متفرق مضامینمضامین

وہ جس پہ رات ستارے لئے اترتی ہے (قسط 9)

(آصف محمود باسط)

جب اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ مسلمہ کو اپنا ٹی وی چینل عطا فرمایا،یہ ہمارے ہوش کی بات ہے۔اسی لئے خود اس بات کی گواہی دے سکتا ہوں کہ وہ دن بھی کیا ہی خوشی کا دن تھا۔ اس روز ساری دنیا نے بڑی شان سے یہ وعدہ پورا ہوتا ہوا دیکھا۔ یہ 1992ءکی بات ہے۔ اس دور میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ہجرت اور اس کے مستقبل سے متعلق امکانات پر باتیں ہر احمدی گھرانے بالخصوص ربوہ کے گھرانوں اور مجالس میں ہوا کرتی تھیں۔ کچھ کہتے تھے کہ ربوہ دوبارہ خلافت کا مسکن بنے گا۔ کچھ کہتے کہ مذاہب کی تاریخ سے ایسا ثابت نہیں۔ مگر اس ہجرت کے کیسے کیسے شیریں ثمرات جماعت کو ملنے والے تھے ان کا اندازہ بہت سی اور باتوں سے بھی ہوتا ہےمگر ایم ٹی اے کے قیام نے تو ایسا شیریں ثمر عطا کیا کہ کیا ہی کہنے۔ان دنوں ربوہ کے ایک شاعر مبشر احمد محمود صاحب نے ایک شعر لکھا اور کیا ہی خوب لکھا ؎

ہوا کے دوش پہ لاکھوں گھروں میں دَر آیا
جو شخص چھوڑ کے نکلا تھا گھر خدا کے لئے


خلافت صرف ربوہ ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر ملک کے ہر شہر کے ہر گھر میں جا پہنچی۔ اور پھر روزِ اوّل ہی سے پوری دنیا میں پھیلی جماعت احمدیہ اور اس جماعت کے نقطۂ مرکزی یعنی خلیفۃ المسیح کے درمیان ایم ٹی اے نے ایک مضبوط رابطہ کی صورت اختیار کر لی۔ امریکہ سے لے کر، یورپ سے ہوکر، ایشیا سے گزر کر شرقِ بعید تک تمام ممالک کے احمدی موتیوں کی طرح خلافت کی اس ڈور میں پرو دئیے گئے۔جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ نے جو یہ نوزائیدہ انعام اتارا تھا، اس کی ابتدائی نگہداشت حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی گود میں ہوئی۔

خلافتِ خامسہ کے بابرکت دَور کا آغاز ہوا تو ایم ٹی اےجوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکا تھا۔ پھر حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی شفقت اور محبت جوانی میں قدم رکھتے ایم ٹی اے کو نصیب ہوئی تو یہ حال ہوا کہ ؎


رنگ تھےاُس کے دیکھنے والے
جب بہاروں پہ وہ چمن آیا

ایم ٹی اے اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی پہلی ملاقات جس روز ہوئی، اس روز ایم ٹی اے کو دیکھنے والوں کی تعداد کا ریکارڈ قائم ہوگیا۔ آسمانِ احمدیت پر نصف شب میں طلوعِ شمس کا یہ نظارہ کروڑوں آنکھوں نےمشاہدہ کیا۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس کے مسندِ خلافت پر متمکن ہونے کا تاریخ ساز اعلان سننے اور اپنے امام کا پہلا دیدار حاصل کرنے کا شرف ساری دنیا نے ایم ٹی اے کے ذریعہ سے حاصل کیا۔

ایم ٹی اےکی اہمیت کا احساس ہر احمدی کے دل میں ایک نئے سرے سے مستحکم ہوا۔جماعت احمدیہ عالمگیر کی عالمگیریت کے سلسلہ کی اس بابرکت کڑی کو پہلے ہی روز سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی توجہ حاصل رہی۔ایم ٹی اے کے مختلف شعبہ جات سے متعلق ہدایات سے، محاورہ میں نہیں، حقیقت میں دفتروں کے دفتر بھرے پڑے ہیں۔خاکسار کے سپرد ایم ٹی اے کے پروگراموں کی ذمہ داری ہے، سو میں جو عرض کروں گا وہ اپنے شعبہ کے حوالہ سے عرض کروں گا۔ جہاں شعبہ پروگرامنگ کی راہیں دوسرے شعبہ جات کی راہوں سے ملتی ہیں، وہاں ان شعبہ جات کا ذکر بھی ساتھ ساتھ چلتا رہے گا۔

9 ؍ دسمبر 2004 ءکو خاکسار کو یہ مُژدہ موصول ہوا کہ سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خاکسار کی وقفِ زندگی کی درخواست منظور فرمالی ہے۔میری پوسٹنگ ایم ٹی اے کے آفس انچارج کے طور پر ہوئی۔ اس شعبہ میں زیادہ تر کام انتظامی نوعیت کی خط و کتابت وغیرہ سے متعلق تھا۔حضور کی ایم ٹی اے کے لئے توجہ اور شفقت کے نظارے اوّل اوّل اسی دفتر میں دیکھنے کا موقع ملا۔ ہمارا دفتر محمود ہال کے اس مقام پر واقع ہے جہاں سے حضور انور نماز کے بعد رہائشگاہ میں تشریف لے جاتے ہیں۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ حضور انور کسی نماز کے بعد دفتر میں تشریف لے آتے۔جو جو موجود ہوتا اس سے اس کے کام کے متعلق دریافت فرما لیتے۔ہمارے حوصلے بلند ہوجاتے اور کام میں ایک نئی امنگ پیدا ہو جاتی۔ کبھی نمازوں کے اوقات کے علاوہ بھی حضور ایم ٹی اے میں تشریف لے آتے۔ اس دور میں ایم ٹی اے کے تمام شعبہ جات محمود ہال ہی کےمختلف کونوں میں سمائے ہوئے تھے۔یوں تمام شعبہ جات میں حضور کے بابرکت قدم پڑ جاتے اور حضور کی تشریف آوری سے سب شعبوں کے کارکنان فیض حاصل کر لیتے۔

بدھ کے روز میری ہفتہ وار چھٹی کا دن ہوتا تھا۔فروری 2005 ءکی ایسی ہی بدھ کی صبح بچوں کو سکول اتار کرخاکسار اہلیہ کے ساتھ بازار میں سودا سلف وغیرہ خرید رہا تھا کہ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری سے محترم ظہور احمد صاحب مربی سلسلہ کا فون آیا۔ انہوں نے بتایا کہ حضور نے یاد فرمایا ہے۔

’’مگر ظہور صاحب میں تو اس وقت بازار میں ہوں۔لیکن ابھی چل پڑتا ہوں۔ تھوڑی دیر میں پہنچتا ہوں!‘‘

’’کتنی دیر میں آسکتے ہیں؟‘‘

’’کوئی پندرہ بیس منٹ میں‘‘

یہ کہتے کہتے مَیں گاڑی میں بیٹھ چکا تھا۔خواتین کی شاپنگ ادھوری رہ جائے تو ان کے جذبات کا اندازہ تو سب مرد حضرات کو ہے۔ مگر یہ تجربہ جہاں میرے لئے نیا تھا، وہاں میری اہلیہ کے لئے بھی نیا تھا۔ وہ بھی خاموشی اور صبر و رضا کے ساتھ گاڑی میں بیٹھی رہیں اور میں بھی نہایت خاموشی سے گاڑی کو ٹوٹنگ کے بے لگام ٹریفک میں سے نکالنے کی کوشش کرتا رہا۔ عموماً تو اس جگہ سے مسجد فضل تک پندرہ بیس منٹ کا وقت ہی لگا کرتا ہے۔مگر اس روز تو ایسا لگتا تھا کہ باقی سب ٹریفک نے میرے خلاف کوئی اتحاد کرلیا ہے۔ کچرا اٹھانے والے ٹرک بھی اسی روز بیچ سڑک تسلی سے کھڑے کچرے کے ڈھیروں کو نگل رہے تھے۔ کچرا اٹھانے والے بھی دنیا و مافیہا سے بے خبر تمباکونوشی کا لطف یوں لےرہے تھے کہ جیسے آج کے بعد سگریٹ کبھی نصیب نہ ہوگا۔ ہر جگہ گاڑی سیکھنے والے بھی یوں خراماں خراماں چلے جارہے تھے کہ آج کثرتِ احتیاط کا نیا ریکارڈ قائم کرنا ہے۔ سارے لندن نے اسی روز ڈرائیونگ ٹیسٹ پاس کرنا تھا۔ کہیں مزدور راستہ بند کئے سڑک کھود کر بیٹھ گئے تھے۔ غرض سفر کیا تھا، ایک روک دوڑ تھی۔ اس روک دوڑ سے گزرکر مسجد فضل پہنچنے میں اس روز نصف گھنٹہ سے بھی کچھ زیادہ وقت لگ گیا۔ حاضرہوا تو ظہور صاحب نے کہا کہ اب تو حضور بلائیں گے تو ہی پوچھوں گا۔ تھوڑی ہی دیر بعد حضور نے یاد فرمالیا۔ ابھی ایک قدم دفتر کے اندر اور ایک باہر ہی تھا کہ ارشاد ہوا ’’ حضرت مصلح ِ موعودؓکی جب اچھی کوالٹی کی تصویریں اور وڈیوز ہیں تو اتنی کم کوالٹی کی تصویریں کیوں دکھاتے ہو؟‘‘ عرض کرنے کی مجال نہیں تھی کہ حضور مَیں تو دفترمیں بیٹھتا ہوں، یہ کام کسی اور شعبہ کا ہے۔ مگر شکر ہے کہ کچھ عرض کرنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ ساتھ ہی اگلا ارشاد ہوگیا ’’یہ ساری کم کوالٹی کی تصویریں روکنی ہیں اور ان سے کہو کہ ساری تصویریں اور وڈیوز جوحضرت مصلح موعودؓ کی پڑی ہوئی ہیں مجھے دکھائیں، مَیں خود بتاؤں گا کہ کون سی دکھائی جائیں۔ حضرت مصلح موعودؓکی شخصیت تو بڑی شان و شوکت والی شخصیت تھی۔ تصویروں میں بھی وہ شان و شوکت نظر آنی چاہیے۔‘‘

عرض کی ’’جی حضور‘‘

فرمایا ’’اور یہ فروری کا مہینہ ہے۔ چوہدری محمد علی صاحب کے انٹرویو جن میں حضرت مصلح موعود ؓ کا ذکر ہے وہ انٹرویو زیادہ چلانے ہیں آجکل۔ بتا دینا ‘‘۔

عرض کی’’جی حضور‘‘۔

مَیں مکمل بوکھلاہٹ میں تھا۔ جزاک اللہ کہہ کر باہر نکلنے والا ہی تھا کہ ارشاد ہوا

’’کیسے بتاؤ گے؟‘‘

عرض کی کہ حضور ، مجھے معلوم نہیں۔

مجھے واقعی معلوم نہیں تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح کی ہدایات کسی کو پہنچانے کا طریقِ کار کیا ہے۔

’’اب باہر جا کر میرے نام خط لکھو کہ میں نے بلاکر تمہیں یہ بتایا ہے۔ پھر میں اس کی توثیق کردوں گا۔ پھر وہ توثیق والا خط چیئرمین صاحب کو دے دینا‘‘۔

حضرت خلیفۃ المسیح کے ساتھ جماعتی خط و کتابت اور پھر اسے آگے پہنچانے کایہ پہلا سبق تھا۔پروگراموں کی ذمہ داری تو بہت بعد میں ملنی شروع ہوئی، مگر پروگراموں میں دکھائے جانے والے مواد کی حساسیت کا درس پہلی دفعہ اس ملاقات میں حاصل ہوا۔آج سوچتا ہوں تو اس سبق کی گہرائی اور بھی کھلتی جاتی ہے۔ ٹی وی کا تعلق صرف سماعت سے نہیں بلکہ بصارت سے بھی ہے۔ سو جوبات کہی جارہی ہے، اس کے ساتھ visuals اگر مناسبِ حال نہ ہوں تو بات کا اثر کم ہوجاتا ہے۔ پھر یہ کہ اگر حضرت مسیح موعود ؑ یا خلفاء کی تصاویر کی بات ہو، تو اس میں باریکی سے احتیاط کی جائے کہ کہیں ہمارے ناقص انتخاب سے ان بزرگ ہستیوں کی شان میں گستاخی نہ ہو۔ پھر یہ کہ نئی نسل نے جن بزرگوں کو نہیں دیکھا، ان کے ذہن میں تو وہی تأثر بنے گا جو ہم ایم ٹی اے پر دکھائیں گے۔

بہت بعد میں ایک اور موقع پر بھی حضور نے اظہار فرمایا کہ ’’میں نے جب حضرت مصلح موعود ؓ کوآخری مرتبہ دیکھا، اس وقت میری عمر کوئی پندرہ سولہ سال کی تھی۔ اور حضرت مصلح موعودؓ کی صحت بھی اچھی نہیں تھی۔ مگر اس وقت بھی جو بات ذہن پر نقش ہوگئی وہ آپ کی شخصیت کی شان و شوکت ہے۔ تصویروں اور وڈیوز کا انتخاب احتیاط سے ہونا چاہئے۔‘‘

ایک مرتبہ حضور کی طرف سےایم ٹی اے(اور نشر و اشاعت کےدیگر اداروں ) کے لئے ہدایت آئی کہ حضرت مسیح موعودؑ اور آپؑ کے خلفاء کی تصاویر اور وڈیوزمیں کسی بھی طرح کا ردّوبدل نہ کیا جائے۔ انگریزی الفاظ تھے

