مولا! اب اِذ رَمَیتَ کا جلوہ دکھا مجھے
خدا کا خلیفہ، خدا کے حضور
(عالمی بیعت کے دوران حضور کی ایک خاص کیفیت دیکھ کر)
مولا میں اپنے اشک چھپاؤں تو کس طرح
اور دل میں دردِ دل کو دباؤں تو کس طرح
سارے جہاں کا درد اٹھائے ہوئے ہوں میں
پر سب سے اپنا کرب چھپائے ہوئے ہوں میں
لایا ہوں تیرے در پہ یہ رنج و الم کا بوجھ
دنیائے بد لحاظ کے ظلم و ستم کا بوجھ
ہیں میرے ساتھ لاکھوں اسیرانِ دردِ عشق
باندھے ہیں تیرے نام پہ پیمانِ دردِ عشق
یہ سب ترے ہی نام پہ آئے ہیں میرے ساتھ
اور غم کا اک پہاڑ اٹھائے ہیں میرے ساتھ
کچھ مِن دِیَارِھِم سے نکالے ہوئے بھی ہیں
اور وِردِ رَبُّنَااللّٰہ کے پالے ہوئے بھی ہیں
کچھ ہیں کہ جو مَنَعَ مَسٰجِد کا ہیں شکار
اور فِی خَرَابِھا کے مظالم سے ہم کنار
اِن میں ہی کچھ یتیم اور مسکین آئے ہیں
پا کر ترے خیال سے تسکین، آئے ہیں
کچھ کے لیے معاش کا آشوب سخت ہے
کارِ جہاں کسی کے لیے تیرہ بخت ہے
کچھ پر ہیں کرب موذی عوارض کے حلقہ زن
جرّاحیوں کی مشق سے ٹھہرے ہیں خستہ تن
کچھ بچیوں کی ڈھلتی جوانی کے غم سے چُور
اِس غم میں ہیں کہ کیسے ہو یہ مرحلہ عبور
کچھ سِحرِ فکرِ نو کے وساوس کی زد میں ہیں
دجال کے انوکھے حوادث کی زد میں ہیں
لیکن یہ سب فقیر ترے آستاں کے ہیں
امیدوار جلوۂ رحمت نشاں کے ہیں
جس حال میں بھی ہوں، ترے دیں کے امیں ہیں یہ
اور پیکرِ شجاعت و عزم و یقیں ہیں یہ
دامن کو اِن کے واسطے پھیلا رہا ہوں میں
اور پُر یقین دل سے چلا آرہا ہوں میں
فریاد شاہِ بدرؐ کی کرتا ہوں آج پیش
مولا یہ مُشت بھر ہیں ترے ہی نیاز کیش
اِس کاروانِ اہلِ وفا کا سفیر ہوں
جس میں ہو اِن کی خیر، میں اُس کا فقیر ہوں
یہ نہ رہے تو کون پکارے گا تیرا نام
یہ ہیں ترے جہاں میں ترے آخری غلام
مولا!اب اِذ رَمَیتَ کا جلوہ دِکھا مجھے
اور اپنی نصرتوں کی عطا کر ہوا مجھے
(آصف محمود باسط)