غیر مسلموں سے سلوک کے بارہ میں قُرآنی تعلیم
اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے:وَ قِیْلِہٖ یٰرَبِّ اِنَّ ہٰٓؤُلَآئِ قَوْمٌ لَّا یُؤْمِنُوْنَ ۔فَاصْفَحْ عَنْہُمْ وَ قُلْ سلٰمٌ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ (سورۃالزخرف89:تا90) اور آپ کے قول کی قسم کہ یہ لوگ ایسی قوم ہیں جو نہ ایمان لاتے ہیں نہ لائیں گے۔ تم ان سے درگزر کرو اور (ان کو)سلامتی کا پیغام دو۔ وہ عنقریب جان لیں گے۔
یہ ہے اللہ تعالیٰ کا حکم کہ یہ لوگ جو ایمان نہ لانے پر بضد ہیں ان کو نہ صرف معاف کرو بلکہ ان کو سلامتی کا پیغام بھیجو۔ عنقریب وہ(سچ )کو جان لیں گے۔
مگر آج امت محمدیہ میں وہ لوگ بھی ہیں جو نہ صرف ایمان سے انکار کرنے والوں کو بلکہ ان کے اپنے مسلک سے انکار کرنے والے دوسرے فرقوں کو واجب القتل سمجھتے ہیں اور صرف سمجھتے ہی نہیں بلکہ انہیں فوری طور پر قتل کرنا اپنے لئے جنت کا دروازہ سمجھتے ہیں۔
۹اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے۔لَا یَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَیْہِمْ۔ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَo اِنَّمَا یَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰتَلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَاَخْرَجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَظٰہَرُوْا عَلٰٓی اِخْرَاجِکُمْ اَنْ تَوَلَّوْہُمْ وَمَنْ یَّتَوَلَّہُمْ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَo (سورۃ الممتحنۃ10-9:)کہ اللہ تعالی تمہیں ان لوگوں سے جو تم پر دین کی وجہ سے حملہ آور نہیں ہوتے اور تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالتے اس بات سے منع نہیں کرتا کہ تم ان سے اعلی درجہ کا نیک سلوک نہ کرو اور ان سے عدل و انصاف سے کام نہ لو۔ یقینا اللہ تعالی انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ اللہ تمہیں صرف ان سے منع کرتا ہے جنہوں نے دین کے بارہ تم پر حملہ کیا اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے (گھروں سے نکالنے )پر مدد کی کہ تم ان کو مددگار دوست بنا اور جو تم میں سے ان کو مددگار دوست بنائے تو وہ ظالم ہیں۔ (کیونکہ وہ ظالموں سے مدد لیتے ہیں )۔
۹اللہ تعالیٰ تو قرآن شریف میں فرماتا ہے: وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَھْنًا عَلٰی وَھْنٍ وَّفِصٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْکُرْ ِلیْ وَلِوَالِدَیْکَ۔ اِلَیَّ الْمَصِیْرُ۔ وَاِنْ جَاھَدٰکَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ ۔فَلَا تُطِعْہُمَا وَصَاحِبْہُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا(سورۃ لقمان 15:تا16)کہ ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارہ میں بڑی تاکیدی نصیحت کی ہے اس کی ماں اس کو تکلیف پر تکلیف میں اٹھاتی ہے اور تاکیدی نصیحت یہ ہے کہ میرا شکر کرو اور اپنے والدین کا بھی شکر کرو اور میری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے۔ ہاں اگر وہ تم سے اس بات کے لئے جدو جہد کریں کہ تم میرے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرا جس کا تمہیں کوئی علم نہیں تو ان کی اطاعت نہ کرو۔ ہاں دنیا میں ان کے ساتھ نیک سلوک کرو۔
