خطبہ جمعہ 24 ، فروری2017
(خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 24فروری 2017ء بمطابق 24تبلیغ 1396 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن)
آجکل جو دنیا کے حالات ہیں سب کے علم میں ہیں۔ ہر جگہ فساد اور فتنہ برپا ہے۔ اسلام مخالف قوتیں ان حالات کا ذمہ دار، جیسے کہ مَیں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں، مسلمانوں کو ٹھہراتی ہیں۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ بعض مسلمان گروہ اور تنظیمیں اسلام کے نام پر مسلمان ممالک میں بھی اور غیر مسلم ممالک میں بھی ایسی حرکات کر رہی ہیں جو ظلم و بربریت کے علاوہ کچھ نہیں اور اسلام کی تعلیم کا اس سے دُور کا بھی واسطہ نہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں کے اندر یہ حالات پیدا کئے گئے ہیں اور کئے جا رہے ہیں۔ اسلام کو نقصان عموماً خود غرض مسلمانوں اور منافقین نے ہی پہنچایا ہے جو اپنے مفادات کے لئے ایسی طاقتوں کا آلۂ کار بنتے رہے ہیں۔ بہرحال دنیا کے عمومی حالات خراب ہیں۔ بعض مسلمانوں کے غلط عمل کی وجہ سے اسلام مخالف طاقتوں کو اسلام کو بدنام کرنے کا خوب موقع مل رہا ہے تو ظاہر ہے ہم احمدی مسلمان بھی اس وجہ سے اس کا نشانہ بنتے ہیں۔
احمدی نہ صرف مسلمان ہونے کی حیثیت سے بلکہ مسلمان ممالک میں بھی احمدی ہونے کی حیثیت سے ان سختیوں سے گزر رہے ہیں۔ صرف اس لئے کہ ہم نے آنے والے منادی کو جو اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق آیا مان لیا۔ پاکستان میں تو ظالمانہ قانون کی وجہ سے مولوی کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے اور مولوی کے ڈر سے عدالتیں بھی انصاف نہ کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن اب الجزائر میں بھی عدالتوں نے یہی رویّے اپنا لئے ہیں کہ نام نہاد مولوی کے ڈر سے معصوم احمدیوں کو جیل میں غلط الزام لگا کر بھیجا جا رہا ہے۔
ہمارے پاس نہ دنیاوی حکومت ہے نہ ہی دنیاوی دولت اور تیل کا پیسہ ہے۔ ہاں ایک چیز ہے جس کی طرف دنیا کے ہر احمدی کو بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے اور وہ ہے عبادات، صدقات اور استغفار کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا۔ یہی چیزیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے رحم کو جوش میں لاتی ہیں اور انسان اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتا ہے۔
انسان کے اندر بے شمار کمزوریاں ہوتی ہیں بسا اوقات ہم دنیاوی کاموں کی مصروفیت کی وجہ سے اپنی عبادتوں کی ادائیگی کا بھی حق ادا نہیں کرتے۔ کوئی ذاتی مشکل آئے تو تھوڑے سے صدقے کی طرف توجہ پیدا ہو جاتی ہے ورنہ نہیں۔ استغفار کی طرف توجہ کا جو حق ہے وہ ادا نہیں کرتے۔ اگر ہم میں سے ہر ایک اپنا جائزہ لے تو یہ چیز واضح ہو جائے گی کہ ہم میں سے اکثر یہ حق ادا نہیں کرتے۔ پس اگر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنا ہے اور اس کے رحم کو جوش دلانے والا اور دشمنوں اور مخالفین کی کوششوں کو ناکام و نامراد کرنے والا بننا ہے تو ہمیں ان باتوں کی طرف بہرحال توجہ دینی ہو گی جو اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی بخشش کو حاصل کرنے والے ہیں۔
قرآن مجید، احادیث نبویہﷺ اور حضرت اقدس مسیح موعود ؈ کے ارشادات کے حوالہ سے عبادات کے قیام، کثرت سے توبہ و استغفار اور صدقات کی ادائیگی کی طرف توجہ دینے کی خصوصی تاکید
مکرمہ سَعْدَہ برتاوی صاحبہ اہلیہ مکرم مَرْعی برتاوی صاحب آف سیریاکی وفات۔ مرحومہ کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
آجکل جو دنیا کے حالات ہیں سب کے علم میں ہیں۔ ہر جگہ فساد اور فتنہ برپا ہے۔ اسلام مخالف قوتیں ان حالات کا ذمہ دار، جیسے کہ مَیں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں، مسلمانوں کو ٹھہراتی ہیں۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ بعض مسلمان گروہ اور تنظیمیں اسلام کے نام پر مسلمان ممالک میں بھی اور غیر مسلم ممالک میں بھی ایسی حرکات کر رہی ہیں جو ظلم و بربریت کے علاوہ کچھ نہیں اور اسلام کی تعلیم کا اس سے دُور کا بھی واسطہ نہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں کے اندر یہ حالات پیدا کئے گئے ہیں اور کئے جا رہے ہیں۔ اسلام کو نقصان عموماً خود غرض مسلمانوں اور منافقین نے ہی پہنچایا ہے جو اپنے مفادات کے لئے ایسی طاقتوں کا آلۂ کار بنتے رہے ہیں۔ بہرحال دنیا کے عمومی حالات خراب ہیں۔ بعض مسلمانوں کے غلط عمل کی وجہ سے اسلام مخالف طاقتوں کو اسلام کو بدنام کرنے کا خوب موقع مل رہا ہے تو ظاہر ہے ہم احمدی مسلمان بھی اس وجہ سے اس کا نشانہ بنتے ہیں۔
گو ہمیں جاننے والے جانتے ہیں کہ احمدیت کی تعلیم اور عمل محبت پیار اور بھائی چارے کے علاوہ کچھ نہیں لیکن عام لوگ ہمیں بھی اسی طرح خیال کرتے ہیں جیسا کہ میڈیا نے عام تصور مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں پھیلایا ہوا ہے۔ بعض ملکوں کی قوم پرست تنظیمیں اور پارٹیاں کوئی بات سننا ہی نہیں چاہتیں اور صرف منفی رویے اور سوچیں اور اس کے مطابق عمل پر ہی زور ہے۔ اس مخالفت کا جرمنی کے مشرقی حصہ میں بھی سامنا ہے اور ہالینڈ میں بھی جہاں عنقریب انتخابات ہونے والے ہیں۔ اسی طرح یورپ کے اَور ملکوں میں بھی رائٹسٹ(rightist) اب زور پکڑ رہے ہیں اور امریکہ کا حال تو سامنے ہی ہے اور پھر احمدی نہ صرف مسلمان ہونے کی حیثیت سے بلکہ مسلمان ممالک میں بھی احمدی ہونے کی حیثیت سے ان سختیوں سے گزر رہے ہیں۔ صرف اس لئے کہ ہم نے آنے والے منادی کو جو اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق آیا مان لیا۔ پاکستان میں تو ظالمانہ قانون کی وجہ سے مولوی کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے اور مولوی کے ڈر سے عدالتیں بھی انصاف نہ کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن اب الجزائر میں بھی عدالتوں نے یہی رویّے اپنا لئے ہیں کہ نام نہاد مولوی کے ڈر سے معصوم احمدیوں کو غلط الزام لگا کر جیل میں بھیجا جا رہا ہے۔ اس وقت بھی وہاں سولہ احمدی احمدیت کی وجہ سے جیل کی سزا کاٹ رہے ہیں تو ایسے میں ایک احمدی کو کیا کرنا چاہئے؟
ہمارے پاس نہ دنیاوی حکومت ہے نہ ہی دنیاوی دولت اور تیل کا پیسہ ہے۔ ہاں ایک چیز ہے جس کی طرف دنیا کے ہر احمدی کو بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے اور وہ ہے عبادات، صدقات اور استغفار کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا۔ یہی چیزیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے رحم کو جوش میں لاتی ہیں اور انسان اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتا ہے۔ عبادات کی طرف اور خاص طور پر نمازوں کی ادائیگی کی طرف میں گزشتہ خطبات میں توجہ دلا چکا ہوں۔ آج صدقات اور استغفار کے حوالے سے زیادہ بات کروں گا کہ یہ خدا تعالیٰ کے رحم کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں۔ انسان کے اندر بے شمار کمزوریاں ہوتی ہیں بسا اوقات ہم دنیاوی کاموں کی مصروفیت کی وجہ سے اپنی عبادتوں کی ادائیگی کا بھی حق ادا نہیں کرتے۔ کوئی ذاتی مشکل آئے تو تھوڑے سے صدقے کی طرف توجہ پیدا ہو جاتی ہے ورنہ نہیں۔ استغفار کی طرف توجہ کا جو حق ہے وہ ادا نہیں کرتے۔ اگر ہم میں سے ہر ایک اپنا جائزہ لے تو یہ چیز واضح ہو جائے گی کہ ہم میں سے اکثر یہ حق ادا نہیں کرتے۔ پس اگر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنا ہے اور اس کے رحم کو جوش دلانے والا اور دشمنوں اور مخالفین کی کوششوں کو ناکام و نامراد کرنے والا بننا ہے تو ہمیں ان باتوں کی طرف بہرحال توجہ دینی ہو گی جو اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی بخشش کو حاصل کرنے والے ہیں۔
جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں توبہ اور استغفار اور صدقات قبول کرتا ہوں تو یہ اس لئے کہ تم توبہ اور استغفار کی طرف توجہ دو تا کہ تمہاری مشکلات دور کروں۔ تمہاری بے چینیاں دور کروں۔ تمہیںاپنے قریب کروں۔ تمہارے گزشتہ گناہوں کو معاف کروں۔ تمہیں صحیح عبد بننے کی توفیق عطا کروں۔ تم پر اپنا رحم کروں۔ جیسا کہ اس آیت میں بھی قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَلَمْ یَعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ ھُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہٖ وَ یَأْخُذُ الصَّدَقٰتِ وَ اَنَّ اللّٰہَ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۔ (التوبۃ104:) یعنی کیا انہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور صدقات قبول کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی ہے جو توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے ۔
