طرف سے آپ کو دل وجان کے ساتھ مکمل تعاون اور مدد کا یقین دلاتا ہوں۔اس نازک موقع پر ہم ہر مطلوبہ قربانی بجا لانے کا عہد کرتے ہیں۔‘‘
جنگ کی خبر موصول ہونے کے بعد اہل ربوہ نے ظہر کے وقت مسجد مبارک میں اکٹھے ہو کر پاکستان کی کامیابی اور فتح کے لیے دعائیں کیں۔ اس دعائیہ مجلس کی رپورٹ الفضل نے ۸؍ستمبر ۱۹۶۵ء کے شمارے میں شائع کی۔ جنگ کے موقع پر حضرت مصلح موعودؓ کا جو پیغام احباب جماعت کے نام الفضل نے ۱۰؍ ستمبر کی اشاعت میں شائع کیا اس میں آپؓ نے فرمایا: ’’میں پاکستا ن کے تمام احمدیوں کو یہ ہدایت دیتا ہوں کہ وہ اپنی شاندار روایات کو قائم رکھتے ہوئے حکومت پاکستان سے ہر طرح تعاون کریں اور استحکام پاکستان کے لیے ہر قسم کی قربانیاں بشاشت کے ساتھ پیش کرتے ہوئے حب الوطنی کا ثبوت دیں۔‘‘
۱۴؍ستمبر کے شمارے میں قومی دفاعی فنڈ کے قیام کی خبر اور جماعت کی طرف سے ایک لاکھ روپے کی ادائیگی کا اعلان کیا گیا۔جنگ کے دوران روزانہ کی بنیاد پر الفضل میں پاکستانیوں کاحوصلہ بڑھانے والی خبریں،حکومت کے اعلانات و پیغامات اور جنگ کے حالات بیان کیے جاتے رہے۔
۱۹۷۱ءکی پاک بھارت جنگ اور بنگلہ دیش
پاکستا ن کے سیاسی حالات ۱۹۶۰ءکی دہائی کے اواخر سے ہی مخدوش تھے۔ ملک کے دو نوں حصوں کے اندر سیاسی کشمکش تھی۔ ۱۹۷۰ءکے ملکی الیکشنز میں ملک کے دونوں حصوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی کامیابی سے بد اعتمادی کی فضا پیدا ہو گئی۔ اسی دوران بھارت نے پاکستان پر حملہ کی تیاری شروع کر دی۔اس نازک مرحلہ پر الفضل نے ملکی دفاع کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا پیغام وسیع پیمانے پر لوگوں میں پھیلایا کہ ملک اور اسلام کی حفاظت کے لیے احمدی اپنی جان مال اور ہرقسم کی مادی قربانیوں کے لیے تیار رہیں۔ نیز فرمایا کہ دعاؤں سے بھی اپنے ملک،بھائیوں اور حکومت کی خدمت کریں۔(الفضل ۳۰؍نومبر ۱۹۷۱ء ) دوران سال ملکی حالات مزید بگڑ گئےاور عملی طورپر مشرقی پاکستان میں فسادات شروع ہو گئے۔
اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے پاکستا ن کے حالات کو جنگ احزاب سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم سب کا فرض ہےکہ ہم اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے اس بات پر یقین رکھیں کہ ہمار ا خدا زبر دست قوتوں والا خدا ہے۔وہ کبھی مومنوں کا ساتھ نہیں چھوڑتا۔(الفضل ۲۸؍نومبر۱۹۷۱ء)
۳؍دسمبر۱۹۷۱ء کو ہندوستان نے مغربی پاکستا ن پر حملہ کر دیا۔ الفضل نےصدر پاکستان یحییٰ خان کا اعلان شائع کیا کہ دشمن نے ایک مرتبہ پھر ہم پر حملہ کردیا ہے۔اب و ہ گھڑی آن پہنچی ہے کہ دشمن کو منہ توڑ جواب دیا جائے۔۹؍دسمبر ۱۹۷۱ءکو صدرپاکستان نےقومی دفاعی فنڈ قائم کیا۔ الفضل نے اس کا ذکر کرتے ہوئے پاکستانیوں سے وسیع پیمانے پر اپیل کی کہ قوم و ملک کے دفاع کے لیے تمام لوگ آگے آئیں اور اپنی فوج کے ہاتھ مضبوط کریں۔(الفضل۱۰؍دسمبر۱۹۷۱ء)