……. should not be graphically tampered with

حضور کا انداز بات کو سمجھانے کا ہمیشہ یہی دیکھا۔ الفاظ کم مگر معانی کا ایک جہان۔ حضور کا ہر ارشاد ایسا ہے جیسے انسان آئینہ خانہ میں داخل ہو جائے اورہر طرف رنگارنگ نقش ونگار بنتے چلے جائیں۔یہاں بھی الفاظ اگرچہ کم تھے مگر ہمارے لئے ایک بہت بڑا سبق موجود تھا کہ ایم ٹی اے کے پاس جو بھی تصاویر اور وڈیوز موجود ہیں وہ جماعت کی امانت ہیں۔ انہیں جماعت تک پہنچانا ایم ٹی اے کی ذمہ داری قراردیا گیا ہے۔ انہیں پروگراموں میں دکھا کر صرف موجودہ نسلوں تک ہی نہیں پہنچانا بلکہ ان کو محفوظ کرنے کا بھی ایسا انتظام کرنا ہے کہ آئندہ نسلیں اس خزانہ کو بحفاظت حاصل کریں اور ان کی نشر و اشاعت کا کام جاری رہے۔ اگر آج ہم ان مقدس ہستیوں کی تصاویر کو گرافکس وغیرہ کے ذریعہ چھیڑنے کی کوشش کریں گےتو پھر حد کھینچنا مشکل ہو جائے گا۔ پھر بات رنگ بھرنے اور نقش و نگار بنانے اور پھر خاکوں تک جا پہنچنے کا احتمال ہے۔ پھر یہ بھی کہ اللہ کی ان چنیدہ ہستیوں کے حُسن کو کسی اور زیب و زینت کی احتیاج نہیں۔ لوگ انہی چہروں پر اللہ کا نور دیکھتے رہے ہیں اور دیکھتے رہیں گے۔ انہیں دنیوی زیب و زینت کی ضرورت نہیں کہ ان چہروں کے نور کے آگے دنیا کی زیب و آرائش کے سب سامان ہیچ ہیں۔جنہیں خدا نے نور اور حسنِ صداقت سے مالامال کیا ہو، ان میں انسان کو دخل دینے کی کیا ضرورت؟

2005 ءمیں ابھی میں دفتر ہی میں تعینات تھا کہ ایک روز ارشاد موصول ہوا کہ حضور انور نے ایم ٹی اے نیوز کی ذمہ داری خاکسار کے سپرد فرمائی ہے۔ تب نیوز کا سٹوڈیو بیت الفتوح میں منتقل ہوا ہی تھا۔ ریکارڈنگ رات کو ہوا کرتی۔ خاکسار دن کو دفتر کا کام کیا کرتا اور شام کو نیوز کی ریکارڈنگ کے سلسلہ میں بیت الفتوح حاضر ہوا کرتا۔ تب تک دنیا بھر کی جماعتی خبریں روزانہ کے عام بلیٹن ہی میں شامل کی جاتی تھیں۔ ایک روز حضور انور کی خدمت میں تجویز پیش کی گئی کہ جماعتی خبروں کا الگ بلیٹن ریکارڈ ہواکرے۔ حضور انور نے ازراہِ شفقت منظوری عطا فرمائی مگر ہمارے لئے اب مسئلہ یہ بن گیا کہ کبھی توجماعتی خبریں اتنی ہوتیں کہ ایک معقول دورانیہ کا بلیٹن بن جاتا، کبھی ایک بھی خبر نہ ہوتی۔ یہ مشکل حضور انور کی خدمت میں پیش کی گئی تو حضو ر انور نے ہدایت فرمائی کہ ایڈیشنل وکالتِ تبشیر کے ذریعہ دنیا بھر کی جماعتوں کو یہ سرکلر کروایا جائے کہ وہ اپنی کارگزاری کی رپورٹ ایم ٹی اے کو بھجوایا کریں تاکہ انہیں جماعتی خبروں میں شامل کر لیا جایا کرے۔

اس ایک ہدایت سے ہماری مشکل تو دورہو ہی گئی مگرساتھ یہ رہنمائی بھی مل گئی کہ جماعت احمدیہ کا نظام جس طرز پر خلفاء نے تعمیر کیا ہے، وہ بے سبب نہیں۔اس نظام کے تحت کام کیا جائے تو منزلِ مقصود حاصل ہوتی ہے ورنہ نہیں۔ ایڈیشنل وکالتِ تبشیر کا کام ہی یہ ہے کہ بیرونی جماعتوں سے رابطہ رکھیں اور بیرونی جماعتیں بھی ان سے مستقل رابطہ میں رہتی ہیں۔ جب اس شعبہ کا کام ہی بیرونی مشنز سے رابطہ ہے تو کیوں اس سے استفادہ نہ کیا جائے۔ اور بہت سے معاملات میں بھی حضور کی ایسی ہدایات ایم ٹی اے کو حاصل رہیں جن سے نظامِ جماعت کو سمجھنےاور اس کے دائرہ میں رہ کر کام کرنے کی توفیق ملتی ہے۔

جماعتی خبروں ہی کے سلسلہ میں حضور انور نے پرسیکیوشن نیوز شروع کرنے کی ہدایت فرمائی۔ یہ پروگرام کس طرح ارتقا سے گزر کر ’’راہِ ہُدیٰ‘‘ کی شکل تک پہنچا، اس کی تفصیل ایک گزشتہ مضمون میں آچکی ہے۔مگر اس پروگرام کے حوالہ سے حضور انور کی ہدایات بھی ایک امانت ہیں جو قارئین تک پہنچ جائیں تو ان کے لئے بھی اسی طرح ایمان افروز ہوں گی جس طرح ان ہدایات کے براہِ راست مخاطب نے ان سے فیض پایا۔

