ہالینڈ کے شہر المیرے میں پہلی احمدیہ مسجد- بیت العافیت
اس مضمون کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
خلیفۂ وقت کی تحریک
جماعت احمدیہ کی تاریخ اس بات پر شاہد ناطق ہے کہ اس کی تمام تر ترقیات خلافت احمدیہ کی بدولت ہیں۔ جماعت احمدیہ ہالینڈ کو اللہ تعالیٰ نے المیرے (Almere)شہر میں ایک خوبصورت مسجد تعمیر کرنے کی سعادت عطا فرمائی ہے۔اس مسجد کا نام مسجد بیت العافیت ہے۔اور اس کی تعمیر ممکن نہ ہوتی اگر جماعت ہالینڈ کو خلیفۂ وقت کی رہنمائی اور آپ کی دعاؤں کا ساتھ نہ ہوتا۔
مسجد بیت العافیت کے منصوبہ کا آغاز حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مبارک تحریک سے ہوا۔
مورخہ5؍جنوری 2007ءکو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بمقام نن سپیٹ (ہالینڈ) میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔ اس خطبہ میں حضور اقدس نے جماعت ہالینڈ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘یاد رکھیں کہ دوسروں کی توجہ اپنی طرف کھینچنے کا بہت بڑا ذریعہ مسجدیں بھی ہیں اس طرف بھی میں توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ اس وقت ہالینڈ میں مسجد کی شکل میں جماعت احمدیہ کی صرف ایک مسجد ہے جو ہیگ(Hague)میں ہے اور اس کی تعمیر ہوئے بھی شاید اندازاً 50سال سے زائد عرصہ ہی ہو گیا ہے۔ اُس وقت بھی اس مسجد کا خرچ لجنہ نے دیا تھا جن میں اکثریت پاکستان کی لجنہ تھی۔ پھر یہ نن سپیٹ کا سینٹر خریدا گیا جہاں اس وقت جمعہ ادا کر رہے ہیں یہ بھی مرکز نے خرید کردیا ہے۔ ہالینڈ کی جماعت نے تو ابھی تک ایک بھی مسجد نہیں بنائی۔ اب آپ کی تعداد یہاں اتنی ہے کہ اگر ارادہ کریں اور قربانی کا مادہ پیدا ہو تو ایک ایک کر کے اب مسجدیں بناسکتے ہیں۔ جب کام شروع کریں گے تو اللہ تعالیٰ مدد بھی فرمائے گا ان شاء اللہ۔ خیر امت ہونے کی ایک بہت بڑی نشانی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ پر کامل ایمان ہوتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ پر ایمان بھی ہے تو پھر اس پر توکل بھی کریں۔ اور یہ کام شروع کریں تو اللہ تعالیٰ ان شاء اللہ مدد بھی فرمائے گا جیسا کہ مَیں نے کہا۔
کل مَیںامیر صاحب اور مربی صاحبان سے، مبلغین سے میٹنگ میں کہہ رہا تھا کہ مسجدیں شروع کریں گے تو ان شاء اللہ تعالیٰ بن بھی جائے گی۔ اگر ہاتھ ڈالنے سے ڈرتے رہیں گے کہ پیسے کہاں سے آئیں گے، پیسے اکٹھے ہوں تو مسجد بنے تو پھر نہیں بنا کرتی۔ ارادہ کریں اللہ تعالیٰ مدد کرے گا ان شاء اللہ۔ احمدی جب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ارادہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی توفیق سے پھر وہ پورا بھی کرتا ہے، جوش بھی پیدا ہوتا جاتا ہے، اس لیے فکر نہ کریں، اپنے آپ کو انڈر اسٹیمیٹ (Under estimate)نہ کریں۔ اپنے لیے غلط اندازے نہ لگائیں۔ اور (ایسا کر کے آپ)اپنے لیے غلط اندازے نہیں لگا رہے ہوتے، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے غلط اندازے لگارہے ہوتے ہیں۔ اگر ایمان ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر یقین رکھیں۔ اگر ٹارگٹ رکھیں کہ ہر دو سال میں کم از کم ایک شہر میں جہاں جماعت کی تعداد اچھی ہے مسجد بنانی ہے (یہاں دو تین شہر ہیں)تو پھر اس کے بعد مزید جماعت پھیلے گی ان شاء اللہ۔ جس طرح مَیںنے کہا تبلیغ بھی کریں اور اس کے ساتھ ساتھ مسجدیں بناتے چلے جائیں تو یہ چھوٹا سا ملک ہے اس میں جب مسجدیں بنائیں گے، ان مناروں سے جو اللہ تعالیٰ کی توحید کی آواز گونجے گی اور آپ لوگوں کے عمل اور عبادتوں کے معیار بڑھیں گے تو یقینا ًان لوگوں کی غلط فہمیاں بھی دور ہوں گی اور آپ لوگ ان کی غلط فہمیاں دور کرنے والے بن جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن رہے ہوں گے۔ ان لوگوں کو بھی حقیقت کا علم ہوگا۔ان کو بھی پتہ چلے گا کہ ہم اسلام کو جو سمجھتے ہیں یا سمجھتے رہے ہیں حقیقت میں یہ وہ نہیں ہے بلکہ یہ تو حُسن پھیلانے والا اور امن پھیلانے والے لوگوں کا مذہب ہے۔ پس تبلیغ کے ساتھ ساتھ مساجد کی تعمیر کی طرف بھی توجہ دیں۔ دنیا میں ہر جگہ اس طرف توجہ پیدا ہوچکی ہے اس لیے ہالینڈ کی جماعت کو بھی اب پیچھے نہیں رہنا چاہیے اور تعمیر کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ اس چیلنج کو اب قبول کریں تو جیسا کہ میں نے کہا کہ تبلیغ کے مزید راستے کھلیں گے۔’’
(الفضل انٹرنیشنل 26؍جنوری 2007ءصفحہ6تا7)
حضور اقدس کا یہ ارشاد مسجد بیت العافیت کی تاریخ کے ہر پہلو کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے احمدیوں نے ارادہ بھی کیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس ارادے کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائی ۔اللہ تعالیٰ کی مدد کے نظارے بھی دیکھے، افراد جماعت میں جوش بھی پیدا ہوا،قربانی کا مادہ بھی پیدا ہوا ، مسجد کی تعمیر سے جماعت مزید پھیلی اور یوں افراد جماعت اسلام کے متعلق غلط فہمیاں دور کرنے والے بھی بن رہے ہیں اور آئندہ اس کام میں مزید وسعت بھی پیدا ہوتی چلے جائے گی۔ان شاء اللہ تعالیٰ۔
المیرے شہر کا مختصر تعارف
المیرے شہر کی تعمیر 20؍ستمبر 1975ءکو شروع ہوئی۔ اس سے قبل یہاں کوئی زمین نہیں تھی بلکہ صرف سمندر تھا۔ المیرے کا مطلب ‘‘بڑی جھیل ’’یا بعض اہل لغت کے نزدیک ‘‘جدیدجھیل’’۔ اس وقت المیرے کی آبادی دو لاکھ سے کچھ زیادہ ہے اور مختلف قومیتوں کے لوگ یہاں رہتے ہیں۔
المیرے اس بات کی وجہ سے مشہور ہے کہ یہاں ہر کوئی آزاد ی سے اپنی من پسند عمارت تعمیر کرسکتا ہے۔ مسجد بیت العافیت اس شہر کی ساتویں مسجد ہے اور اس شہر میں جماعت کی پہلی مسجد ہے۔
مسجد کے لیے المیرے شہر کا انتخاب
اللہ تعالیٰ کی جب مرضی ہو تو راستے خودبخود کھلتے چلے جاتے ہیں۔ چنانچہ المیرے شہر کا انتخاب اس طرح ہوا کہ یہاں کہ رہنے والے ایک احمدی مکرم محبوب الٰہی رانجھا صاحب نے کونسل سے اس سلسلہ میں رابطہ کیا چنانچہ اس شہر کی کونسل کا جماعت سے مسلسل رابطہ ہونے لگااور کونسل نے ایک زمین مسجد کی تعمیر کے لیے تجویز کی۔