الفضل نے سر ورق پر ناظر اعلیٰ مکرم مرزا منصور احمد صاحب کے پیغام کو شائع کیا کہ ’’ہر پاکستانی اور خصوصاً ہر احمدی کافرض ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ اسلام کے اس مقدس قلعہ پاکستان کی حفاظت کے لیے نہ صرف دعاؤں میں لگ جائے بلکہ ہر قسم کی قربانیا پیش کرنے کے لیے میدان عمل میں آ جائے‘‘۔نیز جماعت کی طرف سے ایک لاکھ پچیس ہزار روپے کا چیک بھی اس فنڈ میں حکومت کو پیش کیا۔ (الفضل۱۱؍دسمبر۱۹۷۱ء)
سقوط ڈھاکہ کے بعدپاکستان میں بہت مایوسی اور حوصلہ شکنی کی فضا تھی۔ اس موقع پر الفضل نے ایک مرتبہ پھر پاکستانی قوم کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے پُر حکمت اور جوش دلانے والے الفاظ میں حوصلہ دیا۔ آپ نے فرمایا:’’مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا،اس کے باوجودجس انتہائی جدوجہد کی ضرورت ہے اس میں ایک ذرہ بھر کمی نہیں آنی چاہیے اور نہ دلوں میں مایوسی اور اداسی پیدا ہونی چاہیے۔بلکہ اللہ پر توکل اور زیادہ بڑھنا چاہیے۔‘‘(الفضل۲۳دسمبر۱۹۷۱)
مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے میں بہت سے سیاسی اور اقتصادی عوامل کار فرما تھے۔یہ ایک طویل بے چینی اور اختلاف کا نتیجہ تھا۔ اس موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ایک بہت بصیرت افروز خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپ نے اسلام کی ابتدائی جنگوں میں مسلمانوں کی کمزوری کے وقت تائید الٰہی کی آمد کا ذکر فرمایااور نہایت احسن پیرائے میں مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلائی کہ ان کے اپنے اعمال اسلام کی تعلیم کے منافی ہیں جس کی بنا پر اس موجودہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ (الفضل ۱۱؍مارچ ۱۹۷۲ء)
عالمی جنگوں کے تناظر میں الفضل کی ذمہ دارانہ رپورٹنگ۔ پہلی عالمی جنگ
۱۹۱۴ء میں پہلی عالمی جنگ کا آغاز آسٹریا کے ولی عہد اور ان کی اہلیہ کے قتل سے ہوا۔۲۸؍جولائی ۱۹۱۴ء کی الفضل نے ان خبروں کو درست اندا ز میں رپورٹ کیا۔ اگست کی الفضل میں’’ڈینیوب کے پانیوں میں آگ‘‘کے موضوع سے مضامین شائع کیے جن میں یورپ کے سیاسی مقاصد،حالات اور جنگ کی ابتدائیات پر بحث کی اور عالمی جنگ کے آثار لکھے۔اگست میں ہی جنگ کی ابتدا کے ساتھ بعد میں آنے والے شماروں میں جنگ کی خبریں بیان ہوتی رہیں۔ تازہ خبریں، الاخبار والآراء، جنگ یورپ،یورپ کی خبریں،ہنگامہ یورپ،تازہ برقی خبریں کے عناوین کے تحت عالمی حالات اور عالمی جنگ کی خبروں اور تبصروں کو مختصرطور پر بیان کیا جاتا رہا۔
ہندوستان اس وقت برطانوی عمل داری کے تحت تھا۔ ترکی کی مسلمان خلافت برطانیہ کے مخالف اتحاد میں شامل تھی۔ اس موقع پر ہندوستانی مسلمان عجیب مخمصہ کا شکار تھے کہ وہ برطانوی حکومت کا ساتھ دیں یا مسلمان ملک ترکی کا۔خلافت احمدیہ کے زیر سایہ الفضل نے یہاں بھی درست راہنمائی کی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے ایک مضمون تصنیف فرمایا کہ برطانوی حکومت کی عملداری میں رہتے ہوئے حکومت وقت کی اطاعت اور مدد ہم سب کا مذہبی فرض ہے۔ آپؓ نے اس جنگ میں ترکی کی شمولیت کوبے سبب قرار دیا۔
