مجلس خدام الاحمدیہ انگلستان کے نیشنل اجتماع کے موقع پر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اختتامی خطاب فرمودہ 26ستمبر 2016ء بروز اتوار بمقام Old Park Farm, Kingsley (یوکے )کا اردو مفہوم
ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی توقعات اور آپ کی بعثت کے مقاصد کو صرف اُس وقت پورا کر سکتے ہیں جب ہم دین کو تمام دنیوی امور پرمقدّم رکھیں گے۔
اس کا صرف ایک ہی طریقہ ہے۔ اور وہ یہ کہ انسان اس بات کا ادراک حاصل کرے کہ اُس نے اللہ تعالیٰ اوراُس کی مخلوق کے حقوق ادا کرنے ہیں۔
ہم میں سے ہر ایک کو اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہم قرآن کریم کی باقاعدگی سے تلاوت کریں ،
اس کے گہرے علوم کو سیکھنے کی کوشش کریںاور اس کی تمام تعلیمات پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔
سورۃ المؤمنون کی ابتدائی آیات اور بعض دیگر آیات قرآنی کے حوالہ سے بعض ایسے امور کی طرف توجہ دینے کی نصائح جو آج معاشرے اور نوجوان نسل پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔
اگر آپ واقعی اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو آپ کو لازمًا ہر وہ چیز چھوڑنی پڑے گی
جس سے قرآن کریم ہمیں منع فرماتا ہے اور جن چیزوں سے ہمیں خبردار کرتا ہے ۔ قرآنی احکامات کی اطاعت سے انسان بہت وسیع انعامات کا وارث بنتا ہے۔
چاہے آپ ایک مقامی قائد ہیں، مہتمم ہیں، نیشنل صدر ہیں یا کسی اور سطح کے عہدیدارہیں آپ کو ہر لمحہ عاجزی و انکساری سے گزارنا چاہئے۔
مجلس خدام الاحمدیہ کے ممبر ہونے کی حیثیت سے آپ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ آپ ہمارے روحانی لشکر کی دوسری صف میں شامل ہیں۔ اور ایک روز
آپ کو پہلی صفوں میں آنا ہے۔ آپ وہ لوگ ہیں جنہیں ایک دن ہماری جماعت کی بڑی بڑی ذمہ داریوں کا بیڑا اٹھانا پڑے گا ۔اور آپ کو اس کے لئے تیار رہنا چاہئے۔
مجلس خدام الاحمدیہ انگلستان کے نیشنل اجتماع کے موقع پر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اختتامی خطاب
فرمودہ 26ستمبر 2016ء بروز اتوار بمقام Old Park Farm, Kingsley (یوکے )کا اردو مفہوم
(ترجمہ:فر ّخ راحیل۔ حافظ محمد ظفراللہ عاجزؔ۔خطاب کا یہ ترجمہ ادارہ الفضل انٹرنیشنل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم احمدی مسلمان سب سے زیادہ خوش نصیب لوگ ہیں کیونکہ ہمیں امام ِ وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو ماننے کی توفیق حاصل ہوئی جنہیں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی چودہ سو سال قبل بیان کی جانے والی پیشگوئیوں کے مطابق مبعوث فرمایا۔تاہم ہمیں اپنے ایمان سے متعلق کسی شک و شبہ یا غلط فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم ان مقاصد کوپورا کرنے کی کوشش نہ کریں جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا تھا تو ہماراآپؑ پر ایمان لانا بے فائدہ ہے۔ آپؑ کی بعثت کے کیا اغراض و مقاصد تھے؟ آسان الفاظ میں آپؑ کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ آپؑ کے ماننے والے اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرتے ہوئے اخلاص کے ساتھ اپنے اندر نیک تبدیلیاں پیدا کریں۔ اگر ہم ان مقاصد کو پورا کرنے والے نہیں ہیں یا کم از کم اِن کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کر رہے تو ہمارا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بیعت میں آجانا کوئی معنے نہیں رکھتا۔ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی توقعات اور آپ کی بعثت کے مقاصد کو صرف اُس وقت پورا کر سکتے ہیں جب ہم دین کو تمام دنیوی امور پرمقدّم رکھیں گے۔ یہ وہ عہد ہے جس سے آپ سب اچھی طرح واقف ہیں۔ مجلس خدام الاحمدیہ کے ممبر ہماری تقریبات ، اجتماعات اور دوسرے اجلاسات میں اقرار کرتے ہیں کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے۔ اور آج کچھ ہی دیر قبل آپ سب نے اس عہد کو ایک مرتبہ پھر دہرایا ہے۔ یہ عہد جو آپ نے کیا ہے ایک پختہ وعدہ ہے اس لئے یہ الفاظ جو آپ وقتاً فوقتاً دہراتے ہیں کھوکھلے نہیں ہونے چاہئیں،آپ سب کو ان الفاظ کے معانی ہمیشہ ذہن نشین رکھنے چاہئیں اور آپ کے روز مرہ کے کاموں میں اس عہد کا عملی اظہار ہونا چاہئے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ایک مومن دین کو تمام دنیاوی کاموں اور دنیاوی چیزوں پرکس طرح مقدم رکھ سکتا ہے؟ کس طرح اِس عظیم الشان مقصد کو حاصل کیا جا سکتا ہے؟اس کا صرف ایک ہی طریقہ ہے۔ اور وہ یہ کہ انسان اس بات کا ادراک حاصل کرے کہ اُس نے اللہ تعالیٰ اوراُس کی مخلوق کے حقوق ادا کرنے ہیں۔ ہماری بے حد خوش نصیبی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی بابرکت اور کامل شریعت کے ذریعہ سے ہماری رہنمائی فرماتا ہے جو اُس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید کی صورت میں نازل فرمائی۔ قرآن کریم ہمیں واضح طور پر سکھاتا ہے کہ ایک انسان کے ذمہ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق کیا ہیں اور انہیں کس طرح ادا کرنا چاہئے۔ اس لئے ہم سب پر لازم ہے کہ ہم قرآن کریم کا مطالعہ کریں کیونکہ قرآن ہماری کامیابی اور نجات کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ یہ وہ روحانی نور ہے جو ہمیں حقیقی طور پر دین کو دنیا پر مقدم کرنا سکھاتا ہے۔یہی ہمارا معلِّم اور ضابطۂ حیات ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ہمیشہ یاد رکھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کوئی نئی تعلیم نہیں لائے۔ بلکہ جو کچھ آپؑ نے بیان فرمایا اور جو کچھ بھی آپؑ نے ہمیں سکھایا سب قرآن کریم کی اصل تعلیمات پر مبنی ہے۔ جب آپؑنے ہمیں یہ سکھایا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے حقوق کس طرح ادا کرنے ہیں تو یہ بھی قرآنِ کریم کے مطابق ہی ہے۔ پس ہم میں سے ہر ایک کو اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہم قرآن کریم کی باقاعدگی سے تلاوت کریں ، اس کے گہرے علوم کو سیکھنے کی کوشش کریں اور اس کی تمام تعلیمات پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ آج اگر ہمارے دل اور ذہن پاک و صاف ہو سکتے ہیں اور ہم میں پاک تبدیلیاں پیدا ہو سکتی ہیں تو یہ صرف اللہ تعالیٰ کے کلام کو پڑھنے اور سمجھنے کے نتیجہ میں ممکن ہے۔
میرے لئے ممکن نہیں کہ اِس قلیل وقت میں قرآن کریم کی اُن تمام تعلیمات کو بیان کروں جن پر ایک مومن کوعمل کرنا چاہئے۔ اس لئے مَیں ان میں سے چند باتوں کا ذکرتا ہوں جنہیں ہر احمدی مسلمان کو اپنانا چاہئے اوران کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:قرآنِ کریم کی سورۃ المؤمنون آیت 2میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ یقیناً مومن کامیاب ہو گئے۔ یہ آیت بہت واضح ہے جس میں اللہ فرماتا ہے کہ حقیقی مومن وہ ہیں جو کامیاب ہوتے ہیں اورترقی حاصل کرتے ہیں۔ لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حقیقی مومن کون ہیں؟ کون ہیں وہ لوگ جو فلاح پاتے ہیں؟ ایک مومن بننے کے لئے کیاصرف کلمہ طیبہ کوپڑھ لینا ہی کافی ہے؟یعنی اس بات پر ایمان لانے کا اقرار کرناکہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے رسول ہیں ۔اور پھرکیا کلمہ طیّبہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ کسی فرد کا اس بات کا اقرار کر لینا کافی ہے کہ اُس نے حضرت مسیح موعود ومہدی معہود علیہ ا لصلوٰۃ والسلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشگوئیوں کے مطابق قبول کر لیا ہے؟امر واقعہ یہ ہے کہ ایک شخص کا ان باتوں پر اس طرح زبانی کلامی اقرار کرلینا کسی طورپر بھی کافی نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ دین کی بیان کردہ تعلیمات کاعملی نمونہ بننے کی کوشش نہ کر رہا ہو۔
اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضل فرماتے ہوئے ان خوبیوں کے بارہ میں بتا دیا ہے جو ایک حقیقی مومن کے اندر ہونی چاہئیں۔ اس بات کا ذکرفرماتے ہوئے کہ مومن فلاح پا جاتے ہیں اگلی ہی آیت میں یعنی سورۃ المؤمنون کی آیت3میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے اَلَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَاتِھِمْ خٰشِعُوْنَ۔وہ جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کو اچھی طرح واضح فرما دیا ہے کہ سچے ایمان داروں میں شمار ہونے کے لئے خشوع و خضوع اور اخلاص کے ساتھ نماز یں ادا کرنا ضروری ہے۔ انہیں لازمًا اللہ تعالیٰ کے حضور اس کامل یقین کے ساتھ جھکنا ہے کہ وہ تمام طاقتوں کا مالک ہے۔ اُن کو اللہ تعالیٰ کے حضور انتہائی عاجزی کے ساتھ، اُس کی الٰہی عظمتوں کا اقرار کرتے ہوئے ،دل کی گہرائیوں کے ساتھ اس کے حضوراور صرف اسی کے حضورجھکنا اور اسی کی حمد و ثنا کرنی ہے۔ نمازوں میں عاجزی اختیار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنے ربّ کے حضور جھکتے ہوئے اپنے تمام تر گناہوں اور کمزوریوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لے کہ وہ بذاتِ خود کمزور ہے اور اپنے ربّ کے فضل و احسان کے بغیر کچھ بھی نہیں۔
اسی طرح سورۃ المؤمنون کی آیت 10میں اللہ تعالیٰ مومنین کا ذکر کرتے ہوئے فرماتاہے: وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلَوٰتِھِمْ یُحَافِظُوْنَ۔اور وہ لوگ جو اپنی نمازوں پر محافظ بنے رہتے ہیں۔ پس ایک مومن کے لئے پنجوقتہ نمازوں کا باقاعدگی کے ساتھ التزام از حد ضروری ہے۔نیز اُن کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی نمازوں کو جس حد تک ممکن ہو سکے باجماعت ادا کریں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک حدیث مبارکہ کے مطابق باجماعت نماز کا ثواب انفرادی نماز سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اس بات میں بھی ایک حکمت ہے۔ اور وہ یہ کہ باجماعت نماز لوگوں کو اکٹھا کرنے کا اورجماعت میں وحدت و یگانگت قائم کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اس لحاظ سے باجماعت نماز ایک جماعت کی اجتماعیت اور قوت کو ظاہر کرتی ہے
خدام الاحمدیہ کے ممبران اپنی عمر کے ایسے حصہ میں ہوتے ہیں جس میں وہ جسمانی طور پر سب سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں اوراپنی زندگی کے کسی بھی شعبہ میں ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہیں اللہ تعالیٰ کی فرض عبادتوں کی ادائیگی میں کوئی مشکل نہیں ہونی چاہئے۔ اس لئے تمام خدام اور اطفال کو اپنی نمازوں میں باقاعدہ ہونا چاہئے اور جس حد تک ممکن ہوسکے نمازوں کو باجماعت ادا کرنا چاہئے۔ آپ میں سے ہر ایک نماز کے قیام کو اپنی زندگی کانصب العین بنا لے کیونکہ جنت کے دروازے خالص عبادت سے ہی کھولے جاتے ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: پھر آگے سورۃ المؤمنون کی آیت 4میں اللہ تعالیٰ حقیقی مومن کی ایک اور نشانی بیان فرماتاہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ ۔ اور وہ جو لغو سے اعراض کرنے والے ہیں۔اس زمانہ میں گناہ اور بداخلاقی مختلف صورتیں اختیار کر کے ہر جگہ پھیل چکی ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ لوگ ٹولیاں بنا کرغیر تعمیری کاموں یا گپّوں میں وقت ضائع کرتے ہیں۔ افسوس کہ ہماری جماعت میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں غیر ضروری تبصرے کرنے کی بُری عادت ہے۔اور بعض اوقات وہ اپنی ذاتی رنجشوں کی وجہ سے نظامِ جماعت کے خلاف بھی کھلے عام بات کر جاتے ہیں۔ یہ ایک مومن کی شان نہیں ہے۔ اس لئے ہمارے احمدی مَرد وں اور لڑکوں کو ایسی جہالت اور بیکارکی باتوں سے گریز کرناچاہئے اور اپنی ذات میں نیکی اور تقویٰ کا عملی نمونہ ہونا چاہئے۔آپ لوگوں کے اجتماعات ایک دوسرے کو نیکی اور تقویٰ کی طرف مسابقت میں بڑھانے والے ہونے چاہئیں، نہ یہ کہ کوئی کسی دوسرے کی گمراہی کا باعث بنے۔ نَو جوان خدام اور بڑی عمر کے اطفال کو بھی اس بات کو یاد رکھنا چاہئے اور انہیں ہر وقت اچھے دوستوں اور اچھی صحبت میں رہنا چاہئے۔
اس کے علاوہ کئی اَور بُرائیاں اور گناہ ہیں جو آج کے معاشرے میں بد اخلاقیاں پھیلانے کا باعث ہیں۔ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ روز بروزبڑھ رہی ہیں۔ مثلاً انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا غلط استعمال عام ہوتا جا رہا ہے جس میں لڑکے اور لڑکیوں کی آن لائن آپس میں نامناسب chatting شامل ہے۔اسی طرح انٹرنیٹ کے ذریعہ سے بے ہودہ اور بد اخلاقیوں سے پُر فلمیں دیکھی جاتی ہیں جس میںpornographyبھی شامل ہے۔سگریٹ پینا اور شیشہ کا استعمال بھی پھیلنے والی برائیوں میں شامل ہے۔
اس کے علاوہ اس بات کو یاد رکھیں کہ بعض اوقات جائز چیزوں کا غلط استعمال بھی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک شخص آدھی رات تک ٹی وی دیکھتا رہے یا انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے جاگتا رہے اور اس کی فجر کی نماز ضائع ہو جائے۔ اگرچہ وہ اچھے پروگرام ہی کیوں نہ دیکھ رہا ہواِس کے باجود اس کا نتیجہ یہ نکلاکہ وہ نیکی اور تقویٰ سے دُور ہو رہا ہے۔ پس اس پہلو سے ایک جائز چیز بھی برائی میں شمار ہوگئی جو ایک حقیقی مسلمان کے معیار سے مطابقت نہیں رکھتی۔پس بنیادی طور پر اگر کسی بھی کام یا چیزکے زہریلے یا نقصان دہ اثرات کسی کے ذہن پر پڑتے ہوں توقرآن مجید کے مطابق وہ چیز یا کام لغو شمار ہو گا۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: سورۃ المؤمنون آیت 6میں اللہ تعالیٰ نے مومن کی ایک اَور خوبی کی نشاندہی فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِھِمْ حٰفِظُوْنَ۔اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
اپنی عفّت و حیا کو قائم رکھناصرف ایک عورت ہی کا کام نہیں ہے بلکہ مردوں پر بھی فرض ہے۔ اپنی عفّت کی حفاظت کرنے کا صرف یہ مطلب نہیں کہ ایک شخص شادی شدہ زندگی سے باہر ناجائز جنسی تعلقات سے بچتا رہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ہمیں اس کا یہ مطلب سکھایا ہے کہ ایک مومن ہمیشہ اپنی آنکھیں اور اپنے کان ہر اُس چیز سے پاک رکھے جو نامناسب ہےاور اخلاقی طور پر بُری ہے۔ جیساکہ مَیں نے بیان کیا ہے ایک چیز جو انتہائی بیہودہ ہے وہ pornographyہے۔ اسے دیکھنا اپنی آنکھوں اور کانوں کی عفّت اور پاکیزگی کو کھو دینے کے مترادف ہے۔یہ بات بھی پاکبازی اور حیا سے متعلق اسلامی تعلیمات کے منافی ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کا آزادانہ طور پر آپس میں میل جول ہو اور ان میں باہم تعلقات اور نامناسب دوستیاں ہوں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ہم احمدی عورتوں کو کہتے ہیں کہ انہیں پردہ کرنا چاہئے۔ اور مَیں بھی احمدی عورتوں کو یہی کہتا ہوں کہ وہ پردہ کریں اور اپنی عفّت و پاکیزگی کی حفاظت کریں۔ لیکن یہ بات یاد رہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو پردہ کرنے کا حکم دینے سے پہلے مومن مردوں کو حکم دیا ہے کہ وہ غضِ بصر سے کام لیتے ہوئے اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنے دل و دماغ کو ناپاک خیالات اور برے ارادوں سے پاک رکھیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر سورۃ النورآیت 31میں فرمایا ہے کہ قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْ۔ذَالِکَ اَزْکٰی لَھُمْ۔اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ۔مومنوں کو کہہ دے کہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں۔ یہ بات ان کے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔ یقیناً اللہ، جو وہ کرتے ہیں، اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔
جبکہ مَردوں کو ظاہری طور پر اس طرح پردہ کا حکم نہیں ہے جس طرح عورتوں کو ہے قرآن مجید واضح طور پر اس بات کا حکم دیتا ہے کہ مرد اپنی آنکھیں پاکیزہ رکھیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ عورتوں کی طرف شہوت کی نگاہ سے نہ دیکھیں اوراپنے دماغوں کوصاف رکھیں اور ہر ایسی بات سے دُور رکھیں جن سے انسان برائی کی طرف مائل ہو سکتا ہے۔
یہ وہ پردہ ہے جس کا مَردوں کوحکم ہے اور جس سے معاشرہ برائی،بے حیائی اور خطرات سے محفوظ رہ سکتا ہے۔اسلام کی بیان فرمودہ کوئی بھی تعلیم سطحی اور بغیر حکمت کے نہیں۔بلکہ اسلام کا ہر اصول انتہائی پُر حکمت اور مضبوط بنیادوں پر مشتمل ہے۔ چنانچہ مردوں کے غضِّ بصر سے کام لینے کے حکم سے اسلام ہمیں دراصل اپنے نفس پر قابو رکھنا سکھاتا ہے۔ کیونکہ عمومًانظر سے ہی مردوں کے جذبات اور خواہشات ابھرتے ہیں۔ معاشرہ کو نامناسب باتوں اور برائیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے اسلام نے مردوں اور عورتوں دونوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی نظروں کو مخالف جنس کے سامنے جھکا کر رکھیں، یا ہر ایسی چیز سے اپنی نظروں کو بچا کر رکھیں جن سے ناجائز طور پرشہوانی خیالات پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔ یاد رکھیں! پاکبازی ایک خادم کا لازمی اخلاقی وصف ہے اس لئے آپ کو ہر ایسی چیز سے دُور رہنا ہے جواسلام کی حیا سے متعلق تعلیمات کے منافی ہے۔ اگر آپ اس کام میں کامیاب ہو جائیں تو آپ حقیقت میں روحانی ترقیات حاصل کر سکتے ہیں۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: دواَور گناہ جو آج کَل پھیلے ہوئے ہیں وہ شراب نوشی اور جؤا کھیلنا ہے۔یہاں مغرب میں ان دونوں کو عام سمجھا جاتا ہے لیکن قرآن کریم نے واضح طور پر اس کی ممانعت کی ہے کیونکہ دونوں برائیوں کے انتہائی گہرے اور دور رَس منفی اثرات ہیں۔ قرآن کریم کی سورۃ البقرۃ آیت 220میں اللہ تعالیٰ نے دونوں گناہوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ۔ قُلْ فِیْھِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ اِثْمُھُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا۔وہ تجھ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ تُو کہہ دے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ (بھی)ہے اور لوگوں کے لئے فوائد بھی۔ اور دونوں کا گناہ (کا پہلو)ان کے فائدے سے بڑھ کر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس
میں شراب اور جوئے کے تعلق میں جو عربی لفظ استعمال کیا ہے وہ ’’اِثْمٌ‘‘ ہے۔اِثمٌ ایسی چیز ہوتی ہے جو نیکیوں اور اچھائیوں کے راستہ میں رکاوٹ ہو۔پس اللہ تعالیٰ نے شراب اور جوئے سے منع کیا ہے کیونکہ یہ دونوں چیزیں انسان کو اچھائیوں سے دُور لے جاتی ہیں۔ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا تھا کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو یہ حکم دیتا کہ وہ نیکی اور تقویٰ اختیار کریں اور دوسری طرف انہیں یہ اجازت بھی دے دیتا کہ وہ آزادانہ طور پر اُن چیزوں کا استعمال کریں جو انہیں مخالف سمت کی طرف لے جاتی ہوں۔
جہاں تک شراب کا تعلق ہے اسے حقیقی فائدہ کے لئے استعمال کرنا جائز ہے جیساکہ خاص دوائیوں میں اس کا محدود مقدار میں استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اس سے ہٹ کر اسلام میں شراب نوشی کلیۃً منع ہے کیونکہ اس کے نتیجہ میں انسان عمدہ اخلاق،نیکی اور زُہد سے دُور چلا جاتا ہے۔ مثلاً انسان کے خیالات شراب کے اثر میں آ کر اس قابل نہیں ہوتے کہ وہ نمازیں ادا کر سکے یا اس کی روحانیت میں ترقی ہو۔ اسی وجہ سے جب شراب کی ممانعت سے متعلق حکم نازل ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے سختی سے اپنے اصحاب کو شراب پینے سے منع فرمایا۔ آپ میں سے اکثرلوگوں نے اس حوالہ سے صحابہ کی مثالی اطاعت کے نمونے قائم کرنے کے بارہ میں سُنا ہی ہو گا کہ وہ لوگ جو پہلے شراب پیتے تھے انہوں نے حکم سنتے ہی بلا توقّف ، بغیر کسی ہچکچاہٹ کے فورًا اپنے شرابوں سے بھرے مٹکے اور برتن توڑ ڈالے ۔
مَیں نے شراب نوشی کے نتیجہ میں روحانیت میں کمی اور اس کے بداثرات کی بات کی ہے۔ آج ڈاکٹرز اور سائنسدان بھی کھلے طور پر اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ شراب نوشی سے جسم پر انتہائی بد اثرات پڑتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب انسان شراب پیتا ہے تو دماغ کے کئی ہزار cells تباہ ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح شراب نوشی سے جگر پر ہونے والے گہرے بد اثرات سے کون واقف نہیں۔
جؤا کھیلنا اس لئے منع ہے کیونکہ اس سے انسان کی حلال کمائی اور اُس کا مال لاپرواہی سے ضائع ہوتا ہے۔ کسی کی کمائی سے جؤا کھیلنا خواہ وہ casinosمیں ہو یا کسی اور ذریعہ سے ہو مثلاً جؤا کھیلنے والی مشینوں پر ، یا سروس سٹیشنز میں،دکانوں میں یا شرطیں لگا کر کارڈز کھیلنا ایک ایسا کام ہے جو حلال اور جائز کمائی کو ناجائز اورناپاک بنا دیتی ہے۔ جیساکہ مَیں نے کہا یہ نیکی کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے۔اسی طرح اللہ تعالیٰ سورۃ المائدۃ آیت 91میں فرما تا ہے کہ:یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَ زْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ۔اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! یقینا مدہوش کرنے والی چیز اور جؤا اور بُت(پرستی) اور تِیروں سے قسمت آزمائی یہ سب ناپاک شیطانی عمل ہیں۔ پس ان سے پوری طرح بچو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔
پس ہر احمدی مرد، عورت اور بچے کو ان چیزوں سے دوررہنے کو یقینی بنانا ہے۔جؤا کھیل کر
ز اور آسان طور پر پیسے کمانے کی بجائے آپ کو جائز طریق پر ایمانداری کے ساتھ کمائی کرنی چاہئے۔ یاد رکھیں کہ ایک سچا اور حقیقی خادم وہ ہے جو ایمانداری اورپُر وقار انداز میں ہر وقت محنت سے کام کرتا ہے ۔اگر آپ واقعی اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو آپ کو لازمًا ہر وہ چیز چھوڑنی پڑے گی جس سے قرآن کریم ہمیں منع فرماتا ہے اور جن چیزوں سے ہمیں خبردار کرتا ہے ۔ قرآنی احکامات کی اطاعت سے انسان بہت وسیع انعامات کا وارث بنتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خُود فرمایا ہے کہ جو ناجائز چیزوں کو چھوڑ دیتے ہیں وہ حقیقی فلاح پاتے ہیں۔ فلاح کے معانی کامیابی،ترقی، خوشی اور ذہنی سکون کے ہیں۔ طبعی طور پر ہر انسان ذہنی سکون حاصل کرنا اور ہر قسم کی بے چینیوں اور پریشانیوں سے دُور رہنا چاہتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم عطا کر کے ہم پر بہت احسان کیا ہے تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ ہم کس طرح حقیقی خوشی اور ترقی حاصل کر سکتے ہیں۔
مَیں نے بنیادی طور پراُن معاملات کی طرف توجہ دلائی ہے جو آج معاشرے اورنَوجوان نسل پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ قرآن کریم میں کئی اَور احکامات ہیں اور ہمیں ہر ایک حکم کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے اور ان کو ماننے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہمیں ہر گناہ سے بچنا چاہئے کیونکہ نہ صرف یہ مومن کی شان کے خلاف ہیں بلکہ ہمیں اللہ تعالیٰ اور اُس کی عبادت سے دُور لے جاتے ہیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اب مَیں کچھ اَور باتیں بیان کروں گا جو تمام خدام کو ذہن نشین رکھنی چاہئیں تاکہ وہ ہمیشہ اُن لوگوں میں شمار کئے جائیں جو مسلسل آگے بڑھتے ہیں اور ترقی کرتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مجلس خدام الاحمدیہ اور دیگر ذیلی تنظیموں کا قیام اس ارادہ سے فرمایاتھا کہ ہماری جماعت کی ہر سطح پر ایک ایسا نظام وضع کیا جائے جس سے ہر احمدی مرد، عورت اور بچے کی اخلاقی تربیت اوراس کے لئے بہتری کے سامان ہوں۔خاص طور پر عہدیداران کویاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا نقطہ نظر اور آپ ؓ کی خواہش یہ تھی کہ ہر ذیلی تنظیم میں لوگوں کے لئے قابلِ تقلید نمونہ رکھنے والے احمدی ہوں جو اپنے ساتھیوں کی تربیت اسلام کی حقیقی تعلیمات کے مطابق کریں جن میں سے چند کا ابھی مَیں نے ذکر کیا ہے۔ اس لئے ہمارے عہدیداروں پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور اُن کا یہ کام ہے کہ وہ اپنے اِرد گرد کے لوگوں کا خیال رکھیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ایک بات کی طرف مَیں خاص طور پر توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہر عہدیدار خواہ اس کی عمر کم ہو یازیادہ اُس کا عہد ہ چھوٹا ہو یا
بڑااسے اپنے اندر حقیقی عاجزی کی روح پیدا کرنی چاہئے۔ پس چاہے آپ ایک مقامی قائد ہیں، مہتمم ہیں، نیشنل صدر ہیں یا کسی اور سطح کے عہدیدارہیں آپ کو ہر لمحہ عاجزی و انکساری سے گزارنا چاہئے۔اللہ تعالیٰ سورۃ الفرقان آیت 64میں فرماتا ہے کہ اُس کے حقیقی خادم کی ایک خاص نشانی یہ ہے کہ وہ زمین پر عاجزی کے ساتھ چلتا ہے اور وہ تکبر اور فخر کا کوئی گمان بھی نہیں رکھتا۔اگر کوئی اُن حقیقی خادموں سے جھگڑنا چاہتا ہے یا انہیں کسی تنازعہ یا بحث مباحثہ کی طرف انگیخت کرتا ہے تو وہ اس کا جواب سلام کی صورت میں پُرامن طریقہ پردعا کے ساتھ دیتے ہیں۔ لڑائی جھگڑے اورمشتعل ہونے کی بجائے اُن کا ردّ عمل پُر امن ہوتا ہے اور وہ عاجزی کے ساتھ ایسے معاملات کو طے کرتے ہیں۔ پس ہر خادم اور بڑی عمر کے اطفال کو یہ اصول یاد رکھنا چاہئے اور اس عظیم وصف کو اپنانا چاہئے۔
کسی احمدی کوکبھی بھی اپنی بڑائی بیان کرنے والا یا متکبر نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی اُسے جھگڑالو اورغصیلا ہونا چاہئے۔ہر احمدی کاہی یہ فرض ہے کہ وہ عاجزی، خوش اخلاقی اور نرمی سے کام لینے والا ہوتو عہدیداران کی اس لحاظ سے دہری ذمہ داری بن جاتی ہے۔خدام الاحمدیہ کے عہدیداروں کو ایسے معیاروں پر قائم ہونا چاہئے کہ اگر انہیں انگیخت بھی کیا جائے، یا کوئی اُن سے جھگڑنا بھی چاہے تو ان کو چاہئے کہ وہ وقار کے ساتھ سلام کہتے ہوئے اس جگہ سے چلے آئیں۔ اگر خدام الاحمدیہ کے عہدیدار یہ رویّہ اپنا لیں تو مستقبل میں ہمارے مرکزی جماعتی عہدیدار بھی عاجز اور نرم دل ہو جائیں گے۔
مجلس خدام الاحمدیہ کے ممبر ہونے کی حیثیت سے آپ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ آپ ہمارے روحانی لشکر کی دوسری صف میں شامل ہیں۔ اور ایک روز آپ کو پہلی صفوں میں آنا ہے۔آپ وہ لوگ ہیں جنہیں ایک دن ہماری جماعت کی بڑی بڑی ذمہ داریوں کا بیڑا اٹھانا پڑے گا ۔اور آپ کو اس کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ آپ کے واحد ہتھیار آپ کی عاجزی و انکساری اور دعائیں ہوں گی۔مزید یہ کہ آپ کبھی بھی جماعت کی خدمت کو معمولی بات نہ سمجھیں۔ بلکہ ہمیشہ جماعت کی خدمت کو ایک عظیم سعادت اور فضلِ الٰہی سمجھیں۔ اور اس بات کو مدّنظر رکھیں کہ یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ دوسروں کے لئے بہترین نمونہ قائم کریں۔خدام الاحمدیہ کی ہر سطح کے ہر عہدیدار کو ایک روشن رہنماکی طرح ہوجانا چاہئے جو اپنے ماحول کو روشن کر دیتا ہے۔ اس طرح ہر مجلس میں ایسے لوگ پیدا ہو جائیں گے جو ہمیشہ جماعت کی خدمت کے لئے مستعد رہیں گے اوراس کے لئے اپنے وقت، مال اور عزت کی قربانی کے لئے ہر دم تیار رہیں گے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ جماعتی خدمت کا موقع ملنا خواہ کسی بھی صورت میں ہو ایک عظیم سعادت اور برکت کا باعث ہے۔ ہر عہدیدار کو اپنی ذمہ داریاں محنت، لگن اور دیانتداری کے ساتھ ادا کرنی چاہئیں اور کوشش کرنی چاہئے کہ خدام کا ایک دوسرے کے ساتھ باہمی بھائی چارہ کا تعلق مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے۔ ہر قائد یا ناظم کا اپنی قیادت یا رِیجن(region) کے خدام اور اطفال سے براہ راست تعلق ہونا چاہئے اور اُن کی مدد اور رہنمائی کے لئے میسر رہنا چاہئے اور انہیں جماعت کے قریب لانا چاہئے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ خدام کی ایک بہت بڑی تعداد یعنی ایک جائزے کے مطابق لگ بھگ 40فیصد ایسے خدام ہیں جن کا یہ خیال ہے کہ مجلس خدام الاحمدیہ کے اکثرعہدیداروں کے نمونے عمدہ نہیں۔عین ممکن ہے کہ وہ اپنے مقامی قائد یا ناظمین کے حوالہ سے بات کر رہے ہوں یا نیشنل عاملہ اور جماعت کے عہدیداروں کی بات کر رہے ہوں بہر صورت وہ یا تو لوکل سطح کی بات کر رہے ہیں یا پھر نیشنل سطح کی۔ بہر حال حقیقت جو بھی ہے، نیشنل عاملہ سے لے کر مقامی عاملہ تک ہر عہدیدار کو اورہرسطح کے main جماعتی عہدیداران کو بھی دوسروں کے لئے بہترین اور قابلِ تقلید نمونہ بننا چاہئے۔ ’main جماعتی عہدیداران‘ سے مراد امیر جماعت اور مقامی صدران اور ان کی عاملہ ہے۔
خدام سے لئے جانے والے جس سروے کا ابھی میں نے ذکر کیا ہے مَیں نہیں جانتا کہ وہ اپنے لوکل عہدیداران کی بات کر رہے ہیں یا نیشنل عہدیداران کی۔ بہر حال میری رائے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدام الاحمدیہ کے عہدیداروں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جن کا نمونہ اچھا ہے اور وہ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں اور خدام سے رابطہ میں رہنے اور ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔تاہم بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے اور اس لحاظ سے ہر عہدیدار کو مسلسل بہتری کی طرف گامزن رہنا چاہئے اور اپنے اور اپنے ارد گِرد کے لوگوں کے معیاروں کو بلند کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اگر وہ اس لحاظ سے اپنی ذمہ داریوں کوپورا کریں تو وہ ہماری آئندہ نسلوں کی حفاظت کا ذریعہ بنیں گے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ہمیشہ قرآن کریم کا اصول یاد رکھیںجس کا ذکر سورۃ البقرۃ آیت 149میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر ایک کے لئے ایک ہدف اور ایک مطمحِ نظر ہے اور مومنین کا ہدف یہ ہونا چاہئے کہ وہ نیکی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جائیں۔اور اُنہیں اچھے کاموںمیں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔پس تمام خدام اور اطفال کو یاد رکھنا چاہئے کہ حقیقی مومنین میں شمار ہونے کے لئے اُن میں ہمیشہ یہ تمنّا ہونی چاہئے کہ وہ ہر قسم کی نیکیوں میں آگے بڑھیں گے اور مسلسل اپنے آپ کو روحانی طور پر بھی اور اخلاقی طور پر بھی صیقل کرنے کی کوشش کریں گے ۔ ہمیشہ اس بات کو یاد رکھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشگوئیوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرنا ہم پریہ ذمہ داری وارد کرتا ہے کہ ہم آپ ؑ کی ہر بات پر عمل کریں جس کی آپؑ نے ہمیں تعلیم دی ہے۔
اللہ تعالیٰ آپ سب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بابرکت ہدایات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ آپ کا شمار حقیقی مومنین میں ہو سکے۔ اللہ کرے کہ آپ سب ہمیشہ خلیفۂ وقت کی توقعات پر پورا اُترنے والے ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ ہر خادم اور طفل پر مسلسل اپنے خاص فضلوں کی بارش برساتا رہے۔ آمین۔
اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اردو زبان میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
بعض لوگ یہاں نئے آنے والے انگریزی نہ سمجھنے والے بھی ہیں ان کے لئے مختصر ًا مَیں کہہ دیتا ہوں کہ ان کا یہاں اس ملک میں آنا، یہاں رہنا ،ان کے اسائلم پاس ہونا یا کسی بھی شکل میں اِس ملک سے فائدہ اٹھانا احمدیت کی وجہ سے ہے۔ اور اگر احمدیت کی وجہ سے ہے تو پھر اپنے آپ کو حقیقی احمدی ثابت کرنے کی کوشش کریں اور یہاں کی برائیوں میں مبتلا ہونے کی بجائے جو اچھائیاں ہیں وہ بے شک حاصل کرنے کی کوشش کریں اور اپنی اچھائیوں کو کبھی نہ چھوڑیں۔ دین کو دنیا پر مقدّم کرنے کا جو عہد ہے ہمیشہ اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں ورنہ آپ لوگ ان بدعہدوں میں شمار ہوں گے جو اپنے عہدوں کا پاس نہیں رکھتے اور پھر اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں بھی آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے مختلف طریقے ہیں اس لئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے اپنی زندگیاں گزارنی چاہئیں۔ اور سب سے پہلے یاد رکھیں کہ آپ احمدی ہیں اور احمدی کی حیثیت سے اس ملک کی شہریت آپ کو ملی ہے یا اس ملک سے جو مفادات ہیں یا فائدے ہیں آپ کو حاصل ہو رہے ہیں۔
پس اگر یہ بات سامنے رکھیں گے تو ہمیشہ اپنی حالتوں پر بھی غور کرتے رہیں گے اور اپنے عہدوں کی پابندی کرتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق بھی عطا فرمائے۔ دعا کر لیں۔ (دعا)