مصالح العرب (قسط۴۴۹)
(عربوں میں تبلیغ احمدیت کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے مسیح موعود کی بشارات، گرانقدر مساعی اور ان کے شیریں ثمرات کا ایمان افروز تذکرہ)
مکرم مصعب شویری صاحب(1)
مکرم مصعب شویری صاحب کا تعلق شام کے دارالحکومت دمشق کی نواحی بستی ’’حُوش عرب ‘‘ سے ہے جہاں ان کی پیدائش 1985ءمیں ہوئی۔ ان کے والد صاحب نے اس وقت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی جب مصعب صاحب کی عمر صرف چار برس تھی۔ کچھ عرصہ قبل شام کے مخدوش حالات کے پیش نظر مصعب صاحب ہجرت کر کے ترکی کے راستے جرمنی پہنچے ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں:
غالباً یہ 1989ء کی بات ہے جب مکرم محمد منیر ادلبی صاحب کے ذریعہ احمدیت کا پیغام ہماری بستی میں پہنچااوربہت سے سوال وجواب اور گرما گرم بحثوں کے بعد بستی کے چند احباب نے بیعت کرلی ۔میرے والد صاحب ان چند خوش نصیبوں میں سے ایک تھے ۔اس وقت میری عمر چار سال کی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ میرے والد صاحب کی بیعت کے بعد ہماری بستی میں اور ہمارے گھر میں بھی بھونچال سا آگیا۔
مخالفت کا طوفان
چند افراد کی قبول احمدیت کی خبر اہلِ بستی کے لئے بہت بڑے صدمہ کا باعث بن گئی اوربستی کے مولوی حضرات نیز بڑی بڑی شخصیات جن میں میرے نانا سرفہرست تھے جمع ہوکر آئے اوربستی کے عین وسط میں واقع ہمارے گھر پر دھاوا بول دیا ۔ اس دوران میرے نانا گھر کے اندر داخل ہوئے اور اپنی بیٹی یعنی میری والدہ کو زبردستی پکڑ کر مارتے ہوئے گھر سے لے جانے کی کوشش کی۔ ان کا مقصد میری والدہ کو اسکے احمدی ہونے والے خاوندسے دور کرکے طلاق کا مطالبہ کرنا تھا تا وہ بھی کہیں اپنے خاوند کے راستہ پر نہ چل پڑے۔جب وہ ایسا کررہے تھے تو اس وقت وہاں پر موجود ایک وکیل نے انہیں ایسا کرنے سے روکتے ہوئے کہا کہ اگر تمہاری بیٹی نے بعد میں عدالت میں یہ کہہ دیا کہ وہ طلاق نہیں لینا چاہتی اور اپنے گھر اور اولاد کو نہیں چھوڑنا چاہتی تو تمہاری ساری کارروائی تمہارے خلاف جائے گی اور تمہیں دوسروں کے عائلی معاملات میں زبردستی دخل دینے اور ایک بستے ہوئے گھر کو توڑنے کے الزام میں گرفتار کرلیا جائے گا۔یہ سن کر میرے نانا نے والدہ صاحبہ کو توچھوڑ دیا لیکن یہ بلوائیوں کا ٹولہ اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے مکرم احمد خالد البراقی صاحب کے گھر جا پہنچا، جہاں چند نو احمدی احباب نماز جمعہ ادا کررہے تھے۔ انہوں نے وہاں پرحملہ کر کے توڑ پھوڑ کی اور بعض احمدیوں کو زدوکوب کر کے اپنے بپھرے ہوئے جذبات کی تسکین کا سامان کیا۔
والد صاحب کی اسیری اور ہماری مشکلات
