امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی 2017ء
ز…انفرادی و فیملی ملاقاتیں، سینکڑوں افراد نے اپنے پیارے آقا سے ذاتی ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ز…گزشتہ ایک سال کے اندر پاکستان سے آنے والے سات سو سے زائد افراد کے ساتھ اجتماعی ملاقات۔ز…تقریب آمین۔ز… مبلغین کے ساتھ میٹنگ میں مختلف امور کا جائزہ، اہم ہدایات اور مبلغین کے سوالات کے جوابات۔
15 ؍اپریل2017ء بروز ہفتہ
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح ساڑھے پانچ بجے تشریف لاکر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔
صبح حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک اور خطوط اور رپورٹس ملاحظہ فرمائیں اور حضورانور کی دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی۔
انفرادی و فیملی ملاقاتیں
سوا گیارہ بجے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لائے اور پروگرام کے مطابق فیملیز ملاقاتیں شروع ہوئیں۔
آج صبح کے اس سیشن میں 39فیملیز کے 141افراد نے اپنے پیارے آقا سے شرف ملاقات پایا۔ ان سبھی فیملیز اور احباب نے حضور انور کےسا تھ تصاویر بنوانے کی سعادت پائی۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں کو چاکلیٹ عطا فرمائے۔
آج ملاقات کرنے والوں میں جرمنی کی 26 مختلف جماعتوں سے آنے والے احباب اور فیملیز شامل تھیں۔
ملاقاتوں کا یہ پروگرام ایک بج کر چالیس منٹ تک جاری رہا۔
بعد ازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کچھ وقت کے لئے شعبہ جنرل سیکرٹری جماعت جرمنی کے دفتر میں تشریف لے گئے اور مکرم امیر صاحب جرمنی اور نیشنل جنرل سیکرٹری صاحب جماعت جرمنی کو آئندہ آنے والے جمعہ کے بہتر انتظامات کے حوالہ سے بعض ہدایات دیں۔
حضور انور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایاکہ کل کے جمعہ میں جو کمیاں اور نقائص رہ گئے ہیں اس کے حوالہ سے آئندہ جمعہ کے لئے بہتر تیاری ہونی چاہئے اور اس بارہ میں سوچیں اور بہتر پلاننگ کریں کہ کس طرح آئندہ آنے والے جمعہ کے لئے بہتر انتظامات کریں گے تاکہ لوگوں کا جمعہ ضائع نہ ہو۔ اگر اپنے انتظامات کے مطابق تعداد معیّن کرنی ہے کہ اس سے بڑھ کر لوگ نہ آئیں تو پھر پہلے سے ہی علاقے اور فاصلے معیّن کریں کہ اتنے فاصلہ تک اِن اِن علاقوں اور جماعتوں کے لوگ جمعہ کی ادائیگی کے لئے آئیں۔ اس سے دُور کے علاقوں کے لوگ نہ آئیں ا ور وہ مقامی طور پر ہی جمعہ ادا کریں۔ اس کی اطلاعیں پہلے سے ہی سب کو ہونی چاہئیں۔
حضور انور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایاکہ جن تین ہزار لوگوں کو واپس جانا پڑا ہے اور وہ نماز جمعہ ادا نہیں کرسکے اور ان کا جمعہ ضائع ہوا ہےان سب لوگوں سے فوری طور پر معذرت کریں۔ آپ کی طرف سے ان کو معذرت کا پیغام جانا چاہئے۔
بعدازاں دو بجے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشریف لاکر نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔
گزشتہ ایک سال کے اندرپاکستان سے آنے والے افراد کے ساتھ اجتماعی ملاقات
آج پچھلے پہر پروگرام کے مطابق پاکستان سے آنے والے اُن احباب کی حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کا انتظام کیا گیا تھا جو گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان سے یہاں پہنچے تھے۔ مردوں اور خواتین کی علیحدہ علیحدہ گروپ ملاقات تھی۔ مرد حضرات کی تعداد سات صد سے زائد تھی۔ ان کی ملاقات کا انتظام سپورٹس ہال میں کیا گیا تھا۔
پروگرام کے مطابق سوا چھ بجے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سپورٹس ہال میں تشریف لائے۔
حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کیا آپ سبھی گزشتہ ایک سال میں پاکستان سے آئے ہیں۔ اس پر سبھی نے اپنے ہاتھ کھڑے کئے۔ پھر حضور انور کےد ریافت فرمانے پر کہ کتنوں کے اسائلم کیسز پاس ہوچکے ہیں۔ ایک محدود تعداد نے اپنے ہاتھ کھڑے کئے۔ یہ سبھی وہ لوگ تھے جو اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی سعادت پارہے تھے۔
حضور انور کی اجازت سے لاہور سے آنے والے ایک دوست نے عرض کیا کہ پہلے ہم حضور کو ٹی وی پر دیکھتے تھے آج اپنے آقا کو اپنے سامنے دیکھ کر بے انتہا خوشی ہوئی ہے۔ اس قدر زیادہ خوشی ہے کہ مَیں بیان نہیں کرسکتا۔
ایک اور نوجوان نے عرض کیا کہ مَیں 6 مئی 2016ء کو لاہور سے یہاں پہنچا ہوں۔ پہلی دفعہ حضور انور سے مل کر بہت خوشی ہے۔ میرا کیس ابھی پاس نہیں ہوا۔ میرے لئے دعا کریں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔
نارووال سے آنے والے ایک نوجوان نے بتایا کہ مَیں دو سال قبل احمدی ہوا ہوں۔ میری چار سال کی بیٹی پاکستان میں ہے۔ اس کے لئے دعا کریں۔
حضور انور نے موصوف سے دریافت فرمایا کہ کس طرح احمدی ہوئے ہیں تو اس پر موصوف نے بتایا کہ مَیں جرنسلٹ تھا۔ مَیں بڑا سوچ سمجھ کر احمدی ہوا ہوں۔ آج خلافت کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے۔
ڈسکہ سے آنے والے ایک صاحب نے حضورانور کی خدمت میں دعا کی درخواست کی کہ میری فیملی اور بچوں کے لئے دعا کریں، سب پیچھے ہیں۔ یہاں میری پروٹوکول ہوئی ہے۔ اس پر حضورانور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔
گوجرانوالہ سے آنے والے ایک نوجوان نے عرض کیا کہ والدہ کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے ان کے لئے خاص دعا کریں۔ اس پر حضورانور نے فرمایا اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔
گوجرہ سے آنے والے ایک نوجوان نے اپنے والدمحترم کی صحت کے لئے دعا کی درخواست کی تو اس پر حضورانور نے فرمایا اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان سب احباب سے دریافت فرمایاکہ آپ نے جمعہ کہاں پڑھا تو اس پر سب نے اپنا ہاتھ کھڑا کرکے بتایا کہ ہم نے Raunheim میں (جہاں حضورانور نے نماز جمعہ پڑھائی تھی) جمعہ پڑھا تھا۔ ہم سب وہاں شامل ہوئے تھے۔
سرگودھا سے آنے والے ایک دوست نے عرض کیا کہ میری فیملی پاکستان میں ہے۔ میری بیٹی نے پاکستان سے حضورانور کو سلام بھیجا ہے۔ اس پر حضور انور نےفرمایا ’’وعلیکم السلام‘‘۔
ایک نوجوان نے بتایا کہ مَیں ادرحمہ ضلع سرگودھا سے ہوں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ وہاں کوئی باقی رہ گیا ہے یا سارے آگئے ہیں؟ موصوف نے عرض کیا کہ پاکستان میں تو ہمیں تبلیغ کا موقع نہیں ملتا تھا، یہاں ہم آزادی سے تبلیغ کرتے ہیں۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ وہاں پر مار کھانے کا موقع ملتا ہے۔
ایک دوست نے عرض کیا کہ میں لاہور سے آیا ہوں۔ یہاں ایک دوست میرے زیر تبلیغ ہیں۔ دعا کریں کہ وہ جلد بیعت کرلیں۔
ایک نوجوان نے عرض کیا کہ مَیں نے حضور انو رکی خدم تمیں صرف سلام کرنا ہے تاکہ باقیوں کو بھی بات کرنے کا موقع مل جائے۔ اس پر حضور انور نےفرمایا ’’وعلیکم السلام‘‘۔
ایک دوست نے عرض کیا کہ مَیں لاہور سے ہوں اور اپنی فیملی میں اکیلا احمدی ہوں۔ مَیں نے 2012ء میں بیعت کی تھی۔ والدہ احمدی تھیں۔ باقی سب غیراحمدی تھے۔ چھ بہن بھائی ہیں۔ والدہ کی وفات کے بعد مشکلات بڑھیں تو مجھے باہر نکلنا پڑا۔
ایک دوست نے عرض کیا کہ ہمارے لئے دعا کریں کہ ہماری یہ ہجرت دینی اور دنیاوی لحاظ سے بابرکت ہو۔
اس پر حضورانور نے فرمایا اصل یہی ہے کہ دین مدّنظر ہو۔ یہ نہ ہو کہ یہاں آئے اور دین کو بھول گئے۔ دین کو یاد رکھیں۔
بعدازاں ان تمام احباب نے جن کی تعداد سات صد سے زائد تھی اپنے پیارے آقا سے شرف مصافحہ کی سعادت حاصل کی۔ باری باری ہر ایک نے مصافحہ کیا اور اپنے آقا کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔ حضورانور نے ازراہ شفقت ان سے گفتگو بھی فرمائی۔ ہرایک نے حضورانور کی خدمت میں سلام عرض کیا اور اپنا مدّعا بیان کیا۔
پاکستان سے آنے والے اِن احباب اور نوجوانوں میں سے بعض انتہائی کسمپرسی اور بیکسی کی حالت میں تکلیفیں اٹھاکر یہاں پہنچے تھے۔ اور اپنے ہی وطن میں، اپنے ہی ہم وطنوں کے ظلم و ستم سے ستائے ہوئے تھے۔ پیارے آقا سے ملاقات ان کے لئے انتہائی تسکین قلب کا باعث بنی، جہاں انہیں اطمینان قلب نصیب ہوا۔ وہاں ان کے غم بھی کافور ہوئے۔ اپنے پیارے آقا سے ملاقات کے بعد جہاں ان کے چہروں پر مسکراہٹ تھی وہاں بعضوں کی آنکھیں نم تھیں اور آبدیدہ تھے۔ ان کی زندگیوں میں پہلی بار یہ مبارک اور بابرکت لمحات آئے کہ اپنے آقا کا قرب نصیب ہوااور شرف مصافحہ کی سعادت عطا ہوئی۔ اور یہ مبارک ساعتیں ان کے لئے آب حیات بن گئیں۔
ایک دوست کہنے لگے کہ آج زندگی کا مقصد پورا ہوگیا۔ ایک دوست نے کہا کہ اس وقت جو میرے جذبات ہیں مَیں بیان نہیں کرسکتا، ایک نوجوان نے کہا کہ آج میری زندگی کا حسین ترین دن ہے، مَیں نے حضور کو انتہائی قریب سے دیکھا اور شرف مصافحہ پایا۔ غرض ہر ایک کے اپنے اپنے جذبات تھے اور احساسات تھے جس کا اظہار ان کی نمناک آنکھوں سے ہو رہا تھا۔
مرداحباب کے ساتھ ملاقات کا یہ پروگرام سوا سات بجے تک جاری رہا۔
بعد ازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز لجنہ کے ہال میں تشریف لے گئے جہاں 32خواتین کے ایک گروپ نے اپنے پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت پائی۔ یہ وہ خواتین تھیں جو گزشتہ ایک سال کے دوران جرمنی پہنچی تھیں اور پہلی بار حضورانور سے ملاقات کی سعادت پا رہی تھیں۔ حضورانور نے ازراہ شفقت ان سے گفتگو فرمائی۔
انفرادی و فیملی ملاقاتیں
اس کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لے آئے جہاں پروگرام کے مطابق فیملیز ملاقاتیں شروع ہوئیں۔
اس پروگرام میں پندرہ فیملیز کے پچاس افراد نے حضورانور سے ملاقات کا شرف پایا۔ ہر ایک نے اپنے آقا کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں کو چاکلیٹ عطا فرمائے۔
ملاقاتوں کا یہ پروگرام ساڑھے آٹھ بجے تک جاری رہا۔
تقریب آمین
بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد میں تشریف لے آئے جہاں تقریب آمین کا آغاز ہوا۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل تیس بچوں اور بچیوں سے قرآن کریم کی ایک ایک آیت سنی اور آخر پر دعا کروائی
(بچے)زربن نوید، مرزا شعور احمد، صائم احمد، فیضان خان، کامران اسد، فراز علی، رانا قویم احمد سلمان شاہ، ساحل مجید، فراس حسن، فیروز خان، عاطف احمد، دانش احمد مرزا، ملک طلحہ احمد۔
(بچیاں)ردا احمد، نہال ملک، نائلہ سندھو، نائمہ سندھو، دانیہ عرفہ عمران، علیشہ احمد، علینہ احمد، عاتکہ احمد، حمدیٰ احمد، صبا نعیم، شمع ھبۃالبسیط، ھبۃالکافی خان، مسکان خالد محمود بھٹی، عطیۃالمتین، علینہ خواجہ، عطیۃالخبیر خان۔
تقریب آمین کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے
16 ؍اپریل2017ء بروز اتوار
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح ساڑھے پانچ بجے تشریف لاکر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔
صبح حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک اور رپورٹس ملاحظہ فرمائیں اور حضورانور مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروف رہے۔
انفرادی و فیملی ملاقاتیں
پروگرام کے مطابق سوا گیارہ بجے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لائے اور فیملیز ملاقاتیں شروع ہوئیں۔
آج پروگرام کے مطابق 46فیملیز کے 174افراد نے اپنے پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت پائی۔ یہ ملاقات کرنے والی فیملیز جرمنی کی مختلف 40 جماعتوں اور علاقوں سے آئی تھیں۔ بعض احباب اور فیملیز بڑے لمبے سفر طے کرکے اپنے پیارے آقا سے شرف ملاقات کے لئے پہنچے تھے۔
ان سبھی فیملیز اور احباب نے حضور انور کےسا تھ تصاویر بنوانے کی سعادت پائی۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں کو چاکلیٹ عطا فرمائے۔
ملاقاتوں کا یہ پروگرام ایک بج کر پینتیس منٹ تک جاری رہا۔ بعدازاں مکرم عابد وحید خان صاحب نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دفتری ملاقات کی سعادت حاصل کی۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دو بجے تشریف لاکر نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔
پچھلے پہر بھی حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دفتری امور کی انجام دہی میں مصروف رہے۔
انفرادی و فیملی ملاقاتیں
پروگرام کے مطابق سوا چھ بجے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لے آئے اور فیملیز ملاقاتیں شروع ہوئیں۔
آج شام کے اس سیشن میں 38 فیملیز کے 151 افراد نے اپنے آقا سے ملاقات کی سعادت پائی۔ ملاقات کرنے والی یہ فیملیز جرمنی کی درج ذیل جماعتوں سے آئی تھیں Dietzenbach, Roedelheim, Kaanichstein West, Freiburg, Paderborn, Herborn, Boeblingen, Heilbronn, Neuwied, Pfungstadt, Wuerzburg, Friedrichsdorf, Soest, Limeshein, Stein Bach, Uringen, Homburg/Saar, Florsheim, Ginnheim, Ruedesheim, ، ہائیڈل برگ، مور فیلڈن، ڈرامسٹڈ، رُسل ہیم ویسٹ، گراس گیراؤ اور ویزبادن۔ بعض ان میں سے بڑے لمبے سفر طے کرکے آئی تھیں۔
اس کے علاوہ دبئی جماعت سے آنے والے بعض احباب نے بھی ملاقات کی سعادت پائی۔
آج بھی ملاقات کرنے والی یہ سبھی وہ فیملیز تھیں جو اپنی زندگی میں پہلی بار حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے شرف ملاقات پا رہی تھیں۔ آج کا دن ان کی زندگی میں ان کے لئے اور ان کی اولادوں کے لئے ایک یادگاری دن تھا۔ یہ لوگ اپنے پیارے آقا سے پہلی بار ملے تھے اور آج کے یہ چند لمحات ان کی ساری زندگی کا سرمایہ تھے۔ ان سبھی نے اپنے آقا کے ساتھ ان مبارک لمحات کو تصاویر میں محفوظ کیا جو اب اُن کے گھروں کی زینت بنیں گی اور ان کی آئندہ آنے والی اولادوں کے لئے بھی ایک قیمتی خزانہ ہوں گی۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں کو چاکلیٹ عطا فرمائے۔
ملاقاتوں کا یہ پروگرام آٹھ بجے تک جاری رہا۔
تقریب آمین
بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد میں تشریف لے آئے جہاں پروگرام کے مطابق تقریب آمین کا انعقاد ہوا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل تیس بچوں اور بچیوں سے قرآن کریم کی ایک ایک آیت سنی اور آخر پر دعا کروائی
(بچے)شایان احمد باجوہ، عمران عارف، ابصر بلال بھٹی، رضوان احمد ملک، صفوان احمد رانا، باسم لقمان کاہلوں، عبدالکافی محمود، ثاقب محمود، سیّد عطاء الباقی۔
(بچیاں)نورین احمد، نائمہ رضا، سارہ شہزاد، عاطفہ رفیق، افشا نور قاضی، جائشہ احمد عطیۃالاوّل بٹ، امواز ودود ساہی، ایشا کنول احمد، رُمیحا سمرہ راجا، مدیحہ احمد، ضُحیٰ ذیشان، باسمہ افضل، مریم عابد، ازکیٰ خلعت، سبیکہ حمید، یاسمین سیّد، سیّد ایمان، آصفۃالنور نواز، امۃالباری نواز، فریحہ مبارک رانا۔
تقریب آمین کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کروائی۔ ابھی نماز مغرب و عشاء کی ادائیگی میں دس منٹ کا وقت باقی تھا۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس دوران تشریف فرما رہے اور اپنے سامنے بیٹھے ہوئے بچوںکو و اپنے قریب بلالیا اور ازراہ شفقت ان بچوں سے گفتگو فرمائی۔ ان سے ان کی کلاسز اور تعلیم کے بارہ میں پوچھا۔ ان سبھی بچوں نے اپنے پیارے آقا سے شرف مصافحہ حاصل کیا اور دست مبارک کا بوسہ لیا۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ازراہ شفقت ان بچوں کے چہروں پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی انگوٹھی مَسْ کی۔ کتنے ہی خوش نصیب یہ بچے تھے جو ایسی لافانی برکت لے گئے جو قسمت والوں کو ہی نصیب ہوتی ہے۔
ان بچوں کے پیچھے ایک بچی بیٹھی ہوئی تھی۔ حضورانور نے ازراہ شفقت اس سے دریافت فرمایا کہ تمہاری آمین ہوئی ہے۔ قرآن کریم روزانہ پڑھتی ہو۔ بچی نے جواب دیا کہ مَیں روزانہ قرآن کریم پڑھتی ہوں۔
ایک بچے نے اپنا ہاتھ حضورانور کو دکھایا کہ اسے پھلبہری کی تکلیف ہے۔ اس پر بچے کے والد نے اس کی بیماری کی قدرے تفصیل بتائی اور بتایا کہ اب ڈاکٹر وقار بسراء صاحب سے ہومیوپیتھک علاج جاری ہے۔ حضورانور نے فرمایا: اللہ فضل فرمائے۔
ایک نوجوان نے عرض کیا کہ میری والدہ تھائی لینڈ میں ہیں۔ دعا کریں کہ ان کا کیس پاس ہوجائے، انہوں نے حضور انور کو سلام بھجوایا ہے۔ اس پر حضور انور نے فرمایا ’’وعلیکم السلام‘‘۔ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔
ایک نوجوان نے عرض کیا کہ میری بیٹی نے امتحان دینا ہے اس کی کامیابی کے لئے دعا کریں۔ اس پرحضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔
ایک نوجوان نے عرض کیا کہ مَیں پاکستان سے آیا ہوں اور اکنامکس میں ماسٹرز کر رہا ہوں۔ کامیابی کے لئے دعا کی درخواست کرتا ہوں۔اس پرحضور انور نے فرمایا اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔
بعد ازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے
17 ؍اپریل2017ء بروز سوموار
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح ساڑھے پانچ بجے تشریف لاکر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی جائے رہائش پر تشریف لے گئے۔
صبح حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی۔
انفرادی و فیملی ملاقاتیں
پروگرام کے مطابق ساڑھے گیارہ بجے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لائے اور فیملیز ملاقاتیں شروع ہوئیں۔
آج صبح کے اس سیشن میں 49فیملیز کے 181افراد نے اپنے پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت پائی۔ ملاقات کرنے والی یہ فیملیز جرمنی کی 38 مختلف جماعتوں اور علاقوں سے آئی تھیں۔ ہر ایک فیملی نے حضورانور کےسا تھ تصاویر بنوانے کی سعادت پائی۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں کو چاکلیٹ عطا فرمائے۔
ملاقاتوں کا یہ پروگرام ایک بج کر چالیس منٹ تک جاری رہا۔ بعدازاں مکرم عابد وحید خان صاحب انچارج پریس اینڈ میڈیا آفس لندن نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملاقات کی سعادت پائی۔
بعدازاں دو بجے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشریف لاکر نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔
مبلغین سلسلہ (جرمنی) کے ساتھ میٹنگ
آج پروگرام کے مطابق جرمنی میں خدمت انجام دینے والے مبلغین کرام کی حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ایک میٹنگ تھی۔ اس میٹنگ میں جامعہ کینیڈا سے سال 2016ء میں فارغ التحصیل ہونے والے آٹھ مربیان بھی شامل تھے۔ یہ مربیان جو اپنی ٹریننگ پروگرام کے تحت لندن میں ہیں جرمنی کے اس سفر میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے قافلہ میں شامل ہیں۔
پروگرام کے مطابق چھ بجے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز میٹنگ کے لئے تشریف لائے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دعا کروائی۔
ز حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مبلغ انچارج صاحب جرمنی سے جماعتوں، مساجد اور سینٹرز کی تعداد اور مبلغین کی تعداد کے بارہ میں دریافت فرمایا۔ اس پر مبلغ انچارج صاحب نے بتایا کہ جماعتوں کی مجموعی تعداد 258 ہےاور مساجد کی تعداد 51 اور نماز سینٹرز کی تعداد 80 کے قریب ہے۔ اس وقت 52 مبلغین جرمنی میں خدمت سرانجام دے رہے ہیں جن میں سے 33مبلغین فیلڈ میں ہیں۔ 15 مبلغین جامعہ احمدیہ جرمنی میں بطور استاد خدمت سرانجام دے رہے ہیں جبکہ چار مبلغین جماعتی دفاتر میں خدمت پر مامور ہیں۔
ز بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے میدان عمل میں کام کرنے والے 33 مبلغین سے باری باری اُن کے سپرد جماعتوں اور حلقوں کی تعداد کے بارہ میں دریافت فرمایا۔ نیز حضور انور نے تفصیل کے ساتھ ہر ایک سے دریافت فرمایا کہ آپ نماز جمعہ کہاں کہاں پڑھاتے ہیں۔ ہر جماعت، حلقہ کی باری کتنی دیر بعد آتی ہے۔ اپنے سینٹر میں سال میں کتنے جمعے پڑھاتے ہیں۔ کن جماعتوں اور حلقوں کی تجنید زیادہ ہے اور کن کی کم ہے۔ ہر ایک کے سپرد علاقہ، ریجن میں کتنی مساجد ہیںا ور کتنے سینٹرز ہیں۔ اور جہاں مسجد یا نماز سینٹرز نہیں ہے وہاں جمعہ کا کیا انتظام ہوتا ہے۔
نیز حضور انور نے جمعہ کی حاضری کے بارہ میں بھی دریافت فرمایا کہ بڑی جماعتوں اور چھوٹی جماعتوں میں کیا حاضری ہوتی ہے۔ لوگ کتنے کتنے فاصلوں سے آتے ہیں۔ ہر ایک نے اپنے سپرد علاقہ کے حوالہ سے اپنی رپورٹ پیش کی۔
ز ایک مبلغ سلسلہ نے عرض کیا کہ میری ڈیوٹی شعبہ تبلیغ کے تحت ہے۔ اس پر حضورانور نے فرمایا کہ خواہ شعبہ تبلیغ کے تحت ہی ہو لیکن جمعہ پڑھا جاسکتا ہے۔
حضورانور نے فرمایا جن مربیان کی ڈیوٹی دفاتر میں ہے خواہ تصنیف میں ہے، اشاعت میں ہے، MTA میں ہے یا کسی اور دفتر میں ہے۔ سب مربیان مختلف جماعتوں میں جاکر جمعہ پڑھائیں گے۔ حضورانور نے فرمایا باقاعدہ آرگنائز کرکے، پلاننگ کرکے ان سب کو جماعتوں میں جمعہ پڑھانے کے لئے بھجوائیں۔ جماعتوں کی تعداد زیادہ ہے اور مبلغین کی تعداد کم ہے۔ اس لئے سب مبلغین جہاں بھی ہوں جمعہ پڑھائیں گے۔
ز دو مبلغین نے بتایا کہ ان کی شعبہ تبلیغ کے تحت ہاٹ لائن (Hot Line) پر ڈیوٹی ہے۔ اس پر حضورانور نے فرمایا کہ جمعہ کے دن اُس وقت کیا سوال آتے ہیں۔ اس پر عرض کیا گیا کہ لوگ زیادہ تر جمعہ کے وقت کے بارہ میں دریافت کرتے ہیں۔ اس پر حضورانور نے فرمایا کہ مربیان جمعہ کا وقت بتانے کے لئے نہیں ہیں۔ آپ دونوں بھی جماعتوں میں جاکر جمعہ پڑھائیں۔ کوئی یہاں نہیں بیٹھے گا۔
حضورانور نے فرمایا کہ غانا میں بھی یہ ہاٹ لائن کا سسٹم قائم ہے۔ جامعہ غانا کے سینئر کلاس کے طلباء لوگوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہیں۔ لوگوں سے رابطہ کرکے مزید کارروائی کرتے ہیں۔ ان سوال و جواب اور رابطوں کے نتیجہ میں وہاں بیعتیں بھی ہوئی ہیں۔ تو یہاں بھی جمعہ کے دن اس کام کے لئے جامعہ جرمنی کے سینئر طلباء کو بھجوایا جاسکتا ہے۔ ان کی ڈیوٹی لگائی جاسکتی ہے۔ بہرحال جو مبلغین ہیں وہ جمعہ پڑھائیں گے۔
ز ایک مبلغ سلسلہ نے عرض کیا کہ ان کی ڈیوٹی MTAمیں ہے۔ اس پر حضورانور نے فرمایا کہ جمعہ کے دن جائیں ا ور کسی جماعت میں جمعہ پڑھائیں۔
ز ایک مبلغ سلسلہ نے عرض کیا کہ میری ڈیوٹی شعبہ سمعی و بصری میں پروگراموں کی چیکنگ پر ہے اور مَیں نماز جمعہ مسجد نُور میں پڑھاتا ہوں۔ اس پر حضورانور نے فرمایا ٹھیک ہے۔
ز دو مربیان نے عرض کیا کہ وہ جماعتی پروگرام کے تحت یونیورسٹی میں مزید تعلیم حاصل کررہے ہیں اور جس جماعت میں مقیم ہیں وہاں دیگر جماعتی ذمّہ داریاں بھی ادا کرتے ہیں۔ اس پر حضورانور نے فرمایا ٹھیک ہے۔
ز مبلغ سلسلہ محمد اشرف ضیاء صاحب جو یہاں بیت السبوح سینٹر میں کام کر رہے ہیں اور ان کے سپرد بلغاریہ کے حوالہ سے نگرانی اور لٹریچر کی تیاری اور سو مساجد کی تعمیر کے حوالہ سے بعض کام سپرد ہیں۔ ان کے بارہ میں حضورانور نے ارشاد فرمایا کہ ان کو یہاں سے میدان عمل میں بھجوائیں، کسی جماعت میں بھجوائیں اور وہاں ان کی پوسٹنگ کریں۔ جو بلغارین زبان میں لٹریچر وغیرہ کی تیاری ہے، جہاں بھی تعیّن ہوگا وہاں سے کرسکتے ہیں۔ باقی اگر تعمیر مساجد کے تحت کسی جماعت میں بھجوانا ہے تو جہاں ان کا تقرر ہوگا وہاں سے بھی بھجواسکتے ہیں۔ حضورانور نے فرمایا کہ اِن کو کسی مشکل سینٹر میں بھیجیں جہاں لوگ سپیشل تربیت چاہتے ہیں۔
ز جامعہ کے اساتذہ کے بارہ میں حضورانور نے ہدایت فرمائی کہ جامعہ میں چھٹیاں ہوتی ہیں تو اس دوران ان اساتذہ سے بھی کام لیا جاسکتا ہے۔ اساتذہ کا پروگرام پرنسپل صاحب کے ساتھ مل کر اس طرح بنائیں کہ جماعتوں میں جاکر جمعہ بھی پڑھائیں اور سال میں جو تین دفعہ رخصتیں ہوتی ہیں تو اس دوران ان سے استفادہ کریں اور ان کو جماعتوں میں تربیتی پروگراموں کے لئے بھجوایا کریں۔
ز حضورانور نے فرمایا کہ جامعہ احمدیہ ربوہ کے اساتذہ جماعتوں میں جاکر دورے کرتے ہیں تو یہاں جامعہ کے اساتذہ کیوں نہیں کرسکتے۔
ز ایک مبلغ سلسلہ نے عرض کیا کہ خدام الاحمدیہ میں شعبہ اعتماد میں کام کرتا ہوں۔ اس پر حضورانور نے فرمایا شعبہ اعتماد میں ڈیوٹی دے رہے ہیں تو اپنی مجالس کے دورے بھی کیا کریں۔
ز موازنہ مذاہب کے استاد شعیب عمر صاحب نے بتایا کہ جامعہ جرمنی سے سال 2015ء میں فارغ التحصیل ہوئے تھے۔ اب موازنہ مذاہب کے مضمون میں تخصّص کر رہے ہیں۔ پرنسپل صاحب جامعہ جرمنی نے بتایا کہ ربوہ سے موازنہ مذاہب کا نصاب منگوایا گیا ہے اس کے مطابق یہ پڑھ رہے ہیں اور تخصّص کر رہے ہیں۔ اس پر حضورانور نے فرمایا کہ یہ باقاعدہ اپنی پڑھائی اور کارگزاری کی رپورٹ پرنسپل صاحب کو دیا کریں۔ اور پرنسپل صاحب نگرانی بھی رکھیں۔
ز حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ جامعہ احمدیہ کے قریب ترین جو جماعتیں ہیں اور سینٹر ہیں آپ وہاں نماز جمعہ پڑھانے کے لئے جامعہ احمدیہ کے اساتذہ کو بھی بھجواسکتے ہیں۔ کم از کم سال کے 26 جمعے تو آرام سے پڑھا سکتے ہیں۔ اساتذہ کو جامعہ کی رخصتوں میں بھی استعمال کریں۔ ان کی سَمَر (Summer) کی لمبی چھٹیاں ہوتی ہیں پھر Term کے بعد بھی دو دفعہ چھٹیاں ہوتی ہیں۔ اس طرح تقریباً تین دفعہ چھٹیاں ہوتی ہیں۔ پندرہ پندرہ دنوں میں اور دو مہینے کے لئے، اس میں ان سے استفادہ کریں۔ ان کو تربیتی پروگراموں کے لئے بھیجا کریں اور جو انکار کرے اُس کی مجھے رپورٹ کریں۔
ز حضورانور نے فرمایا کہ میری اطلاع کے مطابق جب بعض جماعتیں اپنے تبلیغی پروگرام بناتی ہیں تو آپ لوگ عین وقت پر ان پروگراموں میں شامل ہونے سے انکار کر دیتے ہیں کہ ہمارے پاس وقت نہیں ہے اور فلاں جگہ پر مصروفیت ہے۔ بعض دفعہ تو شروع میں انکار کردیتے ہیں۔ بعض مربیان کے بارہ میں یہ شکایت ہے کہ وہ ہاں کرکے پھر عین موقع پر کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں فلاں مصروفیت ہوگئی ہے۔ ہم آ نہیں سکتے۔ یہ بالکل غلط طریقہ ہے۔
ز حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مبلغ انچارج صاحب کو مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا جماعتیں جو پروگرام بناتی ہیں اور مبلغین کو بلاتی ہیں۔ صدر جماعت یا ریجنل امیر یا جو بھی متعلقہ عہدیدار ہے جس نے پروگرام آرگنائز کیا ہے وہ آپ کو اطلاع کیا کرے کہ ہم نے یہ پروگرام بنایا ہے۔ آگے آپ کا کام ہے کہ آپ دیکھیں کہ اس پروگرام پر عمل ہوا ہے یا نہیں اور اگر مربی نے کسی وجہ سے شامل ہونے سے انکار کیا ہے تو کیا Genuine وجہ تھی یا عادتاً انکار کردیا ہے۔ آپ اپنے اِن پروگراموں کے لئے جامعہ کے اساتذہ سے بھی فائدہ اٹھائیں۔
ز حضورانور نے فرمایا پرنسپل جامعہ جرمنی شمشاد احمد قمر صاحب جامعہ احمدیہ ربوہ میں پڑھاتے رہے ہیں اور جماعتی دوروں پر بھی جاتے رہےہیں تو یہاں کے اساتذہ کیوں نہیں جاسکتے۔ جو مربی دفاتر میں یا اداروں میں کام کررہے ہیں ان سے استفادہ کریں اور جماعتی پروگراموں میں بھجوایا کریں۔ میرے نزدیک نکمّے مربی وہ ہیں جو گھر میں بیٹھے رہتے ہیں۔ باقی سب وقت دیتے ہیں۔ وقف زندگی کا مقصد ہی یہ ہے کہ آپ کے چوبیس گھنٹے وقف ہیں، ہفتہ کے ساتوں دن اور سال کے 365 دن وقف ہیں۔
ز حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ ایک یہ بھی شکایت ہے کہ بعض جگہ، بعض دفعہ مال کا بھی ضیاع ہوتا ہے۔ دورے پر جا رہے ہیں تو پلاننگ کرکے جانا چاہئے کہ کم سے کم خرچ میں آپ کہاں پہنچ سکتے ہیں۔ چھوٹی کاریں استعمال کریں تاکہ کم خرچ ہو، پٹرول بھی کم خرچ ہوگا۔ پھر مشن ہاؤس کے یا دوسرے اخراجات ہیں ان پر بھی ہر مربی کو نظر رکھنی چاہئے کہ کم سے کم خرچ کرے اور دیکھے کہ جماعت پر زیادہ مالی بوجھ نہ پڑے۔
آپ نے یہ نہیں دیکھنا کہ فلاں عہدیدار کتنا خرچ کرتا ہے یا جماعت کس طرح خرچ کررہی ہے۔ آپ نے یہ دیکھنا ہے کہ آپ نے کس حَد تک جماعتی اموال کو بچانا ہے اور دوسروں کو بھی نصیحت کرنی ہے۔ جب تک خود اخراجات کو کنٹرول نہیں کریں گے دوسروں کو نصیحت نہیں کرسکتے۔ بعض جماعتیں، بعض عہدیدار، بعض صدران اور امراء اگر زیادہ اخراجات کر رہے ہیں تو وہاں آپ کا کام ہے ان کو سمجھانا اور جماعتی اموال پر نظر رکھنا۔ لیکن اگر آپ کا اپنا خرچ خود Controlled نہیں ہے اور آپ لوگ زیادہ Demanding ہیں تو پھر عہدیدار بھی آپ پر انگلیاں اٹھائیں گے کہ پہلے اپنے آپ کو سنبھالو۔ ہمیں کیا نصیحت کر رہے ہو۔
ز حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اسی طرح ہر مربی کا کام ہے کہ دوسرے مربی کی عزّت اور احترام کرے۔ یہ بھی مجھے رپورٹ ملی ہے کہ بعض دفعہ آپ لوگ دفتروں میں بیٹھے ہوئے دوسروں کے بارہ میں ہنسی ٹھٹھا اور استہزاء بہت زیادہ کررہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہاں بیٹھے ہوئے دوسرے کارکنوں پر بہت غلط اثر پیدا ہوتا ہے۔
دفاتر میں کام کرنے والے مربیان کا کام ہے کہ اپنے کام سے کام رکھیں۔ دوسرے لوگوں کو تو کھڑے ہوکر لیکچر دیتے ہیں عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْن۔ مگر آپ لوگ لغو میں پڑے ہوتے ہیں۔ فضولیات، گپ بازی، لوگوں کی ٹانگیں کھینچنا بعض مربیان کی شکایت ہے وہ اس میں مبتلا ہیں۔ بجائے اس کے کہ مَیں نام لے کر بتاؤں مَیں جنرل کہہ رہا ہوں۔ جن جن میں ہے وہ اپنی کمزوریوں پر نظر رکھے۔ دوسروں کی کمزوریاں تلاش کرنے کی بجائے اپنے آپ کو دیکھیں اور پھر پردہ پوشی کی بھی عادت ڈالیں۔ مَیں نے چند ہفتہ پہلے جو ایک تفصیلی خطبہ بھی دیا تھا اس کو غور سے سنیں۔
ز حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اگر آپ نے اپنی اصلاح کرلی اور کنٹرول کرلیا تب ہی آپ جماعت کو صحیح طرح سمجھاسکتے ہیں اور تب ہی ایسے عہدیداران جو مربیان پر اعتراض کرنے والے ہیں، غلط اعتراض کرنے والے بہت سے ہیں، ان کے اعتراض اُسی وقت آپ ردّ کرسکتے ہیں یا ختم کرسکتے ہیں یا ان کو جواب دے سکتے ہیں یا ان کی اصلاح کرسکتے ہیں یا امیر صاحب کو اور مشنری انچارج صاحب کو یا انتظامیہ کو بتاسکتے ہیں یا مجھے لکھ سکتے ہیں جب خود آپ میں ہر طرح کی انسانی حَد تک جتنی حَد تک Perfection ہوسکتی ہے وہ ہو اور اصلاح کی طرف توجہ ہو۔ کمزوریاں، کمیاں ہوتی ہیں لیکن جماعتوں کو کبھی موقع نہ دیں کہ جماعتیں یا عہدیداران آپ پر انگلی اٹھائیں۔ یہ نہ سمجھیں کہ لیکچر ہم دیتے ہیں، نصیحتیں بھی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو جان دینی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو جواب دینا ہے تو پھر اُسی کو ہر چیز سمجھیں۔ نہ کوئی عہدیدار آپ کے سامنے کوئی حیثیت رکھتا ہے نہ امیر جماعت، نہ کوئی اَور۔ آپ ایک چیز کو صحیح سمجھتے ہیں تو وہ کریں اور جب اپنی بات اپنے سے بڑے عہدیدار کو یا امیر جماعت کو یا مشنری انچارج کو پہنچا دیتے ہیں اور مشنری انچارج اپنی شکایات اور Concerns امیر صاحب تک پہنچا دیتے ہیں اور اس پر وہاں کوئی عمل نہیں ہو رہا اور بات بھی جماعتی مفادات کے خلاف ہے تو پھر، مَیں پہلے بھی بڑا کھل کر بیان کرچکا ہوں کہ مجھے لکھیں کہ یہ باتیں ایسی ہیں جو جماعتی مفادات کے خلاف ہو رہی ہیں اور ہم نے امیر صاحب یا مشنری انچارج صاحب کو لکھا ہے لیکن اس کے باوجود اس پر عمل نہیں ہورہا یا اس کے خلاف جو کارروائی ہونی چاہئے تھی وہ نہیں ہورہی، جس کی وجہ سے جماعتوں پر اور افراد جماعت پر بُرا اثر پڑرہا ہے۔ تاکہ اس کا جائزہ لیا جائے اور دیکھا جائے کہ کس طرح اس کا مداوا کرنا ہے۔ اور جب ایک دفعہ مجھے لکھ دیا تو پھر آپ کا کام نہیں کہ اِدھر اُدھر بیٹھ کر باتیں کریں۔ پھر کامل اطاعت کے ساتھ اپنا کام کئے جائیں۔ جہاں ہم نے Action لینا ہوگا ہم لے لیں گے۔ لیکن مطلع کرنا بہرحال آپ کا کام ہے۔
ز حضورانور نے فرمایا کہ اسی طرح جامعہ احمدیہ کے اساتذہ نے زیادہ سے زیادہ وقت جماعتی کاموں کے لئے دینا ہے۔ صرف یہ نہیں کہ سال میں تین مہینے کی چھٹیاں مناتے رہیں۔ باقی اگر کوئی کام کررہے ہیں تو ٹھیک ہے۔ اگر زائد کام کسی کے سپرد نہیں ہے تو ان لوگوں سے بھی جس طرح آپ استفادہ کرسکتے ہیں زیادہ سے زیادہ کریں۔
ز حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جامعہ کے حوالہ سے مَیں بتادوں کہ آپ لوگ انتظامی لحاظ سے آزاد ہیں۔ مَیں کئی دفعہ پہلے بھی لکھ کے دے چکا ہوں۔ مجھے پھر بھی بعض دفعہ یہ تأثر مل جاتا ہے کہ بعض عہدیداران جو ہیں جامعہ کے معاملات میں دخل دیتے ہیں یا مربیان کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں یا جامعہ کے اساتذہ میں سے بعض مربیان ایسے ہیں جو انتظامیہ کے ساتھ جاکے باتیں کرتے ہیں۔ یہ سارے غلط طریق کار ہیں۔ آپ لوگوں کا کام ہے کہ جس جس ماحول میں جہاں جہاں کام کررہے ہیں یا جس ادارہ میں بھی آپ کو لگایا گیا ہے وہاں کی ہر بات آپ کے پاس امانت ہے اور امانت کو صحیح طرح ادا کرنا آپ کا فرض ہے۔
اگر جامعہ کے بارہ میں، پڑھائی کے بارہ میں یا سٹوڈنٹ کے بارہ میں یا کوئی Concern ہے یا اگر کہیں دیکھیں کہ کسی بھی طرح دخل اندازی ہورہی ہے تو پرنسپل تک پہنچائیںا ور اس کے بعد مجھ تک پہنچائیں۔ جب پہنچادیں تو پھر آپ کا کام ختم۔ آپ بری الذمّہ ہیں۔ لیکن اگر نہیں پہنچاتے تو آپ لوگ مجرم ہیں۔
ز حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اسی طرح باقی مربیان اگر فیلڈ میں دیکھیں کہ عہدیداران ہیں، صدران ہیں، ریجنل امیر ہیں یا کوئی بھی بڑی سطح کے عہدیدار ہوں یا مرکز کے عہدیداران ہوں، کہیں بھی کوئی چیز خلافِ تعلیم یا خلافِ روایتِ سلسلہ دیکھیں تو اس کو وہاں روکنے کی کوشش کریں اور اُس کو اِسی صورت میں روک سکتے ہیں جب آپ لوگ پہلے خود اپنی اصلاح کرنے والے ہوں۔
ز حضورانور نے فرمایا کہ ایک اور شکایت امیر صاحب کے حوالے سے ہے کہ آجکل بہت سارے Contemporary Issues ہیں جن کے بارہ میں میٹنگز میں جواب دینا پڑتا ہے۔ موعظہ حسنہ یعنی اچھے طریقہ سے، حکمت سے جواب دینے کا حکم تو ہے بے شک وہ کریں لیکن مجھے لوگ اس بارہ میں شکایت کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ امیر صاحب کہتے ہیں کہ Diplomatically جواب دیا کرو۔ ہمارا کام Diplomacy نہیں ہے۔ آپ نے Contemporary Issues کی کسی بات کا جواب دینا ہے جو آجکل بہت سارے ہیں مثلاً عورتوں کا مصافحہ کرنا، عورتوں کا حجاب، Homosexuality وغیرہ، اس قسم کی باتوں کا مذہب کی تعلیم کے مطابق جواب دینا ہے۔ ہم نے نہ کسی پریس سے ڈرنا ہے، نہ کسی گورنمنٹ اور نہ کسی حکومتی اداروں سے ڈرنا ہے اور نہ ہی اخباروں سے یا کسی بھی میڈیا سے لیکن جواب ایسا ہونا چاہئے جو حکمت سے ہو، حکمت کا جواب ہو۔ لیکن یہ یاد رکھیں کہ مداہنت نہ ہو، Diplomacy ہمارا کام نہیں ہے۔ لوگ اس قسم کے سوالات میرے سے بھی پوچھتے ہیں۔ مَیں جواب دیتا ہوں۔ ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
ز حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ پہلی بنیادی چیز تو یہ ہے کہ مَیں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ مذہب معاشرہ کی اصلاح کے لئے آتا ہے۔ لوگوں کی اصلاح کے لئے آتا ہے۔ مذہب لوگوں کے پیچھے چلنے کے لئے نہیں آتا۔ آجکل آزادی کے نام پر جو نئے نئے قوانین بن رہے ہیں ان میں کمی ہوسکتی ہے وہ غلط ہوسکتے ہیں لیکن جو اللہ تعالیٰ کی باتیں ہیں وہ غلط نہیں ہوسکتیں۔ جو مذہب نے ہمیں بتادیا وہ غلط نہیں ہوسکتا۔ اس لئے آپ کی پہلی ترجیح بہرحال مذہب ہے اور اس کو بنیاد بناتے ہوئے حکمت سے آپ نے جواب دینا ہے۔
نوجوان مربیان بعض دفعہ متأثر ہوجاتے ہیں اس لئے مربیان ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ مخالفت سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مخالفت ہوگی تو تبلیغ بھی ہوگی۔ ان لوگوں کی اصلاح ہم نے کرنی ہے۔ ہم نے ان کو اپنے پیچھے چلانا ہے۔ خود دنیا کے پیچھے نہیں چلنا۔
حضورانور نے فرمایا کہ نوجوان مربیان کو مَیں خاص طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ آپ لوگوں نے ڈرنا نہیں اور آپ نے بغیر ڈرے سارے Isues حکمت سے، قرآنی تعلیم کے مطابق، اسلامی تعلیم کے مطابق Tackle کرنے ہیں۔ جہاں دیکھیں جھگڑا ہے وہاں کہہ دیں کیونکہ تمہارا جھگڑا کرنے کا ارادہ ہے اس لئے ہم تمہارے ان معاملوں کا جواب نہیں دیتے۔ لیکن ایک مذہبی انسان کی حیثیت سے، ایک مشنری کی حیثیت سے ہم نے بہرحال اس تعلیم پر عمل کرنا ہے جو ہمیں ہمارے مذہب نے دی ہے۔ اس لئے یہ جو باریک لائن ہے Diplomacy اور حکمت کی اس کو مدّنظر رکھیں۔ Diplomacy یہ ہے کہ جھوٹ بھی بول دو۔ Diplomats جتنے بھی ہوتے ہیں جب ایمبیسیوں میں یا دوسرے سرکاری کاموں کے لئے جاتے ہیں تو ان کو یہ ٹریننگ دی جاتی ہے کہ جہاں ضرورت ہو جھوٹ بول دو۔ مولانا مودودی صاحب کی طرح یہ نہیں کہنا کہ جہاں ضرورت ہو وہاں جھوٹ بولنے میں کوئی حرج نہیں۔ آپ نے ہر جگہ سچائی اور حکمت سے کام لینا ہے۔
ز حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اسی طرح مَیں نے خطبہ میں بھی کہا تھا کہ مشنری انچارج صاحب اور امیر صاحب کا کام ہے کہ مربیان کی عزّت ہر جگہ ہونی چاہئے۔ اس کو قائم کروانا آپ لوگوں کا کام ہے۔ جماعتوں میں یہ تربیت ہونی چاہئے کہ جہاں جہاں جماعتوں میں مربیان ہیں چاہے وہ نئے پاس ہوئے ہیں، چھوٹی عمر کے بھی ہیں ان کی عزّت کریں۔ مربی مربی ہے قطع نظر اس کے کہ اس کی عمر کیا ہے اور مربی کی جب تک عزّت قائم نہیں ہوگی وہ تربیت نہیں کرسکتا۔
ز حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ جب آپ پہلے اپنی تربیت کریں گے تو تبھی تبلیغ کے میدان کھلیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے پردہ پوشی کی ہوئی ہے کہ لوگوں کو ہماری طرف سے بہت نظر آتا ہے کہ ہم بڑے اچھے اخلاق والے ہیں۔ ہمارے کام بڑے اچھے ہیں، Organised لوگ ہیں اور ایک نظام ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے اندر کمزوریاں ہیں۔ ان پہ ہمیں نظررکھنی چاہئے۔ یہ فی الحال تو بڑی اچھی بات ہے کہ اگر کہیں اختلافات ہیں یا لوگ مربی کی عزت نہیں کر رہے تو لوگوں تک ظاہر نہیں ہوتی۔ لیکن کسی وقت ہو بھی سکتی ہیں تو پھر سارا اثر جو آپ نے قائم کیا ہوا ہے وہ ضائع ہوجائے گا۔ اس لئے امیر صاحب کا بھی اور مبلغ انچارج کا بھی یہ کام ہے کہ جماعتوں میں اور خاص طور پر عہدیداروں کی تربیت کرکے مربیان کی عزت قائم کروائیں۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا کہ خود مربیان کا بھی کام ہے کہ اپنا ایک نمونہ بنائیں کہ دوسروں کی جرأت نہ ہو کہ کوئی غلط بات آپ کی طرف منسوب کریں یا آپ کو تُوتکار کرکے مخاطب کریں۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگ مربیان کی غیرمعمولی عزّت کرتے ہیں اور بعض ایسے ہیں کہ مربی کا نام بھی اس طرح لیتے ہیں جیسے کسی چھوٹے بچے کا بھی نہیں لیا جاتا۔ اس چیز پر خاص طور پر نظر رکھیںا ور جماعتوں کے عہدیداروں کی بھی تربیت کریں اور جو عہدیدار تعاون نہ کرنے والے ہیں ان کی رپورٹ ہونی چاہئے۔ آپ خود اپنے مربیان کی عزّت قائم نہیں کروائیں گے تو عہدیدار کس طرح کریں گے۔ اس بارہ میں بھی آپ رپورٹ لیا کریں اور اپنے مربیان سے پوچھا کریں کہ تمہاری جماعتوں سے تمہارے سے رویّہ کیسا ہے اور آپ لوگ بھی بغیر ڈرے ہر بات بتایا کریں چاہے وہ مرکزی عہدیدار ہیں، نیشنل سطح کے عہدیدار ہیں یا مقامی سطح کے عہدیدار ہیں۔ آپ ہی کا کام ہے اور اس بارہ میں مَیں نے خطبہ میں بیان کیا تھا کہ عزت قائم کروائیں۔
حضورانور نے فرمایا کہ اطاعت مربی نے کرنی ہے وہ تو جہاں تک ہے اُس نے کرنی ہے قطع نظر اس کے کہ کوئی عزت کرتا ہے یا نہیں کرتا۔ اگر کوئی اس سے بڑا عہدیدار ہے یا جماعتی صدر ہے یا امیر ہے تو اس کی عزّت کریں لیکن ساتھ ہی اگر آپ کی بار بار مشنری انچارج اور امیر جماعت کے اطلاع کے، پھر بھی کچھ شکایات ہیں تو مجھے لکھا کریں۔ لیکن سب سے پہلے جو مَیں نے پہلے کہہ دیا ہے۔ دوبارہ، دوبارہ ، دوبارہ کہہ رہا ہوںکہ اپنی اصلاح پہلے کریں۔ اپنا دامن صاف ہوگا تو پھر آپ کے اوپر کوئی بھی انگلی اٹھائے گا تو پھر ہی اس کی پکڑ ہوسکتی ہے۔
ز حضورانور نے فرمایا کہ نئے مربیان کو تو مَیں اکثر کہتا رہتا ہوں۔ مجھے نہیں پتہ اُس پر عمل ہوتا ہے کہ نہیں ہوتا کہ اپنے آپ کو تہجّد کی عادت ڈالیں۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ جب راتیں چھوٹی ہوتی ہیں تو بڑی مشکل سے فجر پہ بھی اٹھتے ہیں۔ بہت ہی چھوٹی رات ہو تو کم از کم ڈیڑھ دو گھنٹے سونے کو مل ہی جاتے ہیں۔ اگر ارادہ ہو تو اتنے میں بھی نیند پوری ہوجاتی ہے۔
حضورانور نے فرمایا کہ مَیں نے ایک دفعہ وہاب آدم صاحب مرحوم کو دیکھا ہے کہ رات کو بارہ بجے وہ ایک لمبے سفر سے، ٹوٹی ہوئی سڑکوں سے دورہ کرکے آئے۔ وہاں چھوٹی سی جگہ تھی، ہم اکٹھے ہی ٹھہرے ہوئے تھے۔ آنے کے بعد وہ سوگئے تھے۔ مَیں رات کو ڈیڑھ بجے غسل خانہ کے لئے اٹھا تو مَیں نے دیکھا وہ ڈیڑھ بجے مسجد میں نفل پڑھ رہے تھے۔
آپ لوگ جب اس طرح کریں گے تو جماعتوں کو بھی تحریک پیدا ہوگی اور دعاؤں کے بغیر تو یہ کام نہیں ہوسکتا۔ اس لئے خاص طور پر مربی کے لئے بہرحال نوافل ضروری ہیں اور نمازوں کی باقاعدہ پابندی، باجماعت نمازوں کی ادائیگی، اس طرف توجہ کریں۔ چاہے کوئی مسجد میں آتا ہے یا نہیں آتا۔ آپ جب سینٹر کھولیں گے یا مسجد میں آئیں گے تو لوگوں کو احساس ہوگا، لوگوں کو پتہ ہوگا تو وہ خود آئیں گے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ مَیں نے یوکے میں خطبہ جمعہ کے بعد بعض جماعتوں سے میٹنگ کی کہ نمازوں کی طرف توجہ دیں تو ایک جماعت کے سیکرٹری تربیت اور صدر صاحب بتا رہے تھے کہ ہماری حاضری بڑھ گئی ہے۔ جب مَیں نے جائزہ لیا کتنی بڑھ گئی ہے تو کہنے لگے 33 فیصد حاضری ہوئی ہے، 34فیصد ہوگئی ہے۔ یہ تو کوئی حاضری نہیں۔فجر اور عشاء پر تو قریب رہنے والوں کی اچھی حاضری ہونی چاہئے۔ جو دُور رہنے والے ہیں ان کو تو کوئی بہانہ مل جاتا ہے۔
ان جماعتوں میں بھی کوشش کریں۔ یہ عادت ڈالیں اور تربیت کا ماحول ایسا پیدا کریں کہ لوگ اپنے اپنے گھروں میں خود نماز پڑھیں۔ اگر سینٹر دُور ہیں اور نہیں آسکتے یا کام سے واپس آئے ہیں اور تھکاوٹ ہے اور سینٹر آنا مشکل ہے تو پھر مربیان کا صرف خطبے سن لینا یا خطبے دے دینا کام نہیں ہے۔ فیلڈ میں جو موجود ہیں ان کا کام ہے کہ وہ پھر نگرانی بھی کریں کہ ان چیزوں پر عمل ہو رہا ہے کہ نہیں اور پھر بات وہیں آتی ہے کہ نگرانی اُسی وقت ہوسکتی ہے جب آدمی خود نگرانی کر رہا ہو۔
ز حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ عام لوگوں سے ملتے وقت آپ کا اخلاق کا اچھا نمونہ ہونا چاہئے، تبلیغ کے لئے پبلک ریلیشن میں اضافہ کریں۔ آپ کے ماحول میں سیاستدان ہیں یا پولیس والے ہیں یا دوسرے مذاہب کے لوگ ہیں اُن سب سے آپ کے رابطے بھی گہرے ہونے چاہئیں۔ عموماً بعض دفعہ اکثر جگہ بعض سیکرٹریانِ تبلیغ شکوہ کردیتے ہیں کہ مربیان ہمیں پوری طرح وقت نہیں دیتے۔ تو جہاں جہاں جماعتی پروگرام بن رہے ہوں آپ لوگوں کا کام ہے کہ پورا وقت دیں۔
ز حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ جامعہ کے اساتذہ سے جو کام لینا ہے وہ جامعہ کی وساطت سے ہی لینا ہے۔ پرنسپل صاحب کو لکھیں اور پرنسپل صاحب دیکھ کر اساتذہ کو Spare کریں۔ چھٹیاں ہونے سے پہلے پلان بناکر بھیجیں۔ اگر اساتذہ کا چھٹیوں میں کوئی ذاتی پلان ہے جو ایک ہفتہ سے زیادہ کا نہیں ہوگا تو وہ پرنسپل صاحب کو بھیج دیں اور دوسری طرف مشنری انچارج صاحب اپنا پلان تیار کرکے بھیج دیں کہ ان ان جماعتوں میں ہم نے بھیجنا ہے تو بتائیں کون سے دن، کتنے مربیان اور کون کون میسّر آسکتے ہیں۔ تو پھر جب پرنسپل صاحب کی طرف سے جوا ب آئے گا تو پھر آپ اِن کو Asign کرسکتے ہیں کہ فلاں فلاں جگہ چلے جاؤ۔ دونوں طرف سے محنت کی ضرورت ہے۔ محنت اور تعاون سے کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو حل نہ ہوسکتا ہو۔ اگر تعاون ہو تو سب کچھ ہوسکتا ہے۔ ہاں اگر لڑنا ہو تو سوکنوں کی طرح لڑتے رہیں تو کبھی نہیں ہوسکتا۔
مجلس سوال و جواب
ز بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مربیان کو سوالات کرنے کی اجازت عطا فرمائی۔
٭ ایک مربی سلسلہ نےسوال کیا کہ بعض بڑی عمر کے احباب کے خلاف کوئی جماعتی کارروائی ہوتی ہے تو جہاں وہ خود پیچھے ہٹتے ہیں وہاں وہ اپنے بچوں کو بھی ساتھ لے جاتے ہیں، اُن کو سمجھانے کی کوشش کرنے کے باوجود وہ سمجھتے نہیں۔
اس سوال کے جواب میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اگر کوئی بھی ممبر غلط کام کرتا ہے اور اُس کے خلاف جماعتی کارروائی اِس لئے ہوتی ہے کہ اس کی اصلاح ہو۔ اگر بجائے اصلاح کے احساس کے اُس میں بغاوت زیادہ اُبھرتی ہے تو پھر اُس کے لئے آپ دعا کرسکتے ہیں، اُس کو سمجھا تے رہیں۔ آپ کا کام سمجھانا ہے۔ مستقل مزاجی سے سمجھانا کام ہے۔ نہ نااُمید ہونے کی ضرورت ہے اور نہ تھکنے کی، 99فیصد لوگوں کی اصلاح تو ہوجاتی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ اگر کوئی ایسا ایک آدھ ہوتا ہے جس کی اصلاح نہیں ہوتی تو اس کے بچوں سے اگر وہ نوجوان ہیں تو آپ تعلق رکھیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ میں نے یوکے میں نوجوان مربیوں سے براہ راست ہدایت دے کر تجربہ کرواکے دیکھا ہے جو اسی طرح بگڑے ہوئے تھے۔ ان کے نوجوان بچوں سے جب رابطہ کیا گیا تو آہستہ آہستہ جب بچے قریب آرہے تھے تو ماں باپ کی انہوں نے آپ ہی اصلاح کرلی۔
وہاں بعض نوجوان جو ہیں ان کو عہدیداروں سے شکایات ہیں اور وہ زیادہ خراب ہونے والے لوگ ہیں۔ بڑوں کی بات نہ کرو۔ نوجوان زیادہ ایسے ہیں جن کو اپنے بڑوں سے شکایات ہیں یا عہدیداروں سے شکایات ہیں جس کی وجہ سے وہ پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ پھر وہ آہستہ آہستہ بہت دُور چلے جاتے ہیں۔ جب نوجوان مربیان سے مَیں نے کہا کہ ان کو قریب لاؤ تو وہ ان سے رابطہ کرکے ان کو قریب لے کے آئے تو آہستہ آہستہ ٹھیک ہوگئے۔ بلکہ کینیڈا میں بھی ایک ایسی فیملی تھی جو بالکل ہٹ گئی تھی۔ وہاں مسجد کے دورہ کے بعد اب مجھے وہاں سے رپورٹ ملی ہے کہ وہ لڑکا جو بالکل پیچھے ہٹ گیا تھا خود ہی دوبارہ مسجد آنا شروع ہوگیا ہے اور Active ہوگیا ہے۔ اصلاح کے لئے تو مستقل مزاجی ضروری ہے اور دعا ضروری ہے۔ اس کے بعد معاملہ خدا پر چھوڑیں۔ آپ بچانے کی اپنی پوری کوشش کریں۔
خطبہ جمعہ سننے کے حوالہ سے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مبلغ انچارج صاحب کو مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ آپ کے پاس مربیان کی طرف سے اور سیکرٹریان تربیت کی طرف سے رپورٹ آنی چاہئے کہ جمعہ ختم ہونے کے بعد کتنے لوگ مساجد میں بیٹھ کر خطبہ Live سنتے ہیں۔ جو گھروں میں جانے والے ہیں وہ سُن کر جایا کریں یا پھر گھر جاکر سنیں۔ لوگوں کو تحریک کیا کریں کہ خطبہ جمعہ مسجد میں سنیں یا پھر گھر جاکر سنیں۔
جرمنی میں اللہ کے فضل سے کافی لوگ سنتے ہیں۔ آپ کا کام ہے کہ فِیڈبَیک لیا کریں توجہ دلاتے رہا کریں۔
٭ ایک مربی سلسلہ نے سوال کیا کہ بعض ایسے علاقے ہیں جہاں پر صرف جماعت احمدیہ کی مسجد ہے، بعض اوقات غیراحمدی پوچھتے ہیں کہ کیا ہم آپ کی مسجد میں اعتکاف بیٹھ سکتے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ ان سے کہیں کہ ہماری مسجدیں پہلے ہی اتنی چھوٹی ہیں کہ مسجد میں دو چار کی ہی گنجائش ہے کہ وہ بیٹھ سکیں۔ دوسرا یہ کہ ہمارے کچھ قواعدوضوابط ہیں ان کی آپ پابندی کریں گے یا نہیں؟ پہلے ہم نے ترجیح بہرحال اپنی جماعت کے افراد کو دینی ہے۔ اُن سے کھل کر بات کرلیں۔ اس کے بعد دیکھیں گے۔ آپ اگر ان شرائط پر آنا چاہتے ہیں تو پھر بتائیں گے۔
حضورانور نے فرمایا کہ جب مَیں جیل گیا ہوں تو وہاں ایک قیدی میرے ساتھ تھا تو وہ مجھے کہانیاں سنانے لگ گیا۔ مَیں نے پوچھا تم جیل میں کیوں آئے؟ اُس نے کہا مَیں نے قتل کردیا تھا۔ مَیں نے پوچھا کس طرح قتل کردیا تھا۔ وہ کہتا مَیں رمضان کے مہینے میں اعتکاف میں بیٹھا ہوا تھا تو قتل ہوگیا۔ مَیں نے پوچھا اعتکاف پہ کس طرح قتل ہوگیا۔ وہ کہتا کیونکہ ہماری دشمنیاں چلتی ہیں تو مَیں نے اپنی کلاشنکوف (Gun) بھی ساتھ ہی رکھی ہوئی تھی۔ حالانکہ مسجد میں اس Gun کا کیا تعلق ؟ تو کہتا کہ میرا دشمن باہر آیا تو مَیں نے سوچا کہ یہ کہیں مجھ پر حملہ نہ کرلے تو اس سے پہلے کہ وہ حملہ کرے مَیں نے اُسی کو مار دیا۔ تو ایسے اعتکاف والے ہمیں نہیں چاہئیں۔
٭ ایک مربی سلسلہ نے سوال کیا کہ جب افراد جماعت اپنے راز Shareکرتے ہیں تو کب تک اُن کے رازوں پر پردہ پوشی کرنی ہے اور کب رپورٹ کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔
اس سوال کے جواب میں حضورانور نے فرمایا کہ اگر تو جو راز وہ Share کرتے ہیں ، اُن کی ذاتی برائیوں اور نقائص ہیں تو اس وقت پردہ پوشی کریں۔ اگر وہ نقص یا برائی پھیل رہی ہے اور جماعت میں جارہی ہے تو اس کو سمجھائیں اور پھر جو متعلقہ شخص آپ سمجھتے ہیں کہ اس کی اصلاح کرسکتا ہے اُس کو بتادیں۔ اس کو پھیلانا نہیں ہے۔ پردہ پوشی کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں میں جاکر باتیں نہ کرو۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جماعتی مفادات کو داؤ پہ لگادو۔
کوئی بھی بیماری ذاتی بیماری کی حَد تک ہو تو اس کی اصلاح کرنے کی کوشش کریں اور اس کو سمجھائیں۔ لوگ بیماریوں کو دُور بھی کردیتے ہیں۔ لیکن جب وہ جماعتی بیماری بننی شروع ہوتی ہے، قومی بیماری بننی شروع ہوتی ہے وہاں آپ نے اصلاح کے لئے پوری کوشش کرنی ہے۔ ایک تو ماشاء اللہ پڑھے لکھے آدمی ہیں۔ عقل اللہ تعالیٰ نے دی ہے ۔ نوجوان ہو تو اُس کے حساب سے سوچ کر فیصلے کیا کرو۔
اگر باہر بھی کسی کو اصلاح کے لئے بتانا ہے تو ہر جگہ ذکر نہیں کرنا، برائی کو پھیلانا نہیں ہے۔ اسی لئے زنا کی سزا کے لئے کیوں اتنی شرطیں ہیں؟ چار گواہ کون لائے گا، کہاں دکھاؤگے۔ اس کا مطلب یہی ہوگا کہ کوئی سڑک پر بیٹھ کر زنا کرے تب ہی آپ اس کو زنا سمجھیں گے۔ نہیں تو نہیں سمجھیں گے۔ اصول یہی بتادیا کہ فحشاء کو پھیلانے سے بچانے کے لئے تم نے آگے ذکر نہیں کرنا۔ اسی لئے اُسی حَد تک بچاؤ۔
٭ ایک مربی سلسلہ نے سوال کیا کہ بعض دفعہ ہماری مساجد میں غیراحمدی مسلمان آتے ہیں اور درخواست کرتے ہیں کہ اُن کا اسلامی نکاح پڑھا دیا جائے۔ ملکی ادارہ کے تحت تو وہ نکاح کرچکے ہوتے ہیں۔ صرف برکت کی خاطر باقاعدہ اسلامی طریق پر اعلان اور دعا کروانا چاہتے ہیں۔
اس سوال کے جواب میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر آپ سے پڑھانے آتے ہیں تو ٹھیک ہے کردیں۔
آپ میں سے کوئی شخص کسی غیراحمدی مولوی سے نکاح نہ پڑھانے چلا جائے۔
مَیں گھانا میں تھا تو کئی غیراحمدی میرے پاس آتے تھے کہ ہم نے زکوٰۃ دینی ہے۔ مَیں کہتا تھا کہ اپنے مولویوں کو جاکے زکوٰۃ دو۔ وہ کہتے تھے کہ ہمیں پتہ ہے کہ ہمارے مولویوں نے کھاپی جانی ہے۔ آپ لوگ صحیح استعمال کرتے ہیں اس لئے آپ کو دینی ہے اور کئی لوگ دے کر جاتے تھے اور ہم وصول کرلیتے تھے۔ اور اُن کو رسید بھی دے دیتے تھے کہ آپ نے اتنی زکوٰۃ دی ہے۔ وہ لی جاسکتی ہے تو نکاح بھی پڑھا جاسکتا ہے۔
٭ ایک مربی سلسلہ نے سوال کیا کہ یہاں اکثر جگہ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ کا خلاصہ، رپورٹ کی شکل میں پڑھ کر سنایا جاتا ہے۔
اس سوال کے جواب میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ مَیں نے وہاں بھی یہ کہا تھا اور آپ لوگوں کو بھی یہ ہدایت دی ہے کہ اگر لوگوں میں میرا خطبہ سننے کی دلچسپی پیدا کرنی ہے تو اپنے خطبے زیادہ لمبے نہ دیں۔ دس سے پندرہ منٹ کا خطبہ ہو اور اُس میں اپنے مقامی حالات کے مطابق جو ہدایات دینے والی باتیں ہیں نصیحت کرنے والی باتیں ہیں وہ کریں اور اگر اس سے قبل کے میرے خطبہ میں کوئی ایسی باتیں ہیں جو اُن لوگوں کے ماحول اور جماعت کے حالات کے مطابق اُن باتوں کو دوبارہ کہنا ضروری ہے یا یاددہانی کروانا ہے تو اُس کے اوپر نوٹس لے کر دے دیا کریں۔ یہ تو مَیں نے کہا ہی نہیں ہوا کہ اسی کو دہرایا کریں۔ ہاں یہ کہا ہوا ہے کہ اس میں بعض باتیں explain کرنے کے لئے ہوتی ہیں، انہیں explain کردیا کریں اور وہاں کے جو مقامی issues ہیں ان کو آپ آٹھ دس منٹ میں بیان کیا کریں اور پھر یہ تحریک کیا کریں کہ تم خطبہ جاکر سنو۔
آپ لوگوں کو MTA سے، خطبہ سے Attached کردیں تو آپ کے بہت سارے issues کم ہوسکتے ہیں۔ مَیں نے کب کہا ہے کہ آپ پکڑ کر کہانی سنادیا کریںا ور اُس کو پھر آپ لوگ اسی طرح پڑھتے ہیں جس طرح وقف نَو میں بچے تقریر کر رہے ہوتے ہیں۔ اطفال الاحمدیہ کی طرح تقریر نہیں کرنی۔ خطبہ کے Points بتایا کریں۔
٭ ایک مربی سلسلہ نے سوال کیا کہ اگر ایک فریق آئے اور کہے کہ دوسرے فریق نے زیادتی کی ہے تو مربی کا ردّعمل کیا ہونا چاہئے؟
اس سوال کے جواب میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ آپ کے پاس ایک فریق آتا ہے جس نے لڑائی کی ہے تو آپ اس کو سمجھائیں کہ تم حوصلہ دکھاؤ اور صبر کرو اور دعا کرو۔ اس کو بتاؤ کہ یہ میرا معاملہ نہیں ہے، یہ اصلاحی کمیٹی کا معاملہ ہے یا تو تم اپنے صدر جماعت کو بتاؤ کہ اصلاحی کمیٹی میں بلاکر دونوں کی اصلاح کریں اور صلح صفائی کروادیں۔ یا امور عامہ کا معاملہ ہے، اُن کو دے دیں۔ آپ کا کام ہے تربیت کرنا اور تبلیغ کرنا۔ آپ جماعت کی اصلاحی کمیٹی کے ممبر بھی ہیں۔ بحیثیت اصلاحی کمیٹی کے ممبر ہونے کے آپ اصلاح کی طرف بھی توجہ دے سکتے ہیں۔ کیونکہ مربی کو دین کا علم زیادہ ہونا چاہئے اور ہوتا ہے اور اگر اس سے بڑھ کے بات ہوچکی ہے جو امورعامہ میں جانی ہے۔ پھر وہ صدر جماعت کو اور امورعامہ کو رپورٹ کرے اور اگر قضاء کا معاملہ ہے تو قضاء میں جائیں۔ ان فریقوں کو آپ نے دیکھ کے، اس کے مطابق ہر ایک کو ڈِیل (Deal) کرنا ہے۔ آپ کے پاس جو بھی آتا ہے آپ نے اُسے سمجھانا ہے کہ جماعتی نظام یہ کہتا ہے۔ پہلے اپنے آپ کو جماعتی نظام سے Well-Versed کرو۔ آپ کو پتہ ہونا چاہئے کہ قواعد کیا کہتے ہیں۔ آپ قواعد پڑھیں۔ قواعد کا علم ہو۔ پھر تربیت کے لحاظ سے آپ کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔ یہ پتہ ہونا چاہئے۔ پھر اس کے مطابق آپ نے ہر انفرادی کیس کو ڈیل کرنا ہے۔ اصولی اجازت تو نہیں مل سکتی یہ تو ہر کیس کی مختلف صورتحال ہے کہ آپ نے کس طرح کرنا ہے۔
ایک شخص ایسا ہے کہ کسی سے چپیڑ کھاکر آیا ہے۔ اُس نے کہا کہ میرے پر دوسرے شخص نے زیادتی کی ہے۔ اب چپیڑ مارنے والے کو بلالیں اور دونوں کو سمجھائیں تو چپیڑ مارنے والا کہتا ہےغلطی ہوگئی، معافی مانگ لی۔ دونوں کی صلح کرادی، گلے ملادیا۔ چلو مسئلہ حل ہوگیا۔
ایک نے کسی کا بڑے عرصہ سے حق دبایا ہوا ہے۔ بڑے عرصہ سے دلوں میں رنجشیں پَل رہی ہیں۔ لڑائی جھگڑا ہوگیا، تُوتکار ہوگئی، گالی گلوچ ہوگئی۔ یہاں جس طرح ایک مسجد میں واقع ہوا تھا۔ دو پارٹیاں بن گئی تھیں۔ مَیں نے اُن کو بَین (Ban) بھی کردیا تھا۔ تو اس طرح کا معاملہ امورعامہ کے پاس جانا چاہئے۔ پھر اگر اس سے بڑھ کے پرانی رنجشیں چل رہی ہیں اور کسی نے، کسی پر Taunt کردیا اور اُن کے معاملے قضاء میں چل رہے ہیں تو پھر اُس کو سمجھائیں کہ تم نے غلط کیا ہے، تمہارا قضاء میں معاملہ چل رہا ہے۔ قضاء سے فیصلہ کرواؤ اور اس کی تعمیل کرو۔
مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے جو محبت، بھائی چارہ، رُحَمَاءُ بَیْنَھُمْ کی تعلیم ہے وہ اُن کو سمجھانی اور بتانی ہے۔
٭ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں امیر صاحب جرمنی نے عرض کیا کہ ایک جماعت میں ایک مربی تھے اور کام اچھا چل رہا تھا۔ تو مَیں نے سوچا کہ سب ٹھیک ہوگا۔ پھر دستور کے مطابق کچھ تبادلے ہوئے اور ایک نئے مربی جب وہاں آئے تو یکدم مجھے لگا کہ بہت سارےمسائل شروع سے ہی وہاں پر موجود تھے۔ مگر اب لوگوں نے نئے مربی سے رابطہ کرنا شروع کیا اور ان مسائل کا بھی پتہ چلنا شروع ہوا اور حل بھی ہوتے گئے کیونکہ نئے مربی زیادہ Open minded تھے۔
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ کچھ ایسے نوجوان مربیان ہیں جن میں لوگوں میں مل جُل کر رہنے کی صلاحیت ہے اور لوگ اس مربی سے مل کر اپنے مسائل کا حل کرنے بھی آتے ہیں جو Open minded ہو اور جو لوگوں سے مل جُل کر رہنے کی کوشش کرے اور یہی مَیں پہلے کہہ چکا ہوں کہ مربی کو Open minded ہونا چاہئے اور اپنے نمونے قائم کرنے چاہئیں۔ اور جب وہ اپنا یہ تأثر قائم کرلیں گے کہ وہ لوگوں کے ہمدرد ہیں تو اَور لوگوں کو یہ پتہ چلے گا کہ مربی سے رابطہ کرسکتے ہیں تو لوگ آکر مربی سے بات بھی کرنا پسند کریں گے اور اپنے نمونے قائم کرنے کے بعد لوگوں سے بھی توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ اپنی اصلاح کریں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مبلغین کرام کی یہ میٹنگ قریباً آٹھ بجے تک جاری رہی۔
بعدازاں تمام مبلغین نے اپنے پیارے آقا کے ساتھ شرفِ مصافحہ حاصل کیا اور گروپ تصاویر بنوانے کی سعادت بھی حاصل کی۔
جماعتی کچن کا معائنہ
اس کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ’’بیت السبوح‘‘ میں واقع جماعتی کچن کے معائنہ کے لئے تشریف لے آئے۔ اس وقت رات کا کھانا تیار کیا ہوا تھا۔ تنور کی روٹی تیار کی گئی تھی۔ حضورانور نے روٹی کا ایک ٹکڑا لیا اور تناول فرمایا اور دریافت فرمایا کہ کہاں تیار کی گئی ہے۔ اس پر کارکنان نے بتایا کہ کچن کے اندر یہ تنور لگا ہوا ہے اس میں تیار کی گئی ہیں۔
حضورانور نے ڈائننگ ہال کا بھی معائنہ فرمایا جہاں احباب کھانا کھاتے ہیں۔ حضورانور کچھ دیر کے لئے شعبہ ضیافت کے دفتر میں بھی تشریف لے گئے۔
تقریب آمین
بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد کے مردانہ ہال میں تشریف لے آئے اور پروگرام کے مطابق تقریب آمین شروع ہوئی۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت درج ذیل 29 بچوں اور بچیوں سے قرآن کریم کی ایک ایک آیت سنی اور آخر پر دعا کروائی
(بچے) صبیح احمد، علیم احمد، تنزیل ساخر، فیضان احمد، حازق محمود، شائق محمود، آشام محمود، علی راشد کاہلوں، عبدالصمد بسرا، فاران ذکا، دانش مرزا ودود، رائے ضوریز ارسلان۔
(بچیاں) آبشہ محمود، ماہم بصیر ملک، بریرہ اظہر، ھبۃالصبور ملک، تمثیلہ مریم، عمائلہ سجاد، سلمیٰ قاضی، ہانیہ احمد، مہرمحمود، ہانیہ بسرا، سبرینا وِرک، ثمین احمد، شافیہ رانا، رِدا مسعود، ھبہ مسعود، زارا آصف، ساریہ ودود۔
تقریب آمین کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔
(باقی آئندہ)