دس دلائل ہستی باری تعالیٰ (قسط نمبر 2)
دلیل دوم:۔ دوسری دلیل جو قرآن شریف میں ہستی باری تعالیٰ کے متعلق دی ہے ان آیات سے معلوم ہوتی ہے کہ وَ تِلْکَ حُجَّتُنَآ اٰتَیْنٰھَآ اِبْرٰھِیْمَ عَلٰی قَوْمِہٖ نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَاءُ اِنَّ رَبَّکَ حَکِیْمٌ عَلِیْمٌ۔ وَوَھَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ کُلًّا ھَدَیْنَا وَنُوْحًا ھَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّیَّتِہٖ دَاوٗدَ وَسُلَیْمٰنَ وَاَیُّوْبَ وَیُوْسُفَ وَمُوْسٰی وَھٰرُوْنَ وَکَذٰلِکَ نَجْزِیْ الْمُحْسِنِیْنَ۔ وَزَکَرِیَّا وَ یَحْیٰی وَعِیْسٰی وَاِلْیَاسَ کُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ (الانعام84-87:) پھر کچھ آیات کے بعد فرمایا کہ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ فَبِھُدَاہُمُ اقْتَدِہْ (الانعام91:) یعنی ایک دلیل ہے جو ہم نے ابراہیم ؑ کو اس کی قوم کے مقابل میں دی اور ہم جس کے درجات چاہتے ہیں، بلند کرتے ہیں۔ تحقیق تیرا ربّ بڑا حکمت والا اور علم والا ہے اور ہم نے اسے اسحاق ویعقوب دئے۔ ہر ایک کو ہم نے سچا راستہ دکھایا اور نوح کو بھی ہم نے سچا راستہ دکھایا۔ اس سے پہلے اور اس کی اولاد میں سے دائود اور سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون کو بھی اور ہم نیک اعمال میں کمال کرنے والوں کے ساتھ اسی طرح سلوک کیا کرتے ہیں اور زکریا، یحییٰ، عیسیٰ اور الیاس کو بھی راہ دکھایا اور یہ سب لوگ نیک تھے اور اسماعیل اور یسع اور لوط کو بھی راستہ دکھایا اور ان سب کو ہم نے اپنے اپنے زمانہ کے لوگوں پر فضیلت دی تھی اور پھر فرماتا ہے کہ یہ وہ لوگ تھے کہ جن کو خدا نے ہدایت دی۔ پس تو ان کے طریق کی پیروی کر۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اس قدر نیک اور پاک لوگ جس بات کی گواہی دیتے ہیں وہ مانی جائے یا وہ بات جو دوسرے ناواقف لوگ کہتے ہیں اور اپنے چال چلن سے ان کے چال چلن کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ سیدھی بات ہے کہ انہی لوگوں کی بات کو وقعت دی جاویگی جو اپنے چال چلن اور اپنے عمل سے دنیا پر اپنی نیکی اور پاکیزگی اور گناہوں سے بچنا اور جھوٹ سے پرہیز کرنا ثابت کرچکے ہیں۔ پس ہر ایک شخص کا فرض ہے کہ وہ انہی کا تتبع کرے اور ان کے مقابل میں دوسرے لوگوں کی بات کا انکار کردے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس قدر نیکی اور خلق کے پھیلانے والے گزرے ہیں اور جنہوں نے اپنے اعمال سے دنیا پر اپنی راستی کا سکہ بٹھا دیا تھا وہ سب کے سب اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ایک ایسی ہستی ہے جسے مختلف زبانوں میں اللہ یا گاڈ (God) یا پرمیشور کہا گیا ہے۔ ہندوستان کے راستباز رامچندرؑ، کرشنؑ، ایران کا راستباز زرتشتؑ، مصر کا راستباز موسیٰؑ، ناصرہ کا راستباز مسیح ؑ، پنجاب کا ایک راستباز نانکؒ۔ پھر سب راستبازوںکا سرتاج عرب کا نور محمد مصطفی ﷺ جس کو اسکی قوم نے بچپن سے صادق کا خطاب دیا اور جو کہتا ہے فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا (یونس 17:)میں نے تو تم میں اپنی عمرگزاری ہے۔ کیا تم میرا کوئی جھوٹ ثابت کر سکتے ہو اور اس کی قوم کوئی اعتراض نہیں کرتی اور ان کے علاوہ ہزاروں راستباز جو وقتاً فوقتاً دنیا میں ہوئے ہیں،یک زبان ہوکرپکارتے ہیں کہ ایک خدا ہے اور یہی نہیں بلکہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس سے ملاقات کی اور اس سے ہم کلام ہوئے۔ بڑے سے بڑے فلاسفر جنہوں نے دنیا میں کوئی کام کیا ہو وہ ان میں سے ایک کے کام کا ہزارواں حصہ بھی پیش نہیں کرسکتے بلکہ اگر ان لوگوں اور فلاسفروں کی زندگی کا مقابلہ کیا جائے تو فلاسفروں کی زندگی میں اقوال سے بڑھ کر افعال کے باب بہت کم نظر آئیں گے۔ وہ صدق اور راستی جو انہوں نے دکھائی وہ فلاسفر کہاں دکھا سکے؟ وہ لوگوں کو راستی کی تعلیم دیتے ہیں مگر خود جھوٹ سے پرہیز نہیں کرتے۔ لیکن اس کے مقابلہ میں وہ لوگ جن کا نام میں اوپر لے چکا ہوں صرف راستی کی خاطر ہزاروں تکلیفوں کو برداشت کرتے رہے لیکن کبھی ان کا قدم اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ ان کے قتل کرنے کے منصوبے کئے گئے۔ ان کو وطنوں سے خارج کیا گیا، ان کو گلیوں اور بازاروں میں ذلیل کرنے کی کوشش کی گئی، ان سے کل دنیا نے قطع تعلق کرلیا مگر انہوں نے اپنی بات نہ چھوڑی اور کبھی نہ کیا کہ لوگوں کی خاطر جھوٹ بول کر اپنے آپ کو بچا لیتے اور ان کے عمل نے، ان کی دنیا سے نفرت نے، نمائش سے علیحدگی نے اس بات کو ثابت کردیا کہ وہ بے غرض تھے اور کسی نفسانی غرض سے کوئی کام نہ کرتے تھے۔ پھر ایسے صادق ایسے قابل اعتبار یک زبان ہو کر کہہ رہے ہیںکہ ہم نے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی، اس کی آواز سنی اور اس کے جلوے کا مشاہدہ کیا تو ان کے قول کا انکار کرنے کی کسی کے پاس کیا وجہ ہے۔ جن لوگوں کو ہم روز جھوٹ بولتے سنتے ہیں وہ بھی چند مل کر ایک بات کی گواہی دیتے ہیں تو ماننا پڑتا ہے۔ جن کے احوال سے ہم بالکل ناواقف ہوتے ہیں وہ اخباروں میں اپنی تحقیقات شائع کرتے ہیں تو ہم تسلیم کرلیں گے مگر نہیں مانتے تو ان راستبازوں کا کلام نہیں مانتے۔ دنیا کہتی ہے کہ لندن ایک شہر ہے اور ہم اسے تسلیم کرتے ہیں۔ جغرافیہ والے لکھتے ہیں کہ امریکہ ایک براعظم ہے اور ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ سیاح کہتے ہیں کہ سائبیریا ایک وسیع اور غیرآباد علاقہ ہے۔ ہم اس کا انکار نہیں کرتے۔ کیوں؟ اس لئے کہ بہت سے لوگوں کی گواہی اس پر ہوگئی ہے۔ حالانکہ ہم ان گواہوں کے حالات سے واقف نہیں کہ وہ جھوٹے ہیں یا سچے مگر اللہ تعالیٰ کے وجود پر عینی گواہی دینے والے وہ لوگ ہیں کہ جن کی سچائی روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ انہوں نے اپنے مال وجان و طن عزت وآبرو کو تباہ کرکے راستی کو دنیا میں قائم کیا پھر ان سیاحوں اور جغرافیہ والوں کی بات کو ماننا اور ان راستبازوں کی بات کو نہ ماننا کہاں کی راستبازی ہے۔ اگر لندن کا وجود چند لوگوں سے سن کر ثابت ہو سکتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا وجود ہزاروں راستبازوں کی گواہی پر کیوں ثابت نہیں ہو سکتا۔