2008ء میں صد سالہ خلافت احمدیہ جوبلی کے سال ایمسٹرڈم (Amsterdam)کے شہر میں ایک سینٹر بیت المحمود کے نام سے خریدا گیا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دورہ ہالینڈ 2008ء کے دوران اس جگہ کا معائنہ بھی فرمایا۔ اسی دورہ کے دوران حضور انور المیرے بھی پہلی مرتبہ تشریف لے کر گئے اور کونسل کی تجویز کردہ زمین کا بھی معائنہ فرمایا۔
بعد ازاں مقامی لوگوں کےغیر معمولی احتجاج کی وجہ سے کونسل نے خود ہی یہ جگہ دینے سے انکار کردیا۔
کونسل نے اس کے بعد ایک اور جگہ تجویز کی مگر اس جگہ کے موزوں نہ ہونے کی وجہ سے جماعت نے اسے خریدنے پر آمادگی ظاہر نہ کی ۔
اس کے بعد جماعتی انتظامیہ اس شہر میں مسجد تعمیر کرنے کے منصوبے کے حوالے سے سب امید چھوڑ بیٹھی تھی اورکونسل سے رابطہ بھی تقریبا ًختم ہو چکا تھا۔ لیکن چند ماہ بعد غیر متوقع طور پرکونسل نے جماعت سے خود رابطہ کیا اور ایک اور جگہ مسجد کی تعمیر کےلیے تجویز کی۔
جماعت نے جب اس زمین کا جائزہ لیا تو سب کو یہ جگہ پسند آئی اورحضور اقدس کی منظوری سے اس زمین کو خرید لیا گیا۔ حضور اقدس نے اس زمین پر بننے والی مسجد کا نام مسجد بیت العافیت عطا فرمایا۔
زمین خرید لینے کے بعد انتظامیہ کو یہ فکر لاحق تھی کہ کونسل نے یہ جگہ تجویز کرتے ہوئے اس بات کا ذکر کیا کہ اسلام دشمن پارٹی اس جگہ پر مسجد تعمیرکرنے پر اعتراض کرسکتی ہے جس کی وجہ سے تعمیر رک سکتی ہے۔ چنانچہ جماعت نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو دعا کے لیے لکھا۔ اس دعا ہی کا اثر تھا کہ اسلام مخالف پارٹی گو یا سو گئی اور جس عرصہ میں اعتراض لگانے کا قانونی حق تھا اس پارٹی نے کوئی اعتراض نہیں لگا یا بلکہ دوران تعمیر بھی کوئی قابل ذکر اعتراض نہیں کیا اور یوں مسجد کی تعمیر میں کوئی روک پیدا نہیں ہوئی۔ فالحمد للّٰہ علیٰ ذلک
مسجد کمیٹی کا اہم کردار
محترم امیر صاحب ہالینڈ نے مساجد کی تعمیر یا سینٹرز کی خریداری کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہوئی ہے جو CMC کے نام سے موسوم ہے۔ (Central Mosque Committee)۔ اس کمیٹی نے مسجد سے متعلقہ تمام اہم امور پر غور کرنےاور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے رہنمائی حاصل کرنے کی سعادت حاصل کی۔
اس کمیٹی کے ممبران حسب ذیل ہیں:مکرم ھبۃ النور فرحاخن صاحب امیرجماعت ہالینڈ، مکرم عبد الحمید فندر فیلدن صاحب نائب امیر(آپ اس کمیٹی کے صدر مقرر ہیں)، مکرم نعیم احمد ورائچ صاحب مشنری انچارج ، مکرم حامد کریم محمود صاحب مبلغ سلسلہ، مکرم مظفر حسین صاحب نیشنل جنرل سیکر ٹری ، مکرم حنیف حندرکس صاحب نیشنل سیکرٹری جائیداد (موجودہ سیکرٹری جائیداد ثمر ناصر صاحب ہیں)، مکرم اظہر علی نعیم صاحب نیشنل سیکرٹری امور خارجہ، مکرم عبد الحق کومپیر صاحب، مکرم عبد الباسط صاحب اور مکرم شاہد فراؤس صاحب ۔
اس مسجد کے آرکیٹیکٹ ایک غیر مسلم دوست مکرم فرحان الٰہی بخش صاحب ہیں۔ اس مسجد کی تعمیر کے دوران حضور انور کی ہدایت کے مطابق مکرم اکرم احمدی صاحب کی رہنمائی مسجد کمیٹی کو ملتی رہی۔ اس منصوبہ کے نگران اور انچارج مکرم اظہر علی نعیم صاحب رہے اور ہالینڈ مسجد فنڈ کے صدر مکرم عبد الباسط صاحب رہے۔
مالی قربانی
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام اور آپؑ کےخلفائےکرام کی دعاؤں اور تربیت کی وجہ سے مالی قربانی کرنا ہر احمدی کا خاص وصف بن چکا ہے۔ جماعت کی ہر سکیم میں قربانی کی نئی داستانیں رقم کی جاتی ہیں۔ احمدیوں کے جوش اور قربانی کے مادےکا اندازہ آپ اس طرح لگا سکتے ہیں کہ مسجد کی تعمیر کے دوران کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی پیسوں کی وجہ سے تعمیر میں رکاوٹ پیدا نہیں ہوئی۔ انتظامیہ اس اظہار میں یک زبان ہے کہ ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ کس نے پیسے دیے اور کہاں سے پیسے آئے مگر افراد جماعت مسلسل مالی قربانی کر کےامداد مہیا کرتے رہے اور مسجد کی تعمیر کو یقینی بنایا۔
مسجد کے چند کوائف
مسجد کی زمین 2012ء میں خریدی گئی۔مسجد کے قطعہ زمین کا رقبہ 1436؍مربع میٹر ہے۔ اور یہ قطعہ زمین دو لاکھ 76؍ ہزار یورو میں خریدی گئی ۔ جس حصہ زمین پر مسجد تعمیر ہوئی ہے اس کا رقبہ 634؍ مربع میٹر ہے۔ مسجد پر تقریبا 1,8 milion یورو خرچ ہوا ہے۔ دو منزلہ مسجد ہے۔ نیچے multi purpose hall ہے اوردفاتر ہیں۔ اوپر مسجد کے ساتھ مربی ہاؤس ہے۔ دوران ِتعمیر جماعت نے 247؍مربع میٹر زمین زائد خریدی ۔ اس طرح اب کل رقبہ زمین 1683؍مربع میٹر ہے۔
مسیح پاک علیہ السلام کا بیان کردہ نسخہ
حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ
‘‘جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہو گئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی۔اگر کوئی ایسا گاؤں ہو یا شہرجہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہوتو ایک مسجد بنا دینی چاہیے۔ پھر خدا خودمسلمانوں کو کھینچ لاوے گا۔’’(ملفوظات جلدہفتم صفحہ119)
بلا شبہ یہ جماعت کی ترقی کا ایک آزمودہ نسخہ ہے۔ مسجد بیت العافیت کی تعمیر سے قبل المیرے ایمسٹرڈم جماعت کا ایک حصہ تھی اور اس شہر میں صرف 2 فیملیز رہتی تھیں۔ مسجد کی تکمیل کےچند ماہ بعد ہی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہونا شروع ہوا اور اس وقت مسجد میں جتنے نمازیوں کی گنجائش ہے تقریباً اتنی ہی جماعت کی تجنید ہوگئی ہے ۔اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ یہ تعداد مزید بڑھے گی۔
مسجد کےسنگ ِبنیاد کی تقریب
مسجد کے سنگ بنیادیا افتتاح کاموقع کوئی دنیاوی تقریب نہیں ہوتی بلکہ ابراہیمی دعا ؤںکا ایک خاص موقع ہوتاہے۔
مسجد بیت العافیت کا سنگ بنیاد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعاؤں کے ساتھ
7؍اکتوبر2015ءکو رکھا۔ حضور انور کے بعد حضرت بیگم صاحبہ مدّظلّہا العالی نے دوسری اینٹ رکھی اور پھر دیگر جماعتی عہدیداران اور افراد نے ایک ایک اینٹ رکھنے کی سعادت حاصل کی۔
سنگ بنیاد کے موقع پر غیر از جماعت مہمانوں کو بھی دعوت دی گئی تھی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے مل کر اور آپ کی باتیں سن کر مہمانوں پر ایک خاص نیک اثر ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک مہمان نے اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے بتایا:
‘‘اس سے پہلے اپنی زندگی میں ایسی شخصیت نہیں دیکھی جس کی باتوں کا اثر دل پر ہوتا ہے۔ ’’
حضور اقدس کی دل ربا شخصیت سے تمام مہمان بہت متأثر تھے۔ المیرے کے Deputy Mayor کا خطاب اس بات کا گواہ ہے۔ Deputy Mayor Mr. Frits Huisنے اپنی تقریر میں کہا:
‘‘میں سوچ رہا تھا کہ اپنا ایڈریس ڈچ زبان میں کروں یا انگریزی میں؟ تو پھر میں نے فیصلہ کیا کہ حضور انور کی تکریم میں انگریزی میں کروں۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ میری تقریر مختصر ہوگی۔ اور میری مختصر تقریر رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم حضور انور کی تقریر سنیں کیونکہ گو کہ ہم ایک ہی سال میں پیدا ہوئے ہیں لیکن حضور انور کا علم و حکمت میری علم و حکمت سے کہیں زیادہ ہے۔ اس لیے میں اپنے آپ کو سننے کی بجائے حضور کو سننا زیادہ پسند کروں گا۔’’(الفضل انٹرنیشنل 13؍نومبر 2015ءصفحہ2)
مسجد بیت العافیت کے نام کی تشریح
سنگِ بنیاد کے موقع پر حضور اقدس نے مہمانوں سے خطاب فرمایا اور اسلام کی حقیقی تعلیمات سے مہمانوں کو آگا ہ فرمایا۔ اس خطاب میں حضور اقدس نے مسجد کے نام کی بہت پیاری تشریح فرمائی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
‘‘ہم نے اس مسجد کا نام‘‘بیت العافیت ’’رکھا ہے جس کا مطلب ہے ‘یہ تمام لوگوں کے لیے امن اور تحفظ کی جگہ ہے’۔ بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ایک شعر میں بیان فرمایا:؎
صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے
ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار
پس احمدیوں کی ہر مسجد چاہے وہ دنیا میں کہیں بھی تعمیر ہو امن اور تحفظ کی جگہ اور انسانیت کے لیے جائے پناہ ہے۔ درحقیقت اسلام کے مطابق جو بھی مسجد تعمیر کرتا ہے وہ دراصل اللہ تعالیٰ کا گھر تعمیر کرتا ہے۔ ہم نجی زندگیوں میں اگر اپنے لیے گھر بنائیں تو ہم اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایسی جگہ ہو جہاں ہم اپنے آپ کو محفوظ سمجھیں اور جہاں ہم حقیقی طور پر ذہنی آرام و سکون پا سکیں۔ پس اللہ تعالیٰ کے گھر کی تعمیر میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم ایک ایسی مسجد بنانے کی کوشش کریں جو دوسروں کے لیے نقصان اور خطرہ کا ذریعہ ہو؟ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے امن و امان کا منبع ہے اور سب کا محافظ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے بھی یہی چاہتا ہے کہ وہ اس کی صفات کو اپنائیں۔ چنانچہ ایک سچے مسلمان پر یہ فرض ہے کہ وہ سب کے ساتھ پیار اور محبت کا ظہار کرے اور معاشرے کے امن کا محافظ ہو۔ پس واضح ہو کہ یہ مسجد جس کا سنگِ بنیاد آج رکھا جارہا ہے وہ سب کے لیے جائے پناہ اور امن اور تحفظ کا ایک عظیم الشان نشان ہو گی۔’’
(الفضل انٹرنیشنل 13؍نومبر 2015ءصفحہ2)
مسجد بیت العافیت کا ایک خاص اعزاز
مسجد بیت العافیت کو یہ تاریخی اور با برکت اعزاز حاصل ہے کہ یہ ہالینڈ کی پہلی مسجد ہے جس کا سنگِ بنیاد خلیفہ وقت کے دستِ مبارک سے رکھا گیا اور اسی طرح اس کا افتتاح بھی ان شاء اللہ العزیز خلیفہ وقت بنفس نفیس خود فرمائیں گے۔
