امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی 2017ء
’العین‘ موبائل آئی کلینک کا افتتاح۔یہ موبائل آئی کلینک بینن میں استعمال کیا جائے گا۔
ہیومینٹی فرسٹ جرمنی کے تحت افریقہ میں ہینڈ پمپس اور نلکے لگانے کے پروگرام کے سلسلہ میں خریدی گئی Boring Rig اور بانجل (گیمبیا) اور ٹوگو (Togo) کے لئے خریدی گئی ایمبیولینسز کا معائنہ۔
واقفین نَو خدّام کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کلاس
… … … … … … … … …
23؍اپریل بروز اتوار 2017ء
… … … … … … … … …
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح پانچ بجکر پندرہ منٹ پر تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی جائے رہائش پر تشریف لے گئے۔
صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی۔
’العین‘ موبائل آئی کلینک کا افتتاح
پروگرام کے مطابق دس بجکر پچیس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ سے باہر تشریف لائے اور ’’العین موبائل آئی کلینک‘‘ (Al-Ain Mobile Eye Clinic)کا معائنہ فرمایا اور بعد ازاں اس کے ایک حصّہ میں لگی تختی کی نقاب کشائی فرمائی اور اس کا افتتاح فرمایا اور دعا کروائی۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے ہیومینٹی فرسٹ جرمنی کو ایک موبائل آئی کلینک تیار کرنے کا کام سپرد فرمایاتھا۔ ہیومینٹی فرسٹ نے ایک خالی ٹریلر 11 ہزار یورو میں خریدا۔ اس کے بعد اس ٹریلر میں تمام ضروری میڈیکل آلات نصب کئے۔اس کام کا آغاز 20 دسمبر 2016ء کو ٹرک ٹریلر کی خرید سے کیا گیا اور چار ماہ کی کوشش کے بعد اس آئی کلینک کو مکمل طور پر تیار کرلیا گیا۔
حضورِ انو ر ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے اس موبائل آئی کلینک کو ’العین ‘ کا نام عطا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے 30 رضاکاران نے اس خدمت میں دن رات کام کیا اور حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز کی جانب سے تفویض کئے گئے اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔
اس موبائل کلینک میں چار کمرے بنائے گئے ہیں۔ ایک کمرہ تشخیص کیلئے بنایا گیا ہے جس میں آنکھ سے متعلقہ کسی بھی بیماری کی تشخیص کی جاسکتی ہے۔ ایک کمرہ ورک شاپ کا ہے۔ اس میں ہر قسم کی عینک موقع پر ہی بنائی جاسکتی ہے اور ضرورتمند کو اسی وقت دی جاسکتی ہے۔ اس ٹریلر کی خاص بات آپریشن تھیٹر ہے، جہاں بہترین اور صاف ستھرے ماحول میں آنکھ کاآپریشن کرنے کی سہولت بھی موجود ہے۔ خاص طور پر موتیا کے آپریشنز کی سہولت ہے۔ اور یہ تمام آپریشنز کے آلات جرمنی میں کئے جانے والے آپریشنز کے معیار کے مطابق ہیں۔ اس آپریشن تھیٹر کے ساتھ ہی ملٹی فنکشنل کمرہ ہے۔ اس میں پانی اور سِنک دستیاب ہے اور مریض کیلئے بیڈ کی سہولت بھی ہے۔ یہاں پرآپریشن سےپہلے مریض کو تیار کیاجائے گا،مثلاً anaesthesia وغیرہ کے لئے۔ یہ سٹاف کے لئے بھی changing روم کے طور پر استعمال ہوگا، جہاں آپریشن کے لئے سٹاف تیاری کرے گا۔یہ کمرہ مریضوں کے لئے pre-operative اور post-operative کیئر روم کے طور پر بھی استعمال ہوگا۔
اس موبائل کلینک میں مکمل آئی سائٹ ٹیسٹ کی سہولت موجود ہے۔ یہ ٹیسٹ manually بھی ہوسکے گا اور آٹومیٹک بھی ہوسکے گا اور اس کے لئے auto refractor meter بھی نصب کیا گیا ہے۔
کورنیا کے ٹیسٹ کرنے کی سہولت بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ موتیا کی تشخیص ، آپریشن اور آپریشن کے بعد کی care، آنکھ کے زخم کا علاج اور ہر قسم کی عینک تیار کرنے کی سہولت بھی اس کلینک میں مہیاکی گئی ہے۔
اس موبائل کلینک کی تیاری پر کُل 55 ہزار یوروز کے اخراجات ہوئے ہیں۔ یہ موبائل کلینک انسانیت کی خدمت کرنے کے لئے افریقہ کے ملک بینن بھجوایاجائے گا۔
٭ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ہیومینٹی فرسٹ جرمنی کے پاس اپنی boring rig ہونی چاہئے تاکہ افریقہ میں جو ہینڈ پمپس اور نلکے لگانے کا پروگرام جاری ہے اس میں مزید سہولت پیداہو۔
ہیومینٹی فرسٹ جرمنی کو Mercedes Benz Unimog Boring Rig خریدنے کی توفیق ملی ہے۔ یہ مشین مکمل طور پر hydraulic ہے اور 150 میٹر گہرائی تک ڈرِل کرسکتی ہے۔ اس کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ یہ نہ تو بہت چھوٹی ہے اور نہ ہی بہت بڑی ہے۔ اس لئے ہرجگہ آسانی سے پہنچائی جاسکتی ہے۔
اس بورنگ رِگ کے ساتھ مخصوص آلات بھی ہیں، مثلاً مختلف قسم کے پائپس، جن کی لمبائی کل 150 میٹر بنتی ہے۔اس کے علاوہ مختلف drills ہیں، جو کہ مختلف قسم کی زمین میں استعمال ہوسکتے ہیں۔یہ بورنگ رِگ ہیومینٹی فرسٹ جرمنی نے 32 ہزار یورو میں خریدی ہے جوافریقہ کے ممالک میں نلکے لگانے کے لئے استعمال کی جائے گی۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کا بھی معائنہ فرمایا اور اس کے استعمال کے حوالہ سے مختلف امور کے متعلق دریافت فرمایا۔
٭ ہیومینٹی فرسٹ جرمنی کو 2 ؍ایمبولینسز خریدنے کی بھی توفیق ملی ہے۔ ان میں سے ایک ایمبولینس بانجل ، گیمبیا بھجوائی جائے گی اور دوسری ایمبولینس ٹوگو (Togo) بھجوائی جائے گی۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان دونوں ایمبولینس کا بھی معائنہ فرمایا۔
… … … … … … … … …
آج واقفین نَو (خدّام) اور واقفاتِ نو (لجنہ ) کے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دو علیحدہ علیحدہ پروگرام رکھے گئے تھے۔
پہلا پروگرام واقفین نَو (خدّام)کا تھا اور اس کا انتظام مسجد سے ملحقہ ہال میں کیا گیا تھا۔
… … … … … … … … …
واقفین نَو خدّام کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کلاس
ساڑھے گیارہ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہال میں تشریف لائے اور واقفین نو خدام کے ساتھ پروگرام شروع ہوا۔
پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو عزیزم حماد احمد نے کی اور اس کا اردو ترجمہ عزیزم توقیر احمد سہیل نے پیش کیا۔
بعد ازاں عزیزم سعادت احمد نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث مبارکہ کا عربی متن پیش کیا۔ اور عزیزم انصر افضل نے اس حدیث کا درج ذیل اردو ترجمہ پیش کیا۔
حدیث النبی ﷺ