انگریزی حکومت کی مدد کے لیے حکومت کی طرف سے انڈین امپیریل ریلیف فنڈ قائم کیا گیا۔ اس فنڈ کے لیے چندہ کی اپیل کرتے ہوئے الفضل نے حضرت صاحب کا پیغام ۶؍ستمبر۱۹۱۴ء کو شائع کیا اور احمدی و غیر از جماعت احباب سے چندہ دینے کی اپیل کی۔ اس اپیل پر بہت سے احمدیوں نے لبیک کہا۔جنگ کے اختتام پر الفضل کی طرف سے۱۹؍نومبر۱۹۱۸ءکے شمارے میں حکومت برطانیہ کو مبارک باد پیش کی گئی۔اس موقع پر قادیان میں جشن کا بھی اہتمام کیا گیا۔ جس کی خبر سر ورق پر ۳؍دسمبر کے شمارے نے شائع کی۔
جنگ عظیم کے اختتام کے بعد عالمی امن کے قیام کے لیے الفضل نے د س اہم تجاویز۷؍جنوری۱۹۱۹ء کے شمارہ میں پیش کیں جس میں اقوام عالم میں ایک انجمن کا قیام، چھوٹے ممالک کے حقوق کی حفاظت اور آزادی، جنگی آلات کا خاتمہ،غربت کا خاتمہ جیسی اہم تجاویز دی گئیں۔
دوسری عالمی جنگ
دوسری جنگ عظیم کی بنیاد اگرچہ پہلی جنگ عظیم کے خاتمہ پر ہونے والی ناانصافی نے رکھ دی تھی مگر عملاً جنگ کا آغاز۱۹۳۹ء میں ہوا۔۴؍ستمبر۱۹۳۹ءکے شمارہ میں حضرت مصلح موعودؓ کاوائسرائے ہند کے نام پیغام شائع ہیں۔آپؓ نے فرمایا:’’میں جماعت احمدیہ کی طرف سے پورے تعاون اور ہر مدد کا وعدہ کرتا ہوں۔گزشتہ جنگ کے موقع پر کئی ہزار احمدیوں نے اپنی خدمات پیش کی تھیں…میں امید کرتا ہوں کہ موجودہ جنگ میں میری جماعت پہلے سے بھی زیادہ خدمت کر سکے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس جنگ میں حکومت برطانیہ کو فتح عطا فرمائے ‘‘
بعض معاندین نے جنگی ایام میں مشہور کیا کہ جماعت احمدیہ جہاد کی مخالف ہے اس لیے حکومت کی مدد نہیں کر رہی۔ اس پر الفضل نے ۲۰؍ستمبر ۱۹۳۹ء کے شمارہ میں’’جماعت احمدیہ جہاد بالسیف کے غلط مفہوم کی منکر ہے ‘‘کے عنوان سے دندان شکن جواب دیا۔پھر اسی موضوع پر ۲۱؍اکتوبر کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا ایک خطبہ شائع کیا۔الفضل نے ان ایام میں حضرت مصلح موعودؓ کا پیغام متعددبار شائع کیا کہ احمدی نوجوان ٹیریٹوریل فوج میں بھرتی ہوں۔ دوران جنگ حضرت مصلح موعودؓ نے مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لیے دعا کی تحریک فرمائی جس کو الفضل نے پرزور انداز میں احباب تک پہنچایا۔(الفضل۳؍جولائی۱۹۴۲ء)
الفضل نے ایک موقر اخبار کے طور پر عالمی حالات کی ذمہ دارانہ رپورٹنگ کو جاری رکھا۔الفضل میں’’ہندوستان اور ممالک غیر کی خبریں‘‘،’’مغربی سیاست میں اتار چڑھاؤ‘‘۔’’اہم غیر ملکی واقعات‘‘۔’’تازہ اور ضروری خبروں کا خلاصہ‘‘کے عنوان کے تحت اہم خبروں پر خلاصہ اور تبصرہ کیا جاتا تھا۔عالمی سیاست دانوں کے بیانات اور جنگ کے دوران ہندوستان کے حالات کی بہتری کی تجاویز بھی شائع کی جاتی رہیں۔
