حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کا مباہلہ کے چیلنج کا ایک نئے رنگ میں اعادہ اور اس کے نتائج و ثمرات
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے جون 1988ء میں جماعت احمدیہ کے معاندین، مکفرین و مکذّبین کو مباہلہ کا ایک چیلنج دیا تھا۔ اس کا قدرے تفصیلی ذکر ’’امام جماعت احمدیہ عالمگیرحضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی طرف سے 10 جون 1988 ء کو دیا گیا مباہلہ کا چیلنج اور اس کے عظیم الشان نتائج‘‘ کے عنوان سے ہفت روزہ الفضل انٹر نیشنل کے 2018ء کے شمارہ جات 8جون، 15جون، 22جون، 29جون اور 6جولائی میں (پانچ اقساط میں) شائع ہو چکا ہے۔ لیکن پاکستان میں جہاں حکومت کی پُشت پناہی میں جماعت احمدیہ کے خلاف جھوٹے پراپیگنڈہ کے ساتھ ساتھ نہایت ظالمانہ کارروائیاں کی جاتی ہیں 1997ء میں پھر اس مہم میں ایک اُبال آیا۔ (اور ایسے اُبال پاکستان میں وقتاً فوقتاً آتے رہتے ہیں۔ بالخصوص اس وقت جب ملک کو اندرونی اور بیرونی چیلنجز درپیش ہوں یا سیاستدانوں کے ذاتی مفادات یا ان کے اقتدار کو خطرات کا سامنا ہو تو وہ مذہبی کارڈ کو استعمال میں لاتے ہیں اور اصل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے مُلّاں کی ملی بھگت سے جماعت احمدیہ کے خلاف منافرت اور شر انگیزی کی مہم میں خاصی تیزی آجاتی ہے۔ اِن دنوں بھی پاکستان میں ایسے ہی حالات ہیں اور جماعت احمدیہ کے خلاف کذب و افترا اور اشتعال اور شر انگیزی کی مہم زوروں پر ہے)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍ جنوری 1997ء (فرمودہ بمقام مسجد فضل لندن یُوکے) میں پاکستان میں جماعت کی مخالفت میں معاندین کی شر انگیزیوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک دفعہ پھر 1988ء والے مباہلہ کے چیلنج کا اعادہ کیا اور افراد جماعت کو خاص طور پر دشمنوں کی ذلّت اور ہلاکت و بربادی کے لئے دعاؤں کی تحریک فرمائی۔
حضور رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ کے آغاز میں سورۃ البقرہ کی آیات 186و 187 کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’یہ وہ آیات ہیں جن کی رمضان کے تعلق میں رمضان کے آغاز پہ بارہا تلاوت کی گئی ہے اور مضمون کو ان کے حوالے سے بیان کیا گیا۔ آج پھر ایک ایسا جمعہ ہے جو رمضان سے متّصل ہے۔ یعنی آج جمعہ ہے تو کل رمضان شروع ہو گا اور یہی وہ آیات ہیں جن کے حوالے سے مَیں خاص طور پر اس کے آخری حصہ کے تعلق میں جماعت کو یاددہانی کرانا چاہتا ہوں۔‘‘
حضورؒ نے فرمایا:
’’یہ رمضان کئی پہلوؤں سے بابرکت ہے اور معلوم ہوتا ہے خاص نشان لے کر آنے والا رمضان ہے۔ چونکہ آج رمضان کا پہلا دن طلوع ہونے والا ہے اور مہینے کی تاریخ کے لحاظ سے دسویں تاریخ اور جمعہ کا دن ہے اور یہ وہ جمعہ ہے جو FRIDAY THE 10THہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے کشفی طور پر دکھایا تھا کہ بار بار جماعت کی تائید میں خوشخبریوں کا نشان ظاہر ہوا کرے گا۔ تو آج FRIDAY THE 10TH رمضان کے ساتھ جُڑا ہوا اُبھرا ہے۔ اور اس پہلو سے مجھے اس رمضان کے غیر معمولی طور پر مبارک ہونے کے لحاظ سے کوئی بھی شک نہیں۔
مگر ایک مزید تائیدی بات یہ ظاہر ہوئی کہ مجھے ربوہ سے ناظر صاحب اصلاح و ارشاد نے لکھا کہ یہ مولوی لوگ ان سب باتوں کے متعلق جن کے متعلق آپ مباہلے میں حلفیہ انکار کر چکے ہیں کہ جماعت پر یہ جھوٹے الزامات ہیں پھر دوبارہ شور ڈالنا شروع کر چکے ہیں۔ اور جانتے بوجھتے کہ جماعت کی طرف سے اس پر ’’لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْن‘‘ کی دعا بار بار دہرائی گئی ہے پھر بھی کوئی حیا نہیں کر رہے۔ اور اب ایک وزیر کے بہانے جو احمدی ہے مہم شروع کی ہے۔ اس میں ان اعتراضات کا، سب کا نہیں تو بہتوں کا اعادہ کیا گیا ہے جن کے متعلق جماعت احمدیہ کی طرف سے آپ نے اعلان کیا تھا، مباہلے کا چیلنج دیا تھا اور اس مباہلے کی صداقت کا نشان بن کر ضیاء الحق کو خدا تعالیٰ نے ایسا نیست و نابود کیا کہ اس کے وجود کا کوئی ذرّہ بھی ان کے ہاتھ نہ آیا، صرف ایک ڈنچر (Denture) تھا جو مصنوعی تھا۔ یعنی جو اس مرنے والے کی پہچان تھی وہ مصنوعی دانت تھے اس کے سوا اس کے جسم کا کوئی حصہ، اس کا نشان تک نہیں ملا۔ وہاں کی خاک اکٹھی کر کے ایک جگہ بھر دی گئی اور اس خاک میں اس یہودی ایمبسیڈر کی خاک بھی شامل تھی اس لئے کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس کس کی خاک کا پتلا بنایا گیا ہے جسے ضیاء کہا جاتا ہے اب۔ اور جو نشان ہے وہ صرف مصنوعی دانت ہیں اس کے متعلق ذرہ بھی کسی کو شک نہیں۔ پس یہ نشان خدا نے بڑی شان سے ظاہر فرمایا۔ اور یہ ظالم لوگ باز ہی نہیں آ رہے۔ اسی طرح مسلسل بے حیائیوں میں آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ وہی ظالمانہ تحریکات جو پہلے اٹھتی رہیں، جن کا ردّ کیا گیا، جن کے مؤثر، مدلّل جوابات دیئے گئے…‘‘
حضور ؒ نے فرمایا:
’’اس قوم سے حیا اٹھ گئی ہے یہاں تک کہ وہ دعوے پھر کرتے چلے جاتے ہیں کہ تمام دنیا کے علماء ان کو مرتداور کافر، دائرہ اسلام سے باہر سمجھتے ہیں اور یہ تسلیم نہیں کرتے۔‘‘
حضورؒنے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’تم لوگوں کے خلاف بھی تو باقی سب مسلمان فرقوں کے یہی دعاوی رہے ہیں تو تم بھی تسلیم کر لو پھر۔ لیکن تم کر بھی لو گے تو ہم پھر بھی نہیں کریں گے۔ کیونکہ اس بکواس کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم واقعۃً خدا کی توحید کے منکر ہو جائیں۔ ان الزامات کو قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم واقعۃً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت کا انکار کر دیں۔ ان الزامات کا مطلب یہ ہے کہ واقعۃً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمدؐ رسول اللہ کاہمسر یا ان سے بڑھ کر سمجھنے لگ جائیں۔ تو جو کچھ تمہارے بس میں ہے کرو۔ پہلے بھی مَیں نے یہی کہا تھا۔ آج بھی یہی کہتا ہوں اور یہی بات دہراتا رہوں گا۔ جو کچھ کرنا ہے کرو۔ تم اپنے پیادے بڑھالاؤ، اپنے سوار نکال لاؤ، چڑھا دو ہم پر اپنی دشمنی کی فوجیں۔ جس طرف سے آ سکتے ہو آؤ لیکن ان باتوں سے احمدیت ٹل نہیں سکتی کیونکہ احمدیت کا وجود ہے یہ، اور وہ ہے کلمہ توحید کی گواہی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلِہٖ وسلم کی رسالت اور عبدیت کی گواہی اور یہ گواہی کہ آپؐ خاتم الانبیاء ہیں اور کوئی نہیں جو کبھی دنیا میں آپؐ کی شان کا ہمسر پیدا ہوا۔ نہ آئندہ کبھی ہوگا۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا خمیر آپؐ کی محبت سے اٹھا ہے، آپؐ کے عشق سے اٹھا ہے، آپؐ کی کامل غلامی سے اٹھا ہے۔ آپؐ پر فدا ہو جانے کے ساتھ اٹھا ہے وہ خمیر۔ تو ان باتوں سے تم ہمیں اپنی گندہ دہنی سے کیسے روک سکتے ہو۔ نہ روک سکتے ہو۔ نہ کبھی روک سکو گے۔‘‘
حضورؒ نے مزید فرمایا:
’’یہ حوالے کہ پاکستان کی کانسٹی ٹیوشن یہ کہتی ہے اس پر ایمان لے آئیں، کیسی احمقانہ بات ہے کہ پاکستان کی کانسٹی ٹیوشن کا آئے دن تم انکار کرتے پھرتے ہو۔ جب کوئی حوالہ ملتا ہے اسی کانسٹی ٹیوشن نے ہمیں آزادیٔ ضمیر کا حق جو دیا ہے وہ تم کیوں نہیں مانتے۔ اس لئے جہالت کی حد ہے۔ ایک قوم جب فیصلے کرتی ہے ان کی مرضی کے خلاف ہو تو کہتے ہیں ہم دھرنا دیں گے، ہم سڑکوں پہ بیٹھ جائیں گے، ہم کسی قیمت پہ نہیں مانیں گے۔ اور اس کے باوجود ہمارا حق ہے کہ ہم میں جج بھی بنائے جائیں، ہم میں وزیر بھی بنائے جائیں۔ ہم میں ہر عُہدے کے لوگ چاہے اہل ہوں یا نہ ہوں، منتخب کر لئے جائیں۔ اور احمدیوں پر یہ الزام کہ چونکہ کانسٹی ٹیوشن کو نہیں مان رہے اس لئے ان کو کانسٹی ٹیوشن کے لحاظ سے کوئی ذمہ داری بھی سونپنی نہیں چاہئے۔ کون سی کانسٹی ٹیوشن ہے جس کی تم بات کرتے ہو؟ خدا کی کانسٹی ٹیوشن کے مقابل پر ساری دنیا کی کانسٹی ٹیوشنز بھی کچھ کہیں ہم پاؤں کی ٹھوکر سے اس کو ردّ کر دیں گے۔
تمہاری کانسٹی ٹیوشن ہمیں یہ منوانا چاہتی ہے کہ نعوذ باللہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلِہٖ وسلم جھوٹے ہیں۔ کوئی حیا کرو۔ تقدس محمدؐ رسول اللہ کا اور اس کی حفاظت کے لئے تم کھڑے ہوئے ہو؟ ایسے مکروہ لوگ جن کے نزدیک تقدّس کا یہ تصوّر ہے کہ جب تک کوئی محمدؐ رسول اللہ کی رسالت کا انکار نہیں کرے گا ہم اسے سینے سے نہیں لگائیں گے۔ ہم ایسے سینے پہ تھوکتے بھی نہیں۔ کیسی خبیثانہ حرکت ہے۔ اور اسے یہ مولویت کا نام دے رہے ہیں کہ ہم مولانا ہیں۔ ہمیں دین کا علم ہے۔ اس لئے ہم اعلان کرتے ہیں کہ جب تک احمدی کانسٹی ٹیوشن کے فیصلے کو تسلیم نہیں کریں گے اُس وقت تک ہم اس مہم کو نہیں چھوڑیں گے اور اُس وقت تک کسی احمدی کو پاکستان میں زندہ رہنے کا حق نہیں ہے۔‘‘
حضورؒ نے فرمایا:
’’ہم تو اس خدا کی بات کا جواب دیں گے جس نے کہا کہ ’’فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ‘‘ ،جو ہماری بات کا جواب دیتا ہے۔ تم ہوتے کون ہو؟ تمہاری حیثیت کیا ہے؟ تم تو ذلّتوں کی مار بننے والے ہو۔ عبرت کا نشان بننے والے ہو۔ اور اس تقدیر کو تم ٹال نہیں سکتے کبھی۔ یہ میرا چیلنج ہے اسے ٹال کے دکھاؤ۔ پس اس رمضان کو اس پہلو سے ہم بھی فیصلہ کُن بناتے ہیں تم بھی فیصلہ کُن بنا لو۔ جو جھوٹ اور بکواس جتنی بھی تم کر سکتے ہو، کر رہے ہو اور جتنی گندہ دہنی مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق تم نے کی ہے اس دَور میں، میرا خیال ہے انسانی تاریخ میں کبھی کسی نبی کے خلاف، کبھی خدا کے کسی بندے کے خلاف اس قسم کی بکواس کبھی نہیں ہوئی۔ تم نے معاملات کو آخری حد تک پہنچا دیا ہے اور اس پہلو سے اللہ تمہیں مہلت بھی بہت دے رہا ہے اور دے چکا ہے مگر تمہارے پکڑنے کے دن آئیں گے اور لازمًا آئیں گے، یہ وہ تقدیر ہے جسے تم ٹال نہیں سکتے۔
میں آج اس جمعہ میں اعلان کرتا ہوں کہ لازمًا تم پر ذلّتوں کی مار پڑنے والی ہے۔ اس تقدیر کو بدل کے دکھاؤ تَب میں اس بات کو قابل قبول سمجھوں گا کہ تم سے مزید گفتگو کی جائے کسی بات پر۔ اب یہ سلسلے گفتگو کے کٹ چکے ہیں۔ ان سب بے حیائیوں پر تم قائم ہو جن سے روکنے کے لئے تمہاری منّتیں کیں۔ تمہیں سمجھایا کہ بس کرو کافی ہو گئی ہے۔ اپنے ساتھ ساری قوم کو تو برباد نہ کرو۔ اب آوازیں اٹھ رہی ہیں جگہ جگہ سے کہ ملک ختم ہو گیا، ملک تباہ ہو گیا۔ …
… جو قصّے چلتے ہیں آئے دن فلاں یہ کھا گیا، فلاں یہ کھا گیا، فلاں کا اتنا سونا پکڑ اگیا، فلاں کی یہ گندگی پکڑی گئی اور آئے دن پاکستان کے اخبار جس بے حیائی سے بھرے ہوئے ہیں کہ یہ کردار ہے قوم کا۔ تم سمجھتے ہو کہ دنیا کو پتہ ہی کچھ نہیں؟ تم آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہو بے شک، مگر اگر کوئی تم میں سے یہ بہادری کرے کہ وہ کہہ دے کہ ہاں یہ قوم ایسی ہو چکی ہے تو اس کے پیچھے پڑ جاتے ہو، کہتے ہو جھوٹ بولتا ہے یا جھوٹ نہیں بھی بولتا تو بتانے کی کیا ضرورت تھی۔ ہم گویا چھپے بیٹھے تھے ہمیں بدنام کر دیا۔ کون سی بات ہے جو دنیا کو پتہ نہیں ہے۔ سب کچھ پتہ ہے۔ اس لئے خوامخواہ کے جھگڑے لگا بیٹھے ہو۔‘‘
آپؒ نے فرمایا:
…مُلّاں ہے جس نے اس قوم کو برباد کیا ہے اور جب تک یہ زہر تمہاری جڑوں میں بیٹھا ہوا ہے، تب تک تمہاری زندگی کی بقا کا کوئی سامان نہیں ہو سکتا یعنی زندگی باقی رکھنے کا۔ اس لئے اس زہر کو پہلے نکالو۔ ہر خرابی کا ذمہ دار یہ مُلّاں ہے اور یہ چڑھا ہوا ہے اس بناء پر کہ احمدیوں کے خلاف جو کچھ یہ کہے تم اسے سینے سے لگائے رکھتے ہو۔ اور اتنا ڈرایا ہے تمہیں کہ اگر احمدیت کے حق میں کوئی سچی بات تم کہو تو یہ تمہاری جان کھا جائے گا اور اسی خوف کی وجہ سے ان کو رِفعت مل رہی ہے، عظمت مل رہی ہے جیسی بھی وہ رِفعت اور عظمت ہو سکتی ہے۔ دراصل ذلّت اور نکبت کا دوسرا نام ہے جو اُن کی رفعتیں اور اُن کی عظمتیں ہیں ، اس سے زیادہ نہیں۔ پس مُلّاں کی جان توڑنی ہے تو اس سے احمدیت کا لقمہ چھین لو۔ پھر دیکھو اس کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے۔ اس کے سوا اس کی کوئی بھی حیثیت نہیں ہے۔ سارے پاکستان میں ایک گلی کی اصلاح کرنے کے قابل نہیں ہےیہ۔ ہر موڑ پہ مسجدیں دکھائی دیں گی مگر مسجد کا ساتھی بھی دیانتدار نہیں بنا سکے۔…وزیر اعظم صاحب جب یہ اعلان کرتے ہیں کہ ساری قوم بد دیانت ہو گئی ہے تو ملّاں کے گریبان پہ کیوں نہیں ہاتھ ڈالتے۔ تم کیا کر رہے ہو بیٹھے ہوئے، تم نے جو قیامت مچا رکھی ہے کہ ہم اسلام کی حفاظت میں جانیں دے دیں گے، عصمت رسالت کے لئے ہم سب کچھ قربان کر دیں گے تو اسلام تو ذبح کر بیٹھے ہو۔ کس گلی میں تمہارا اسلام دکھائی دے رہا ہے۔ ساری قوم بد دیانت ہے۔ تم اور بھی کھا کھا کے موٹے ہوئے چلے جا رہے ہو اور یہ تمہاری اسلام کی محبت ہے۔ اسلام کا پیچھا چھوڑو اور ملک کا پیچھا چھوڑ دو۔ ‘‘
حضورؒ نے فرمایا:
’’…یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان کو پلیدستان لکھا کرتے تھے اور جب تک ان کا دخل نہیں ہوا پاکستان، پاکستان ہی رہا ہے۔ اب پلیدستان بنا ہے۔ تو جو بدنامی کا موجب ہے اس کو پکڑتے نہیں اور جو حق کا اقرار کر تا ہے اس کے خلاف بول اٹھتے ہو۔ وہ لوگ جو الزام لگا رہے ہیں… وہ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ پلیدستان بنا دیا گیا ہے اور اس مولوی نے پلیدستان بنایا ہے جو قائد اعظم کے خلاف ، پاکستان کے خلاف جِدّو جُہد میں صف اوّل پہ تھا۔ اور احمدیت پہ جھوٹا الزام کہ احمدیت پاکستان کے خلاف تھی۔ کشمیر کی جِدّو جُہد میں بھی لکھا گیا کہ احمدی اپنا دامن بچا گئے۔ حالانکہ کشمیر کی جِدّوجُہد کا آغاز ہی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ہوا ہے اور ان کے اپنے کشمیری سچے رہنما لکھنے والے لکھ چکے ہیں کتابوں میں کہ اِس آزادی کی مہم کی باگ ڈور مرزا بشیرالدین محمود احمد کے ہاتھ میں تھی۔ پہلی آزادی کی مہم کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں تھی؟ جماعت احمدیہ کے ہاتھ میں۔ کس نے سپرد کی تھی؟ تمہارے چہیتے اقبال نے خود ریزولیوشن پیش کیا۔ ساری تاریخ کو مسخ کر کے ہر بات کا جھوٹ بنا دیتےہیں۔ اس لئے ان کے ساتھ بحثوں کا سوال ہی نہیں۔ جس نے جھوٹ بولنا ہی بولنا ہے، جسے حیا کوئی نہیں ہے وہ بار بار بولتاہے، مسلسل بولتا چلا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ اب گفتگو کا کونسا سوال باقی رہ جاتا ہے۔
لیکن ہاں خدا کے حضور فریقین کو یہ التجا کرنی چاہئے کہ جو جھوٹا ہے اس پہ لعنت ڈال۔ پہلے مباہلے سے یہ اس طرح گریز کرتے تھے کہ کہتے تھے کہ مباہلے کی شرطیں پوری نہیں ہو رہیں۔ کوئی کہتا تھا مکّہ میں آؤ اور وہاں جا کر آمنے سامنے سارے اکٹھے ہوں۔ اب سارا عالَمِ اسلام کیسے وہاں اکٹھا ہو جائے گا اور ساری جماعت احمدیہ وہاں کیسے اکٹھی ہو جائے گی؟ کس کس کو تم لاؤ گے؟ کون سا تمہارا اتفاق ہے؟ فضول لغو باتیں۔ اور مکّہ کی سرزمین کا ہونا کیوں ضروری ہے؟ مباہلوں کے لئے تو کبھی بھی کسی ایک سرزمین کا انتخاب نہیں ہوا۔ وہ جو مباہلے کا چیلنج تھا وہ تو مدینے میں ہوا تھا ویسے بھی، مکّے کے دَور میں تو ہوا ہی نہیں تھا وہ مباہلہ۔ نہ ان کو اسلام کی تاریخ کا پتہ، نہ شرائط کا کوئی علم۔ اصل بات ہے ’’لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ‘‘۔ خدا کی لعنت پڑے جھوٹوں پر۔ اس کے لئے کونسی سرزمین کی ضرورت ہے۔
پس اِس جمعہ پر مَیں ایک فیصلہ کُن رمضان کی توقع رکھتے ہوئے جماعت احمدیہ کو تاکید کرتا ہوں کہ اس رمضان کو خاص طور پر ان دعاؤں کے لئے وقف کر دیں کہ اے اللہ! اب ان کے اور ہمارے درمیان فیصلہ فرما کہ تُو اَحکمُ الحاکمین ہے۔ تجھ سے بہتر کوئی فیصلہ فرمانے والا نہیں۔ اور چونکہ مباہلے کے نام سے ان کی جان نکلتی ہے اور کہتے ہیں کہ احمدی بھاگ رہے ہیں۔ بے وقوفی کی حد ہے۔ مباہلے کا تو مَیں نے چیلنج دیا تھا۔ ہم کیسے بھاگ رہے ہیں؟ چیلنج مَیں نے دیا ہے اور بھاگ مَیں گیا ہوں؟ وہ تو سب جگہ مشتہر پڑا ہوا ہے۔ اسی چیلنج کی وجہ سے تو تم احمدیوں کو قید و بند کی صعوبتوں میں مبتلا کر تے رہے، شور ڈال دیا کہ انہوں نے ہمیں مباہلے کا چیلنج دے دیا ہے۔ اور پھر کہتے ہو کہ بھاگ گئے۔ قبول کر لیتے، بھاگ کیسے سکتے تھے؟ ہم تو دے چکے تھے۔ جس کی تَرکش سے تیر نکل چکا ہو واپس کیسے لے سکتا ہے؟ اور پھر جب ضیاء نے بھی ہاں نہیں کی تو مَیں نے جمعہ میں اعلان کیا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے رات رؤیا میں ایسی خبر دی ہے جس سے مَیں سمجھتا ہوں کہ جو خدا تعالیٰ کے عذاب کی چکّی ہے وہ چل پڑی ہے اور یہ شخص اگر اپنی بے عزّتی سمجھتا ہے کہ مَیں مرزا طاہر احمد کو جس کو مَیں نے عملًا ملک سے نکال باہر پھینکا ہے۔ یعنی روکنے کے باوجود نکل گیا ہے، یہ مراد ہے۔ وہ کیا چیز ہے، اس کی حیثیت کیا ہے، مَیں اس کے چیلنج کا جواب کیوں دوں۔ مَیں نے کہا اگر ان صاحب کی یہ سوچ ہے تو اس کا علاج یہ بتاتاہوں کہ آئندہ بدزبانیوں سے باز آ جائے اور احمدیت کے خلاف جو اقدامات کئے ہیں ان کی سنجیدگی سے پیروی نہ کرے۔ اگر توبہ نہیں کرنی تو اتنا ہی کرے۔ یہ غالبًا چند جمعے پہلے اعلان کیا تھا کہ ایسا کر لے تو مَیں سمجھتاہوں کہ یہ مباہلے کی زَد سے بچ جائے گا کیونکہ عملًا یہ اپنا سر خدا کے حضور خم کر دے گا کہ میری توبہ، مَیں اب ان باتوں میں مُصر نہیں ہوں، ضد نہیں کرتا۔ اب تاریخیں تو مجھے یاد نہیں رہیں مگر یہ مجھے علم ہے قطعی طور پر کہ ضیاء کی ہلاکت سے کچھ عرصہ پہلے مَیں نے یہ اعلان اسی مسجد سے کیا تھا، جمعہ میں کیا تھا۔ لیکن اس کے بعد اس نے اپنے حالات نہیں بدلے بلکہ شرارت میں بڑھتا چلا گیا۔ اس پر پھر وہ رات آئی جس میں مجھے خدا نے وہ چکّی چلتی ہوئی بتائی اور مَیں نے پھر صبح دوسرے دن جمعہ تھا اس میں اعلان کیا کہ اب خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے یہ اطلاع ملی ہے، یہ خبر مل گئی ہے آخری فیصلہ کُن کہ اب اس کے دن پورے ہو چکے ہیں۔ اب خدا کے عذاب کی چکّی سے یہ شخص بچ نہیں سکتا۔ اور اگلے جمعہ سے پہلے پہلے اس طرح یہ ہلاک ہوا ہے کہ ہمیشہ کے لئے عبرت کا نشان بن گیا ہے۔
پہلا فرعون تو ایسا تھا جس کی لاش عبرت کے لئے محفوظ کر دی گئی تھی۔ یہ اس دَور کا فرعون ایسا ہے جس کی خاک بھی نہیں بچی۔ صرف مصنوعی دانتوں سے وہ پہچانا جاتا ہے اور وہی عبرت کا نشان بن گئے ہیں ہمیشہ کے لئے۔ تو ان مولویوں کی پھر بھی آنکھیں نہیں کھلیں۔ اور یہ عجیب بات ہے، یہ ساری باتیں اکٹھی ہو گئی ہیں اس لئے مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ سال ایک بہت غیر معمولی سال ہے، پچھلا سال بھی اس لحاظ سے غیر معمولی تھا کہ پچھلے سال بھی رمضان سے پہلے میں نے جماعت کو تحریک کی تھی کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ مولوی کی ذلّتوں کے اب سامان شروع کر ے اور ’’اَللّٰھُمَّ مَزِّقْھُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ وَسَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا‘‘ کی دعا خصوصیت سے یاد رکھیں۔ اور اس رمضان میں یہ دعائیں بطور خاص توجہ اور الحاح سے کریں اور اس کے بعد وہ واقعات رُونما ہوئے جن کے بعد مولوی کے سارے منصوبے دھرے رہ گئے۔‘‘
حضورؒ نے فرمایا:
’’…اب کی جو دعائیں ہیں اس میں یہ یاد رکھیں کہ ایک لیکھرام کو برباد کیا مگر یہ عقل والے لوگ نہیں ہیں۔ ایک فرعون تباہ ہوا لیکن پھر بھی انہوں نے عبرت نہ پکڑی۔ تو اے خدا! اب ان سب فراعین کی صف لپیٹ دے جو مسلسل تکبّر میں اور جھوٹ میں پہلے سے بڑھ بڑھ کر چھلانگیں لگا رہے ہیں اور ظلم اور بے حیائی سے باز نہیں آ رہے۔ پس ہمارے لئے یہ سال یا اس سے اگلا سال ملا کر ان سب کو ایسا فیصلہ کُن کر دے کہ یہ صدی خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ دشمن کی پوری ناکامی اور نامرادی کی صدی بن کر ڈوبے اور نئی صدی احمدیت کی نئی شان کا سورج لے کر اُبھرے۔ یہ وہ دعائیں ہیں جو اس رمضان میں مَیں چاہتا ہوں کہ آپ بطورِ خاص کریں اور رمضان کے بعد بھی ہمیشہ ان دعاؤں کو اپنے پیشِ نظر رکھیں۔
لیکھرام کا مَیں نے ذکر کیا تھا۔ یہ عجیب ہے ایک اور اتفاق کہ لیکھرام بھی 1897ء میں ہی ہلاک ہو کر ایک عبرت کا نشان بنا تھا اور یہ 1997ء ہے جس میں ہم یہ بات کر رہے ہیں۔ یعنی 97ء کا تکرار ہے۔ سو سال پہلے لیکھرام عبرت کا نشان بنا تھا اور آج سو سال کے بعد مَیں پھر لیکھراموں کی ہلاکت کے لئے آپ کو دعا کرنے کی طرف متوجہ کر رہا ہوں۔‘‘
حضورؒ نے مزید فرمایا:
’’…انشاءاللہ یہ رمضان ہمارے لئے غیر معمولی برکتوں کا رمضان بن کر چڑھے گا اور اس کی دعائیں انشاء اللہ اس صدی کا احمدیت کے حق میں نیک انجام ظاہر کرنے میں بہت ہی غیر معمولی خدمت سرانجام دیں گی، یعنی دعائیں یہ خدمت کریں گی۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے گا اور آسمان سے جو تقدیر وہ ظاہر فرمائے گا احمدیت کے غلبے اور نصرت کی تقدیر ہو گی۔ اور جو وہ تقدیر ظاہر فرمائے گا احمدیوں کے دشمنوں کی ذلّت اور نکبت اور ہلاکت کی تقدیر ہو گی۔ پس ہم نے جو کام کرنا ہے وہ دعائیں ہیں اور خدا تعالیٰ نے جو کام کرنا ہے وہ یہ ہے کہ میرے بندوں سے کہہ دے کہ جب بھی وہ مجھے پکارتے ہیں ’’فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ‘‘تو مَیں ان کے قریب ہوں۔ تو اللہ تعالیٰ کی قربت کا نشان بنائیں۔ اور حقیقت میں لیکھرام کے نشان کا تعلق بھی قربتِ الٰہی کے ساتھ تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کو یہ سمجھا رہے تھے کہ تُو خدا سے دُور ہے اور مَیں قریب ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ ٖوسلم کی شان میں تیری گستاخی مجھے کسی قیمت پہ برداشت نہیں ہے۔ آپ نے ایسے ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں کہ انسان لرز اٹھتا ہے۔ فرماتے ہیں مَیں یہ برداشت کر سکتا ہوں کہ میرے بچے میرے سامنے ذبح کر دیئے جائیں۔ میرے عزیز ترین اقرباء اور پیارے میری آنکھوں کے سامنے ہلاک کر دیئے جائیں مگر محمدؐ رسول اللہ کی شان کے خلاف گستاخی مَیں برداشت نہیں کر سکتا۔
آج اللہ تعالیٰ نے محمدؐرسول اللہ کے غلام کے لئے میرے دل میں وہی محبت کا جذبہ پیدا کیا ہے۔ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے۔ اور یہی میری ہمیشہ سے دعائیں رہی ہیں کہ جس طرح آپؑ نے حضرت اقدس محمد ؐ رسول اللہ کے دفاع میں آپؐ پر جھوٹے الزام لگانے والوں کے مقابل پر اپنی چھاتی آگے کی تھی، خدا مجھے بھی توفیق بخشے مَیں مسیح موعود، محمدؐ رسول اللہ کے غلام کے لئے اپنی چھاتی آگے کر دوں۔ جو تیر برسنے ہیں یہاں برسیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ان کا گزند نہ پہنچے۔ پس اس جذبے کے ساتھ مَیں یہ تحریک کر رہا ہوں اور جیسا کہ مَیں نے آپ کو بتایا ہے دراصل یہ قربت کے نشان کی بات ہے۔ اگر ہم اللہ کے قریب ہیں تو وہ اپنا وعدہ ہمارے حق میں ضرور پورا کرے گا۔ اگر یہ مخالف اللہ سے دُور ہیں تو خدا تعالیٰ ان کو ضرور لعنت کا نشانہ بنائے گا۔ یہ ایسا یقین ہے جو یقین کے آخری مقام تک پہنچا ہوا ہے۔ حق الیقین سے مَیں یہ بات کہہ رہا ہوں۔‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے اس خطبہ جمعہ میں سوسال پہلے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دشمن اسلام پنڈت لیکھرام کی ہلاکت کے بارہ میں عطا کی جانے والی اخبارِ غیبیہ کے حوالہ سے اس پیشگوئی کا پس منظر اور لیکھرام کی آپؑ کے بالمقابل تعلّیوں اور پھر خدائی پیش خبریوں کے مطابق اس کی عبرتناک ہلاکت کا قدرے تفصیل سے ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
’’پس ہمارا خدا وہی ہے جس نے پہلے فرعون کو ہلاک کیا اور دوسرے فرعون کو بھی ہلاک کیا۔ ہمارا خدا وہی ہے جو ہر لیکھرام سے نپٹنا جانتا ہے جس کے قہر کی چھری سے کسی لیکھرام کا اندرونہ بچ نہیں سکتا۔ پس مَیں آپ سب کو ان دعاؤں کی طرف متوجہ کرتا ہوں اور وہ اشتہار جو میری طرف سے ، عالمگیر جماعت کی طرف سے ساری دنیا کے معاندین اور مکفّرین اور مکذّبین کو دیا گیا تھا، یہ مباہلہ کا کھلا کھلا چیلنج ہے۔ یہ میرے ہاتھ میں ہے۔ اس میں ہر الزام کے جواب میں جو انہوں نے احمدیت پر لگایا مَیں نے کہا کہ ہم کہتے ہیں ’’لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ‘‘۔ تم بھی خدا کے نام پر قسم کھا کر یہ اعلان کرو کہ ہم سچے ہیں یہی احمدی ہیں، یہی ان کا عقیدہ ہے تو پھر دیکھو خدا تعالیٰ تم سے کیا سلوک کرتا ہے اور ہم سے کیا سلوک کرتا ہے۔
آج تقریبًا دس سال ہو گئے ہیں۔ 1988ء میں یہ اعلان کیا گیا تھا اور 1997ء آ گیا ہے۔ آج تو دسواں سال لگ چکا ہے غالبًا اس لحاظ سے یا بہر حال دسویں سال کا آغاز ہونے والا ہے۔ یہ اعلان ہے جسے آج کے FRIDAY THE 10TH پہ مَیں پھر دہرا دیتا ہوں، یہ میرے ہاتھ میں ہے۔ مولویوں کو خوب پہنچایا گیا ہے۔ اب جو الزام انہوں نے شائع کئے ہیں وہ اللہ کی قسم کھا کر یہ اعلان کر دیں سارے ملک میں کہ ہم مباہلہ تو نہیں کرتے لیکن لعنت ڈالتے ہیں کہ اگر ہم جھوٹے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہم پر لعنت ڈالے اور ہمیں برباد اور رُسوا کر دے۔ اگر مولویوں میں ہمت ہے تو اس چیلنج کو قبول کریں۔ پھر دیکھیں خدا اُن سے کیا حشر کرتا ہے۔ خدا کرے کہ ان کو یہ جہالت کی ہمت نصیب ہو جائے کہ جب وہ کثرت سے جھوٹ بول رہے ہیں تو یہ جھوٹ بھی بولیں اب۔ اور خدا کی لعنت کو چیلنج کر کے پھر ان باتوں کا اعلان کریں۔ تو مَیں یقین دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی رسوائی کو ظاہر و باہر کر دے گا اور حیرت انگیز عبرت کے نشان ایک نہیں بلکہ بارہا اور کئی دکھائے گا۔‘‘
(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو خطبہ جمعہ فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ مورخہ 10؍ جنوری 1997ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن 28؍ فروری 1997 ء صفحہ 5 تا 9)
(………………جاری ہے)