صفائی نصف ایمان ہے (حصہ اول)
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اَلطَّہُوْرُشَطْرُالْاِیْمَانِ یعنی طہارت پاکیزگی اور صاف ستھرا رہنا ایمان کا ایک حصہ ہے‘‘۔ (مسلم کتاب الطہارۃ باب فضل الوضوء)
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ (البقرہ:۲۲۳)ترجمہ: یقیناً اللہ کثرت سے توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور پاک صاف رہنے والوں سے (بھی) محبت کرتا ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۳؍ اپریل ۲۰۰۴ء میں اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ یہ بات واضح ہونی چاہئے جیسا کہ اوپر بیان کی گئی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اصل اللہ تعالیٰ کا محبوب انسان اس وقت بنتا ہے جب توبہ و استغفار سے اپنی باطنی صفائی کا بھی ظاہری صفائی کے ساتھ اہتمام کرے۔ ہم میں سے ہر احمدی کا فرض بنتا ہے کہ ایمان کا دعویٰ کرنے کے بعد ہم اپنی ظاہری و باطنی صفائی کی طرف خاص توجہ دیں تاکہ ہماری روح و جسم ایک طرح سے اللہ تعالیٰ کی محبت کو جذب کرنے والے ہوں۔ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ بے شک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے کو دوست رکھتا ہے۔ اور ان لوگوں سے جو پاکیزگی کے خواہاں ہیں پیار کرتا ہے۔ اس آیت سے نہ صرف یہی پایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی توبہ کے ساتھ حقیقی پاکیزگی اور طہارت شرط ہے۔ ہر قسم کی نجاست اور گندگی سے الگ ہونا ضروری ہے ورنہ نری توبہ اور لفظ کے تکرار سے تو کچھ فائدہ نہیں ہے۔‘‘ (الحکم ۱۷ ستمبر ۱۹۰۴ء جلد نمبر ۸ نمبر ۳۱ بحوالہ تفسیر )
پھر آپؑ فرماتے ہیں:’’ جو باطنی اور ظاہری پاکیزگی کے طالب ہیں ان کو دوست رکھتا ہوں، ظاہری پاکیزگی باطنی طہارت کی ممد اور معاون ہے۔ اگر انسان اس کو چھوڑ دے اور پاخانہ پھر کر پھر طہارت نہ کرے تو اندرونی پاکیزگی پاس بھی نہ پھٹکے۔ پس یاد رکھو کہ ظاہری پاکیزگی اندرونی طہارت کو مستلزم ہے۔ اسی لئے لازم ہے کہ کم از کم جمعہ کو غسل کرو، ہر نماز میں وضو کرو، جماعت کھڑی کرو تو خوشبو لگا لو، عیدین اور جمعہ میں خوشبو لگانے کا جو حکم ہے وہ اسی بنا پر قائم ہے، اصل وجہ یہ ہے کہ اجتماع کے وقت عفونت کا اندیشہ ہے(بدبو کا اندیشہ ہوتا ہے)۔ پس غسل کرنے اور صاف کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے سے سمیّت اور عفونت سے روک ہو گی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے زندگی میں یہ مقرر کیا ہے ویسا ہی قانون مرنے کے بعد بھی رکھا ہے۔‘‘ (تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اوّل صفحہ ۷۰۴، ۷۰۵)‘‘
حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاص طو رپر راستوں کی صفائی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اگر راستہ پر جھاڑیاں یا پتھر اور کوئی گندی چیز ہو بلکہ آپؐ کا عمل یہ تھا کہ اگر کوئی گندی چیز ہوتی تو آپؐ اسے خود اٹھا کر ایک طرف کر دیتے اور فرماتے کہ جوشخص راستوں کی صفائی کا خیال رکھتا ہے خدا اس پر خوش ہوتا ہے اور اسے ثواب عطا کرتا ہے۔ (مسلم۔ کتاب البر و الصلۃ)
حضور انور ایدہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’باقی آپؐ کے کوڑا اٹھانے پر جنہوں نے اعتراض کیا ہے، ان کی بات غلط ہے۔ جماعت احمدیہ میں تو ایسے کام کےلیے وقار عمل کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ یعنی ایسا کام جس کے کرنے سے انسان کا وقار اور عزت بڑھتی ہے۔ اپنے علاقے اور ماحول کو صاف رکھنا تو ایک بہت اچھی عادت ہے جس کا اللہ تعالیٰ اور اس کےرسولﷺ نے بھی حکم دیا ہے۔ مَیں نے خود بھی کئی دفعہ وقار عمل کے تحت کوڑا کرکٹ اٹھایا ہے اور گندی نالیاں صاف کی ہیں۔
