مصالح العرب (قسط ۴۴۸)
(عربوں میں تبلیغ احمدیت کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے مسیح موعود کی بشارات، گرانقدر مساعی اور ان کے شیریں ثمرات کا ایمان افروز تذکرہ)
مکرمہ امینہ العیساوی صاحبہ (2)
گزشتہ قسط میں ہم نے مکرمہ امینہ العیساوی صاحبہ آف مراکش کی قبولِ احمدیت کی داستان کا کچھ حصہ پیش کیا تھا۔ اس قسط میں ان کے اس ایمان افروز سفرکا باقی حصہ پیش کیا جائے گا۔
۔۔۔دردوں کی ہے ہم کو سہار
مکرمہ امینہ العیساوی صاحبہ بیان کرتی ہیں:
بیعت کے بعدایک طرف تو میری زندگی ہر لحاظ سے بہتری کی طرف مائل ہوگئی۔میری روحانی زندگی میں انقلاب آگیا۔ میرے اخلاق وعادات، لوگوں کے ساتھ تعلقات بلکہ میرے لباس میں بھی بہتری آگئی، لیکن دوسری طرف میری بیعت کی خبر جب خاندان اور میری سہیلیوں میں پھیلی تو اعتراضات اور تہمتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔مجھ پر اسلام سے خروج کا الزام لگایا گیا۔ روزانہ مجھے ایسی تلخ باتیں سننی پڑتیں جن کی کاٹ کسی تلوار سے کم نہ تھی۔ سخت الفاظ اورچبھتے جملوں کے لگائے ہوئے زخم کسی چاقوکے گھاؤ سے کم نہ تھے۔پھر اس پر مستزاد یہ کہ یہ چرکے لگانے والے غیر نہیں بلکہ اپنے اور قریبی رشتہ دار تھے۔لیکن اس ساری کارروائی کا مجھ پر کوئی منفی اثر نہ پڑا بلکہ اس صورتحال نے مجھے خدا تعالیٰ کے حضورجھکنے کا اور زیادہ موقع فراہم کیا۔ اس کی جناب میں خشوع وخضوع اور تضرعات ومناجات نے مجھے بڑی بڑی مشکلات کا سامنا کرنے کا حوصلہ عطا کر دیا۔ جب بھی میرے ساتھ کوئی جماعت کے یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف بات کرتا یا مجھے چیلنج دیتا تومیں اتنے اعتماد ،پختگی اور قوت سے اس کا جواب دیتی کہ خود مجھے بھی محسوس ہوتا کہ یہ میں نہیں بلکہ میرے اندر کو ئی اور وجود بول رہا ہے۔
ایمان افروز رؤیائے صالحہ
قبول احمدیت کے بعد مجھے رؤیائے صالحہ کا بھی ایمان افروز تجربہ ہوا جو دن بدن مجھے روحانیت میں بڑھانے اور میرے دل میں احمدیت کی سچائی راسخ کرنے میں ممد ومعاون ثابت ہوئے۔ان رؤیائے صالحہ میں مجھے حضرت امام مہدی علیہ السلام او رحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیزکی زیارت ہوئی ۔ میں نے انہیں آسمان سے نازل ہوتے ہوئے دیکھا۔ان کے ساتھ ایک غیرمعمولی چمک والا نور تھا۔
پھر ایک رؤیا میں مَیں نے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس کو دیکھا۔آپ نے مجھے روسٹ مچھلی عطا فرماتے ہوئے کہاکہ یہ لے لو۔
اسی طرح ایک رؤیا میں میں نے غار حرا میں وہ مقام دیکھا جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرمایا کرتے تھے۔ایک طرف حضور ؐ کی جائے نماز او رنعلین مبارک بھی پڑے ہوئے تھےجبکہ غار میں ہی میں نے دیکھا کہ آبِ جوئے شیریں چل رہا تھا۔ اس رؤیا میں میں اس قدر اطمینان اور خوشی محسوس کررہی تھی کہ جس کو لفظوں میں بیان کرنا محال ہے۔
فرض تبلیغ کی ادائیگی