[حضرت سہلؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسا کام بتائیے کہ جب میں اسے کروں تو اللہ تعالیٰ مجھ سے محبت کرنے لگے اور باقی لوگ بھی مجھے چاہنے لگیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: دنیا سے بے رغبت اور بے نیاز ہو جاؤ، اللہ تعالیٰ تجھ سے محبت کرنے لگے گا۔ جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس کی خواہش چھوڑ دو، لوگ تجھ سے محبت کرنے لگ جائیں گے۔ (ابن ماجہ باب الزہد فی الدنیا۔ حدیقۃ الصالحین حدیث نمبر 803صفحہ نمبر 640)]اس کے بعد عزیزم عمران ذکا صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے درج ذیل اقتباسات پیش کئے۔
ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلامحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں:
’’ خدا تعالیٰ کے بندے کون ہیں۔ یہ وہی ہیں جو اپنی
کو جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دی ہے اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دیتے ہیں اور اپنی جان کو خدا کی راہ میں قربان کرنا، اپنے مال کو اس کی راہ میں صرف کرنا اس کا فضل اور اپنی سعادت سمجھتے ہیں مگر جو لوگ دنیا کی املاک اور جائیداد کو اپنا مقصود بالذّات بنا لیتے ہیں وہ ایک خوابیدہ نظر سے دین کو دیکھتے ہیں مگر حقیقی مومن اور صادق مومن کا یہ کام نہیں ہے۔ سچا اسلام یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی ساری طاقتوں اور قوتوں کو مادام الحیات وقف کر دے تاکہ وہ حیات طیبہ کا وارث ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اس للّٰہی وقف کی طرف ایماء کر کے فرماتا ہے: مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلہِ وَ ھُوَ مُحْسِنٌ فَلَہٗٓ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ(البقرۃ113:)اس جگہ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلہِ کے معنے یہی ہیں کہ ایک نیستی اور تذلّل کا لباس پہن کر آستانۂ الوہیت پر گرے اور اپنی جان، مال، آبرو، غرض جو کچھ اس کے پاس ہے خدا ہی کے لئے وقف کرے اور دنیا اور اس کی ساری چیزیں اس کی خادم بنا دے۔‘‘
(ملفوظات جلد 1صفحہ 364)
نیز فرمایا:
’’چاہئے کہ صحابہ کی زندگی کو دیکھو وہ زندگی سے پیار نہ کرتے تھے ہر وقت مرنے کے لئے تیار تھے۔ بیعت کے معنے ہیں اپنے آپ کو بیچ دینا۔ جب انسان زندگی کو وقف کر چکا تو پھر دنیا کے ذکر کو درمیان میں کیوں لاتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 504)
نیز فرمایا:
’’صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے تعلقات بھی تو آخر دنیا سے تھے ہی۔ جائیدادیں تھیں، مال تھا، زر تھا، مگر ان کی زندگی پر کس قدر انقلاب آیا کہ سب کے سب ایک ہی دفعہ دستبردار ہو گئے اور فیصلہ کر لیا کہ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ہمارا سب کچھ اللہ ہی کے لئے ہے۔ اگر اس قسم کے لوگ ہم میں ہو جائیں تو کون سی آسمانی برکت اس سے بزرگ تر ہے‘‘۔(الحکم جلد 7 صفحہ 24۔ مورخہ 30جون 1903ء)
… … … … … … …
منظوم کلام حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ
بعد ازاں عزیزم حنان احمد باجوہ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا درج ذیل منظوم کلام پیش کیا:
دنیا کے کام بے شک کرتا رہوں گا مَیں بھی
لیکن مَیں جان و دل سے اُس یار کا رہوں گا
برقی خیال دل میں، سَر میں رہے گا سَودا
اُس یار کو میں بُھولوں ، اتنا نہ محو ہوں گا
چمکوں گا مَیں فلک پر، جیسے ہو کوئی تارا
بُھولوں کو رہ پہ لاوے ، ایسی مَیں شمع ہوں گا
سورج کی روشنی بھی مدہم ہو جس کے آگے
ایسا ہی نور حاصل اُس نور سے کروں گا
سارے علوم کا ہاں منبع ہے ذات جس کی
اُس سے مَیں علم لے کر دنیا کو آگے دوں گا
جو کچھ کہوں زُباں سے، ناصر وہ کر دکھاؤں
ہو رحم اے خدایا! تا تیرے فضل پاؤں
……………………………………
اس کے بعد مکرم سید حسنات احمد صاحب (واقف نو خادم) صدر مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی نے ’’واقفین نو کی ذمّہ داریاں‘‘ کے عنوان پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات پر مشتمل درج ذیل مضمون پیش کیا۔
واقفین نو کی ذمہ داریاں
پیارے آقا! آج یہاں اس کلاس میں ایسے غلامانِ خلافت واقفینِ نَو موجود ہیں جنہوں نے پندرہ سال کی عمر کے تجدید وقف کے بعد اپنی تعلیم کے اختتام یا آخری مراحل پر اپنے آپ کو وقف کے لئے پیش کرتے ہوئے دوبارہ تجدید وقف کی ہے اور اپنے آپ کو خلیفۂ وقت کے قدموں میں پیش کرتے ہوئے اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ پیارے آقا جہاں بھی ہمیں خدمت کا موقع عطا فرمائیں ہم اسے اپنی خوش نصیبی سمجھیں گے۔ پیارے آقا سے دعا کی درخواست ہے کہ خدا تعالیٰ ہماری اس قربانی کو محض اپنے فضل سے قبول فرمائے اور ہمیں مقبول خدمت دین کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے۔ آمین۔
پیارے واقفین نَو بھائیو! یہ ہماری سعادت ہے کہ ہمارے والدین نے تحریک وقف نَو کے آغاز پر ہی ہمیں اس مبارک تحریک کے لئے پیش کیا اور پھر ہماری تربیت اس نہج پر کی کہ آج ہم اپنے آپ کو وقف کے لئے پیش کر چکے ہیں۔ پھر ہم کس قدر خوش نصیب ہیں کہ خلفاءِ وقت نے ہماری قدم قدم پر راہنمائی فرمائی، خدمت کے عملی میدان کے لئے تیار کیا۔ سیدنا و امامنا پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک مرتبہ ایک پیغام میں فرمایا:
’’ ہر وقفِ نو جو عملاً وقف کے ایک باقاعدہ نظام میں شامل ہوتا ہے کہ نہیں، یعنی جماعت کے مستقل کارکن کی حیثیت سے کام کرتا ہے یا نہیں، وہ وقفِ زندگی بہر حال ہے اور اس کا ہر قول و فعل وقفِ زندگی کے اعلیٰ معیاروں کے مطابق ہونا چاہئے جس میں سب سے بڑی چیز تقویٰ ہے۔ اسے ہمیشہ اپنے پیشِ نظر رکھیں کہ ہم نے تقویٰ پر قائم رہنا ہے اور ہر کام اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کرنا ہے … خاص طور پر اس معاشرے میں جہاں آزادی کا دَور دورہ ہے اور آزادی کے نام پر اخلاقی بے راہ روی ہر جگہ عام نظر آتی ہے۔ اس میں ہم نے اپنے آپ کو ہر لحاظ سے سنبھال کر رکھنا ہے اور ایک نمونہ قائم کرنا ہے تاکہ دوسرے نوجوان بھی اور بچے بھی ہمیں دیکھ کر ہم سے نمونہ حاصل کریں۔ اور اس طرح ہم ہر احمدی بچے اور جوان کے لئے ایک نیک نمونہ بنتے ہوئے ان کی اصلاح کا موجب بننے والے ہوں۔ پس اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہم نے اپنی زندگیاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات اور ارشادات کی روشنی میں حقیقی اسلامی نمونہ کے مطابق گزارنی ہیں اور یہ تبھی ممکن ہو گا جب آپ ہمیشہ خلافت سے وفا کا تعلق رکھیں گے اور خلیفۂ وقت کی ہر نصیحت پر بھر پور عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگر آپ یہ کر لیں تو آپ اس عہد کو نبھانے والے بنیں گے جو آپ نے بحیثیت وقفِ نَو خدا تعالیٰ سے کیا یا آپ کے والدین نے آپ کی پیدائش سے بھی قبل آپ کو وقف کر کے کیا۔ ‘‘ (پیغام حضور اقدس بر آغاز سہ ماہی رسالہ اسماعیل۔ شمارہ 1۔اپریل تا جون 2012ء ۔صفحہ 5تا 6)
اسی طرح حضور پُر نور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک خطاب میں ایک واقف نَو کی خصوصیت بیان فرماتے ہوئے ہمیں بتایا کہ :
’’ہر واقفِ نو کی اپنی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی روز مرہ کی زندگی کو اس رنگ میں ڈھالے جو ایک خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف فرد کے اطوار اور وقار کے مطابق ہو۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ کوشش کرتے رہیں کہ آپ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے چلے جائیں اور ہر دن جو گزرتا ہے اس میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں بھی آپ ترقی کرتے چلے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سیدنا حضرت مسیح موعودؑ سے بھی بھرپور وفا اور خلافت کی کامل تابعداری آپ کی زندگی کا حصّہ ہو۔ نظامِ جماعت آپ کی نظر میں اور آپ کی زندگی میں ہر دوسری چیز کی نسبت عزیز اور مقدم ہونا چاہئے۔ صرف تب ہی آپ میں وہ خصوصیات پیدا ہوں گی جن سے آپ اس قابل بنیں کہ وقفِ نو کی عظیم ذمہ داریوں کو احسن رنگ میں پورا کر سکیں۔ جیساکہ مَیں پہلے کہہ چکا ہوں آپ کو اپنی زندگیوں کو اس طرح ڈھال لینا چاہئے جس کا تقاضا اسلام کی حقیقی تعلیم ہم سے کرتی ہے۔ جب آپ کھڑے ہوں یا بیٹھے ہوں یا کسی محفل میں ہوں یا کہیں چلتے پھرتے نظر آئیں آپ کا طور طریقہ نمایا ں طور پر اچھا ہو اور اعلیٰ اخلاق کا مظہر ہو ورنہ لوگ آپ پر انگلی اٹھائیں گے اور کہیں گے کہ اس واقفِ نو کے اخلاق اور کردار اعلیٰ معیار کے نہیں ہیں۔‘‘
(خطاب بر موقع سالانہ اجتماع واقفینِ نَو یوکے 26فروری 2011ء)
نیز فرمایا:
’’ہمیشہ آپ اپنا وقفِ نو کا عہد یاد رکھیں اور یاد رکھیں کہ یہ عہد خدا تعالیٰ سے باندھا گیا ہے جو کہ غیب کا علم رکھنے والا ہے۔ اس سے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ہے۔ اور وہ آپ کے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ آپ اللہ کی طرف سے پوچھے جائیں گے اور جو وعدہ آپ نے کیا ہے اس کے متعلق پوچھے جائیں گے اس لئے یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جو کہ واقفینِ نَو پر ڈالی گئی ہے۔ اس لئے اس عہد کو پورا کرنے کے لئے آپ کو اس کی اہمیت اور اصل مطلب سمجھنا چاہئے۔ آپ میں سے بہت سارے جلد ہی عملی زندگی میں قدم رکھیں گے یا رکھ چکے ہیں اور جماعت کے لئے کام کرنا شروع کریں گے یا پہلے سے ہی شروع کر چکے ہیں۔ اس لئے آپ پر یہ لازم ہے کہ آپ روزانہ اپنا جائزہ لیں اور یہ دیکھیں کہ آیا آپ حقیقت میں اپنا عہد پورا کر رہے ہیں؟ کیا آپ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہو رہے ہیں؟ اور تقویٰ کی راہوں کو اختیار کر رہے ہیں؟ اگر ان سوالوں کا جواب نہیں میں ہے تو پھر جماعت کو آپ کے وقفِ نَو ہونے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ‘‘ (خطاب بر موقع سالانہ اجتماع واقفینِ نو یوکے 6مئی 2012ء)
پیارے بھائیو! یہ ہمیں عظیم سعادت حاصل ہے کہ ہمارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح ہمیں اپنے ساتھ کلاس میں شمولیت کا شرف بخشتے ہیں اور ہمیں ایسی ہدایات سے نوازتے ہیں جن پر عمل کر کے ہم مستقبل کی بھاری ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ حضور پُر نور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک خطاب میں ایسی ہی نصائح فرماتے ہوئے فرمایا:
’’ اس وقت اسلام پر ہر سمت سے حملے کئے جا رہے ہیں اور اسلام کی مخالفت میں بہت کچھ کہا اور لکھا جا رہا ہے۔ اس صورت میں آپ کو اسلام کے دفاع کے لئے اٹھ کھڑے ہونا چاہئے۔ ہر فرد کو اسلامی تعلیمات کے دفاع کے سلسلہ میں بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے۔ مگر ایک واقفِ نَو کا کردار تو دوسروں سے بڑھ کر نمایاں ہونا چاہئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ واقفینِ نَو بچوں کے والدین نے یہ عہد کیا تھا کہ ان کے بچے کی زندگی کا ہر لمحہ اسلام کی خدمت کے لئے وقف ہو گا۔ اور پھر پندرہ سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد آپ نے اپنے اس عہد کی تجدید کی تھی کہ ہر لمحہ خدمتِ دین میں گزاریں گے۔ سو اپنے عہد کو پورا کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں۔ اس مغربی معاشرہ میں جس میں آپ رہتے ہیں اپنے آپ کو روشنی کی وہ شمع بنا لیں جس میں دنیاوی حرص اور دنیاوی کھیل تماشوں کا کوئی عنصر موجود نہ ہو بلکہ حقیقت میں اپنے آپ کو روحانی نور سے منور مشعلِ راہ بنا لیں۔
مَیں دعا کرتا ہوں کہ یہ نور آپ سب کی زندگیوں میں پیدا ہو جائے اور اگر آپ کو اس میں کامیابی حاصل ہو جائے تو انشاء اللہ تعالیٰ آپ میری اور آنے والے خلفاء کی فکر وں کو دُور کرنے والے بن جائیں گے کیونکہ چراغ سے چراغ جلتا ہے یعنی نمونے کو دیکھ کر نمونہ اختیار کیا جاتا ہے۔ آپ میں سے جو بڑے ہیں وہ واقفینِ نَو کی تحریک کی پہلی فصل ہیں اس لئے یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ نمونہ قائم کریں، رجحانات کی بنیاد ڈالنے والے بنیں۔ مَیں آپ سے کہتا ہوں کہ آگے بڑھیں اور نیک رجحانات پیدا کرنے والے قائدین بن جائیں۔ آپ جس میدان عمل میں بھی ہوں خواہ مربی ہوں، ڈاکٹر ہوں، ٹیچر ہوں، تاریخ دان ہوں، معیشت کے ماہر ہوں، سائنسدان ہوں جس میدان عمل میں بھی اتریں اپنی اعلیٰ کارکردگی کی چمک دکھائیں۔ ایسا نمونہ دکھائیں کہ نہ صرف آپ کی موجودہ نسل بلکہ آئندہ آنے والی نسلیں بھی آپ کے لئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ان ذمہ داریوں کو احسن رنگ میں پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘ (خطاب بر موقع سالانہ اجتماع واقفینِ نو یوکے 26فروری 2011ء)
… … … … … … …
مجلس سوال جواب
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے واقفینِ نو خدّام کو سوالات کرنے کی اجازت عطا فرمائی۔
٭ ایک واقفِ نو نے سوال کیاکہ معترضینِ اسلام قرآن کریم کی جن آیات میں جنگ و قتال کا ذکرہے ان پر جب اعتراض کرتے ہیں تو ہم انہیں یہ جواب دیتے ہیں کہ یہ آیات تب نازل ہوئیں جب کفارِ مکہ نے مسلمانوں پر بہت مظالم کئے اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور دوسرے مسلمانوں کو مدینہ سے نکال دیا اور پھر مدینہ میں بھی انہیں چین سے نہیں رہنے دیا تو تب اللہ تعالیٰ نے دفاع کی اجازت کے لئے یہ آیات نازل فرمائی تھیں۔ اس پر معترضین کہتے ہیں کہ آپ لوگ تو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن کریم کی تعلیم تو ہرزمانہ کے لئے ہے اور آج بھی قرآنی تعلیم روزمرہ کے امور کے بارہ میں رہنمائی کرتی ہے توپھر اس صورت میں ان آیات کا آجکل کی زندگی سے کیا تعلق ہے؟
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اُن لوگوں سے جواسلام پر اعتراض کرتے ہیں کہیں کہ قرآن کریم میں تو دو ہزار سے زائد آیات ہیں جن سے جہاد کا کچھ نہ کچھ ذکرملتاہے۔ اوّل تو جہاد اور قتال میں فرق ہے۔ ہر جہاد قتال نہیں ہے۔اصل جنگ تو قتال ہے۔ دوسری طرف بائبل میں قرآن کریم کی نسبت تقریباً تین گنا یعنی پانچ ہزار یا اس سے زائد آیات ہیں جن میں شدت پسندی ، جنگ اور قتل و غارت کا حکم دیاگیاہے۔پھر انجیل جس کے بارہ میں یہ کہتے ہیں کہ اس کی تعلیم یہ ہے کہ ایک گال پر طمانچہ پڑے تو دوسرا بھی آگے کردو اس میں بھی دو سو نوّے یا اکیانوے آیات ایسی ہیں جن میں اس قسم کی تعلیم ہے۔ یہ تو الزامی جواب ہے ۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ دوسری بات یہ ہے کہ تیرہ سال تک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر ظلم ہوتے رہے لیکن اللہ تعالیٰ نے جنگ کی اجازت نہیں دی۔جب ظلموں کی انتہا ہوگئی توآپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہجرت کی اورجب ہجرت کرنے کے ڈیڑھ سال بعد کفار نے حملہ کیا تو اس وقت قرآن کریم کی آیت نازل ہوئی جس میں مسلمانوں کو اپنے دفاع کی اجازت دی گئی۔ سورۃ الحج کی آیات 40 و41 حکم دیتی ہیں کہ اب جنگ کرو۔ اورجنگ اس لئے کرو کہ مذہب کی حفاظت کرنی ہے۔ ان آیات میں لکھاہے کہ مخالفین کے حملوں کی صورت میں نہ کوئی چرچ باقی رہے گا ، نہ کوئی synagogue باقی رہے گا، نہ کوئی temple باقی رہے گا اور نہ کوئی مسجد باقی رہے گی۔ تو جب اجازت ملی تو تمام مذاہب کی حفاظت کی اجازت ملی۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ جو حقیقی اسلامی تاریخ ہے اس سے بھی یہی ثابت ہوتاہے ماسوائے بعض orientalists کے جنہوں نے اپنی تاریخ بناکر یہ ثابت کردیاہے کہ اسلام نے حملے کئے۔ حالانکہ اسلام نے کبھی حملہ نہیں کیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جب تک اسلام کو مٹانے کیلئے اور ظلم کرنے کے لئے مسلمانوں پرحملے نہیں کئے گئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب نہیں دیا۔ اسی لئے اسی طرح کی ایک جنگ سے واپس آتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اب ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف آرہے ہیں جوکہ قرآن ِ کریم کی تعلیم کو پھیلانا اور تبلیغ کرنے کا جہادہے۔پھر صلح حدیبیہ کے معاہدہ کے بعدامن اور سلامتی کا کچھ عرصہ گزرا، اس دَور میں اسلام جنگوں کے دَور کی نسبت کہیں زیادہ پھیلا ہے ۔ اس لئے جنگ سے یا شدت پسندی سے اسلام نہیں پھیلا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دور میں جب ایران نے حملہ کیاتوآپ رضی اللہ نے صرف ان کے حملہ کا جواب دیا۔جب مسلمان فوجیں ایران کے بارڈر پرجاکر بیٹھ گئیں۔ اس وقت بھی جب ایران کی فوج حملے کرتی رہی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے فوجیوں اور کمانڈروں سے فرمایاکہ تم نے اس طرح ان پر حملہ نہیں کرنا کہ ان کے اندر چلے جاؤ بلکہ صرف دفاع کرناہے۔لیکن جب بار بار ایرانیوں کے حملے ہوئے تواس پر حضرت عمررضی اللہ نے پوچھا کہ بار بارحملے کیوں ہورہے ہیں تو اس وقت کمانڈر نے کہا کہ آپ ہمارا ہاتھ روک رہے ہیں کہ ان پر حملہ نہیں کرنا۔تو اس کے بعد جنگِ قادسیہ ہوئی جو کہ مسلمانوں پر ظلم کرنے کے نتیجہ میں ہوئی۔ پھر جب مسلمانوں کی فوجیں آگے بڑھیں تو بڑھتی چلی گئیں۔ اور پھر وہاں بھی زبردستی تو کسی کو مسلمان نہیں بنایا گیا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ اب رہ گئی بات کہ قرآن کریم کی تعلیم ہرزمانہ کے لئے ہے تو یہ بالکل ٹھیک ہے۔ قرآن کریم میں ہر زمانہ کے لئے تعلیم ہے اور قرآن کریم چھوٹے سے چھوٹے امکان کو لے کر بڑے سے بڑے امکان کو coverکرتاہے۔یہ کہیں نہیں لکھا ہواکہ چونکہ بڑے امکان کا ذکر ہے اس لئے چھوٹے امکان کی کوئی سزا نہ دو یا اگر بڑے امکان کی صورت پیدا نہیں ہوتی تو چھوٹے امکان کی صورت بھی نہ ہو۔ یہ تو ایک مکمل اور comprehensive شریعت ہے جس نے ہر امکان یعنی ہر ممکنہ چیز کو اپنے اندر شامل کرلیاہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں آیاہے کہ اگر ایسی صورتحال ہو تو تم نے جنگ کرنی ہے۔ قرآن کریم آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر اترا تھا ۔ بخاری کی حدیث میں ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مسیح و مہدی کے آنے کی پیشگوئی فرمائی توفرمایاکہ مسیح ’یَضَعُ الْحَرْبَ‘کرے گایعنی جنگوں کا خاتمہ کرے گا۔ کونسی جنگوں کا خاتمہ کرے گا؟ مذہبی جنگوں کا خاتمہ کرے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ اُس وقت مذہبی جنگیں نہیں ہوں گی۔دشمنوں کی طرف سے اسلام کو ختم کرنے کے لئے اُس طرح حملہ نہیں ہوگاجس طرح کفار آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں کرتے تھے، یا ایرانیوں نے کیا یا دوسروں نے کیا۔ یہاں تک کہ عیسائیوں نے بھی کیا۔ تویہ کہنا کہ قرآن کریم ہر زمانہ کے لئے ہے تو یہ بالکل درست ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاہے ’عیسیٰ مسیح کرے گا جنگوں کا التواء‘ اور ایک طرف فرمایاکہ ’جو بھی لڑائی کو جائے گا وہ کافروں سے سخت ہزیمت اُٹھائے گا‘۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مسیح کے لئے ’یَضَعُ الْحَرْب‘ فرمادیا تھا۔اس لئے اب اگر تم لڑائی کرنے کیلئے جاؤ گے تو پھر تم کافروں سے نقصان اُٹھاؤ گے کیونکہ اسلام پر حملہ بحیثیت مذہب اُس طرح سے نہیں ہورہا۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں یہ فرمایا کہ جنگ کرو اور جہاد کرو وہاں یہ بھی تو ساتھ تسلی دلائی ہے کہ تم لوگ فتح پاؤ گے۔ اِس وقت کونسا مسلمان ملک ہے جو فتح پارہاہے یا کونسی کامیابیاں ہیں جو مسلمانوں نے جنگیں کرکے حاصل کرلی ہیں؟ اس کا مطلب ہے کہ یہ جہاد نہیں ہے۔ یہ جنگ اللہ تعالیٰ کے نام پر نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب مسیح آئے گا تو امن اور محبت اور پیار پھیلائے گا جس طرح کہ پہلے مسیح نے پھیلایاتھا۔پہلے مسیح کی تعلیم پیار ، محبت اور امن ہی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاکہ میں بھی اُسی مسیح کے قدموں پر آیاہوں ۔ وہ مسیحِ موسوی تھا، میں مسیح ِ محمدی ہوں اور میں نے بھی محبت اور پیار پھیلاناہے۔ اس لئے جنگیں ختم ہوگئیں۔ ہاں اگر کسی وقت امکان پیداہوتاہے کہ اسلام پر بحیثیت مذہب حملہ ہو اور اسلام کو مٹانے کی کوشش کی جائے تب جہاد والی آیتیں لاگو ہوجائیں گی۔ لیکن اِس وقت یہ صورتحال نہیں ہے اس لئے یہ آیات لاگو نہیں ہورہیں۔ جب قانون بنایاجاتاہے یا جب ملکی قانون بھی بنتے ہیں تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوتاکہ ہرشہری کو پکڑ کر سزادے دو یا پھانسی دے دو۔پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاہے کہ جنگوں کا التواء ہوگیاہے یعنی ملتوی ہوگئی ہیں۔ کیوں ملتوی ہوگئی ہیں؟ اس لئے کہ اسلام پر اب بحیثیت مذہب حملہ نہیں ہورہا۔ہاں جب ہوگاتو قرآن کریم کی آیتیں ہمیں حکم دیتی ہیں اور اجازت دیتی ہیں کہ اب تم لڑائی کرسکتے ہواور پھر اس صورت میں اللہ تعالیٰ یہ بھی گارنٹی دیتاہے کہ فتح بھی تمہاری ہوگی۔
٭ اس کے بعد ایک واقفِ نو نے عرض کیاکہ ملک شام میں کیمیکل حملوں کے بعد امریکہ نے جو راکٹ کے ساتھ فضائی حملہ کیا ہے کیا ہم اس حملہ کو مسلمانوں کے خلاف یا اسلام کے خلاف تصور کرسکتے ہیں؟
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔سوال یہ ہے کہ شام کی حکومت جو اپنے ہی لوگوں کو اور مسلمانوں کو مار رہی ہے اس کو کیاتصور کریں گے؟ ایک طرف رشیا شام کی حکومت کی مدد کررہاہے اور لوگوں کو مار رہا ہے۔ وہ بھی تو مسلمان ہی ہیں۔ وہ بھی تو یہی کلمہ پڑھتے ہیں ۔ دوسری طرف امریکہ اگر حملہ کررہا ہے تو اس لئے کررہاہے کہ وہ مسلمان جو پہلے مارے گئے اُن پر ظلم ہوا اس لئے اس نے کہا دوسرے مسلمانوں کو مار دو۔ تو دونوں طرف سے ظلم ہورہاہے۔اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایاہے کہ تم ظلم کو روکو۔اگر ہاتھ سے نہیں روک سکتے تو زبان سے روکو، اگر زبان سے نہیں روک سکتے تودعاکرو۔ ہمارے پاس تو اس وقت طاقت نہیں ہے۔ ہم تودعا ہی کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان مسلمان لیڈروں کو بھی عقل دے ، جو مسلمان rebel گروپس ہیں ان کو بھی عقل دے اور جو شدت پسند ہیں اور اسلام کے نام پر ظلم کررہے ہیں ان کو بھی عقل دے۔ تو دونوں نے block بنالئے ہیں۔ ایک مسلمان گروہ نے رشیاکے ساتھ block بناکر گٹھ جوڑکرلیا ہے اور دوسرے نے امریکہ کے ساتھ کرلیاہے۔تو ہم اس کو مسلمانوں پر حملہ کیسے قرار دے سکتے ہیں؟ مسلمانوں کے اندر ہی منافقت پیداہوئی ہوئی ہے تو ہم پھر یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں۔ پھر ترکی جو کردُوں کو مار رہاہے یا سیرین گورنمنٹ سنّیوں اور سنّی شیعہ کو ماررہے ہیں۔ روز دہشت گردی کے حملے ہورہے ہیں۔ کل طالبان نے افغانستان میں 130 فوجی ماردیئے۔ تو کیا یہ اسلام کے خلاف جنگ ہے؟ یہ تو مسلمان خود منافق بنے ہوئے ہیں اور یہ ہونا ہی تھا۔ کیونکہ یہ اسلامی جنگیں نہیں ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے بتایاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاکہ ’تم ہزیمت اُٹھاؤ گے۔‘ اگر تم اسلام کے نام پر جنگ کرنے کی کوشش کرو گے یا اگر داعش اسلام کے نام پر جنگ کرنے کی کوشش کررہاہے تو مار کھاکھاکر ختم ہوگیاہے۔ کیارہ گیاہے اب ان کا؟ انہوں نے ہزیمت تو اُٹھالی ہے۔ اصل میں تو یہ تھا کہ اگر وہ اسلام کے نام پر جنگ کررہے تھے اور وہ اسلامی جنگ تھی تو پھر تو ان کو بجائے ختم ہونے کے جیتنا چاہئے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے تو جیتنے کا وعدہ دیاہواہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نشانی بتائی ہے کہ اگر تم اسلام کے نام پر جنگ کررہے ہو توپھر تم ضرور جیتو گے کیونکہ میری مددتمہارے ساتھ ہے۔ آپ کو کہیں ان کا جیتنانظر آرہاہے؟ آخر میں فتنہ ہی نظرآتاہے۔ آخر میں جا کر یاتو یاجوج کی گود میں بیٹھ جاتے ہیں یاپھر ماجوج کی گود میں بیٹھ جاتے ہیں اور دجّال کے پاس چلے جاتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ہمارے فیصلے کرادو۔ توجب خود دجال کے پاس اپنے فیصلے کروانے چلے جاتے ہیں توپھر اسلام کہاں سے رہ گیاہے؟
٭ اس کے بعد ایک واقفِ نو نے سوال کیاکہ پاکستان سے جو نئے لوگ یہاں اسائلم پرآتے ہیں انہیں بالعموم کام کی اجازت نہیں ہوتی لیکن ان میں سے کچھ لوگ پھر بھی کام کررہے ہوتے ہیں۔ اور پھر جب وہ کام کرتے ہیں تو اس پر ٹیکس یا انشورنس وغیرہ بھی ادا نہیں کرتے ۔ تو کیا ایسے لوگوں کو چندہ دینا چاہئے؟
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔جو بھی غیر قانونی کام کے ذریعہ آمدپیداہورہی ہے اس پر ہمیں چندہ نہیں لینا چاہئے۔ اسی لئے میں تو کئی خطبوں میں بھی کہہ چکاہوں کہ ٹیکس نہ چوری کرو۔ ٹیکس نہ بچاؤ۔ یہ غلط طریق کار ہے۔ پھر یہ ہے کہ اگر تم شرعی لحاظ سے بھی غلط کام کررہے ہو، شراب بیچ رہے ہو جس کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ شراب بیچنے والا، شراب کشید کرنے والا ، شراب پلانے والا، شراب بنانے والا یہ سب لعنتی اور جہنمی ہیں۔ تو ایسی صورت میں پھر ہم چندہ کیسے لے سکتے ہیں؟ قرآن کریم نے اس حد تک اجازت دی کہ اگر تم بھوک سے مررہے ہوتو تم سؤر کھاسکتے ہو۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ سؤر بھی اب ہمارے لئے ایک بہت بڑا ہوّا بن گیاہواہے اور لوگ سؤر کا سر لاکر ہماری مسجد وں میں رکھ دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے مسلمانوں کے جذبات اُبھاردیئے۔ حالانکہ اس میں جذبات اُبھارنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر ایک سر پڑاہواہے توان سے کہو کہ تین چار اور لاکر رکھ دوتو وہ خود ہی خاموش ہوجائیں گے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔تو اضطراری طور پر تو سؤرکھانے کی بھی اجازت ہے لیکن صرف اُن کیلئے جن کو اضطرار ہے، ہمارے لئے نہیں۔جماعت کو کوئی ایسی ضرورت نہیں ہے کہ غیر قانونی کمائی کا یا غیر شرعی کام کی کمائی کا چندہ لے۔ جو ایساکرتے ہیں وہ غلط کرتے ہیں۔میں خطبوں میں انتظامیہ کوبھی کئی دفعہ کہہ چکاہوں۔
٭ ایک واقفِ نَو نے سوال کیاکہ ایک حدیث ہے کہ مسیح موعودجب آئے گا تو شام کے مشرق میں ایک مینارہ پر اترے گا۔غیر احمدی کہتے ہیں کہ شام میں ایک مسجد ہے جس کے مینارہ پروہ اتریں گے۔ جبکہ ہمارے مسیح موعود علیہ السلام کی پیدائش کے بعد قادیان میں مینار بنایاگیاتھا۔
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔مسیح کا مینارے پر اترنا تو ایک تشبیہ ہے۔ یہ تو ایک مثال دی گئی ہے کہ مسیح دمشق کے مشرق میں اُترے گا۔ آپ نقشہ پر دیکھیں تو قادیان اور پنجاب دمشق کا مشرق ہی بنتاہے۔ باقی جہاں تک قادیان میں مینارۃ المسیح کا تعلق ہے تو اس کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاہے کہ چونکہ مینار مسیح کی نشانی بتائی گئی تھی اس لئے میں ظاہری طور پر بھی میناربنارہاہوں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ تو نہیں فرمایا کہ میں یہ مینار اس لئے بنارہاہوں کہ یہ مینار میری آمد کی دلیل بن جائے۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں تو وہ مینار بناہی نہیں تھا۔ صرف چند فٹ تک اُٹھا تھا۔ یہ توخلافتِ ثانیہ کے دَور میں بناہے۔ توہرحدیث کی تشریح ہوتی ہے۔ جس طرح ابھی ایک خادم نے حدیقۃ الصالحین سے حدیث پڑھ کر اس کی تشریح بتائی ہے اسی طرح اس حدیث کی تشریح بھی اس کتاب میں لکھی ہوئی ہے۔ کافی لمبی تشریح ہے۔ وہ پڑھ لیں۔ آپ پر سارا واضح ہوجائے گا۔ نہیں تواپنے سیکرٹری وقفِ نَو سے کہیں کہ وہ آپ کو حدیث نکال کردے دیں۔
٭ ایک واقفِ نَو نے سوال کیاکہ ابھی حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاہے کہ قرآن کریم کی آیات ہر زمانہ کے لئے ہیں۔ پاکستان میں جو مولوی ہیں وہ پاکستان میں جماعتِ احمدیہ کو بحیثیت جماعت ختم کرنے کے لئے ہم پر ظلم کررہے ہیں ، ہمارے لوگوں کو اسیر بنارہے ہیں، ہمارے لوگوں کو شہید کررہے ہیں توان آیات کی روشنی میں ہمارے لئے کیا حکم ہے؟
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ہمارے لئے تو بڑا واضح حکم ہے کہ جس ملک میں رہتے ہو وہاں فتنہ اور فساد پیدا نہیں کرنا۔ فتنہ کے بارہ میں قرآن کریم میں آتاہے کہ اَلْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ۔ یعنی فتنہ قتل سے زیادہ بُری چیز ہے۔ اس لئے پاکستان میں ہماری حکومت نہیں ہے۔ ہم اُس ملک کے شہری ہیں اور اس ملک کے قانون کو ماننے والے ہیں۔ لیکن جہاں و ہ قانون شریعت سے ٹکراتاہے وہاں ہم اس قانون کو نہیں مانتے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ تم نماز پڑھو۔ تم کلمہ پڑھو۔تم السلام علیکم کہو اور اگر تم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہو تو تم مسلمان ہو۔ لیکن پاکستان میں مذہب کے حوالہ سے جو قانون ہے وہ تو جنگل کا قانون ہے۔ اس لئے ہم صرف اس قانون کو نہیں مانتے۔ لیکن ہمارایہ کام نہیں ہے کہ ہم جنگ کریں۔ کیونکہ ہم نے اس ملک سے نہیں لڑنا۔اس بارہ میں قرآن کریم کہتاہے اگر تم ایسے ملک میں نہیں رہ سکتے اور تم پر ظلم ہورہاہے تو تم وہاں سے ہجرت کرجاؤ۔ اسی لئے تو آپ لوگ ہجرت کرکے یہاں آگئے ہیں۔ وہاں ظلم برداشت نہیں کرسکتے تو یہاں آگئے ہیں۔ لیکن بہت سارے لوگ ہیں جو ظلم برداشت کرسکتے ہیں اور وہ وہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ تو اگر آپ کا یہ سوال ہے کہ ہم ان کے ساتھ جنگ کرسکتے ہیں، تو اس کا جواب ہے کہ ہم جنگ نہیں کرسکتے کیونکہ وہاں ہماری حکومت نہیں ہے۔ ہاں اگر کسی وقت احمدیوں کے پاس کوئی ملک ہوتاہے اور وہاں احمدیوں کی حکومت ہوتی ہے اور اس پر کوئی دوسری حکومت حملہ کرتی ہے تو پھراس جنگ کا جواب دے دیں گے۔
٭ ایک واقفِ نَو خادم نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ غیر احمدی مسلمان سوال کرتے ہیں کہ احمدی اور دیگر مسلمانوں کا قرآن علیحدہ علیحدہ ہے۔ تو ہم اُن کو کیا جواب دیں کہ ہماراقرآن صحیح ہے۔
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ ہم تو یہ کہتے ہی نہیں کہ ہمارا قرآن علیحدہ ہے اور اُن کا قرآن علیحدہ ہے۔ اُن سے کہو کہ جو تمہاراقرآن ہے وہی ہم پڑھتے ہیں۔ یہاں پر پچاس فیصد ایسے ہیں جن کے پاس ترکی کا چھپا ہوا قرآن ہے یا بعض دیگر جگہوں کے چھپے ہوئے قرآن ہیں ۔ پاکستان میں ایک ’تاج کمپنی ‘ ہوتی تھی میں نے تو بچپن میں اسی کمپنی کا چھپا ہوا قرآن کریم پڑھاہے۔ ا س لئے ہم تو وہی قرآن پڑھتے ہیں جو دوسرے غیر احمدی پڑھتے ہیں۔ ہاں تفسیریں مختلف ہوتی ہیں اور مفسرین نے خود لکھاہے کہ قرآن کریم کے کئی بطن ہیں۔ بلکہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے لکھاہے کہ بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ جب تک کوئی مفسر قرآن کریم کی ایک آیت کی بیس یا بائیس تفسیریں نہیں کرلیتااُس وقت تک وہ مفسر نہیں کہلاسکتا۔ تو ہر مفسر نے قرآن کریم کی اپنی تفسیر کی ہوئی ہے۔ بعض پرانے مفسرین اور علماء اور بزرگان نے جو قرآن کریم کی تفسیریں کی ہوئی ہیں اُن میں سے بعض کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے quote کیاہے کہ دیکھو میں نے قرآن کریم کی یہ تفسیر کی ہے اور فُلاں مفسر نے بھی اس کی یہی تفسیر کی ہے۔ ابنِ عربی نے بھی یہ لکھاہے یا فلاں فُلاں مفسر نے یہ لکھاہے۔ تو ہمارا قرآن تو ان کے قرآن سے مختلف ہے ہی نہیں۔ کون کہتاہے کہ مختلف ہے؟ آپ اس بات پرکیوں بحث کرتے ہیں کہ قرآن مختلف ہے؟ اُن سے کہو کہ جو تمہاراقرآن ہے وہ لاؤ، میں وہ پڑھتاہوں اور جو قرآن کریم میں پڑھتاہوں وہ تم لے جاؤ اور مجھے بتاؤ کہ کس لفظ میں ہمارے اور تمہارے قرآن میں اختلاف ہے؟ایک لفظ بھی ایسا نہیں ہے۔ ایک لفظ کیا ایک حرف بھی یا ایک نقطہ بھی ہمارے قرآن کریم کا دوسرے قرآن کریم سے مختلف نہیں ہے۔ قرآن کریم کے بارہ میں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایاتھاکہ ’میں نے اس کی حفاظت کرنی ہے۔‘ اور قرآن کریم چودہ سو سال سے محفوظ ہے۔ ہمارے ہاں قرآن کریم کے حافظ ہیں وہ پاکستان میں بھی بعض اوقات جب قرأت کا مقابلہ ہوتاہے تو وہاں جاکرتلاوت کے مقابلہ میں حصہ لیتے ہیں اور انعام لے کر آتے ہیں ۔ تو وہ وہی قرآن پڑھ کر انعام لے کر آتے ہیں۔ ورنہ وہ اعتراض نہ کردیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ اس بحث میں جانے کی ضرورت ہی نہیں کہ تمہاراقرآن اور ہے اور ہمارا اور ہے۔ بلکہ انہیں کہو ہم تمہارے والا قرآن ہی پڑھتے ہیں۔ اپنے پاس قرآن کریم رکھنا چاہئے اوران سے کہوکہ قرآن کریم لاؤ اور موازنہ کرلو۔ صرف زبانی دلیل سے کچھ نہیں ہوتا۔ فوری طور پر عمل کرکے دکھاناچاہئے۔ back-foot پر جاکر نہ کھیلا کریں بلکہ ٹھوس دلیل دیاکریں۔
٭ اس کے بعد ایک واقفِ نَو نے سوال کیاکہ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے گزشتہ خطبہ میں نماز کی اہمیت کے حوالہ سے فرمایاکہ نماز باجماعت اداکی جائے۔اگر نماز سنٹر دور ہے یا ہم اکیلے ہیں یا کام کی وجہ سے نماز باجماعت ادانہیں کرسکتے تو اس صورت میں کیاکرنا چاہئے؟
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔اگراکیلے ہیں اورساتھ کوئی نہیں ہے تو پھر تو مجبوری ہے۔ میں نے بھی یہی کہاتھاکہ مجبوری ہے تو اور بات ہے ورنہ زیادہ سے زیادہ کوشش کریں کہ نمازیں باجماعت اداکریں۔ حدیث میں تو آیاہے کہ اگر تم صحرامیں جارہے ہو اور نماز کاوقت ہوگیاہے تو تم وہاں آذان دے دو حالانکہ تمہیں وہاں کوئی نظر نہیں آرہا۔ دوردور تک صرف کھلا میدان نظرآرہاہے۔تو تم اذان دے دو۔ شاید ہوسکتاہے کہ کوئی بھولا بسرا مسافر کہیں کسی ٹیلے کے پیچھے بیٹھا ہواور وہ تمہاری اذان کی آواز سن کرآجائے اور تمہارے ساتھ نماز پڑھ لے۔ لیکن یہاں اگر تم اذانیں دو گے تو تمہیں مشکل پیداہوجائے گی اس لئے اپنی نماز پڑھ لو۔ لیکن کوشش یہ کروکہ باجماعت نمازیں پڑھنی ہیں۔ کسی چیز کو بہانہ نہ بناؤ۔ اور جب گھر میں ہو تو اپنے بہن بھائیوں ، بیوی بچوں کے ساتھ اکٹھے ہوکر نماز پڑھ سکتے ہیں۔
٭ اسی واقفِ نو خادم نے عرض کیاکہ حدیث میں آیاہے کہ تین جمعے نہ پڑھنے سے دل سیاہ ہوجاتاہے۔
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔کوشش کریں کہ آپ ایک دو جمعوں کے بعد ایک جمعہ ضرورپڑھیں۔ بعض دفعہ اپنے کام کی جگہوں پر کہہ سکتے ہیں کہ مجھے اتنے وقت کی چھٹی دے دو۔ تو اکثر employers اور مالک چھٹی دے بھی دیتے ہیں۔ لیکن جہاں مجبوری ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی رحمت بھی بہت وسیع ہے۔اللہ تعالیٰ نے یہ ایک اصولی بات بتائی ہے ۔ اگر حقیقی مجبوری ہے تو انسان اس سے exempt ہوجاتاہے۔اللہ تعالیٰ پھر معاف کردیتاہے۔لیکن ایسی باتوں کو بہانہ نہیں بناناچاہئے۔
٭ ایک واقفِ نَو خادم نے عرض کیاکہ میرا سوال organ donation کے بارہ میں ہے۔
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔Organsکی ڈونیشن ہوسکتی ہے۔مرنے کے بعد لوگ آنکھوں کا عطیہ دیتے ہیں ،گردے دیتے ہیں بلکہ بعض زندگی میں ہی گردے دیتے ہیں یا بعض اور چیزیں دے دیتے ہیں۔ جو چیز انسانیت کے فائدے کیلئے ہوسکتی ہے اور جو قربانی دینے کیلئے تیار ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اس پر اس خادم نے عرض کیا کہ اس پر بعض اعتراض کرتے ہیں کہ وفات کے بعد برین dead ہوتاہے لیکن organs تو زندہ ہوتے ہیں۔ اس لئے اس سے روح کو تکلیف ہوسکتی ہے۔
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ سوال ہے کہ جب اپنی زندگی میں کوئی گردہ نکال کردیتاہے ۔ کئی لوگ اپنے گردے اپنے رشتے داروں کو دے دیتے ہیں۔یا غریب ملکوں میں بعض غریب بیچارے اپنے گردے بیچ دیتے ہیں۔ انڈیا ،پاکستان میں لوگ اپنے گردے بیچ دیتے ہیں۔ تو ایسے لوگ اپنی زندگی میں ہی دے رہے ہوتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ایسے اعضاء کام تو تب ہی آئیں گے جب اُن کا فائدہ ہو۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ یہاں روح کا تو سوال ہی نہیں ہے۔مرنے کے بعد روح کا جسم سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ جب ڈاکٹر نے حقیقت میں ڈکلیئر کردیا کہ انسان مرگیاہے تو اس کے کچھ عرصہ کے بعد تک بعض چیزیں فنکشن کرتی رہتی ہیں۔ اس عرصہ کے دوران اگر آنکھ نکال لی یا کوئی اور ایسا organ نکال لیا جو دوسرے کو فائدہ پہنچاسکتاہے تو پہنچادو۔ultimatelyتو ساری چیزوں نے مر ہی جاناہے۔ دماغ اگر deadہوگیاتو کچھ دیر بعد دوسرے organs نے بھی ختم ہوجاناہے۔ تو کیوں نہ ان organsکوختم ہونے سے پہلے کسی انسان کی جان بچانے کیلئے استعمال کرلیاجائے؟ تو جولوگ یہ اعتراض کرتے ہیں غلط کرتے ہیں۔
٭ ایک واقفِ نَو خادم نے عرض کیاکہ میری ایک واقفہ نَو بیٹی بھی ہے۔ باپ کی حیثیت سے ہمیں اپنے واقفینِ نَو بچوں کا کس لحاظ سے خیال رکھنا چاہئے؟
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔سب سے پہلے تو خود نمازیں پڑھیں اور دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی بھی اصلاح کرے اور حقیقی وقفِ نَو بنائے اوربچوں کی بھی صحیح تربیت کرنے والا بنائے تاکہ آپ ان کو ملک و قوم کے لئے اور جماعت کے لئے ایک اچھا asset بناسکیں۔
٭ ایک واقفِ نَو نے عرض کیاکہ صوفیوں کا قول ہے کہ مومن ایک پرندے کی طرح ہوتاہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایاہے کہ مومن اس دنیا میں تو ہوتاہے لیکن اس دنیا کا نہیں ہوتا۔میراسوال یہ ہے کہ ہمیں کس طرح پتہ لگ سکتاہے کہ ہم دنیا کی طرف زیادہ جارہے ہیں اور روحانیت سے دور جارہے ہیں؟