صفائی کرنے اور کوڑا کرکٹ اٹھانے سے ہر گز عزت نہیں جاتی۔ عزت تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور اس کے حکموں کی خلاف ورزی کرنے سے عزت جاتی ہے۔ لہٰذا ہمیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔‘‘(بنیادی مسائل کے جوابات نمبر ۲۳، الفضل ۱۹؍ نومبر ۲۰۲۱ء)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْ۔ وَالرُّجْزَ فَاھْجُرْ ۔(المدثر:۵-۶)اپنے کپڑے صاف رکھو، بدن کو، اور گھر کو اور کوچہ کو اور ہر ایک جگہ کو جہاں تمہاری نشست ہو پلیدی اور میل کچیل اور کثافت سے بچاؤ یعنی غسل کرتے رہو اور گھروں کو صاف رکھنے کی عادت پکڑو‘‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد۱۰ صفحہ ۳۳۷ بحوالہ تفسیر جلد نمبر۴صفحہ ۴۹۶)
جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ بدن کو بھی صاف رکھو، کپڑوں کو بھی صاف رکھو، اس طرف بھی توجہ کرنی چاہئے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جتناحلیہ خراب ہو اتنی بزرگی زیادہ ہوتی ہے حالانکہ اسلامی تعلیم اس کے بالکل برعکس ہے۔ ایک روایت ہے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے پر انعام کرتا ہے تو وہ پسند کرتا ہے کہ وہ اس نعمت کا اثر اس بندے پر دیکھے ‘‘۔ (مسند احمدبن حنبل)
…حضرت عطا بن یسارؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ ایک دن مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص پراگندہ بال اور بکھری داڑھی والا آیا۔ حضورﷺ نے اسے اشارے سے سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ سر اور داڑھی کے بال درست کرو اور جب وہ سر کے بال ٹھیک ٹھاک کرکے آیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا یہ بھلی شکل بہتر ہے یا یہ کہ انسان کے بال اس طرح بکھرے اور پراگندہ ہوں کہ شیطان اور بھوت لگے۔(موطأ امام مالک، کتاب الشعر، باب اصلاح الشعر حدیث ۱۷۷۰)‘‘ (خطہ جمعہ فرمودہ ۲۳؍اپریل ۲۰۰۴ء)
ایک روایت میں ہے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہیں کوئی دوست بطور تحفہ خوشبو دے تو اسے قبول کرو اور اسے استعمال کرو۔ (مسند الامام اعظم۔ کتاب الارب صفحہ ۲۱۱)
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو آدمی جمعے کے دن غسل کرے اور جہاں تک صفائی کر سکتا ہے صفائی کرے اور تیل لگائے اور اپنے گھر میں موجود خوشبو میں سے کچھ لگائے، پھر نماز کے لیے نکلے تو اس جمعے سے لے کر اگلے جمعے تک اس کے تمام گناہ بخش دیے جائیں گے۔ (بخاری۔ کتاب الصلوٰۃ باب الدھن للجمعۃ)
دانتوں اور منہ کی صفائی کا خیال نہ رکھا جائے تو انسان بیشمار بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ جس میں سر فہرست معدہ کے مسائل ہیں۔
دانتوں کی صفائی کے متعلق حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مسواک کرنے سے منہ کی صفائی ہوتی ہے۔ خدا کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے اور ایک روایت میں ہے کہ آنکھ کی روشنی بڑھتی ہے۔ (بخاری۔ کتاب الصوم باب سواک الرطب و الیابس للصائم)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک اور روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر مجھے اپنی امت کی یا لوگوں کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو میں ان کو یہ حکم دیتا کہ ہر نماز پر مسواک کیا کریں۔ (بخاری۔ کتاب الصلوٰۃ بالسواک یوم الجمعۃ)
دوسری جگہ فرمایا گند وغیرہ کی صفائی کے لیے بایاں ہاتھ استعمال کرو۔ لیکن آج کل یہاں یورپ میں کیونکہ لوگوں کو احساس نہیں ہے دائیں اور بائیں کا، اکثر دیکھا ہے گورے انگریز، عیسائی بائیں ہاتھ سے ہی کھا رہے ہوتے ہیں۔ کبھی سڑک پہ جاتے ہوئے نظر پڑ جائے تو ہاتھ میں برگر ہوتا ہے ہمیشہ دیکھیں گے بائیں ہاتھ سے کھا رہے ہوں گے۔ چپس کا لفافہ دائیں ہاتھ میں ہو گا اور بایاں ہاتھ استعمال ہو رہا ہو گا۔ بعض لوگ اس کی تقلید کرتے ہیں، اس سے بچنا چاہیے۔ کھانا بہرحال دائیں ہاتھ سے کھانا چاہیے۔
پھر ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دس باتیں فطرت انسانی میں داخل ہیں۔ مونچھیں تراشنا، ڈاڑھی رکھنا(خاص مردوں کے لیے ہے)، مسواک کرنا، پانی سے ناک صاف کرنا، ناخن کٹوانا، انگلیوں کے پورے صاف رکھنا بغلوں کے بال لینا، زیر ناف بال لینا، استنجا کرنا، طہارت کرنا۔ راوی کہتا ہے کہ میں دسویں بات بھول گیا ہوں شاید وہ کھانے کے بعد کلی کرنا ہے۔ (مسلم۔ کتاب الطہارۃباب خصال الفطرۃ)
( خطبہ جمعه ۲۳؍ اپریل ۲۰۰۴ء)