خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب فرمودہ ۲۵؍ نومبر ۲۰۲۲ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ ( سرے) یوکے
سوال نمبر۱:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت ابوبکر ؓ کی خدمت خلق کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت ابوبکرؓ غریبوں اور مسکینوں پر بےحد مہربان تھے۔ سردیوں میں کمبل خریدتے اور انہیں محتاجوں میں تقسیم کر دیتے۔ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے ایک سال گرم اونی چادریں خریدیں یعنی کمبل جو دیہات سے لائی گئی تھیں اور سردی کے موسم میں مدینہ کی بیوہ عورتوں میں یہ چادریں تقسیم کی گئیں۔ایک روایت ہے کہ خلافت کے منصب پر متمکن ہونے سے پہلے آپؓ ایک لاوارث کنبہ کی بکریوں کا دودھ دوہا کرتے تھے۔جب آپؓ خلیفہ بن گئے تو اس کنبہ کی ایک بچی کہنے لگی کہ اب تو آپ ہماری بکریوں کا دودھ نہیں دوہا کریں گے۔یہ سن کر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کیوں نہیں۔ اپنی جان کی قسم! میں تمہارے لیے ضرور دوہوں گا اور مجھے امید ہے کہ میں نے جس چیز کو اختیار کیا ہے وہ مجھے اس عادت سے نہ روکے گی جس پر مَیں تھا۔ چنانچہ آپ حسبِ سابق ان کی بکریوں کا دودھ دوہتے رہے۔ جب وہ بچیاں اپنی بکریاں لے کر آتیں تو آپؓ ازراہِ شفقت فرماتے دودھ کا جھاگ بناؤں یا نہ بناؤں؟ اگر وہ کہتیں کہ جھاگ بنا دیں تو برتن کو ذرا دُور رکھ کر دودھ دوہتے حتیٰ کہ خوب جھاگ بن جاتی۔ اگر وہ کہتیں کہ جھاگ نہ بنائیں تو برتن تھن کے قریب کر کے دودھ دوہتے تا کہ دودھ میں جھاگ نہ بنے ۔آپؓ مسلسل چھ ماہ تک یہ خدمت سرانجام دیتے رہے یعنی خلافت کے بعد چھ ماہ تک۔ پھر آپؓ نے مدینہ میں رہائش اختیار کر لی…حضرت عمرؓ مدینہ کے کنارے پر رہنے والی ایک بوڑھی اور نابینا عورت کا خیال رکھا کرتے تھے۔ آپؓ اُس کے لیے پانی لاتے اور اُس کا کام کاج کرتے۔ ایک مرتبہ آپؓ جب اُس کے گھر گئے تو یہ معلوم ہوا کہ کوئی شخص آپؓ سے پہلے آیا ہے جس نے اس بڑھیا کے کام کر دیے ہیں۔ اگلی دفعہ آپؓ اس بڑھیا کے گھر جلدی گئے تا کہ دوسرا شخص پہلے نہ آ جائے۔ حضرت عمرؓ چھپ کر بیٹھ گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ یہ حضرت ابوبکرؓہیں جو اس بڑھیا کے گھر آتے تھےاور اُس وقت حضرت ابوبکرؓ خلیفہ تھے۔اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا اللہ کی قسم! یہ آپؓ ہی ہو سکتے تھے۔
سوال نمبر۲: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت ابوبکر ؓ کی مہمان نوازی کی بابت کیاروایت بیان فرمائی؟
