عہدیداران کے فرائض اورذمہ داریاں: خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۸؍اگست۲۰۲۳ء
عہدیداران کے فرائض اورذمہ داریاں
٭… ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ دعا کرکے اپنے میں سے بہترین لوگ منتخب کریں
٭… عہدے داروں کو ہميشہ ياد رکھنا چاہيے کہ اللہ تعاليٰ نے ہميں خدمت کا موقع ديا ہے۔ پس ہر قسم کے ذاتي مفاد سے بالا تر ہوکر خدمت سر انجام ديں
٭… اگر سيکرٹريان تربيت اپنے اعليٰ نمونوں کے ساتھ پيار اور محبت سے افراد جماعت کي تربيت کريں تو وہ ايک انقلابي تبديلي پيدا کرسکتے ہيں
٭… عہدےدار وںکا يہ بھي کام ہے کہ افرادِ جماعت سے ذاتي تعلق قائم کريں، ان کي خوشيوں اور غموں ميں شامل ہوں
٭…مومن وہ ہيں جو اپني امانتوں اور عہدوں کي رعايت رکھتے ہيںيعني ادائے امانت اور ايفائے عہد کے بارے ميں کوئي دقيقہ تقويٰ اور احتياط کا باقي نہيں چھوڑتے
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۸؍اگست۲۰۲۳ء بمطابق۱۸؍ظہور۱۴۰۲ ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۱۸؍اگست ۲۰۲۳ء کومسجد مبارک، اسلام آباد،ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔
تشہد، تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعدحضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ یقیناً اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ امانت اس کے اہل کے سپرد کرو۔ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی عہدہ یا ایسا مقام جس میں لوگوں کے معاملات دیکھنے کا اختیار دیا گیا ہو تو یہ بھی ایک امانت ہے۔
پس اس لحاظ سے ہمارے جماعتی نظام میں بھی ہر عہدہ یا خدمت امانت ہے
جماعتی نظام میں ہر سطح پر عہدے داروں کو منتخب کیا جاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ جب بھی تم اس مقصد کے لیے انتخاب کرو تو اس بات کو مدنظر رکھو کہ منتخب افراد امانت کا حق ادا کرنے والے ہوں۔
انتخاب کے وقت خویش پروری یا رشتے داری کا خیال نہیں رکھنا چاہیے
بعض دفعہ بعض عہدےدار مرکزی طور پر یا خلیفہ وقت کی طرف سے بھی مقرر کردیے جاتے ہیں۔ کوشش یہی ہوتی ہے کہ غور کرکے جو بہترین شخص میسر ہو اسے مقرر کیا جائے۔ لیکن کبھی اندازے کی غلطی بھی ہوسکتی ہے۔ یا عہدے حاصل کرنے کے بعد لوگوں کے مزاج بھی بدل جاتے ہیں، اور عاجزی اور محنت سے کام کرنے کی روح برقرار نہیں رہتی۔ بہرحال ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ دعا کرکے اپنے میں سے بہترین لوگ منتخب کریں۔ عموماً یہی کوشش ہوتی ہے کہ جو شخص بڑھ بڑھ کر اس لیے آگے آرہا ہو تاکہ اسے عہدہ دیا جائے اس کے سپرد خدمت نہ کی جائے۔ اگر ایسے شخص کا نام منتخب ہوکر آ بھی جائے تو بھی مرکز یا خلیفہ وقت، اگر اس کے حالات سے واقف ہو تو اس کی منظوری نہیں دی جاتی۔ یہ طریق عین آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق ہے۔ ایک مرتبہ دو افراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کی کہ فلاں خدمت ہمارے سپرد کی جائے، ہم اس کے اہل ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے سپرد میں کوئی خدمت کرتا ہوں اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتا ہے۔
جو خواہش کرکے کوئی کام خود اپنے ذمے لے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی مدد نہیں ہوتی۔ اس کے کام میں برکت نہیں پڑتی۔پس کبھی بھی عہدے کی خواہش نہیں ہونی چاہیے۔ ہاں! خدمتِ دین کا شوق ہونا چاہیے۔
بعض دفعہ کثرتِ رائے یا زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے کو خلیفہ وقت یا مرکز کی طرف سے منظور نہیں کیا جاتا، اس کی وجہ بعض ایسے حالات یا اس شخص کے بارے میں بعض معلومات یا رپورٹس ایسی ہوتی ہیں جن کا مرکز اور خلیفہ وقت کو ہی علم ہوتا ہے۔
اس سال بعض ملکوں میں ذیلی تنظیموں کے انتخابات ہونے ہیں۔ان تنظیموں کے ممبران میں سے جو بھی مجلسِ انتخاب کے ممبر بنیں انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق دعا اور انصاف کے ساتھ اپنی رائے دہی کا حق استعمال کریں۔
