خدا ہمارا مولیٰ ہے اور ہمارے کام کا متکفّل ہے اس دنیا میں بھی اور فنا کے بعد بھی۔یہی وہ محبوب ہے جسے میں نے (سب پر) ترجیح دی ہے۔
(ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام)
نوٹ: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ قصیدہ اپنی کتاب انجام آتھم روحانی خزائن جلد11 صفحہ 266 تا 282میں درج فرمایا ہے اور پھر ’’الاستفتاء‘‘ میں بعض مصرعوں کی تبدیلی کے ساتھ دوبارہ درج فرمایا ہے۔ (ناشر)
بسْمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيم
عِلْمِیْ مِنَ الرَّحْمٰنِ ذِی الْاٰ لَاءِ
بِاللہِ حُزْتُ الْفَضْلَ لَا بِدَھَاءِ
میرا علم خدائے رحمان کی طرف سے ہے جو نعمتوں والا ہے۔ میں نے خدا کے ذریعہ فضل ِالٰہی کو حاصل کیا ہے نہ کہ عقل کے ذریعہ۔
کَیْفَ الْوُصُوْلُ اِلٰی مَدَارِجِ شُکْرِہِ
نُثْنِیْ عَلَیْہِ وَلَیْسَ حَوْلُ ثَنَاءِ
ہم اس کے شکر کی منزلوں تک کیسے پہنچ سکتے ہیں کہ ہم اس کی ثنا کرتے ہیں اور ثنا کی طاقت نہیں۔
اَللہُ مَوْلَانَا وَکَافِلُ اَمْرِنَا
فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا وَبَعْدَ فَنَاءِ
خدا ہمارا مولیٰ ہے اور ہمارے کام کا متکفّل ہے اس دنیا میں بھی اور فنا کے بعد بھی۔
لَوْلَا عِنَایَتُہُ بِزَمَنِ تَطَلُّبِیْ
کَادَتْ تُعَفِّیْنِیْ سُیُوْلُ بُکَاءِ
اگر میری جستجو ئے پَیہم کے دور میں اس کی عنایت نہ ہوتی تو قریب تھا کہ آہ و زاری کے سیلاب مجھے نابود کر دیتے۔
بُشْرٰی لَنَا اِنَّا وَجَدْنَا مُوْنِسًا
رَبًّا رَّحِیْمًا کَاشِفَ الْغَمَّاءِ
ہمارے لئے خوشخبری ہے کہ ہم نے مونس و غم خوار پا لیا ہے جو ربِّ رحیم ہے اور غم و مصیبت کا دور کرنے والا ہے۔
أُعْطِیْتُ مِنْ اِلْفٍ مَعَارِفَ لُـبَّـھَا
اُنْزِلْتُ مِنْ حِبٍّ بِدَارِضِیَاءِ
مجھے محبوب کی طرف سے معارف کا مغز عطا کیا گیا ہے اور میں اپنے محبوب کی طرف سے روشنی کی جگہ میں اتارا گیا ہوں۔
نَتْلُوْ ضِیَاءَالْحَقِّ عِنْدَ وُضُوْحِہِ
لَسْنَا بِمُبْتَاعِ الدُّجٰی بِبَرَاءِ
ہم حق کی روشنی کی‘ اس کے ظاہر ہوتے ہی، پیروی کرتے ہیں۔ چاندطلوع ہو جانے کے بعد ہم تاریکی کے خریدار نہیں۔
نَفْسِیْ نَأَتْ عَنْ کُلِّ مَاھُوَ مُظْلِمٌ
فَاَنَخْتُ عِنْدَ مُنَوِّرِیْ وَجَنَائِیْ
میرا نفس ہر تاریک چیز سے دورہے۔پس میں نے اپنی مضبوط اونٹنی کو اپنے منوّر کرنے والے کے پاس بٹھا دیا۔
غَلَبَتْ عَلٰی نَفْسِیْ مَحَبَّۃُ وَجْھِہِ
حَتَّی رَمَیْتُ النَّفْسَ بِالْاِلْغَاءِ
میرے نفس پر اس کی ذات کی محبت غالب ہوئی یہاں تک کہ میں نے نفس کو بیکار کر کے نکال پھینکا۔
لَمَّارَ أَیْتُ النَّفْسَ سَدَّتْ مُہْجَتِیْ
اَلْقَیْتُھَا کَالْمَیْتِ فِی الْبَیْدَاءِ
اور جب میں نے دیکھا کہ نفس میری روح کی راہ میں روک ہے تو میں نے اسے اس طرح پھینک دیا جیسے کہ مردار بیابان میں (پڑا ہو)۔
اَللہُ کَھْفُ الْاَرْضِ وَالْخَضْرَائِ
رَبٌّ رَّحِیْمٌ مَّلْجَأُ الْاَشْیَاءِ
اﷲہی پناہ ہے زمین اور آسمان کی۔ وہ ربِّ رحیم ہے اور سب چیزوں کی جائے پناہ۔
بَرٌّعَطُوْفٌ مَأْمَنُ الْغُرَمَائِ
ذُوْ رَحْمَۃٍ وَّ تَبَرُّعٍ وَّعَطَاءِ
وہ حسنِ سلوک کرنے والا مہربان، مصیبت زَدوں کے لئے جائے امن ہے۔ وہ رحمت و احسان اور بخشش والا ہے۔
اَحَدٌ قَدِیْمٌ قَائِمٌ بِوُجُوْدِہِ
لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَا الشُّرَکَاءِ
وہ یگانہ، قدیم اور بغیر سہارے کے بخود قائم دائم ہے۔ نہ اس نے کوئی بیٹا بنایا ہے اور نہ ہی (اپنے) شریک۔
وَلَہُ التَّفَرُّدُ فِی الْمَحَامِدِ کُلِّھَا
وَلَہُ عَـلَاءٌ فَوْقَ کُلِّ عَلَائِ
اور اسے تمام صفات میں یگانگت حاصل ہے اور اسے ہر بلندی سے بڑھ کر بلندی حاصل ہے۔
اَلْعَاقِلُوْنَ بِعَالَمِیْنَ یَرَوْنَہُ
وَالْعَارِفُوْنَ بِہِ رَأَوا الْاَشْیَاءِ
عقلمند لوگ تو کائنات کے ذریعہ اسے دیکھتے ہیں اور عارفوں نے اس کے ذریعہ اشیاء کو دیکھا ہے۔
ھٰذَا ھُوَ الْمَعْبُوْدُ حَقًّا لِّلْوَرٰی
فَرْدٌ وَّحِیْدٌ مَّبْدَءُ الْاَضْوَاءِ
یہی مخلوقات کے لئے معبودِ برحق ہے۔ وہ ایک یگانہ و یکتا ہے اور سب روشنیوں کا مبدأ ہے۔
ھٰذَا ھُوَ الْحِبُّ الَّذِیْ اٰثَرْتُہُ
رَبُّ الْوَرٰ ی عَیْنُ الْھُدٰی مَوْلَائِی
یہی وہ محبوب ہے جسے میں نے (سب پر) ترجیح دی ہے۔ مخلوقات کا ربّ، سرچشمۂ ہدایت اور میرا مولا ہے۔
ھَاجَتْ غَمَامَۃُ حُبِّہٖ فَکَاَنَّھَا
رَکْبٌ عَلٰی عُسْبُوْرَۃِ الْحَدْوَاءِ
اس کی محبت کا بادل اٹھا پس گویا وہ بادل بادِ شمالی کی تیز رو اونٹنی پر سواروں کی طرح ہے۔
نَدْعُوْہُ فِیْ وَقْتِ الْکُرُوْبِ تَضَرُّعًا
نَرْضٰی بِہِ فِیْ شِدَّۃٍوَّ رَخَاءِ
بے قراری کے وقت ہم اسے عاجزی سے پکارتے ہیں اور سختی اور نرمی میں اسی پر خوش ہیں۔
حَوْجَائُ ٭ اُلْفَتِہِ أَ ثَارَتْ جُرَّتِیْ
فَفَدٰی جَنَانِیْ صَوْلَۃَ الْحَوْجَاءِ
اس کی الفت کے بگولے نے میری خاک اڑا دی۔ پس میرا دل اس بگولے پر فدا ہو گیا۔
اَعْطٰی فَمَا بَقِیَتْ اَمَانِیْ بَعْدَہُ
غَمَرَتْ اَیَادِی الْفَیْضِ وَجْہَ رَجَائِیْ
اس نے مجھے اتنا دیا کہ اس کے بعد کوئی آرزو باقی نہ رہی۔ اس کے فیض کے احسانات (کی کثرت) میری امید کی انتہائی بلندی پر بھی چھا گئی۔
اِنَّا غُمِسْنَا مِنْ عِنَایَۃِ رَبِّناَ
فِی النُّوْرِ بَعْدَ تَمَزُّقِ الْاَھْوَاءِ
ہوا و ہوس کے پارہ پارہ ہو جانے کے بعد ہم اپنے ربّ کی عنایت سے نور میں غوطہ زن کئے گئے ہیں۔
اِنَّ الْمَحَبَّۃَ خُمِّرَتْ فِیْ مُھْجَتِیْ
وَاَرَی الْوَدَادَ یَلُوْحُ فِیْ اَھْبَائِیْ
یقیناً محبت میری روح میں خمیر کر دی گئی ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ محبت میرے تمام ذرّاتِ وجود میں چمک رہی ہے۔
اِنِّیْ شَرِبْتُ کُئُوْسَ مَوْتٍ لِّلْھُدٰی
فَوَجَدْتُ بَعْدَ الْمَوْتِ عَیْنَ بَقَاءِ
میں نے ہدایت کی خاطر موت کے پیالے پیے۔ پس موت کے بعد میں نے بقا کا چشمہ پا لیا۔
٭ حَوْجَاء سہو کتابت معلوم ہوتا ہے۔ درست ھَوْجَاء ہے۔ منن الرحمن، روحانی خزائن جلد9 صفحہ 170 میں یہی شعر ھا سے لکھا گیا ہے۔ (ناشر)
(الاستفتاء مع اردو ترجمہ صفحہ 216تا218۔شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ربوہ)