جماعتِ احمدیہ برطانیہ کی چودہویں سالانہ امن کانفرنس (25 مارچ 2017ء) کا کامیاب انعقاد(رپورٹ)
پِیس کانفرنس کی تقریب میں ممبرانِ پارلیمنٹ، وزرائے مملکت، مختلف ممالک کے سفارتکار، سرکاری عہدیداران، میئرز و دیگر معززین کی شرکت۔
30 ممالک کے ایک ہزار سے زائد افراد پِیس کانفرنس میں شامل ہوئے۔ پریس، میڈیا کے ساتھ حضور انور ایدہ اللہ کی پریس کانفرنس۔
ویٹیکن میں پونٹیفیکل کاؤنسل فار انٹرریلیجس ڈائیلاگ کی جانب سے کانفرنس کے لئے خصوصی پیغام، اٹلی سے ایگزیکٹو ڈائریکٹر آف ریلیجن فار پِیس کا ایڈریس۔
وزیراعظم برطانیہ محترمہ Theresa May کا پیغام۔ جماعت احمدیہ کی امن کے فروغ کے لئے مساعی پر خراج تحسین اور نیک خواہشات کا اظہار۔
جاپانی نژاد خاتون محترمہ Setsuko Thurlow کو ان کی نیوکلیئر ہتھیاروں کو ختم کرنے اور انسانی ہمدردی کے لئے مساعی پر ’احمدیہ مسلم پِیس پرائز‘ دیا گیا۔
ز…… لندن میں دہشتگردی کے واقعہ پر مذمّت اور متأثرین سے اظہار تعزیت۔ جماعت احمدیہ مسلمہ کی طرف سے مَیں یہ بات قطعی طور پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہم ایسی تمام دہشتگرد کارروائیوں کی مذمّت کرتے ہیں اور تہِ دل سے ان مظلوموں سے ہمدردی کرتے ہیں جو اس سفّاکی کا شکار ہوئے۔ دنیا کے ہر حصہ میں جماعت احمدیہ مسلمہ امن کو فروغ دیتی ہے اور اسلام کی تعلیم کے مطابق ہم اِن سفّاکیوں کے خلاف آواز اُٹھاتے ہیں۔ یہ سالانہ امن کانفرنس بھی اس کوشش کا ایک اہم حصّہ ہے۔…… ز…… مجھے نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ بعض مسلمان گروہوں اور بعض مسلمانوں نے انفرادی طور پر اپنی مساجد اور مَدرَسوں کو دہشتگردی کے مراکز بنا لیا ہے جن سے نفرت انگیز ی کی تبلیغ کی جاتی ہے اور دوسروں کو دہشتگرد کارروائیوں کے لئے انگیخت کیا جاتا ہے۔ …… ز…… اسلام وہ مذہب ہے جس نے ہمیشہ کے لئے ایمان و عقائد کی آزادی کے عالمگیر اصول قائم کئے ہیں ۔ …… ز…… تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وجود کا ہر ذرّہ امن اور صلح چاہتا تھا۔ …… ز…… آج بعض مسلمان ممالک جنگوں اور ظلم و ستم کا مرکز ہیں۔ لیکن یہ کہنا بھی درست نہیں کہ دنیا کے باقی ممالک فسادسے محفوظ ہیں۔ …… ز…… ہر ملک کا اوّلین فرض اپنے لوگوں کی بھلائی ہونا چاہئے لیکن افسوسناک سچائی تو یہ ہے کہ تجارت میں نفع اور مال و دولت کے حصول کولوگوں کی بھلائی پر ترجیح دی جاتی ہے۔
(امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بابرکت شمولیت اور اسلام کی خوبصورت اور بے مثال تعلیم کے مطابق دنیا میں قیامِ امن کے بارہ میں بصیرت افروز خطاب)
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ برطانیہ کے زیراہتمام 25؍ مارچ 2017ء کی شام طاہر ہال مسجد بیت الفتوح میں چودہویں سالانہ امن کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس تقریب میں سیکرٹریانِ سٹیٹ، ممبرانِ پارلیمنٹ، وزرائے مملکت، مختلف ممالک کے سفارتکار، جرنلسٹس، مختلف شعبہ ہائے تعلیم کے ماہرین اور مفکرین ، سرکاری عہدیداران، میئرز و مختلف مذاہب، چیریٹیز اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے احمدی، غیر احمدی و غیر مسلم معزز خواتین و حضرات نے شرکت کی۔ مسجد تشریف لانے والے مہمان آمد پر رجسٹریشن کے بعد کانفرنس ہال میں تشریف لاتے ۔اس موقع پر بعض مہمانوں کو مسجد بیت الفتوح کے مختلف حصوں کا تعارفی دورہ بھی کروایا گیا۔
امسال 30 ممالک سے تعلق رکھنے والے1000 سے زائد لوگوں نے امن کانفرنس میں شرکت کی جن میں 600 سے زائد غیر احمدی مہمان شامل تھے۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے طاہر ہال مسجد بیت الفتوح میں باقاعدہ تقریب سے قبل ایک پریس کانفرنس میں میڈیا کے نمائندگان کے سوالوں کے جواب دیئے۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہال میںتشریف آوری کے بعدپروگرام کا باقاعدہ آغاز ہوا۔مکرم فرید احمد صاحب سیکرٹری امورِ خارجہ جماعت احمدیہ انگلستان نے اس تقریب میں ماڈریٹر کے فرائض سرانجام دیئے۔تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ قرآنِ کریم سے ہوا۔مکرم حافظ طیّب احمد طاہر صاحب استاذ جامعہ احمدیہ یوکے نے سورۃ النساء کی آیت 136 کی تلاوت کی جس کا انگریزی ترجمہ عطاء الفاطر طاہر صاحب طالبعلم جامعہ احمدیہ انگلستان نے پیش کیا۔
اس کے بعد مکرم رفیق احمد حیات صاحب امیرجماعت احمدیہ برطانیہ نے ایک مختصر تعارفی تقریر میں تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے بتایا کہ امسال امن کانفرنس کا مرکزی موضوع ’’Global conflicts and the need for Justice‘‘ ہے (عالمی تنازعات اور انصاف کی ضرورت)۔ گزشتہ سال سے دنیا کے حالات مزید کشیدہ ہو گئے ہیں جو دنیا کے استحکام کو ختم کر رہے ہیں۔
آپ نے اس موقع پر Westminster میں حالیہ ظالمانہ واقعہ کی مذمّت کی اور اس موقع پر تمام متأثرین کی جلد صحتیابی کے لئے دعائیہ کلمات کہے۔آپ نے یوکے کی پولیس کا بھی شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے صفِّ اوّل میں کھڑے ہو کر دہشتگردی کے خاتمہ کے لئے اپنا کردار ادا کیا اور خاص طور پر PC Keith Palmer کو سراہا جنہوں نے جمہوریت کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جان دے دی۔
امیر صاحب نے بتایا کہ جماعت احمدیہ مسلمہ عالمگیر امن عالم کو قائم کرنے کے لئے ہر آن کوشاں رہے گی کیونکہ جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی(علیہ الصلوٰۃ و السلام) جنہیں ہم مسیح موعود و مہدیٔ معہود مانتے ہیں ایک خاص مشن کے لئے مبعوث ہوئے تھے۔ آپؑ اسلام کی نشا ٔۃ ثانیہ کے لئے مبعوث ہوئے اور آپ نے ہم پر اسلام کی اصل تعلیمات کو دوبارہ اجاگر کر کے بتایا کہ اسلام میں تشدد پسند جہاد کی کوئی جگہ نہیں۔ آپؑ اس لئے مبعوث ہوئے تاکہ بنی نوع انسان کا خدا تعالیٰ سے تعلق دوبارہ قائم ہو جائے۔ جماعت احمدیہ مسلمہ اب مستحکم ہو چکی ہے اور207ممالک میں پھیل چکی ہے۔تمام عالمی کام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی رہنمائی سے چل رہے ہیں۔حضور انور نے دنیا کے مختلف ممالک کی پارلیمنٹ میں خطاب کئے ہیں اور حال میں ہی کینیڈا کی پارلیمنٹ میں خطاب کیا ہے۔ حضور انور امن کو پھیلانے کے مشن کو بے نفس ہو کر آگے بڑھارہے ہیں ۔اور بنی نوع انسان کی فلاح وبہبود کے لئے خدا تعالیٰ پر کامل یقین رکھتے ہوئے کہ وہ شفیق اور مہربان ہے انتھک محنت کر رہے ہیں ۔
اس کے بعد Father David Standley نمائندہ Catholic Archbishop of Southwark نےVatican میں پونٹیفیکل کاؤنسل فار جسٹس اینڈ پیس (Pontifical Council for Inter Religious Dialogueکی جانب سے پیغام پڑھ کر سنایاجس میں انہوں نے جماعت احمدیہ کو موجودہ سنگین حالات میں امن کانفرنس کے انعقاد کی مبارکباد دی ۔
بعد ازاں اٹلی سے تشریف لانے والے Silvio Danio صاحب Executive Director of Religions for Peace نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’میں حضور کا ایک خاص انداز میں شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ حضور کی دنیا کے کئی ممالک میں کی گئی باتوں کو سننے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضور نہ صرف ایک ایسی ثقافت کو فروغ دے رہے ہیں جس میں باہمی مکالمہ کی اشد ضرورت
بلکہ حضور اس میں ایک چیمپیئن اور دوسروں کے لئے ایک نمونہ ہیں۔ ‘
اس کے بعد مکرم فرید احمد صاحب سیکرٹری امورِ خارجہ جماعت احمدیہ انگلستان نےبرطانیہ کی وزیر اعظم محترمہ Theresa May کا خصوصی پیغام پڑھ کر سنایا۔Theresa May نے اپنے پیغام میں لکھا: ’مجھے خوشی ہے کہ میں جماعت احمدیہ کی منعقدہ امن کانفرنس 2017ء کے تمام شاملین سے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کر سکتی ہوں۔
یہ امن کانفرنس سالانہ یاددہانی کے طور پر ہے کہ آپ کی جماعت دنیا بھر میں امن کو فروغ دینے کے لئے پُر عزم ہےجس کی عکاسی امسال آپ کے مرکزی موضوع سے بھی ہوتی ہے یعنی Global conflicts and the need for Justice(یعنی عالمی تنازعات اور انصاف کی ضرورت)۔
مَیں برطانیہ کے احمدی مسلمانوں کی اپنے ملک کے لئے اہم کاوشوں کو سراہتی ہوں اور داد دیتی ہوں کہ آپ معاشرے میں انصاف اور رواداری پھیلانے کا اچھا کام کر رہے ہیں۔
مَیں امید کرتی ہوں کہ آپ کی یہ شام پُر لطف گزرے۔ ‘
اس کے بعد مکرم فرید احمد صاحب سیکرٹری امورِ خارجہ جماعت احمدیہ انگلستان نے ذکر کیا کہ King of Spain کی طرف سے بھی پیغام موصول ہوا ہے اور انہوں نے امید کی ہے کہ یہ امن کانفرنس کامیاب رہے گی۔
اس کے بعد مکرم رفیق احمدحیات صاحب امیر جماعت یوکے نے امن انعام کا اعلان کیا جسے Ahmadiyya Muslim Peace Prizeکہا جاتا ہےجس کا آغاز جماعت احمدیہ یوکے نے2009ء میں امن کو فروغ دینے کے لئے کیا۔ امیر صاحب نے کہا کہ امسال مکرمہ Setsuko Thurlowصاحبہ کو یہ انعام دیا جائے گا۔ آپ کی پیدائش جاپان کی ہے۔ آپ Hiroshimaپرایٹمی بم گرائے جانے کے بعد بچ گئی تھیں اور اَب Nuclearہتھیاروں کو ختم کرنے کے لئے کام کر رہی ہیں۔آپ 13سال کی تھیں جب Hiroshimaپر اگست 1945ء میں Atomic Bomb گرایا گیا۔اس کے بعد کے حالات و تجربات نے آپ کی زندگی بدل دی۔ بذات خود Atomic Bombکے نتائج یعنی موت، انتہائی تکالیف اور تباہی کو دیکھ کر آپ نے اپنی زندگی Nuclearہتھیاروں کو ختم کرنے کے لئے وقف کر دی۔ آپ نے Nuclearجنگوں کے نتیجہ میں انسانی ہمدردی اور انسانی خدمت کے پہلو کو خاص طور اجاگر کیا ہے اور Nuclearکے موضوع سے متعلق خاموشی کو ختم کرنے کی بالخصوص کوشش کی۔ اور Nuclearکے خلاف کئی مہمات جاری کیں۔ آپ اب کینیڈا میں رہتی ہیں اور وہاں کی نیشنل ہیں۔ کینیڈا اور جاپان دونوں نے آپ کے کام کو سراہا ہے اور آپ کو The order of Canada Medal بھی ملا ہے جو کینیڈا کے شہری کے لئے سب سے بڑا انعام ہے۔ آپ کو جاپانی حکومت کی طرف سے Nuclear ہتھیاروں کو ختم کرنے کے لئے خاص نمائندہ بنایا گیا ہے۔ آپ نےیونائٹڈ نیشن کی جنرل اسمبلی کی فرسٹ کمیٹی سے بھی خطاب کیا ہے ۔ایک ایسی دنیا میں جہاں تنازعات بڑھ رہے ہیں اور دنیا ایٹمی جنگ کے بہت قریب آرہی ہے آپ کی زندگی بھر کی کوششیں بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہو چکی ہیںجن سے لوگوں کو ایٹمی جنگ کے نتائج سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ ہم آپ کی کوششوں پر بہت فخر محسوس کر رہے ہیں اور انہیں امن انعام دیتے ہوئے فخر محسوس کر رہے ہیں۔ آپ خاص طور پر کینیڈا سے اس کانفرنس کے لئے تشریف لائی ہیں۔
اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے موصوفہ کو امن انعام عطا کیا۔ اور موصوفہ نے مختصر خطاب کیا۔ موصوفہ نے کہا: مَیں نے جب آپ کی جماعت کی تاریخ، آپ کے مشن اور آپ کے کاموں سے آگاہی حاصل کی تو مجھے درد کے ساتھ معلوم ہوا کہ آپ کو مذہبی نا روا امتیازی سلوک اور مخالفت سہنی پڑ رہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود آپ نے غیرمتشددانہ یعنی امن اور انصاف کی راہ اختیارکرنے کا انتخاب کیا۔اور اُس راہ کو اپنی روز مرّہ مثالی زندگی میں’ محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں ‘سے ظاہر کیا۔آپ عالمی برادری کےلئے کیا ہی روشن اور مثالی نمونہ ہیں
خطاب حضرت امیر المومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
اس کے بعد امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ڈائس پر تشریف لائے اور فرمایا:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ تمام معزز مہمانوں کو السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ۔
سب سے پہلے مَیں بدھ کے روز Westminster میں دہشتگرد حملہ میں تمام متأثرین سے دل کی گہرائیوں سےتعزیت کرنا چاہتا ہوں ۔ اس المناک وقت میں ہمارے خیالات اور ہماری دعائیں لندن کےلوگوں کے ساتھ ہیں۔جماعت احمدیہ مسلمہ کی طرف سے مَیں یہ بات قطعی طور پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہم ایسی تمام دہشتگرد کارروائیوں کی مذمّت کرتے ہیں اور تہِ دل سے ان مظلوموں سے ہمدردی کرتے ہیں جو اس سفّاکی کا شکار ہوئے۔ دنیا کے ہر حصہ میں جماعت احمدیہ مسلمہ امن کو فروغ دیتی ہے اور اسلام کی تعلیم کے مطابق ہم اِن سفّاکیوں کے خلاف آواز اُٹھاتے ہیں۔ یہ سالانہ امن کانفرنس بھی اس کوشش کا ایک اہم حصّہ ہے۔ مَیں ہمارے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ہمارے ساتھ آج شام یہاں شریک ہیں۔ جماعت احمدیہ مسلمہ کے بانی نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس زمانہ میں اسلام کے نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی کامل اتباع میں مبعوث کیا ہے تاکہ میں اسلامی تعلیمات میں سب سے اہم مقاصد کو پھیلاؤں۔ نمبر ایک یہ کہ انسانیت کو خدا تعالیٰ کے قریب لاؤں۔ اور نمبر دو یہ کہ انسانیت کی توجہ ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی طرف مبذول کروں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: میرا ایمان ہے کہ یہ دو مقاصد دنیا میں حقیقی اور دیر پا امن کے قیام کے لئے ٹھوس بنیاد ہیں ۔مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم خوش نصیب ہیں کہ قرآن کریم نے ہماری رہنمائی کی ہے اور بتایا ہے کہ ہماری پیدائش کا بنیادی مقصد خدا تعالیٰ کی عبادت ہے۔ مسجد میں نماز باجماعت ادا کرنا افضل ہے۔ مجھے نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اِن امن پسند مقاصد کی کلیۃً خلاف ورزی میں بعض مسلمان گروہوں اور بعض مسلمانوں نے انفرادی طور پر اپنی مساجد اور مَدرَسوں کو دہشتگردی کے مراکز بنا لیا ہے جن سے نفرت انگیزی کی تبلیغ کی جاتی ہے اور دوسروں کو دہشتگرد کارروائیوں کے لئے انگیخت کیا جاتا ہے۔ غیر مسلموں اور مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں دونوں کے خلاف یہ دہشتگرد کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ان حالات کی وجہ سےمغربی دنیا میں دُور دُور تک خوف پھیل گیا ہے اور لوگوں میں یہ تصوّر پیدا ہو گیا ہے کہ مساجد تنازعات اور فسادات کا منبع ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ان وجوہات کی بنا پر مغرب میں بعض(سیاسی) پارٹیزاور بعض گروہوں میں مساجد کو بَین(ban)کرنےیا کم از کم مسلمانوں پر بعض پابندیاں عائد کرنے کی آوازیں بلند ہوئی ہیں۔ مثلاً یہ آواز بلند ہوئی ہے کہ حجاب کو بَین کردیا جائے، مناروں کو بَین کردیا جائے یا دوسرے اسلامی شعائر کو بَین کر دیا جائے۔افسوس کہ بعض مسلمانوں نے دوسروں کو اسلام کی تعلیمات پر الزامات لگانے کا موقع دیا ہے۔ ایک مسلمان کا صرف یہ فرض نہیں ہے کہ وہ اپنی نمازیں ادا کرے بلکہ اس پر یہ بھی واجب ہے کہ وہ یتیموں کی دیکھ بھال کرے اور غریبوں کو کھانا کھلائے ورنہ ہماری نمازیں بے فائدہ ہوں گی۔اس بات کا ذکر قرآن کریم کی سورہ107(الماعون)آیت تین تا پانچ میں قطعی طور پر کیا گیا ہے۔
ان تعلیمات پر بنیاد رکھتے ہوئے جماعت احمدیہ مسلمہ اللہ تعالیٰ کے فضل سےبلا تفریق رنگ و نسل ہر قسم کے دکھ اور افلاس کے خاتمہ کے لئے کئی رفاہی کام کر رہی ہے۔ہم نےبعض ہسپتال ، سکولز اور کالجز قائم کئے ہیں جو لوگوں کی صحت کو برقرار رکھنے اور تعلیم حاصل کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔اور یہ کام بعض سب سے غریب اور دُور افتادہ علاقوں میں بھی ہو رہا ہے۔ ہمیں ان کاموں کے لئے کسی داد کی ضرورت نہیں ہے۔ ہماری واحد خواہش لوگوں کو خود مختار ہونے کے لئے مدد کرنا ہے تاکہ وہ اپنی امیدوں اور تمناؤں کو پورا کر سکیں اور خوشی خوشی وقار اور آزادی کے ساتھ اپنی زندگی جی سکیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مزید فرمایا:
اس طرح مایوس اور انتہا پسندی کا شکار ہونے کی بجائےوہ ذمہ داری سے آگے بڑھیں گے اور اپنے ملکوں کے ایماندار شہری بنیں گے۔ جہاں وہ ذاتی طور پر ترقی کریں گے وہاں وہ اپنے اپنے ملکوں کی فلاح و بہبود کے لئے بھی مدد کر رہے ہوں گے اور دوسروں کو ان کے نقش قدم پر چلنے کے لئے راغب کر رہے ہوں گے۔
حضور انور نے دہشتگردوں کی باتوں کی تردید کرتے ہوئے فرمایا:دہشتگرد جو مرضی دعویٰ کریں کسی صورت میں بھی بلاجواز کسی پر حملہ آور ہونا یا قتل کرنا ہر گز جائز نہیں۔ اسلام نے انسانی جان کی حرمت اور عظمت قائم کی ہے۔قرآن کریم کی سورۃ المائدۃ آیت 33 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے کسی کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا۔ اور جس نے اُسے زندہ رکھا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو زندہ کردیا۔
اسلام وہ مذہب ہے جس نے ہمیشہ کے لئے ایمان و عقائد کی آزادی کے عالمگیر اصول قائم کئے ہیں ۔ اس لئے اگر آج نام نہاد مسلمان گروہ یا فرقے انسانوں کا قتل کر رہے ہیں تو اس کی سخت ترین الفاظ میں مذمّت کی جا سکتی ہے۔ ان کی سفّاکانہ کارروائیاں اسلام کی تعلیمات کی کلیۃً خلاف ورزی کرتی ہیں اور اسلام میں ان کارروائیوں کا کہیں بھی جواز موجود نہیں۔
حضور انور نے بعض غیر مسلمان لوگوں اور بعض غیرمسلمان گروہوں کا ذکر فرمایا کہ وہ عداوت اور پھوٹ کی آگ کو بھڑکا رہے ہیں۔ اس کی تصدیق میں حضور انور نے Foreign Policy سے متعلق ایک مضمون کا کچھ حصہ پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا کہ Islamophobia بھی بذات خود ایک تجارت ہے۔ حضور انور نے دنیا کے لیڈروں کو تلقین کی کہ وہ ہمیشہ حکمت اور دیانتداری سے بات کیا کریں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: افسوس کہ ہم اکثر سیاستدانوں اور لیڈروں کی طرف سے اشتعال انگیز بیانات سنتے ہیں جن کی بنیاد سچائی پر نہیں بلکہ ان کے اپنے سیاسی مقاصد پر ہوتی ہے۔
حضور انور نےبعض مشہور لوگوں کی طرف سے کئے گئے اس الزام کا ردّ فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے (نعوذ باللہ) اُن لوگوں کو قتل کیا ہے جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا۔ حضور انور نے فرمایا کہ بانیٔ اسلام صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف اس وقت جنگیں لڑیں جب مذاہب کے معدوم ہونے کا خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔ یہ جنگیں صرف دفاعی جنگیں تھیں اور فقط عالمی مذہبی آزادی کے اصولوں کو قائم کرنے کے لئے لڑی گئیں۔
حضورا نور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: یہ الزام لگانا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جنگجو لیڈر تھے انتہائی ناانصافی اور اشد ظلم ہے۔ ایسے غلط اور بے بنیاد الزامات دنیابھر کے مسلمانوں کو انتہائی غمگین کرتے ہیں۔تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وجود کا ہر ذرّہ امن اور صلح چاہتا تھا۔
حضور انور نے فرمایا کہ بعض صحافی اور بعض مشہور لوگ بھی باطل راہوں کو ترک کرتے ہوئے اسلام کے بارہ میں انصاف اور دیانت داری کے ساتھ لکھ رہے ہیں۔ بیسویں صدی عیسوی کے مشہور مصنف Ruth Cranston کی کتاب” "World Faith میں لکھا ہے کہ ’محمد (ﷺ) نے کبھی لڑائی یا قتل و غارت کا آغاز نہیں کیا۔ ہر جنگ جو آپ نے لڑی ہےوہ جنگ کو ختم کرنے کے لئے لڑی۔آپ دفاع کی خاطر لڑے تاکہ بچ جائیں۔ ‘
حضور انور نے وزیر اعظم محترمہ Theresa May کے بیان کو بھی سراہا جو انہوں نے Westminster کے واقعہ کے بعد دیا۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: مَیں عزت مآب وزیر اعظم کو بھی سراہنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے قرآن کریم کی بعض آیات کا حوالہ دیتے ہوئے اسلامی تعلیمات پر اُٹھائے جانے والے بعض الزامات کا ردّ کیا۔