حالات جیسے بھی رہے میں نے تبلیغ کرنی نہیں چھوڑی۔ اکثر مجھے سخت چبھنے والے جواب کا ہی سامنا کرنا پڑتا تھا۔ میرے اصرار کو دیکھ کر بعض لوگ مجھے ترس کھاتی ہوئی نظروں سے بھی دیکھنے لگتے تھے لیکن میں نے کسی چیز کی کوئی پرواہ نہ کی اور اس فرض کو ادا کرتی رہی۔
یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران ہم نے شریعت اور فقہ سے متعلق بہت سے امور کا مطالعہ کیا تھا۔ اس دوران بہت سے سوالات پیدا ہوتے تھے او رجب میں ان کا ذکر کرکے کچھ وضاحت کرتی تومیرے کئی ساتھی اسے عجیب سمجھتے تھے بعض ان سوالوں کو مضمون سے لا تعلق سمجھتے تھے اور بعضوں کے نزدیک ایسے سوال اٹھانا ہی ناقابل قبول امر تھا۔
بہرحال اس کے بعدمیں نے سوشل میڈیا کے ذریعہ احمدی احباب کے ساتھ تعارف بڑھایا۔ میں نے ان سے بحث و مباحثات اور گفتگو کے دوران بہت سا علمی اور تربیتی فائدہ اٹھایا۔مجھے یاد ہے کہ جب بھی میں کسی معاملہ میں تحقیق کرتی تو اس کے بارہ میں مجھے روایتی تفسیر کو پڑھ کر تعجب اور حیرانی ہوتی۔آہستہ آہستہ میرا علمی معیار بڑھتا گیا اور میں نے تبلیغ کے لئے نیا طریقہ اپنا لیا۔اب میں صرف سوال کرتی تھی اور مخاطب کو سوچنے کا موقع دیتی تھی یہاں تک کہ وہ خود میرے ساتھ اس موضوع کے بارہ میں گفتگو کرنا شروع کردیتا ۔ میں عمومًا ایسے موضوعات کا انتخاب کرتی جو عام فہم ہوتے اور جن کے بارہ میں عمومًا لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں جیسے جنّوں اور ناسخ ومنسوخ وغیرہ کے مسائل۔خدا کے فضل سے یہ طریقہ بہت کامیاب ہوا اور مجھے تبلیغ کرنے کے بہت سے مواقع میسر آئے۔
احمدیوں کے لئے دروازہ کھول دو
اپنی والدہ صاحبہ کے ساتھ بات کرتے ہوئے مَیں نے مختلف فیہ مسائل کے بارہ میں نہایت آسان تشریح کی لیکن میری والدہ صاحبہ چونکہ پڑھی لکھی نہیں ہیں اس لئے انہیں ان امورکی کوئی خاص سمجھ نہ آئی۔یہ صورتحال دیکھ کر میں نے ان کے ساتھ دعا کے مسئلہ پر بات کی اور انہیں بتایا کہ وہ خدا تعالیٰ سے مدد کی دعا کریں۔ پھر میں نے انہیں وہ الفاظ اور جملے بھی بتائے جنہیں انہوں نے اپنی دعا میں شامل کرلیا۔ساتھ ساتھ میں نے بھی اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ میری والدہ کو حق دکھا دے۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ میری والدہ صاحبہ کو اس کے بعدکئی ایک رؤیائے صالحہ کا تجربہ ہوا۔ ان میں سے ایک رؤیا میں انہوں نے ایک شخص کو دیکھا جو انہیں کہہ رہا تھاکہ ان کے لئے دروازہ کھول دو اور انہیں یعنی احمدیوں کو اس دروازے سے اندر آنے دو۔
متعدد ایسے رؤیائے صالحہ کے بعد میری والدہ کو دلی اطمینان حاصل ہوگیا اور انہو ں نے بیعت کا فیصلہ کر لیا۔
والدہ صاحبہ کے فیصلہ کے بارہ میں سن کر مجھے بہت زیادہ خوشی ہوئی کیونکہ اب ہم گھر میں چار احمدی ہو گئے تھے۔ پھر خدا کے فضل سے میری دوسری بہن نے بھی بیعت کرلی اور اس کے بعد میرے احمدی بھائی ادریس کی اہلیہ نے بھی احمدیت میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔ اب صرف میرا ایک بھائی رہتا ہے جس نے بیعت نہیں کی، اس کی ہدایت کے لئے خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا ہے۔
