الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔
حضرت مسیح موعودؑ کے مخالفین کا انجام
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض معاندین کے عبرتناک انجام کا تذکرہ 24 اور 31؍مارچ 2017ء کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں کیا گیا تھا۔ یہ مضمون سلسلہ وار ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا کے جنوری، فروری اور مارچ 2011ء کے شماروں میں مکرم مولانا فضل الٰہی انوری صاحب کے قلم سے شائع ہوا تھا۔
ذیل میں اس ایمان افروز مضمون کا تیسرا حصہ ہدیۂ قارئین ہے جس میں چند ایسے معاندین کا ذکر ہے جنہوں نے حضور علیہ السلام کے بارہ میں نہ صرف اپنی گندہ دہنی اور سفلہ پن کی انتہا کر دی بلکہ علی الاعلان آپؑ کی ہلاکت کی تمنّا بھی کی مگربالآخر وہ خود آپؑ کی زندگی میں ہلاک ہوکر اپنے کذب اور حضورؑ کی صداقت پر مہر ثبت کر گئے۔
1۔ سعداللہ لدھیانوی
ہندوؤں میں سے مسلمان ہونے والے سکول ٹیچر سعداللہ لدھیانوی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ایک کتاب ’’شہاب ثاقب بر مسیح کاذب‘‘کے عنوان سے لکھی جس میں یاوہ گوئی اور دشنام طرازی سے کام لیتے ہوئے آپؑ کو کذّاب اور مفتری قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ یہ (یعنی حضرت اقدس علیہ السلام) ذلّت کی مَوت مرے گا اور اِس کی جماعت متفرق اور منتشر ہو جائے گی، وغیرہ ۔ اُس کی بدزبانی اس قدر بڑھتی چلی گئی کہ حضورؑ کو بالآخر اس کے لئے بددعا کرنی پڑی۔ چنانچہ آپؑ اپنی کتاب ’’حقیقۃالوحی‘‘ میں فرماتے ہیں۔
’’اگرچہ یہ تمنّا ہر ایک دشمن میں پائی جاتی ہے کہ وہ میری مَوت دیکھیں اور ان کی زندگی میں میری مَوت ہولیکن یہ شخص سب سے بڑھ گیا تھا اور ہر ایک بدی کے لئے جب بدقسمت مخالف قصد کرتے تھے تو وہ اس منصوبہ سے پورا حصہ لیتا تھا۔اور مَیں باور نہیں کر سکتا کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے،کسی نے ایسی گندی گالیاں کسی نبی اور مُرسل کو دی ہوں،جیسا کہ اس نے مجھے دیں۔چنانچہ جس شخص نے اس کی مخالفانہ نظمیں اور نثریں اور اشتہار دیکھے ہوں گے،اس کو معلوم ہوگا کہ وہ میری ہلاکت اور نابود ہونے کے لئے اور نیزمیر ی ذلّت اور نامرادی دیکھنے کے لئے کس قدر حریص تھا‘‘۔
حضور علیہ السلام نے سعداللہ کی بدزبانی کے متعلق مزید فرمایا ’’سخت سے سخت الفاظ اور ناپاک سے ناپاک گالیاں اس شدت اور بے حیائی سے اس کے منہ سے نکلتی تھیں کہ جب تک کوئی شخص اپنی ماں کے پیٹ سے ہی بدطینت پیدا نہ ہو، ایسی فطرت کا انسان نہیں ہوسکتا‘‘۔
پھر فرماتے ہیں کہ: ’’ مَیں نے اس کے ابتر اور نامراد مرنے کے لئے سبقت نہیں کی اور نہ مَیں نے یہ چاہا کہ وہ میرے روبرو ہلاک ہو۔ مگر جب اس نے ان باتوں میں سبقت کی اور کھلے کھلے طور پر اپنی کتاب’شہاب ثاقب‘ میں میری مَوت کی نسبت پیشگوئی شائع کی او ر میرا دل دُکھایا اور دُکھ دینے میں حد سے بڑھ گیا۔تب چار برس بعد مَیں نے اس کے لئے دعا کی اور خدا نے مجھ کو اس کی مَوت کی خبر دی اور نیز فرمایا کہ سعداللہ جو تیرے ابتر رہنے کی پیشگوئی کرتا ہے، وہ خود ابتر رہے گا