مشرک والدین جو اپنی اولاد کو مشرک بنانے کے لئے جدو جہد کرتے ہیں(لفظ تو یہ ہے کہ وہ تم سے جہاد کرتے ہیں)تو ان کی اس بارہ میں بات نہ مانومگر دنیوی امور میں ان سے نیک سلوک کرو۔ مگر اس دنیا میں جو لوگ بھی موجود ہیں جو شرک کرنے والوں کی اگر ان کو موقع ملے فوری طور پر گردن مارنے کے لئے تیار ہیں۔ شاید کہنے والا یہ کہے کہ ماں باپ کے مرتبہ کی وجہ سے یہ ایک استثناء کیا گیا ہے مگر ہر گز ایسا نہیں ۔مرد کے بیوی اور بچے تو اس سے مرتبہ میں کم تر ہیں ان کے بارہ میں فرماتا ہے:یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ وَ اَوْلَادِکُمْ عَدُوًّا لَّکُمْ فَاحْذَرُوْہُمْ وَ اِنْ تَعْفُوْا وَ تَصْفَحُوْا وَ تَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(سورہ التغابن15:) کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تمہاری بیویوں میں سے اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں۔ ان سے ہوشیار رہو اور اگر تم عفو سے کام لو اور درگزر کرو اور بخش دو تو یقینا اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
۹بعض لوگ تو اس بات کے درپے ہیں کہ اپنے مسلک سے اختلاف رکھنے والوں، اپنے عقائد کو نہ ماننے والوں کی گردنوں پر بلاتامل چھری پھیر دیں۔ مگر اللہ تعالیٰ مومنوں کو ان کے بارہ میں جو ان کے دشمن ہیں یہ حکم دیتا ہے کہ ان کو معاف کردو، ان سے درگزر کرو، ان سے مغفرت کا سلوک کرو ۔اور وجہ یہ بتاتا ہے کہ اللہ بھی تو غفور ہے اور رحم کرنے والا ہے۔
قرآن مجید کے احکامات کی نافرمانی کرنے والے یہ لوگ اس لئے نافرمانی کرتے ہیں کہ انہوں نے بچپن سے جہاد کے بالکل غلط معنی لئے ہوتے ہیں اور جہاد کے وہ یہ معنی سمجھتے ہیں کہ تلوار پکڑو اور غیر مسلموں کو بلکہ اس مسلمان کو بھی قتل کردو جو تمہارے مسلک سے مختلف مسلک رکھتا ہے۔ جہاد تو عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی کوشش اور جدو جہد کرنے کےہیں۔ تلوار یا ہتھیار سے قتل کرتے پھرنے کے ہر گز یہ معنی نہیں ۔ نہ ہی قرآن شریف مختلف عقیدہ رکھنے والوں کو قتل کرتے پھرنے کی اجازت دیتا ہے۔ قرآن تو صرف ان سے لڑنے کی اجازت دیتا ہے جو تم پر حملہ آور ہوتے ہیں۔
۹ پہلی آیت جو قرآن شریف میں اس بارہ میں آئی ہےیہ ہےوَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا۔اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ (سورۃ البقرۃ 191:)اور اللہ کے راستہ میں ان سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں اورaggressionنہ کرو ۔اللہ aggression کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ یہ آیت قطعی طور پر ان لوگوں کو مجرم ٹھہراتی ہے جو کسی پر حملہ کی ابتدا کرتے ہیں۔ کیونکہ مومنوں کو حکم ہے کہ ان سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں۔ اب اگر مومن کسی قوم سے ان کے مذہب یا مسلک کی وجہ سے لڑتے ہیں جنہوں نے لڑائی شروع نہیں کی تو ظاہر ہے کہ وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ کے حکم کی صریح نافرمانی کرتے ہیں۔ آیت تو کہتی ہے کہ ان سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں۔ جو مومنوں سے نہیں لڑ رہے ان سے لڑائی کی اجازت یہ آیت نہیں دیتی ۔آگے مزید وضاحت کرتی ہے کہ زیادتی نہ کرو۔ aggressionنہ کرو۔ مگر جو شخص بغیر اس بات کے کہ اس پر حملہ کیا گیا ہو لڑتا ہے، حملہ آور ہوتا ہے وہ تو لازما زیادتی کرتا ہے اور اللہ فرماتا ہے کہ اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔
۹قرآن تو صاف طور پر مومنوں کو صرف اس صورت میں لڑنے کی اجازت دیتا ہے جب ان پر ظلم کیا جا رہا ہو اور ان سے لڑائی کی جارہی ہو۔ فرماتاہے اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا۔ وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُ- اَلَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّا اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَااللّٰہُ۔( سورۃالحج41-40:)کہ ان لوگوں کو جن سے لڑائی کی جاتی ہے اجازت دی جاتی ہے۔ کیونکہ ان پر ظلم کیا جا رہا ہے اور اللہ یقینا ان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اس بنا پر کہ انہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے۔
۹قرآن تو فرماتا ہے کہ اگروہ دشمن بھی جو مومنوں پر حملہ آور ہے اور تم ان کا مقابلہ کر رہے ہو اگر صلح کی طرف مائل ہو تو تم بھی صلح کرو مگر تم سمجھتے ہو کہ اس صلح کی طرف میلان میں بھی دراصل وہ دھوکہ دہی کر رہے ہیں تب بھی ان کی طرف جھکنا تمہارا فرض ہے۔ فرماتا ہے:وَ اِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا وَ تَوَکَّلْ عَلَ اللہِ۔ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔ وَ اِنْ یُّرِیْدُوْٓا اَنْ یَّخْدَعُوْکَ فَاِنَّ حَسْبَکَ اللہُ۔ ہُوَ الَّذِیْ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ (سور الانفال 62:تا63)کہ اگر وہ کبھی صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی صلح کے لئے جھکو اور اللہ پر بھروسہ رکھو کہ وہ بہت سننے والا اور جاننے والا ہے۔ اور اگر وہ ارادہ رکھتے ہوں کہ تمہیں دھوکہ دیں تو اللہ تمہارے لئے کافی ہے وہی ہے جس نیاپنی تائید کے ساتھ اور مومنوں کے ذریعہ تمہاری مدد کی ہے۔
دیکھئے دشمن حملہ آور ہے مومن مقابلہ کرتے ہیں اور دشمن دھوکہ دہی کے ساتھ صلح کی پیشکش کرتا ہے۔دل میں اس کا مقصد کچھ اور ہے تب بھی مومن کو حکم ہے کہ وہ صلح کی پیشکش کو قبول کرے۔
۹آج کے بعض نام نہاد مجاہد جارحانہ حملے کی ابتدا کرتے ہیں مگر قرآن کے ماننے والے مجاہد اس بات سے بھی گھبراتے تھے کہ حملہ آور دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے دشمن کا خون بہائیں۔ قرآن اس بات کی گواہی دیتے ہوئے فرماتا ہے:کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ وَ ہُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ (سورۃ البقرۃ 217:)کہ تم پر قتال کی اجازت لکھی گئی ہے اور وہ تمہیں سخت ناپسند ہے۔
۹ قرآن فرماتا ہے۔ اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّکَثُوْٓا اَیْمَانَہُمْ وَ ہَمُّوْا بِاِخْرَاجِ الرَّسُوْلِ وَ ہُمْ بَدَءُوْکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ (سورۃ التوبۃ13:)کیا تم ان لوگوں سے نہیں لڑو گے جنہوں نے قسمیں کھا کر جو معاہدے کئے ہیں وہ توڑے ہیں اوررسول اللہﷺ کو نکالنے کا ارادہ کیااور پہلی مرتبہ لڑائی کی ابتدا انہوں نے کی ہے۔
اب کہاں ہیں وہ مغربی معترضین جو مومنوں پر جارحانہ حملوں کا الزام لگاتے ہیں اور اپنی محرف و مبدل بائبل کو بڑے شوق سے پڑھتے ہیں جو جارحانہ اور ظالمانہ حملوں کے حکم سے بھری پڑی ہے۔
۹اس مجبوری کی صورت میں لڑائی کی اجازت جو قرآن نے مومنوں کو دی ہے اس میں صاف حکم دیا ہے کہ جو مشرک اپنے ان معاہدوں پر قائم ہیں جو انہوں نے مومنوں سے کئے تو ان سے لڑائی کی اجازت ہر گز نہیں۔
فرماتا ہے:اِلَّا الَّذِیْنَ عٰہَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ ثُمَّ لَمْ یَنْقُصُوْکُمْ شَیْئًا وَّ لَمْ یُظَاہِرُوْا عَلَیْکُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّوْا اِلَیْہِمْ عَہْدَہُمْ اِلیٰ مُدَّتِہِمْ۔ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ (سورۃ التوبۃ4:)کہ یہ لڑائی کی اجازت جو اوپر کی آیت میں ہے)ان کے سوا اور لوگوں کے لئے ہے جنہوں نے مشرکوں میں سے تم سے معاہدہ کیا اور پھر اس معاہدہ کو پورا کرنے سے تمہارے سے کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اور نہ ہی تمہارے خلاف کسی حملہ آور کی مدد کی۔ تو ان سے پوری حد تک ان کا عہد پورا کرو (عہد کا پورا کرنا تقوی ہے)اوراللہ تقوی اختیار کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
۹قرآن تو اس حد تک دشمنوں کا خون بہانے کے خلاف ہے کہ مشرک جو مسلسل حملہ کرتے تھیقرآن ان کے متعلق فرماتا ہے:وَ لَا یَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ حَتّٰی یَرُدُّوْکُمْ عَنْ دِیْنِکُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا(سورہ البقرۃ 218:)کہ وہ تم پر حملے کرتے رہیں گے یہاں تک کہ تم کو تمہارے دین سے پھرا دیں اگر ان کی طاقت ہو۔
اور ان کے متعلق فرمایا:لَا یَرْقُبُوْنَ فِی مُؤْمِنٍ اِلَّا وَّ لَا ذِمَّۃً وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُعْتَدُوْنَ(سورۃ التوبۃ10:) کہ یہ مشرک کسی مومن کے بارہ میں نہ کسی رشتہ داری کی پرواہ کرتے ہیں نہ کسی عہد کی پرواہ کرتے ہیں اور یہی لوگ aggressor ہیں۔ اسی طرح فرماتا ہے:کَیْفَ وَ اِنْ یَّظْہَرُوْا عَلَیْکُمْ لَا یَرْقُبُوْا فِیْکُمْ اِلًّا وَّ لَا ذِمَّۃً۔ یُرْضُوْنَکُمْ۔بِاَفْوَاہِہِمْ وَ تَاْبٰی قُلُوْبُہُمْ وَ اَکْثَرُہُمْ فٰسِقُوْنَ(سورہ التوبۃ8:)کس طرح جبکہ حال یہ ہے کہ اگر وہ مشرک تم پر غالب آئیں تو نہ کسی تعلق کی پرواہ کرتے ہیں نہ کسی عہد کی پرواہ کرتے ہیں۔ وہ زبانی کلامی تو باتیں بنا کر تمہیں خوش کرینگے مگر ان کے دل انکار کر رہے ہوتے ہیں اوران میں سے اکثر عہد توڑنے والے ہیں۔
۹ایسے عہد شکن مشرک جن سے مقابل مومن دفاعی جنگ کر رہے ہیں ان میں سے اگر کوئی پناہ چاہتا ہے تو فرمایا:وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلٰمَ اللہِ ثُمَّ اَبْلِغْہُ مَاْمَنَہٗ (سورۃالتوبۃ6:)تو دیکھئے کیسی خوبصورت تعلیم ہے کہ ایسے حملہ آور مشرکوں میں سے بھی کوئی آپ کے ساتھ پناہ چاہتا ہے تو اس کو پناہ دو بے شک اللہ کا کلام سنے(اس کو قتل کرنا یا تکلیف دینا جائز نہیں )تمہارا فرض ہے کہ اس کو اس کی امن کی جگہ پر پہنچا۔ کیاجانی حملہ آور دشمنوں سیاس نیک سلوک کی تعلیم کہیں دنیا کے کسی ضابطہ حیات میں ہے۔ دوسری عالمگیر جنگ میں ہٹلر کا دست راست Rudolf Hess صلح کا پیغام لے کر اتحادیوں کے علاقہ میں اترا تھا مگرسالہا سال تک اس کو قید میں رکھا گیا حتی کہ وہ قید میں ہی مر گیا۔