مخالفت کا سامنا
والدہ صاحبہ کی بیعت کے بعد ہمارے خاندان میں مخالفت کا بازار پھر سے گرم ہوگیا۔ ان کے نزدیک احمدیت کو قبول کرنا اسلام سے خروج کے مترادف ہے۔ انہوں نے میری والدہ صاحبہ کو شدید طعنہ زنی کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کیا تم اب اس عمر کو پہنچ کر اسلام سے خروج کا اعلان کروگی؟تمہیں اس اقدام پر توبہ واستغفار کرنا چاہئے۔ اس کے بعد سے اب تک ہمارے خاندان کے ہمارے ساتھ تعلقات اتنے اچھے نہیں رہے۔یہاں تک کہ بعض نے ہمارا مقاطعہ کردیا ہے۔ خاندان والوں کی طرف سے دی جانے والی تکالیف گو کہ بہت سخت تھیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم اسکے عادی ہوگئے ۔
شادی اور زندگی میں ایک تبدیلی
یونیورسٹی کی پڑھائی ختم ہوئی تو میں نے ماسٹرز میں داخلہ کے لئے درخواست دی اور بفضلہٖ تعالیٰ مجھے داخلہ بھی مل گیا لیکن اسی اثناء میں برطانیہ سے ایک احمدی نوجوان کا رشتہ آیا اور بفضلہٖ تعالیٰ استخارہ کے بعد میں نے ہاں کہہ دی۔ یوں میں ماسٹرز تو نہ کرسکی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس رشتہ کی صورت میں مجھے بہت بڑی نعمت عطا فرمادی۔رشتہ سے متعلق تمام ضروری امورکی انجام دہی میں خدائی تائید شامل حال رہی اور الحمدللہ 5مئی 2016ء کومراکش میں ہی ہماری شادی کی تقریب منعقد ہوئی۔
میں بہت خائف تھی کیونکہ ہماری زبان مختلف تھی،کلچر مختلف تھا اوردونوں خاندانوں کے طور طریقے مختلف تھے لیکن شادی کے ماحول نے ہی ثابت کر دیا کہ احمدیت کا تعلق ایسا ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے سارے فرق ماند پڑ جاتے ہیں۔ ہمیں ایسے محسوس ہواجیسے دونوں خاندان ایک دوسرے کو مدتوں سے جانتے ہیں۔ شادی میں میرے خاوند کی نانی، دوماموں، اور ان کی بیٹیوں نے قادیان سے بطور خاص شرکت فرمائی ، لیکن میرے خاندان کے اکثر افراد نے ہمارے احمدی ہونے کی وجہ سے شادی میں شرکت نہ کی۔
شادی کے چار ماہ بعد ہی مجھے ویزہ مل گیا اور یوں میں برطانیہ پہنچ گئی جہاں میرے سسرال نے میرا نہایت گرمجوشی سے استقبال کیا اور ہر ضرورت کا خیال رکھااور مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے مجھے میرے اپنے اہل خانہ جیسا ایک اور خاندان برطانیہ میں عطا کر دیا ہے۔ فالحمد للہ۔
خواب کی تعبیر او رخواہش کی تکمیل
لندن میں مَیں نے پہلی بار مسجد فضل میں نماز ادا کی۔ یہ مسجد جسے ہم اکثر صرف ٹی وی کی سکرین پر دیکھتے تھے ،جس میں خلیفۂ وقت پانچ وقت نماز پڑھاتے ہیں اس میں مجھے نماز اداکرنے کی توفیق مل رہی تھی۔ یہ ایک غیر معمولی طور پر خوبصورت اور ایمان افروز احساس تھا۔
پھر یہاں پر اس خواب کی تکمیل کا وقت بھی آگیا جو بیعت کے بعد سے میں دیکھ رہی تھی۔اس لئے شاید یہ کہنا بجا ہوگا کہ زندگی کی سب سیبڑی خواہش کی تکمیل ہونے والی تھی اور میں اس کے تصور سے ہی کسی اور دنیا میں منتقل ہوجاتی تھی۔ میری مراد حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز سے ملاقات سے ہے جو ہر بیعت کرنے والی کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے۔
حضور انور سے ملاقات کا وقت آن پہنچا۔ میں اور میرا خاوند ملاقات کے لئے حضور انور کے آفس میں داخل ہوئے۔ میں نے حضورانور کو بالمشافہ دیکھا ہی تھا کہ ایسے محسوس ہوا کہ میں کسی اور دنیا میں منتقل ہوگئی ہوں۔ میں نے جو سوچا تھا سب بھول گئی، لفظ اور جملے ساتھ چھوڑ گئے، ایسے لگتا تھا کہ کچھ وقت کے لئے میری سوچنے کی قوت بھی ٹھہر سی گئی تھی۔ خوف اور خوشی کاملاجلا ایسا احساس تھا جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔شاید بعض لوگ سمجھیں کہ میں کسی قدر مبالغہ کررہی ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں اپنی حالت کو پورے طو رپربیان بھی نہیں کرسکی۔
حضورانور نے ہمیں بٹھایا۔ محبتوں اور پیار سے نوازا، شادی کی مبارکباد دی، ہم دونوں کو انگوٹھیاں عطا فرمائیں اور پھر مجھ سے میرے خاندان اور میری پڑھائی کے بارہ میں دریافت فرمایا۔حضور انور نے ہمیں ڈھیروں دعائیں دیں۔ اور یوں ہماری ملاقات کا وقت ختم ہوگیا۔
میرا دل چاہتا تھا کہ وقت ٹھہر جائے اور ہم کچھ دیر اور حضور انور کی خدمت میں بیٹھے برکتیں لیتے رہیں۔
خدا کے فضلوں کا بیان
خدا کے فضل سے میری زندگی یہاں پر خوشی اور خوش بختی کے احساس کے ساتھ گزررہی ہے۔خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے میری دعاؤں کو قبول فرماتے ہوئے مجھے بہت زیادہ عطا فرمایا ہے۔ ہر جمعہ کی نماز جو میں حضو رانور کے پیچھے ادا کرتی ہوں اور یہاں احمدی بہنوں سے ملتی ہوں تو خدا کے نشانات کو اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے ہوئے دیکھتی ہوں۔یہ ایمان کی نعمت انمول ہے ۔
جب میں ایک نظر ماضی کی طرف دیکھتی ہوں تو چھ سال کی مدت کوئی زیادہ عرصہ نہیں ہے۔ چھ سال قبل میں کیا تھی اور آج اللہ تعالیٰ نے مجھے کیا عطا فرمایا ہے ان دونوں حالتوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔لیکن مجھے اپنی پہلی حالت پر ندامت اس لئے نہیں ہے کیونکہ اسے اختیار کرنے میں میری مرضی شامل نہ تھی بلکہ وہ میری طرح میرے اہل وطن او رمعاشرے کے دیگر افراد پرتھوپی گئی ہے۔ اس بات پر خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھے حق دکھایا اور اس آسمانی آواز کو سننے او رخدا کے فرستادے کو پہچاننے اور اس کی سفینۂ نجات میں سوار ہونے کی توفیق عطا فرمائی جس سے میرے ملک کی اکثریت محروم ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی بھی آنکھیں کھولے اور اس حق کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
(باقی آئندہ)