الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں
احمدی انجینئرز کی ایسوسی ایشن کے خدمت خلق کے منصوبے
روزنامہ الفضل ربوہ کے سالانہ نمبر 2011ء میں مکرم انجینئر محمود مجیب اصغر صاحب نے اپنے مضمون میں احمدی انجینئرز کی ایسوسی ایشن (IAAAE) کی خدمت خلق کے حوالہ سے بعض خدمات بیان کی ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے IAAAE کے ایک سالانہ کنونشن کے لئے اپنے پیغام میں فرمایا: ’’حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے 1980ء میں آپ کی اس ایسوسی ایشن کو قائم فرمایا تھا۔ اس کے مقاصد میں قرآن کریم کی روشنی میں سائنس اور ٹیکنیکل تحقیقات اور پیشہ وارانہ مہارت کا فروغ، احمدی سائنسدانوں اور انجینئرز کی استعدادوں میں ماہرانہ قابلیت کی ترویج اور آپ کے تجربہ اور علم بھی باقی دنیا کو فائدہ پہنچانا اور جماعت کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ہر لحاظ سے بہترین خدمات مہیا کرنا شامل ہے‘‘۔
خداتعالیٰ کے فضل اور خلافت کی راہنمائی میں IAAAE کو دنیا بھر میں اپنے فنی علوم کے ذریعے خدمت خلق کے مختلف منصوبوں پر کام کی توفیق مل رہی ہے جن میں سے چند ایک یہ ہیں:
٭ خلافت ثالثہ میں جلسہ سالانہ پر غیرملکی وفود کے لئے براہ راست تراجم کرنے کے سسٹم کا آغاز 1980ء میں ہوا۔ نیز ربوہ میں کئی تعمیرات ہوئیں جن میں قصر خلافت، دفتر پرائیویٹ سیکرٹری، انجمنوں اور ذیلی تنظیموں کے گیسٹ ہاؤسز، احمدیہ بکڈپو شامل ہیں۔
٭ خلافت رابعہ کے ابتدائی دَور میں احمدی انجینئرز اور آرکیٹیکٹس کی ایسوسی ایشن کے تحت ہونے والی تعمیرات میں دارالضیافت جدید بلاک، خلافت لائبریری، مسجد مبارک کی توسیع، لجنہ اماء اللہ ہال، بیوت الحمد منصوبہ، پریس بلڈنگ اور روٹی پلانٹ وغیرہ شامل ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ہجرت کے بعد ربوہ میں جامعہ احمدیہ اور ہوسٹلز، توسیع فضل عمر ہسپتال، طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کی تعمیر شروع ہوئی جس کی تکمیل خلافتِ خامسہ میں ہوئی۔
٭ خلافت خامسہ میں ربوہ میں سرائے مسرور وغیرہ عمارات کی تعمیر جبکہ قادیان میں دارالمسیح اور مقامات مقدسہ کی عمارات کی Preservation اور Refurbishment پر کام ہوئے۔ یورپ میں متعدد مشن ہاؤسز اور مساجد کی بحالی اور مرمت اور بعض نئے پراجیکٹ ڈیزائن ہوئے۔ جرمنی میں سو مساجد کا منصوبہ شروع کیا گیا۔ افریقن ممالک میں صاف پینے کے پانی کے پرانے پمپوں کی بحالی، نئے واٹر پمپ اور سستی اور کم لاگت سے سولر اور وِنڈ انرجی کے یونٹ لگائے گئے۔ اسی طرح Architectural & Structural خدمات میں سستے گھر اور ماڈل ویلیجز (Villages) اور اسی طرح سکولوں اور ہسپتالوں اور مشن ہاؤسز اور مساجد کے ڈیزائن اور تعمیراتی نگرانی وغیرہ شامل ہیں۔
خدمت خلق کے جذبہ کے تحت IAAAE کے ممبران کو اس وقت جن عالمی منصوبوں پر فنی خدمات کی توفیق ملی ہے یا مل رہی ہے ان میں سے بعض اہم پراجیکٹس درج ذیل ہیں
٭ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 2004ء میں افریقی ممالک کا دورہ فرمایا اور لندن واپسی پر IAAAE یورپین چیپٹر کے سمپوزیم سے 9 مئی 2004ء کو خطاب فرماتے ہوئے ممبران کو وقف عارضی پر افریقہ جاکر وہاں پینے کا پانی اور شمسی توانائی کے ذریعہ بجلی مہیا کرنے کا جائزہ لینے کی تحریک فرمائی۔
خلیفۂ وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے یورپین چیپٹر نے صاف پینے کے پانی کی آسان فراہمی کے لئے ایک کمیٹی ’’واٹر فار لائف کمیٹی‘‘ تشکیل دی جس نے حضور انور کی راہنمائی میں بڑا مفید کام کرنے کی توفیق پائی ہے۔ پہلے سے لگائے گئے ناکارہ پمپوں کو درست بنانا اس کمیٹی کی اوّلین ترجیح تھی۔ چنانچہ 2011ء تک 553 ہینڈپمپ آٹھ ممالک میں لگائے جاچکے تھے۔ ہیومینیٹی فرسٹ انجینئرز ایسوسی ایشن کے تحت لگائے جانے والے پمپ اس کے علاوہ تھے۔ اس دوران جامعہ احمدیہ اکرافوؔ گھانا میں بارش کا پانی سٹور کرکے استعمال کرنے کے منصوبہ کو بھی مکمل کیا گیا۔
شمسی اور ہوائی بجلی مہیا کرنے کے منصوبہ پر کام کرنے کے لئے یورپین چیپٹر نے "Alternate Energy Committee” تشکیل دی۔ کمیٹی کے ممبران کی افریقہ جاکر کی جانے والی تحقیق، مارکیٹ سروے اور ریسرچ کے بعد سولر انرجی (Solar Engergy) اور ونڈ ٹربائن (Wind Energy) کے یونٹ لگائے جانے کا منصوبہ بنایا گیا۔ پہلے اسلام آباد ٹلفورڈ میں تجرباتی طور پر دونوں Systems کو Install کیا گیا اور حضور انور نے اس کا تفصیلی مشاہدہ کیا اور منظوری عطا فرمائی۔ بعدازاں 2011ء تک سو سے زائد سولر (Solars) اور ونڈ (Wind) انرجی یونٹ 9 افریقی ممالک میں نصب کرکے 160 مقامات پر بجلی فراہم کی گئی۔ بعض ممالک کے بعض علاقوں میں لوگوں نے پہلی دفعہ بجلی کی روشنی دیکھی تو ان کی خوشی دیکھنے والی تھی۔ اس کے علاوہ مغربی افریقہ کے ممالک میں 1500 سولر لالٹین تقسیم کئے گئے۔
دراصل افریقہ میں صرف 23.5 فیصد لوگوں کو بجلی میسر ہے اور دیہات میں تو بجلی نہ ہونے کے برابر ہے جس سے نہ صرف بچے پڑھائی نہیں کرسکتے بلکہ ادویہ کے لئے ریفریجریٹروغیرہ بھی میسر نہیں اور جماعتیں MTA کی سہولت سے بھی محروم ہیں۔
افریقی ممالک میں تیسرا اہم کام جو IAAAE یورپین چیپٹر کو حضور انور نے تفویض کیا تھا وہ سستے مکانوں کی سہولت مہیا کرنا ہے اور اسی طرح مساجد اور مشن ہاؤسز، ہسپتالوں اور سکولوں کالجوں کے لئے آرکیٹیکچرل اور سول انجینئرنگ سروسز ہیں۔ اور کچھ مثالی دیہات (Model Village) بنانے کا پروگرام بھی ہے۔ چنانچہ پہلا ماڈل ویلج برکینا فاسو میں ’مہدی آباد‘ کے نام سے بنایا گیا جس میں ہر گھر میں شمسی توانائی کے ذریعہ بجلی اور پینے کے پانی کی ٹونٹی مہیا کی گئی ہے۔ زراعت کے لئے بھی پانی فراہم کیا گیا ہے۔ بعض دیگر ممالک میں بھی ایسے مثالی گاؤں بنائے جارہے ہیں۔
خدمت خلق کے عالمی ادارے اور شخصیات
لوئی بریل۔بریل سسٹم کا موجد
لوئی بریل 4؍ جنوری 1809ء کو پیرس کے نزدیک کادپرے نامی مقام پر پیدا ہوا۔ وہ ایک سائیس کا بیٹا تھا۔ تین برس کی عمر میں ایک حادثے کے نتیجے میں اس کی بینائی شدید متأثر ہوئی اور آئندہ چند ہی برسوںمیں وہ بصارت سے بالکل محروم ہو گیا۔ لوئی بریل نے نابینا بچوںکے ایک مدرسے نیشنل انسٹیٹیوٹ فار بلائنڈ چلڈرن میں تعلیم حاصل کی اور بعد میںوہیں مدرّس کے فرائض بھی انجام دینے لگا۔ اسی دوران اسے ایک ایسے طریقہ تعلیم کے بارے میں علم ہوا جو سپاہیوں کو رات کے وقت تعلیم دینے کے لئے اختیار کیا جاتا تھا۔ یہ طریقہ تعلیم توپخانہ کے ایک افسر چارلس باربیر Charles barbier کی اختراع تھا۔ جس میں 12 اُبھرے ہوئے نقطوں (Dots)سے حروف شناسی سکھائی جاتی تھی۔ بریل نے اس نظام پر مزید کام کیا اور اسے مزید آسان بنا دیا۔ اس نے حروف کی شناخت کے لئے چھ نقطوں پر مشتمل ایک سسٹم ترتیب دیا۔ جسے اس کے نام سے ہی موسوم کیا گیا اور اب یہ ’’بریل سسٹم‘‘ کے نام سے معروف ہے۔
بریل نے یہ سسٹم 1834ء میں ایجاد کیا تھامگر اسے شروع میں کوئی پذیرائی حاصل نہیں ہوئی اور نابینائوں کے سکولوں کے منتظمین نے اس سسٹم کو ناقابل عمل قرار دے دیا۔ 6 جنوری 1852ء کو 43برس کی عمر میں بریل کا انتقال ہو گیا۔ اُس کی وفات کے دو برس بعد 1854ء میں بریل کا ایجاد کردہ یہ سسٹم، نابینائوں کی تعلیم کے لئے منظور کرلیا گیا اور آج تک لاکھوں نابینا افراد اس سے مستفید ہوچکے ہیں۔
مظفر منصور کے ساتھ ایک شام
مظفر منصورغزل کے ایک جانے پہچانے اور مانے ہوئے احمدی شاعرہیں۔ ادبی دنیا میں جاذبیت، نمایاں حیثیت، شخصیت اور ہنر کے نمائندہ شاعر ہیں۔ آپ کی شاعری کے بارہ میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے ایک خط میں تحریر فرمایا: ’’چشم بددُور، واہ! واہ! کیا کلام ہے۔بہت ہی اعلیٰ درجے کا کلام ہے۔دیکھ کر حیران رہ گیا ہوں‘‘۔ ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا کے شمارہ برائے مارچ 2011ء میں جناب مظفرمنصور صاحب کے ساتھ ایک شعری نشست کی رپورٹ مکرم محمد اکرم یوسف صاحب کے قلم سے شائع ہوئی ہے۔ یہ نشست 18دسمبر 2010ء کی شا م منعقد ہوئی۔
جناب مظفر منصور کے خوبصورت کلام میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:
کس پہ کھلتا ہوں کتنا کھلتا ہوں
تنگ ہوں اپنی بے شماری پہ
…………………
وہ اِس ادا سے مرے ہم خرام چلتا ہے
بدن میں روح کاجیسے نظام چلتا ہے
فلک کی گردشیں ہیں اُس کے نقش پا میں اسیر
وہ آسماں سے یوں ہم کلام چلتا ہے
…………………
ایک تیرا ہی خواب ہو جیسے
اور سب کچھ عذاب ہو جیسے
یہ سمندر کہ میرا سینہ ہو
اور تُو ماہتاب ہو جیسے
…………………
لاہور کے شہیدوں کے نام:
چمکے گا یہ عالم اِنہی چہروں کی ضیاء سے
ٹُک میرے شہیدوں کو سرِدار تو دیکھو
پھر نعرۂ منصور سے روشن ہوا مقتل
ایک شمع فروزاں ہے سرِدار تو دیکھو
…………………
حضرت مسیح موعودؑ سے وابستگی کا اندازہی نرالا ہے :
یہ میری زندگی ورنہ گناہوں کے سوا کیا ہے
میں جیتا ہوں تمہارے ہی سہارے میرزا صاحب
گماں کرتا ہوں جیسے آپ نے مجھ کو پکارا ہو
میرا گر نام کوئی بھی پُکارے میرزا صاحب
…………………
ایک اور غزل میں یوں بیان کرتے ہیں
اُس کی آنکھوں میں ہیں کتنی کائناتوں کے سکوت
اُس کے قدموں سے سنورتاہے جو رستہ دیکھنا
ورنہ ہر اِک آن ہے اِک حشراپنی زندگی
ٹال دیتا ہے قیامت اُس کا چہرہ دیکھنا
اُس کی خوشبو ئے بدن سے جی اُٹھا میرا وجود
چشم ویراں کو گُلِ تر ہے مسیحا دیکھنا
…………………
قادیان کی مقدس بستی کی عظمت کا اظہار:
اک نگر جب قاضیاں سے قادیاں ہونے لگا
پھر ظہورِ مہدئ آخر زماں ہونے لگا
مرکزِ توحیدِ باری چُن لیا تقدیر نے
بے امانوں کے لئے دارلاماں ہونے لگا
…………………
تقریب کے اختتام سے قبل مہمان خصوصی جناب تسلیم الٰہی زُلفی نے بھی اپناکلام پیش کیا۔ آپ ایک معروف دانشور، مقبول صحافی، ’اردو ٹی وی‘ کے میزبان اور مشہور شاعر ہیں۔ آپ کے کلام میں سے چند شعر ملاحظہ فرمائیے :
صرف امید کے ساحل پہ کھڑے رہنے سے
پار ہوتا نہیں قسمت کا سمندر زلفی
خود کو بدلوگے ، تو ہر چیز بدل جائے گی
یونہی بدلا نہیں کرتا ہے مقدر زلفی
دم رخصت، کوئی چاہت بھرا فقرہ کہنا
کیا خبر، آخری ملنا ہو، مقدر زلفی
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے خدمت خلق کے حوالہ سے شائع ہونے والے جلسہ سالانہ نمبر 2011ء میں مکرم ابن کریم صاحب کی ایک نظم شائع ہوئی ہے جس میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:
خدمت کو ہی شعار بناتے رہے ہیں ہم
سارے جہاں کے بوجھ بٹاتے رہے ہیں ہم
نیکی کی ہر صدا پہ ہی لبیک ہم کہیں
دنیا بھی آخرت بھی کماتے رہے ہیں ہم
جب بھی لگے ہیں زخم دعائیں ہی ہم نے دیں
سینے سے ہر ستم کو لگاتے رہے ہیں ہم
مخلوق سے خلوص ہے محبوب تر ہمیں
خالق پہ اپنی جان لٹاتے رہے ہیں ہم
نیکی کوئی حقیر سمجھتے نہیں ہیں ہم
سنت یہ مصطفیٰؐ کی جگاتے رہے ہیں ہم