اس جنگ کا اختتام امریکہ کی طرف سے جاپانی شہروں پر ایٹم بم کے وحشیانہ حملوں سے ہوا۔ حضرت مصلح موعودؓ کے الفاظ میں الفضل نے اس دردناک فعل کی سخت مذمت کی کہ باوجود مخالف افواج کے مظالم کے، ایسا حملہ کرنا جس میں لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن جائیں انسانیت کے خلاف ہے۔(الفضل ۱۶؍اگست ۱۹۴۵ء)
مظلوم مسلمانوں و دیگر قوموں کے حقوق کامحافظ
دنیا میں جب بھی کسی قوم پر ظلم و تعدی کا بازار گرم ہوا یا ناحق کسی پر چڑھائی کی گئی،الفضل نے ہمیشہ خلافت کے زیر سایہ ظلم و زیادتی کی مذمت کی اور امن اور انصاف قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ۱۹۹۲ءمیں بوسنیا کے مسلمانوں پرسربین عیسائیوں کی طرف سے جنگ کشی کی گئی اور کثیر تعداد میں مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی۔ امام جماعت احمدیہ نے اس ظلم کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور یورپی اقوام کواس ظلم کو روکنے کی اپیل کی نیز احمدیوں کو مظلوم بوزنین لوگوں کی مدد کی تحریک کی۔
الفضل نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کا پیغام جلی حروف میں شائع فرمایا کہ ’’مظلوم بوزنین بھائیوں سے محبت کا سلوک کریں‘‘اس پیغام میں حضور نے فرمایا:آج کی عصر حاضر کی تاریخ میں کوئی قوم ایسی نہیں جس پر ایسا ظلم کیا گیا ہو جیسا بوزنین پرظلم کیا گیا ہے اور جس ظلم میں یونائیٹڈ نیشنز شامل ہو گئی ہیں…ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں ورنہ یورپ کی کوئی اور قوم اگر بوزنین کی جگہ ہوتی جو عیسائی ہوتی یا دہریہ ہوتی تو ناممکن تھا کہ ا س کے ساتھ یہ سلوک کیا جاتا…اپنے مظلوم بوزنین بھائیوں سے محبت کا سلوک کریں،انہیں اپنائیں،انہیں اپنے خاندانوں کا حصہ بنائیں۔ا ن کی ہر طرح سے خدمت کریں۔ان کے دین کو بچائیں۔ان کے کلچر کو بچائیں‘‘(الفضل انٹرنیشنل ۲۱؍ جنوری ۱۹۹۴ء)
وقتاً فوقتاً الفضل انٹرنیشنل نے اپنے اداریہ میں بھی بوزنین مسلمانوں کے لیے دعاؤں اور ہمدردی کی تحریک کی۔ ۱۹۹۵ءکی ایک مجلس عرفان میں ایک سوال کے جواب میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے بوسنیا اور گلف وار پر تبصرہ کرتے ہوئے مغربی ممالک کی منافقت کا پردہ چاک کیا جو بظاہر انصاف کا ڈھول بجاتے ہیں اور نہایت درجہ ظلم کر رہے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے فرمایا: ’’یہ بات قطعی طور پر ثابت ہو چکی ہے کہ اب Absolute Justiceکا Concept ختم ہو چکاہے۔ پہلے جو حیا کے طور پر انہوں نے پردہ رکھا ہوا تھا وہ چاک ہو گیا ہے۔اب یہ Determineہیں کہ جو ہم چاہیں گے کریں گے۔‘‘( الفضل انٹرنیشنل۱۱تا۱۷؍مارچ۲۰۰۵ء)
موجودہ صدی میں مغربی اقوام اور ان کے زیر سایہ حکومتوں کی طرف سے کئی ممالک میں سیاسی مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں جن میں عراق،شام، سوڈان،افغانستان،یمن، یوکرین شامل ہیں۔ الفضل نے ہمیشہ خلافت احمدیہ کے ترجمان کی حیثیت سے ان مظالم کی مذمت کی ہے اور دنیا میں امن و انصاف قائم کرنے پر زور دیا ہے۔