صدقہ اور دعا کی اہمیت اور تعلق کے بارے میں ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ :
’’صدقہ۔ صِدْق سے لیا گیا ہے۔ جب کوئی شخص خدا تعالیٰ کی راہ میں صدقہ دیتا ہے تو معلوم ہوا کہ خدا سے صِدق رکھتا ہے‘‘۔ سچائی کا تعلق رکھتا ہے۔ ’’دوسرا دعا۔‘‘ فرمایا کہ ’’دعا کے ساتھ قلب پر سوزو گداز اور رقت پیدا ہوتی ہے‘‘۔ (دعا وہ ہے جو دل میں سوز اور رقت پیدا کرے۔) ’’دعا میں ایک قربانی ہے۔ صدق اور دعااگر یہ دو باتیں میسر آ جائیں تو اکسیر ہے‘‘۔ اگر یہ دونوں باتیں میسر آ جائیں تو ایک کامیاب علاج ہے۔ (ملفوظات جلد 7صفحہ 87-88 حاشیہ۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس استغفار بھی دعا ہی ہے اور جب انسان اپنے گناہوں سے اور اپنی کمزوریوں کو سامنے رکھتے ہوئے دعا کرتا ہے تو ایک رقّت اور جوش پیدا ہوتا ہے اور ہونا چاہئے۔ دل میں ایک درد پیدا ہونا چاہئے۔ صرف منہ سے اَسْتَغْفِرُ اللہ، اَسْتَغْفِرُ اللہ کہنے اور توجہ اللہ تعالیٰ کی بجائے کہیں اور رہنے سے مقصد پورا نہیں ہوتا۔ پس اللہ تعالیٰ دعاؤں کو سنتا ہے اور صدقات کو جو بے چینی کی حالت میں اللہ تعالیٰ کا رحم حاصل کرنے کے لئے دئیے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں قبول کرتا ہے۔ اور جب بندہ یہ عہد بھی کرتا ہے کہ آئندہ میں اپنی کمزوریوں سے بچنے کی بھرپور کوشش کروں گا اور جب بندہ اللہ تعالیٰ کا رحم جذب کرنے کی کوشش کرے تو پھر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہمیں یہ خوشخبری بھی دی، دعاؤں اور صدقات کو قبول کرنے کی مزید وضاحت فرمائی اور فرمایا کہ میرے بندوں کو بتا دو کہ اگر میرا بندہ میری طرف ایک قدم چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دو قدم چل کر آتا ہوں۔ اگر میرا بندہ تیز چل کر میری طرف آتا ہے تو مَیں دوڑ کر آتا ہوں۔ (صحیح البخاری کتاب التوحید باب یحذرکم اللہ نفسہ حدیث 7405) پس اللہ تعالیٰ کے رحم کی کوئی انتہا نہیں۔
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تو بڑا حیا والا ہے۔ بڑا سخی ہے۔ بڑا کریم ہے۔ جب بندہ اس کے حضور اپنے ہاتھ بلند کرتا ہے تو وہ ان کو خالی ہاتھ اور ناکام واپس کرتے ہوئے شرماتا ہے۔ (سنن الترمذی ابواب الدعوات باب ان اللہ حی … الخ حدیث 3556)
ہاں یہ ہو سکتا ہے جس طرح بندہ نتائج مانگتا ہے یا نتائج کی خواہش رکھتا ہے ضروری نہیں کہ اسی طرح اور اسی وقت اس کے نتائج ظاہر ہو جائیں۔ بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے تحت کچھ عرصہ بعد اور کسی اَور رنگ میں ان دعاؤں اور صدقات کے نتائج ظاہر ہو رہے ہوتے ہیں۔ کبھی اسی طرح فوری طور پر نتائج ظاہر ہو جاتے ہیں۔
پس یہ کامل ایمان ہونا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے جو فرمایا کہ مَیں دعاؤں کو سنتا ہوں۔ مَیں استغفار قبول کرتا ہوں۔ مَیں صدقات قبول کرتا ہوں یعنی جب انسان اپنے گناہوں سے معافی مانگ رہا ہو اور آئندہ گناہوں اور کمزوریوں سے بچنے کا عہد بھی کر رہا ہو اور بھرپور کوشش بھی کر رہا ہو تو وہ اس کو قبول کرتا ہے اور ہر قسم کی پریشانیوں اور مشکلات سے نکالتا ہے۔
ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو حال جانتا ہے اس لئے ہمارے دکھاوے کے عمل اس کے ہاں قبول نہیں ہوتے اور خالص ہو کر عمل کئے جائیں تو وہ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ پھر بغیر نتیجہ یا اجر کے نہیں چھوڑتا۔
اللہ تعالیٰ تو اس قدر مہربان ہے اور اپنے بندوں پر اس کی مہربانی کا یہ حال ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو لوگ اتنی کشائش نہ رکھتے ہوں کہ صدقہ دے سکیں تو معروف باتوں پر عمل کرنا اور بری باتوں سے رکنا ہی ان کو صدقہ کا ثواب دے دے گا۔
(صحیح البخاری کتاب الزکاۃ باب علی کل مسلم صدقۃ … الخ حدیث 1445)
ان کی عبادتیں اور استغفار اور نیک عمل جو دوسرے کو فائدہ پہنچانے کے لئے ہیں وہ جہاں عبادتوں اور استغفار کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہوں گی وہاں وہ نیک عمل صدقات کا ثواب بھی حاصل کر رہے ہوں گے۔ ایک صاحب حیثیت شخص صدقات دے کر جو ثواب کما رہا ہو گا تو ایک غریب شخص اپنی نیک نیت کی وجہ سے بشرطیکہ وہ باقی احکامات پر عمل کر رہا ہے صدقات کا بھی برابر کا ثواب کما رہا ہو گا۔
پس ایسے پیار کرنے والے خدا کا کس کس طرح ہمیں شکر ادا کرنا چاہئے جس نے نہ صرف ہمیں اپنی کمزوریوں سے بچنے کے طریق سکھائے بلکہ یہ بھی فرما دیا کہ مَیں تمہارے ان عملوں کو جو تم کمزوریوں اور گناہوں سے بچنے کے لئے کرتے ہو قبول کرتے ہوئے تمہیں مشکلات اور مصائب سے بھی نجات دوں گا۔ پس مشکل حالات سے نکلنے کا صرف یہی ذریعہ ہے کہ ہم اپنی عبادتوں اور اپنی دعاؤں کو خالص کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں۔ استغفار پر زور دیں۔ جماعتی طور پر بھی اور انفرادی طور پر بھی صدقہ اور خیرات کی طرف توجہ کریں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صدقہ اور استغفار کے مضمون کی گہرائی کو بیان کرتے ہوئے بہت سارے مختلف مواقع پر ارشادات فرمائے ہیں جن میں سے چند ایک میں بیان کرتا ہوں۔
استغفار کی حقیقت بیان فرماتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
’’گناہ ایک ایسا کیڑا ہے جو انسان کے خون میں ملا ہوا ہے مگر اس کا علاج استغفار سے ہی ہو سکتا ہے۔ استغفار کیا ہے؟ یہی کہ جو گناہ صادر ہو چکے ہیں‘‘ (جو گناہ ہم کر چکے ہیں) ’’ان کے بد ثمرات سے خدا تعالیٰ محفوظ رکھے۔ اور جو ابھی صادر نہیں ہوئے اور جو بالقوۃ انسان میں موجود ہیں‘‘ (جن کا امکان ہے کہ ہو سکتے ہیں یا جس کی طاقتیں انسان میں موجود ہیں کہ وہ طاقتیں گناہ کی طرف لے جا سکتی ہیں) ’’ان کے صدور کا وقت ہی نہ آوے‘‘۔ (وہ گناہ ہم سے سرزد ہی نہ ہوں۔ یہ استغفار ہے) ’’اور اندر ہی اندر وہ جل بھن کر راکھ ہو جاویں‘‘۔ (یعنی گزشتہ گناہوں کی معافی بھی اور آئندہ گناہوں سے بچنے کے لئے استغفار ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے اور وہ ہمیں اپنی رحمتوں اور فضلوں سے نوازتا رہے۔) فرمایا کہ ’’یہ وقت بڑے خوف کا ہے اس لئے توبہ و استغفار میں مصروف رہو اور اپنے نفس کا مطالعہ کرتے رہو ۔ ہر مذہب و ملّت کے لوگ اور اہل کتاب مانتے ہیں کہ صدقات و خیرات سے عذاب ٹل جاتا ہے مگر قبل از نزولِ عذاب۔ مگر جب نازل ہو جاتا ہے تو ہرگز نہیں ٹلتا۔پس تم ابھی سے استغفار کرو اور توبہ میں لگ جاؤ تا تمہاری باری ہی نہ آوے اور اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت کرے‘‘۔ (ملفوظات جلد 5صفحہ 299۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
ابھی تو یہ چھوٹی سی مشکلات ہیں لیکن یہ چھوٹی چھوٹی مشکلات ہمیں سامنے نظر آ رہی ہیں۔ جس طرف دنیا جا رہی ہے، جس طرح انسان بے لگام ہو رہا ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے سامان ہو رہے ہیں تو انسان اس تباہی کی طرف جا رہا ہے جو انسان کے اپنے ہاتھوں سے ہونی ہے۔ یہ دنیا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو بھڑکا رہی ہے۔ پس ایسے وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے والوں کا یہ کام ہے کہ جہاں ہم اپنے آپ کو بد اثرات سے بچانے کے لئے توبہ اور استغفار پر زور دیں وہاں عمومی طور پر دنیا کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی عقل دے۔
پھر استغفار کی حقیقت بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مزید فرماتے ہیں کہ:’’ جاننا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے قرآن شریف نے دو نام پیش کئے ہیں۔ اَلْحَیُّ اور اَلْقَیُّوْمُ۔ اَلْحَیُّ کے معنی ہیں خود زندہ اور دوسروں کو زندگی عطا کرنے والا۔ اَلْقَیُّوْمُ خود قائم اور دوسروں کے قیام کا اصلی باعث۔ ہر ایک چیز کا ظاہری باطنی قیام اور زندگی انہیں دونوں صفات کے طفیل سے ہے۔ پس حَیّ کا لفظ چاہتا ہے کہ اس کی عبادت کی جاوے جیسا کہ اس کا مظہر سورۃ فاتحہ میں اِیَّاکَ نَعْبُدُ ہے۔ اور اَلْقَیُّوْمُ چاہتا ہے کہ اس سے سہارا طلب کیا جاوے۔ اس کو اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کے لفظ سے ادا کیا گیا ہے۔‘‘ (حَیّ کا فرمایا کہ) ’’حَیّ کا لفظ عبادت کو اس لئے چاہتا ہے کہ اس نے پیدا کیا اور پھر پیدا کر کے چھوڑ نہیں دیا جیسے مثلاً معمار جس نے عمارت کو بنایا ہے اس کے مر جانے سے عمارت کا کوئی حرج نہیں ہے۔ مگر انسان کو خدا کی ضرورت ہر حال میں لاحق رہتی ہے۔ اس لئے ضروری ہوا کہ خدا سے طاقت طلب کرتے رہیں اور یہی استغفار ہے‘‘۔ (اللہ تعالیٰ سے اگر گناہوں سے بچنے کی طاقت طلب کرتے رہیں، اس کی عبادتوں کے لئے طاقت طلب کرتے رہیں اور یہ طاقت طلب کرنا جو ہے فرمایا یہی استغفار ہے۔) فرمایا کہ’’ اصل حقیقت تو استغفار کی یہ ہے۔ پھر اس کو وسیع کر کے اُن لوگوں کے لئے کیا گیا کہ جو گناہ کرتے ہیں کہ ان کے بُرے نتائج سے محفوظ رکھا جاوے۔ لیکن اصل یہ ہے کہ انسانی کمزوریوں سے بچایا جاوے۔‘‘ فرمایا کہ ’’پس جو شخص انسان ہو کر استغفار کی ضرورت نہیں سمجھتا وہ بے ادب دہریہ ہے‘‘۔
(ملفوظات جلد 3صفحہ 217۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے اور توبہ و استغفار کی اہمیت بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’انسان بہت بڑے کام کے لئے بھیجا گیا ہے۔‘‘ اس سے پہلے آپ نے اس کام کی تفصیل یہ بیان فرمائی کہ انسان اپنی حالت میں پاک تبدیلی پیدا کرے۔ یہ بہت بڑا کام ہے انسان کے لئے کہ اپنی حالتوں میں پاک تبدیلی پیدا کرے اور خدا تعالیٰ سے صلح کرے۔ اس کو ناراض نہ کرے اور پتاکرے کہ کس غرض کے لئے دنیا میں آیا ہے۔ انسان کو یہ بھی علم ہونا چاہئے کہ کس غرض کے لئے دنیا میں آیا ہے اور یہ غرض جیسا کہ ہم جانتے ہیں اللہ تعالیٰ نے بیان بھی فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کر کے اس کا قرب حاصل کرنا ہے۔ بہرحال پھر آپ فرماتے ہیں) ’’بہت بڑے کام کے لئے بھیجا گیا ہے لیکن جب وقت آتا ہے اور وہ اس کام کو پورا نہیں کرتا تو خدا پھر اس کا تمام کام کر دیتا ہے۔ خادم کو ہی دیکھ لو کہ جب وہ ٹھیک کام نہیں کرتا تو آقا اس کو الگ کر دیتا ہے۔ پھر خدا تعالیٰ اس وجود کو کیونکر قائم رکھے جو اپنے فرض کو ادا نہیں کرتا‘‘۔ آپ مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ہمارے مرزا صاحب‘‘ (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد مرحوم و مغفور) ’’پچاس برس تک علاج کرتے رہے۔ ان کا قول تھا کہ ان کو کوئی حُکمی نسخہ نہیں ملا۔ سچ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے اِذن کے بغیر ہر ایک ذرّہ جو انسان کے اندر جاتا ہے کبھی مفید نہیں ہو سکتا‘‘۔ فرمایا کہ ’’توبہ و استغفار بہت کرنی چاہئے تا خدا تعالیٰ اپنا فضل کرے۔ جب خدا تعالیٰ کا فضل آتا ہے تو دعا بھی قبول ہوتی ہے۔ خدا نے یہی فرمایا ہے کہ دعا قبول کروں گا اور کبھی کہا کہ میری قضاء و قدر مانو‘‘۔ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ)’’ اس لئے مَیں تو جب تک اِذن نہ ہو لے کم امید قبولیت کی کرتا ہوں۔ بندہ نہایت ہی ناتواں اور بے بس ہے۔ پس خدا کے فضل پر نگاہ رکھنی چاہئے‘‘۔ (ملفوظات جلد 3صفحہ 319۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اور اللہ تعالیٰ کے فضل پر نگاہ رکھنے کے لئے ہر وقت خدا تعالیٰ پر نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے، اس سے جُڑے رہنے کی ضرورت ہے۔ توبہ و استغفار کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے اور اس کے بندوں کا حق ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ رونا اور صدقات فرد قرار دادِ جرم کو ردّ کر دیتے ہیں، آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’ دعا بہت بڑی سپر کامیابی کے لئے ہے۔ یونس کی قوم گریہ وزاری اور دعا کے سبب آنے والے عذاب سے بچ گئی۔‘‘ فرمایا کہ’’ میری سمجھ میں محاتبت مغاضبت کو کہتے ہیں‘‘ (یعنی آپس میں غضبناک ہونا اور ایک دوسرے سے غصہ کرنا یا کسی بات پر غصہ کرنا۔) فرمایا میری سمجھ میں تو محاتبت مغاضبت یعنی اس غصہ کے اظہار کو اور ناراضگی کو کہتے ہیں۔ فرمایا کہ ’’اور حُوت مچھلی کو کہتے ہیں اور نُون تیزی کو بھی کہتے ہیں اور مچھلی کو بھی۔ پس حضرت یونسؑ کی وہ حالت ایک مغاضبت کی تھی۔‘‘ (غصہ کی حالت تھی۔) ’’اصل یوں ہے کہ عذاب کے ٹل جانے سے ان کو شکوہ اور شکایت کا خیال گزرا کہ پیشگوئی اور دعا یوں ہی رائیگاں گئی اور یہ بھی خیال گزرا کہ میری بات پوری کیوں نہ ہوئی۔ پس یہی مغاضبت کی حالت تھی‘‘۔ فرمایا کہ ’’اس سے ایک سبق ملتا ہے کہ تقدیر کو اللہ بدل دیتا ہے اور رونا دھونا اور صدقات فردِ قراردادِ جرم کو بھی ردّی کر دیتے ہیں‘‘۔ فرمایا کہ ’’اصول خیرات کا اسی سے نکلا ہے۔ یہ طریق اللہ کو راضی کرتے ہیں‘‘۔ فرماتے ہیں کہ’’ علم تعبیر الرؤیا میں مال کلیجہ ہوتا ہے۔ اس لئے خیرات کرنا جان دینا ہوتا ہے۔ انسان خیرات کرتے وقت کس قدر صدق و ثبات دکھاتا ہے اور اصل بات تو یہ ہے کہ صرف قیل و قال سے کچھ نہیں بنتا جبتک کہ عملی رنگ میں لا کر کسی بات کو نہ دکھایا جاوے‘‘۔ فرمایا کہ ’’صدقہ اس کو اسی لئے کہتے ہیں کہ صادقوں پر نشان کر دیتا ہے۔ حضرت یونسؑ کے حالات میں دُرّمنثور میں لکھا ہے کہ آپ نے کہا کہ مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ جب تیرے سامنے کوئی آوے گا۔ تجھے رحم آ جائے گا‘‘۔ اللہ تعالیٰ کو رحم آ جائے گا۔ (ملفوظات جلد 1صفحہ 237-238۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
ایک مجلس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا جس کی تفصیل اخبار البدر میں چھپی ہے کہ بعض لوگ باہر سے آئے۔ جمعہ کی نماز کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف فرما ہوئے تو اخبار والے لکھتے ہیں کہ ’’بعد ادائیگی جمعہ گردونواح کے لوگوں نے بیعت کی اور حضرت اقدس نے ان کے لئے ایک مختصر تقریر نماز روزہ کی پابندی اور ہر ایک ظلم وغیرہ سے بچنے پر فرمائی کہ اپنے گھروں میں عورتوں، لڑکیوں اور لڑکوں سب کو نیکی کی نصیحت کریں اور جیسے درختوں اور کھیتوں کو اگر پورا پانی نہ دیا جائے تو وہ پھل نہیں لاتے۔ اسی طرح جب تک نیکی کا پانی دل کو نہ دیا جائے تو وہ بھی انسان کے لئے کسی کام کا نہیں ہوتا‘‘۔ آپ نے فرمایا کہ نیکیوں کے ذکر گھروں میں چلتے رہنے چاہئیں تا کہ دعاؤں کی طرف بھی توجہ پیدا ہوتی رہے۔ استغفار کی طرف بھی توجہ پیدا ہوتی رہے باقی نیک اعمال کی طرف بھی توجہ پیدا ہوتی رہے اور یہی پانی ہے جس سے نیکی کا پودا پروان چڑھتا ہے۔ ایمان مضبوط ہوتا ہے۔ لکھنے والے لکھتے ہیں کہ آپ نے ’’ہنسی اور ٹھٹھے کی مجلسوں سے پرہیز (کرنے) کی تاکید فرمائی۔ انبیاء کی وصیت یاد دلائی کہ صدقہ اور دعا سے بلا ٹل جاتی ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’اگر پیسہ نہ ہو تو ایک بوکاؔ(ڈول) پانی کا کسی کو بھر دو۔‘‘ (یعنی کنوئیں میں سے ڈول ڈالتے ہیں، ڈول ڈال کے پانی بھر دو) ’’یہ بھی صدقہ ہے۔‘‘فرمایا کہ ’’اپنے مال اور بدن سے کسی کی خدمت کر دینی یہ بھی صدقہ ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 5صفحہ 81-82۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس اللہ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے کے لئے عبادتوں کی پابندی جہاں ضروری ہے وہاں ہر قسم کے ظلم و زیادتی سے بچنا بھی ضروری ہے اور لوگوں کے کام آنا بھی ضروری ہے۔ گھروں میں بجائے زیادہ وقت دنیاوی شغلوں میں گزارنے کے نیکی کی باتیں کرنے کی طرف توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔ ایسی مجلسوں سے بچنے کی ضرورت ہے جہاں صرف ہنسی ٹھٹھا ہو رہا ہو۔ دوسروں کا مذاق اڑایا جا رہا ہو اور جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ معروف باتیں ہیں جو صدقہ ہیں۔ لوگوں کے کام آنا بھی صدقہ ہے۔ جو لوگوں کی مشکلات کو دور کرتا ہے وہ بھی صدقہ دیتا ہے۔ پس اس طرف ہمیں توجہ دینی چاہئے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک موقع پر فرمایا کہ :
’’تمام مذاہب کے درمیان یہ امر متفق ہے کہ صدقہ خیرات کے ساتھ بَلا ٹل جاتی ہے اور بَلا کے آنے کے متعلق خدا تعالیٰ پہلے سے خبر دے تو وہ وعید کی پیشگوئی ہے ۔ پس صدقہ و خیرات سے اور توبہ کرنے اور خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے سے وعید کی پیشگوئی بھی ٹل سکتی ہے‘‘۔ فرمایا ’’ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس بات کے قائل ہیں کہ صدقات سے بَلا ٹل جاتی ہے۔
(ملفوظات جلد 9صفحہ 227۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اگر بلا ایسی شئے ہے کہ وہ ٹل نہیں سکتی تو پھر صدقہ و خیرات سب عبث ہو جاتے ہیں۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ جب فرماتا ہے کہ میں صدقات قبول کرتا ہوں تو وہ ایسی صورت میں بھی قبول کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور قبول کرتا ہے جس کے بارے میں وہ بعض اوقات اپنے انبیاء اور فرستادوں کے ذریعہ سے بتا بھی دیتا ہے کہ ایسا ہو گا۔ انذار کی پیشگوئی بھی ہو جاتی ہے جیسا کہ یونس کی قوم کے بارے میں تھا اور اس کی قوم دعا اور صدقہ اور رونے دھونے سے بچ گئی اور جو تباہی کی پیشگوئی تھی وہ ٹل گئی۔ پس جب انبیاء کی کی گئی پیشگوئیاں بھی صدقہ و خیرات سے ٹل سکتی ہیں تو پھر جو مشکلات انسان کے اپنے عملوں کے نتیجہ میں سامنے آتی ہیں، خدا تعالیٰ کو بھولنے کے نتیجہ میں سامنے آتی ہیں وہ کیوں خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے سے، استغفار اور توبہ کرنے سے اور صدقات کرنے سے نہیں ٹل سکتیں۔ یقیناً ٹل سکتی ہیں بشرطیکہ ہمارا رونا دھونا، دعا کرنا، صدقات کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ صدقہ خدا تعالیٰ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور برائی کی موت کو دور کرتا ہے۔ (سنن الترمذی کتاب الزکاۃ باب ما جاء فی فضل الصدقۃ حدیث 664)
پھر فرمایا کہ صدقہ دے کر آگ سے بچو خواہ آدھی کھجور خرچ کرنے کی توفیق ہو۔
(صحیح البخاری کتاب الزکاۃ باب اتقوا النار ولو بشق تمرۃ … الخ حدیث 1417)
اور پہلے ہم آپ کا یہ فرمان بھی سن چکے ہیں کہ اچھی باتوں، نیک باتوں پر عمل کرنا اور بری باتوں سے رکنا بھی صدقہ ہے۔ پس ان باتوں کو ہمیں ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھنا چاہئے، جس کا پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ استغفار اور دعاؤں کی طرف توجہ بھی انتہائی ضروری ہے۔ دل سے نکلی ہوئی استغفار آئندہ گناہوں سے بھی بچاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے رحم کو بھی جوش میں لاتی ہے اور اس کا قرب بھی دلاتی ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ تم میں سے جس کے لئے باب دعا کھولا گیا تو گویا اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دئیے گئے۔ اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے جو چیز مانگی جاتی ہے اس میں سے سب سے زیادہ اس سے عافیت طلب کرنا محبوب ہے‘‘۔ (سنن الترمذی کتاب الدعوات باب من فتح منکم باب الدعاء … الخ حدیث 3548) ۔ اللہ تعالیٰ کی عافیت طلب کی جائے۔ اس کی پناہ میں آیا جائے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا کہ دعا اس ابتلاء کے مقابلے پر جو آ چکا ہو اور اس کے مقابلے پر جو ابھی نہ آیا ہو نفع دیتی ہے۔ فرمایا کہ اے اللہ کے بندو! تم پر لازم ہے کہ تم دعا کرنے کو اختیار کرو۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 357 مسند معاذ بن جبلؓ حدیث 22394 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’یاد رکھو غفلت کا گناہ پشیمانی کے گناہ سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ یہ گناہ زہریلا اور قاتل ہوتا ہے۔ توبہ کرنے والا تو ایسا ہی ہوتا ہے کہ گویا اس نے گناہ کیا ہی نہیں‘‘۔ (جس نے سچی توبہ کی۔ استغفار کیا۔ اپنے گزشتہ گناہوں کی معافی مانگی۔ آئندہ گناہوں سے بچنے کا عہد کیا۔ اس طرح ہے گویا اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔) فرمایاکہ ’’جس کو معلوم ہی نہیں کہ مَیں کیا کر رہا ہوں وہ بہت خطرناک حالت میں ہے۔ پس ضرورت ہے کہ غفلت کو چھوڑ دو‘‘۔ (پتا ہونا چاہئے ہم کیا کر رہے ہیں، ہمارا ہر عمل کیسا ہے۔) فرمایا کہ ’’اور اپنے گناہوں سے توبہ کرو اور خدا تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ جو شخص توبہ کر کے اپنی حالت کو درست کر لے گا وہ دوسروں کے مقابلہ میں بچایا جائے گا۔ پس دعا اسی کو فائدہ پہنچا سکتی ہے جو خود بھی اپنی اصلاح کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ اپنے سچے تعلق کو قائم کرتا ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’پیغمبر کسی کے لئے اگر شفاعت کرے لیکن وہ شخص جس کی شفاعت کی گئی ہے اپنی اصلاح نہ کرے اور غفلت کی زندگی سے نہ نکلے تو وہ شفاعت اس کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔‘‘ (ملفوظات جلد 5صفحہ 230۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ دعا کی حقیقت کو سمجھنے والے ہوں ۔ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے والے ہوں۔ استغفار کی طرف توجہ دینے والے ہوں۔ اپنے پچھلے گناہوں کی بخشش اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے طلب کرنے والے ہوں اور آئندہ گناہوں سے بچنے کا عہد کر کے پھر اس کی بھرپور کوشش کرنے والے ہوں۔ بلاؤں کو دور کرنے کے لئے ایسے صدقات ادا کرنے والے ہوں جو خدا تعالیٰ کے ہاں مقبول ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے۔ دشمن اور ہر مخالف کے ہر حملے سے ہمیں محفوظ رکھے اور ا ن کے حملے ان پر الٹائے۔ ہم ہمیشہ خدا تعالیٰ کے ان بندوں میں شمار ہوں جو اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھنے والے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کے ہم وارث ہوں اور ان سے حصہ لینے والے ہوں۔
نمازوں کے بعدمیں ایک جنازہ بھی پڑھاؤں گا جو مکرمہ سعدہ برتاوی صاحبہ کا ہے۔ مَرْعِی برتاوی صاحب کی اہلیہ۔ حوش عرب دمشق میں ان کی وفات ہوئی تھی۔ ان کے گھر میں ہیٹنگ کے لئے استعمال ہونے والی گیس کے لِیک(Leak) ہونے کی وجہ سے آگ لگنے پر یہ شدید جھلس گئیں اور ہسپتال لے جایا گیا جہاں علاج کے نتیجہ میں طبیعت بہتر ہو گئی تھی۔ اس واقعہ پر انہوں نے بڑے صبر کا مظاہرہ کیا۔ حمد و شکر میں مصروف رہیں اور سب سے کہتی تھیں کہ وہ خدا کی تقدیر پر راضی ہیں۔ لیکن چار دن کے بعد ڈاکٹر کے مطابق انہیں ایک ہارٹ اٹیک ہوا جسے وہ برداشت نہیں کر سکیں اور 10؍جنوری 2017ء کو ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ نے اپنے خاوند کے بعد 2004ء میں بیعت کی تھی لیکن اخلاص و وفا میں اپنے خاوند اور بچوں سے بہت آگے تھیں۔ ان کے خاوند مکرم مَرعی صاحب بیان کرتے ہیں کہ بیعت کے کچھ عرصہ بعد حاملہ ہوئیں اور حمل کے دوران ایک دن سیڑھیوں سے گر گئیں اور خطرہ تھا کہ حمل ضائع نہ ہو گیا ہو۔ رات کو سوئیں تو خواب دیکھا کہ کوئی شخص آسمان سے آواز دیتا ہے کہ ڈرو مت، اللہ اس جنین کی حفاظت کرے گا اور اس پر فیصلہ کیا گیا کہ اگر بیٹا ہوا تو اس کا نام احمد رکھیں گی۔ چنانچہ ایسا ہی کیا۔ پھر جب اس بچے کی عمر چھ سال تھی تو اسی قسم کا خواب دیکھا کہ آسمان سے آواز آتی ہے کہ اللہ اس بچے کی حفاظت کرنے والا ہے۔ اس کے بعد ایک دن اس بچے کے ساتھ ہائی وے(Highway) کے کنارے پر چل رہی تھی کہ اچانک اس بچے نے ہاتھ چھڑایا اور سڑک پار کرنے لگا۔ اس پر انہوں نے اپنا سر پکڑا اور آنکھیں بند کر لیں۔ جب آنکھیں کھولیں تو ان کا بچہ بالکل ٹھیک ٹھاک سڑک کی دوسری طرف پہنچ چکا تھا اور ہاتھ ہلا رہا تھا۔ اس پر انہیں اپنی وہ خواب یاد آ گئی۔ ان کے میاں بیان کرتے ہیں کہ نیکیوں میں سبقت لے جانے والی تھیں۔ جب بھی مجھے کسی کے ساتھ کوئی نیکی کرنے کا خیال آتا اور میں کہتا کہ میں اہلیہ کو بتاؤں گا کہ ہمیں ایسا کرنا چاہئے تو وہ بتاتی کہ مجھے بھی یہی خیال آیا تھا اور میں نے اس یقین سے اس پر عمل کر دیا ہے کہ آپ مخالفت نہیں کریں گے بلکہ حوصلہ افزائی کریں گے۔ خاوند ابھی سوچ رہا ہوتا تھا اور یہ نیکی کر چکی ہوتی تھیں ۔ خاوند کہتے ہیں کہ اس قسم کے واقعات سے شاید ہی کوئی ہفتہ خالی گزرا ہو۔
جرمنی میں آپ کے داماد مصعب شُوَیرِی صاحب کہتے ہیں کہ بہت نیک سیرت اور سادہ لوح خاتون تھیں۔ کسی سے دشمنی نہ تھی۔ بہت سخاوت کرنے والی تھیں۔ ان کے خاوند کی 2009ء سے 2013ء تک کی گرفتاری کے دوران انہوں نے بہت محنت کر کے بچوں کا پیٹ پالا اور سب کو سنبھالا اور گزشتہ قرض بھی ادا کئے۔ ہر کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتیں۔ سب سے محبت اور پیار سے پیش آتیں۔ چندے ہمیشہ باقاعدگی سے ادا کرتی تھیں۔ ان کی تدفین دمشق کے علاقے حوش عرب میں ہوئی ہے جہاں تدفین سے قبل احمدیوں اور غیر احمدیوں نے الگ الگ جنازہ پڑھا۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت کا سلوک فرمائے۔ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی نسلوں کو بھی جماعت اور خلافت سے پختہ تعلق قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے