مصالح العرب (قسط ۴۴۵)
(عربوں میں تبلیغ احمدیت کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے مسیح موعود کی بشارات، گرانقدر مساعی اور ان کے شیریں ثمرات کا ایمان افروز تذکرہ )
مکرم علاء عثمان صاحب (3)
گزشتہ دو اقساط میں ہم نے مکرم علاء عثمان صاحب آف سیریاکی بیعت اور سیریا میں 2011 میں شروع ہونے والے فسادات میں ان کے خاندان پر ہونے والے بعض مظالم کا تذکرہ کیا تھا۔ اس قسط میں بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔مکرم علاء عثمان صاحب بتا رہے تھے کہ وہ عید کے موقع پر دمشق شہر سے اپنی بستی ’’حُوش عرب‘‘ گئے جہاں انٹیلی جنس والوں نے انہیں دیکھ لیا ۔ یہ وہاں سے تو بخیریت واپس آگئے لیکن ایک روز بعد ہی انٹیلی جنس کے کچھ لوگ ان کے گھر میں داخل ہوئے۔ا س کے بعد علاء عثمان صاحب بیان کرتے ہیں کہ :
دوبارہ گرفتاری
انیٹیلی جنس والے مجھے بار بار کہہ رہے تھے کہ تم نے فون پر کسی سے خفیہ رابطہ کیا ہے۔ وہ قصدًا ایساکہہ رہے تھے کیونکہ اس بات سے انکارکی بنا پر وہ مجھے گرفتار کرنا چاہتے تھے۔اور ایسا ہی ہوا۔ انہوں نے مجھے تو گرفتار کیا لیکن جاتے جاتے میری ساس اور میرے ایک برادرِ نسبتی کو بھی ساتھ لے گئے۔
دو دن ہمیں جیل میں قید رکھنے کے بعد میرے برادرِ نسبتی کو تحقیق کے لئے بلایا گیا ۔ وہ دوگھنٹے کے بعد لوٹا تو کہنے لگاکہ سب کچھ ٹھیک ہے اورمجھے نہ تو مارا گیا نہ ہی کوئی مخصوص جواب دینے پر مجبور کیا گیا۔میرا غالب خیال یہی تھا کہ میرا برادر نسبتی کسی دباؤ یا مار وغیرہ کا نشانہ نہیں بنے گا کیونکہ اس کے تمام بھائی اور اہل خانہ کا ریکارڈ اچھا ہے۔ جبکہ میرا چھوٹا بھائی حکومت مخالف مظاہروںمیں شریک ہونے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا اور نہ جانے اس نے شدتِ تعذیب کی وجہ سے اپنے اور ہمارے بارہ میں کیا کیا اعترافات کئے تھے۔جبکہ میرا بڑا غیر احمدی بھائی حکومت کے خلاف مسلح گروپوں میں شامل تھا۔حکومتی کارندے اورانٹیلی جنس والے مجھے بھی اپنے بھائیوں جیسا خیال کرتے تھے۔ انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ ایک احمدی اپنے دیگر بہن بھائیوں سے ایسے معاملات میں یکسر مختلف ہوتاہے، کیونکہ وہ ایسے کاموں کا حصہ نہیں بن سکتا جو ملک وقوم کے مفاد کے خلاف اور اس کی تباہی کا باعث ہوں۔
فردِ جرم کی تفصیل
انٹیلی جنس والوں نے میرے برادر نسبتی سے بھی میرے بارہ میں یہ سوال کیا کہ کیا اس کا اس کے بڑے بھائی سے رابطہ ہے؟ میرے برادر نسبتی نے نفی میں جواب دیا۔ یہ سب کچھ جاننے کے بعد بھی مجھے خطرہ کی بو آرہی تھی۔چنانچہ دو گھنٹے کے بعد میری باری آگئی اور میری آنکھوں پر پٹی باندھ کر مجھے ایک کمرے میں لے جایا گیا۔ مجھ سے پوچھاگیا کہ کیا اس سے قبل بھی مجھے گرفتار کیا گیا ہے؟ میں نے ہاں میں جواب دیا تو اس بارہ میں بہت لمبی بات چیت ہوئی۔پھر انہوں نے کہا کہ تم پر الزام ہے کہ تم نے اپنے بھائی اور بعض مسلح گروپس کے ساتھ رابطہ کیا ہے، نیز بعض صحافتی تنظیموں اور اداروں کے ساتھ بھی تمہارے رابطہ کی اطلاعات ہیں۔یہ باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تمہارے نام ڈالرز میں ایک معقول رقم باہر کے ملک سے ٹرانسفر ہوئی ہے۔ ہمیں بتائیں کہ یہ رقم کہاں سے آئی ہے ؟ نیز یہ بھی کہ آپ اس رقم سے کس دہشتگرد گروپ کی مالی معاونت کرتے ہیں؟
ان کی یہ باتیں سن کر مجھے صحیح طورپر علم ہوا کہ وہ میرے بارہ میں کیا سوچ رہے ہیں۔گو مجھے اندازہ ہوگیا کہ میری حق گوئی یہاں کام آنے والی نہیں پھر بھی میں نے انہیں حقیقت حال بتاتے ہوئے کہا کہ یہ مختلف کمپنیوں وغیرہ کے ان اشتہارات کی رقم ہے جو میں اپنی ویب سائٹ پر شائع کرتا ہوں۔نیز میں نے کہا کہ میں اس رقم کو اپنے بینک اکاؤنٹ کے ذریعہ ثابت کرسکتا ہوں اور اس طرح کا کاروبار آج کے دَور میں عام ہے۔
ناکردہ گناہ کا اعترف کروانے کا طریقہ
انٹیلی جنس آفیسر کو نہ میری بات کی سمجھ میں آنی تھی، نہ آئی۔ چنانچہ اس کے اشارے پر ایک غول کا غول مجھ پر مُکّوں اور لاتوں سے یلغار کرنے لگ گیا۔ایسے میں ان میں سے ایک نے کہا کہ تمہارے لئے بہتر یہی ہے کہ اپنے جرم کا اعتراف کرلو بصورت دیگریونہی مار کھاتے کھاتے مرجاؤ گے۔میں نے سوچا یہ محض ایک دھمکی ہے اور اس سے ڈر کر میں ایسے جرائم کا اعتراف کیوں کروں جو میں نے کئے ہی نہیں۔اوراگر میں ان کی معمولی مار برداشت کرلوں تو شاید انہیں میری بے گناہی کا یقین آجائے۔
لیکن میری یہ خوش فہمی محض چند لمحات سے زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی۔کیونکہ اس آفیسر نے چند لمحات کے بعدہی اپنے ماتحتوں کو حکم دیا اور مجھے تہہ خانے میں لے گئے۔میری آنکھوں پر پٹی تھی اور ہاتھ کمر پر بندھے ہوئے تھے۔انہوں نے مجھے کمر کے بل لٹا کرمیری ٹانگوں سے رسّی باندھ کر مجھے الٹا لٹکادیا اورپھر ڈنڈوں سے مارنے لگے۔ پندرہ منٹ تک یہ سفّاکانہ عمل جاری رہا جس کے بعد مجھے کھول دیاگیا اورچلنے کوکہا گیا،مجھے تو ایسے لگتا تھا جیسے میری ٹانگوں کی ہڈیاں چور ا ہوچکی ہیں۔ میں اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکتا تھا۔ بہر حال وہ مجھے گھسیٹتے ہوئے اپنے افسر کے پاس لے گئے جس نے یہ سوچا کہ شاید میں نے شدتِ تعذیب کی وجہ سے ہر قسم کے جرم کا اعتراف کر لیا ہے۔چنانچہ اس نے کارندے سے پوچھا کہ یہ مار کے پہلے سیشن میں ہی سب کچھ مان گیا ہے ؟ کارندے نے کہا کہ نہیں یہ کچھ نہیں بولا۔ اس پر آفیسر گالیاں دیتے ہوئے اپنے کرسی سے اٹھا اور مجھ پر جنونی انداز میں حملہ کردیا۔ جب اس نے اپنی بھڑاس نکال لی تو کارندوں کو کہا کہ اس کتّے کولے جاؤ اوراگریہ کسی جرم کا اعتراف نہیں کرتا تو اسے اتنا مارو کہ یہ جان دے دے۔یہ حکم سنتے ہی کارندوں نے مجھے پکڑا او رسیڑھیوں سے مجھے گھسیٹتے ہوئے تہ خانے میں لے گئے جہاں انہوں نے کمر پر بندھے ہوئے میرے ہاتھوں کے ساتھ میرے پاؤں بھی جوڑ کر باندھ دیئے اور پھر مجھے لٹکا دیا گیا۔ ایک شخص نے میرے سر کو پکڑ لیا جبکہ دوسرے نے بجلی کے تار سے ضربیں لگانی شروع کیں۔بجلی کے تار کا ایک وار شایدہزار ڈنڈوں سے زیادہ سخت تھا۔ہاتھ پاؤں کو اکٹھا کر کے باندھنے کی وجہ سے میری کمر تو پہلے ہی ٹوٹی جارہی تھی ، اس کے ساتھ تار کے وار اتنے شدید تھے کہ مجھے محسوس ہونے لگاکہ اگر میں نے کسی ناکردہ جرم کا اعتراف نہ کیا تومیں جان سے ہاتھ دھو بیٹھوں گا اوراگر بچ گیا تو باقی کی زندگی اپاہج بن کے گزارنی پڑے گی۔چنانچہ جان لیوا مار سے بچنے کے لئے میں نے کہا کہ مجھے کھولو میں ہر بات کا اعتراف کرنے کے لئے تیار ہوں۔
وہ خوشی خوشی مجھے کھول کر گھسیٹتے ہوئے اپنے افسر کے پاس لے گئے جو دیکھتے ہی کہنے لگا کہ تم لوگ صرف بجلی کے تار کی مار سے ہی منہ کھولتے ہو۔پھر اس نے کہا کہ اب بتاؤ تم کن کن باتوں کا اعتراف کرو گے؟ میں تو شدتِ تعذیب کی وجہ سے نیم جان تھا، ہمت کر کے کہاکہ جو تم چاہو۔ اس نے کہا کہ تم خود فیصلہ کرلو۔اور تو مجھے کچھ یاد نہ آیا بس اس قدر کہہ دیا کہ میں نے پانچصد ڈالرز اپنے دہشتگرد بھائی کو دیئے تھے۔اس نے کہا اور کس بات کا اعتراف کرتے ہو؟ میں نے کہا پانچ سو ڈالرز اور دیئے تھے۔ پھر وہ ’’مزید کس بات کااعتراف کرتے ہو‘‘ کا سوال دہراتا رہا اور میں ہربار یہی کہتا رہا کہ میں نے مزید پانچ سو ڈالرز اپنے بھائی کو دیئے۔ تاآنکہ وہ خوش ہوگیا۔ اس کے بعد مجھے یقین ہوگیا کہ دہشتگردوں کی مدد کے الزام میں مجھے تین سے پندرہ سال تک کی سزا ہو جائے گی لیکن اس طرح ڈنڈے کھا کھا کر بے موت مرنے سے بہر حال بچ جاؤں گا۔
آفیسر کو مفید مطلب جواب مل گیا تھا چنانچہ اس نے میرے ہاتھوں کو کھول دیااور مجھے بعض کاغذ تھماکر کہا کہ منہ دوسری طرف کرکے اپنی آنکھوں پر سے پٹی سِرکا کر ان پر دستخط کردو۔میں نے آنکھوں سے پٹی ہٹا کر دیکھا تو وہ انٹیلی جنس کی اس شاخ کے آفیشل پیڈ کے اوراق تھے جن پر کوئی تحریر نہیں تھی۔گویا میرے دستخط کروا کے پھر میرے جرائم کی تفصیل لکھی جانی تھی۔ میں نے پانچوں اوراق پر دستخط کردیئے جس کے بعد وہ مجھے سہارا دے کر جیل تک چھوڑ آئے۔
عدالت میں دفاع کا حق
تین روز کے بعد مجھے کسی قدر بہتر جیل خانہ میں منتقل کردیا گیا۔ میرے پوچھنے پر کسی نے بتایا کہ یہاں ان مجرموں کو لایا جاتا ہے جن کا کیس عدالت میں چلایا جانا مقصود ہوتا ہے۔میرا برادرنسبتی بھی یہاں تک میرے ساتھ تھا لیکن الحمد للہ کہ وہ ہر قسم کی تعذیب سے محفوظ رہا۔ تین روز مزید بِیت گئے جس کے بعد بعض قیدیوں کو بلایا گیا جن میں میرے برادر نسبتی بھی تھے اور ان کو رہا کردیا گیا۔ جبکہ مجھے بعض اور قیدیوں کے ہمراہ ایک روز بعد دہشتگردی کے خاتمہ کے لئے بنائی جانے والی خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا۔ یہاں میری کیسے کیسے تلاشی لی گئی اور کن کن مراحل سے گزرنا پڑا ان سب کو مختصر کرتے ہوئے صرف اتنا کہتا ہوں کہ ہمیں جیل کا یونیفارم پہنانے کے بعداب تک کی سب سے بڑی سہولت دیتے ہوئے یہ بتایا گیا کہ باری باری آپ اپنے اہل خانہ سے فون کے ذریعہ بات کرسکتے ہیں۔ شاید اس کا مقصد یہ تھا کہ ہم نے اگر وکیل وغیرہ لینا ہے تو اس کا انتظام کرلیں۔میں نے اپنی بیوی سے بات کی اور بتایا کہ میں کس جیل میں ہوں۔ وہ اگلے روز ہی آگئی ۔ رورو کر اس کا برا حال ہوچکا تھا۔ اس کے پوچھنے پر میں نے اسے ساری کہانی سناکر کہا کہ تم کسی وکیل سے بات کرو جو شاید میرا کیس لڑ سکے۔گو ہماری عدالتوں کے بارہ میں تو مشہور تھا کہ دہشتگردی کی دفعات والے کیس میں وکیل کو بولنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔ پھر بھی مجھے امید تھی کہ اللہ تعالیٰ میری بے گناہی کی وجہ سے خاص مدد فرمائے گا۔
دردواَلم کی داستان کاسحر انگیز اثر
میری اہلیہ نے ایک وکیل عورت سے بات کی اور اس نے ایک روز میری اہلیہ کو بتایا کہ میرے کیس کی سماعت21 اکتوبر 2014ءکو ہوگی۔مجھے دہشتگردی کی خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا ۔ میری وکیل بھی موجود تھی۔جج نے کہا کہ تم نے اعتراف کیا ہے کہ تم ا پنے دہشتگرد بھائی کی مالی معاونت کرتے رہے ہو۔ میں نے کہا کہ یہ اعتراف مجھ سے زبردستی کروایا گیا ہے۔میں نے یہ کام ہرگز نہیں کیا۔ میرے سامنے دوراستے تھے یا تو میں جبر و اکراہ کی چکی میں پِس کر ایسے اعترافات کرلوں یا پھر اہانت آمیز اور دردناک طریق پر جان دے دوں۔اور میرے اس بیان کی صداقت میرے جسم پر لگے تعذیب کے نشانوں سے عیاں ہے۔پھر میں نے اس ظلم کی داستان کوآنسوؤں کی جھڑی کے ساتھ دردناک الفاظ میں بیان کیا۔ اس سارے عمل کے دوران میری وکیل خاموش رہی ۔ میری کہانی ختم ہوئی تو جج نے قرآن کریم ہاتھ میں لے کر کہا کہ میرے قریب آؤ۔ پھر اس نے کہا کہ اس پر ہاتھ رکھ کر گواہی دو کہ تم نے یہ جرم نہیں کیا ۔ میں نے فورًا بڑھ کر یہ گواہی دے دی۔
جج نے کہا کہ تمہارا کیس بہت بڑا اور خطرناک کیس ہے اور میں محض اس بناء پر تمہاری رہائی کا حکم دے رہاہوں کہ مجھے محسوس ہوا ہے کہ تم مظلوم ہو۔یوں خدا تعالیٰ نے معجزانہ طور پر میری رہائی کے سامان پیدا کئے۔
دعاؤں کے معجزے
مَیں خدا تعالیٰ کی اس نعمت پر شکر کا اظہار کرنا چاہتا تھا لیکن مجھے بعض قیدیوں نے بتایا تھا کہ ایسا کرنے سے بھی عملہ کو شک ہو جاتا ہے اور پھر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لہٰذا میں نے اپنے جذبات کو چھپائے رکھا۔
دراصل میری رہائی کے پیچھے پیارے آقا ایدہ اللہ کی دعائیں تھیں کیونکہ میری اہلیہ حضو رانور کی خدمت میں دعا کے لئے خطوط لکھتی رہی تھی اورحضو رانور کی دعاؤں سے ہی یہ معجزہ ہوا ورنہ ایسے الزامات سے باعزت بری ہوجانا تقریبًا ناممکن تھا۔
ایک رو ز مزید جیل میں رکھنے کے بعد مجھے رہا کردیا گیا۔ میرے دونوں ہاتھوں پر مہریں لگا دی گئیں جن کا مطلب یہ تھا کہ میں ابھی ابھی جیل سے رہا ہوا ہوں ۔ جیل کے باہر میری اہلیہ میرا انتظار کررہی تھی ہم وہاں سے بس میں سوار ہوکر گھر کی سمت چل پڑے۔ راستے میں بس کو ایک چیک پوسٹ پر روک لیا گیا۔ مجھ سے نام پوچھا گیا تو ان سب کے کان کھڑے ہوگئے کیونکہ میرا فیملی نام اورعلاقہ ان کے ریکارڈ میں خطرناک تھا۔مجھے بس سے اتار کر پوچھ گچھ شروع ہوگئی۔ میں نے بتایاکہ بھائی میں ابھی ابھی ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ کر جیل سے آرہا ہوں اور انہیں اپنے دونوں ہاتھوں پر لگی مہریں دکھائیں۔یہ دیکھ کر انہوں نے مجھے جانے دیا۔ بس سے اتر کر ہم اگلی وین میں سوار ہونے کی بجائے پیدل ہی چل پڑے کیونکہ میں بہت ڈرا ہوا تھااورمزید کسی مصیبت میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔ ایک گھنٹے کے پیدل سفر کے بعدمیں اپنے ہم زلف کے گھر پہنچا جہاں میرے بچوں اور اہل خانہ نے میرا غیر معمولی استقبال کیا۔
(باقی آئندہ)