حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزرپورٹ دورہ حضور انور

امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی 2017ء

(عبد الماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر)

اپنے آپ کو خادمِ دین سمجھیں اور خادمِ دین سمجھ کر کام کیاکریں۔عہدیدارسمجھ کر کام نہ کیاکریں۔ عہدیداری یا افسری کا جو تصور پیداہوتاہے
اس سے جماعت کے افراد کو شکوے پیداہوتے ہیں۔آپ ہرایک کے خادم ہیں۔ آپ نے ہر ایک تک پہنچناہے اور ان کے مسائل
حل کرنے ہیں۔ نچلی سطح پر بھی یہ نظام اسی لئے بنایاگیاہے کہ ہر ایک کے ساتھ رابطہ ہو اور وہ پھر ریجنل لیول پر ہو اور پھر نیشنل لیول پر ہو،
پھر مرکز سے ہو اور پھر خلیفۂ وقت سے ہو۔ جو انتظامی معاملات ہیں، تربیتی معاملات ہیں یا اور جماعت کے پروگرام ہیں ان کے لئے آپ کو
لوگوں تک خود پہنچنے کی ضرورت ہے۔ یہ نہ انتظارکیاکریں کہ لوگ آپ تک پہنچیں۔ اور اپنے سیکرٹریانِ مال کو بھی ہر جگہ پر فعّال کریں۔

جماعت احمدیہ جرمنی کی نیشنل مجلس عاملہ، لوکل اور ریجنل امراء اور تمام جماعتوں کے صدران کے ساتھ میٹنگ۔
مختلف شعبہ جات کی کارکردگی کا جائزہ اور اسے بہتر بنانے کے لئے نہایت اہم تفصیلی ہدایات۔

… … … … … … … … …
23؍اپریل بروز اتوار 2017ء
(حصہ سوم)
… … … … … … … … …

نیشنل مجلس عاملہ، لوکل اور ریجنل امراء اور تمام جماعتوں کے صدران کے ساتھ میٹنگ

پروگرام کے مطابق سواچھ بجے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد سے ملحقہ ہال میں تشریف لائے جہاں نیشنل مجلس عاملہ جماعت جرمنی ، تمام لوکل امراء ، ریجنل امراء اور تمام جماعتوں کے صدران کی حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ میٹنگ تھی۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے میٹنگ کا آغاز دعا کے ساتھ فرمایا۔

دعا کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار پر جنرل سیکرٹری صاحب نے بتایاکہ 193 صدرانِ جماعت اور 71 حلقہ جات کے صدرہیں ان میں سے پانچ کی طرف سے معذرت آئی ہے۔ باقی سب حاضر ہیں۔

جنرل سیکرٹری

٭ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار پر جنرل سیکرٹری صاحب نے رپورٹ دی کہ اس وقت 140 کے قریب صدران کی رپورٹس باقاعدگی سے آرہی ہیں۔ جن کی رپورٹ نہیں آتی انہیں خط لکھاجاتاہے کہ آپ کی رپورٹ موصول نہیں ہوئی۔ اگر جواب نہیں آتا تو دوبارہ پھر خط لکھاجاتاہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے استفسارفرمایاکہ جو اتنے سست صدران ہیں ان کی رپورٹ آپ نے کبھی مرکز میں کی ہے؟

اس پر جنرل سیکرٹری صاحب نے عرض کیاکہ ان کی رپورٹ مرکز کو نہیں کی گئی۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آپ ان کی رپورٹ نہیں کرتے۔ خود بھی سست ہیں تبھی صدران کو بھی چھٹی ملی ہے اوروہ Relax ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ آپ لوگوں کو ان کے پیچھے پڑنا چاہئے تھا۔

٭ اس کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار پر جنرل سیکرٹری صاحب نے بتایاکہ Dietzenberg امارت کی رپورٹ موصول نہیں ہورہی۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسارپر لوکل امیرجماعت Dietzenberg نے بتایاکہ ہمارے جنرل سیکرٹری صاحب کی طرف سے کچھ کمزوری ہوئی تھی۔ بعد میں اصلاح کرلی تھی۔ اب پچھلے مہینے سے دوبارہ رپورٹ بھجوانا شروع کی تھی۔جنرل سیکرٹری صاحب کچھ بیمار تھے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اگرجنرل سیکرٹری صاحب بیمار تھے تو آپ توموجود تھے؟ آپ نے دو تین مہینے اپنے جنرل سیکرٹری صاحب سے پوچھا ہی نہیں؟ آپ لوگ عہدہ لینے کے لئے بیٹھے ہوتے ہیں کہ کرسی مل جائے گی اور صدر یا امیربن جائیں گےاورہماری جماعت کے اندر ایک شان بن جائے گی۔ اس کے علاوہ تو عہدے کچھ بھی کرنے کے لئے نہیں ہوتے؟ جب آپ لوگ اپنے آپ کو عہدیدار سمجھتے ہیں تو یہ ساری برائیاں اسی وقت پیدا ہوتی ہیں۔اگر آپ لوگ خدمتگار لکھناشروع کردیں توآپ لوگوں میں سے ساری برائیاں دور ہوجائیں۔ صدران شکوہ کرتے ہیں کہ ریجنل امراء کام نہیں کرتے۔ امراء کہتے ہیں مرکز کام نہیں کر تا۔ سارے ایک دوسرے پر ملبہ ڈالے جاتے ہیں اور کام کوئی بھی نہیں کر رہا ہوتا۔ نہ نیشنل عاملہ کام کر رہی ہے ،نہ صدران کام کر رہے ہیں اور لوگوں میں شکوے پیدا ہو رہے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ ان عہدیداروں نے اپنی چوہدراہٹ بنائی ہوئی ہے، ایک سرداری بنائی ہوئی ہے اور جو خدمت کا جذبہ ہے وہ کوئی نہیں رہا۔ مربیان ہیں تو ان سے اکثر جگہوں پہ سلوک صحیح نہیں ہو تا۔ جماعت کے افرد ہیں تو ان سے اکثر سلوک صحیح نہیں ہوتا۔ یہ عہدے کیوں لئے ہیں؟ آپ لوگ تو خدمت کو ایک فضل الٰہی جانو کی تقریریں کرتے ہیں۔ فضل الٰہی اس طرح تو نہیں ملا کرتا کہ تین تین مہینے خبر ہی نہ لی جائے۔آپ لوگ صدران بھی اور امراء بھی دنیاداری میں اتنے ملوّث ہوچکے ہیں اور کام نہیں کرسکتے تو معذرت کردیں۔گنہگار کیوں بنتے ہیں؟ ایک تو کام نہیں کرتے پھر اللہ تعالیٰ کے سامنے گناہ گار بنتے ہیں۔ اور اکثر صدران کے بارہ میں یہی رپورٹ ہے کہ جس طرح کام کرنا چاہئے اس طرح نہیں کررہے۔ یہ تو کوئی طریق کار نہیں ہے۔ شکوے پیداہورہے ہیں کہ آپ لوگ اور نیشنل عاملہ والے بھی کام نہیں کر رہے۔ مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ نہیں پوچھنا کہ تم صدر تھے اور تم نے اس لئے کام نہیں کیاکہ نیشنل عاملہ نے کام نہیں کیا۔ نیشنل عاملہ نے اپنا جواب دینا ہے ، صدر نے اپنا جواب دینا ہے ، مقامی امیر نے اپنا جواب دینا ہے ، ریجنل امیر نے اپنا جواب دینا ہے۔ ہر ایک نے اپنا حساب دینا ہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: مقامی امیر تو بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اگر امراء کا یہ حال ہے تو چھوٹی چھوٹی جماعتوں کے صدران کا حال توشاید اوربھی برا ہو۔

٭ اس کے بعد کالسروئے جماعت کے صدرصاحب نے بتایاکہ ان کی عاملہ فعّال نہیں ہے۔ انہیں اس سال نئی ذمہ داری ملی ہے۔ ان کی جماعت کے ممبران کی تعداد 120 کے قریب ہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اگر عاملہ فعّال نہیں ہے تو آپ نے مرکز میں رپورٹ کرنی تھی۔ اگر آپ کو اس سال بھی ذمہ داری ملی ہے تو اس میں بھی آٹھ نو مہینے گزر چکے ہیں۔ اپنی جماعت کے جنرل سیکرٹری کو EFFICIENT کریں اور رپورٹ بھجوایا کریں۔ یہ صدران کا بھی کام ہے اور امراء کا بھی ہے کہ وہ اس بات کا خیال رکھیں۔

٭ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار پر ایک اور صدرجماعت نے بتایاکہ ان کی عمر 27 سال ہے۔ ان کی عاملہ میں انصاراللہ کے لوگ بھی شامل ہیں لیکن وہ سست ہیں۔

بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: تبلیغ اور تربیت کا کام توہمارا ایک بنیادی کام ہے۔ اگر یہ دوکام ہی نہیں ہو رہے تو باقی کام کیا ہوں گے؟ اگر یہ دو شعبے تبلیغ اور تربیت کے فعّال ہو جائیں تو باقی شعبے خود ہی فعّال ہوجاتے ہیں۔نہ تو آپ کے امور عامہ کے شعبہ میں مسائل ہوں گے اورنہ ہی قضا ء میں۔ مال کو بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔ کیونکہ اگر ایک احمدی کی صحیح تربیت ہو جائے اور اگر اس کو احساس ہو کہ اس کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور کس طرح ان کو پورا کرنا ہے تو لوگ خود بخود ایکٹو (active) ہوجاتے ہیں۔ اگر عاملہ ہی سست ہو گی تو باقی لوگ کیا کریں گے؟

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آپ کو ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ نے کام لینا ہے چاہے وہ انصار ہیں یا چھوٹے ہیں، ان سے کام لیں۔ میں نے تو دیکھا ہے کہ خدام الاحمدیہ میں کام کرنے کا زیادہ جذبہ ہے اور رپورٹیں دے بھی دیتے ہیں۔اکثر یہاں سستی تو انصار کی طرف سے ہوتی ہے۔

سیکرٹری تبلیغ

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سیکرٹری تبلیغ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

آپ کی لیف لیٹنگ (leaf letting) کی رپورٹ تو یہ ہے کہ اتنے لاکھ تقسیم ہوگئے۔ وہ تو ہو گئے لیکن وہی لوگ تقسیم کرنے والے ہیں جو پہلے دن سے تقسیم کر رہے ہیں یا تقسیم کرنے والوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے؟

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار پر سیکرٹری صاحب تبلیغ نے بتایاکہ اس وقت پانچ ہزار سے زائد لوگ لیف لیٹنگ میں حصہ لے رہے ہیں۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: خدام الاحمدیہ کی تجنید دس ہزار اور انصاراللہ کی پانچ ہزار۔ دونوں ملا کر 15 ہزار تو یہی بن جاتے ہیں۔ اور کچھ نہ کچھ لجنہ بھی حصہ لیتی ہوں گی۔ لجنہ کی تجنید تیرہ ہزار کے قریب ہے۔ یہ کل ملا کر اٹھائیس ہزاربن جاتے ہیں اور اس میں سے صرف پانچ ہزار ابھی تک حصہ لیتے ہیں اور وہ بھی off and on لیتے ہوں گے۔ اگر مستقل داعیین الی اللہ نہیں بنتے تو کم از کم لیفلیٹنگ میں ساروں کو involveکریں تا کہ ہر احمدی کو احساس ہو کہ اس کا تبلیغ میں حصہ ہونا چاہئے۔آپ کے ساڑھے تین ہزار تو واقفینِ نَو ہیں اور ان میں سے پندرہ سال کے اوپر دو ہزار کے قریب ہوں گے۔ اگرآپ اس طرح سب کو Involve کرلیں تو ان سے بہت کام لیا جاسکتا ہے۔

٭ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار فرمانے پر سیکرٹری صاحب تبلیغ نے عرض کیا کہ اس سال پندرہ لاکھ لیف لیٹس تقسیم ہوئے ہیں۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اگر پانچ ہزار لوگوں نے تقسیم کئے ہیں تو فی کس تین سو لیف لیٹ آئے۔ اگر آپ لیف لیٹ تقسیم کرنے والوں کی تعداد دس ہزار تک لے جائیں تو لیف لیٹس کی تعداد تین ملین تک پہنچ جاتی ہے۔ اگر واقفینِ نَو کو ، خدام الاحمدیہ کو، انصار اللہ کے صف دوم کے انصار ، صف اوّل کے بھی کافی انصار جاسکتے ہیں ان سب کو مستقل طور پر شامل کریں تو یہ تعداد کم از کم دس ہزارتو ہو سکتی ہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار فرمانے پر سیکرٹری تبلیغ نے عرض کیاکہ جرمنی کی کل آبادی 80 ملین ہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اگرآبادی اسّی ملین ہے اور آپ نے 1.5 ملین تقسیم کئے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ساروں تک پہنچنے میں آپ کو پچاس، ساٹھ سال لگیں گے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: میں نے یہ بھی کہا ہے کہ ایک جگہ جب آپ تقسیم کرلیتے ہیں تو وہاں جماعت کے تعارف کا دوسرا پمفلٹ آنا چاہئے۔ ایک مرتبہ تو تعارف ہوجاتاہے پھرلوگ بھول جاتے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آپ لوگ تو احمدی ہیں اور خلافت کے ساتھ بیعت کا تعلق ہے۔ آپ لوگ میرےخطبات سنتے ہیں ، جلسوں میں تقریریں سنتے ہیں ، جمعہ کے خطبات سنتے ہیں۔ ایک جمعہ کے خطبہ میں جو نصیحت کی جاتی ہے وہ آپ اگلے جمعہ میں بھولے ہوئے ہوتے ہیں۔ تو اس صورت میں آپ ان سے جو احمدی بھی نہیں ہیں اور عیسائی ہیں یا مذہب میں دلچسپی ہی نہیں ان سے کیا expect کرتے ہیں کہ چھ سال بعد ان کو یاددہانی کرائیں گے تو انہیں جماعت کے بارہ میں کچھ یاد ہو گا ؟

٭ سیکرٹری تبلیغ نے عرض کیاکہ ہمارا یہی طریق کار ہے کہ پہلے فلائر کے بعد دوسرا فلائر تقسیم ہوتاہے اور پھر تیسرافلائر تقسیم کیاجاتاہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار فرمانے پر سیکرٹری صاحب تبلیغ نے بتایاکہ دوسرے فلائر کی باری تقریباً ایک سال بعد آتی ہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: یہ اسی لئے ہے کہ آپ کے پاس man power کم ہے۔ لوگوں کی involvement کم ہے حالانکہ اس کو زیادہ کیا جاسکتا ہے۔ لوگوں کی تعداد بڑھائیں۔ اگر ہراحمدی کو اس کام میں involvement کا احساس ہوجائے تو اس سے تربیتی لحاظ سے بھی بہتری پیدا ہو گی۔ لوگوں میں ایک جرأت بھی پیدا ہو گی کہ ہم یہ پمفلٹس تقسیم کرکے جماعت احمدیہ کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ لوگ جب لیف لیٹس لیں گے یا مخالفت کریں گے تو دونوں صورتوں میں ہمارے اندر جرأت پیدا ہو گی اور احساس پیدا ہو گا کہ ہماری کیاذمہ داریاں ہیں اور ان ذمہ داریوں کو ادا کرنےکے لئے بھی تبلیغ میں آگے آنا ضروری ہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: میں نے آج سے پانچ سال پہلے کہا تھا کہ اس طرح کا plan بنائیں کہ آئندہ دس سال میں آپ کے ہر شہری کو جماعت کا تعارف ہوجائے۔آپ کی مسجدیں بن رہی ہیں اور وہاں سے مجھے فیڈ بیک آتی ہے اس سے تو لگتا ہے جہاں مسجدیں بن رہی ہیں وہاں بھی تعارف نہیں ہے تو باقی جگہوں پر کیا ہونا ہے؟

