خطبہ جمعہ مورخہ 26؍مئی 2017ء
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 26؍مئی 2017ء بمطابق26؍ہجرت 1396 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے
مسلمان علماء کے غلط نظریات، قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور ارشادات کی گہرائی کو نہ سمجھنے اور صرف سطحی تشریحیں اور تفسیریں کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کی اکثریت اس بات کو سمجھتی نہیں کہ خلافت کا نظام کس طرح قائم ہو گا۔ اور ایک بہت بڑا طبقہ مسلمانوں میں ایسا بھی ہے
جو یہ کہتا ہے کہ کسی خلافت کی ضرورت نہیں ہے اور جو جو جس جس فرقے سے تعلق رکھتا ہے اس پر عمل کرے اور یہی کافی ہے۔ یہ باتیں ظاہر کرتی ہیں
کہ ان کے نزدیک ذاتیات اور فرقے مسلم اُمّہ کے وسیع تر مفاد اور ایک ہاتھ پر جمع ہونے کی نسبت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔
کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنی دنیاوی حکومتوں کے بل بوتے پر اپنی خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے خیال میں خلافت کسی طاقت کی وجہ سے قائم ہوجائے گی۔ عام مسلمانوں کے اس غلط نظریے کی وجہ سے اسلام مخالف طاقتوں نے بھی اسلامی دنیا کو کمزور کرنے کے لئے ایسی تنظیموں کو قائم کرنے میں کردار ادا کیا اور مدد دینی شروع کی جنہوں نے خلافت کے نام پر اپنے آپ کو منظم کیا۔ لیکن یہ کچھ عرصہ تک دنیاوی مقاصد
حاصل کرکے دنیاوی آقاؤں کی مدد نہ ملنے کی وجہ سے یا ان کے مقاصد پورے ہونے کی وجہ سے ختم ہو رہی ہیں۔
گزشتہ دنوں یہاں یوکے میں مانچسٹر میں واقعہ ہوا اور بلاوجہ بائیس تیئس لوگوں کا قتل کر دیا گیا جس میں معصوم بچے بھی شامل تھے۔ یہ انتہائی ظالمانہ فعل ہے اور کسی بھی صورت میں یہ اسلام کی تعلیم کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے ظالمانہ واقعات دیکھ کر ہم بے چین ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان مرنے والوں پر بھی رحم کرے اور ان کے لواحقین کو بھی صبر عطا فرمائے اور ان ظالموں کے ہاتھوں کو بھی روکے جو اسلام کے نام پر اور خلافت کے نام پر ایسی حرکتیں کر رہے ہیں۔
خلافت نہ دنیاوی طاقت سے مل سکتی ہے، نہ دنیاوی چالاکیوں سے، نہ نام نہاد علماء کے جمع ہو کر قرار دادیں پاس کرنے سے کہ مسلمان اکٹھے ہوں اور اپنا کوئی خلیفہ چن لیں، اس طرح نہیں ہوگی۔
خلافت کا نظام جو خوف کو امن میں بدلنے والا نظام ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے تمکنت دین کا ذریعہ بننے والا ہے۔ اس کا تعلق اس ذریعہ سے قائم ہونے والی خلافت سے ہے جس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق عمل میں آنا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے
قرآن کریم میں سورۃ جمعہ میں فرمایا کہ وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ اور انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی مبعوث کیا جو ابھی ان سے نہیں ملے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے ذریعہ جاری نظام کے علاوہ کون ہے جو آج ایمان کو دنیا میں قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
جو امن، پیار اور محبت کے ساتھ اسلام کا پیغام دنیامیں پھیلا رہا ہے۔ ایمانوں کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے کوشش کر رہا ہے۔ کفر و الحاد کے اس دَور میں
یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کا کام ہے جسے ہمیں کرنا چاہئے اور کر رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ آپ کے بعد قدرت ثانیہ جو کہ خلافت ہے اس کے ذریعہ پھر اللہ تعالیٰ
آپ علیہ السلام کے مشن کی تکمیل کرے گا اور اسلام کو دوبارہ غلبہ عطا فرمائے گا اور ماننے والوں کی تسکین کے سامان بھی کرے گا۔
پس مشکلات بھی آئیں گی، ابتلاء بھی آئیں گے لیکن آخری فتح انشاء اللہ جماعت احمدیہ کی ہے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے
جاری ہونے والا نظام خلافت ہی وہ حقیقی نظام ہے جس کے ساتھ ترقیات وابستہ ہیں اور دنیا کی امن و سلامتی بھی وابستہ ہے۔
عارضی روکوں کے باوجود اسلام کا غلبہ انشاء اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ اور آپ کے بعد جاری نظام خلافت کے ذریعہ
ہی ہونا ہے۔ مخالفین چاہیں جتنا مرضی زور لگا لیں ان کے حصہ میں نامرادی اور ناکامی ہی ہے۔
مکرم چوہدری حمید احمد صاحب ابن مکرم چوہدری محمد سلیمان اختر صاحب (آف یوکے) کی وفات۔ مرحوم کا ذکرِ خیر اور نماز جنازہ حاضر
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ۔ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا۔ یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا۔ وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ۔(النور56) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ان سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا۔ اور ان کے لئے ان کے دین کو جو اس نے ان کے لئے پسند کیا ضرور تمکنت عطا کرے گا۔ اور ان کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔
یہ آیت جیسا کہ اس کے مضمون سے واضح ہے اللہ تعالیٰ کے مسلمانوں سے اس وعدے کو بیان کر رہی ہے کہ اسلام میں خلافت قائم رہے گی۔ ہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کے مطابق مسلمانوں کے عمل اور ایمان کی حالت کی وجہ سے یہ انعام مسلمانوں سے ایک عرصہ کے لئے چِھن جائے گا۔ لیکن ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق مضبوط ایمان والوں اور نیک اعمال بجا لانے والوں اور اللہ تعالیٰ کے اس آخری کامل اور مکمل دین پر چلنے والوں میں یہ نظام دوبارہ قائم ہو گا اور خلافت علی منہاج نبوت پھر دنیا میں قائم اور جاری ہو گی۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ 285حدیث 18596 مسند نعمان بن بشیرؓ مطبوعہ عالم الکتب بیروت1998ء)
مسلمان علماء کے غلط نظریات، قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور ارشادات کی گہرائی کو نہ سمجھنے اور صرف سطحی تشریحیں اور تفسیریں کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کی اکثریت اس بات کو سمجھتی ہی نہیں کہ خلافت کا نظام کس طرح قائم ہو گا۔ اور ایک بہت بڑا طبقہ مسلمانوں میں ایسا بھی ہے جو یہ کہتا ہے کہ کسی خلافت کی ضرورت نہیں ہے اور جو جو جس جس فرقے سے تعلق رکھتا ہے اس پر عمل کرے اور یہی کافی ہے کیونکہ آجکل مسلمانوں کی دنیا کے سامنے جو حالت ہے اور جس طرح اسلام بدنام ہو رہا ہے اس کا تقاضا یہی ہے کہ جو جس طرح رہ رہا ہے، رہے۔
ایک مسجد کے امام ہیں بلکہ وہ مولوی صاحب اپنا ایک ادارہ بھی چلاتے ہیں۔ بظاہر دین کا علم رکھنے والے ہیں۔ انہی مغربی ممالک میں رہتے ہیں۔ ہم احمدیوں سے ان کے تعلقات بھی اچھے ہیں۔ وہ احمدیوں کو برا بھی نہیں سمجھتے۔ انہوں نے خود مجھے کہا کہ میں جس اسلامی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہوں ان کے بزرگوں نے یہی کہا ہے کہ کسی کے دین کو چھیڑو نہ اور اپنا دین چھوڑو نہ۔ اب جو ایسے نظریات رکھنے والے ہیں اور علماء کہلاتے ہیں وہ اپنے ماننے والوں اور پیچھے چلنے والوں کو یہی سبق دیں گے کہ کسی ایک خلافت پر متحد ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ ان کے نزدیک ذاتیات اور فرقے مسلم اُمّہ کے وسیع تر مفاد اور ایک ہاتھ پر جمع ہونے کی نسبت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ پس جب قرآن کریم کی تعلیم کو نہ سمجھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر غور نہ کریں تو پھر یہی کچھ ہوتا ہے۔ مسلمانوں کی بلکہ کہنا چاہئے کہ مسلمان علماء کی کم علمی اور جہالت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ :
’’بعض صاحب آیت وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ کی عمومیت سے انکار کر کے کہتے ہیں‘‘ (عمومی طور پر جو اس کے معنی ہیں اس کا انکار کر کے کہتے ہیں) ’’کہ مِنْکُمْ سے صحابہ ہی مراد ہیں اور خلافت راشدہ حقہ اُنہیں کے زمانے تک ختم ہو گئی‘‘۔ (صحابہ کے زمانے تک خلافت راشدہ رہی۔) فرمایا ’’اور پھر (ان لوگوں کے نزدیک) قیامت تک اسلام میں اس خلافت کا نام و نشان نہیں ہو گا۔ گویا ایک خواب و خیال کی طرح اس خلافت کا صرف تیس برس تک ہی دَور تھا۔ اور پھر ہمیشہ کے لئے اسلام ایک لازوال نحوست میں پڑ گیا۔‘‘ نعوذ باللہ۔ آپ فرماتے ہیں ’’مگر مَیں پوچھتا ہوں کہ کیا کسی نیک دل انسان کی ایسی رائے ہو سکتی ہے کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت تو یہ اعتقاد رکھے کہ بلاشبہ ان کی شریعت کی برکت اور خلافت راشدہ کا زمانہ برابر چودہ سو برس تک رہا۔ لیکن وہ نبی جو افضل الرسل اور خیر الانبیاء کہلاتا ہے اور جس کی شریعت کا دامن قیامت تک مُمتد ہے اس کی برکات گویا اس کے زمانہ تک ہی محدود رہیں۔ اور خدا تعالیٰ نے نہ چاہا کہ کچھ بہت مدّت تک اس کی برکات کے نمونے اس کے روحانی خلیفوں کے ذریعہ سے ظاہر ہوں۔ ایسی باتوں کو سن کر تو ہمارا بدن کانپ جاتا ہے۔ مگر افسوس کہ وہ لوگ بھی مسلمان ہی کہلاتے ہیں کہ جو سراسر چالاکی اور بیباکی کی راہ سے ایسے بے ادبانہ الفاظ منہ پر لے آتے ہیں کہ گویا اسلام کی برکات آگے نہیں بلکہ مدّت ہوئی کہ ان کا خاتمہ ہو چکا ہے‘‘۔
(شہادۃ القرآن روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 330)
ایک جگہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر صرف تیس سال تک ہی خلافت رہنی تھی اور اس کے بعد کچھ نہیں تھا اور یہی اسلام کی کل عمر تھی تو اللہ تعالیٰ قدرت رکھتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تیس سال اور زندگی دے دیتا اور ترانوے سال کی زندگی کوئی ایسی زندگی نہیں جو غیر معمولی ہو۔ پھر خلافت کی ضرورت کیا تھی۔ (ماخوذ از شہادۃ القرآن جلد 6 صفحہ 354)
پس ایسے لوگ بھی ہیں جو ایسے نظریات رکھتے ہیں۔ یہ لوگ ہیں جن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کچھ تفصیل سے نقشہ کھینچا ہے۔
لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنی دنیاوی حکومتوں کے بل بوتے پر اپنی خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے خیال میں خلافت کسی طاقت کی وجہ سے قائم ہو جائے گی۔ اور ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے اس واضح پیغام کو نہیں سمجھتے کہ ایمان اور عمل صالح کے ساتھ یہ وعدہ مشروط ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حقیقی عابد بننے والوں کے ساتھ یہ وعدہ مشروط ہے۔ عام مسلمانوں کے اس غلط نظریے کی وجہ سے اسلام مخالف طاقتوں نے بھی اسلامی دنیا کو کمزور کرنے کے لئے ایسی تنظیموں کو قائم کرنے میں کردار ادا کیا اور مدد دینی شروع کی جنہوں نے خلافت کے نام پر اپنے آپ کو منظم کیا۔ لیکن یہ کچھ عرصہ تک دنیاوی مقاصد حاصل کر کے دنیاوی آقاؤں کی مدد نہ ملنے کی وجہ سے یا ان کے مقاصد پورے ہونے کی وجہ سے ختم ہو رہی ہیں۔
تین سال ہوئے آئر لینڈ میں مجھے ایک جرنلسٹ نے پوچھا کہ اسلامی دنیا میں یہ جو خلافت کا اب دَور شروع ہوا ہے، اس کی کیا حقیقت ہے اور یہ پھیلے گی؟ تمہاری جو خلافت ہے اس کو اس سے کیا خطرہ ہے؟ تو مَیں نے اس کو یہی جواب دیا تھا کہ یہ خلافت نہیں۔ یہ اسی طرح شدّت پسند لوگوں کا ایک گروہ ہے جس طرح پہلے گروہ کام کر رہے ہیں اور اس کا انجام بھی آخر میں وہی ہو گا جو باقی شدت پسند گروہوں کا ہو رہا ہے۔ جب تک دنیاوی آقا ان سے خوش رہیں گے یہ کام کرتے رہیں گے۔ جب وہ اپنے ہاتھ کھینچ لیں گے تو آہستہ آہستہ یہ کمزور ہونا شروع ہو جائیں گے۔ ان لوگوں نے دین کو کیا تمکنت دینی ہے اور کیا امن انہوں نے قائم کرنا تھا۔ ہاں دنیا نے یہ دیکھا کہ انہوں نے اسلامی دنیا کے امن کو تباہ و برباد کر دیا۔ اسلام مخالف طاقتوں کا اسلامی دنیا کو کمزور کرنے کا ایک ایجنڈا تھا وہ انہوں نے پورا کر دیا اور اس میں مسلمان حکومتوں کے سربراہ بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنی کرسیاں بچانے کے لئے رعایا کا خون کیا اور ابھی تک بجائے امن کے مسلمان مسلمان کے لئے ہی خوف کا باعث بنا ہوا ہے اور پھر غیر مسلم دنیا کے امن کو بھی یہی لوگ برباد کر رہے ہیں۔ اس کی وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن ایک درد مند مسلمان جب یہ دیکھتا ہے کہ دنیا میں معصوموں کے قتل اور تباہی پھیلانے میں کسی مسلمان کا ہاتھ ہے تو دل کڑھتا ہے، بے چینی ہوتی ہے۔
گزشتہ دنوں یہاں یوکے میں مانچسٹر میں واقعہ ہوا اور بلاوجہ بائیس تیئس لوگوں کا قتل کر دیا گیا جس میں معصوم بچے بھی شامل تھے۔ یہ انتہائی ظالمانہ فعل ہے اور کسی بھی صورت میں یہ اسلام کی تعلیم کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے ظالمانہ واقعات دیکھ کر ہم بے چین ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان مرنے والوں پر بھی رحم کرے اور ان کے لواحقین کو بھی صبر عطا فرمائے اور ان ظالموں کے ہاتھوں کو بھی روکے جو اسلام کے نام پر اور خلافت کے نام پر ایسی حرکتیں کر رہے ہیں۔
اسی طرح دنیا کے مسلمان ممالک میں بھی جو قتل و غارت اور ظلم و بربریت ہو رہی ہے یہ سب دین سے دور ہٹنے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کو نہ ماننے کا نتیجہ ہے۔ یہ عمل جو اسلام کی تعلیم کے خلاف ہو رہے ہیں اور یہ ظلم جو اسلام کے نام پر ہو رہے ہیں اور اسی طرح وہ ظلم بھی جو مسلمان حکومتیں غیر حکومتوں کی مدد سے مسلمانوں کو بمباری کر کے یا بلا امتیاز قتل و غارت کر کے کر رہی ہیں ان سب کا درد ہم احمدی سب سے زیادہ محسوس کر سکتے ہیں جنہوں نے اسلام کی تعلیم کو پہچانا، جنہوں نے اسلام کی محبت اور پیار اور امن کی تعلیم کو پہچانا، جنہوں نے خلافت کے ہاتھ کے نیچے خوف کو امن میں بدلنے کے نظارہ دیکھے۔ ہم ہی سب سے زیادہ اس کو محسوس کر سکتے ہیں۔ اس زمانے میں قرآن کریم کی تعلیم کو سمجھتے ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا ادراک حاصل کرتے ہوئے ہم احمدی ہیں جو امن اور سلامتی کے مضمون کو خاتم الخلفاء کے ساتھ جڑنے کی وجہ سے سمجھتے ہیں۔
خلافت نہ دنیاوی طاقت سے مل سکتی ہے، نہ دنیاوی چالاکیوں سے، نہ نام نہاد علماء کے جمع ہو کر قرار دادیں پاس کرنے سے جیسا کہ کچھ سال پہلے یہ کوشش بھی ہوچکی ہے کہ مسلمان اکٹھے ہوں اور اپنا کوئی خلیفہ چن لیں، اس طرح نہیں ہو گی۔
خلافت کا نظام جو خوف کو امن میں بدلنے والا نظام ہے، جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے تمکنت دین کا ذریعہ بننے والا ہے، اس کا تعلق اس ذریعہ سے قائم ہونے والی خلافت سے ہے جس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق عمل میں آنا ہے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سورۃ جمعہ میں فرمایا کہ وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ اور انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی (مبعوث کیا ہے) جو ابھی ان سے نہیں ملے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے ایک صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا۔ یا رسول اللہ! وہ کون لوگ ہیں جو ابھی ان کے ساتھ نہیں ملے اور صحابہ کا درجہ رکھتے ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب نہ دیا۔ اس شخص نے تین مرتبہ یہ سوال دہرایا۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اگر ایمان ثریّا کے پاس بھی پہنچ گیا تو ان لوگوں میں سے کچھ لوگ اسے واپس لے کر آئیں گے۔(صحیح البخاری کتاب تفسیر القرآن باب وآخرین منھم لما یلحقوا بھم الخ حدیث 4897) ۔ اور آخرین کے مقام کے بارے میں ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اُمّت ایک مبارک اُمّت ہے۔ یہ نہیں معلوم ہو گا کہ اس کا اوّل زمانہ بہتر ہے یا آخری زمانہ۔ (کنز العمال جلد 6 جزء 12 صفحہ 71 حدیث 34446 باب فی فضائل ھذہ الامۃ المرحومۃ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت2004ء)۔ پس آخری زمانے کی بہتری کی خوشخبری بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔
کیا یہ آخری زمانہ ان علماء اور بادشاہوں کے پیچھے چلنے سے پہلوں والی برکات حاصل کرنے کا حامل بنائے گا؟ یقیناً نہیں۔ یہ لوگ تو دنیادار ہیں۔ یہ اس شخص کے پیچھے چلنے سے ملے گا جو ایمان کو واپس دنیا میں لائے گا اور آج ایمان کو دنیا میں قائم کرنے کی کوشش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے ذریعہ جاری نظام کے علاوہ کون ہے جو کر رہا ہے۔ جو امن، پیار اور محبت کے ساتھ اسلام کا پیغام دنیامیں پھیلا رہا ہے۔ ایمانوں کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے کوشش کر رہا ہے۔ کفر و الحاد کے اس دَور میں یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کا کام ہے جسے ہمیں کرنا چاہئے اور کر رہے ہیں۔ بیشمار واقعات ہیں جو میرے ساتھ بھی اور دوسرے لوگوں کے ساتھ بھی ہوتے ہیں۔ پیس کانفرنسز ہوتی ہیں۔ جلسے ہوتے ہیں۔ ہمارے جلسوں میں آتے ہیں۔ جب ہم اپنا پیغام، اسلام کا حقیقی پیغام بتاتے ہیں تو غیر بھی، عیسائی بھی، لامذہب بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ وہ اصل پیغام ہے، یہ وہ اسلام ہے جس کی دنیا کو پہنچانے کی ضرورت ہے اور اگر یہ اسلام تم لوگ پھیلاؤ تو کسی کو قبول کرنے میں کوئی روک نہیں ہو گی۔پس یہ کام ہے جو ہم نے کرنا ہے ۔ تجدید دین اور ایمان کو قائم کرنے کے لئے اس زمانے میں مسیح موعود اور مہدی معہود کے ساتھ ہی جڑنا ہو گا جو خاتم الخلفاء بھی ہے۔
آخرین کے پہلوں کے ساتھ جڑنے کے متعلق ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’اس آیت کا ماحصل یہ ہے کہ خدا وہ خدا ہے جس نے ایسے وقت میں رسول بھیجا کہ لوگ علم اور حکمت سے بے بہرہ ہو چکے تھے اور علوم حکمیہ دینیہ جن سے تکمیل نفس ہو اور نفوس انسانیہ علمی اور عملی کمال کو پہنچیں بالکل گم ہو گئی تھی‘‘۔ (لوگ دین کو بالکل بھول چکے تھے۔ دین کی جو حکمت کی تعلیم ہے وہ بالکل ختم ہو چکی تھی اور اس کو کمال تک پہنچانے کے لئے، دین کی حکمت، دین کے علم کی حکمت کو کمال تک پہنچانے کے لئے اور انسانی نفس کی اصلاح کے لئے علمی اور عملی حالتوں کو بہتر کرنے کے لئے ایک زمانہ تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھا جس کے لئے آپ آئے کیونکہ یہ زمانہ تھا جب یہ سب باتیں بالکل ختم ہو چکی تھیں، گم ہو گئی تھیں) فرمایا ’’اور لوگ گمراہی میں مبتلا تھے۔ یعنی خدا اور اس کی صراطِ مستقیم سے بہت دُور جا پڑے تھے۔ تب ایسے وقت میں خدا تعالیٰ نے اپنا رسول اُمّی بھیجا اور اس رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان کے نفسوں کو پاک کیا اور علم الکتاب اور حکمت سے ان کو مملُوّ کیا‘‘۔ (کتاب کے علم اور حکمت سے ان کو بھرا۔)’’ یعنی نشانوں اور معجزات سے مرتبۂ یقینِ کامل تک پہنچایا۔‘‘ (نشانات بھی دکھائے۔ معجزات بھی دکھائے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے نظارے دکھائے اور ان کے ایمان میں اتنی ترقی ہوئی کہ وہ یقین کامل تک پہنچ گئے) ’’اور خدا شناسی کے نور سے ان کے دلوں کو روشن کیا۔‘‘ اور پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’ایک گروہ اَور ہے جو آخری زمانہ میں ظاہر ہو گا۔ وہ بھی اوّل تاریکی اور گمراہی میں ہوں گے اور علم اور حکمت اور یقین سے دُور ہوں گے تب خدا ان کو بھی صحابہؓ کے رنگ میں لائے گا۔ یعنی جو کچھ صحابہؓ نے دیکھا وہ ان کو بھی دکھایا جائے گا یہاں تک کہ اُن کا صدق اور یقین بھی صحابہؓ کے صدق اور یقین کی مانند ہو جائے گا ۔ ‘‘ (ایام الصلح روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 304)
پس آپ علیہ السلام نے جہاں اپنے صحابہ میں وہ یقین اور ایمان پیدا کیا اور انہوں نے اپنے ایمان اور یقین میں کامل ہونے کے لئے قربانیاں دیں اور اس تاریکی سے باہر نکلے جس نے ہر طرف اندھیرا کیا ہوا تھا۔ دنیا میں ضلالت چھائی ہوئی تھی اور لوگ اسلام کو بھول رہے تھے تو آپ نے دوبار ہ آ کے اسلام کی نشا ٔۃ ثانیہ فرمائی اور ان صحابہ نے مسیح موعود کے ساتھ جڑ کر وہ روشنی حاصل کی جو دین کی روشنی تھی۔ مختلف نشانات دیکھے جن کا ذکر ہمارے لٹریچر میں سینکڑوں ہزاروں میں ملتا ہے۔ آج بھی بہت سے ایسے ہیں جو تاریکی سے نکل کر روشنیاں دیکھ رہے ہیں اور نشانات دیکھ کر جماعت احمدیہ میں شامل ہو رہے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ماننے والوں کے متعلق فرمایا کہ ’’وہ خدا تعالیٰ کے نشانوں اور تازہ بتازہ تائیدات سے نور اور یقین پاتے ہیں جیسا کہ صحابہؓ نے پایا۔ وہ خدا کی راہ میں لوگوں کے ٹھٹھے اور ہنسی اور لعن طعن اور طرح طرح کی دلآزاری اور بدزبانی اور قطعِ رِحم وغیرہ کا صدمہ اٹھا رہے ہیں۔‘‘ (رشتہ داریوں کے چھٹنے کے صدمے اٹھا رہے ہیں) ’’ جیسا کہ صحابہؓ نے اٹھایا‘‘۔
(ایام الصلح روحانی خزائن جلد 14 صفحہ306)
یہ واقعات صرف اُسی وقت میں ہی نہیں ہوئے یا اُسی قوم پاکستان یا ہندوستان میں نہیں ہو رہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے۔ بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں کیونکہ آپ تمام دنیا کو اُمّت واحدہ بنانے کے لئے آئے تھے اور خدا تعالیٰ کا عبد بنانے کے لئے آئے تھے اس لئے دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے والوں کو ان تکلیفوں اور مشکلات سے گزرنا پڑ رہا ہے لیکن انتہائی صبر اور ثابت قدمی سے وہ ہر سختی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
چنانچہ الجزائر کی ہی مثال آجکل ہمارے سامنے ہے۔ یہ کوئی اتنی پرانی جماعت نہیں ہے لیکن مسیح موعود کو مان کر آخرین میں شامل ہونے کے بعد اور خلافت کی اطاعت میں آ کر ان کے ایمان اللہ تعالیٰ کے فضل سے بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ ان کے اسیروں کے ایمان اور یقین کا اندازہ ہم اس خط سے لگا سکتے ہیں جو ایک اسیر نے کل ہی مجھے بھیجا یا کل مجھے موصول ہوا۔ کہتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمیں حقیقی اسلام کی نعمت سے نوازا ہے جس نے ہمارے دلوں کو زندہ کیا۔ بنیانِ مرصوص بنایا اور اس کی رضا کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے والا بنایا اور خلیفہ وقت کے ہاتھ پر اکٹھا کیا‘‘۔ مجھے مخاطب کر کے لکھتے ہیں کہ ’’سیّدی! راہِ مولیٰ میں اسیری کے بعد سارے ملک سے احمدی بھائی آ کر مل رہے ہیں اور خدا کی خاص مدد پر شاداں و فرحاں ہیں‘‘۔ (ایک اسیری تو ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے جو انعامات ہو رہے ہیں اس پر خوشی بھی منا رہے ہیں۔) کہتے ہیں ’’انہوں نے آپ تک محبت بھرا سلام اور دعا کی درخواست پہنچانے کا بھی کہا ہے۔ سب اس بات پر مُصر ہیں کہ اعلائے حق کے لئے کام اور دعا کو جاری رکھا جائے۔‘‘ (جتنی مرضی سختیاں آئیں حق پھیلانے کے لئے ہم اپنا کام بھی جاری رکھیں گے اور اللہ تعالیٰ سے مدد بھی مانگیں گے۔ دعائیں کرتے رہیں گے۔) پھر کہتے ہیں کہ ’’اس ابتلا نے ہمیں باہم محبت و اخوت اور اتحاد اور تعاون اور خلافت سے محبت میں مزید بڑھا دیا ہے۔‘‘ پھر لکھتے ہیں کہ ’’اس ابتلا میں آپ کی دعا کی قبولیت کے نمونے ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ اللہ تعالیٰ کے بہت سے نشان دیکھے جنہوں نے ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق حضرت مسیح موعودؑ پر ایمان اور ایقان میں اور بڑھا دیا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ کی رحمتیں الجزائر کے کمزور احمدیوں پر نازل ہو رہی ہیں۔‘‘
گزشتہ چند دنوں میں کچھ اسیران وہاں رہا بھی ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ باقی اسیران کی رہائی کے بھی جلد سامان پیدا فرمائے۔
پھر ایک اسیر لکھتے ہیں کہ ’’عرصہ اسیری میں یقین ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے خاص مصلحت کے تحت یہ سامان کیا‘‘ (یعنی کہ ہمیں جو قیدی بنایا گیا، یا سزائیں ملیں یا مقدمے چلے یہ اللہ تعالیٰ کی کوئی خاص مصلحت تھی) ’’تا کہ وہ اپنے عجائبات میں سے کچھ دکھائے۔‘‘ (وہ ہمیں اپنے نشانات دکھانا چاہتا تھا۔ اپنے عجائبات دکھانا چاہتا تھا اس لئے اس نے یہ سختیاں بھی ہم پر وارد کروائیں۔) کہتے ہیں کہ ’’آزادی اور آرام کے زمانے میں فتوحات سے ہم سمجھتے تھے، جو کامیابیاں ہمیں ہو رہی تھیں تو ہم سمجھتے تھے کہ ہم نے خدا تعالیٰ کا چہرہ دیکھ لیا اور اس کی راہوں سے واقف ہو گئے ہیں۔ لیکن اب پتا چلا کہ پہلے بہت کم دیکھا تھا اور اب اس کی قدرتوں کے اصل نمونے دیکھے۔‘‘ کہتے ہیں کہ ’’مجھے قید سے قطعا کوئی پریشانی نہ تھی۔ جس بات نے پریشان کیا وہ یہ احساس تھا کہ میں نے اللہ تعالیٰ اور اس کی عبادت کا حق ادا نہیں کیا۔‘‘ پھر لکھتے ہیں کہ ’’زمانہ اسیری میں کئی خوابیں دیکھیں جن سے بڑی سکینت ملی‘‘۔ مجھے مخاطب کرکے لکھتے ہیں کہ ’’آپ سے بھی خوابوں میں ملاقاتیں ہوئیں‘‘۔ پھر کہتے ہیں ’’آپ کی دعائیں ہمارا ایمان و یقین بڑھاتی تھیں اور قید میں راحت پہنچاتی تھیں۔ ہماری رہائی یقیناً آپ اور مخلصین جماعت کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔‘‘ پھر کہتے ہیں کہ ’’میری اہلیہ کے لئے بھی دعا کی درخواست ہے۔ اس نے بہت صبر اور مجاہدے سے کام لیا۔‘‘ (صرف اہلیہ ان کی احمدی تھیں اور باقی سب رشتہ دار غیر احمدی ہیں۔ اور جب یہ اسیر تھے تو پہلے اہلیہ کے والد فوت ہوئے۔ پھر بھائیوں نے اسے احمدیت کی وجہ سے چھوڑ دیا۔ جب شور مچ گیا تو بھائیوں نے بھی اپنی بہن کو احمدیت کی وجہ سے چھوڑ دیا۔ خاوند پہلے ہی جیل میں تھے۔ پھر کہتے ہیں کہ عرصہ اسیری کے دوران میرے گھر والوں سے بھی دور رہی۔ وہ بھی شاید سارے احمدی نہیں تھے کہ ان سے بھی یہ دور رہی۔ لیکن مخلص احمدی مستورات نے اپنے پیار سے یہ کمی پوری کر دی اور ان لوگوں کا ایک خاندان بن گیا۔ اپنوں نے چھوڑا تو جماعت احمدیہ نے اس کو جذب کر لیا۔مردوں اور عورتوں نے مختلف جگہوں پہ اپنے اپنے دائرے میں قربانیاں دیں اور دے رہے ہیں۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ وہ یعنی صحابہ بھی تنگ کئے گئے۔ مشکلات میں ڈالے گئے۔ اپنے ماننے والوں کے متعلق فرماتے ہیں کہ وہ بھی تنگ کئے گئے۔ مشکلات میں ڈالے گئے جیسے کہ صحابہ ۔لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے الجزائر کی یہ چھوٹی سی جو نئی جماعت ہے اپنے جس دَور سے گزر رہی ہے، ابتلا میں بڑی ثابت قدم ہے اور قائم ہے اور اب ان کے جذبات کا اظہار دو خطوں سے ہی ہو جاتا ہے۔ اور یہ بھی لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ جاری نظام خلافت کی وجہ سے ان کے تسکین کے سامان ہوتے رہے۔ مخالفین جو خوف پیدا کرنے کے لئے کارروائیاں کرتے تھے اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے خلافت کے ساتھ جڑے رہنے کی وجہ سے اس میں سے ان کے لئے تسکین کے سامان پیدا فرما دیتا تھا۔ اور بیشمار ایسی مثالیں ہیں جہاں اللہ تعالیٰ احمدیوں کے لئے تسکین کے سامان پیدا فرماتا ہے۔ ذاتی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی مشکلات کے دَور آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق تسکین اور امن کے سامان مہیا فرماتا رہتا ہے۔ یہ کسی خاص دَور اور وقت کی بات نہیں ہے جیسا کہ میں نے مثالیں بھی دیں۔ یا اس کے ساتھ مشروط نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں سے یہ وعدہ کیا ہے کہ خوفوں کو اس نے دور کرنا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ بار بار مومنوں کو یہ توجہ بھی دلاتا ہے کہ وہ میری عبادت کا حق بھی ادا کریں۔ اور جب یہ حق ادا ہو رہے ہوں گے تو بیشک خوف کے حالات بھی آئیں گے۔ لیکن خوف کی حالت ذاتی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی اس تعلق کی وجہ سے، اس واسطے سے، جو خلافت سے ہو گا اور جو اللہ تعالیٰ سے ہو گا، وہ حالات امن اور سکون کی حالت میں بدل دئیے جائیں گے۔
اب الجزائر کے یہ احمدی جن میں سے چند ایک کے علاوہ کسی نے خلیفۂ وقت کو کبھی دیکھا بھی نہیں لیکن ایمان میں کامل ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس طرح ان کے لئے تسکین کے سامان پیدا فرما رہا ہے جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں آپ کے قریبیوں میں دل کی تسکین کے سامان پیدا ہو رہے تھے یا جماعت احمدیہ کی تاریخ دیکھیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے جاری نظام خلافت کی برکت سے خلافتِ اولیٰ میں بھی دلی تسکین کے سامان پیدا ہوتے رہے۔ خلافت ثانیہ میں بھی بڑے سخت حالات آئے تسکین کے سامان ہوتے رہے۔ خلافت ثالثہ میں بھی بڑے سخت حالات آئے اور اس وقت کے پاکستانی حکومت کے سربراہ نے کہا کہ احمدیوں کو کشکول پکڑا دوں گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے فراخی کے سامان پیدا فرمائے۔ خلافت رابعہ میں یہ اللہ تعالیٰ نے سامان پیدا فرمائے۔ اور آج بھی اللہ تعالیٰ اسی طرح سامان پیدا فرماتا چلا جا رہا ہے۔
پس یہ کوئی اسی جگہ کے لئے مخصوص نہیں بلکہ یہ مخصوص ہے ان مومنین کے لئے جو خلافت کے ساتھ، اس حقیقی خلافت کے ساتھ جڑے رہنے والے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے جاری فرمایا ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ آپ کے بعد قدرت ثانیہ جو کہ خلافت ہے، اس کے ذریعہ پھر اللہ تعالیٰ آپ علیہ السلام کے مشن کی تکمیل کرے گا اور اسلام کو دوبارہ غلبہ عطا فرمائے گا اور ماننے والوں کی تسکین کے سامان بھی کرے گا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام رسالہ الوصیت میں اپنے اس دنیا سے جانے اور خلافت کے ذریعہ جماعت کی ترقیات کے جاری رہنے کے متعلق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’سو اے عزیزو! جب کہ قدیم سے سنّت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا وے۔ سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنّت کو ترک کر دیوے۔ اس لئے تم میری اس بات سے جو مَیں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں‘‘(آپ اپنے صحابہ کو اپنے اس دنیا سے رخصت ہونے کی اطلاع دیتے ہوئے تسلی دے رہے ہیں) ’’کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اُس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک مَیں نہ جاؤں۔ لیکن مَیں جب جاؤں گا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی۔ جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے۔ اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہےبلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اِس جماعت کو جو تیرے پَیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا۔ سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے۔ وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے وہ سب کچھ تمہیں دکھلائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے۔ اگرچہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بَلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی۔ مَیں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور مَیں خدا کی ایک مجسّم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اَور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہرہوں گے۔ سو تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو۔ اور چاہئے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دعامیں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو اور تمہیں دکھاوے کہ تمہارا خدا ایسا قادر خدا ہے۔ اپنی موت کو قریب سمجھو ۔تم نہیں جانتے کہ کس وقت وہ گھڑی آ جائے گی۔‘‘
(رسالہ الوصیت۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 305-306)
پس مشکلات بھی آئیں گی۔ ابتلاء بھی آئیں گے لیکن آخری فتح انشاء اللہ جماعت احمدیہ کی ہے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے جاری ہونے والا نظام خلافت ہی وہ حقیقی نظام ہے جس کے ساتھ ترقیات وابستہ ہیں اور دنیا کی امن و سلامتی بھی وابستہ ہے۔ یہی نظام ہے جس کے ذریعہ سے تمام دنیا پر اسلام کی برتری ثابت ہونی ہے اور غلبہ قائم ہونا ہے۔ چنانچہ اس غلبہ کی خبر دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’یہ خدا تعالیٰ کی سنّت ہے اور جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اِس سنّت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور ان کو غلبہ دیتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے کَتَبَ اللہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ(المجادلۃ22:)۔ اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جائے اور اس کا مقابلہ کوئی نہ کر سکے اِسی طرح خدا تعالیٰ قوی نشانوں کے ساتھ اُن کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اُس کی تخم ریزی انہیں کے ہاتھ سے کر دیتا ہے لیکن اس کی پوری تکمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے مخالفوں کو ہنسی اور ٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقع دے دیتا ہے اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر ناتمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں۔ غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے۔ اوّل خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے۔ دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آ جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردّد میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں۔ تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے۔ پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے وقت میں ہوا جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہوگئے اور صحابہؓ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہوگئے۔ تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا ۔یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جما دیں گے۔‘‘ (رسالہ الوصیت۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 304-305)
اللہ تعالیٰ کا یہ بڑا احسان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصال کے بعد ایک جھٹکا تو جماعت کو لگا لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے ذریعہ جماعت کو فوراً سنبھال لیا۔ اگر کسی کی کوئی نیت شرارت کی تھی بھی تو وہ جلد ہی قابو میں آ گئے۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے وصال کے بعد جماعت کو ایک بڑا جھٹکا لگا اور جماعت کے بعض سرکردہ جماعت مبائعین سے علیحدہ بھی ہو گئے، خلافت کے انکاری بھی ہو گئے اور کافی سخت حالات تھے۔ ایک لمبی تفصیل ہے۔ لیکن نتیجہ کیا ہوا؟ آخر میں خلافت ہی کامیاب ہوئی اور کامیابیوں کی راہوں پر چلتی چلی گئی اور منزلیں طے کرتی چلی گئی۔ پھر خلافت ثالثہ میں جیسا کہ مَیں نے ذکر کیا سختیوں کے دَور آئے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا۔ حکومت کے خوفناک منصوبے تھے لیکن جماعت کی ترقی میں کوئی روک نہیں پیدا ہو سکی۔ خلافت رابعہ میں مزید سختی پاکستان کی حکومت نے دکھائی تو اس ابتلا میں بھی اللہ تعالیٰ نے تسکین کے سامان پیدا فرما دئیے ۔ جماعت نئی منزلیں طے کرنے لگی۔ تبلیغ کے نئے نئے راستے کھلنے لگے اور پھر سیٹلائٹ کے ذریعہ سے دنیا میں تبلیغ جانے لگی۔ پھر خلافت خامسہ میں بھی نئے راستوں میں مزید وسعت پیدا ہوئی ۔جماعت کا پیغام ہزاروں سے نکل کر، بلکہ لاکھوں سے نکل کر کروڑوں میں جانے لگ گیا۔ ایک ملک یا دو ملکوں کی بجائے کئی ملکوں میں اب مخالفت شروع ہو گئی ہے اور یہی احمدیت کی سچائی کی دلیل ہے اور یہی ترقی کی نشانی بھی ہے۔ احمدیت سے پیچھے ہٹانے کی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے موافق ترقی کی راہیں کھولتا چلا جا رہا ہے اور ترقی ہوتی چلی جا رہی ہے اور یہ سب باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ عارضی روکوں کے باوجود اسلام کا غلبہ انشاء اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ اور آپ کے بعد جاری نظام خلافت کے ذریعہ ہی ہونا ہے۔ مخالفین چاہیں جتنا مرضی زور لگا لیں ان کے حصہ میں نامرادی اور ناکامی ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو توفیق دے کہ وہ اپنے ایمان میں بھی مضبوط ہو اور اعمال صالحہ بجا لانے و الا بھی ہو اور عبادتوں کے معیار بھی ہر احمدی کے بلند ہوتے چلے جائیں تا کہ ہم ہمیشہ اس ترقی کا حصہ بننے والے رہیں۔
نماز جمعہ کے بعد مَیں ایک جنازہ حاضر بھی پڑھاؤں گا (جنازہ آ گیا ہے ناں؟) جو چوہدری حمید احمد صاحب ابن چوہدری محمد سلیمان اختر صاحب کا ہے۔ یہ پچھلے سات آٹھ سال سے یہیں رہتے تھے۔ 20؍مئی 2017ء کو بیالیس سال کی عمر میں کینسر سے وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ حضرت چوہدری مولا بخش صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پڑپوتے تھے۔ اپنے خاندان کے ساتھ 1990ء میں ہجرت کر کے جرمنی آئے اور وہاں بھی جماعتی خدمات میں نمایاں رہے۔ وہاں لوکل سیکرٹری تبلیغ رہے۔ قائد مجلس رہے۔ خدام الاحمدیہ جرمنی کے معتمد رہے۔ اس کے علاوہ ریجنل امارت میں بطور سیکرٹری امور عامہ بھی خدمت کی توفیق پائی۔ پھر بوسنیا کا جو (پہلا) جلسہ تھا اس جلسہ میں جرمنی کے نمائندہ کی حیثیت سے شامل ہوئے۔ کھیلوں کا بھی بڑا شوق تھا۔ تبلیغی سٹال بڑے شوق سے اور توجہ سے لگاتے تھے۔ کبھی کوئی معاون میسر نہ آتا تو خود ہی اکیلے سٹال کے لئے نکل جاتے۔ 2009ء میں جرمنی سے یو۔کے آ گئے اور یہاں آ کر ریجنل ناظم تعلیم اطفال کی حیثیت سے خدمت کی۔ اور پھر بڑی اعلیٰ پوزیشن بھی حاصل کر لی۔ اپنی مجلس کے اطفال کو بڑی ترقی دی۔ تبلیغ کا شوق بھی جیسا کہ مَیں نے کہا بہت تھا۔ خدام الاحمدیہ میں بھی اور انصار اللہ میں بھی مختلف عہدوں کی حیثیت سے خدمت بجا لانے کی توفیق ملی۔ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں مستقل طور پر یہ رضاکارانہ کام کرتے تھے اور ہماری کافی ڈاک نکالنے میں مدد کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ خادم کی حیثیت سے سیکیورٹی ڈیوٹی بھی دیتے تھے۔ بلکہ میں تو بعض دفعہ سمجھتا تھا کہ شاید یہ کوئی اور کام کرتے ہی نہیں۔ سارا دن یہیں مسجد کے قریب ہی رہتے ہیں۔ لیکن اپنا پرائیویٹ کام بھی کرتے تھے اور اس میں سے وقت نکالتے تھے اور کئی کئی گھنٹے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کو اور اسی طرح خدام کی ڈیوٹیوں کو بھی دیا کرتے تھے۔ مرحوم موصی تھے۔ اپنے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹی اور چار بیٹے چھوڑے ہیں۔ ان کے والد بھی حیات ہیں۔ بھائی ہیں۔ ان کے والد سلیمان اختر صاحب لکھتے ہیں کہ میرا بیٹا بہت ہی فرمانبردار تھا۔ بچپن سے ہی جماعتی کاموں میں مشغول رہا۔ ہر وقت اس کے دل میں دین کی خدمت کا جذبہ موجزن رہتا تھا۔ خدمت کا کوئی موقع اسے میسر آیا تو اس نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ بچوں کو نماز باجماعت کے لئے مسجد میں لے جاتے۔ حتی کہ بیماری کے ایام میں بھی ذرا طبیعت سنبھلتی تو اس طریق پر عمل کرتے اور آخر میں اپنی بیماری سے بڑی ہمت سے انہوں نے بڑا مقابلہ کیا اور گھر بیٹھ کے بھی سیکرٹری وقف نَو کی حیثیت سے اپنے کام سرانجام دیتے رہے۔ ان کی اہلیہ نے بھی یہی لکھا ہے کہ بچوں کے ساتھ دوستوں کا تعلق تھا اور ان کی تربیت کا ہر وقت خیال رہتا۔ اور پھر یہ کہ ہماری شادی کو پندرہ سال ہورہے ہیں لیکن آج تک کبھی اونچی آواز سے انہوں نے بات نہیں کی۔
یہاں یوکے کے مہتمم مقامی لکھتے ہیں کہ خلافت احمدیہ اور نظام جماعت سے جنون کی حد تک عشق تھا۔ ہمیشہ جماعتی مفاد کو پہلے رکھتے تھے۔ دو تین دفعہ یہ بیماری کی وجہ سے ہسپتال داخل رہے ہیں لیکن جب ذرا سی طبیعت بہتر ہوتی تھی فوراً اپنے کام پر آ جایا کرتے تھے۔ بعض دفعہ احساس بھی نہیں ہوتا تھا کہ بیمار ہیں۔ آخری بیماری میں یہی اظہار تھا کہ مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ مسجد میں جا کر نمازیں نہیں پڑھ سکتا۔ ان کے ایک دوست لکھتے ہیں کہ ٹیکسی کرتے تھے۔ میرے ساتھ ٹیکسی سٹینڈ پر ان کا پہلا نمبر تھا اور میرا ان کے بعد میں تھا کہ نماز کا وقت ہوا تو یہ چلے گئے اور میں اس لئے کہ کوئی سواری آ جائے گی وہاں کھڑا رہا۔ لیکن ہوا یہ کہ یہ نماز پڑھ کے واپس بھی آ گئے اور پھر سواری انہی کو پہلے ملی اور مجھے نہیں ملی۔ اس کے بعد سے مجھے بھی سبق ملا کہ اپنے دنیاوی کاموں کو دین کے لئے قربان کرنا چاہئے۔ عبادت جو ہے اللہ تعالیٰ کا فرض جو ہے اس کو بہرحال پہلے ادا کرنا چاہئے۔ اس لحاظ سے یہ اپنے ساتھیوں کی بڑی خاموش تربیت بھی کر دیا کرتے تھے۔
ہر ایک کے کام آنا ان کا خاص وصف تھا ۔ ان کے ایک دوست لکھتے ہیں رات دو بجے بھی کوئی کام ہوتا تو فوراً کہتے کہ میں کر دوں گا۔ عطاء المجیب راشد صاحب لکھتے ہیں کہ تبلیغی سٹال پر بڑی باقاعدگی سے جاتے تھے اور بڑے ہنستے مسکراتے تھے ۔سب کو سلام کر کے یہ کام کرتے۔ بلکہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ان کے کسی دوست سے ان کا حال پوچھا تو انہوں نے کہا کہ آج ان کی طبیعت ذرا بہتر تھی اس لئے وہ تبلیغ کرنے کے لئے نکل گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے۔ رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کے بچوں کو بھی نیک صالح بنائے اور خلافت سے ہمیشہ وابستہ رکھے۔
جیسا کہ مَیں نے کہا نماز کے بعد حاضر جنازہ ہے۔ مَیں باہر جا کر نماز جنازہ ادا کروں گا اور آپ لوگ یہیں مسجد میں صفیں بنا لیں