اس کے ساتھ ساتھ میں عہدے داروں کو بھی ان کی ذمہ داریاں یاد دلانا چاہتا ہوں۔ عہدے داروں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خدمت کا موقع دیا ہے۔پس ہر قسم کے ذاتی مفاد سے بالا تر ہوکر خدمت سر انجام دیں۔ بعض عہدے داروں کے رویوں میں عاجزی نہ ہونے کی شکایات آتی ہیں۔ یہاں تک کہ بعض عہدےداروں کے متعلق رپورٹ ملتی ہے کہ سلام تک کا جواب نہیں دیتے۔ ایسے رویے دکھانے والے اپنی اصلاح کریں، اور زمین پر جھکیں۔
آپ کو افراد جماعت کی خدمت کے لیے مقرر کیا گیا ہے نہ کہ افسر شاہی کا رعب ڈالنے کے لیے
اسی طرح بعض عہدے دار اپنے کام صحیح طرح انجام نہیں دیتے۔ انہیں بھی اپنی اصلاح کرنی چاہیے ورنہ انہیں خدمت سے محروم کردیا جائے گا۔
عہدے داروں کو میں بعض دیگر ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ ایک تو یہی کہ اپنے اندر عاجزی پیدا کریں۔ جو بھی ذمہ داری سپرد کی گئی ہے اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ دوسروں کے لیے اپنے ذاتی نمونے قائم کریں۔ اسی طرح بہت زیادہ استغفار، اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور اپنی حالتوں کے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ اگر ایک سیکرٹری تربیت پنجوقتہ نماز ادا نہیں کرتا تو وہ دوسروں کو نماز کی ادائیگی کا کیسے کہہ سکتا ہے؟ اسی طرح اگر کوئی عہدے دار صحیح شرح سے چندہ ادا نہیں کرتا تو وہ دوسروں کو مالی قربانی کی طرف کیسے توجہ دلائے گا؟ اگر سیکرٹریان تربیت اپنے اعلیٰ نمونوں کے ساتھ پیار اور محبت سے افراد جماعت کی تربیت کریں تو وہ ایک انقلابی تبدیلی پیدا کرسکتے ہیں۔
ہر عہدےدار کو اپنے شعبے کی بہتری کے لیے کم از کم دو نفل روزانہ پڑھنے چاہئیں۔اگر تربیت کا شعبہ فعال ہوجائے تو دیگر شعبے خود بخود ستّر فیصد تک کام کرنے لگیں۔
ذیلی تنظیموں کو بھی ہر سطح پر اپنے آپ کو فعال کرنا ہوگا۔ بعض جگہوں سے لجنہ کی صدر کی شکایات آتی ہیں کہ ان کے رویے ٹھیک نہیں ہیں۔ نو مبائعات کو اپنے ساتھ شامل کرنے کی بجائے انہیں دوڑانے کا باعث بن رہی ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ چند لوگوں کے پاس لمبے عرصے تک عہدے چلتے چلے جاتے ہیں۔ پس
لجنہ کی ممبرات کو بھی غور اور دعا کرکے عہدے داروں کا انتخاب کرنا چاہیے کہ کون امانت کا حق ادا کرنے کا اہل ہے۔
عہدے دار سٹیج پر بیٹھنے کے لیے نہیں ہیں۔ہر عہدےدار کو کارکن بن کر اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔یاد رکھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ قوم کا سردار قوم کا خادم ہے۔ عہدےداروں کا یہ بھی کام ہے کہ افرادِ جماعت سے ذاتی تعلق قائم کریں، ان کی خوشیوں اور غموں میں شامل ہوں۔ لوگوں میں یہ احساس اجاگر کریں کہ نظام جماعت ایک دوسرے کی ہمدردی اور خیال رکھنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہی سوچ ہمیں اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے والی ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور وہ اپنی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا۔ رعایا سے مراد وہ لوگ نہیں جن پر حکومت کی جاتی ہے بلکہ وہ لوگ مراد ہیں جن کی خدمت اور بہبود کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔
اللہ کرے کہ خلافت احمدیہ کو ہمیشہ ایسے سلطان نصیر عطا ہوں جو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اپنے کام سر انجام دیں نہ یہ کہ صرف عہدہ لینے کے لیے عہدے سنبھالے ہوئے ہوں۔
عہدے داروں کو یاد رکھنا چاہیے کہ عاملہ کے اجلاسوں اور میٹنگز میں شامل ہوکر اپنی رائے کا اظہار کردینا اور یہ سمجھ لینا کہ ہم نے اپنا فرض ادا کردیا یہ کافی نہیں۔ لوگوں کی بہتری کے لیے منصوبہ بندی کرنا اور پھر اس پر عمل کروانا انتہائی ضروری امر ہے۔ دستیاب وسائل کے اندر رہتے ہوئے بہترین حکمتِ عملی کے ساتھ لوگوں کی ضروریات کا خیال رکھیں۔
آج کل رشتے ناطے کا شعبہ بہت بڑا چیلنج لیے ہوئے ہے۔ اس کے لیے وسیع منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
جماعتی نظام اور ذیلی تنظیموں کو مل کر اس کے لیے کام کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں بھی شعبہ تربیت کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہمارے نوجوانوں کی صحیح تربیت ہو تو ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو ہمیشہ سامنے رکھیں کہ رشتے کے معاملے میں دولت، خاندان اور خوبصورتی کی بجائے دین کو فوقیت دو۔
امورِ عامہ کا شعبہ بھی نہایت اہم ہے۔ عموماً سمجھا جاتا ہے کہ اس شعبے کا کام لوگوں کو سزائیں دلوانا یا سختی سے لوگوں کو تنبیہ کرنا ہے۔ اس شعبے میں کام کرنے والوں کو پتا ہونا چاہیے کہ ان کا صرف یہ کام نہیں، یہ کام کا صرف ایک حصّہ ہے۔ سختی سے تنبیہ کرنا تو بہرحال ان کا کام نہیں۔ یہ تو صرف وہاں ضروری ہوتا ہے جہاں انتہائی ضرورت ہو، اور تب ہی اس کی سفارش کی جاتی ہے۔ اگر شعبہ تربیت فعال ہو تو افراد جماعت کے آپس کے جھگڑوں سے متعلق امور عامہ کے بہت سے مسائل خود بخود حل ہو جائیں۔
قضائی معاملات میں فیصلے کروانا امور عامہ کا کام نہیں ہے۔ ہاں! قضاء کے فیصلوں کی تنفیذ امور عامہ کا کام ضرور ہے۔ اگر قضاء کے فیصلے پر عمل درآمد میں کوئی فریق لیت و لعل سے کام لے تو امور عامہ کا کام ہے کہ اسے پیار سے سمجھائیں۔
امور عامہ کا کام لوگوں کو سزائیں دلانا نہیں بلکہ سزاؤں سے بچانا ہے اور اس کے لیے انہیں ہرممکن کوشش کرنی چاہیے۔
بعض اوقات عہدےداروں کے رویے افراد جماعت میں نظامِ جماعت کے خلاف بدظنی پیدا کردیتے ہیں۔ افراد جماعت کو میں یہ بتادوں کہ ہر خط جو یہاں خلیفہ وقت کے دفتر میں پہنچے اسے کھولا بھی جاتا ہے، پڑھا بھی جاتا ہے اور اس پر کارروائی بھی کی جاتی ہے۔ اگر کہیں تاخیر ہوتی ہے تو وہ متعلقہ جماعت میں ہوتی ہے اور اس طرح یہ عہدےدار افراد جماعت اور خلیفہ وقت میں دوریاں پیدا کرنے کا موجب بنتے ہیں۔
جن عہدےداروں کے سپرد ضرورت مند افراد کی امداد کا کام ہے انہیں بالخصوص یاد رکھنا چاہیے کہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں ہرگز تاخیر اور سستی نہ کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو امام یعنی عہدے دار نادار اور مستحق لوگوں کے لیے اپنے دروازے بند کرتا ہے، خدا اس کی ضروریات کے لیے آسمان پر دروازے بند کردیتا ہے۔ پس اگر ایسی سوچ رکھنے والا کوئی عہدےدار یا ان کے دفتر میں ایسا کوئی کارکن ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے لوگوں کی حاجتیں پوری کرنے میں جلدی کرنی چاہیے۔اگر مرکز اطلاع کرنی ہے تو جلدی رپورٹ دیں تاکہ مرکز جائزہ لے کر کارروائی کرے۔درخواست لے کر دراز میں رکھ دینا اور لمبے عرصے تک کارروائی ہی نہ کرنا یہ بہت بڑا جرم ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جہاں کہیں بھی تم ہو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ اگر کوئی برا کام کرو تو اس کے بعد نیک کام کرنے کی کوشش کرو۔ یہ نیکی بدی کو مٹادے گی اور لوگوں سے خوش اخلاقی اور حسن سلوک سے پیش آؤ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو موسیٰ اور معاذ بن جبل کو یمن کے دو علیحدہ حصوں کی طرف والی مقرر کرکے بھیجا تو انہیں یہ نصیحت فرمائی کہ آسانی پیدا کرنا، مشکلیں نہ پیدا کرنا۔ محبت اور خوشی پھیلانا اور نفرت نہ پنپنے دینا۔یہ نصیحت ہر عہدےدار کو راہ نما اصول کے طور پر ہمیشہ اپنے سامنے رکھنی چاہیے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مومن وہ ہیں جو اپنی امانتوں اور عہدوں کی رعایت رکھتے ہیں۔ یعنی ادائے امانت اور ایفائے عہد کے بارے میں کوئی دقیقہ تقویٰ اور احتیاط کا باقی نہیں چھوڑتے۔پھر ایک اور جگہ فرمایا :انسان کی پیدائش میں دو طرح کے حسن ہیں ایک حسنِ معاملہ اور وہ یہ کہ انسان خدا تعالیٰ کی تمام امانتوں اور عہد کے ادا کرنے میں رعایت رکھے کہ کوئی عمل حتی الوسع ان کے متعلق فوت نہ ہو۔ ایسا ہی لازم ہے کہ انسان مخلوق کی امانتوں اور عہدوں کی نسبت بھی یہی لحاظ رکھے۔ یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد میں تقویٰ سے کام لے جو حسنِ معاملہ ہے یا یوں کہو کہ روحانی خوب صورتی ہے۔
پس ہر عہدےدار کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہم نے اپنے اندر روحانی خوبصورتی پیدا کرنی ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
٭…٭…٭