میرے دل میں یہ خیال آ یا کہ میں اس رسالے میں اپنی اور اپنے آباء و اجداد کی سوانح میں سے لکھوں تاکہ اس کے ذریعہ میں اپنے معاملہ کو لوگوں میں روشناس کرائوں۔شاید(اس طرح) اللہ انہیں فائدہ پہنچائے اور گمراہی دور کرنے کے لئے ان کی قوت میں اضافہ کرے اور شاید وہ اصل حقیقت پر غور کریں اور عدل و انصاف کی طرف مائل ہوں۔
(ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام)
الخاتمہ
’’میرے دل میں یہ خیال آ یا کہ میں اس رسالے میں اپنی اور اپنے آباء و اجداد کی سوانح میں سے لکھوں تاکہ اس کے ذریعہ میں اپنے معاملہ کولوگوں میں روشناس کرائوں۔شاید(اس طرح) اللہ انہیں فائدہ پہنچائے اور گمراہی دور کرنے کے لئے ان کی قوت میں اضافہ کرے اور شاید وہ اصل حقیقت پر غور کریں اور عدل و انصاف کی طرف مائل ہوں۔
اللہ تم پر رحم فرمائے۔ جان لو کہ میں مسمیّٰ غلام احمد ابن میرزا غلام مرتضیٰ ہوں اور میرزا غلام مرتضیٰ ابن میرزا عطا محمد اور میرزا عطا محمد ابن میرزا گل محمد اور میرزا گل محمد ابن میرزا فیض محمد اور میرزا فیض محمد ابن میرزا محمد قائم اور میرزا محمد قائم ابن میرزا محمد اسلم اور میرزا محمد اسلم ابن میرزا دلاور بیگ اور میرزا دلاور بیگ ابن میرزا الہٰ دین اور میرزا الہٰ دین ابن میرزا جعفر بیگ اور میرزا جعفر بیگ ابن میرزا محمد بیگ اور میرزا محمد بیگ ابن میرزا محمد عبد الباقی اور میرزا محمد عبدالباقی ابن میرزا محمد سلطان اور میرزا محمد سلطان ابن میرزا ہادی بیگ۔
پھر تم جان لو کہ میرا مسکن اسلام پورنامی ایک بستی ہے جو آج کل قادیان کے نام سے مشہور ہے۔یہ بستی پنجاب میں دریائے راوی اور دریائے بیاس کے درمیان واقع ہے۔جو پنجاب کے صدر مقام لاہور کے شمال مشرق کی جانب واقع ہے۔ اور میں نے اپنے آباء و اجداد کی سوانح حیات کی کتابوں میں پڑھا اور اپنے والد سے سنا ہے کہ میرے آباء و اجداد مغلوں کی نسل سے تھے۔لیکن اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی کی ہے کہ وہ فارسی النسل تھے۔ اقوام ترکی میں سے نہیں تھے۔اور اس کے ساتھ ہی میر ے رب نے مجھے یہ بھی بتایا ہے کہ میر ی بعض نانیاں بنی فاطمہ اور اہل بیت نبوی ؐمیں سے تھیں۔ اور اللہ نے کمال حکمت و مصلحت سے (میرے اجداد میں) حضرت اسحاقؑ اور حضر ت اسماعیل ؑ کی نسل کو جمع کر دیا۔
اور مَیں نے اپنے والد صاحب سے سنا ہے اور اپنے ان بزرگوں کے بعض سوٖانح میں یہ پڑھا ہے کہ وہ ہندوستان کی طرف نقل مکانی سے پہلے سمرقند میں بودو باش رکھتے تھے۔اور وہ اس ملک کے امراء اور والیان حکومت میں سے تھے اور ملت کے انصار اور اس کے حامیوں میں سے تھے۔پھر سفر نے انہیں دور دراز علاقے میں لاپھینکا۔اور سفر کے سیل رواں نے اپنے جوارح ان تک پھیلا دئیے۔یہاں تک کہ جب ان کے قدم قادیان نامی اس بستی پر پڑے اور انہوں نے اس کو مبارک خطہ اور اس زمین کواچھا پایااورانہیں اس کی آب و ہوا اور اس کے شاداب سبزہ زار اچھے لگے تو انہوں نے یہیں اپنے ڈیرے ڈال دئیے۔اور وہ دیہی علاقوں کو شہروں پر ترجیح دیتے تھے۔اور اللہ کی طرف سے انہیں جائیدادیں اور جا گیریں عطا کی گئیں۔اور وہ بستیوں اور شہروں کے مالک بن گئے۔پھر جب اس آسودہ حالی پر ایک زمانہ گزر گیااورسلطنت مغلیہ پر اللہ کی قضا وقدر نازل ہوئی تو اللہ نے ان (میرے آباء)کو علاقے کے امرا ء بنا دیا اور معاملہ یہاں تک پہنچا کہ وہ اس خطہ ء ارض کے خود مختار بادشاہ کی طرح ہو گئے اور ہر جہت سے عنان حکومت ان کے ہاتھ میں تھی۔ اور اللہ نے اپنے فضل اور اپنی رحمت سے ان کی ہر خواہش کو پورا فرمایا۔ تازہ نعمت ،خوشحالی اور عزت و شرف کی ایک لمبی زندگی گزارنے کے بعد اللہ نے اپنی عمیق در عمیق مصلحتوں اور باریک در باریک حکمتوں کے تحت ان پر ایک ایسی قوم مسلط کر دی جسے خالصہ (سکھ)کہا جاتا ہے۔
یہ سکھ قوم بڑی سنگدل تھی۔شرفاء کی عزت نہ کرتے تھے اور کمزوروں پر رحم نہ کرتے تھے۔جب بھی کسی بستی میں داخل ہوئے تو اسے انہوں نے تباہ کر دیا اور اس کے معززین کو ذلیل کر دیا۔ان کے ظلم سے اسلام کے بدرِ تام پہلی رات کا چاند بن گئے۔ وہ (سکھ)اسلا م کے معاند اور خیرالانام ﷺ کی امت کے سب سے بڑے دشمن تھے۔ پس اس زمانے میں میرے آباء و اجداد پر ان کمینوں کے ہاتھوں مصائب کے اتنے پہاڑ ٹوٹے کہ وہ اپنی ریاست کے مرکز سے نکال دئیے گئے۔اور ان کافروں کے ہاتھوں ان کے اموال چھین لئے گئے۔اور انہیں طاقتوروں کی طرف سے دھکے دئیے گئے اور لمبے سایوں سے نکال کر دھوپ میں ڈال دیئے گئے اورکئی سالوں تک پر دیس میں رہے۔اور انہیں ظالموں کے ہاتھوں شدید تکالیف دی گئیں۔اور ارحم الراحمین کے سوا کسی نے بھی ان پررحم نہ کیا۔ پھر اللہ نے حکومت بر طانیہ کے عہد میں میر ے والد کو چند گائو ں واپس لو ٹا ئے۔ پس انہوں نے ان کھوئی ہوئی املاک کے سمند ر میں سے ایک قطرہ بلکہ اس سے بھی کم تر پا یا۔‘‘
(الاستفتاء مع اردو ترجمہ صفحہ 176تا179۔شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ربوہ)