مغربی دنیا میں رسول اللہﷺ کی توہین کی ناپاک مہم اور الفضل
دور حاضر میں مغربی ممالک میں اسلام مخالف مہم ایک نئے انداز میں شروع ہوئی۔ ستمبر ۲۰۰۵ء میں ڈنمارک کے ایک اخبار نےحضرت رسول اللہﷺ کی توہین کرتے ہوئے نہایت گستاخانہ خاکے شائع کیے۔ اس گھٹیا حرکت کے رد عمل میں متعدد مسلمان ممالک میں مظاہرے اور پر تشدد واقعات ہوئے۔ کئی معصوم لوگوں کی جانیں گئیں۔ الفضل نے اس موقع پر نہایت ذمہ داری سے اپنا فریضہ انجام دیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبات جمعہ میں بیہودہ کارٹونوں کی اشاعت پر مغربی ممالک کومتنبہ کیا اورفرمایا کہ ان کارٹونوں کی اشاعت سے ہمارے دل چھلنی ہیں۔ پھر فرمایا کہ کسی بھی مذہب کی مقدس ہستیوں کے بارے میں نازیبا اظہار، آزادی ضمیر نہیں ہے۔اہل مغرب کا مذہب کو چھوڑ کر اخلاقی اقدار کو پامال کرنا ہلاکت کو دعوت دینا ہے۔ احمدیوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو سمجھائیں اور خدا کے آگے جھکیں۔پھر غیر احمدی مسلمانوں کے پر تشدد احتجاج کو غلط قرار دیتےہوئے فرمایا کہ حقیقی احتجاج یہ ہے کہ ہم آنحضورﷺ کے محاسن اور پرامن تعلیم سے دنیا کو متعارف کروائیں۔الفضل ربوہ اور الفضل انٹرنیشنل نے حضور انور ایدہ اللہ کے یہ خطبات فروری،مارچ،اپریل ۲۰۰۶ءکے مہینوں میں شائع کیے۔
سال ۲۰۱۲ء ستمبر میں فرانس کے ایک رسالے چارلی ہیبڈو نے یہی مذموم حرکت دوبارہ دہرائی۔ الفضل نے حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ کی قیادت میں ایک مرتبہ پھر اس گندی اورناپاک مہم کا منہ توڑ جواب دیا۔ آپ ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسی توہین عذاب الٰہی کو دعوت دینے والی ہے۔ نیز آپ نے مسلمانوں کو درست رد عمل اپنانے کی نصیحت فرمائی کہ رسول اللہﷺ پر درود بھیجیں اور اسوہ حسنہ کو پھیلائیں، اپنے گھروں اور ملکوں کو جلانا عقلمندی نہیں۔حضور کے یہ خطبات نومبر اور دسمبر ۲۰۱۲ء کے الفضل میں شائع ہوئے۔
مغربی ممالک میں مہاجرین کی آمد سے پیدا ہونے والے عالمی مسائل
دور حاضر کا ایک اہم سیاسی معاملہ لوگوں کا بہت بڑی تعداد میں ترقی یافتہ ممالک کی طرف ہجرت کرنا ہے۔اس عالمی ہجرت کی متعدد وجوہات ہیں جن میں امیر ممالک کی طرف سے ہونے والی معاشی نا انصافی، غریب ممالک کے وسائل پر قبضہ، غیر اخلاقی اور غیر قانونی جواز سے چھوٹے ممالک پر لشکر کشی،ترقی پذیر ممالک کے حکمرانوں کا لالچ اور انانیت وغیرہ شامل ہیں۔الفضل نے خلافت کی آواز بنتے ہوئے اس اہم موضوع پر متعدد بار لب کشائی کی ہےاورحضرت امیر المؤمنین کے ارشادات کو اکناف عالم تک پہنچایا ہے۔
