کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

خدا جوچاہتا ہے کرتا ہے

اس اقتباس کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

دیکھو حضرت ابراہیم ؑ کا ابتلا کہ بچے اور اُس کی ماں کو کنعانؔ سے بہت دُور لے جانے کا حکم ملا۔ اوروہ ایسی جگہ تھی جہاں نہ دانہ تھا نہ پانی۔ وہاں پہنچ کر حضرت ابراہیم ؑنے خدا کے حضور عرض کی کہ اے اللہ میں اپنی ذریّت کو ایسی جگہ چھوڑتا ہوں جہاں دانہ پانی نہیں ہے۔ حضرت سارہؓ کا ارادہ یہ تھا کہ کسی طرح سے اسماعیلؑ مر جائے۔اس لیے اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ اسے کسی بے آب و گیاہ جگہ میں چھوڑ آ۔ حضرت ابراہیمؑ کو یہ بات بُری معلوم ہوئی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو کچھ سارہ کہتی ہے وہی کرنا ہو گا۔ اس لیے نہیں کہ خدا تعالیٰ کو سارہؓ کا پاس تھا۔ حضرت سارہ ؓ نے اس واقعہ سے پہلے بھی ایک دفعہ حضرت ہاجرہؓ کو گھر سے نکالا تھا۔ اس وقت بھی خدا تعالیٰ کا فرشتہ اس سے ہم کلام ہوا تھا۔ کیونکہ نبیوں کے سوا غیر انبیاء سے بھی اللہ تعالیٰ بذریعہ فرشتہ کلام کیا کرتا ہے۔ چنانچہ حضرت ہاجرہؓ سے دو مرتبہ اللہ تعالیٰ کا مکالمہ ہوا۔ غرض حضرت ابراہیمؑ نے ویسا ہی کیا۔ اور کچھ تھوڑا سا پانی اور تھوڑی سی کھجوریں ہمراہ لے کر حضرت ہاجرہؓ اور اُس کے بچے کو لے جا کر وہاں چھوڑ آئے جہاں اب مکہ آباد ہے۔ چندروز کے بعد نہ دانہ رہا اور نہ پانی۔ حضرت اسماعیلؑ شدّت پیاس سے بے چین ہونے لگے۔ تو اس وقت حضرت ہاجرہؓ نے نہ چاہا کہ اپنے بچے کی ایسی بے بسی کی مَوت اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ اس لیے ہاجرہؓ چند مرتبہ اُس پہاڑ پر ادھر ادھر دوڑیں کہ شاید کوئی قافلہ ہو۔ پہاڑ پر چڑھ کر گریہ و زاری کرنے لگیں۔ یہ ایسا وقت تھا کہ ان کے پاس صرف ایک ہی بچّہ تھا۔ خا وند سے الگ تھیں۔ دوسرا بچہ پیدا ہونے کی امید نہیں تھی۔ گویا بیوہ کی مانند آپ کا حال تھا۔ آپ کی گریہ و زاری پر فرشتہ نے آواز دی۔ ہاجرہ! ہاجرہ!! جب آپ نے اِدھر اُدھر دیکھا تو کوئی شخص نظر نہ آیا۔ بچہ کے پاس جب آئی تو دیکھا کہ اس کے پاس پانی کا چشمہ بہہ رہا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے مردہ سے ان کو زندہ کر دیا۔ حضرت نبی کریمؐ فرماتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ اس چشمہ کا پانی نہ روکتا ۔ تو وہ تمام ملک میں پھیل جاتا۔ اس قِصّہ کے بیان کرنے سے یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسی ایسی جگہوں پر جہاں آب و دانہ کچھ نہ ہو۔ اس طرح اپنی قدرت کے کرشمے دکھایا کرتا ہے۔ چنانچہ پانی کے اس پہلے کرشمہ نے حضرت اسماعیلؑ کو زندہ کیا۔ مگر وہ پانی جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ سے پھیلایا گیا۔ اُس کی شان میں فرمایااِعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ يُحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا (الـحدید:18)۔ گویا اس پانی سے دنیا زندہ ہوئی۔ مدّعا یہ ہے کہ جہاں ظاہری اسباب موجود نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے بچاؤ کی ایک راہ نکال دی۔ اور اللہ تعالیٰ جو یہ فرماتا ہے کہ اس کے اَمر سے زمین و آسمان قائم ہیں تو غور کرو کہ وہ جنگل جہاں اس قدر گرمی پڑتی تھی اور جہاں انسان کا نام و نشان نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو ایسا بابرکت بنا دیا کہ کروڑہا مخلوق وہاں جاتی ہے اور ہر مُلک اور ہر قوم کے لوگ وہاں موجود ہوتے ہیں۔ وہ میدان جہاں حج کے لیے لوگ جمع ہوتے ہیں۔ وہی جگہ ہے جہاں نہ دانہ تھا نہ پانی۔

اپنی زندگی میں ایسی تبدیلی پیدا کرلو کہ

معلوم ہو گویا نئی زندگی ہے

اصل بات یہی ہے کہ خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ ویرانہ کو آبادی اور آبادی کو ویرانہ بنا دیتا ہے۔ شہر بابلؔ کے ساتھ کیا کیا؟ جس جگہ انسان کا منصوبہ تھا کہ آبادی ہو۔ وہاں مشیّتِ ایزدی سے ویرانہ بن گیا اور اُلّوؤں کا مسکن ہو گیا۔ اور جس جگہ انسان چاہتا تھا کہ ویرانہ ہو وہ دنیا بھر کے لوگوں کا مرجع ہو گیا۔ پس خوب یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوا اور تدبیر پر بھروسہ کرنا حماقت ہے۔ اپنی زندگی میں ایسی تبدیلی پیدا کر لو کہ معلوم ہو کہ گویا نئی زندگی ہے۔ استغفار کی کثرت کرو۔ جن لوگوں کو کثرتِ اشغالِ دنیا کے باعث کم فرصتی ہے۔ ان کو سب سے زیادہ ڈرنا چاہیے۔ ملازمت پیشہ لوگوں سے اکثر فرائضِ خدا وندی فوت ہو جاتے ہیں۔ اس لیے مجبوری کی حالت میں ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازوں کا جمع کر کے پڑ ھ لینا جائزہے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اگر حکّام سے نماز پڑھنے کی اجازت طلب کر لی جائے تو وہ اجازت دے دیا کرتے ہیں۔ نیز اعلیٰ حکّام کی طرف سے ماتحت افسروں کو اس بارہ میں خاص ہدایات ملی ہوئی ہوتی ہیں۔ ترکِ نماز کے لیے ایسے بے جا عذر بجز اپنے نفس کی کمزوری کے اَور کوئی نہیں ۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد میں ظلم و زیادتی نہ کرو۔ اپنے فرائض منصبی نہایت دیانتداری سے بجا لاؤ۔ گورنمنٹ پر ایک سیکنڈ کے لیے بھی بد ظنّی نہ کرو۔ کیاتمہیں سِکھّوں کے عہد حکومت کے واقعات معلوم نہیں جس وقت مسجدوں میں اذان دینی موقوف ہو گئی تھی۔ گائے کو ذرا سی تکلیف دینے پر سخت ایذائیں اور بے حد ظلم ہوتے تھے۔ پس ایسی مصیبت سے تم کو خلاصی دینے کے لیے اللہ تعالیٰ بہت فاصلہ سے اس سلطنت کو لایا۔ جس سے ہم نے بہت فائدہ حاصل کیا۔ اور امن و امان سے اپنے فرائض مذہبی ادا کرنے لگے اس لیے ہمیں کِس قدر شکریہ اس گورنمنٹ کا کرنا چاہیے۔ خوب یاد رکھو کہ جو شخص انسان کا شکر نہیں کرتا وہ خدا کا بھی شکر نہیں کرتا۔ یہ قاعدہ ہے کہ اگر انسان اپنے کسی عضو سے کام نہ لے تو وہ ایک عرصہ کے بعد بے کار ہو جایا کرتا ہے۔ مشہور ہے کہ اگر آنکھ کو چالیس دن بند رکھا جائے تو وہ بالکل اندھی ہو جائے۔ اس لیے میں تم کو بتاکید نصیحت کرتا ہوں کہ گورنمنٹ کے احسان ہم پر بہت ہیں۔ حقائق اور معارف کی کثیر التعداد کتب کہاں کہاں سے ہمیں میسّر آتی ہیں۔ اُن کی سلطنت کی آزادی سے ہم نے بہت فائدہ اُٹھایا ہے ہمارے مذہب پر حملے ہوئے ۔ اور دیگر مشکلات کا سامنا ہوا تو ہم نے کس طرح آزادی سے اُن کا دفعیہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نےحسب وعدہ وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت:70) ہم پر کِس کِس قسم کے معارف کھولے۔ جنہیں ہم نے دور و نزدیک شائع کیا۔ گورنمنٹ کی آزادی بھی ایک باعِث اُن کے کُھلنے کا ہے۔ بالآخر مَیں پھر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے سچّا رشتہ قائم کرو۔ اور گورنمنٹ کی نسبت بد ظنّی مَت کرو بلکہ اس کی ہدایات کی تعمیل کرو اور اُسے مدد دو۔

(رسالہ الانذار صفحہ 54۔73)
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 263تا 266۔ ایڈیشن 1984ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button