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔آپ کو اتنی موٹی بات بھی پتہ نہیں لگتی؟ اگر آپ کو فکر کے ساتھ پانچ وقت باجماعت یا وقت پر نمازیں اداکرنے کی طرف توجہ پیدا نہیں ہوتی، اگر آپ کو فکرکے ساتھ نفل پڑھنے کی طرف توجہ پیدانہیں ہوتی ، اگر فکر کے ساتھ بندوں کے حقوق اداکرنے کی طرف توجہ نہیں ہوتی ، اگر ہروقت ذہن میں یہ خیال نہیں رہتاکہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہاہے اور میں کوئی غلط کام نہ کروں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ اللہ کی طرف کم جارہے ہیں اور دنیا کی طرف زیادہ جارہے ہیں۔ یہ توآپ خود اپنے جائزے لیں۔ آپ نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا ایک عہد کیاہے۔ صوفیوں کی بات تو بعد کی ہے ، دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا جو عہد ہے اس کو دیکھیں اور خود جائزہ لیں کہ آیا آپ اس پر پورا اتر رہے ہیں؟ آیا آپ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق اداکررہے ہیں؟ کیا آپ کے روزمرہ کے جو عمل ہیں وہ اُس تعلیم کے مطابق ہیں جو اللہ اور اس کے رسول نے دی ہے؟ یہ تو انسان خود جائزہ لے سکتاہے ۔ معیار تو قرآن کریم نے مقرر کردیاہے اور معیار تو آپ کے سامنے ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔ یہ کوئی حساب کا سوال نہیں ہے۔ ایک جمع ایک دو ہی ہوگا۔ یہاں کے لوگوں کو عادت پڑگئی ہے ہم اس طرح کا سوال کریں گے تو اس طرح کا جواب مل جائے گا۔ بعض سوالوں کے جواب اس طرح نہیں ہوتے ۔ روحانیت کا معاملہ علیحدہ ہے۔روحانیت کے لئے پہلی بات اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے۔اس بات کا جائزہ لیں کہ وہ تعلق ہے ؟ میں توآپ کی روحانیت کو جج نہیں کرسکتا۔یہ تو آپ خود کرسکتے ہیں۔
٭ اسی خادم نے عرض کیاکہ یہ دنیا ایک illusion ہے۔ ہم بعض اوقات بہت چھوٹی چیزوں کو بہت بڑی بنالیتے ہیں۔ حالانکہ اصل زندگی تو بعد میں آنی ہے۔
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔اس میںillusion والی کیابات ہے؟ دنیا تو آپ کو سامنے نظرآرہی ہے۔آپ چھوٹی چیزوں کو بہت بڑا اس لئے کردیتے ہیں کہ دنیا تو آپ کے سامنے ہے اور آپ کو نظر آرہی ہے جبکہ غیب کا علم آپ کو نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ پر جو یقین ہوناچاہئے وہ پورانہیں ہے اسی لئے دنیا کی طرف رجحان ہے۔یعنی جو چیز سامنے نظرآرہی ہے اسے سمجھتے ہیں کہ حقیقی ہے ۔ اگر یہ خیال رہے کہ مرنے کے بعد کی جو زندگی ہے وہ ہمیشہ کی زندگی ہے ، اور اللہ تعالیٰ نے ہم سے حساب لینا ہے اور اللہ تعالیٰ ہمارے ہر فعل اور عمل کو دیکھ رہاہے توپھر انسان اس دنیا کی زندگی کو بھی اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق گزارنے کی کوشش کرے گا۔ کیونکہ جو اس دنیا کی زندگی ہے اسی کا پھل اگلے جہان میں ملناہے۔قرآن کریم نے جو دو جنتوں کا تصور دیا ہے وہ یہی ہے۔اس دنیا کو بھی جنت بناؤ اور وہ اس طرح بنے گی کہ اللہ اور اس کے رسول کے حکموں پر عمل کرواور اللہ کے جو حقوق ہیں وہ اداکرو اور جو بندوں کے حق ہیں وہ اداکرو۔ تواگلے جہان میں اللہ تعالیٰ اس کا reward دے گا۔ تویہ سب تصورکی بات ہے۔ آپ اس دنیا کواس لئے بڑا سمجھتے ہیں کہ سامنے نظرآرہی ہے۔ ایک مثال بنی ہوئی ہے کہ ایک شخص نے کسی کے بارہ میں بات کی ۔ جب اُس شخص کو پتہ چلاجس کے خلاف بات کی تھی تواُس نے پوچھا کہ یہ بات کیوں کی ہے؟ وہ شخص کہنے لگاکہ جو بات تھی وہ میں نے سچ سچ بتادی ہے۔ میں نے اللہ کو جان دینی ہے میں کیوں غلط بیانی کروں۔ اس پر جس کے خلاف بات کی گئی تھی اس نے دوسرے کو پکڑ لیا اور اس پر مُکّا کس کے کہنے لگا اب بتاؤ یہ مُکّا نزدیک ہے یا اللہ نزدیک ہے؟ پنجابی میں کہتے ہیں ’کسہن نیڑھے کہ اللہ نیڑھے؟‘ توجب کسہن (مکا) نیڑھے ہوجائے تو اللہ تعالیٰ بھول جاتاہے۔یہی حال دنیا کاہے۔
٭ اس کے بعد ایک واقفِ نَو خادم نے عرض کیاکہ میراسوال اُن واقفینِ نَوکے بارہ میں جو پاکستان سے یہاں آتے ہیں۔اُن میں سے بعض نے جامعہ میں کچھ عرصہ تعلیم حاصل کی اور کسی وجہ سے تعلیم مکمل نہیں کرسکے۔ ان کے بارہ میں کیا ہدایت ہے؟ وہ کس طرح جماعت کیلئے مفید وجود بن سکتے ہیں؟
اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔اُن کے بارہ میں وہی ہدایت ہے جو ابھی حسنات صاحب نے یہاں پر تقریر کی ہے کہ وہ واقفینِ نو جو باقاعدہ جماعت کی ملازمت میں یا جماعت کے payroll پر نہیں ہیں وہ بھی اپنے آپ کو وقف سمجھیں اور خدمت کریں۔یہاں تبلیغ کا میدان کھُلا ہے۔ تبلیغ کریں ۔ اپنے حلقۂ تبلیغ کو وسیع کریں۔ایک مرتبہ جاکر لیف لیٹ دے دینا یا صدرخدام الاحمدیہ یا سیکرٹری تبلیغ کی طرف سے رپورٹ کا آجانا کہ اتنے لاکھ لیف لیٹس تقسیم کئے صرف یہی تبلیغ نہیں ہے۔ میں کل یا پرسوں یہی سوچ رہاتھاکہ ہم لاکھوں میں تقسیم تو کردیتے ہیں لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ یہاں جرمنی میں جو تیس ہزارکی احمدیوں کی آبادی ہے اُس میں سے کتنے لوگ ہیں جو لیف لیٹس تقسیم کررہے ہیں؟ مثلاًیہاں جرمنی میں ساڑھے تین ہزار واقفینِ نو لڑکے ہیں۔ اگر ہر لڑکا تبلیغ کے میدان میں involve ہوجائے اور بروشرز کی تقسیم کےساتھ ساتھ ذاتی رابطے اور تبلیغ ہوتی رہے تو بہت کام کرسکتے ہیں۔ یہ بڑا وسیع میدان ہے۔نئے نئے طریقے exploreکرنااور نئے نئے راستے نکالنا یہ تو آپ لوگوں کا کام ہے۔صرف یہ کہہ دینا کہ صرف جماعت کے payrollپر آکر ہی خدمت ہوسکتی ہے توجماعت تو اس وقت ہر ایک کو لے بھی نہیں سکتی۔ویسے بھی اگر کسی نے پاکستان میں جامعہ میں تعلیم مکمل نہیں کی یا جامعہ چھوڑ دیا وہ کسی وجہ سے ہی چھوڑا ہوگااور اس کے بعد یہاں آگئے تو کسی وجہ سے ہی آئے ہوں گے۔اب یہاں آکر آپ کو آزادی ہے ، آپ کے مالی حالات نسبتاً بہتر ہیں ۔ پاکستان کی نسبت یہاں مذہبی آزادی سو فیصد زیادہ ہے اور مختلف قسم کی دوسری سہولتیں بھی ہیں تو ان سے فائدہ اُٹھائیں اور جماعت کے کام کریں۔
واقفین نو خدّام کی یہ کلاس ساڑھے بارہ بجے تک جاری رہی۔
(باقی آئندہ)