مہاجرین کی مدد کی تحریک کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:شام سے جو ریفیو جی یورپین ممالک میں آرہے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ جو بھی اپنے حقوق سے محروم کیا گیا ہے اس کی مدد کی جائے تا کہ وہ اپنی زندگی گزار سکے۔خواہ لوکل حکومتیں ہوں، دوسرے ادارے ہوں یا مرکزی حکومت ہو۔ ضرورتمندوں کی مدد کرنی چاہئے۔(الفضل انٹرنیشنل۲۳؍اکتوبر ۲۰۱۵ء)۔الفضل نے ہجرت کرنے والوں تک حضور انور کا پیغام پہنچایا کہ ’’وہ جلداز جلد اپنے لیے ذریعۂ معاش تلاش کر یں بجائے اس کے کہ لمبے عرصہ تک حکومت کی طرف سے احسان کے طور پر ملنے والےالاؤنس اور مراعات پر گزارا کرتے رہیں۔ انہیں خود بھی چاہیےکہ وہ محنت کے ساتھ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی کوشش کر یں ‘‘( الفضل انٹرنیشنل۵ا؍پریل۲۰۱۹ء)
الفضل نے حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں مہاجرین کے مسئلہ کا حل دنیاوی حکومتوں کے سامنے پیش کیا۔حضورانور فرماتے ہیں: پناہ گزینوں کے مسئلہ کا دیر پا حل یہی ہے کی جنگ سے متاثرہ ممالک میں امن قائم کیا جائے اور وہاں پر مجبوری کی حالت میں خوف اور تنگ دستی کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبورعوام کی مدد کی جائے تا کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوں اور سکون کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ (الفضل انٹرنیشنل ۵؍اپریل ۲۰۱۹ءصفحہ۱۹)
قیام امن عالم کی مہم میں الفضل کا کردار
امن عالم موجودہ دور کا سب سے بڑا سیاسی مسئلہ ہے۔خلفائے احمدیت کی آواز بنتے ہوئے ابتدا سے ہی الفضل نے امن کے لیےاپنا کردار ادا کیا۔تصادم کی بجائے اقوام کے مابین معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنے پر زور دیا۔آج تیسری عالمی جنگ کے خطرات ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہیں۔ الفضل متواتر اقوام عالم پر زور دے رہا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ناانصافیوں سے باز رہیں۔
حضورایدہ اللہ تعالیٰ فرماتےہیں:’’آج عالمی جنگ کے چھڑ جانے کا بہت خطرہ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض ممالک اور حکومتیں اپنے عوام کے،حقوق ادا نہیں کر رہیں اور مقابل پر عوام بھی اپنے لیڈروں اور حکومتوں کے حق ادا نہیں کر رہے۔ نہ ہی اہم طاقتیں عالمی سطح پر انصاف پر مبنی فیصلے لے رہی ہیں اور نہ ہی چھوٹے ممالک اپنی ذمہ داریاں سمجھ رہے ہیں۔لہٰذا ہر سطح کے ہردھارے پر، ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے حقوق تلف کیے جارہے ہیں اور یہ دنیاکے لیے بہت بڑا خطرہ ہے…میں آپ سب سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے اپنے دائرہ کار میں آپ اپنے سیاستدانوں اور حکمرانوں کو فوری امن قائم کرنے کی طرف توجہ دلائیں تا کہ دنیا ایک عظیم تباہی سے بچ جائے۔‘‘(الفضل انٹرنیشنل۳؍جنوری۲۰۱۴ءصفحہ۱۴)
دنیا کے راہنما اورامن کے سفیر ہونے کی حیثیت سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سال ۲۰۰۴ء سےیوکے میں National Peace Symposiumکے انعقاد کا ارشاد فرمایا۔ اس کے بعد سے ایک تسلسل کے ساتھ جماعت احمدیہ یوکے یہ امن کانفرنس منعقد کر رہی ہے۔ ان پروگرامز کی رپورٹ، حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطابات اور مہمانوں کے تاثرات کو الفضل ذمہ داری سے قارئین تک پہنچا رہا ہے۔حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے متعدد ممالک کے سربراہان کو خطوط ارسال فرمائے اور ان کودنیا میں امن و استحکام کی ضرورت سے آگاہ کرتے ہوئے ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ان پیغامات اور خطوط کو الفضل نے عوام الناس تک پہنچایا۔
