مصالح العرب (قسط نمبر 441)
(عربوں میں تبلیغ کے لیے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بشارات، گرانقدر مساعی اور ان کے شیریں ثمرات کا ایمان افروز تذکرہ )
مکرمہ جمیلہ احمد جملول صاحبہ(3)
گزشتہ دوقسطوںمیں ہم نے مکرمہ جمیلہ احمد صاحبہ آف یمن کے احمدیت کی طرف سفر کی ایمان افروز داستان کا ایک بڑاحصہ بیان کیا تھا۔ اس کے بعد وہ بیان کرتی ہیں کہ:ہم نئے گھر میں منتقل ہوئے تو الحمد للہ سب سے پہلے مجھے ایم ٹی اے کا خیال آیا۔ایم ٹی اے دیکھنے کے دوران میری حضرت امام مہدی علیہ السلام سے محبت میں مزیداضافہ ہوگیا اور مجھے اس بات کا مکمل یقین ہوگیا کہ آپ ہی امام الزمان ہیں۔
اے لوگو! تمہارا امام آگیا ہے
اسی اثناء میں میں نے پروگرام الحوار المباشر میں سنا کہ حضرت امام مہدی کی صداقت کے بارہ میں تحقیق کرنے والوں کو استخارہ کر کے خدا تعالیٰ سے راہنمائی کی دعا کرنی چاہئے۔ چنانچہ بتائے گئے طریق کے مطابق میں نے دورکعت نماز ادا کی اورسوگئی۔اسی رات میں نے خواب میں دیکھاکہ میں مکۃ المکرمہ میں ہوں لوگوں کے ایک جم غفیر میںہوں۔ لوگ اپنے پاؤں کے پنجوں پر کھڑے ہوکر گردنیں لمبی کرتے ہوئے ایک شخص کو دیکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ایسے میں کوئی بآوازِ بلند کہتا ہے : اے لوگو! تمہارا امام آگیا ہے۔ اے لوگو! امام مہدی آگیا ہے۔ میںبھی اس سمت دیکھنا شروع کردیتی ہوں تا آنکہ حضرت امام مہدی علیہ السلام ایک اونچے مقام پر سب کے سامنے نمودار ہوتے ہیں۔ان کا چہرہ بدرِ منیر کی مانند چمک رہا تھااور آنکھوں میں حزن کی کیفیت نمایاں تھی۔جب میں نے بغور ان کے چہرۂ مبارک کی طرف دیکھا تو بعینہ وہ اسی امام مہدی ومسیح موعود کا چہرہ تھا جسے میں نے ایم ٹی اے پر دیکھا تھا۔یہ دیکھتے ہی میری آنکھیں آنسوؤں سے چھلک پڑتی ہیں اورمیں بشدّت رونا شروع کردیتی ہوں۔میرا خاوند جاگ رہا تھا اس نے مجھے جگاکر کہا تم بہت درد کے ساتھ رورہی تھی۔ میں جاگی تو میری آنکھیں اشکبار تھیں۔
جماعت مؤمنین میں شمولیت کی دعا
اس رؤیا کے بعد مجھے یقین ہوگیا کہ حق یہی ہے کہ یہ شخص امام الزمان ہے۔چنانچہ میں نے اس امام کی بیعت کا فیصلہ کرلیا۔لیکن میں اکیلی تھی، نہ میرے پاس فون کی سہولت تھی، نہ انٹرنیٹ او رنہ ہی جماعت سے رابطہ کا کوئی اور طریق میسر تھا۔ میری حیثیت پنجرے میں بند ایک پرندے کی سی تھی۔میںنے اس بے بسی اور بیکسی کے عالم میں ہاتھ اٹھائے او رخدا تعالیٰ سے دعا کی کہ یارب! تیرا فضل ہے او ریہ تیرا بے پایاں احسان ہے کہ تونے مجھ ناچیز کو اپنے امام الزمان کو پہچاننے کی توفیق بخشی۔اے میرے پیارے ! اب تو جانتا ہے کہ میرے دل میں اس کی بیعت کرنے اور اس کی مبارک و صادق جماعت سے ملنے کی کس قدر تمنا ہے۔لیکن میری حالت پنجرہ میں قید ایک پرکٹے پرندے کی سی ہے ، سب قوت تجھی کو ہے ، امام مہدی پر ایمان کے راستے کو بھی تو نے ہی آسان کیا تھا اب اس کی بیعت کے معاملہ کو بھی تواپنے فضل او ررحمت سے آسان بنادے اور مجھے صادقوں کی جماعت سے ملوا دے۔
اسیرِقفس کو اِذنِ رہائی مل گیا
اس دعا کو کرتے کرتے جب ایک ماہ گزرا تو اچانک میری دعا کی قبولیت کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ ایک ماہ کے بعد میری ساس کا سعودیہ سے فون آیا۔ انہوںنے کہا کہ میں نے نیا فون لیا ہے۔ اس لئے اپنا پرانا فون وہ میرے بیٹے خالد کے لئے ارسال کر رہی ہیں۔یہ اچھی حالت کا ایک سمارٹ فون تھا جسے دیکھ کر مَیں نے کہا کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہماری مدد ہے۔لیکن ابھی تک مجھے علم نہ تھا اس فون سے ہمارا جماعت کے ساتھ رابطہ کیونکر ممکن ہوسکے گا، کیونکہ ہمارے پاس انٹر نیٹ کی سروس نہ تھی اورمالی حالات ایسے مخدوش تھے کہ اس بارہ میں سوچنا بھی محال تھا۔ہمارے سامنے والے ہمسائے بہت اچھے لوگ تھے اور ان کے ساتھ ہمارے تعلقات بھی اچھے بن گئے۔میں نے اپنے بیٹے کے ذریعہ ان سے کچھ وقت کے لئے انٹرنیٹ استعمال کرنے کی اجازت مانگی تو انہوں نے نہ صرف ہمارے موبائل کو اپنے انٹرنیٹ سے connect کردیا بلکہ یہ بھی کہہ دیا کہ جب آپ چاہیں اسے استعمال کرسکتے ہیں۔
میرے بیٹے نے کوشش کی او رہمارے ہاں پہلی بار جماعت کی عربی ویب سائٹ کھل گئی جسے دیکھتے ہی مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے مدتوں سے اسیرِقفس کو اذنِ رہائی مل گیا ہو۔فرطِ جذبات سے میری آنکھیں چھلک پڑیں۔میرا دل تو پہلے ہی بیعت کا منتظر تھا۔ فورًا ویب سائٹ پر پیغام لکھنے کی کوشش کی تومعلوم ہوا کہ ہمارا ای میل ایڈریس ہونا چاہئے۔میرا بیٹا بھی ان امور سے نابلد تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ محض چند منٹوں میں ہی اسے باتیں سمجھ آنی شروع ہو گئیں، چنانچہ اس نے ای میل بنایا اور یہ پیغام ارسال کردیا کہ ہم بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ 2013ء کی بات ہے۔
نئی روحانی پیدائش
مَیں جماعت کی ویب سائٹ دیکھتی تو شکر کے جذبات امڈ آتے اور رونے لگتی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے خاوند نے مجھے گھر میں ایم ٹی اے دیکھنے سے روکا تھا،لیکن اللہ تعالیٰ نے ویب سائٹ کی صورت میں مجھے اس کا بدل عطا فرمادیا۔ میرا دل چاہتا تھا کہ میں ویب سائٹ پر موجود تمام کتب ایک ہی وقت میں پڑھ لوں۔ سب سے پہلے جو کچھ میں نے پڑھا و ہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اللہ تعالیٰ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے بارہ میں اقتباسات اور واقعات کا گلدستہ تھا۔میں اسے پڑھتی جاتی اورروتی جاتی تھی۔اس کے بعد میں نے حضرت مسیح موعودؑکی کتاب ’’اَلْہُدیٰ وَالتَّبْصِرَۃُ لِمَنْ یَریٰ‘‘، ’’نجم الہدیٰ‘‘ اور ’’نور الحق‘‘ کا مطالعہ کیا۔
میں جوں جوں کتب کا مطالعہ کرتی مزید کتب کے مطالعہ کی خواہش بڑھتی جاتی۔اسی عرصہ میں میرے خاوند کو فون آیا اور انہیں دوماہ کے لئے کہیں جانا پڑا۔ میرے لئے یہ عرصہ نئی روحانی ولادت کے مترادف تھا۔کیونکہ اس دوران میں نے جی بھر کے ایم ٹی اے دیکھا اور جس قدر ممکن تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کیا۔ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے ایک عظیم الشان خزانہ میرے ہاتھ لگ گیا ہو۔میں جب بھی حضو رعلیہ السلام کی کتب کا مطالعہ شروع کرتی تو آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی۔ میں نماز پڑھتی تو وہ بھی رقت آمیز اورسوز وگداز سے بھر جاتی۔ الغرض میں نے اپنے اندر غیر معمولی روحانی تبدیلی محسوس کی۔
علومِ قرآنی اور شفائے روحانی
بیعت کی قبولیت سے قبل مَیں نے رؤیا میں ایک بڑی عمرکے شخص کو دیکھا جس کے باوقار او رمطمئن چہرہ سے نور کی کرنیںپھوٹ رہی تھیں۔اس کے سر پر عمامہ اور ہاتھ میں عصا تھا۔ان کے ساتھ ان کی اہلیہ تھیں اور انہوں نے اپنا سر اور تمام جسم بڑی چادر سے ڈھانکا ہوا تھا اور نقاب کیا ہوا تھا اس لئے میں ان کی شکل نہ دیکھ سکی۔ یہ عورت اپنے خاوند کی حد درجہ مطیع تھی۔نیز ان کے ارد گرد بارعب اور پروقار چہروں والے کئی مرد حضرات بھی بڑی عمر کے شخص کے احکام کی بجاآوری کے لئے ہمہ تن چوکس کھڑے تھے۔بڑی عمر کا شخص اپنے آدمیوں کو حکم دیتاکہ بیماروں کو بھیجو ،وہ بھیجتے اور بڑی عمر کا شخص ان کا علاج کرتا۔ اس کی بیوی پانی یا اس طرح کا کوئی محلول اپنے خاوند کے سامنے پیش کرتی اور وہ اپنے ہاتھ سے مریضوں پر چھڑکتا اور سورۃ الفاتحہ وآیت الکرسی کی تلاوت کرتا اور وہ شفا پاجاتے۔
جب میں جاگی تو بہت خوش تھی کیوں کہ خواب میں نظر آنے والابڑی عمر کا شخص حضرت خلیفۃ المسیح الخامس تھے۔اور اللہ تعالیٰ نے میرے ثبات قدم کے لئے یہ سمجھایا تھا کہ آپ قرآنی علوم کے ذریعہ روحانی امراض سے چھٹکارا دلارہے ہیں اورایک مطیع مؤمنین کی جماعت آپ کے ساتھ ہے۔
بیعت اوراس کی قبولیت
اسی عرصہ میں میں اپنے والدین او ربہن بھائیوں کی ملاقات کے لئے گئی توانہیں خدا کی قسم کھا کرکہا کہ سچا امام مہدی آچکاہے۔میںاپنے والد صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے اقتباسات پڑھ پڑھ کر سناتی رہی، میں ان کی ہدایت کے لئے کوشاں تھی لیکن شاید ان کے اور معرفت حق کے راستے میں کوئی روک تھی اس لئے کسی پر کچھ اثر نہ ہوا ۔
میں وہیں تھی کہ ایک روز ہمارے موبائل نمبر پر کسی غیرمعروف نمبر سے کال آئی۔میرانا م پوچھنے کے بعد دوسری طرف سے شفیق او رہمدردی سے معمور لہجے میں ایک عورت نے کہا کہ وہ صدر جماعت احمدیہ یمن کی اہلیہ ہے نیز بتایا کہ انہیں مرکز سے ہماری بیعت کے بارہ میں اطلاع دی گئی ہے۔میں تو اس لمحہ کی بشدت منتظر تھی اس لئے فورًا کہاکہ ہاں میں حضرت امام مہدیؑ کی بیعت کرنا چاہتی ہوں۔
اس شفیق خاتون نے مجھ سے چند سوال کئے اور پھر مجھے کہا کہ ہم کل فون کر کے بیعت کا طریق بتا دیں گے۔ میں فرط جذبات سے روئے جارہی تھی جبکہ میرے اہل خانہ فون کال سن کر حیران وششدر تھے ۔پھر ان میں سے کوئی مجھے نصیحت کرنے لگ گیاکہ تم کسی اور دین کو قبول کرنے کے بارہ میںکیسے سوچ سکتی ہو؟ کسی نے استہزاء کا نشانہ بنایا، او رکسی نے حیرانی ا ورافسوس کا اظہار کیا ۔میں نے کسی کی پرواہ نہ کی کیونکہ میں نے خدائی تائید اوراستجابت دعا کو خود محسوس کیا تھا اس لئے بیعت کے بنا رہ ہی نہیں سکتی تھی۔
اگلے روز ہمیں بیعت فارم بھجوادیا گیا۔ میرا بیٹا میرا بہترین مددگار تھا اور میرے ساتھ احمدیت کے سفر میں شامل تھا۔ وہ بازار سے بیعت فارم پرنٹ کروا لایااور پھر ہم دونوں نے مل کر اسے پُر کر کے ارسال کردیا۔
اس کے کچھ عرصہ بعد ہی مجھے صدرجماعت کی اہلیہ کا فون آیا جو میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی کی خبر لئے ہوئے تھا۔ انہوں نے بتایا کہ حضور انور کی طر ف سے میری بیعت کی قبولیت کا خط آگیا ہے۔ پھر انہوں نے ہمارے فون پر ہی خط کی تصویر کھینچ کر ا رسال کردی۔ حضورانور کی اس خط میں مذکور دعائیں پڑھ کر میرے آنسو رواں ہوگئے اور پھر وہ رات میں نے نوافل او رمتضرعانہ دعاؤں میں گزاری۔
رؤیا کے ذریعہ ثبات قدم
بیعت کے بعد مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ میں ایک پرانے گھر میں ہوں ۔ اس کی کھڑکی سے باہر نظر دوڑاتی ہوں تو کیا دیکھتی ہوں کہ باہر گٹر اس قدر ابل پڑے ہیں کہ ان کے سیاہ اور گندے پانی سے گلیاں بھر گئی ہیں حتی کہ پانی گھر کی کھڑکیوں تک آ پہنچا ہے۔ یہ گندا پانی اس قدر زیادہ ہوتا جاتا ہے کہ مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ تمام گھر پانی کے نیچے ڈو ب گئے ہیں ۔ہر طرف موت کا خوف چھایاہوا ہے۔ نہ کوئی گھر نظر آتا ہے، نہ گاڑیاں، نہ راستے اور نہ ہی کوئی لوگ۔ میںسوچتی ہوں کہ میرا خاوند اور بچے تو گھر کی نچلی منزل میں ہیں۔ میں انہیں بچانا چاہتی ہوں لیکن نچلی منزل میں پانی آچکا ہوتا ہے او رمیرا وہاں جانا غرق ہونے کے مترادف نظر آتا ہے۔ میں یہ صورتحال دیکھ کر ہاتھ اٹھاکرغیر معمولی رقت آمیز لہجے میں دعا کرتی ہوں کہ یارب! ہمیں عذاب سے بچالے۔ الٰہی ! میں نے تو تیرے بھیجے ہوئے مسیح کو بھی مان لیا ہے، اب تو مجھے اس مصیبت سے نجات بخش۔
اس دعا کے بعد منظر بدل جاتا ہے او رکیا دیکھتی ہوں کہ میں ایک وسیع گھر کی چھت پر ہوں جس پر چند اور لوگ بھی ہیں اوریہ احساس ہے کہ تمام علاقے کے لوگوں میں سے یہی چند بچائے گئے ہیں۔
آنکھ کھلتے ہی اس خواب کی تعبیر بھی سمجھ آگئی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے کی وجہ سے ان چند لوگوں میں شمار کرلیا جن کو اس زمانے کے عذابوں اور فتنوں سے نجات دی گئی ہے۔
شرابِ علم وعرفان
کچھ عرصہ قبل میرے تیرہ سالہ بیٹے نے ایک رؤیا میں مجھے دیکھا کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام میرا ہاتھ پکڑکرایک نہر پر لے جاتے ہیں او ر وہاں سے ایک گلاس پانی کابھر کر مجھے پینے کے لئے دیتے ہیں۔ میرا بیٹا بھی اس میں سے پینا چاہتا ہے تو میں کہتی ہوں کہ اگر تم احمدی ہو تو پھر یہ پانی پی سکتے ہو۔ وہ پیتا ہے تو کہتا ہے کہ اس کا پانی تو چینی کی طرح میٹھا ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ شرابِ علم وعرفان اور روحانیت میری اولادبلکہ تمام دنیا کوپینے اورامام الزمان کی بیعت میں آنے کی توفیق بخشے ۔آمین۔
(باقی آئندہ)