غرضیکہ ہزاروں راستبازوں کی شہادت جو اپنے عینی مشاہدہ پر خدا تعالیٰ کے وجود کی گواہی دیتے ہیں کسی صورت میں بھی ردّ کے قابل نہیں ہو سکتی۔ تعجب ہے کہ جو اس کوچہ میں پڑے ہیں وہ تو سب باتفاق کہہ رہے ہیں کہ خدا ہے لیکن جو روحانیت کے کوچہ سے بالکل بے بہرہ ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ان کی بات نہ مانوکہ خدا ہے حالانکہ اصول شہادت کے لحاظ سے اگر دوبرابر کے راستباز آدمی بھی ایک معاملہ کے متعلق گواہی دیں تو جو کہتا ہے کہ میں نے فلاں چیز کود یکھا اس کی گواہی کو اس گواہی پرجو کہتا ہے میں نے اس چیز کونہیں دیکھا ترجیح دی جائے گی کیونکہ یہ ممکن ہے کہ ان میں سے ایک کی نظر اس چیز پر نہ پڑی ہو لیکن یہ ناممکن ہے کہ ایک نے نہ دیکھا ہو اور سمجھ لے کہ میں نے دیکھا ہے۔ پس خدا کے دیکھنے والوں کی گواہی اس کے منکروں پر بہرحال حجت ہوگی۔
دلیل سوم:۔ تیسری دلیل جو قران شریف سے معلوم ہوتی ہے یہ ہے کہ انسان کی فطرت خود خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایک دلیل ہے کیونکہ بعض ایسے گناہ ہیں کہ جن کو فطرت انسانی قطعی طور پر ناپسند کرتی ہے۔ ماں، بہن اور لڑکی کے ساتھ زنا ہے، پاخانہ پیشاب اور اس قسم کی نجاستوں کے ساتھ تعلق ہے، جھوٹ ہے، یہ سب ایسی چیزیں ہیں کہ جن سے ایک دہریہ بھی پرہیز کرتا ہے مگر کیوں؟ اگر کوئی خدا نہیں تو کیوں؟ وہ کیوں ماں اور بہن اور دوسری عورتوں میں کچھ فرق جانتا ہے۔ جھوٹ کو کیوں برا جانتا ہے۔ کیا دلائل ہیں کہ جنہوں نے مذکورہ بالا چیزوں کو اس کی نظر میں بد نما قرار دیا ہے۔ اگر کسی بالائی طاقت کا رعب اس کے دل پر نہیں تو وہ کیوں ان سے احتراز کرتا ہے؟ اس کے لئے تو جھوٹ اور سچ، ظلم اور انصاف سب ایک ہی ہونا چاہئے۔ جو دل کی خوشی ہوئی کرلیا۔ وہ کون سی شریعت ہے جو اس کے جذبات پر حکومت کرتی ہے۔ جس نے دل پر ایک تخت رکھا ہے۔ اور گو ایک دہریہ زبان سے اس کی حکومت سے نکل جائے لیکن وہ اس کی بنائی ہوئی فطرت سے باہر نہیں نکل سکتا اور گناہوں سے اجتناب یا ان کے اظہار سے اجتناب اس کے لئے ایک دلیل ہے کہ کسی بادشاہ کی جوابدہی کا خوف ہے جو اس کے دل پر طاری ہے گو وہ اس کی بادشاہت کا انکار ہی کرتا ہے۔ قرآن شرف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَآاُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ۔ وَلَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَۃِ (القیٰمۃ2,3:) یعنی جیسا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ نہ خدا ہے نہ جزا سزا ہے۔ ایسا نہیں بلکہ ہم ان امور کی شہادت کے لئے دو چیزیں پیش کرتے ہیں۔ ایک تو اس بات کو کہ ہر بات کے لئے ایک قیامت کا دن مقرر ہے۔ جس میں کہ اس کا فیصلہ ہوتاہے اور نیکی کا بدلہ نیک اور بدی کا بدلہ بد مل جاتا ہے۔ اگر خدا نہیں تو جزا وسزا کیونکر مل رہی ہے اور جو لوگ قیامت کبریٰ کے منکر ہیں وہ دیکھ لیں کہ قیامت تو اس دنیا سے شروع ہے۔ زانی کو آتشک و سوزاک ہوتا ہے۔ شادی شدہ کو تو نہیں ہوتا حالانکہ دونوں ایک ہی کام کررہے ہوتے ہیں۔ دوسری شہادت نفس لوامہ ہے یعنی انسان کا نفس خود ایسے گناہ پر ملامت کرتا ہے کہ یہ بات بری ہے اور گندی ہے۔ دہریہ بھی زنا اور جھوٹ کو برا جانیں گے۔ تکبر اور حسد کو اچھا نہ سمجھیں گے مگر کیوں؟ ان کے پاس تو کوئی شریعت نہیں۔ اس لئے نہ کہ ان کا دل برا مانتا ہے اور دل اسی لئے برا مانتا ہے کہ مجھے اس فعل کی ایک حاکم اعلیٰ کی طرف سے سزا ملے گی گو وہ لفظوں میں اسے ادا نہیں کر سکتا۔ اسی کی تائید میں ایک اور جگہ قرآن شریف میں ہے۔ فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا (الشمس9:) اللہ تعالیٰ نے ہر نفس میں نیکی اور بدی کا الہام کردیا ہے۔ پس نیکی بدی کا احساس خود خدا کی زبردست دلیل ہے۔ اگر خدا نہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ایک چیز کو نیک اور ایک کو بد کہا جاوے جو دل میں آئے لوگ کیا کریں۔