عالمی وباؤں کے مواقع پر الفضل کا ذمہ دارانہ کردار
دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ دنیا کے ایک خطے میں ہونے والا چھوٹا سا واقعہ ساری دنیا کو متاثر کرتاہے۔ گذشتہ ایک صدی کے دوران اٹھنے والی عالمی وباؤں کے حوالے سے بھی الفضل نے اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھائیں۔ چند ایک کا اختصار سے ذکر کروں گا۔
۱۹۱۸ء میں پہلی جنگ عظیم کا ایک نتیجہ انفلوئنزا کی عالمی وبا کی صورت میں سامنے آیا۔ہندوستان میں بھی اس کا سخت حملہ ہوا۔ ان ایام میں الفضل نے خلافت کا ترجمان بن کر لوگوں تک حضور کے پیغامات پہنچائے۔نیز عوام الناس کے مفاد میں بیماری کی updates اور دیگر ضروری امور سے قارئین کو آگاہ کیا۔
۱۹۸۰ء کی دہائی میں عالمی سطح پر ایڈزکی بیماری کا چرچا ہوا۔مغربی ممالک میں غریب افریقن لوگوں کو اس بیماری کے پھیلانے پر مطعون کیا گیا۔۳؍جون ۱۹۹۴ءکے الفضل میں اس کی بابت محمد احمد خان صاحب کا ایک مضمون شائع کیا گیا جس میں اس نظریہ کا سد باب کیا کہ افریقی لوگ یہ بیماری پھیلانے کا باعث ہیں بلکہ جس جگہ اس وائرس کو سازگار حالات ملیں گے وہاں یہ پھیلے گا۔
۱۹۹۰ء اور ۲۰۰۰ء کی دہائی میں ایک اور بیماری ’’برڈ فلو‘‘کا عالمی طور پر شو ر اٹھا۔اس بیماری کی وجوہات،تاریخ اور سد باب کے متعلق مکرم ڈاکٹر شمیم احمد صاحب کا ایک اہم مضمون ۱۱؍نومبر۲۰۰۵ءکو الفضل انٹرنیشنل نے شائع کیا۔جس میں اس کی مبادیات، پھیلاؤ کی وجوہات اور علاج معالجہ کےمتعلق مفید معلومات بیان کی گئیں۔
سال ۲۰۱۹ء کے اواخر میں کورونا کی عالمی وبا نے سر اٹھایا اور ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ وبائی ایام میں بھی الفضل نے اپنی ذمہ دارانہ رپورٹنگ کو جاری رکھا۔ کسی قسم کی افراتفری پھیلانے سے گریز کیا اور خبروں کے کالم میں کورونا کے متعلق گاہے بگاہے updates بھی دیتا رہا۔نیز احباب جماعت اور قارئین کی صحت،ویکسینیشن اور حفاظتی تدابیر کے حوالے سے متعدد مضامین شائع کیے۔ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے حوالے سے ۱۰؍اپریل ۲۰۲۰ءکو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطبہ جمعہ شائع کیا جس میں حضور انور نے تمام احمدیوں کو احتیاط کرنے کی تاکید فرمائی۔
الغرض الفضل کی سو سالہ تاریخ بے لوث سماجی اور سیاسی خدمات سے عبارت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ اس باثمر درخت کو بہت ترقی دے اور تمام احمدیوں کو اس کی ترقی میں حتی المقدور اپنا حصہ ڈالنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین