عید کے احکام
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’1۔ یہ باتیں عید والے دن مسنون ہیں:
(1) مسواک۔
(2) غسل۔
(3) عمدہ کپڑا، سرمہ، تیل، کنگھی۔
(4) خوشبو لگائے۔
(5) سویرے اٹھے۔
(6) عیدگاہ میں جائے۔
(7) کچھ کھاکر جائے۔ رسول کریمؐ طاق کھجوریں کھاکر تشریف لے جاتے۔
(8) جس راہ سےجائے اس سے دوسری راہ آئے۔
(9) تکبیر کہتا جائے۔ اَللہُ اَکْبَرُ۔ اَللہُ اَکْبَر۔ لَااِلٰہَ اِلَّااللہُ۔ وَاللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ۔ وَ لِلّٰہِ الْحَمْدُ۔ اَلْحَمْد یا کلمۂ شہادت بھی۔
(10) نماز دو رکعت۔
(11) مستورات کا بھی عیدگاہ میں جانا امرمسنون ہے۔
2۔ صدقۃالفطر۔ اس لئے مشروع ہے کہ عید کے دن مساکین کی امداد اور روزہ رکھنے میں جو کچھ نقص رہ گئے ہیں ان کا جبر ہو۔
یہ صدقہ غلام، آزاد، مرد، عورت، چھوٹے بڑے، غنی فقیر پر ہے جو نماز پڑھنے سے پہلے ادا ہونا چاہئے۔
جَو اور اس قسم کا غلّہ پورا صاع اور گندم نصف صاع۔ یعنی ….. ایک سیر چھ چھٹانک ….. غلّہ کے عوض نقدی بھی جائز ہے۔
3۔ اس نماز میں اذان و اقامت نہیں اور اوّل و آخر کوئی اَور نماز نہیں۔ طریق نماز یوں ہے کہ تکبیر تحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھ لے، ثناء پڑھ کر پھر سات تکبیریں کہی جائیں۔ اللہ اکبر کےساتھ ہر تکبیر پر ہاتھ کانوں تک لے جاکر کھلے چھوڑے جائیں۔ ساتویں تکبیر پر ہاتھ باندھ لیں۔ دوسری رکعت میں بھی قبل قراءت پانچ تکبیریں کہیں ماسوائے اس تکبیر کے جوسجدہ سے اٹھتے وقت کہی جاتی ہے۔ پانچویں تکبیر پر ہاتھ باندھیں۔ ……
اس نماز میں علی العموم حضور علیہ الصلوٰۃ ’سَبِّحِ اسْمَ‘۔ ’ھَلْ اَتَاکَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃِ‘ پڑھتے۔
(ارشادات نُور۔ جلد سوم صفحہ 338)
(’سَبِّحِ اسْمَ‘ سے مراد سورۃالاعلیٰ ہے جس کے شروع میں یہ الفاظ آئے ہیں اور ’ھَلْ اَتَاکَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃِ‘ سے مراد سورۃالغاشیہ ہے۔)