مصالح العرب (قسط ۴۴۶)
(عربوں میں تبلیغ احمدیت کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے مسیح موعود کی بشارات، گرانقدر مساعی اور ان کے شیریں ثمرات کا ایمان افروز تذکرہ )
مکرم علاء عثمان صاحب (4)
گزشتہ تین اقساط میں ہم نے مکرم علاء عثمان صاحب آف سیریاکی بیعت اور سیریا میں ہونے والے فسادات میں ان کے خاندان پر ہونے والے بعض مظالم کا تذکرہ کیا تھا۔اس قسط میں باقی واقعات بیان کئے جائیں گے۔
سفرِ ہجرت کی کہانی
مکرم علاء عثمان صاحب بیان کرتے ہیں:
دوسری دفعہ موت کے منہ سے رہائی کے بعد میں نے اپنے اس ملک کو ہمیشہ کے لئے خیرباد کہنے کا فیصلہ کرلیاجس میں اٹھنے والا ہر قدم مرحلۂ دار وصلیب دکھائی دیتا تھا ۔ میں نے رہائی کے بعد تین روز تک اپنے ہم زلف کے گھر میں آرام کرنے کے بعد اپنی وکیل سے کہا کہ چونکہ جج نے مجھے ہر تہمت سے بری قرار دیا ہے اس لئے مجھے اس کے اس فیصلہ کی نقل چاہئے جس کی بناء پر میرے لئے ملک سے باہر سفر کرنا آسان ہوجائے گا۔ اگلے روز وکیل نے یہ ڈاکومنٹ فراہم کردیا جسے لے کر ہم سیدھے ٹریول ایجنٹ کے پاس گئے اور ترکی جانے کے لئے جہاز کے ٹکٹ خرید لئے۔ دوہفتوں کے بعد ہماری فلائٹ تھی ۔ اس عرصہ میں ہم نے قریبی رشتہ داروں سے الوداعی ملاقاتیں کیں اوردعائیں کرتے رہے کہ کوئی اور روک نہ پڑ جائے۔سفر سے ایک روز پہلے ہم نے ایک ٹیکسی والے سے بات کی تووہ ہمیں دمشق سے بیروت ائرپورٹ پر لے جانے کے لئے راضی ہوگیا۔ ہم صبح گیارہ بجے نکلے۔ جگہ جگہ چیک پوسٹوں پر رُک رُک کر اور انتظار کروایا جاتا رہا۔گو اس سفر میں جگہ جگہ ’’ہرقدم دوریٔ منزل ہے نمایاں مجھ سے‘‘ کا احساس ہوتا رہا،لیکن خدا تعالیٰ کا خاص فضل شامل حال رہا کہ ہم ہر چیک پوسٹ سے صحیح و سالم نکل کر منزل کی طرف گامزن رہے۔ محض دوتین گھنٹوں کا سفر آٹھ گھنٹوں میں طے کرنے کے بعد ہم بیروت ایئر پورٹ پر پہنچ گئے۔ہماری فلائٹ کے اڑنے میں ابھی بھی گیارہ گھنٹے کا وقت باقی تھا جو خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے گزارا ۔ اورپھر اگلے روز ہم ترکی پہنچ گئے۔
ہم دوروزکے سفر سے تھکے ہوئے تھے۔ سامان بھی کافی تھا لیکن ترکی میں نہ کوئی واقف، نہ کوئی ٹھکانا اور نہ ہمیں ان کی زبان آتی تھی۔ میں نے ائیر پورٹ سے باہر نکل کر ایک ٹیکسی والے سے انگریزی میں بات کر کے کہا کہ ہمیں کسی اچھے ہوٹل میں لے چلو۔ اس نے ایک جگہ ہمیں اتار دیا جہاں بہت سے ہوٹلز تھے۔ میں اپنا سامان فُٹ پاتھ پر رکھ کر کسی مناسب ہوٹل کی تلاش میں نکلا تو ایک جگہ انگریزی میں فلیٹس کرائے پر دستیاب ہونے کے بارہ میں اعلان پڑھا۔میں فورًا اس دفتر میں گیا اور تین روز کے لئے ایک فلیٹ لے لیا ۔ گو یہ فلیٹ بہت مہنگا تھا لیکن مجھے یقین تھا کہ تین روز میں ہم کوئی مناسب بندوبست کرلیں گے۔
میری اہلیہ نے سیریا سے ہی فیس بک کے ذریعہ ترکی کی ایک عورت سے رابطہ کیا تھا جو سیریا سے آنے والی فیملیز کو کرائے کے گھر تلاش کرنے میں مدد دیتی تھی۔ دو روز آرام کرنے کے بعدمیری اہلیہ نے کوشش کی تو اس عورت سے رابطہ ہوگیا اور اگلے دن اس نے ملنے کے لئے وقت بھی دے دیا۔پھر اس کی مدد سے ہم نے سال بھر کے لئے گھر بھی لے لیا اور بچوں کا بھی سکول میں داخلہ کروا دیا ۔
جرمنی کا سفر او راحباب کا اخلاص
میں ظلم اوردکھ کی سرزمین سے نکل آیا تھا، اورمیرے ذہن میں اس سے آگے سفر کرنے کا کوئی پروگرام نہ تھا۔ لیکن کچھ عرصہ کے بعد ہی ہم ارد گرد سے ہر روز سنتے کہ آج فلاں فیملی یورپ چلی گئی اور آج فلاں اپنے اہل خانہ کے ساتھ یورپ کے فلاں ملک کی جانب سفر کر گیا ہے۔ یہ کوئی آسان سفر نہ تھا۔تاہم ہر طرف سیرین مہاجرین کے ساتھ ایک ہمدردی کی فضا بن چکی تھی اس لئے سفر کے کئی راستے کھل چکے تھے۔ میں اس کے بارہ میں سنجیدگی سے سوچنے لگ گیا۔ میں برطانیہ کی طرف ہجرت کرنا چاہتا تھا لیکن اس کا کوئی راستہ نہ نکل سکا۔ پھر ایک سیرین احمدی دوست مکرم ماہر المعانی صاحب کے کہنے پر ہم نے جرمنی جانے کا پروگرام بنا لیا۔ یہ بھی ایک بہت لمبی داستان ہے جس میں طرح طرح کے خطرات ہیں جسے مختصر کرتے ہوئے صرف اتنا کہتا ہوں کہ اس وقت اکثر ملکوں نے سیرین مہاجرین کے لئے دروازے کھول دیئے تھے یا اپنے ملک سے گزرنے کی سہولت فراہم کی تھی۔چنانچہ مختلف ملکوں سے ہوتے ہوئے ہم کئی دنوں کے سفر کے بعد جرمنی پہنچ گئے۔
ہمارا سفر لمبا ہوگیا اور ہم جلسہ کے وقت جرمنی نہ پہنچ سکے بلکہ جلسہ کے ایام کے دوران ہم سربیا میں تھے اور 18؍ اگست2015ءکو ہم جرمنی میں داخل ہوئے۔ اس وقت میرے پاس میرے ایک سیرین احمدی دوست مکرم عرفات ابراہیم صاحب کا فون نمبر تھا جس نے قبل ازیں ہی مجھے کہا ہوا تھاکہ جرمنی پہنچتے ہی میں اس سے رابطہ کروں اوراس کے گھر پہنچنے کی کوشش کروں۔چنانچہ میں نے اس سے رابطہ کیا اور ٹرین کے ذریعہ اس کے شہر جانے کا فیصلہ کیا۔سٹیشن پر بہت سے سیرین موجود تھے ان میں سے بعض جرمنی کے رہائشی بھی تھے اورایسے ہی ایک دوست نے مجھے ٹکٹ خریدنے اور پھر مختلف گاڑیاں بدلنے کا طریقہ سمجھادیا۔ بہر حال ہم آدھی رات کے بعد عرفات ابراہیم صاحب کے شہر پہنچ گئے جہاں سٹیشن پر ہی وہ ہمارا منتظر تھا۔ وہ ہمیں ساتھ لے گیا اور ہم تین روز تک اس کے گھر میں رہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ان تین روز میں سفر کی تھکان کی وجہ سے ہمیں اپنی ہوش نہ رہی۔ عرفات ابراہیم صاحب کی ضیافت اوراخوّت کے جذبے نے ہمیں سب کچھ بھلا دیا۔ میری اہلیہ بھی عرفات صاحب کی اہلیہ کی بہترین دوست بن گئی اور میرے بچے اس کے بچوں سے بہت مانوس ہوگئے۔
تین روز کے بعد ہم نے اسائلم کردیا۔ابتداء ًکسی قدر تنگی کا سامنا کرنا پڑا لیکن الحمد للہ کہ جلد ہی تمام امور درست ہو گئے اور ہمیں علیحدہ رہائش مل گئی۔
جرمنی پہنچنے کے بعد میں نے مکرم حفیظ اللہ بھروانہ صاحب سے رابطہ کیا ، دمشق میں عربی زبان کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران ان سے ہمارا اچھا تعلق بن گیا تھا۔ اسی طرح ہمارے سیرین احمدی مکرم مازن عقلہ صاحب سے بھی رابطہ کیا۔ سب نے ہی دلی مسرت کا اظہار کیا اور اطمینان دلاتے ہوئے ہر قسم کی مدد کی پیشکش کی۔
لقاءِ حبیب
کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ایک روز مجھے مکرم حفیظ اللہ صاحب کا فون آیا کہ حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز دوبارہ جرمنی میں تشریف لارہے ہیں اور اس موقع پر یہاں پہنچنے والے عرب احمدیوں کو بھی حضو رانور کی زیارت اور آپ سے ملاقات کا موقع دیا جائے گا۔ بہرحال جب ہمیں اس بارہ میں پتہ چلا تو ہم کشاں کشاں دوڑے چلے آئے۔ فرینکفرٹ میں ہمارااس طرح استقبال کیا گیا جیسے ہم کوئی نہایت قیمتی اور انمول چیز ہوں۔ فجزاھم اللہ خیرًا۔
اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ کے ساتھ ہماری ملاقات کا وقت بھی آ پہنچا ۔اپنے آقا کی ملاقات کے لئے حاضر ہونے والے عرب احمدیوں کی اس لسٹ میں پہلا نام ہمارا تھا۔ میں نے اس ملاقات کے لئے بہت کچھ سوچ رکھا تھا لیکن حضور انو رکے دفتر میں داخل ہوتے ہی تمام الفاظ اور جملے خلط ملط ہوگئے۔ زبان لڑکھڑا رہی تھی اور جسم پر بھی لرزہ طاری تھا۔ میں نے جب اپنی اہلیہ کی طرف دیکھا تو اس کی حالت مجھ سے زیادہ مختلف نہ تھی، اس کے آنسو نکلتے ہی جارہے تھے۔ شاید حضور انور کو ہماری حالت کا اندازہ ہوگیا تو آپ نے کمال شفقت سے میرے ہاتھ کو پکڑ کر تسلی دلائی۔ یہاں پر میری حالت اس شخص کی سی تھی جسے مدتوں کے سفر کی تھکان کے بعد اچانک منزل مل جائے،جسے دکھ و الم کے خاردار جنگلوں سے گزرنے کے بعد اچانک گلستان نظر آجائے ، اور جسے زندگی کے اندوہناک حادثوں کے بعد ایک شفیق اورغمگسار شخص اپنے سینے سے لگالے۔ اس صورتحال کو محسوس کرتے ہی میرے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اورآنکھیں اشکوں کی زبانی حالِ دل سنانے لگ گئیں۔
جب ہم کسی قدر سنبھلے اوراپنے فردفرد خیالات کو کسی قدر یکجا کرنے میں کامیاب ہوئے تو حضو رانور نے ہمارے ساتھ انگریزی زبان میں گفتگو شروع فرمائی۔ ہمارے ساتھ دو مترجم موجود تھے لیکن حضورانور کی شفقت کے پیش نظر اچانک میں نے کہہ دیا کہ سیدی آپ بیشک انگریزی زبان میں کلام فرمائیں لیکن مجھے اجازت دیں کہ میں حضور انور کی بات کا جواب عربی زبان میں ہی دوں۔ حضو رانور نے فورًا میری عرضی قبول فرمالی اور پھر یوں ہوا کہ حضو رانور انگریزی زبان میں گفتگو فرماتے رہے اور میں عربی زبان میں عرض کرتا رہا اورہمیں کسی ترجمان کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ حضو رانور میری بات مکمل طورپر سمجھتے اور اس کا جواب عطا فرماتے رہے۔ اس دوران ہم کبھی حضورانورکے کلام سے محظوظ ہوتے تو کبھی آپ کے چہرۂ مبارک پر عیاں نور سے فیضیاب ہوتے اور کبھی آپ کے ہونٹوں پربکھرنے والی مسکراہٹ پر نظر ڈال کر سرشار ہوئے جاتے تھے۔
ہماری ملاقات تقریباً دس منٹ تک جاری رہی جس کے آخر پر حضو رانور نے بچوں کو پین اور چاکلیٹ عطا فرمائے اور پھر ہمیں بلا کر قریب کھڑا کر کے تصویر کھنچوانے کا موقع بھی عطا فرمایا۔یہ تصویر ہمارے ڈرائینگ روم میں لگی ہے اور جب بھی اسے دیکھتا ہوں تو شکر کے جذبات اُمڈ آتے ہیں کہ خدا نے محض اپنے فضل سے ہمیں ایک نبی اور پھر اس کے خلیفہ کے ساتھ ایمان و اخلاص سے وابستگی کی توفیق عطا فرمائی ہے۔
یہ حضو رانو رسے میری تیسری ملاقات تھی ۔ اس سے قبل میں 2004ء اور 2005ء کے جلسہ سالانہ برطانیہ کے موقع پر ملاقات کر چکا تھا لیکن اس وقت میں غیرشادی شدہ تھا اور اہل وعیال کے ساتھ میری یہ پہلی ملاقات تھی۔
خلیفۂ وقت کی نصیحت اوردعا کی برکت
یہاں مجھے ایک واقعہ بھی یاد آگیاکہ 2005ءمیں میری عمر 27سال تھی اور میں نے دوران ملاقات حضور انور کی خدمت میں لندن سے کسی احمدی لڑکی سے شادی کے بارہ میں راہنمائی کی درخواست کی۔حضو رانورمیری بات سن کر مسکرائے اور فرمایا: علاء! جس بارہ میں تم سوچ رہے ہو وہ برا نہیں ہے لیکن بہت سے واقعات کے بارہ میں سننے اور دیکھنے کے بعد میری یہی نصیحت ہے کہ تم اپنے ملک اوراپنے معاشرے سے او راپنی ہم زبان کسی احمدی لڑکی سے شادی کرلو۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زبان اور علاقہ کے اختلاف اور عادات وتقالید کے فرق کی وجہ سے میاں بیوی کے مابین ہم آہنگی کی فضا قائم نہیں ہو پاتی اور نتائج اچھے نہیں نکلتے۔میں حضورانور کی بات سمجھ گیا اورفورًا سمعًا و طاعۃً عرض کیا۔
میرے والد صاحب نے لندن جاتے وقت مجھے یہ نصیحت کی تھی کہ حضورانور سے شادی کے بارہ میں راہنمائی لینا۔ اب جب میں نے واپس آنے کے بعد والد صاحب کو حضور انور کی نصیحت کے بارہ میں بتایا تو والد صاحب نے کہا کہ امیر المومنین کے ارشاد کے بعد وہی ہوگا جو حضورانور نے فرمایا ہے۔چنانچہ ہم نے رشتہ کی تلاش شروع کردی اور کچھ ہی عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک احمدی خاندان کی مخلص لڑکی کا رشتہ عطا فرمادیا اور حضور کے ارشاد کے محض چند ماہ کے بعد ہی میری شادی ہوگئی۔ اس شادی کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسی غیر معمولی تائید اورمدد فرمائی کہ مجھے نہ صرف اولاد کی نعمت سے نوازا بلکہ کام بھی مل گیا اوررزق ومال میں بھی اضافہ ہوتا گیا اورمیں آج تک بفضلہ تعالیٰ نہایت خوش ازدواجی زندگی گزار رہا ہوں۔
جلسہ سالانہ ایک عظیم روحانی اجتماع
ہجرت کے بعد جرمنی میں ہمارا بہت سے احمدیوں سے تعارف ہوا اورچند ایک اجتماعات میں بھی حاضرہونے کاموقع ملا تاہم جلسہ سالانہ کا ہمیں بشدت انتظار تھا۔ اور پھر وہ وقت بھی آگیا جب ہر رنگ وقوم کے افراد کالسروئے میں جمع ہوئے اور ہم بھی ان روحانی فضاؤں سے لطف اندوز ہونے وہاں جا پہنچے۔ یہ ایک عجیب احساس تھا کہ سب ایک امام کے پیچھے تھے۔ ایک دل کی دھڑکن کے ساتھ تما م دل دھڑک رہے تھے۔ اورپھر جلسہ کے آخری روزہمیں بتایا گیا کہ عربوں کی حضورانور سے علیحدہ ملاقات ہے۔اس ملاقات کا بھی حال ہماری فیملی ملاقات سے کچھ مختلف نہ تھا کیونکہ میں نے دیکھا کہ بڑے بڑے فصحاء کی زبان مناسب کلمات کی تلاش میں لڑکھڑارہی تھی۔
لوگوں نے اپنے پیاروں کے سلام اور درخواست ہائے دعا حضورانور کی خدمت میں عرض کیں۔ حضورانور نے سب کی باتیں تسلی سے سنیں اور نصائح سے نوازا۔ان نصائح میں سے ایک اہم نصیحت یہ بھی تھی کہ خود نمونہ بنیں اور اس معاشرہ میں نیک اثر کے ذریعہ تبلیغ کریں۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذمہ داریاں کما حقہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے او رخلیفۂ وقت کے سلطان نصیر اور آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا موجب بنائے ۔ آمین
(باقی آئندہ)