حضور انور نے انتہا پسندی پر بات کرتے ہوئے فرمایا کہ متعدد رپورٹس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بعض نوجوان مسلمانوں کو radicalise کیا گیا ہے۔ اُن نوجوان مسلمانوں کو یہ محسوس ہوتا تھا کہ ان کے مذہبی عقائد کومغربی دنیا میں تمسخر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: کسی حال میں بھی مسلمان نوجوانوں کے یہ عمل جائز نہیں اور نہ ہی وہ کوئی عذر پیش کر سکتے ہیں۔ وہ مجرم ہیں اور اپنے عمل کے ذمہ دار بھی ہیں۔ معقول بات تو یہ ہے کہ ہمیں آگ بھڑکانی نہیں چاہئے۔ اس لئے ہمیں باہمی رضامندی اور دوسروں کے ایمان و عقائد کی عزت کرتے ہوئے کوشش کرنی چاہئے کہ ہم مشترکہ بنیادوں پر کھڑے ہو کر اس کا حل تلاش کریں۔
حضور انور نے امن کے حصول کے لئے قرآن کریم کا زرّیں اصول بیان فرمایاجس کا ذکر سورۃ آل عمران آیت 65 میں کیا گیاہے یعنی یہ کہ لوگوں کو اُن عقائد پر توجہ دینی چاہئے جو مشترک ہیں اور انہیں متحد کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’اس کلمہ کی طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے‘‘۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا : پس قرآن کریم نے ہمیںتعلیم دی ہے کہ کس طرح ایک پُرامنmulticultural معاشرہ قائم کیا جا سکتا ہے۔
امن کانفرنس 2017ء کے مرکزی موضوع Global Conflicts and the Need for Justice پر بات کرتے ہوئے حضورا نور نے فرمایا کہ معاشرے کی ہر سطح ناانصافی سے دوچار ہے۔ اس بات کو ردّ نہیں کیا جا سکتا کہ آج بعض مسلمان ممالک جنگوں اور ظلم و ستم کا مرکز ہیں۔ لیکن یہ کہنا بھی درست نہیں کہ دنیا کے باقی ممالک فسادسے محفوظ ہیں۔
حضور انور نے متعدد رپورٹس پڑھ کر سنائیں جن میں یونائٹڈ سٹیٹس اور چائنا کے درمیان اور یونائٹڈ سٹیٹس اور رشیا کے درمیان کشیدگیاں بڑھنے کا ذکر تھا ۔
بنی نوع انسان کو اتحاد قائم کرنے کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:وقت اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم خوف کو دُور کریں جو ہمیں متحد ہونے سے روک رہا ہے۔ ایسی دیواریں کھڑی کرنے کی بجائے جو ہمیں الگ الگ رکھیں ہمیں ایسے پُل بنانے چاہئیں جو ہمیں آپس میں قریب لائیں … ہمیں ہر قسم کے ظلم اور نفرت کے خلاف کھڑے ہونا چاہئے اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کوشش کرنی چاہئے کہ دنیا میں امن ترقی کرے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مزید فرمایا: افسوس، یوں لگتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم میں مخالف آراء اور مخالف نقطۂ نظر کو سُننےاور اُنہیں برداشت کرنے کی صلاحیت کم ہو رہی ہے ۔ رابطوں کے ذرائع پیدا کرنا اور مکالمے کی سہولت قائم کرنا بہت اہمیت کا حامل ہے ورنہ دنیا کی بے چینیاں بڑھتی رہیں گی ۔ …دوسروں پر الزام لگانے کی بجائےاب ان مسائل کا حل تلاش کرنے کا وقت ہے۔
اس کے بعد حضور انور نے بین الاقوامی سطح پر اسلحہ کی تجارت کی مذمّت کی اور فرمایا کہ اس طرح جنگوں کو بڑھایا جا رہا ہے اور یقینی بنایا جا رہا ہے کہ دنیاظلم و ستم کے ایک دائمی سلسلے میں رہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: میرے خیال میں اس کے لئے ایک بَنَا بَنَایا حل موجود ہے جس سے ایک فوری اثر ہو سکتا ہے اور دنیا کی شفایابی کا سلسلہ بھی شروع ہو سکتا ہے۔ مَیں بین الاقوامی اسلحہ کی تجارت کی بات کر رہا ہوں جس کو میرے خیال میں کم کرنااور اس پر پابندیاں لگانا ضروری ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مزید فرمایا: ہر ملک کا اوّلین فرض اپنے لوگوں کی بھلائی ہونا چاہئے لیکن افسوسناک سچائی تو یہ ہے کہ تجارت میں نفع اور مال و دولت کے حصول کولوگوں کی بھلائی پر ترجیح دی جاتی ہے۔
حضور انور نے اس خیال کا ردّ فرمایا کہ اسلحہ کی فروخت امن کو فروغ دیتی ہےاور فرمایا کہ یہ کلیۃً عقل سے عاری بات ہے۔حضور انور نے فرمایا کہ ایسے جَوازوں نے دنیا کو اسلحہ کی تجارت کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے میں ڈال دیا ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ کوئی ملک یہ نہ سمجھے کہ وہ خطرہ سے محفوظ ہے کیونکہ تاریخ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جنگیں سرعت سے اور اکثرخلاف توقع شروع ہوئی ہیں۔حضور انور نے ایٹمی جنگ کے خطرہ پر بات کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسی جنگ تباہی کے لحاظ سے تصوّر سے باہر ہے۔ حضور انور نے بنی نوع انسان کو سوچ و بچار سے کام لینے کی تلقین فرمائی اور فرمایا کہ انہیں اس بارہ میں سوچنا چاہئے کہ وہ آئندہ نسلوں کے لئے ترکہ میں کس قسم کی دنیا چھوڑنا چاہتے ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک ممکنہ جنگ عظیم کے نتائج پر بات کرتےہوئے فرمایا:ہم اس بات کے قصور وار ہوں گے کہ آئندہ نسلوں کے لئے میراث میں خوشحالی چھوڑنے کی بجائے غَم اور یاس چھوڑ رہے ہوں گے ۔ دنیا کو ہم تحفہ کے طور پر اپاہج بچوں کی ایک نسل دے رہے ہوں گےجو خرابیوں اور ذہنی معذوریوں کے ساتھ پیدا ہوں گے۔ نہ جانے اُن کے والدین اُن کی پرورش اور دیکھ بھال کے لئے بچ بھی سکیں گے یا نہیں؟
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مزید فرمایا: ہمیشہ یاد رکھیں کہ اگر ہم نے ہر حال میں اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کی توہم دوسروں کے حقوق غصب کر رہے ہوں گے۔اور یہ پھر تنازعات، جنگ و جدال اور مصائب پر ہی منتج ہو گا۔ ہم سب کو اپنا جائزہ لینا چاہئے اور سمجھنا چاہئے کہ ہم کِن تنزل کی بنیادوں پر کھڑے ہیں۔
آخر پر حضور انور نے دعائیہ کلمات سے خطاب کا اختتام کیا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: مَیں دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ صرف حال کی طرف نظر نہ کریں بلکہ کَل کی طرف بھی دیکھیں ۔ ہمیں ایک ایسی نسل باقی چھوڑنی چاہئے جو پُر امید ہو اور اُسے کئی سہولیات فراہم ہوں۔ہم ایک ایسی نسل باقی چھوڑنے والے نہ ہوں جو ہمارے گناہوں کے ہولناک نتائج بھگت رہی ہو۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مزید فرمایا: مَیں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ دنیا کے لوگوں کو عقل دے اور جو گھنے بادل ہمارے اوپر چھائے ہوئے ہیں ہٹ جائیں تاکہ ہمارا مستقبل روشن اور خوشحال ہو جائے۔
اس خطاب کے بعد حضورِ انورنے اجتماعی دعا کروائی۔ بعدازاں حاضرین کی خدمت میں عشائیہ پیش کیا گیا۔ عشائیہ کے بعد بہت سے مہمانان نے حضور انور سے مصافحہ کی سعادت حاصل کی اور تصاویر بنوائیں اور اس پیس کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر مبارکباد دی اور اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا