مصالح العرب (قسط ۴۵۲)
مکرمہ غنیٰ صبحی العجان صاحبہ(1)
مکرمہ غنیٰ صبحی العجان صاحبہ کا تعلق سیریاسے ہے جہاں ان کی پیدائش 1964ءمیں ہوئی۔انہیں بعض رؤیا اور کشوف کے بعد 2007ءمیں امام الزمان علیہ السلام کی بیعت میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔ وہ احمدیت کی طرف اپنے سفر کا احوال کچھ یوں بیان کرتی ہیں:
مَیں جب اپنی زندگی پر غور کرتی ہوں تو اس یقین پر قائم ہوجاتی ہوں کہ خدا تعالیٰ خود شروع سے ہی مجھے احمدیت کی جانب کھینچ کر لے آرہا تھا۔ میری زندگی کا ہر مرحلہ گویا احمدیت کی جانب ایک قدم تھا،اس لئے احمدیت کی طرف سفر کی تفصیل میں مجھے اپنے خاندان کے حالات کا بھی کچھ تذکرہ کرنا پڑے گا۔
میری والدہ بہت صابر اورمعتدل مزاج خاتون تھیں۔ حالات نے ان کی طبیعت میں بہت ٹھہراؤ پیدا کردیا تھا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ان سے یہ صفات وراثت میں مجھے ملیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کم تعلیم یافتہ ہونے کے باوجودبھی میں بفضلہٖ تعالیٰ پُر اعتماد اورمضبوط شخصیت کی مالک ہوں۔
والدہ صاحبہ کی شخصیت پر حالات نے گہرا اثر چھوڑا تھا۔ ان کی کم عمری میں شادی ہوئی اور محض آٹھ ماہ کے بعد ہی علیحدگی ہوگئی۔ہمارے معاشرے میں مطلقہ عورت ظلم کا شکار ہے۔ میری والدہ صاحبہ کے ساتھ بھی یہی ظلم روا رکھا گیا اورطلاق کے بعد زبردستی ان کی شادی میرے والد صاحب سے کروا دی گئی جبکہ وہ عمر میں میری والد ہ سے 40سال بڑے تھے۔
تقریباً تین سال کے بعد والد صاحب کی وفات ہوگئی جس کے دوسال بعد والدہ صاحبہ کی شادی ایک نہایت نیک ،صالح اور اعلیٰ اخلاق کے مالک نوجوان سے ہوگئی جس نے ہمیں اپنے بچوں کی طرح پالا اورکبھی کسی محرومی کا احساس نہیں ہونے دیا ،حقیقت یہ ہے کہ میں انہیں ہی اپنا والد سمجھتی تھی۔ پھر ہوش کی عمر کو پہنچ کر مجھے پتہ چلا کہ میرے والد صاحب وفات پاچکے ہیں۔ میری اچھی تربیت میں والدہ کے ساتھ اس مہربان شخص کا بھی بہت ہاتھ ہے۔
آخری زمانے کی خبروں میں دلچسپی
میری والدہ صاحبہ بہت مہمان نواز تھیں جس کی وجہ سے ہمارا گھر مہمانوں سے بھرا رہتا تھااو رجب مہمان آتے تھے تو دینی گھرانہ ہونے کی وجہ سے اکثر دینی امور کے بارہ میں باتیں ہوتی رہتی تھیں۔ بچپن ہی سے مَیں یہ باتیں سنتی اور غیر محسوس طریق پر بعض باتیں اخذ کرتی رہتی تھی۔
مجھے یاد ہے کہ میں دس سال کی تھی جب میں نے اپنے نانا جان کی زبانی سنا کہ آخری زمانے میں دجال ظاہر ہوگا اوراسے قتل کرنے کے لئے مسیح موعود کو بھیجا جائے گا۔ یہ بات میرے دماغ میں بچپن ہی سے اٹک کررہ گئی۔
میری خالائیں بھی علماء کے دروس وغیرہ میں حاضر ہوتی رہتی تھیں اور میں ان سے اکثر سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں سنتی تو میرا دل آپؐ کی محبت سے بھر جاتا۔
گو میں نے ساتویں جماعت تک تعلیم حاصل کی لیکن مجھے مطالعہ کا بہت شوق تھا ۔ کوئی کتاب کوئی رسالہ اور کوئی اخبار مجھے گھر میں نظر آتا تو میں اسے شروع سے لے کر آخر تک پڑھ جاتی۔بلکہ معمولی جنتریوں اور کیلنڈروں کی بھی تمام عبارتوں کو متعدد بار پڑھنے کے باوجود مطالعہ سے میرا دل نہ بھرتا۔مطالعہ کی اس عادت نے میری معلومات میں خاطر خواہ اضافہ کیا اورمجھے غیرمعمولی اعتماد حاصل ہوا تھا۔
صلح میں پہل کی عادت کے ثمرات
میری شادی ہوئی لیکن خاوند کے ساتھ ذہنی اور فکری ہم آہنگی نہ ہوسکی۔ انہوںنے اور ان کے اہل خاندان نے میرے بچوں اور مجھ پر بہت سے ظلم کئے۔ اس کے باوجود میں نے تیس سال تک صبر کے ساتھ محض لِلہ نباہ کیا۔ باوجود مظلوم ہونے کے مَیں حدیث نبوی پر عمل کرتے ہوئے تین روز سے پہلے خود بڑھ کرمعافی مانگ لیتی۔شاید یہی وجہ تھی کہ کبھی کبھی میرے شوہر میری صف میں کھڑے ہوکر مجھ پر ہونے والے واضح ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے۔ ایک بار میری نند کی زیادتی کی وجہ سے میری اس کے ساتھ لڑائی ہوئی یہانتک کہ ہماری بول چال بند ہوگئی اس جھگڑے میں میرے خاوند نے میرا ساتھ دیا تھا۔ کچھ روز کے بعد میری نندکا خاوند فوت ہوگیا۔ میں نے اپنے خاوند سے کہا کہ ہمیں اس وقت اس کے ساتھ کھڑے ہونا چاہئے اور ہر بات کو بھلا کر اس کے غم کو بانٹنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ چنانچہ ہم چلے گئے اورمیں نے اس سے معافی مانگ کر اسے راضی کرلیا ۔ اس روز خدا تعالیٰ نے مجھے ایک خاص خشوع وخضوع کی حالت سے نوازااور مجھے خدا تعالیٰ سے قربت کا دلنشیں احساس ہونے لگااورآگے جا کرخدا تعالیٰ کے اس بے پایاں انعام اوراس کے غیر معمولی ثمرات نے میری کایا پلٹ کے رکھ دی۔
’’تؤلِّف ولا تؤلِّفان‘‘ کا مقولہ
سن 2000 ءکا رمضان آیا تو مجھے ہمارے معاشرہ میں مشہورایک مقولہ یادآگیا۔ہمارے معاشرے میں دنیا کی عمر کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ ’’تؤلف ولا تؤلفان‘‘،نہ جانے اس کی کیا حقیقت ہے اور کیا سیاق ہے جس میں یہ کہا گیا ،لیکن عمومی معنی یہی لیا جاتا تھا کہ دنیا ایک ہزار سال تک تو چل سکتی ہے دو ہزار تک نہیں۔ گو بعض لوگ اس کا اطلاق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے کرتے ہیں اور اس لحاظ سے ابھی دوہزار سال گزرنے میں بہت وقت ہے۔اور بعض اس کا معنی کچھ اور ہی کرتے ہیں،لیکن مجھے سن 2000ءکے آنے پر یہ مقولہ یاد آگیا اور میں نے کہا کہ خدایا اب تواس مقولہ کے مطابق آخری زمانہ آگیاہے پھر بھی آسمان سے نازل ہونے والا تیرا مسیح نہیں آیا!!
لیلۃ القدر
اس رمضان المبارک میں مَیں نے بہت دعائیں کیں اور 27رمضان المبارک کو میں نے حسب معمول مسجد میں بستی کی دیگر عورتوں کے ساتھ مل کرباجماعت نمازِ تروایح ادا کی جس کے بعد ہم نے باجماعت صلاۃ التسبیح بھی ادا کی۔ اس وقت مجھ پر کوئی ایسی حالت طاری ہوئی جس میں مجھے محسوس ہواکہ جیسے سب چلے گئے ہیں اور مَیں مسجدمیں اکیلی رہ گئی ہوں۔ایسی کیفیت میں جب مَیں قبلہ رُوہوئی تو خانہ کعبہ کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا اوریہ دیکھ کر حیران ہوگئی کہ اس وقت دو عظیم الشان نور خانۂ کعبہ کا طواف کررہے تھے۔میں اپنی قسمت پر ناز کرنے لگ گئی کیونکہ مجھے خانہ کعبہ کی زیارت کا بہت شوق تھا اور میں نے بار ہا اپنے خاوند سے اس خواہش کا ذکر بھی کیا تھا۔ میں نے ان دونوروں کے ہمراہ طواف کرنا شروع کردیا۔اس طواف میں کچھ ایسی لذت اور سکینت تھی جس کو میں الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں لیکن اس پُرکیف منظر کی حلاوت کو آج تک محسوس کرتی ہوں۔
جب یہ کیفیت ختم ہوئی تو میں نے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اپنے اور اپنی اولاد کی ہدایت کے لئے دعا کی اور اس کے بارہ میں کسی کو نہ بتایا۔جب میں دیگر عورتو ںکے ساتھ مسجد سے نکلی تو کسی اورہی دنیا میں تھی۔ میںنے کسی سے بات نہ کی تا آنکہ سب ایک ایک کر کے اپنے گھرمیں داخل ہوگئیں۔ میرا گھر کچھ فاصلے پرواقع تھا، ایک عورت مجھے مخاطب ہو کر کہنے لگی کہ آخر پر تم تو اکیلی رہ جاؤ گی تمہارے ساتھ تمہارے گھر تک کون جائے گا؟میں نے کہا کہ مجھے تو بالکل ڈر نہیں لگ رہا بلکہ یہی احساس ہے کہ خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہے۔یہ کہتے ہوئے میں نے آسمان کی طرف دیکھا تو یہ آواز سنی کہ سَلَامٌ ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْر۔ یہ سنتے ہی مجھے یقین ہوگیا کہ یہ رات میرے لئے لیلۃ القدر تھی اور میں نے وہاں موجود عورتوں سے کہا کہ اس رات میں کوئی خوف نہیں کیونکہ یہ مطلع الفجرتک سلام ہی سلام ہے۔
اس واقعہ کے بعد مَیں نے اپنے آپ میں غیر معمولی تبدیلی محسوس کی ۔ اب مجھے تلاوت قرآن کریم میں بھی خاص لذت حاصل ہوتی اور نمازوں میں بھی تسکین ملتی۔میں جب بھی عورتوں سے ملتی تو بے اختیار ہو کر خدا تعالیٰ او ردینی امور کے بارہ میں بات شروع کردیتی یہاں تک کہ عورتیں میری باتیں سن سن کر تنگ پڑنے لگ گئیں، بلکہ بعض نے کہہ بھی دیا کہ تمہیں دینی امور کے علاوہ کسی اور موضوع پر بات کرنی نہیں آتی۔لیکن میں انہیں یہی جواب دیتی کہ خدا تعالیٰ کے بارہ میں بات کرنے سے زیادہ اچھی اور کیا بات ہوگی۔ کاش میں انہیں بتا سکتی کہ خدا تعالیٰ کی بے پایاں عنایات کی وجہ سے مَیں تو خود کو جنت میں محسوس کرتی تھی۔
تلاشِ حق کا سفر
اسی عرصہ میں ایک روز مَیں اپنی بہن سے ملنے کے لئے گئی تو اس نے مجھے بتایا کہ اس نے ایک ایسی جماعت میں شمولیت اختیار کرلی ہے جس کا دعویٰ ہے کہ امام مہدی اس میں ظاہر ہوگا۔ میں نے عصمتِ انبیاء کے بارہ میں اس جماعت کی ایک کتاب پڑھی تو وہ مجھے بہت اچھی لگی۔ چنانچہ میں نے بھی اپنی بہن کے ساتھ اس جماعت میں شمولیت اختیار کرلی اور اس جماعت کے عقائد، طور طریقوں کے مطابق زندگی بسر کرنے لگی۔ میں نے امام مہدی کے انتظار میں اس جماعت میں سات سال گزارے جن میں کئی امور کے بارہ میں مجھے ان سے شدید اختلاف تھا لیکن میں نے کبھی ان سے کوئی شکایت نہ کی۔ لیکن جب میں نے اپنا گھر خریدنے کے لئے مختلف سٹیٹ ایجنٹوں سے رابطہ کیا اور کئی دکانوں کے چکر لگائے تو میری بہن نے مجھے بہت برا بھلا کہنے کے بعد کہا کہ تمہارا اس طرح گھر کی تلاش میں مختلف دکانوں پر جاناشریعت کے خلاف ہے۔ نیز یہ کہ عورت کا میراث میں حصہ نہیں ہونا چاہئے تا اسے ایسے چکر لگانے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔میری بہن کا شمار اس جماعت کی علماء عورتوں میں ہوتا تھا اس لئے اس کی بات جماعت کی تعلیم اور موقف تھا۔میں نے اپنی بہن سے کہا کہ تمہاری بات درست نہیں ہے بلکہ ایسا کہنا گناہ ہے۔ میری بہن نے اپنی بات پر اصرار کیا تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں جس جماعت کو سچا اور حق پر سمجھ کر اس میں شامل ہوئی تھی اس نے شریعت کے نام پر اپنی ہی شریعت بنائی ہوئی ہے۔یہ لوگ حق پر نہیں ہوسکتے۔ اگر یہ حق پر نہیں تو پھر حق کہاں ہے؟ یہ سوچ کرمَیں نے خدا تعالیٰ سے رو رو کر دعائیں کرتے ہوئے عرض کی کہ خدایا! اگر یہی تیرا سچا فرقہ ہے تو مجھے اس میں رہنے پرراضی کر دے او راگریہ بات درست نہیں ہے تو پھر تو خود مجھے بتا کہ آج تیرا صحیح دین کہاں ہے؟ او رآج کس جماعت کو تیری تائید حاصل ہے؟
کئی دن تک یہ دعا کرنے کے بعد ایک روز مجھے ایسے لگا جیسے کوئی عظیم الشان نور میرے جسم میں داخل ہوگیا ہے۔یہ صورتحال دیکھ کر مجھے خدا سے قربت کا احساس ہونے لگا اور میں نے ا پنی دعائیں تیز کردیں ۔ شدّت بُکاء کی وجہ سے میری آواز حلق میںاٹکی جاتی تھی۔ایسی حالت میں مَیں نے دیکھا کہ ایک شخص میرے ساتھ آکر کھڑا ہوگیا ہے اور اس کیفیت میں مجھے یہی محسوس ہوا کہ وہ میرے ساتھ ہمدردی کرنے کے لئے آیا ہے۔میں نے اسے دیکھ کر دل میں کہا کہ یہ شخص کون ہے؟لیکن مجھے اس کا کوئی جواب نہ ملا۔
پھر اگلے روز میری بہن کے ساتھ دوبارہ بحث ہوئی اور اس نے میرے ساتھ بہت زیادتی کی۔ میں بہت روئی یہاں تک کہ میری ہچکی بندھ گئی۔اس وقت پھر مجھ پر وہی کیفیت طاری ہوگئی او رمیں نے دوبارہ اسی شخص کو اپنے سامنے دیکھا۔ تیسری بارپھر ویسا ہی ہوا تو میں نے بآواز بلند خدا تعالیٰ کے حضور یہ التجا کی کہ خدایا مجھے بتا دے کہ یہ ہمدرد شخص کو ن ہے؟اور بار بار مجھے کیوں دکھائی دیتا ہے؟
ان دنوں میرا اپنی خالہ کے ہاں بہت زیادہ آنا جانا تھا وہ بھی اسی جماعت میں شامل تھیں جس میں مَیں اورمیری بہن نے شمولیت اختیا رکی تھی۔ہم مل بیٹھتے تو اکثر اسی موضوع پر بات ہوتی کہ اب تو مسیح موعود کو آجانا چاہئے۔ہم اپنی اس جماعت کے اہل علم حضرات سے پوچھتے تو وہ جواب دیتے کہ مسیح دُورافق میں کہیں جلوہ افروز ہے او رکسی وقت بھی آسکتا ہے۔ہم کہتے کہ آج کل کے دَور میں ٹی وی کے ذریعہ کہیں سے بھی اعلان ہوگاکہ مسیح آگیاہے اور لوگ اس پر ایمان لانے کے لئے دوڑ پڑیں گے ۔ لیکن میری بہن کے بقول ہماری جماعت تو ٹی وی دیکھنا بھی حرام سمجھتی ہے! میں نے اپنی خالہ سے کہا کہ ہمیں ٹی وی دیکھنا چاہئے۔ شاید کسی چینل پر ہمیں اپنی گم گشتہ متاع مل جائے۔ میری خالہ نے کہا کہ ہم ٹی وی کو لا کر دوبارہ گھر میں سیٹ کرلیتے ہیں۔ اس کے بعد پھر جو ہوتا ہے ہوجائے۔ چنانچہ ہم نے ایسے ہی کیا اور ٹی وی لا کر چلا لیااور اس بات کی کوئی پرواہ نہ کی کہ ہماری جماعت کے مولوی ہمارے بارہ میں کیا فتویٰ دیتے ہیں۔
اسی رات میں نے ایک عجیب رؤیا دیکھا جس نے میری کایا پلٹ دی۔
(باقی آئندہ)