چوتھی دلیل:۔ چوتھی دلیل جو قرآن شریف سے ذات باری کے متعلق معلوم ہوتی ہے یہ ہے۔ وَاَنَّ اِلٰی رَبِّکَ الْمُنْتَھٰی۔ وَاَنَّہٗ ھُوَ اَضْحَکَ وَاَبْکٰی۔ وَاَنَّہٗ ھُوَ اَمَاتَ وَاَحْیٰ۔ وَاَنَّہٗ خَلَقَ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی مِنْ نُّطْفَۃٍ اِذَا تُمْنٰی (النجم43:-47) یعنی یہ بات ہر ایک نبی کی معرفت ہم نے پہنچا دی ہے کہ ہر ایک چیز کا انتہاء اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہی جا کر ہوتا ہے اور خواہ خوشی کے واقعات ہوں یا رنج کے وہ خدا ہی کی طرف سے آتے ہیں اور موت اور حیات سب اسی کے ہاتھ میں ہیں اور اس نے مردوعورت دونوں کو پیدا کیا ہے ایک چھوٹی سی چیز سے جس وقت وہ ڈالی گئی۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس طرح متوجہ کیا ہے کہ ہر ایک فعل کا ایک فاعل ہوتا ہے اور ضرور ہے کہ ہر کام کے کرنے والا بھی کوئی ہو۔ پس اس تمام کائنات پر اگر غور کرو گے تو ضرور تمہاری رہنمائی اس طرف ہوگی کہ سب اشیاء آخر جا کر ذات باری پر ختم ہوتی ہیں اور وہی انتہاء ہے تمام اشیاء کی اور اسی کے اشارے سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کی ابتدائی حالت کی طرف متوجہ کرکے فرمایا ہے کہ تمہاری پیدائش تو ایک نطفہ سے ہے اور تم تو جوں جوں پیچھے جاتے ہو اَور حقیر ہوتے جاتے ہو پھر تم کیونکر اپنے خالق ہوسکتے ہو۔ جب خالق کے بغیر کوئی مخلوق ہو نہیں سکتی اور انسان اپنا آپ خالق نہیں ہے کیونکہ اس کی حالت پر جس قدر غور کریں وہ نہایت چھوٹی اور ادنیٰ حالت سے ترقی کرکے اس حالت کو پہنچتا ہے اور جب وہ موجودہ حالت میں خالق نہیں تو اس کمزور حالت میں کیونکر خالق ہوسکتا تھا۔ تو ماننا پڑے گا کہ اس کا خالق کوئی اور ہے جس کی طاقتیں غیرمحدود اور قدرتیں لاانتہاء ہیں۔ غرضیکہ جس قدر انسان کی درجہ بدرجہ ترقی پر غور کرتے جائیں اس کے اسباب باریک سے باریک ترہوتے جاتے ہیں اور آخر ایک جگہ جا کر تمام دنیاوی علوم کہہ دیتے ہیں کہ یہاں اب ہمارا دخل نہیں اور ہم نہیں جانتے کہ یہ کیوں ہوگیا اور وہی مقام ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ کا ہاتھ کام کررہا ہوتا ہے اور ہر ایک سائنس دان کو ماننا پڑتا ہے کہ اِلٰی رَبِّکَ الْمُنْتَھٰی یعنی ہر ایک چیز کی انتہاء ہوتی ہے اور آخر ایک ایسی ہستی پر ہوتی ہے کہ جس کو وہ اپنی عقل کے دائرہ میں نہیں لا سکتے اور وہی خدا ہے۔ یہ ایک موٹی دلیل ہے کہ جسے ایک جاہل سے جاہل انسان بھی سمجھ سکتا ہے۔
کہتے ہیں کہ کسی نے ایک بدوی سے پوچھا تھا کہ تیرے پاس خدا کی کیا دلیل ہے۔ اس نے جواب دیا کہ جنگل میں ایک اونٹ کی مینگنی پڑی ہوئی ہو تو میں دیکھ کر بتا دیتا ہوں کہ یہاں سے کوئی اونٹ گزرا ہے۔ پھر اتنی بڑی مخلوقات کو دیکھ کر میں معلوم نہیں کرسکتا کہ اس کا کوئی خالق ہے۔٭ واقعی یہ جواب ایک سچا اور فطرت کے مطابق جواب ہے اور اس مخلوقات کی پیدائش کی طرف اگر انسان توجہ کرے تو آخر ایک ہستی کو ماننا پڑتا ہے کہ جس نے یہ سب پیدا کیا۔ (……جاری ہے)
٭ اَلْبَعْرَۃُ تَدُلُّ عَلَی الْبَعِیْرِ وَاَثَرُالْقَدَمِ السَّفِیْرِ فَالسَّمَآئُ ذَاتُ الْبُرُوْجِ وَالْاَرْضُ ذَاتُ فِجَاجٍ اَمَا تَدُلُّ عَلٰی قَدِیْرٍ۔