یہ مبارک موقع دو با برکت وجودوں کی یاد دلاتا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ 1955ء میں جب ہالینڈ تشریف لائے تھے تو ہیگ میں مسجد مبارک زیرِ تعمیر تھی۔ اس موقع پرحضرت مصلح موعودؓ کا دیا ہوا ایک انٹریو محفوظ ہے جس میں آپ ؓنے خود مسجد کا افتتاح کرنے کی خواہش کا اظہار فرمایا کہ
‘‘ڈاکٹر کی اجازت سے میں یہاں ہالینڈ آیا ہوں کیونکہ میں یہاں کی زیرِ تعمیر مسجد کو دیکھنا چاہتا تھا۔ اگست میں اگر میرے ڈاکٹر کو کوئی اعتراض نہ ہوا تو میں خود اس کا افتتاح کروں گا۔ ’’
مگر حالات نے اجازت نہ دی اور حضرت سرچوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ نے حضور ؓکے ارشاد پر اس مسجد کا افتتاح فرمایا۔
اسی مسجد مبارک کی جب 1987ء میں آگ لگنے کے بعد توسیع کی گئی تو اس کے افتتاح کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے بھی تشریف لانا تھا مگر تب حضور ؒ باوجود خواہش کے نہ جا سکے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ ؒنےفرمایا:
‘‘اس مسجد کے افتتاح کے لیے اب مجھے بھی جانا تھا اور خاص طور پر جب بتایا کہ یہ واقعہ اس طرح ہوا ہے تو میں بھی ایک طبعی جوش رکھتا تھا کہ اس مسجد میں جاؤں لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کے کاروبار ہیں کہ ہالینڈ کی جس مسجد کا آغاز بھی خلیفہ وقت نے نہیں کیا تھا کسی اور نے کیا تھا۔ اس کی جب توسیع ہوئی ہے تو تب بھی خلیفہ وقت کو توفیق نہیں ملی بلکہ اس کی نمائندگی میں کسی اور ہی کو موقعہ ملا ہے۔ اللہ اپنے راز بہتر سمجھتا ہے۔ بہر حال ہم راضی برضا ہیں اور جو وہاں جانے میں التواء ہوا ہے وہ وجہ موسم کی ایسی اچانک خرابی ہے جس پر ہمارا کوئی بھی اختیار نہیں تھا۔
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 30؍ اکتوبر 1998ء۔الفضل انٹرنیشنل 18؍ دسمبر 1998ءصفحہ5)
ہر کام کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک وقت مقرر فرمایا ہوا ہے۔ مسجد بیت العافیت کا سنگ بنیاد بھی خلیفہ وقت نے رکھا اور خدا کی مرضی بھی یہی معلوم ہوتی ہے کہ خلیفہ وقت کی دعاؤں سے ہی اس مسجد کا افتتاح مقدر ہے۔
اللہ تعالیٰ کرے کہ اس مسجد کی تعمیر کے مقاصد کو ہم پورا کرنے والے ہوں اور اس مسجد کے ذریعہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام اس ملک کے باشندوں تک زیادہ موثر رنگ میں پہنچے اور سعید روحیں حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺکے جھنڈے تلے جمع ہوتی چلی جائیں۔ آمین
خاکسار حضرت مصلح موعودؓ کے جماعت احمدیہ ہالینڈ کے نام ایک پیغام پر اپنے اس مضمون کو ختم کرتا ہے ۔ حضورؓ نے اپنے ایک خط میں تحریر فرمایا: ‘‘ہم نئے سرے سے اسلام کا سنگِ بنیاد رکھ رہے ہیں۔ محمد رسول اللہﷺ کا نائب ہونا کوئی معمولی عہدہ نہیں۔ آج دنیا اس قدر کو نہیں جانتی ایک وقت آئے گا جب ساری دنیا کے بادشاہ رشک کی نظر سے ان خدمات کو دیکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ جلد ہالینڈ کے اکثر لوگوں کو احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق بخشے۔ ’’
(الفضل 23؍جون 1955ء)
٭…٭…٭