۹جو لوگ ایمان کا دعوی کرتے ہوئے اور قرآن شریف کی اتباع کا نام لیتے ہوئے غیر مسلموں یا اپنے مسلک سے مختلف عقیدہ رکھنے والوں پر تلوار چلاتے ہیں وہ دراصل اپنے آپ کو ایمان کا ٹھیکہ دار کہتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ ان کو صداقت بزور بازو اور بزور تلوار قائم کرنے کا قرآن حق دیتا ہے ۔حالانکہ قرآن تو کہتا ہے:لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ(سورۃ البقرۃ257:) کہ دین میں کوئی جبر نہیں کیونکہ ہدایت گمراہی سے صاف صاف روشن ہے۔
مگر یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ لوگ اپنی تلوار یا اپنی رائفل یا اپنے بم سے ہدائت کو گمراہی سے روشن اور الگ الگ کر کے دکھا سکتے ہیں قرآن مجید نے بار بار اس مضمون کو بیان کیا ہے کہ نبی اور رسول کا کام پیغام کھول کھول کر پہنچا دینا ہے۔جبراور طاقت کے ذریعہ سچے مومن بنانا نہیں۔ یہ مضمون اتنی دفعہ قرآن شریف میں آیا ہے کہ تعجب ہوتا ہے کہ یہ طاقت کے ذریعہ مومن بنانے والے کیوں ان آیات پر غور نہیں کرتے۔
دیکھئے اللہ تعالیٰ ہمارے نبی محمد مصطفیﷺ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے: فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَمَآ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیْہِمْ حَفِیْظًا۔ اِنْ عَلَیْکَ اِلَّا الْبَلٰغُ (سورۃالشوری49:)کہ اگر وہ اعراض کریں تو ہم نے تمہیں ان پر نگران یا محافظ بنا کر نہیں بھیجا تمہارے ذمہ صرف پیغام پہنچا دینا ہے۔
اسی طرح فرماتاہے:فَذَکِّرْاِنَّمَااَنْتَ مُذَکِّرْ۔ لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍ(سورۃ الغاشیۃ22:تا23) کہ نصیحت کرو اور تم صرف نصیحت کرنے والے ہو تم ان پر داروغہ نہیں۔
سور ۃآل عمران میں فرماتا ہے: وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلٰغُ(سورہ آل عمران21:)کہ اگر وہ منہ پھیر لیں تو تمہارے ذمہ صرف بات کا پہنچا دینا ہے(یعنی جبر اور طاقت کے ذریعہ منوانا تمہارے ذمہ نہیں)
پھر اللہ تعالی خود مخالفین کو مخاطب کر کے فرماتا ہے:فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْٓااَنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ (سورۃالمائدۃ93:)کہ اگر تم منہ پھیر لو تو جان لو کہ ہمارے رسول کے ذمہ صرف کھول کر بیان کر دینا ہے۔ پھر اسی سورۃ میں فرماتا ہے: مَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ(سورۃ المائدۃ100:)کہ رسول کے ذمہ سوائے بیان کر دینے کے کوئی ذمہ داری نہیں۔
پھر سورۃ النور میں فرماتا ہے:وَ مَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ(سورۃ النور55:)کہ رسول کے ذمہ صرف کھول کر بیان کرنا ہے۔ اور یہی سور العنکبوت میں ہے کہ: وَ مَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ(سورۃ العنکبوت19:)کہ رسول پر کھلا کھلا پیغام پہنچا دینے کے سوا کوئی ذمہ واری نہیں۔ اور سورۃ یسین میں فرماتا ہے: وَ مَا عَلَیْنَآ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ (سورۃیٰسٓ18:) کہ ہمارے ذمہ صرف کھول کر بات پہنچا دینا ہے۔ (ماننا یا نہ ماننا تمہارا کام ہے)
اور سور ۃالتغابن میں اس مضمون کا اعادہ فرماتا ہے: فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاِنَّمَا عَلیٰ رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ (سورۃ التغابن13:)کہ اگر تم منہ پھیر لو تو ہمارے رسول کے ذمہ کھول کر بات پہنچا دینا ہے۔
تعجب ہے کہ وہ لوگ جو اپنا مسلک طاقت کے ذریعہ منوانا چاہتے ہیں وہ ان آیات پر غور کیوں نہیں کرتے۔ سور ۃالکہف میں تو خداتعالیٰ صاف صاف فرماتا ہے: قُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَمَنْ شَآئَ فَلْیُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآئَ فَلْیَکْفُرْ(سورۃ الکھف30:)تم کہہ دو کہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے پس جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے۔
اتنی وضاحت کے ساتھ یہ مضمون لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ(سورۃ البقرۃ257:)دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں ۔ مذکورہ بالا آیت میں بھی بیان کیا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ تلوار اور رائفل لے کر اپنے مذہب یا اپنے مسلک کو نافذ کرنے والے قرآن کی تعلیم پر عمل نہیں کر رہے بلکہ اپنے ذاتی مفادات کو بروئے کار لا رہے ہیں۔
۹مغربی علما کی طرف سے قرآن پر جو یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ قرآن غیر مسلموں سے نفرت اور ظلم کی تعلیم دیتا ہے اس کی دراصل وجہ یہ ہےکہ وہ خود اور ان کی محرف و مبدل کتاب دوسرے مذاہب سے اس سلوک کی تعلیم دیتی ہے۔
مذاہب کے متبعین میں نفور اور دشمنی کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ایک مذہب والے دوسرے مذہب والوں کے بزرگوں کا ذکرتوہین کے ساتھ کرتے ہیں۔ عالم عیسائیت اور یہودیت ہمارے نبی ﷺ پر ناپاک الزمات اور جھوٹے اعتراضات سے بھر پور ہے۔
حالانکہ قرآن شریف وَ اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْہَا نَذِیْرٌ ( سورۃفاطر25:)کہہ کر تمام سابقہ انبیا کو عزت و احترام کا مقام دیتا ہے اور لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْہُمْ (سورۃالبقرۃ 137:)کہ ان میں سے ہم کسی میں فرق نہیں کرتے اور لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّن رُّسُلِہٖ(سورہ البقرۃ286:)کہ ہم اس کے رسولوں میں کسی میں تمیز نہیں کرتے۔ قرآن پر ایمان لانے والوں کی زبان سے کہلاتا ہے اور ہر قوم ،ہر مذہب اور ہر علاقہ کے انبیا اور رسولوں پر ایمان لانا ایمان لانے کے کے لئے شرط قرار دیتا ہے اور براہ راست جن دو قوموں سے واسطہ پڑنے والا تھا یعنی یہود اور عیسائی ان کے بزرگوں کے متعلق تو خاص طور پر قرآن نے ان کو جو عزت اور احترام قائم کیا ہے وہ ان کی اپنی کتابوںمیں بھی نہیں ہے۔
۹قرآن شریف حضرت موسی علیہ السلام کا ذکر کوئی 136دفعہ بیان کرتا ہے اور ہرجگہ ان کی قربانی، ان کی خوبیاں، ان کے کمالات اور ان پر اللہ تعالی کے احسانات اوراس کے فضل و کرم کا ذکر ہے۔ سورۃ طٰہٰ میں ان کے حالات زندگی اور خوبیوں اور کمالات کا ذکر کرتے ہوئے خدا تعالیٰ حضرت موسی کو فرماتا ہے: وَاصْطَنَعْتُکَ لِنَفْسِیْ(سورۃ طہ42:)میں نے تجھے اپنے لئے بنایا۔ اس قسم کا کوئی روحانی مقام حضرت موسی کو بائبل میں نہیں دیا گیا بلکہ ان کو جارحانہ حملہ کرنے والا ،لوٹ مار کرنے والا بتایا ہے۔ ذرا دیکھئے حضرت موسی کو ماننے والوں کی اپنی کتاب کیا کہتی ہے۔ لکھاہے:
’’تب موسی اور الیعزر کاہن اور جماعت کے سب سردار انکے(یعنی اپنی فوج کے) استقبال کے لیے لشکر گاہ کے باہر گئے اور موسی ان فوجی سرداروں جو ہزاروں اور سینکڑوں کے سردار تھیاور جنگ سے لوٹے تھے جھلایا اور ان سے کہنے لگا کیا تم نے سب عورتیں جیتی بچا رکھی ہیں؟ اس لیے ان بچوں میں سے جتنیلڑکے ہیں ان کو مار ڈالو اور جتنی عورتیں مرد کا منہ دیکھ چکی ہیں ان کو قتل کر ڈالو لیکن ان لڑکیوں کو جو مرد سے واقف نہیں اور اچھوتی ہیں اپنے لیے زندہ رکھو۔‘‘(گنتی باب 31آیت 13تا18)
حضرت موسیٰ نے مال غنیمت کی تقسیم کرائی اس کے بارہ میں لکھا ہے:
’’اور جو کچھ مال غنیمت جنگی مردوں کے ہاتھ آیا تھا اسے چھو ڑ کر لوٹ کے مال میں سے چھ لاکھ پچھتر ہزاربھیڑ بکریاں تھیں اور بہتر ہزار گائے بیل اور اکسٹھ ہزار گدھے اور نفوس انسانی میں سے بتیس ہزار ایسی عورتیں جو مرد سے ناواقف اور اچھوتی تھیں۔(گنتی باب 31 آیات 32تا 36)
اگر ہمت ہے تو ذرا دوبارہ اس عبارت کو پڑھئے جو حضرت موسیٰ کی طرف منسوب کتاب میں ہے اور word of godکہلاتی ہے۔
۹قرآن شریف میں حضرت عیسی علیہ السلام کانام کوئی 24 دفعہ آتا ہے اور ہر جگہ ان کی تعریف ہے اور ان کی قوم کے مخالفین کے ناپاک الزامات سے ان کو بری کیا گیا ہے اورفرماتا ہے: وَ اٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ (سورۃالبقرۃ 88:)کہ ہم نے عیسیٰ بن مریم کو روشن دلائل اور معجزات عطا کئے اورروح القدس کے ساتھ اس کی مدد کی۔ اس کے بالمقابل نئے عہد نامہ نے ان کی طرف اپنی ماں سے بد تمیزی سے بولنے کا الزام لگایا ہے کہ انہوں نے اپنی ماں سے کہا کہ اے میری ماں میرا تجھ سے کیا کام (یوحنا باب2آیت4)اور جب ان کو بھوک لگی تو ایک درخت کے پاس گئے مگر پھل کا موسم نہ تھا جب اس میں پھل نہ دیکھا تو درخت پر لعنت کی اوروہ سوکھ گیا۔ (متی باب21آیات18تا19)
نیا عہد نامہ یہ بھی کہتا ہے کہ انہوں نے پیشگوئی کی تھی کہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو یہاں کھڑے ہیں ان میں سے بعض ایسے ہیں کہ جب تک ابن آدم کو اس کی بادشاہی میں آتے ہوئے نہ دیکھ لیں گے موت کا مزا ہرگز نہ چکھیں گے۔(متی باب 16آیت 28)مگر اب دو ہزار سال گزر چکے ہیں یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔
۹اور صرف حضرت موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کی عزت و احترام نہیں بلکہ قرآن شریف ان کے علاوہ بنی اسرائیل کے دوسرے انبیا کی صداقت اور عزت و احترام کا ذکر بھی وَ قَفَّیْنَا مِنْ بَعْدِہٖ بِالرُّسُلِ(سورۃ البقرۃ88:)کے الفاظ میں فرماتا ہے۔ حضرت داؤد پر ان کے متبعین کی کتاب نعوذباللہ نعوذباللہ نہایت ناپاک الزام لگاتی ہے کہ انہوں نے نعوذباللہ اپنے جرنیل کی بیوی سے بدکاری کی اور جرنیل کوخطرہ کے مقام پر بھجوا کر قتل کروا دیا۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ قرآن حضرت داؤد کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا۔یٰجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَ الطَّیْرَ(سورۃ سبا11:) کہ داؤد کو ہم نے فضیلت دی اور پہاڑ پر رہنے والوں کو اور روحانی پرواز کرنے والوں کو ان کے ساتھ جھکا دیا ۔اور حضرت داؤد کی فضیلت کو اس طرح بھی بیان کیا ہے کہ ہم نے ان کو زبورعطا کی۔
۹اسی طرح حضرت سلیمان پر بائبل نعوذباللہ کفر کا الزام لگاتی ہے ۔ قرآن فرماتا ہے: وَ مَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ (سورہ البقرۃ103:)۔ بائبل حضرت سلیمان پر خدائے واحد سے سرکشی کا الزام لگاتی ہے۔ مگر قرآن ان کے متعلق کہتا ہے : نِعْمَ الْعَبْدُ (سورۃ ص31:)دنیا کے لوگ دوسری اقوام سے بد سلوکی کی ایک راہ یہ نکالتے ہیں کہ ان کے بزرگوں کو برا بھلا کہتے ہیں مگر قرآن ان کے بزرگوں کو جنہوں نے قرآن سے شدید دشمنی کی عزت و احترام کا مقام دیتا ہے۔
۹اور قرآن جس طرح دوسرے مذاہب اور اقوام کے بزرگوں کی عزت قائم کرتا ہے اسی طرح ان پر نازل ہونے والے الہامی صحیفوں کا ذکر بھی احترام سے کرتا ہے۔ بلکہ ان پر مومن کا ایمان لانا لازمی قرار دیتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَ مَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ(سورہ البقرۃ5:)کہ قرآن کو ماننے کےعلاوہ مومن آپؓ سے پہلے اترنے والے کلام پر بھی ایما ن لاتے ہیں۔اور یہود و نصاری جن سے صدیوں تک مقابلہ ہونا تھا ان کی کتابوں کا نام لے کر ان کی تصدیق کرتا ہے۔ اور فرماتا ہے:نَزَّلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ وَ اَنْزَلَ التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ۔ مِنْ قَبْلُ(سورہ آل عمران4:تا5)کہ اس نے تجھ پر یہ کتاب حق پر مشتمل اتاری ہے جو اس وحی کو جو اس کتاب سے پہلے آئی تھی پورا کرنے والی ہے اور اس نے لوگوں کو ہدایت دینے کیلئے اس سے پہلے توریت اور انجیل کو نازل کیا تھا۔
فرمائیے کون سی کتاب ہے جو مخالفت کرنے والی اقوام کے رسولوں، نبیوں اور کتابوں کا احترام سے ذکر کرتی ہے کیا قرآن کے حکم پر چلنے والے ان اقوام سے بد سلوکی کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔
۹قرآن تو اپنے ماننےوالوں کویہ بھی اجازت نہیں دیتا کہ وہ ان پر عذاب کے لئے بد دعا کریں فرماتا ہے: فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَ لَا تَسْتَعْجِلْ لَّہُمْ(سورۃ الاحقاف36:)کہ پس اے نبی تم بھی اسی طرح صبر کرو جس طرح اولوالعزم رسول صبر کرتے ہیں او ان کے لئے یہ دعا نہ کرو کہ ان پر جلدی عذب آجائے۔
اگرچہ قرآن نازل کرنے والا علیم و خبیر خدا یہ جانتا تھا کہ مخالف اہل کتاب کی کیا خواہشات اور کیا ارادے ہیں اور وہ مومنوں کو ان کے ایمان سے ہٹانا چاہتے ہیں مگر اس کے باوجود فرمایا: وَدَّ کَثِیْرٌ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْ بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ کُفَّارًاحَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ مِّنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ فَاعْفُوْا وَ اصْفَحُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللہُ بِاَمْرِہٖ۔ اِنَّ اللہَ علٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(سورۃ البقرۃ110:)کہ بہت سے اہل کتاب یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں تمہارے ایمان کے بعد دوبارہ کافر بنادیں اور یہ محض ان کے دلی حسد کی وجہ سے ہے۔ حالانکہ سچائی ان پر روشن ہو چکی ہے مگر اس کے باوجود فَاعْفُوْا وَ اصْفَحُوْا تم ان کو معاف کر دو اور درگزر سے کام لو(کیا کہتے ہیں وہ لوگ جو مخالفوں کافوری طور پر تلوار سے خاتمہ چاہتے ہیں)یہاں تک کہ خود خدا اپنی تقدیر ظاہر فرمائے۔ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
یہ ہے حکم جو اللہ تعالیٰ مومنوں کو قرآن کے خلاف مومنوں کے ایمان کو مٹانے کے لئے کوشش کرنے والوں کے بارہ میں دیتا ہے کہ ان سے عفو کرو ان سے درگزر کرو۔ کون کہتا ہے کہ قرآن غیرمسلموں سے بد سلوکی کی تعلیم دیتا ہے۔
(باقی آئندہ)