چنانچہ سعداللہ کی نسبت الہام اِنَّ شَأنِئَکَ ھُوَالاَبْتَر کے علاوہ حضورؑ نے یہ بھی پیشگوئی فرمائی کہ وہ نامرادی اور ذلّت کے ساتھ میرے رُوبرو مرے گا۔اس پیشگوئی کا اظہار آپؑ نے القائے ربّانی سے لکھے گئے چند عربی اشعار میں بھی فرمایا۔ اور پھر سعداللہ کی ذلّت کی موت کی پیشگوئی کو اپنی صداقت کا معیار قرار دیتے ہوئے اسے ایک مباہلہ قرار دیا کہ جس کے نتیجہ میں صادق کی زندگی میں ہی جھوٹے کی مَوت ہوجائے گی۔ بلکہ ایک شعر میں یہ اشارہ بھی کردیا کہ اُس کی موت نمونیہ پلیگ سے ہوگی جس سے پھیپھڑے میں شگاف ہوجائے گا۔
چنانچہ سعداللہ اس پیشگوئی کے بارہ سال بعد جنوری 1907ء میں نمونیہ پلیگ سے بیمار ہو کر ہلاک ہو گیا۔
جس وقت حضورؑ نے پہلی پیشگوئی فرمائی، اُس وقت سعداللہ کا ایک لڑکا (جس کا نام محمود تھا) بعمر پندرہ یا سولہ سال موجود تھا۔ اس پیشگوئی کے بعد بارہ سال تک سعداللہ کے ہاں کوئی اَورلڑکا پیدا نہ ہوا۔ ظاہر ہے کہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے کئی جتن کئے ہوں گے مگرخدا کی تقدیر کے سامنے اس کی سب کوششیں رائیگاں گئیں۔ حضورؑ فرماتے ہیں کہ:
’’ اسی روز سے جبکہ خدا تعالیٰ نے اس کی نسبت مجھے خبر دی کہ اِنَّ شَأنِئَکَ ھُوَالاَبتَر ، جس کو آج تک بارہ برس گذر گئے،اُسی وقت سے اولاد کا دروازہ سعداللہ پر بندکیا گیا ،اور اس کی بددعاؤں کو اُسی کے منہ پر مار کر خداتعالیٰ نے تین لڑکے بعد اس الہام کے مجھ کو دئے۔ اور کروڑہا انسانوں میں مجھے عزّت کے ساتھ شہرت دی،اور اس قدر مالی فتوحات اور آمدنی نقد اور جنس اور طرح طرح کے تحائف مجھ کو دئے گئے کہ اگر وہ سب جمع کئے جاتے، تو کئی کوٹھے ان سے بھر سکتے تھے۔ سعداللہ چاہتا تھا کہ مَیں اکیلا رہ جاؤں، کوئی میرے ساتھ نہ ہو۔پس خداتعالیٰ نے اس آرزومیں اس کو نامراد رکھ کر کئی لاکھ انسان میرے ساتھ کر دیا۔اور وہ چاہتا تھا کہ لوگ میری مدد نہ کریں مگر خداتعالیٰ نے اس کی زندگی میں ہی اس کو دکھلا دیا کہ ایک جہان میری مدد کے لئے میری طرف متوجہ ہو گیا۔….. اور وہ چاہتا تھا کہ مَیں اس کی زندگی میں ہی مر جاؤں اور میری اولاد بھی مر جائے۔مگر خداتعالیٰ نے میری زندگی میں اس کو ہلاک کیا ،اور الہام کے دن کے بعد تین لڑکے اَور مجھ کو عطا کئے ۔‘‘
حضور علیہ السلام مزید فرماتے ہیں کہ: ’’ہر ایک کو معلوم ہے کہ پیشگوئی کے وقت میں سعداللہ کا لڑکابعمر پندرہ سال یا چودہ سال موجود تھااور باوجود لڑکے کے موجود ہونے کے خداتعالیٰ نے اپنی پیشگوئی میں اس کا نام ابتر رکھا تھا۔ اور فرمایا تھا کہ اِنَّ شَأنِئَکَ ھُوَالاَ بْتَر …… پس جبکہ پیشگوئی کے زمانہ میں یہ لڑکا موجود تھاتو ایک عقلمند صاف سمجھ سکتا ہے کہ اس پیشگوئی کا یہ مطلب ہے کہ یہ لڑکا کالعدم ہے اور ا س کے بعد نسل کا خاتمہ ہے۔اور یہی خداتعالیٰ کی طرف سے مجھے تفہیم ہوئی تھی ‘‘۔ گویا بالفاظ دیگر آپ نے یہ اعلان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے الہام کے رُو سے جس طرح سعداللہ خود آئندہ اولاد سے محروم کر دیا گیا ہے،اسی طرح اس کے بیٹے سے بھی اولاد پیدا کرنے کی قوت سلب کر لی گئی ہے۔
یہ کوئی معمولی اعلان نہ تھا کیونکہ دنیا میں کسی انسان کو کسی دوسرے انسان پر تصرّف نہیں بلکہ اسے اپنے آپ پر بھی تصرّف نہیں۔ تاہم سعداللہ کی وفات کے بعد اس کے بیٹے کی شادی ہو گئی۔ لیکن بالآخر وہی ہوا جو خدا کے مامور نے فرمایا تھا اور اس کا یہ بیٹا اولاد کو ترستا ہوا شادی کے انیس سال بعد اپنے باپ سے جا ملا۔اور اس طرح پر بدقسمت سعداللہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق ہمیشہ کے لئے مقطوع النسل ہوگیا۔
2۔ عبدالقادر ساکن طالب پور پنڈوری
ایک اور شخص جو اپنی ہلاکت سے حضرت مسیح موعودؑ کے صدق پر مہر تصدیق ثبت کر گیا ، وہ بدنصیب عبدالقادر نامی تھا۔ جب وہ اپنے ہی ساختہ پرداختہ کی سزا پاکر بڑی ذلّت کے ساتھ طاعونی مَوت مر کر اس دنیا سے رخصت ہوا تو اسے ایک بہت بڑے نشان کے طور پر پیش کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’اس نے اپنے طور پر میری نسبت خدا تعالیٰ سے فیصلہ چاہا،اور بہت سی ناکردنی اور ناگفتنی باتیں میری طرف منسوب کر کے خدا تعالیٰ سے انصاف کا خواستگار ہوا۔ تب وہ اس درخواست کے چند روز بعد ہی بعارضہ طاعون اِس جہان سے انتقال کرگیا۔تفصیل اس کی یہ ہے کہ ’’ایک شخص عبدالقادر نام ساکن طالب پور پنڈوری ضلع گورداسپور میں رہتا تھا اور طبیب کے نام سے مشہور تھا۔ اس کو مجھ سے سخت عناد اور بغض تھااور ہمیشہ مجھے گندی گالیاں دیتا تھا۔ پھر جب اس کی گندہ زبانی انتہا تک پہنچ گئی،تب اس نے مباہلہ کے طور پر ایک نظم لکھی جس کا وہ حصہ ہم اس جگہ چھوڑدیتے ہیں جس میں اُس نے سخت سے سخت فسق و فجور کی باتیں میری طرف منسوب کی ہیں اور سعداللہ لدھیانوی کے رنگ میں میرے چال چلن پر بھی تہمتیں لگائی ہیں اور بہت گندے الفاظ استعمال کئے ہیں۔‘‘
حضورؑ نے پھر نہایت افسوس کے رنگ میں فرمایا:
’’افسوس کہ یہ لوگ آپ جھوٹ بولتے ہیں اور آپ گستاخ ہو کر تہمتیں لگاتے اور شریعت نبویہ کی رُو سے حدِّقذف کے لائق ٹھیرتے ہیں،پھر بھی کچھ پروا نہیں کرتے۔ یہ ہیں علماء فضلاء یعنی اِس زمانہ کے ان لوگوں کے دلوں میں کچھ ایسی شوخی اور لاپروائی ہے کہ جب ایک شخص خدا تعالیٰ سے ایسا فیصلہ مانگ کر ہلاک ہو جاتا ہے تو دوسرا اس کی کچھ بھی پروا نہیں کرتااور اس کا قائمقام ہوکر گستاخی اور بدزبانی شروع کر دیتا ہے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے۔‘‘
پھر عبدالقادر پنڈوری والے کی شعری او ر ادبی اغلاط سے بھری ہوئی نظم کے چند اشعار بطور نمونہ درج کرنے کے بعد اس کی نظم کے آخری دعائیہ شعر
یا الٰہی جلد تر انصاف کر
جھوٹ کا دنیا سے مطلع صاف کر
کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپؑ نے تحریر فرمایا:
’’جیسا کہ اِن شعروں کے مصنف نے جناب الٰہی میں دعا کی تھی کہ وہ انصاف کرے اور جھوٹ کا مطلع صاف کرے، ایسا ہی خدا نے جلد تر انصاف کر دیا اور ان شعروں کے لکھنے کے چند روز بعد یعنی بعد تصنیف ان شعروں کے وہ شخص یعنی عبدالقادر طاعون سے ہلاک ہو گیا۔مجھے اس کے ایک شاگرد کے ذریعہ سے یہ دستخطی تحریر اس کی مل گئی اور نہ وہ صرف اکیلا طاعون سے ہلاک ہوابلکہ اَور بھی اس کے بعض عزیز طاعون سے مر گئے۔ایک داماد بھی مر گیا۔ پس اس طرح پر اس کے شعرکے مطابق جھوٹ کا مطلع صاف ہوگیا۔‘‘
3۔ محمد جان المعروف مولوی محمد ابوالحسن
تیسرا شخص جس نے احمدیت کی دشمنی میں آکر اپنی مَوت کوخود دعوت دی، وہ پنج گرائیں،تحصیل پسرور ،ضلع سیالکوٹ کا رہنے والا محمد جان المعروف مولوی محمد ابوالحسن نامی ایک عالم دین تھا۔ اس کی شوخی اور بے حیائی کا یہ حال تھا کہ اس نے ’’ بجلی آسمانی بر سر دجّال قادیانی‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں اس نے کئی مقامات پر کاذب کے لئے مَوت کی دعا کرتے ہوئے حضرت اقدسؑ کی نسبت بہت ہی گندے اور طعن و تشنیع سے بھرے ہوئے اشعار لکھے ۔مثلاً پنجابی کی ایک نظم کا ایک شعر یہ تھا:
توبہ کر جلدی اے ملحد موت نیڑے ہے آئی
اج کل مر دُنیا تو غافل ہونا ہے تو راہی
ایک دوسرے شعر میں اس نے لکھا:
نبیاں تائیں اِس متنبی لائیاں بڑیاں سلّاں
دوجے حصے اندردیکھیں میریاں اس دیاں گلاں
دراصل وہ اس کتاب کا ایک دوسرا ایڈیشن بھی شائع کرنا چاہتا تھا جس کا اس نے یہاں ذکر کیا ہے مگر اِس دوسرے حصہ کا لکھنااسے نصیب ہی نہ ہوا اور وہ اس سے پہلے ہی اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔
پھر سب سے بڑی شرارت اس نے یہ کی کہ اس نے ایک بیہودہ نظم کی صورت میں حضرت مسیح موعودؑ کے بارہ میں آپؑ کی فرضی مَوت کا سیاپا لکھاجس کے اشعار کچھ اس قسم کے تھے:
مرزا مویا خوشیاں مینوں راتیں نیند نہ آئی ،مرزا گذر گیا
مرزا مویا بیشک جانو مَیں ہن نصرت پائی،مرزا گذر گیا
مگر اس نے نصرت کیا پائی۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ابھی اپنی دوسری کتاب شروع بھی نہ کرنے پایا تھا کہ طاعونی مَوت نے اسے آ لیا اورپھر وہ پورے انیس دن تک طاعون میں مبتلا رہ کر چیخیں مارتا ہوااس دنیا سے رخصت ہوا۔
عجیب بات یہ ہے کہ اس شخص نے اپنے انہی شعروں میں ایک شعر اس مضمون کا بھی لکھا تھا کہ مرزا نے طاعون کے پھیلنے کی خبر دی تھی مگر وہ بھی ظہور میں نہ آئی۔ لیکن خدائے غیور نے اس پر ایسی طاعونی مَوت وارد فرمائی کہ نہ صرف اُسے بلکہ ایک دنیا کو دکھادیا کہ ایک دن، دو دن نہیں،پورے انیس دن وہ طاعون میں تڑپتا رہا اور بڑی درد ناک حالت میں مرا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کتاب ’’حقیقۃالوحی‘‘ میں اس قسم کی متعدد مثالیں دینے کے بعد بالآخر بڑے درد کے ساتھ نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اے پڑھنے والے اس کتا ب کے! خدا سے ڈر اور ایک دفعہ اوّل سے آخر تک اس کتاب کو دیکھ اور اس قادر مطلق سے درخواست کر کہ وہ تیرے دل کو سچائی کے لئے کھول دے اور خدا کی رحمت سے ناامید مت ہو۔‘‘