جواب:فرمایا:ایک روایت موسیٰ بن اسماعیلؓ نے بیان کی ہے کہ صُفَّہ والے محتاج لوگ تھے اور ایک دفعہ نبیﷺ نے فرمایا جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ تیسرے کو لے جائے اور جس کے پاس چار کا کھانا ہو وہ پانچویں کو لے جائے یا چھٹے کو یا ایسے ہی کچھ الفاظ فرمائے، یعنی وہ غریب لوگ جو بیٹھےہوئے تھے لوگ ان کو اپنے گھروں میں لے جائیں اور کھانا کھلائیں۔ حضرت ابوبکرؓ تین آدمیوں کو لے آئے اور نبیﷺ دس کو لے گئے۔ اور گھر میں حضرت ابوبکرؓ اور تین اَور شخص تھے۔ حضرت عبدالرحمٰن ؓ کہتے تھے کہ میں، میرا باپ اور میری ماں۔ اور ایسا ہوا کہ حضرت ابوبکرؓ نے نبیﷺ کے ہاں شام کا کھانا کھایا پھر وہیں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ عشاء کی نماز پڑھی پھر واپس آ گئے۔ مہمانوں کو گھر لے گئے تھے لیکن آنحضرتﷺ کے پاس ٹھہرے رہے اور وہیں کھانا کھا لیا اور پھر واپس آئے۔ بیان کرتے ہیں کہ وہاں اتنی دیر ٹھہرے کہ رسول اللہﷺ کے ساتھ انہوں نے شام کا کھانا کھایا اور اتنی رات گزرنے کے بعد آئے جتنا کہ اللہ نے چاہا۔ اُن کی بیوی نے ان سے کہا کس بات نے آپ کو اپنے مہمانوں سے یا کہا مہمان سے روکے رکھا؟یعنی آپ نے دیر کیوں لگائی۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا: کیا تم نے انہیں کھانا نہیں کھلایا؟ وہ کہنے لگیں کہ انہوں نے آپ کے آنے تک کھانے سے انکار کر دیا تھا۔ مہمانوں نے کہا ہم نہیں کھائیں گے جب تک حضرت ابوبکرؓ نہیں آتے۔ انہوں نے تو اُن کو کھانا پیش کر دیا تھا، ان کی اہلیہ کہنے لگیں مَیں نے تو کھانا پیش کر دیا تھا مگر مہمانوں نے اُن کی پیش نہ چلنے دی۔ حضرت عبدالرحمٰن ؓ کہتے تھے کہ میں جا کر چھپ رہا۔ مَیں اُن سے اس لیے چھپ گیا کہیں مجھے حضرت ابوبکرؓ سے ڈانٹ نہ پڑے کہ کیوں مہمانوں کو کھانا نہیں کھلایا۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے کہا اے بیوقوف! اور انہوں نے مجھے سخت سست کہا،عبدالرحمٰن ان کے بیٹے کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ نے مہمانوں سے کہا کہ کھانا کھائیں اور خود حضرت ابوبکرؓ نے قسم کھا لی کہ میں ہرگز نہیں کھاؤں گا۔حضرت عبدالرحمٰن ؓ کہتے تھے کہ اللہ کی قسم! ہم جو بھی لقمہ لیتے اس کے نیچے سے اس سے زیادہ کھانا بڑھ جاتا۔ اور انہوں نے اتنا کھایا کہ وہ سیر ہو گئے۔…
سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت ابوبکر ؓ کےایک نابیناشخص کوکھاناکھلانے کی بابت کیاواقعہ بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’صوفیاء کی ایک روایت ہے۔ (وَاللّٰہُ اَعْلَمُ کہاں تک درست ہے) کہ حضرت ابوبکرؓ کی وفات کے بعد حضرت عمرؓنے حضرت ابوبکر ؓ کے غلام سے پوچھا کہ وہ کون کون سے نیک کام تھے جو تیرا آقا کیا کرتا تھا تا کہ میں بھی وہ کام کروں۔ منجملہ اَور نیک کاموں کے اس غلام نے ایک کام یہ بتایا کہ روزانہ حضرت ابوبکرؓروٹی لے کر‘‘کھانا لے کر’’فلاں طرف جایا کرتے تھے اور مجھے ایک جگہ کھڑا کر کے آگے چلے جاتے تھے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ کس مقصد کے لئے اُدھرجاتے تھے۔ چنانچہ حضرت عمرؓاس غلام کے ہمراہ اس طرف کو کھانا لے کر چلے گئے جس کا ذکر غلام نے کیا تھا۔ آگے جاکر کیا دیکھتے ہیں کہ ایک غار میں ایک اپاہج اندھا جس کے ہاتھ پاؤں نہ تھے بیٹھا ہؤا ہے۔ حضرت عمرؓنے اس اپاہج کے منہ میں ایک لقمہ ڈالا تو وہ رو پڑا اور کہنے لگا اللہ تعالیٰ ابوبکرؓپر رحم فرمائے۔ وہ بھی کیا نیک آدمی تھا۔حضرت عمرؓنے کہا بابا! تجھے کس طرح پتہ چلا کہ ابوبکرؓ فوت ہو گئے ہیں؟ اس نے کہا کہ میرے منہ میں دانت نہیں ہیں اس لئے ابوبکرؓمیرے منہ میں لقمہ چبا کر ڈالا کرتے تھےآج جو میرے منہ میں سخت لقمہ آیا تو مَیں نے خیال کیا کہ یہ لقمہ کھلانے والا ابوبکرؓ نہیں ہے بلکہ کوئی اَور شخص ہے اور ابوبکرؓ تو ناغہ بھی کبھی نہ کیا کرتے تھے اب جو ناغہ ہؤا تو یقیناً وہ دنیا میں موجود نہیں ہیں۔‘‘
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت ابوبکر ؓ کی بہادری اورشجاعت کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا:حضرت ابوبکرؓ شجاعت اور بہادری کا مجسمہ تھے۔ بڑے بڑے خطرے کو اسلام کی خاطر یا نبی اکرمﷺ کی محبت و عشق کی بدولت خاطر میں نہ لاتے تھے۔ مکی زندگی میں جب انہوں نے نبی اکرمﷺ کی ذات کے لیے کوئی خطرہ یا تکلیف کا موقع دیکھا تو آپؐ کی حفاظت ونصرت کے لیے دیوار بن کر سامنے کھڑے ہو جاتے۔ شعبِ ابی طالب میں تین سال تک اسیری اور محصوری کا زمانہ آیا تو ثابت قدمی، استقلال کے ساتھ وہیں موجود رہے۔ پھر ہجرت کے دوران انہیں حضورﷺ کی صحبت و معیت کا اعزاز ملا حالانکہ جان کا خطرہ تھا۔ جتنی بھی جنگیں ہوئیں حضرت ابوبکرؓ نہ صرف یہ کہ اُن میں شامل ہوئے بلکہ رسول اللہﷺ کی حفاظت کے فرائض آپؓ سرانجام دیتے۔ آپؓ کی اسی جرأت اور بہادری کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت علیؓ نے ایک مرتبہ لوگوں سے پوچھا کہ اے لوگو! لوگوں میں سے سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ اے امیر المومنین !آپ ہیں۔حضرت علیؓ نے فرمایا: جہاں تک میری بات ہے میرے ساتھ جس نے مبارزت کی مَیں نے اس سے انصاف کیا یعنی اسے مار گرایا مگر سب سے بہادر حضرت ابوبکرؓ ہیں۔ ہم نے رسول اللہﷺ کے لیے بدر کے دن خیمہ لگایا۔ پھر ہم نے کہا کہ کون ہے جو رسول اللہﷺ کے ساتھ رہے؟ تا آپؐ تک کوئی مشرک نہ پہنچ پائے تو اللہ کی قسم! آپؐ کے قریب کوئی نہ گیا مگر حضرت ابوبکرؓ اپنی تلوار کو سونتے ہوئے رسول اللہﷺ کےپاس کھڑے ہو گئے۔ یعنی رسول اللہﷺ کے پاس کوئی مشرک نہیں پہنچے گا مگر پہلے وہ حضرت ابوبکرؓ سے مقابلہ کرے گا۔ پس وہ سب سے بہادر شخص ہیں… رسول اللہﷺ جب تیس ہزار کا لشکر لے کر غزوۂ تبوک کے لیے نکلے تو رسول اللہﷺ نے مختلف سپہ سالار مقرر فرمائے اور انہیں جھنڈے عطا فرمائے۔ اس موقع پر سب سے بڑا جھنڈا حضرت ابوبکر ؓ کو عطا کیا گیا۔آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد جب سارا عرب ہی گویا مرتد ہو گیا ان حالات میں جس جرأت و شجاعت کا عملی مظاہرہ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا وہ اپنی مثال آپ ہے۔