کسی نے پولیس کو بھی خبر کردی ۔پولیس آئی اوربجائے مظلوموں کی مدد کے انہیں ہی گرفتار کر کے لے گئی اور پھر احمدیوں کے خلاف مقدمے بنے اوربعض نواحمدی احباب کو تین سے آٹھ ماہ تک قید وبند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا۔ ان اسیران میں سے ایک میرے والد صاحب بھی تھے۔ والد صاحب کے جیل جانے کی وجہ سے جہاں ہمیں ان کی جدائی اور جیلوں کی ناگفتہ بہ حالت کے تصور سے تکلیف سے گزرنا پڑا وہاں ایک او رمصیبت بھی آن پڑی ۔ ہوا یوں کہ والد صاحب نے گرفتاری سے قبل بستی کے وسط میں واقع ہمارا مکان فروخت کردیا تھا اوردو تین ماہ میں قبضہ دینا تھا۔ اس دوران والد صاحب نے بستی سے کسی قدر فاصلے پر اپنی زرعی اراضی میں گھر تعمیر کرنے کا کام شروع کردیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ مقررہ مدت کے اندر اندر وہ زرعی اراضی میں مکان بنا لیں گے لیکن اس دوران ان کی گرفتاری ہوگئی۔ہمیں وعدہ کے مطابق اپنے قدیم گھر سے نکلنا پڑا اور نئے مکان کی تو ابھی دیواریں بھی کھڑی نہ ہوئی تھیں۔ایسے میں میری والدہ نے اپنے چھ بچوں کے لئے زیر تعمیر مکان کے قریب ہی خیمہ لگایا اور تین ماہ تک اسی حالت میں گزارا کیا تا آنکہ میرے والد صاحب کی رہائی ہوگئی اور پھر جلد ہی انہو ں نے مکان تعمیر کرلیا۔ لیکن یہ تین ماہ ہم نے خیمہ میں بہت مشکلات اور نہایت خوف کی حالت میں گزارے۔ رات کے وقت بھیڑیوں کی آوازیں اور چوروں کا خوف دامنگیر رہتا تھا۔ جبکہ عمومی طو رپر شدید سردی کا موسم تھا اورآتے جاتے دشمنوں کے طعنے اس پر مستزاد تھے۔
چونکہ اہل بستی کے نزدیک اس صورتحال کے ذمہ دار مکرم منیر ادلبی صاحب تھے کیونکہ انہی کے ذریعہ احمدیت کا پیغام اس بستی تک پہنچا تھا اس لئے بستی کے بہت سے لوگوں کے دلوں میں ادلبی صاحب کے لئے شدید نفرت اورعداوت پیدا ہوگئی تھی جس کا اظہار انہوں نے گالی گلوچ اوربدزبانی کے علاوہ یوں بھی کیا کہ ایک بار ادلبی صاحب کی کار پر پتھراؤ کیا گیا اور ایک بار ان کی کار کو آگ لگا دی گئی۔
چھوٹی سی احمدی دنیاکا احوال
احمدیت کی وجہ سے اہلِ بستی اور اکثررشتہ دار تو ویسے ہی کنارہ کش ہوگئے تھے۔اس لئے سوائے احمدیوں کے ہمارے گھر کوئی نہ آتا تھا۔بلکہ ہمارے گھر کے بستی سے الگ ہونے کی وجہ سے احمدی احباب اکثر ہمارے گھر میں ہی جمع ہوتے اور پھر مختلف دینی امور پر باتیں ہوتیں۔
مجھے یاد ہے کہ جس دن احمدی احباب نے آنا ہوتا تھا اس روزہمارے سٹنگ روم کی چیزوں کی ترتیب اور اندرون وبیرون کی صفائی ستھرائی کے علاوہ مہمانوں کے استقبال کی ڈیوٹی بھی ہم بچوں کی ہوتی تھی۔یہ دن ہمارے لئے کسی عید سے کم نہ ہوتا تھا۔ ان مجالس میں بیٹھ بیٹھ کر رفتہ رفتہ ہم بچوں کو بھی وفات مسیح ، ختم نبوت ، اور جنّوں وغیرہ کے مسائل کے بارہ میں عام فہم دلائل یاد ہوگئے اور ہم اکثر ان کو استعمال بھی کرنے لگ گئے۔
شدید مخالفت اور والدہ کی بیعت
بستی کے سکول میں بھی بعض مولویانہ ذہنیت کے حامل اساتذہ کی طرف سے ہمارے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا جبکہ بعض طالبعلموں کی طرف سے بھی ہمیں احمدیت کی وجہ سے تنگ کیا جاتا۔تاہم بعض اساتذہ ایسے بھی تھے جو بڑی محبت سے پڑھاتے تھے گو کہ ان کی تعداد بہت کم تھی۔چھ سال کے انتظار کے بعد میری والدہ صاحبہ نے مکمل تسلی کرنے کے بعد بیعت کرلی اور کسی ملامت او رمخالفت کی پرواہ نہ کی۔ میرے نانا کا شمار گاؤں کی بڑی شخصیات میں ہوتا تھا ۔ ایک تو وہ خود جماعت کے بہت بڑے دشمن تھے دوسرے انہیں میرے ماموں انگیخت کرتے تھے جو شریعت کالج کے پڑھے ہوئے تھے اور شدت پسند مولویانہ ذہن کے مالک تھے۔انہوں نے والدہ صاحبہ سے بہت بحثیں کیں اورمخالفت کا بازار گرم کیا لیکن والدہ صاحبہ پر ان کی کسی کارروائی کا کوئی اثر نہ ہوا۔
مولوی کا ناٹک
1996ء کی بات ہے کہ ہمارے گاؤں کے ایک صوفی مولوی نے دعویٰ کردیا کہ اولیاء اللہ کو نہ تو آگ جلا سکتی ہے نہ ہی جنّ ان کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے اس طرح کے کئی امور کا تذکرہ کر کے خوب واویلا مچایا اور یہ کہتے ہوئے افراد جماعت احمدیہ کو چیلنج دیتے ہوئے کہا کہ میں فلاں دن آگ میں کود کر ثابت کروں گا کہ اس کا مجھ پر اثر نہیں ہوتا اور یہ میرے ولی اللہ ہونے کی نشانی ہے۔ پس اے احمدیو! اگر تم سچے ہو تو ان معاملات میں مقابلہ کر کے دکھاؤ۔میرے والد صاحب اور بعض اور احمدی احباب بھی اس شعبدہ بازی کے مظاہرہ کو دیکھنے کے لئے گئے ۔ مولوی صاحب نے ابھی آگ کے گرد چکر لگانا شروع کئے تھے کہ اس کے پاؤں انگاروں پر آنے کی وجہ سے جل گئے ،یوں مولوی صاحب پاؤں کے تلوے ہی سہلاتے رہے یہانتک کہ وہ آگ بجھ گئی جس میں اس نے کودنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ حالت دیکھ کر وہ لوگ جو مولوی صاحب کی حوصلہ افزائی کے لئے ساتھ آئے تھے اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔
استجابت دعا کا واقعہ
والدین نے ہماری تربیت ایسے کی کہ ہر معاملہ میں دعا اورخدا تعالیٰ کی مدد کی طرف توجہ دلائی جاتی تھی۔اس ضمن میں قبولیت دعا کا ایک واقعہ بیان کرنا مناسب ہوگا۔
ہمارے ملک میں نویں جماعت بڑا مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ اس میں طالبعلم کے نمبر ایک مقرر کردہ میرٹ سے کم آئیں تو وہ میٹرک میں سائنس یا آرٹس وغیرہ کے مضامین چننے میں آزاد نہیں رہتا بلکہ بعض حالات میں اسے میٹرک میں داخلہ بھی نہیں ملتا اور اسے نویں جماعت کا امتحان دوبارہ دینا پڑتا ہے۔ اس جماعت میں ٹوٹل نمبرز 240 ہوتے تھے اور گزشتہ کئی سالوں سے میرٹ 200 نمبرزمقرر کیا جاتارہا تھا۔ یعنی اس سے کم نمبرز حاصل کرنے والے طالبعلموں کو مشکلات کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ دوبارہ امتحان دینے کی ضرورت بھی پڑ سکتی تھی۔
مالی حالات کی خرابی اور دیگر کئی وجوہات کی بناء پر میں پڑھائی میں کمزور ہی رہا۔میں نے نویں جماعت کا امتحان دیا تو نتائج کے آنے سے قبل بہت دعا کی کہ خدایا مجھے دوبارہ امتحان نہ دینا پڑے اورمیرے نمبرز امسال مقرر ہونے والے میرٹ کے برابر ہی آجائیں تا مجھے میٹرک میں داخلہ مل جائے۔ نتائج کا اعلان ہوا تو میرے 185نمبرز آئے۔ یہ دیکھ کر میرا تو دل ہی بیٹھ گیا کیونکہ میرے تو گزشتہ سالوں میں مقرر ہونے والے میرٹ سے بھی پندرہ نمبرز کم تھے۔ تقریبًا دو ہفتوں کے انتظار کے بعد جب میرٹ کا اعلان ہوا تو یہ جان کر خوشگوار حیرانی ہوئی کہ اس سال کا مقرر کردہ میرٹ 185تھا۔شاید گزشتہ بیس سالوں میں یہ پہلا موقع تھا جب میرٹ 200سے کم نمبرز کی صورت میں مقرر ہوا تھا۔میرا دل خدا تعالیٰ کی حمد سے بھرگیا جس نے میری دعاؤں کو سنا اور بظاہر ایک ناممکن امر ممکن میں بدل گیا۔
مالک مکان کی بیعت کا واقعہ
1996ء میں ہم بستی کو چھوڑ کر دمشق شہر میں منتقل ہوگئے لیکن وہاں پر ہماری زندگی بہت کٹھن ہو گئی۔گو میرے والد صاحب فوج میں تھے لیکن ان کی تنخواہ اس قدر کم تھی کہ جس میں آٹھ افرادکی فیملی کو پالنا مشکل تھا۔ گو کہ ہماری زرعی اراضی بھی تھی لیکن اس سے سالانہ آنے والی آمد سے بچوں کے سکول کے سالانہ خرچ بھی پورے نہ ہوتے تھے۔
میری میٹرک کی پڑھائی بہت اہم تھی اس کے لئے میرے والد صاحب نے مجھے اور میرے بھائی کو دمشق میں ایک کمرہ کا فلیٹ کرائے پر لے دیا اور ہم دمشق شہر میں رہ کر تعلیم حاصل کرنے لگ گئے۔ اس فلیٹ کے ساتھ ہی اس کے مالک عادل حُوریہ کا گھر تھاجونہ جماعت کا دشمن تھا، نہ ہی دوست، تاہم اس کی طبیعت کسی قدر مولویانہ تھی۔
کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ہماری نواحی بستی کا ایک شخص آیا اور اس نے بھی ہمارے مالک مکان سے ایک کمرہ کرائے پر لے لیا۔ چونکہ وہ ہمیں جانتا تھا اس لئے وہ ہمارے خلاف مالک مکان کے کان بھرنے لگا۔اس نے مالک مکان کو جھوٹ بولتے ہوئے بتایا کہ گویا قرآن کریم کے بالمقابل ہماری کوئی اور کتاب ہے، اور ہمارا قبلہ بھی مسلمانوں کے قبلہ سے مختلف ہے، نیز ہماری نماز بھی مختلف ہے اور حج بھی اور یہ کہ نعوذ باللہ ہم بہن بھائی کی شادی کو جائز سمجھتے ہیں۔
مالک مکان نے جب یہ باتیں سنیں تو شدید حیران ہوکر کہا کہ میں تو روزانہ ان بچوں سے ملتا ہوں۔یہ اکثر اپنی پڑھائی میں مصروف رہتے ہیں، اور اپنے کام سے کام رکھتے ہیں ۔کسی کو ان سے کوئی شکایت نہیں ہے بلکہ پورے محلہ میں ادب اور اخلاق کی مثال سمجھے جاتے ہیں۔ پھرکہنے لگا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایسے فاسد عقائد رکھنے کے باوجود یہ لوگ ادب واخلاق اور شرافت میں مثال بن جائیں؟ ضرور کچھ دال میں کالا ہے۔ یا تو شکایت کرنے والے کو پورے حقائق کا علم نہیں یا پھر یہ محض کذب وافتراء ہے۔
اس کے بعد اس نے ہم سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اورایک بار یہ ملاقات شروع ہوئی تو پھر ایسی ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ وہ ہر بار کوئی ایسا جھوٹا الزام لے کر آتا اور ہمارا جواب سن کر حیران ہو جاتا۔
ہمارا اور مالک مکان کا تعلق پانچ سال تک جاری رہا جس کے بعد خدا کے فضل سے 2006ء میں اس نے بیعت کرلی اور ہمیں اپنا بھائی سمجھ کر ہر قسم کی مدد فراہم کرنے لگ گیا۔
بیعت کی برکات اور انعام
عادل حُوریہ صاحب کی شادی کو آٹھ سال کا عرصہ ہوگیا تھا لیکن اولاد کی نعمت سے محروم تھا۔قبولِ احمدیت کے بعد اس نے خدا تعالیٰ سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اسے بیٹی کی نعمت سے نوازا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے دو بیٹے بھی عطا فرمائے۔وہ تحدیث نعمت کے طو رپر لوگوں کواکثر بتایا کرتا تھا کہ اسے مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرنے کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اولاد کی نعمت عطا فرمائی ہے۔نیز وہ کہا کرتا تھا کہ افراد جماعت ہی میرے ماں باپ اور بہن بھائی ہیں۔
تمام نشانات دیکھنے کے بعد اس کی بیوی نے بھی 2013ءمیں بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔فالحمد للہ علیٰ ذلک۔
(باقی آئندہ)