جب پروگرام ’’راہِ ہُدیٰ‘‘ کا آغاز ہوا تو یہ ایم ٹی اے کے لئے ایک بالکل نیا تجربہ تھا۔ چونکہ لائیو کالز کی سہولت تھی سو ناظرین کی طرف سے فون کالز کثرت سے آیا کرتیں۔ احمدی اور غیر ازجماعت سبھی کی کالز ہوتیں جو پروگرام میں سنی جاتیں۔ لائیو کالز کی سہولت دیتے وقت یہ اندیشہ دامنگیر تھا کہ کہیں معاندین بد تہذیبی کا مظاہرہ نہ کریں۔ حضور انور سے رہنمائی کی درخواست کی گئی تو فرمایا’’کال سیدھی سٹوڈیو میں تو نہیں جائے گی ۔ پہلے تمہاری ٹیم اسے ریسیو کرے گی، ان سے کچھ بات کرے گی، پھر کال سٹوڈیو میں جائے گی۔ ایسا ہی ہے نا؟‘‘

عرض کی کہ جی حضور ایسا ہی ہے۔فرمایا’’تو بس …….جیسی بات چیت ان کے ساتھ تمہاری ٹیم فون اٹھاتے ساتھ کرے گی، اس سے ہی کالر کی بات چیت کے انداز کا فیصلہ ہو گا۔ پھر جب کال سٹوڈیو میں آئے تو جس انداز میں تم لوگ بات کرو گے، اس کا اثر ضرور کالر پر بھی ہوگا‘‘۔

لکھنے کو تو یہ ہدایت میں نے یہاں تین سطور میں درج کر دی ہے، مگر میرا ایمان ہے کہ اس ہدایت کے اندر (ہر فرمان کی طرح) دعا بھی تھی۔ ان دنوں پاکستانی ٹی وی چینلز پر ٹاک شوز کا دور دورہ تھا۔ کیا میزبان، کیا مہمان، کیا لائیو کال کرنے والے، سب بد تہذیبی کا مظاہرہ ایسے کرتے گویا بدتمیزی کا کوئی مقابلہ ہے اور سب سے زیادہ بدتہذیب اور غیر شائستہ گفتگو کرنے والے کو کوئی انعام ملے گا۔ مگر ہمارے امام نے ہماری جو رہنمائی فرمائی ، اس کا عملی رنگ خود آپ کے خطبات اور خطابات میں نظر آتا ہے۔ آج جب کہ پروگرام راہِ ہُدیٰ کو شروع ہوئے آٹھ سال کا عرصہ ہو گیا، مجھے یہ اقرار ان سطور میں کرنے دیجیے کہ کوئی ایک بھی لائیو کال ایسی نہیں جس میں دشنام طرازی کی گئی ہو۔ بڑے بڑے گرما گرم فون بھی آتے رہے، تیز لہجے بھی سننے کو ملے مگر کوئی ایک کال ایسی نہیں جو تہذیب سے گری ہوئی گفتگو پر مبنی ہو۔یہ حضور انور کی اسی ہدایت کا کرشمہ تھا، اَور ہے ۔

ایک مرتبہ ہمارےپینل میں بیٹھے ہوئے کسی دوست کے لہجے میں درشتی کا رنگ غالب آگیا۔ اگلے روز ملاقات کے لئے حاضر ہواتو حضور نے اتفاق سے وہی حصہ ملاحظہ فرما رکھا تھا۔ فرمایا کہ ’’سب شرکاء کو اچھی طرح بتادو کہ زبان اور لہجہ نرم ہونا چاہیے۔ جب میں درشت زبان استعمال نہیں کرتا تو اَور کوئی کیوں کرے؟‘‘

بالکل آغاز کی بات ہے کہ پروگرام میں دیا گیا ایک جواب حضور کوغیر ضروری طور پر طویل لگا۔ اگلی مرتبہ حاضر ہوا تو فرمایا کہ :

’’سب کو بتادو کہ پروگرام کا مقصد پیاس لگانا ہے۔ پیاس بجھانا نہیں۔ ایک مرتبہ پیاس لگ گئی تو پھربجھانے کا انتظام اللہ خود ہی کردےگا‘‘۔

ایک موقع پر خاکسار نے عرض کی کہ حضور، جس طرح الحوارالمباشر میں کثرت سے لوگ بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہورہے ہیں، راہِ ہُدیٰ میں وہ صورت نہیں۔ ہر پروگرام میں ایک یا دولوگ ہی اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ جماعت میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ فرمایا ’’مجھے بیعتوں کی کوئی جلدی نہیں۔ تم لوگوں کا کام اتمامِ حجت کرنا ہے، وہ کردو۔ دلوں کو پھیرنا خدا کے ہاتھ میں ہے‘‘۔ سبحان اللہ!خدا کی ذات پر ایسا یقین کامل ایسے آدمی ہی کو ہو سکتا ہے جس کا خدا تعالیٰ کے ساتھ براہِ راست تعلق ہو۔

حضور کو طویل جواب ہمیشہ ناپسندرہے۔ اور اس کے پیچھے کارفرما حکمت پر سے حضور نے خود پردہ بھی اٹھایا کہ بات مختصر ہو تو پیاس بھی بڑھتی ہے اور مزید جاننے کی خواہش بھی باقی رہتی ہے۔ مگر ایک دفعہ یوں ہوا کہ محترم مبشر احمد کاہلوں صاحب پاکستان سے ٹیلی فون کے ذریعہ پروگرام میں شامل تھے۔ محترم کاہلوں صاحب جواب اپنی مرضی کے طویل دیتے ہیں مگر اس بارہ میں انہیں کبھی توجہ دلانے کی مجال نہ ہوئی۔ وہ اس لئے کہ ایک مرتبہ پروگرام راہِ ہُدیٰ کے آغاز کے زمانہ میں حضور نے فرمایا کہ’’ کل میں نے پروگرام کا کچھ حصہ دیکھا تھا۔ کاہلوں صاحب کا جواب بہت لمبا تھا، لیکن ٹھیک ہے، انہیں تو حضرت مسیح موعودؑ کی کتابیں حفظ ہیں۔ انہی میں سے باتیں بیان کررہے تھے‘‘۔یعنی یہ توجہ بھی دلا دی کہ اپنے ذوقی نکات بیان کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ قرآن ، حدیث اور حضرت مسیح موعودؑ اور آپ ؑ کے خلفاء کے ارشادات پر مبنی گفتگو ہو۔ یہ بات حضور نے ویسے بھی کئی مواقع پر بیان فرمائی کہ اگر قرآن ، حدیث اور حضرت مسیحِ موعودؑ اور آپؑ کے خلفاء کو اپنا دائرہ سمجھ لیا جائے تو اس سے بہتر کوئی جواب نہیں ہوسکتا۔

اس سے ایک اور بات یاد آگئی۔محرم کا مہینہ تھااور یومِ عاشور میں ایک آدھ دن کا وقت رہتا تھا۔ ہمارا پروگرام ہوا اور کسی ایک بھی غیر احمدی نے کال نہ کی۔ سب کالر احمدی ہی تھے، وہ بھی بہت کم۔ مَیں اگلے روز ملاقات کے انتظار میں بیٹھا تھا۔ طبیعت پروگرام کی ویرانی کے باعث اداس تھی۔ مجھے یہ اندیشہ کھائے جارہا تھا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ بس کچھ ماہ لوگوں نے نیا پروگرام پسند کیا اور اب دلچسپی کم ہوتی جارہی ہے۔ حاضرہوا تو اپنی افسردگی کا اظہار کیا۔ خیال نہ رہا کہ افسردگی کا اظہار اس ہستی کے سامنے کررہا ہوں کہ افسردگی اور مایوسی جس کے پاس سے بھی نہیں گزرتی۔

فرمایا’’کوئی بات نہیں۔ ابھی محرم کا مہینہ ہے۔ پاکستان میں تو اس مہینہ میں لوگ مصروف ہوتے ہیں۔ اب یہ دن گزرجائیں گے تو ٹھیک ہوجائے گا‘‘۔

اگلا پروگرام ہوا تو اس روز جتنے غیر احمدیوں کے فون آئے، پہلے کبھی بھی نہ آئے تھے۔ اس روز تمام کالز غیرازجماعت احباب ہی کی سنی گئیں۔ احمدی کالر ناراحت بھی ہوئے کہ ہماری کالز بالکل نہیں لی گئیں۔ مگر ہم کیا کرتے کہ پہلا حق تو انہی کالرز کا تھا جو جماعت احمدیہ کے عقائد سے تعارف حاصل کرنا چاہتے تھے۔اس پروگرام کے بعد جب حاضرِ خدمت ہوا تو میں نے بہت جوش اور جذبہ سے بتایا کہ حضور، اس پروگرام میں تو اتنے غیر از جماعت کالر آئے کہ سنبھالنا مشکل ہوگیا۔ بلکہ بہت سے تو رہ بھی گئے جن کی کالز وقت کی کمی کے باعث لی ہی نہ جاسکیں۔حضور نے اس بات کو اس طرح سنا جس طرح حضور کو معلوم ہی تھا کہ ایسا ہوگا۔ میں نے یہ بھی عرض کردی کہ احمدی کالرز تو نالاں رہے کہ ان کی کالز نہیں لی جاسکیں۔ اس روز ایک اور ہدایت ارشاد ہوئی جس سے ایک نیا زاویہ روشن ہوا۔ فرمایا:

’’احمدی کالرز کی بھی کالز لے لیا کرو۔ وہ سنیں گے ، سمجھیں گے تو تبلیغ کرتے ہوئے انہی باتوں کو سمجھائیں گے۔ دوسروں کا پہلا حق ہے، مگر جہاں ہوسکے وہاں احمدی کالر کی کال بھی ضرور لو‘‘۔یعنی ایک پروگرام ہے، اس سے ایک ہی مقصد کیوں حاصل ہو۔ جہاں ایک ہی چیز سے ایک سے زیادہ مقاصد حاصل ہوتے ہوں، وہاں زیادہ مقاصد حاصل کئے جائیں۔ جہاں تبلیغ ہو وہاں تبلیغ کے لئے تیاری کا کام بھی ہوتا رہے۔ پھر یہ بھی کہ گھر والوں کا بھی تو حق ہوتا ہے۔

اسی طرح ایک مرتبہ پاکستان کے احمدی کالرز کا ذکر تھا۔ عرض کی کہ بعض کالر ایسے بھی ہیں کہ کال کر کے صرف اظہار خیال کرتے ہیں، سوال نہیں پوچھنا ہوتا۔ فرمایا ’’ٹھیک ہے۔ پھر کیا ہؤا۔ پاکستان میں تو ان کی زبان پر ویسے ہی پابندی ہے۔ کسی کی بات اچھی ہو اور اس کا شوق پورا ہوتا ہو تو کرنے دو‘‘۔

دیکھئے تو! حضور مکانی اعتبار سے پاکستان سے دور سہی مگر دل اپنے ان مظلوم بچوں سے کس قدر قریب ہے۔ ان کے درد کا احساس سب سے زیادہ، ان سے بھی زیادہ حضور انور کے دل میں ہے۔ایسی محبت دنیا کے کس رہنما کواپنے لوگوں سے ہوگی۔ سبھی کا درد حضور کے دل میں تو ہے۔ غالب نے تو اپنے لئے مصرعہ کہا تھا، مگر ہم تو حضور کے لئے اللہ کے حضور فریاد کرتے ہیں کہ ؎

’’اِن کی‘‘ قسمت میں غم گراتنا تھا

دل بھی یارب کئی دئیے ہوتے

آغاز میں جب بھی حضور سے پروگرام کے شرکاء کے سلسلہ میں رہنمائی کی درخواست کی گئی، ایسا لگا کہ حضورکی نظر کے سامنے اپنے تمام علماء موجود ہوتے ہیں۔ موضوع کے اعتبار سے علماء کے نام ارشاد فرماتے۔ کوئی تجویز ہوتی تومنظور بھی فرمالیتے مگر بعض اوقات ساتھ فرماتے کہ فلاں صاحب اس موضوع پر اچھی بات کر لیں گے۔ بعض علماء کو پروگرام میں آئے کچھ وقت گزرجاتا تو یہ بھی حضور کو یاد ہوتا۔ فرماتے کہ ’’ …..صاحب بڑی دیر سے نہیں آئے۔ کوئی پروگرام عیسائیت پر ہو توان کو بلالینا‘‘۔

جب عرض کی کہ مثلاً سیرت حضرت مسیح موعودؑ پر پروگرام ہے۔ تو صرف یہاں لندن ہی کے نہیں بلکہ پاکستان کے علماء بھی مستحضر ہوتے کہ سیرت کو کون اچھا بیان کرسکتا ہے۔

پاکستان کے علماء کو پروگرام میں شامل کرنے کا جس روز حضور انور نے فیصلہ فرمایا، اس روز ساتھ یہ بھی فرمایا کہ ’’پاکستان میں انہیں روزمرہ غیر احمدی مسلمانوں سے واسطہ رہتا ہے۔ انہیں بہتر معلوم ہے کہ آج کل کون سے سوال زیادہ پوچھے جاتے ہیں ۔ پھر پاکستانی لوگوں کے رحجان کا بھی انہیں بہتر پتہ ہے کہ کیسے جواب سے مطمئن ہوتے ہیں‘‘۔

حضور کے سامنے علماء کے نام بطور تجویز پیش ہوتے۔ تین یا چار نام لکھ کر عرض کر دیتا کہ حضور ان میں سے یا جن کو حضور مناسب خیال فرمائیں، کوئی سے دو علماء کی منظوری عنایت فرمائیں۔حضور کوئی سے دوناموں کے ساتھ نشان لگا کر ان کی منظوری عنایت فرمادیتے۔ یا کوئی اور نام تحریر فرمادیتے۔ ایک صاحب کا نام تھا جس کے ساتھ کبھی منظوری کا نشان لگا ہوا نہ آیا۔ میں نے خیال کیا کہ ان کی منظور ی نہیں آتی لہٰذا اُن کا نام لکھنا چھوڑ دیا۔ بعد میں ایک اور پروگرام شروع ہوا جس کی نوعیت مختلف تھی۔ اس کے لئے انہی صاحب کا نام حضور انور نے ازخود ارشاد فرمایا کہ ان کو بلالو۔ تو یہ بات ایک مرتبہ پھر معلوم ہوگئی کہ حضور کو صرف علماء کے نام ہی نہیں مستحضر ہوتے بلکہ ان کی قابلیت اور ان کے علمی رحجان کا بھی خوب علم ہوتا ہے کہ کب، کون ، کہاں پر مناسب ہے۔

ایک بار عرض کی کہ راہِ ہُدیٰ میں ایک غیرازجماعت کالر نے شکوہ کیا ہے کہ جب ہم ان کے لئے ’’غیر احمدی کالر‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو انہیں اس سے ’غیریت‘ کا احساس ہوتا ہے۔ فرمایا ’’تو نہ کہا کرو غیراحمدی۔Non Ahmadiکہہ لیا کرو‘‘۔ عادتاً کبھی زبان سے نکل ہو گیا تو الگ بات ورنہ اس بات کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے کہ انہیں غیر احمدی نہ کہا جائے۔

کرسچن مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے لئے اردو میں ’’عیسائی‘‘ کی اصطلاح عام ہےاور کبھی بھی یہ اصطلاح ہتک آمیز خیال نہیں کی گئی۔ ایک کرسچن خاتون جرمنی سے بڑی باقاعدگی سے فون کرتیں اور سوالات پوچھتیں۔ ایک بار انہوں نے کہا کہ جس طرح آپ اپنے لئے ’’قادیانی‘‘ کی اصطلاح پسند نہیں کرتے ، میں بھی عیسائی کہلوانا پسند نہیں کرتی۔ ہم مسیحی ہیں اور ہمیں اسی نام سے پکارا جائے۔حضور نے فرمایا کہ انہیں مسیحی ہی کہا جائے مگر ساتھ یہ وضاحت بھی دے دینا کہ ہم قادیان سے منسوب ہونا باعثِ فخر سمجھتے ہیں مگر یہ ضرور کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کا نام جماعت کے بانی(علیہ السلام) نے جماعت احمدیہ رکھا تھا، لہٰذا من حیث الجماعت ہمارا حوالہ یہی نام ہے۔ یعنی حضور انور کو اسلام کے پیغام کو عام کرنے کی تڑپ تو سب سے زیادہ ہے ہی، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ خیال رکھنا بھی سکھا دیا کہ ہماری کسی بھی بات سے ناظرین کی دل آزاری نہ ہو۔

پروگرام میں غیر مبائعین کا ذکر تھا۔عادتاً انہیں پروگرام میں ’لاہوری‘ احمدی کہہ کر ذکر کیا گیا۔ ایک صاحب کا فون آیا کہ ہم نہیں پسند کرتے کہ ہمیں ’لاہوری‘ کہا جائے۔ ہدایت کی درخواست کی تو فرمایا کہ’’ جو وہ پسند کرتے ہیں وہ کہہ لیا کرو۔خود بھی بہت سے لاہوری احمدی خود کو لاہوری ہی کہتے ہیں۔ انہی کو کہو کہ بتا دیں۔ جو کہیں وہ کہہ لیا کرو‘‘۔ ان سے رابطہ کر کے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ہمارا حوالہ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے طور پر دیا جائے۔ سو آئندہ سے اس بات کی بھی احتیاط کی گئی۔

مقصد یہ کہ حضور انور نے ہمیں قدم قدم پر سمجھایا کہ محبت کو عام کرنا ہے، نفرت کو نہیں۔ جو کام محبت سے ہوتا ہے وہ دل دکھا کر نہیں ہو تا، بلکہ اُلٹا بُعد اور فاصلے بڑھتے ہیں۔

ایک مرتبہ ایک سوال کے جواب میں ہمارے ایک عالمِ دین نے ایسی بات بیان کردی جو جماعتی موقف کو درست پر بیان نہیں کرتی تھی۔ ملاقات کے لئے حاضرہوا تو حضور انور نے فرمایا کہ میں نے خود بھی محسوس کیا تھا اور پھر ربوہ سے سلسلہ کے ایک عالم نے بھی بڑا زوردار خط لکھا ہے کہ یہ بات درست نہیں تھی۔ حضور نے فرمایا کہ آئندہ پروگرام میں درست موقف بیان ہو۔ جب اگلے پروگرام کے لئے شرکا کے بارہ میں پوچھا تو میرا خیال تھا کہ جن سے غلطی ہوئی ہے، حضور انہیں شامل نہیں فرمائیں گے۔ مگر فرمایا کہ انہی کو بلاؤ اور کہو کہ بات کو درست طور پر بیان کردیں۔ یہ اور اس طرح کے بہت سے اور واقعات سے معلوم ہوا کہ حضورربِّ غفور و رحیم کی محبت میں ہماری خطائیں معاف کرتے ہیں اور کرتے چلے جاتے ہیں۔مگر وہاں تک جہاں تک سلسلہ کے کام پر آنچ نہ آتی ہو۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button