سوال نمبر۵:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت ابوبکر ؓ کی قوت فیصلہ اورمعاملہ فہمی کی بابت کیاتفصیل بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا:حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر ؓ کے متعلق کوئی شخص بھی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ آپ بھی کسی وقت اپنی قوم کی قیادت کریں گے۔ عام طور پر یہی سمجھا جاتا تھا کہ آپ ؓ کمزور طبیعت، صلح کل اور نرم دل واقع ہوئے ہیں۔ لیکن رسول کریمﷺ جانتے تھے کہ جب ابوبکر کا وقت آئے گا تو جوکام ابوبکر کر لے گا وہ اس کا غیر نہیں کر سکے گا۔ چنانچہ جب رسول کریمﷺ فوت ہوئے اور مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہو گیا کہ کون خلیفہ ہو اس وقت حضرت ابوبکر ؓ کے ذہن میں بھی یہ بات نہ تھی کہ آپ خلیفہ ہوں گے۔ آپ سمجھتے تھے کہ حضرت عمرؓ وغیرہ ہی اس کے اہل ہو سکتے ہیں۔ انصار میں جو جوش پیدا ہوا اور انہوں نے چاہا کہ خلافت انہی میں سے ہو کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ہم نے اسلام کی خاطر قربانیاں کی ہیں اور اب خلافت کا حق انصار کا خیال تھا کہ ہمارا ہے اور ادھرمہاجرین کہتے تھے کہ خلیفہ ہم میں سے ہو۔ غرض رسول کریمﷺ کی وفات پر ایک جھگڑا برپا ہو گیا۔انصار کہتے تھے کہ خلیفہ ہم میں سے ہو اور مہاجرین کہتے تھے کہ خلیفہ ہم میں سے ہو۔ آخر انصار کی طرف سے جھگڑا اس بات پرختم ہوا کہ ایک خلیفہ مہاجرین میں سے ہو اور ایک خلیفہ انصار میں سے ہو۔ اس جھگڑے کو دُور کرنے کے لیے ایک میٹنگ بلائی گئی۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ اس وقت مَیں نے سمجھا کہ حضرت ابوبکرؓ بےشک نیک اور بزرگ ہیں لیکن اس گتھی کو سلجھانا ان کا کام نہیں ہے۔ (یہ بہت مشکل کام ہے ان کے لیے۔) اس گتھی کو اگر کوئی سلجھا سکتا ہے تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ وہ مَیں ہی ہوں۔ یہاں طاقت کا کام ہے۔ نرمی اور محبت کا کام نہیں۔ (اور حضرت ابوبکرؓ تو نرمی اور محبت دکھانے والے ہیں۔) چنانچہ آپؓ فرماتے ہیں مَیں نے سوچ سوچ کر ایسے دلائل نکالنے شروع کیے جن سے یہ ثابت ہو کہ خلیفہ قریش میں سے ہونا چاہیے اور یہ کہ ایک خلیفہ انصار میں سے ہو اور ایک مہاجرین میں سے یہ بالکل غلط ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ مَیں نے بہت سے دلائل سوچے اور پھر اس مجلس میں گیاجو اس جھگڑے کو نپٹانے کے لیے منعقد کی گئی تھی۔ حضرت ابوبکرؓ بھی میرے ساتھ تھے۔ مَیں نے چاہا کہ تقریر کروں اور دلائل سے جو مَیں سوچ کر گیا تھا لوگوں کو قائل کروں۔ مَیں سمجھتا تھا کہ حضرت ابوبکرؓ اس شوکت اور دبدبے کے مالک نہیں کہ اس مجلس میں بول سکیں لیکن مَیں کھڑا ہونے ہی لگا تھا (حضرت عمر ؓ کہتے ہیں کہ مَیں کھڑاہونے ہی لگا تھا) کہ حضرت ابوبکرؓ نے غصہ سے ہاتھ مار کے مجھ سے کہا بیٹھ جاؤ اور خود کھڑے ہو کر تقریر شروع کر دی۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم! جتنی دلیلیں مَیں نے سوچی تھیں وہ سب کی سب حضرت ابوبکرؓ نے بیان کر دیں اور پھر اَور بھی کئی دلائل بیان کرتے چلے گئے اور بیان کرتے چلے گئے یہاں تک کہ انصار کے دل مطمئن ہو گئے اور انہوں نے خلافتِ مہاجرین کے اصول کو تسلیم کر لیا۔