فضائلِ صیام و ماہ رمضان از رُوئے قرآن (فرمودہ حضرت الحاج حکیم مولانا نورالدین خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ)
حضرت الحاج حکیم مولانا نورالدین (خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ) نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی مبارک زندگی میں 19اکتوبر 1906ء کو ایک خطبہ جمعہ میں ماہ رمضان کی فضیلت و برکات اور صیام رمضان سے متعلق مختلف مسائل کا ذکر فرمایا جو ذیل میں ہدیۂ قارئین ہے۔ (مدیر)
تشہد اور تعوذ کے بعد آپؓ نے سورۃالبقرہ کی حسب ذیل آیت تلاوت فرمائی:
شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ۔ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ۔ وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَ یَّامٍ اُخَرَ۔ یُرِیْدُاللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ۔ وَلِتُکْمِلُوْا الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوااللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ۔
(سورۃ البقرہ آیت 186)
تلاوت کے بعد آپ نے اس کا ترجمہ کرتے ہوئے فرمایاـ:
ماہ رمضان ایسا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے۔ درانحالیکہ تمام لوگوں کے لئے وہ بڑا ہدایت نامہ ہے اور روشن حجتیں ہیں۔ ہدایت اور حق و باطل میں تمیز کرنے والے دلائل ہیں۔ پس جو تم میں سے پاوے اس مہینہ کو تو اس کو چاہئے کہ اس میں روزے رکھے اور جو مریض یا مسافر ہو تو اَور دنوں میں گن کر روزے رکھ لے۔ خداتعالیٰ تمہارے لئے آسانی کا ارادہ کرتا ہے اور دشواری کو نہیں چاہتاأ اور تاکہ تم پوری کرلو گنتی قضا شدہ روزوں کی اور تاکہ بڑائی بیان کرو اللہ کی اس پر کہ تم کو ہدایت کی اور تاکہ تم شکر کرو۔
واضح ہو کہ یہ آیت دوسرے پارہ کے رکوع میں واقع ہے اور تتمّہ ہے ان آیات کا جو اس سے پہلے فضیلتِ صیام میں بیان فرمائی گئی ہیں
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔ اَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ۔فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ۔ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَھُوَ خَیْرٌلَّہٗ۔ وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌلَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔
(سورۃ البقرہ آیات 184 تا 185)
احادیث میں فضائل روزہ رکھنے کے بہت کثرت سے مکتوب ہیں۔ . . . . . مَیں اس وقت بِحَوْلِہٖ وَ قُوَّتِہٖ تعالیٰ صرف قرآن مجید ہی سے کچھ فضائل صیام و ماہ رمضان کے بیان کروں گا۔ اِلَّامَاشَاءَ اللہ۔ لیکن واسطے تفقّہ ان آیات کے اوّلاً چند امور کا بیان کردینا ضروری ہے۔ امید ہے کہ ان کو بتوجہ سنا جاوے گا۔
(1)……. اس آیت سے پہلی آیات میں اگر صیام سے مرادِ الٰہی رمضان شریف ہی کے روزے لئے جاویں تو تشبیہ بلفظ کَمَا بخوبی چسپاں نہیں ہوتی کیونکہ اُممِ سابقہ پر رمضان شریف کے روزے فرض نہیں ہوئے تھے بلکہ مختلف ایام کے روزوں کا رکھنا بغیر کسی خاص تعیّن کے ثابت ہوتا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید کے الفاظ اَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ بھی اسی کی طرف ناظر ہیں۔دیکھو کتاب خروج کا باب 34 اور کتاب دانیال کا باب دہم جس میں تین ہفتہ کے روزوں کا رکھنا حضرت دانیال سے ثابت ہوتا ہے اور کتاب سلاطین 8:19 چالیس دن کا روزہ رکھنا معلوم ہوتا ہے اور اعمال کے 9:2سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسائی بھی یہ روزے اَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ رکھا کرتے تھے۔ غرض کہ تعیّن ایک ماہ رمضان کا کتب بائبل سے روزوں کے لئے نہیں پائی جاتی۔ ہاں صرف اَیَّامًا مَّعْدُوْدَاتٍ کے روزے بغیر تعیّن شہر رمضان کے معلوم ہوتے ہیں۔
اور اگر یہاں پر صرف ایک ادنیٰ امر میں ایجاب میں ہی حرف کَمَا تشبیہ کے لئے تسلیم کرلیا جاوے تو دوسرا امر یہ ہے کہ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ سےرمضان کے روزے رکھنے اور نہ رکھنے میں اختیار ثابت ہوگا۔ ہاں البتہ صرف ایک فضیلت ہی روزہ رکھنے کی ثابت ہوسکتی ہے۔ کَمَا قَالَ تَعَالیٰ ’وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌلَّکُمْ‘۔
لیکن درصورتیکہ مراد کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ سے رمضان کے ہی روزے ہونویں تو یہ مخالف ہے آگے کی آیت کے، جو بصیغہ امر فَلْیَصُمْہُ وارد ہے اور نیز مخالف ہے وَلِتُکْمِلُوْا الْعِدَّۃَ کے، کیونکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ارادہ کرتا ہے کہ تم عدّتِ صیامِ شہر رمضان کا اکمال کرلو، نہ یہ کہ صیام اور فدیہ کے درمیان تم کو اختیار ہو۔
اور اگر یُطِیْقُوْنَہٗ کے پہلے لَا مقدر مانا جاوے جیسا کہ بعض مفسّرین نے لکھا ہے تو اس طرح سے محذوفات کے ماننے میں مخالف کو بڑی گنجائش مل جاوے گی کہ جس آیت کو اپنے خیال کے مطابق نہ پایا اس کو اپنے خیال کے مطابق کوئی کلمہ محذوفات کا مان کر بنالیا۔ ہاں البتہ اس امر کا انکار نہیں ہوسکتا کہ قرائن سے جملہ کلاموں میں اور نیزقرآن مجید میں اکثر محذوفات مان لئے جاتے ہیں اور اگر ہمزہ باب اِفعال کا سلب کے لئے کہا جاوے تو اَطَاقَ یُطِیْقُ کا محاورہ بمعنی عدم طاقت کے عرب عرباء سے ثابت کرنا ضروری ہوگا۔ مختار الصحاح میں تو لکھا ہے: وَالطَّوْقُ اَیْضًا اَلطَّاقَۃُ وَ اَطَاقَ الشَّی ءَ اَطَاقَۃً وَھُوَ فِیْ طَوْقِہٖ اَیْ فِیْ وُسْعِہٖ۔ اور یہی محاورہ مشہورہ ہے۔ پس ہمزہ سلب کے لئے اس میں ماننا غیرمشہور ہے اور الفاظ قرآن مجید کے معانی حتی الوسع مشہور ہیں یعنی مناسب ہیں نہ غیرمشہور۔
اور اگر یہ سب کچھ تسلیم بھی کرلیا جاوے تو اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌلَّکُمْ اس کے منافی ہے کیونکہ اس کا مفہوم صرف روزے رکھنے کی فضیلت ہے، نہ لزوم روزوں کا۔ حالانکہ رمضان کے روزے فرض و لازم ہیں نہ غیرلازم یا اختیاری۔ جیسا کہ فَلْیَصُمْہُ اور وَلِتُکْمِلُوْا الْعِدَّۃَ سے ثابت ہوتا ہے۔
اور اگر یُطِیْقُوْنَہٗ کی ضمیر فدیہ کی طرف راجع کی جاوے تو بلاوجہ توجیہ کے اضمار قبل الذکر لازم آوے گا اور اگر پھر اضمار قبل الذکر بھی تسلیم کرلیا جاوے تو ضمیر مذکّر کی لفظ فدیہ کی طرف جو مؤنّث ہے راجع ہوگی۔ پھر اس میں تاویل در تاویل یہ کرنی پڑے گی کہ مراد فدیہ سے چونکہ طعام ہے اس لئے ضمیر مذکر لائی گئی اور یہ سب امور تکلّفات سے خالی نہیں ہیں۔
تیسرا امر یہ ہے کہ مریض اور مسافر کا حکم پہلے ایک مرتبہ بیان ہوچکا ہے۔ پھر آیتشَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ کے آگے اس کا مکرّر لانا کس فائدہ کے لئے ہے؟ اگر کہا جاوے کہ واسطے تاکید کے تو اس پر کہا جاوے گا کہ یہاں پر مقصود تاکید کب ہے۔ کیونکہ اوّل تو ’’بین الفدیۃ و الصیام‘‘ اجازت دی گئی ہے اور ثانیاً وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌلَّکُمْ فرماکر صرف روزے کی فضیلت بیان فرمائی ہے نہ لزوم، جس کی تاکید کے لئے فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ دوبارہ فرمایا جاتا۔ اندریں صورت تکرار بے سُود لازم آتا ہے۔ اور اگر مکرّر ہی فرمانا تھا تو وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ کو بھی مکرّر لایا جاتا۔
خلاصہ یہ کہ ایک جگہ تو فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَکے آگے وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ بھی فرمایا گیا اور اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌلَّکُمْ بھی ارشاد ہوا۔ اور دوسری جگہ پر فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ کے آگے وَلِتُکْمِلُوْا الْعِدَّۃَ ارشاد ہوا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات میں دو قسم کے روزے ہیں جن کا حکم علیحدہ علیحدہ ہے۔ یہ بیان تو اس صورت میں تھا کہ مراد اَلصِّیَام سے صیامِ رمضان ہی ہووے۔
شق دوم :اور اگر پہلی آیات سے علاوہ رمضان کے دوسرے روزے مراد لئے جاویں مثلاً ایام بیض کے روزے یا سِتّہ شوال وغیرہ جن کی فضیلت بھی کتب معتبرہ احادیث میں لکھی ہوئی ہے اور علماء و فقہاء نے ان روزوں کی فضیلت میں یہاں تک لکھا ہے کہ جس نے رمضان اور سِتّہ شوال کے روزے رکھے اس نے گویا سال بھر کے روزے رکھ لئے اور اس کی وجہ یہ لکھتے ہیں کہ ہر ایک نیکی کا ثواب وہ اللہ، رحمٰن و رحیم دس گنا عطا فرماتا ہے۔ کما قال اللہ تعالیٰ مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِھَا (سورۃالانعام آیت 211) یعنی جو شخص ایک نیکی بجالاوے گا تو اس کو اس نیکی کا دس گنا ثواب ملے گا۔ تو تیس روزوں کا ثواب تین سو روزوں کا ثواب ہوا اور چھ روزوں کا ثواب ساٹھ روزوں کا ثواب ہوا اور سال تمام کے قمری دن بھی تین سو ساٹھ ہی ہوتے ہیں۔ علیٰ ہذا القیاس اگر ایام بِیض کے تین روزے دس ماہ کے لئے جاویں تو بھی تیس روزے ہوتے ہیں جس کے تین سو ہوئے اور پھر ستّہ شوال بھی لیا جاوے جس کے ساٹھ ہوئے تو بھی تین سو ساٹھ روزوں کا ثواب حاصل ہوگیا۔ اور صیام فرض رمضان کے اس پر علاوہ رہتے ہیں۔ اور صرف دس ماہ ہی کے ایام بیض اس واسطے لئے گئے کہ ایک ماہ رمضان کا علیحدہ رہا اور چونکہ ستّہ شوّال کا بھی لے لیا گیا ہے لہٰذا اس حساب میں شوال کے ایام بِیض بھی نہیں لئے گئے بلکہ صرف دس ماہ کے ایام بِیض لے لئے گئے ہیں۔
الحاصل اندریں صورت چونکہ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ (البقرۃ آیت 184) سے ان کی فرضیت مفہوم ہوتی ہے حالانکہ یہ روزے ایام بیض وغیرہ کے لازم نہیں ہیں۔ اس لئے اس شق کی صورت میں مفسرین اس آیت کو دوسری آیت فَلْیَصُمْہُ اور یا وَلِتُکْمِلُوْا الْعِدَّۃَ سے منسوخ قرار دیتے ہیں۔ مگر ایک کلام کے سلسلہ میں ایسا ناسخ و منسوخ ماننا عظمتِ شانِ کلام الٰہی کے بالکل منافی ہے۔ چہ جائیکہ بموجب مسلک ان مفسرین کے جو کسی آیت قرآنی کو منسوخ مانتے ہی نہیں۔ پھر ایک ایسے کلام کے سلسلہ میں جو متصل ہے ناسخ منسوخ کیونکر تسلیم کیا جاسکتا ہے۔
اب خلاصہ کلام یہ ہوا کہ کوئی ایسی توجیہ صرف نظم قرآن مجید سے ہی پیدا کرنی چاہئے جس سے نہ تو کوئی محذوف ماننا پڑے، نہ کسی قسم کا تخالف آیات مذکورہ کے مفہومات میں لازم آوے، اور نہ عدم فرضیت روزوں رمضان کے مفہوم ہووے کیونکہ عدم فرضیت صیام رمضان کی ادلّہ شرعیہ کے محض خلاف ہے۔ اگر کسی توجیہ سے یہ تکلّفات رفع ہوجاویں تو البتہ ثلجِ صدران آیات کے تفقّہ میں حاصل ہوسکتا ہے۔ اب اس جلسہ خطبہ میں صرف ایک توجیہ بیان کی جاتی ہے۔…….. اور وہ تطبیق یہ ہے کہ اسلام میں دو قسم کے روزے ہیں جو کتاب و سنّت سے ثابت ہیں۔ ایک لازم اور دوسرے غیر لازم۔ چونکہ روزہ جو بہ نسبت دیگر عبادات کے ایک عمدہ عبادت ہے جس سے مومن متبع انوار الٰہی کو حاصل کرسکتا ہے اور مکالمات الٰہی کا تجلّی گاہ ہوسکتا ہے جیسا کہ کلام نبوت میں وارد ہوا ہے کہ اَلصَّوْمُ لِیْ وَ اَنَا اُجْزیٰ بِہٖ (بخاری کتاب الصوم) یعنی بصیغہ مجہول ترجمہ روزہ مومن کا خاص میرے ہی لئے ہوتا ہے کہ جس میں ریا وغیرہ کو کچھ دخل نہیں اور ا س کی جزا مَیں خود ہو جاتا ہوں۔ یا اَنَا اَجْزِیْ بِہٖ بصیغہ معروف کہ مَیں بلاوساطت غیرے خود اس کی جزا دیتا ہوں وغیرہ وغیرہ من الاحادیث الصحیحہ۔ یہ احادیث اس امر پر صریح دال ہیں اور سرّ اس میں یہی ہے کہ انسان روزے میں فجر سے لے کر شام تک تینوں خواہشوں کھانے، پینے، جماع کرنے سے رُکا رہتا ہے اورپھر اس کے ساتھ اپنے آپ کو ذکرالٰہی، تلاوت، نماز، درود شریف کے پڑھنے میں مشغول رکھتا ہے تو پھر اس کی روح پر عالم غیب کے انوار کی تجلّی اور ملاء اعلیٰ تک اس کی رسائی کیونکر نہ ہوگی۔
اور یہ جو احادیث میں وارد ہوا ہے کہ رمضان شریف میں شیطان زنجیروں میں بند کئے جاتے ہیں ا ور جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور ملہم غیبی آواز دیتا ہے کہ اے طالب نیکی کے! اس طرف کو آ۔ اور اے برائی کے کرنے والے! کوتاہی کر۔ یہ سب ایسی احادیث اسی امر لطیف کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ پس کوئی شبہ نہیں کہ ظلماتِ جسمانیہ کے دُور کرنے کے لئے روزہ سے بہتر اور افضل کوئی عبادت نہیں ا ور انوار و مکالمات الٰہیہ کی تحصیل کے لئے روزہ سے بڑھ کر اَور کوئی چیز نہیں۔ اور حضرت موسیٰ ؑ نے جب کوہ طور پر تیس بلکہ چالیس روزے رکھے تب ہی اُن کو تورات ملی اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے غار حرا کے اعتکاف میں روزوں کا رکھنا ثابت ہے جس کے برکات سے نزول قرآن کا شروع ہوا اور خود قرآن مجید بھی اسی طرف ناظر ہے کہ شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ۔ اور مسیح موعودؑ نے بھی چھ ماہ یا زیادہ مدّت تک روزے رکھے ہیں جن کی برکات سے ہزاروں الہامات کے وہ مورد ہورہے ہیں۔
بدیں وجوہ موجّہ قرآن اور اسلام نے جو جامع تمام صداقتوں اور معارف کا ہے دونوں قسم کے روزوں کو واسطے حاصل ہونے مزید تصفیہ قلب کے ثابت و برقرار رکھا۔ ہاں دونوں قسموں کے حکم جداگانہ فرمادیئے گئے۔ صیام غیر لازم کا حکم تو یوں فرمایا کہ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ ۔ اور صیام لازم کا حکم یوں ارشاد ہوا کہ فَلْیَصُمْہُ اور وَلِتُکْمِلُوْا الْعِدَّۃَ ۔
آگے رہا لفظ کُتِبَ جس کے معنے مفسرین فرض لکھتے ہیں۔ اس کی نسبت یہ گزارش ہے کہ کچھ ضروری نہیں کہ اس کے معنے فرضیت ہی کے لئے جاویں بلکہ جو حکم شرعی لازم یا غیرلازم ہو، اس کو کہہ سکتے ہیں کہ یہ شرع اسلام میں مکتوب یا لکھا ہوا ہے خواہ وہ حکم لازم ہو یا غیرلازم۔ یہ اصطلاح علماء ہی کی ہے نہ قرآن مجید کی اصطلاح، کیونکہ لفظ کتاب یا اس کی مشتقات قرآن مجید میں صدہا جگہ آئے ہیں، تاہم وہاں پر مرادِ الٰہی فرضیت نہیں ہے۔ کمال قال تعالیٰ وَلْیَکْتُبْ بَّیْنَکُمْ کَاتِبٌ بِالْعَدْلِ (سورۃالبقرہ آیت 283) ایضاً یَکْتُبُونَ الْکِتَابَ بِأَیْدِیْہِمْ (سورۃ البقرہ آیت 81) وَ غَیْرُ ذٰلِکَ مِنَ الْاٰیَاتِ الْکَثِیْرَۃِ۔
آگے رہا حکم شیخ فانی، مرضعہ، پیر ضعیف یا جوان نہایت لاغر و نحیف وغیرہم کا جن پر روزہ رکھنا نہایت درجہ پر شاق معلوم ہوتا ہے۔ سو یہ سب لوگ بایں شرط مشقّت حکم مریض میں داخل ہیں کیونکہ تعریف مریض کی ان پر صادق آتی ہے کہ ان کے جملہ قویٰ کے افعال اپنی حالت اصلی پر باقی نہیں رہے۔ اگر یہ لوگ فدیہ بھی دیویں تو مَنْ تَطَوَّعَ خَیْرً ا فَھُوَ خَیْرٌلَّہٗ پر قیاس کئے جاسکتے ہیں۔ مگر فدیہ بھی اسی شخص پر ہے جو فدیہ دینے کی طاقت رکھتا ہو۔ ورنہ احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رمضان کا روزہ افطار کرنے والے نے خود الٹا ساٹھ مسکینوں کا طعام فدیۃً لے لیا ہے۔ کما فی المشکوٰۃ۔ اور خود قرآن مجید ہی فرماتا ہے کہ یُرِیْدُ اللّہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ (سورۃ البقرہ آیت 186) اور لَا یُکَلِّفُ اللّہُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَہَا (سورۃ البقرہ آیت 287) وغیرہ وغیرہ من الآیات۔
اس توجیہ سے وہ تکلّفات جو مذکور ہوئے نہیں لازم آتے وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔
اب واضح ہو کہ جس قدر احکام شرع اسلام میں مقرر ہیں ان میں اسرار عجیبہ اور لطائف غریبہ غور کرنے سے معلوم ہوسکتے ہیں۔ مثلاً یہاں پر جو شَھْرُ رَمَضَانَ واسطے صیام کے اللہ تعالیٰ کے کلام میں مخصوص فرمایا گیا اس میں ایک عجیب سرّ یہ ہے کہ یہ مہینہ آغاز سنہ ہجری سے نواں مہینہ ہے۔ یعنی 1۔ محرم۔ 2۔ صفر۔ 3۔ ربیع الاوّل۔ 4۔ ربیع الثانی۔ 5۔ جمادی الاوّل۔ 6۔ جمادی الثانی۔ 7۔ رجب۔ 8۔ شعبان۔ 9۔ رمضان۔ اور ظاہر ہے کہ انسان کی تکمیلِ جسمانی شکمِ مادر میں نو ماہ میں ہی ہوتی ہے اور عدد نو (9) کا فی نفسہٖ بھی ایک ایسا کامل عدد ہے کہ باقی اعداد اسی کے احاد سے مرکّب ہوتے چلے جاتے ہیں، لاغیر۔ پس اس میں اشارہ اس امر کی طرف ہوا کہ انسان کی روحانی تکمیل بھی اسی نویں مہینے رمضان ہی میں ہونی چاہئے اور وہ بھی اس تدریج کے ساتھ کہ آغاز شہور ہجری سے ہر ایک ماہ میں ایام بیض وغیرہ کے روزے رکھنے سے بتدریج تصفیہ قلب حاصل ہوتا رہا۔ جیسا کہ شیخ نے کہا ہے کہ
صفائی بتدریج حاصل کنی تامّل در آئینۂ دل کنی
حتیٰ کہ نواں مہینہ رمضان شریف کا آگیا تو اس کے لئے یہ حکم ہوا کہ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ (سورۃ البقرہ آیت 186)۔ یہاں تک کہ مومن متبع کو روزے رکھتے رکھتے آخر عشرہ رمضان شریف کا بھی آگیا۔ پس اب تو ظلمات جسمانیہ اور تکدّراتِ ہیولانیہ سے پاک و صاف ہوگیا تو عالم ملکوت کی تجلّیات بھی اس کو ہونے لگیں اور طاق تاریخوں میں مکالمات الٰہیہ کا مورد ہوگیا اور یہی حقیقت ہے لیلۃالقدر کی جو آخری عشرہ میں ہوتی ہے اور اس لئے شارع اسلام نے تعیین لیلۃالقدر کی 27 شب مقرر فرمادی کیونکہ درصورت 29 دن ہونے شہر رمضان کے وہی 27 شب آخری طاق شب ہوجاتی ہے، جس میں تکمیل روحانی انسان متبع کے حاصل ہوسکتی ہے۔ اس لئے یہ شب 27 کی ایک عجیب مبارک شب ہے جس میں قرآن مجید بھی نازل ہوا۔ کمال قال اللہ تعالیٰ
إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ۔ وَمَا أَدْرَاکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ۔ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَہْرٍ۔ (سورۃالقدر آیات 2 تا 4)۔ ایضاً قال تعالیٰ إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُبَارَکَۃٍ (سورۃالدخان آیت 4)۔اور چونکہ یہ شب مبارک اور لیلۃالقدر دونوں رمضان شریف ہی میں ہوتی ہیں لہٰذا ان تینوں آیتوں میں کوئی اختلاف بھی باقی نہیں رہا۔ اور إِنَّا أَنزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ میں ضمیر مذکر غائب کا مرجع اس لئے مذکور نہیں ہوا ہے کہ جملہ اہل کتاب یہود و نصاریٰ حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے اشد درجہ منتظر تھے کیونکہ تمام کتب میں آپ کی بشارات اور صفات حمیدہ موجود تھیںا ور اب تک موجود ہیں اور اللہ تعالیٰ کا کلام آپ کے منہ میں ڈالا جانا بھی بائبل میں اب تک پایا جاتا ہے۔ اس لئے اس کلام الٰہی کے نزول کا بھی ان کو سخت انتظار تھا۔ اور نیز مشرکین عرب اپنے باپ دادوں سے سنتے چلے آتے تھے کہ حضرت ابراہیمؑ کی اولاد میں سے بنی اسماعیل میں ایک نبی عظیم الشان مبعوث ہونے والا ہے۔ لہٰذا جملہ اہل مذاہب اور اہل کتاب کو اس نبی آخر الزمان اور نزولِ کلامِ الٰہی کا انتظار تھا اور ان میں آپ کی بعثت کا ذکرِ خیر رہتا تھا جیسا کہ سورہ بیّنہ کی ہماری تفسیر سے واضح ہے۔ اس لئے اَنْزَلْنَاہُ کے مرجع کے ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی بلکہ مرجع کے ذکر کرنے میں وہ نکتہ حاصل نہ ہوتا تھا جو اس کے عدم ذکر کرنے میں ایک لطیفہ حاصل ہوا۔ اس لئے مرجع ضمیر ’’اَنْزَلْنَاہُ ‘‘ کا ذکر سابق میں نہیں کیا گیا۔ کیونکہ اس کا ذکر تو کُل اہل کتاب اور مشرکین عرب میں موجود ہے۔…‘‘
(خطبات نُور۔ صفحہ 226 تا 232 )