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: پہلے یہ دیکھیں کہ جہاں زیادہ آبادی ہے پہلے اُن علاقوں کو cover کریں۔ پھر جب ایک دفعہ یہ علاقے cover ہوجائیں تو دوسرے صوبوں اور علاقوں میں جائیں اور حکمت سے کام کریں۔ آپ کے پاس جو man power ہے ، جو خدام ہیں، انصار ہیں ان کو استعمال کریں۔

٭ اس پر سیکرٹری تبلیغ نے عرض کیاکہ ہم ایسا ہی کررہے ہیں۔ اس پرحضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جو نتیجہ آنا چاہئے تھا وہ تو نہیں آیا۔ آپ نے اب تک گزشتہ پانچ سالوں میں چھ ملین لوگوں تک لیف لیٹ پہنچایا ہے اور چھ ملین کل آبادی کا آٹھ فیصد بنتاہے۔ اس طرح دس سال کے حساب سے آپ نے پانچ سال میں پچاس فیصد کرنا تھا۔ پانچ سال میں کم از کم پچاس فیصد نہیں کرسکتے تو تیس فیصد تو کرسکتے تھے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آپ کے پاس لوگوں کی محدود تعداد ہے۔ جولوگ نہیں آتے ان میں سے بعض صدران سے یا مقامی جماعت سے ناراض ہیں یا امیر جماعت سے ناراض ہیں۔ کوئی نیشنل عاملہ سے ناراض ہے، کوئی خدام الاحمدیہ کے عہدیداروں سے ناراض ہے، کچھ انصار اللہ کے عہدیداروں سے ناراض ہیں۔ جب بھی ان سے پوچھو تو یہی جواب آتا ہے کہ ہم نے فلاں کی وجہ سے یہ کام کیا اور فلاں کی وجہ سے پیچھے ہٹ گئے۔ حالانکہ عہدیداروں کا، صدران کا اور ان کی عاملہ کے عہدیداروں کا، سب کا یہ کام ہے کہ افراد جماعت کو پیار ، محبت سے قریب لائیں، نہ کہ رعب ڈالنےسے۔ اور یہی صحیح طریقہ ہے جس سے آپ صحیح طرح اپنے لوگوں کی تربیت بھی کرسکتے ہیں او ر تبلیغ کے میدان میں بھی آگے جاسکتے ہیں۔

٭ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار پر سیکرٹری تبلیغ نے بتایاکہ اس سال 126 بیعتیں ہوچکی ہیں۔ ان میں سے 59 عرب ہیں اور 32 جرمن ہیں۔

سیکرٹری تربیت

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار فرمانے پر سیکرٹری تربیت نے بتایاکہ تربیت کے حوالہ سے جماعتی سطح پر جو سب سے بڑ ی کوشش کی جارہی ہے وہ مساجد کی آبادی ہے۔ اس حوالہ سے خصوصی کوشش کی جارہی ہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: دو مہینے پہلے میں نے خاص طور پر نمازوں کے حوالہ سے ایک خطبہ دیا تھا۔ مختلف جگہوں سے اور بڑی جماعتوں سے رپورٹس آرہی ہیں کہ وہاں فرق پڑاہے۔ آپ کے یہاں کتنا فرق پڑاہے؟

اس پر سیکرٹری تربیت نے عرض کیاکہ اللہ کے فضل سے یہاں جرمنی میں بھی کافی فرق پڑاہے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ کی روشنی میں ہم نے مجالس عاملہ کے ممبران کے لئے کارڈز تیارکئے ہیں تاکہ عاملہ کےممبران مساجد میں حاضرہوں اور دیگر احباب کے لئے اپنا نمونہ پیش کریں۔

٭ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اُن جماعتوں کے بارہ میں استفسار فرمایاجن کے پاس نماز سنٹر نہیں ہیں۔اس پر ایک جماعت کے صدر نے عرض کیاکہ شہر میں ایک ہال ہے وہاں جمعہ وغیرہ اداکرلیتے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسارفرمانے پر صدرنے عرض کیاکہ اُن کی عاملہ کے ممبران کی تعداد سترہ ہے اور جمعہ پر بیس کے قریب حاضری ہوجاتی ہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: سب سے پہلے تو اپنی عاملہ کے ممبران کو نمازوں میں ریگولر کریں۔ اصلاح سب سے پہلے تو گھر سے شروع کریں۔ آپ کا گھر آپ کی عاملہ ہے۔سب سے پہلے تو عاملہ کے ممبران کی اصلاح کریں۔ آپ کی جماعت کی عاملہ کی تعداد سترہ ہے۔ اسی طرح انصاراللہ اور خدام الاحمدیہ کی عاملہ کے ممبران بھی ہوں۔ اگر یہ سارے باقاعدہ ہو جائیں تو تیس پینتیس کے قریب انہی کی تعداد بن جاتی ہے۔اپنی عاملہ کے ممبران کونماز کی عادت ڈالیں اوراگر عاملہ صحیح ہو جائے اوراپنی اصلاح کرلے تو باقی خود بخود اصلاح ہو جائے گی۔ آپ لوگ دوسروں کی اصلاح کرنے کے بجائے پہلے اپنی اصلاح کریں۔

٭ اس کے بعد سیکرٹری تربیت نے عرض کیاکہ اس کے علاوہ کوشش کررہے ہیں کہ عائلی معاملات میں بہتری لائی جاسکے۔ اس کے لئے ہم مربیان کے ساتھ مل کر پلاننگ کے ساتھ کام کررہے ہیں۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اس حوالہ سے نوجوانوں میں بھی خاص طور پر کام ہوناچاہئے اوربعض اوقات صفِ دوم کے انصار اللہ کے بارہ میں بھی شکایتیں آتی ہیں۔ لجنہ کی طرف سے بھی شکایتیں ہیں کہ بعض عورتیں یا لڑکیاں ایسی بھی ہیں جنہوں نے یہاں ویزے کے لئے شادیاں کیں اور بعد میں ختم ہو گئیں۔لیکن زیادہ ترمردوں کا بھی قصور ہوتاہے۔ اگر چالیس فیصد عورتوں کا قصور ہے تو ساٹھ فیصد مردوں کابھی قصور ہوتا ہے۔ اکثر مرد خود صحیح نہیں ہو تے اور امید رکھتے ہیں کہ عورت کی پہلے اصلاح ہو۔ پہلے اپنی اصلاح کریں۔ اگر مرد اپنی اصلاح کرلیں تو گھر ٹھیک رہے گا، بچوں کی تربیت بھی رہے گی اور اپنی بھی۔ اور اگر نہیں تو پھر عورت ہاتھ اٹھائے گی، جھگڑے پیدا ہوں گے۔ بعض اوقات تو تین تین ، چار چار بچے ہوجاتے ہیں اور اس کے بعد جھگڑے ہوجاتے ہیں اور خلع اور طلاقیں شروع کر دیتے ہیں۔ یہ تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ اس کےلئے ہر سطح پر، صدران کو بھی اپنے سیکرٹریان تربیت کو فعال کرنے کی ضرورت ہے اور آپ کو بھی مستقل ان پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے جامع پروگرام بنائیں اور اس کی رپورٹ بھی لیا کریں کہ ایسے گھروں کے پہلے کیا حالات تھے اور اب کیا حالات ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اسی طرح اصلاحی کمیٹی کایہ کام نہیں ہے کہ جب واقعہ ہو جائے تو اس کے بعد نظر رکھیں۔ بلکہ لجنہ اپنے لیول پر، خدام اپنے لیول پر، انصار اپنے لیول پر، اور جماعتی طور پر بھی اصلاحی کمیٹی کے ممبران کی ہرجگہ نظر ہونی چاہئے۔ ایسے معاملات جب اٹھتے ہیں تو ایک دن میں نہیں اٹھ رہے ہوتے۔ گھر میں جو مسائل پیدا ہوتے ہیں وہ باہر بھی نکلتے ہیں۔ جب باہر نکلنا شروع ہوتے ہیں تو اسی وقت اصلاح کے لئے کارروائی عمل میں آنی شروع ہو جانی چاہئے۔ صدران کو بھی، سیکرٹریانِ تربیت کو بھی، خدام الاحمدیہ کو بھی، انصار اللہ کو بھی اور جماعتی مرکزی طور پر بھی اُسی وقت کارروائی کرنی چاہئے تاکہ مسائل کم ہوں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: یہاں آزادی کے نام پر مرد زیادہ آزاد ہوتے جارہے ہیں اور یہاں کے پیدا ہوئے لڑکے اور لڑکیوں کی بھی شکایتیں آتی ہیں۔ کچھ لوگ جو پاکستان سے آتے ہیں ان میں سے بھی لڑکے اور لڑکیوں دونوں طرف سے شکایتیں آتی ہیں۔ تو یہ مکمل جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کہاں کہاں کمزوریاں ہیں اور کس طرح ہم ان کمزروریوں کو دور کرسکتے ہیں۔ کون زیادہ قصور وار ہے اور قصور کی وجوہات کیا ہیں۔ کیا صرف دنیاوی وجوہات ہیں یا واقعی ایک فریق کو دوسرے فریق سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے۔ اس کے بعد پھر جب معاملات عہدیداروں کے پاس جاتے ہیں تو ان کی طرف سے بھی منفی رویہ کا اظہار ہوتا ہے جس کی وجہ سے مزید flare up ہو جاتا ہے۔ آپ کو ان ساری چیزوں کا پتہ ہو نا چاہئے۔

٭ سیکرٹری تربیت نے عرض کیاکہ ہم سیکرٹریانِ تربیت کو امسال فعال کررہے ہیں اور ریفریشر کورس بھی کروائے ہیں۔ انشاء اللہ مزید کام کریں گے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اس سال کیوں فعّال کر رہے ہیں؟ آپ کو پہلے فعّال کرنا چاہئے تھا ؟ اس کا رزلٹ بھی آنا چاہئے۔آپ لوگ انشاء اللہ سے ما شاء اللہ بھی کیا کریں۔

سیکرٹری رشتہ ناطہ

٭ سیکرٹری رشتہ ناطہ نے اپنی رپورٹ دیتے ہوئے بتایاکہ ہمارے پاس جو رشتے طے پاتے ہیں ان کی تعداد بہت کم ہے۔ اس میں کچھ مسائل ہیں۔ لڑکوں کی تعداد بہت کم ہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: یہ مسائل تودنیا میں ہر جگہ ہیں۔ ایک تو لڑکوں کی تعداد کم ہے اور اوپر سے تعلیم کا معیار کم ہے۔لیکن لڑکیوں نے تو شادیاں کرنی ہیں۔اسی لئے تو مَیں نے ایک انٹرنیشنل کمیٹی بھی بنائی ہے۔آپ نے تبشیر والوں کو کتنے کوائف بھیجے ہیں؟

اس پرسیکرٹری رشتہ ناطہ نے عرض کیاکہ جو مرکزی سطح پر کمیٹی کام کر رہی ہے اس کو ہم ابھی تک اپنے کوائف نہیں بھجوا سکے کیونکہ کچھ قانونی مجبوریاں ہیں۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: مجھےسمجھ نہیں آئی کہ قانونی مجبوریاں کیا ہیں؟ آپ کی طرف سے جواب آگیا ہے کہ کوائف اس لئے نہیں بھیج سکتے کہ personal کوائف پوچھے بغیر دوسرے ملک میں نہیں بھیجے جاسکتے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی دنیا میں باقی ملک تو بھجوارہے ہیں۔ ایک احمدی جب بیعت کرتا ہے تو وہ احمدی ہے۔ آپ نے کسی غیر احمدی کے کوائف تو نہیں بھیجنے کہ وہ کورٹ میں جا کرآپ لوگوں کو sueکردے گا۔ یہ تو صرف ایک بہانہ ہے۔ آپ کا پہلے جواب آچکا ہے جو میں پڑھ چکا ہوں۔ میرے نزدیک یہ کوئی جواز نہیں ہے ، یہ صرف ایک بہانہ ہے۔ جب آپ کوائف لیتے ہیں تو اُسی وقت اس سے کیوں نہیں لکھوا لیتے کہ تم صرف یہ چاہتے ہو کہ صرف اسی ملک میں رشتہ کرنا ہے اور تمہارے کوائف یہیں رہیں یا مرکزی کمیٹی کو بھی بھیج دیں؟

اس پر سیکرٹری رشتہ ناطہ نے عرض کیاکہ ہم نے ایک خانہ بنایاہواہے جس کو لوگ fill نہیں کرتے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: یہ تو اُسی وقت ہو سکتا ہے جب آپ کے صدران فعّال ہوں، متعلقہ سیکرٹریان رشتہ ناطہ فعّال ہوں۔ ہر سطح پر متعلقہ سیکرٹریان رشتہ ناطہ کو فعّال کرنا بھی آپ کا کام ہے۔ آپ اپنے سیکرٹریان سے یہ کام کیوں نہیں کرواتے؟ یہاں جرمنی میں آپ لوگوں کوہر چیز اپنے پاس دبا کر رکھنے کی عادت پڑ چکی ہے۔ آپ جیسا پڑھا لکھا آدمی ہو یا اَن پڑھ آدمی ہو ہر ایک کے دماغ میں پڑ گیا ہے کہ ہمارے ملک کی چیزیں ہیں اور ہم نے یہیں رکھنی ہیں۔ ہم نے اپنی انفرادیت قائم کرنی ہے۔ امریکہ اور کینیڈا آپ سے بڑے ملک ہیں ، وہاں تو یہ کام ہو رہے ہیں۔ وہاں سے تو کوائف آرہے ہیں۔ اگر کام کرنا ہو تو سو طریقے نکالے جاسکتے ہیں۔ یہ جواب دے دیناکہ یہ نہیں ہو سکتا، وہ نہیں ہو سکتا، میرے نزدیک یہ سب بہانے ہیں۔ آپ خود اپنے آپ کو فعال کریں۔ جب خود ٹھیک نہیں تو جماعت کے لوگوں سے کیا expect کرتے ہیں؟

سیکرٹری تحریکِ جدید

٭ سیکرٹری تحریکِ جدید نے اپنے شعبہ کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایاکہ ہمیں تحریکِ جدید میں 34ہزار شاملین کا ٹارگٹ ملا تھا جو ہم نے پوراکرلیاتھا۔ اگلے سال کا ٹارگٹ پینتیس ہزار کو شامل کرنے کا ہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: میں نے اس لئے کہا تھا کہ چاہے کوئی ایک Euro دے یا پچاس سینٹ ہی دے لیکن شاملین کی تعداد بڑھانے کی کوشش کریں۔ لوگوں کو مالی قربانی کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے۔ ضروری نہیں کہ آپ نے بڑی بڑی رقمیں لینی ہیں۔شاملین کی تعداد بڑھانی چاہئے تاکہ ہرایک کو احساس ہو کہ ہم مالی قربانی میں حصہ دار ہیں۔ لوگوں کو مالی قربانی کی اہمیت کا پتہ لگنا چاہئے۔

سیکرٹری وصایا

٭ اس کے بعد سیکرٹری وصایا نے اپنے شعبہ کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایاکہ اس وقت کُل موصیان کی تعداد 11ہزار589ہے۔ نیز حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار پر سیکرٹری وصایا نے بتایاکہ کل کمانے والے 14ہزار618 ہیں۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:اس کا مطلب ہے کہ آپ نے پچاس فیصد کا جو ٹارگٹ تھا وہ حاصل کرلیاہے۔

نیز حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اگرآپ کے کمانے والے 14 ہزار ہیں تو باقی اٹھائیس ہزار فارغ بیٹھے ہیں؟

سیکرٹری وصایا نے بتایاکہ ٹوٹل ملاکر جو چندہ دہندگان کی تعداد بنتی ہے وہ 19 ہزار 400 ہے۔ اس میں جیب خرچ والے اور کمانے والے دونوں شامل ہیں۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جیب خرچ والوں پرتو چندہ واجب ہی نہیں ہے۔ اگر کوئی وصیت کرتا ہے تو وصیت ہے۔ لیکن جو جیب خرچ لے رہا ہے یا گھر کی خاتون ہےیا بچہ ، یا کسی کو تحفتاً کچھ جیب خرچ ملتا ہے تو اس پر چندہ عام لاگو ہی نہیں ہوتا۔ وہ کمانے والا نہیں ہے۔ کمانے والا وہ ہے جو نوکری کرتا ہے، بزنس کرتا ہے ، ٹھیکے داری کرتا ہے یا کسی بھی ذریعہ سے اس کی ماہوار آمد ہے۔ اس میں سٹوڈنٹس اور گھریلوخواتین شامل نہیں ہیں۔ اگر آپ لوگ سٹوڈنٹس کو اور خانہ دار خواتین کوکمانے والوں میں شامل کرتے ہیں کہ ان کا میاں ان کو دو سو یورو دے رہا ہے ، یا کسی بچے کو سویورو مل رہا ہے وہ تو کمانے والے افراد میں شامل نہیں ہوتے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آپ کی تجنید تو 43،44ہزار کی ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ اس میں سے 14ہزار618 کمانے والے افراد ہیں۔ اس کا مطلب ہے باقی سب فارغ بیٹھ کر روٹی کھارہے ہیں۔

٭ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار پر صدرخدام الاحمدیہ نے بتایاکہ ان کی تجنید دس ہزار ہے جبکہ اس میں سے پانچ ہزار کمانے والے ہیں۔ اسی طرح صدرمجلس انصاراللہ نے بتایاکہ ان کی تجنید 5ہزار 600 ہے جبکہ ان میں کمانے والوں کی تعداد 4 ہزارہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:اس کا مطلب ہے کہ چودہ ہزار میں سے باقی پانچ ہزار عورتیں کماتی ہیں ؟

سیکرٹری صاحب نے عرض کیاکہ ان کے پاس جو بجٹ ہے وہ جماعتوں کی طرف سے آیاہواہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اس کا مطلب ہے کہ خدام الاحمدیہ اپنی سطح پرصحیح کام نہیں کر رہی۔ ان کو پتہ ہی نہیں کہ کمانے والے کتنے ہیں۔ اسی طرح انصار اللہ بھی صحیح کام نہیں کر رہے۔ ان کو بھی نہیں پتہ کہ کتنے کمانے والے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آپ کے پاس جو رپورٹ ہے اس سے خدام اورانصار کی رپورٹ ٹیلی (Tely) نہیں کر رہی۔ یا تو آپ کے figure غلط ہیں یا یہ دونوں تنظیمیں کام نہیں کر رہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جرمنی جماعت کی تجنید کا جائزہ لیاجس کے مطابق سات سال سے کم عمر کے بچوں کی تعداد پانچ ہزار کے قریب بنی جبکہ اطفال اور ناصرات کی تعداد ساڑھے چھ ہزار بنی۔ اس کے علاوہ سٹوڈنٹس کی تعداد چار ہزار کے قریب بنی۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ: اس کے علاوہ لجنہ کی تجنید تیرہ ہزارہے۔ ان میں سے اگر بیس سال تک کی لڑکیاں نکال دیں تو باقی سات ہزار تعداد بنتی ہے۔ اس طرح کل ملاکر زیادہ سے زیادہ 18 ہزار کی تعداد بن رہی ہے جبکہ سیکرٹری صاحب جو مجھے رپورٹ دے ہیں اس کے حساب سے انتیس ہزار بن رہی ہے۔ یاتو جماعتی نظام اتنافعال ہے کہ ذیلی تنظیموں کو پتہ ہی نہیں لگ رہاکہ یہ لوگ کہاں سے لارہے ہیں۔ حالانکہ ذیلی تنظیموں کا نظام جماعتی نظام سے زیادہ فعال ہوناچاہئے۔

٭ صدرصاحب خدام الاحمدیہ نے عرض کیاکہ ہم نے نیشنل عاملہ میں اس طرف توجہ دلائی تھی کہ ہماری تجنید ہر ماہ اَپ ڈیٹ ہورہی ہے۔ اس لحاظ سے دیکھنے والی بات یہ ہے کہ جماعتی تجنید درست ہے یا نہیں کیونکہ ہم ہر خادم تک پہنچتے ہیں اور ہمارا بجٹ بھی ہر خادم کے اوپر بنتا ہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: کیا آپ نے AIMS کا ڈیٹا ان کے ساتھ exchange کیاہے؟ آخر جو AIMS کارڈز verify ہوکرآتے ہیں وہ ذیلی تنظیموں کی طرف سے ہی آتے ہوں گے؟

اس پرعرض کیاگیاکہ AIMS کارڈز کی verification صدرجماعت کی طرف سے آتی ہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:آپ کے پاس جو رپورٹ آتی ہے اس پر خدام الاحمدیہ کے دستخط بھی ہونے چاہئیں۔ اگر انصارہے یا لجنہ ہے تو متعلقہ ذیلی تنظیم بھی ذمہ دارہے کہ وہ اسے verify کرے۔عورتوں اور مردوں دونوں طرف سے مجھے رپورٹ ملی ہے کہ بعض مشکوک لوگ بھی ہوتے ہیں۔ بعض ایسے کیسز بھی آئے ہیں کہ صدران نے بغیر دیکھے غیر احمدیوں کے یا جن کے اخراج ہوئے ہوئے تھے ان کی تصدیق کردی۔ اس لئے میں توایک سسٹم پر rely نہیں کرتا۔ مختلف سسٹم اسی لئے بنائے گئے ہیں کہ مختلف ذرائع سے تصدیق ہوسکے۔ وہاں مرکز ، پاکستان میں بھی یہی ہو تا ہے۔ ناظر امور عامہ کی رپورٹ کو بھی verify نہیں کیا جاتا جب تک کہ صدر خدام verify نہ کردیں یا اگر کوئی انصار میں ہے توجب تک صدر انصاراللہ نہ verify کردیں۔ جب ہم ناظروں پر rely نہیں کرتے توصدر وں پر کس طرح کرلیں ؟ اس لئے اس سسٹم کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ اب آپ کا کام ہے کہ صدر انصار اللہ، صدر خدام الاحمدیہ اور صدر لجنہ کے ساتھ بیٹھ کر لسٹوں کو verify کریں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: صدران کے بارہ میں اکا دُکا رپورٹیں بھی ہیں نکاحوں کے معاملات میں غلط verification کردی اور اس پر پھر ان کو سزا بھی ہوئی۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: صرف دفتر میں کرسی پر بیٹھ کر دستخط کر کے اپنے آپ کو جنرل سیکرٹری سمجھ لینا کہ میں چوہدری بن گیا ہوں۔ یہ کوئی طریق کار نہیں ہے۔

تصنیف

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار پر شعبہ تصنیف کے انچارج نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے عرض کیاکہ اس سال میں دو کتب کی پرنٹنگ ہوئی ہے۔ ایک پرنٹ ہوکر آگئی ہے اور ایک آنےوالی ہے۔ دوکتب کا layout بن رہا ہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:’’ٹھیک ہے۔‘‘

ایڈیشنل سیکرٹری مال

٭ ایڈیشنل سیکرٹری مال نے اپنے شعبہ کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایاکہ بجٹ وغیرہ کی تیاری کے سلسلہ سارے سیکرٹریانِ مال سے رابطہ کیاجاتاہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: سیکرٹریانِ مال کو چاہئے کہ بجٹ بناتے وقت ہر شخص کے گھر تک پہنچیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اصل چیز تو مالی قربانی کی اہمیت ہے جو آپ کو بتانی چاہئے۔ سیکرٹری تربیت کا بھی کام ہے کہ لوگوں کو مالی قربانی کی اہمیت کا احساس دلانا چاہئے۔ قربانی کا احساس ہو جائے تو باقی سب کچھ خود ہی ٹھیک ہو جاتا ہے۔

سیکرٹری مال

٭ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار فرمانے پر سیکرٹری مال نے بتایاکہ ہمارے پاس individual budget assessment فارم ہے۔

٭ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار پر سیکرٹری مال نے بتایاکہ یہاں جرمنی میں minimum wages 884 یوروہے۔یہ کمی محسوس ہورہی ہے کہ لوگ اصل انکم پر بجٹ نہیں لکھواتے۔اب ہم Plan بنارہے ہیں کہ احبابِ جماعت کو بتایاجائے کہ لازمی چندہ جات اصل آمد پر لکھوانے کیوں ضروری ہیں؟ اگلی عاملہ کی میٹنگ میں ہم یہ پلان پیش کردیں گے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جواپنی مالی حالات کی وجہ سے چندے نہیں دے سکتے وہ بتادیں کہ ہم نہیں دے سکتے۔ لیکن یہ کہنا کہ ہماری انکم ہی اتنی ہے، غلط ہے۔ ایسی اِنکم میں تو برکت بھی نہیں پڑتی۔ سیکرٹریان تربیت کو بھی اور سیکرٹریان مال کو بھی توجہ دلائیں اور صدران خود بھی ذاتی طور پر یہ توجہ دلائیں۔ چندہ کوئی ٹیکس نہیں ہے۔ ضروری نہیں کہ ہم نے لینا ہی لینا ہے۔ لیکن اپنی آمد نہ چھپائیں ورنہ اس میں برکت ختم ہو جاتی ہے۔ اگر نہیں دینا تو بتا دیں کہ ہم نہیں دے سکتے یا جتنا ہم دے رہے ہیں اس سے زیادہ نہیں دے سکتے۔ بہتر ہے کہ لکھ کر اجازت لے لیں۔ مجھے بہت سے خطوط آتے ہیں، جرمنی سے بھی آتے ہیں کہ ہم اتنا چندہ نہیں دے سکتے ، ہمارا چندہ معاف کردیا جائے یا شرح کم کردی جائے۔

سیکرٹر ی تعلیم

٭ سیکرٹری تعلیم نے اپنے شعبہ کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایاکہ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایت کے مطابق اگلے پانچ سے دس سال کے سٹوڈنٹس کو گائیڈکرنے کا منصوبہ بنایاجارہاہے۔اس کے لئے پلان بنالیاگیاہے اور امیرصاحب کوبھجوایاگیاتھا جس پر امیرصاحب نے کچھ مشورے دیئے ہیں ا س کے مطابق ہم پلاننگ کررہے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اکثر لڑکے مجھے مل رہے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نے دسویں کلاس کر کے پڑھائی چھوڑ دی ہے اور کام کررہے ہیں یا taxi چلا رہے ہیں یا باپ کے ساتھ کا م کر رہے ہیں۔ لیکن لڑکیاں پڑھ رہی ہیں۔ پھر رشتہ ناطہ والے کہتے ہیں کہ رشتے میچ (Match) نہیں ہوتے کیونکہ لڑکوں کی پڑھائی کی طرف توجہ کم ہے اور لڑکیاں پڑھ رہی ہیں۔ اور جب لڑکیاں پڑھ جاتی ہیں تو بجائے اس کے کہ وہ یہ دیکھیں کہ ہم نے دین کو دنیا پر مقدم رکھتےہوئے احمدیوں میں ہی رشتے کرنے ہیں اپنی ڈیمانڈز بہت زیادہ بڑھادیتی ہیں۔ حالانکہ چھوٹی موٹی کمیاں قبول کر کے رشتے ہوسکتے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اس لئے خدام الاحمدیہ کو اس لحاظ سے بھی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے اور تعلیم کی طرف زیادہ توجہ پیدا کروائیں تاکہ رشتہ ناطہ کا مسئلہ بھی ختم ہو۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آپ کے پاس سارا ڈیٹا ہوناچاہئے کہ کتنے سٹوڈنٹس ہیں اور وہ کیا کررہے ہیں۔ یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس کا ڈیٹاتو ہوتا ہے کیونکہ سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن کی help مل جاتی ہے لیکن نچلی سطح پر سٹوڈنٹس کا ڈیٹاموجود نہیں ہوتا۔ نیچے والوں کو بھی سنبھالنا آپ کافرض ہے۔ سیکرٹری تعلیم کا کام صرف یہ نہیں کہ یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس کو سنبھالنا ہے۔ بلکہ سیکرٹری تعلیم کا کام ہے کہ primary سے لے کر arbiture تک اور پھرarbiture سے university تک ہر ایک کو سنبھالے۔ بچپن سے ہی پڑھائی کی طرف توجہ دلائیں اور انہیں encourage کریں۔ جو ماں باپ پڑھے لکھے نہیں ہیں ان کے بچوں کو خاص توجہ دلائیں۔ متعلقہ سیکرٹریان تعلیم ،صدران اور عاملہ والے بھی اس طرف توجہ دیں گے تو اگلی نسلیں بہترنکلیں گی۔ صرف اپنے حال پر ہی نہ سوچیں بلکہ اگلی نسل کی فکر کریں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ گلگت سکردو وغیرہ میں آغاخانی لڑکیاں بہت زیادہ پڑھی لکھی ہیں لیکن وہ کم پڑھے لکھے لڑکوں سے اس لئے رشتے کر رہی ہیں کہ ہماری نسل تباہ نہ ہوجائے۔ ہماری لڑکیوں کوبھی قربانی دینی چاہئے اور لڑکوں کو بھی پہلے سے زیادہ پڑھانا چاہئے۔ پہلی بات تو یہ ہے یہاں پڑھنے کے مواقع ہیں ان سے فائدہ اٹھائیں بجائے اس کہ آوارہ گردیوں میں پڑ جائیں۔ خدام الاحمدیہ اور شعبہ تربیت کو بھی اس بارہ میں توجہ دینی چاہئے کہ لڑکوں کو آوارہ گردیوں کی جو عادت پڑ چکی ہے اس سے سنبھالنے کی کوشش کریں۔ لڑکے لڑکیوں کے خلاف شکایتیں کردیتے ہیں ، لڑکیاں لڑکوں کے خلاف شکایتیں کردیتی ہیں اور آہستہ آہستہ یہ مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔ اگر آپ نے ان کو سنبھالنے کا باقاعدہ پروگرام نہ بنایا تو یہ مسائل بڑھتے چلے جائیں گے۔

سیکرٹری وقفِ جدید

٭ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار پر سیکرٹری وقفِ جدید نے بتایاکہ وقفِ جدید میں شاملین کی تعداد 28 ہزار680 ہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اس تعداد میں اضافہ ہوناچاہئے۔ خاص طورپر نومبائعین کو اس میں شامل کریں۔

ایڈیشنل سیکرٹری جائیداد

(یک صد مساجد کا منصوبہ)

٭ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مساجد کے بجٹ کے حوالہ سے تفصیلی جائزہ لینے کے بعد سومساجد کے بارہ میں امیرصاحب جرمنی کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا:

آپ نے اس پراجیکٹ کے لئے ذیلی تنظیموں سے بھی قرضہ لیاہواہے اوران کے بہت سارے پیسے واپس کرنے ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ اس صورتحال میں توفی الحال آپ کو مزید مساجد کی تعمیر روک دینی چاہئے اور جو اس وقت زیرِ تعمیر ہیں پہلے ان کو مکمل ہوناچاہئے۔

٭ اس کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دورہ کے دوران جن مساجد کی بنیاد رکھی گئی تھی ان کے بجٹ کے حوالہ سے تفصیلی جائزہ لیا۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

پیسوں کی صورتحال کا تو آپ کو پتہ ہے۔آپ کی تو

’ قرض کی پیتے تھے مَے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں

رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن‘

والی صورتحال بنی ہوئی ہے۔ ہر چیز قرض پر چل رہی ہے۔ آپ نے قرضے بھی اتارنے ہیں۔ اس وقت آپ لوگوں نے ایک بڑی رقم تو مرکز کو ہی اداکرنی ہے۔ مرکز کے دنیابھر میں اپنے بہت سے پراجیکٹ چل رہے ہیں۔ آپ لوگ اتنے پاؤں پھیلاتے ہی کیوں ہیں جب اخراجات ہی نہیں کرسکتے؟ اتنا ہی کریں جتنا کرسکتے ہیں۔ جن جماعتوں نے مساجد کی تعمیر کے حوالہ سے پہلے قربانی دی ہوئی ہے او ر ایک ملین دے دیا ہوا ہے یا پانچ ملین یا چھ ملین دے دیا ہے پہلی preference انہیں دینی چاہئے تھی۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ایک preferences order بننا چاہئے کہ کس کس جماعت نے کتنے کتنے پیسے دیئے ہیں اور اگر کسی خاص وجوہات کی بنا پر کہیں مسجد بنارہے ہیں تو وہ وجوہات پتہ ہونی چاہئیں کہ کیوں preference دی جارہی ہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ایک مکمل لسٹ بنائیں کہ اس وقت کہاں کہاں آپ کے زیرتعمیر مساجد ہیں، کہاں بنیادیں رکھی جا چکی ہیں۔ آپ کے پاس موجودہ فنڈ کی پوزیشن کیا ہے۔آپ کے قرض کی پوزیشن کیا ہے۔ ایک سال میں آ پ کتنا فنڈ اکٹھا کر سکتے ہیں۔ ان کے نقشے کیا ہیں۔ یہ ساری چیزیں مرکز میں لے کر آئیں۔ آئندہ سے کچھ عرصہ کے لئے یہ سارا کام میں اپنے ہاتھ میں لے رہا ہوں۔ مسجدوں کی approval، مسجدوں کے نقشے، مسجدوں کے فنڈز ، یہ سب لندن آکر منظور کروایا کریں۔ لوکل جماعت کو اس کا اختیا رہی نہیں ہوگا۔

٭ امیرصاحب جرمنی نے بتایاکہ ایسٹ جرمنی میں Leipzig اور Erfurt میں دو مساجد تعمیر ہورہی ہیں۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار پر امیرصاحب جرمنی نے بتایاکہ وہاں جماعت نہ ہونے کے برابر ہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اگر وہاں جماعت ہی نہیں تو مساجد کیوں بنارہے ہیں؟ میں نے تو آپ سے نہیں کہاکہ وہاں مسجدیں بنائیں اور نہ ہی آپ نے مجھ سے اجازت مانگی ہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اب کسی بھی ایسی جگہ مسجد تعمیر نہیں ہوگی جہاں جماعت نہیں ہے۔ پہلے ان علاقوں کو preference دی جائے گی جہاں ہماری جماعت ہے۔ جہاں جماعت ہی نہیں ہے وہاں مسجد بنانے کا کیا مقصد ہے؟ جیسے پیغامیوں نے برلن میں مسجد بنائی ہوئی ہے کیا اسی طرح آپ بھی صرف علامت کے طور پر مسجدیں بناناچاہتے ہیں؟ اس لئے پہلی ترجیح اُسی علاقہ کو دی جائے گی جہاں ہماری جماعت کی زیادہ تعداد ہے۔ ایسٹ جرمنی میں مسجدیں بنانے کا جو بھی منصوبہ ہے فی الحال اُسے روک دیں۔ آئندہ مساجد کی جو بھی صورتحال ہے ، جو بھی فنڈز کی صورتحال ہے اور جو بھی پلان ہے وہ میرے پاس لے کر آئیں۔ مَیں خود فیصلہ کروں گاکہ کیاکرناہے اور کیا نہیں کرنا۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: نیشنل عاملہ ، لوکل عاملہ اور لوکل ایڈمنسٹریشن کے پاس اب مساجد کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ ساری ڈیمانڈزمیرے پاس لے کر آئیں اور مجھے بتائیں۔

٭ اس کے بعد ایڈیشنل سیکرٹری جائیداد نے بتایاکہ فنڈ ریزنگ میں ہمیں ایک مسئلہ یہ سامنے آرہاہے کہ جس جگہ مسجد کا پلان ہوتا ہے جب وہاں مسجد بننی شروع ہوجاتی ہے تو لوگوں کو پتہ چل جاتا ہےکہ یہ مسجداب complete ہوہی جانی ہے۔اس لئے ادائیگی میں سستی آجاتی ہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: یہ مسائل تو ہوتے ہی ہیں۔ اس لئے اُسی وقت کام شروع ہو گا ، جب لوگوں نے جو وعد ے کئے ہیں اس کا کم از کم 90 فیصد ادا کردیں۔ورنہ کام ہی نہیں شروع ہوگا۔

٭ اس کے بعد عاملہ کے ایک ممبر نے بتایاکہ ذیلی تنظیموں کو جو ٹارگٹ دیئے جاتے ہیں ان میں خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ کے ٹارگٹ پچھلے سال سے pile up ہورہے ہیں اور ایک ملین سے زائد amount آرہی ہے۔ لیکن انصار اللہ میں کمی ہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: یہ تو ذیلی تنظیموں کی generosity اور favour ہے جو وہ آپ کو دے دیتے ہیں۔ وہ ذمہ وار نہیں ہیں۔ مسجدیں بنانے کی جماعت ذمہ وار ہے۔ میں نے تو ذیلی تنظیموں کو یہ کہہ کر ٹارگٹ دے دیا تھا کہ آپ کی مدد ہوجائے۔ ورنہ مساجد کے لئے فنڈز اکٹھا کرنا ان کا فرض نہیں ہے۔ یہ آپ کا فرض ہے کہ خود اکٹھا کریں۔ اگر خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور لجنہ کوآج مَیں کہہ دوں کہ تم نے کچھ نہیں دیناتو آپ کا کیابنے گا؟ یہ فنڈز اکٹھاکرنا تو آپ کا کام ہے۔ آپ دوسروں پر نہ ڈالتے رہا کریں۔ ٹھیک ہے اگر ذیلی تنظیمیں آپ کی مددگار بن رہی ہیں۔ لیکن مددگاربننے سے یہ مطلب نہیں اپنے سارے بوجھ کا ملبہ ان پر ڈال دیں۔ اپنے کام دوسروں پر ڈالنے کی عادت ختم کریں۔ ذیلی تنظیمیں جتنابھی دے رہی ہیں وہ ان کی مہربانی اور نوازش ہے۔ وہ شکریہ کے ساتھ قبول کرلیا کریں۔ ان کا فرض نہیں ہے کہ وہ آپ کو ضرور دیں۔ جہاں جہاں مسجدیں بنانی ہیں وہاں فنڈز اکٹھاکرنا آپ کا فرض ہے۔

سیکرٹری امورِ خارجیہ

٭ اس کے بعد سیکرٹری امورِ خارجیہ نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایاکہ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دورہ کے دوران مساجد کے افتتاح کے حوالہ سے کئے جانے والے کام کے علاوہ ہمارے پاس اس وقت دو پلان ہیں۔ ایک تو میڈیا کے ساتھ روابط اور پریس کانفرنسز اور اس وقت ہر ضلع میں شعبہ تبلیغ کے ساتھ مل کر پریس کانفرنس ہورہی ہے۔ اب تک 65 پریس کانفرنسز ہوچکی ہیں۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: بڑی اچھی بات ہے کہ اتنی پریس کانفرنسز ہورہی ہیں۔ لیکن اس کے بعد اس کاباقاعدہ follow up بھی ہوناچاہئے۔جو تعلقات بناتے ہیں وہ قائم بھی رکھیں۔ایک دو جگہ پر تو اچھے تعلقات ہیں لیکن ان تعلقات میں وُسعت آنی چاہئے۔

سیکرٹری تعلیم القرآن

٭ اس کے بعد سیکرٹری تعلیم القرآن نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار فرمانے پر بتایاکہ ہم نے کلاسز شروع کروائی ہیں اور سات آٹھ ماہ سے دورہ جات بھی ہورہے ہیں۔

٭ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار پر سیکرٹری صاحب تعلیم القرآن نے بتایاکہ اس وقت 40 جماعتوں اور دس لوکل امارتوں میں باقاعدہ کلاسز ہورہی ہیں۔

٭ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار پر سیکرٹری صاحب تعلیم القرآن نے بتایاکہ وقفِ عارضی کے حوالہ سے عملی طور پر کوئی کام نہیں ہوا۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اس حوالہ سے بھی کام کروائیں۔مجلسِ عاملہ کے جتنے بھی ممبران ہیں، خدام الاحمدیہ کے، انصاراللہ کے، جماعت کے عاملہ کے ممبران ہیں ان سب کو تحریک کریں کہ سب سے پہلے تو عاملہ کےممبران خود وقفِ عارضی کریں۔ آپ کی نیشنل عاملہ کے ممبران ہیں ان کو بھی کہیں کہ وقفِ عارضی کریں ، یہ صرف یہاں بیٹھنے کے لئے تو نہیں ہیں۔پہلے گھر سے کام شروع کریں پھر لوگوں میں بھی تحریک پیداہوگی۔ گزشتہ دوسال میں کتنے صدران ہیں جنہوں نے وقفِ عارضی کی ہے؟ کتنے عاملہ کے ممبران ہیں جنہوں نے وقفِ عارضی کی ہے؟ اگرآپ لوگوں نے خود نہیں کی تو باقی لوگ کیوں کریں گے؟

سیکرٹری اشاعت

٭ اس کے بعد سیکرٹری اشاعت نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ دورانِ سال پندرہ کتب چھپوائی گئی ہیں جس میں قرآن کریم (جرمن ترجمہ)، نماز مترجم، وقفِ نَو کا نصاب، کشتی نوح ، اسلامی اصول کی فلاسفی اور بعض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے ترجمے ہیں۔

نیشنل امین

٭ نیشنل امین نے بتایاکہ اُن کا کام مختلف شعبہ جات کو کیش مہیا کرنا ہوتاہے۔ اور ساری جماعت سے جوزیورآتاہے اس کا disposal کرتے ہیں۔

٭ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار پر نیشنل امین نے بتایاکہ شعبہ مال کی طرف سے واؤچرز آتے ہیں جن کے مطابق ادائیگی کی جاتی ہے۔

نیشنل سیکرٹری صنعت و تجارت

٭ اس کے بعد نیشنل سیکرٹری صنعت و تجارت نے اپنے شعبہ کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایاکہ وہ بزنس مَین لوگوں کا ڈیٹا اپ ڈیٹ کررہے ہیں۔اس کے بعد ایک نئی ڈائریکٹری نکالنی ہے جو کہ جلسہ سالانہ پر شائع کریں گے۔ اس کے علاوہ info سیمینارز کی بھی پلاننگ ہے۔

٭ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے استفسار فرمایاکہ جو نئے لوگ اسائلم سِیکرز آرہے ہیں ان کو چھوٹا موٹاکام دلانا یا ٹریننگ دینا اس حوالہ سے کوئی کام کررہے ہیں یا نہیں؟

اس پر سیکرٹری صنعت و تجارت نے عرض کیا کہ ہم پلاننگ کررہے ہیں کہ لوکل سیکرٹریانِ صنعت و تجارت کے ساتھ مل کر لوکل سنڈے مارکیٹوں میں لوگوں کو بھیجاجائے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اس پر کام بھی کریں ، صرف پلاننگ ہی نہ کرتے رہیں۔

ایکسٹرنل آڈیٹر

٭ اس کے بعد ایکسٹرنل آڈیٹر نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایاکہ وہ انصاراللہ ، لجنہ اماء اللہ اور جماعت کے آڈٹ کی رپورٹ مرکز بھجواچکے ہیں۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’ٹھیک ہے۔‘‘

شعبہ محاسب

٭ اس کے بعد مُحاسب نے اپنے شعبہ کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایاکہ وہ ماہوار رپورٹ تیارکرتے ہیں جس میں اِنکم اور اخراجات کی رپورٹ شامل ہوتی ہے۔

٭ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار فرمانے پر محاسب نے بتایاکہ فیلڈ سے یا مختلف شعبہ جات سے جو واؤچرز آتے ہیں ان پر پہلے شعبہ جات کے سیکرٹریان خود دستخط کرتے ہیں۔ اس کے بعد یہ واؤچرز شعبہ مال میں جاتے ہیں جن پر سیکرٹری صاحب مال دستخط کرتے ہیں۔ پھر ان واؤچرز پر امیرصاحب یا مشنری انچارج صاحب سائن کرتے ہیں۔اس کے بعد یہ واؤچرز ہمارے پاس payment یا اکاؤنٹنگ کے لئے آتے ہیں۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: یہ امیرصاحب کو خود سائن کرنے چاہئیں۔ سارے واؤچرز پر امیرصاحب کی تصدیق ہونی چاہئے نہ کہ نائب امیر کی۔

شعبہ تربیت نومبائعین

٭ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے استفسار فرمایاکہ اس سال 126 بیعتیں ہوئی ہیں اور اسی طرح گزشتہ دو سالوں میں جو بیعتیں ہوئی ہیں ان نومبائعین کو main stream بنانے کے لئے آپ نے کیا کیا ہے؟ ان میں سے آپ کتنوں کے ساتھ مستقل رابطہ میں ہیں؟

اس پر سیکرٹری تربیت نومبائعین نے بتایاکہ ان کے پاس خواتین کے رابطہ کے حوالہ سے تو رپورٹ نہیں ہے لیکن مردوں میں سے گزشتہ سال کے نومبائعین میں سے 59 عرب احباب کے ساتھ رابطہ ہے۔ ہم نے یہاں عرب ڈیسک بنایاہواہے جس کے انچارج حفیظ اللہ بھروانہ صاحب ہیں جو مجھے رپورٹس دیتے رہتے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا آپ کو خواتین کا بھی علم ہوناچاہئے۔آپ لجنہ سے رپورٹ لیں کہ ان میں سے کتنی خواتین رابطہ میں ہیں اور کتنی کے ساتھ رابطہ نہیں ہے؟ اگر آپ کے پاس رپورٹ ہی نہیں ہوگی تو آپ انہیں کس طرح نظام کے ساتھ جوڑ پائیں گے؟ نومبائع مرد اور نومبائعات خواتین دونوں کی تربیت کی ذمہ داری آپ کی ہے۔ اگر آپ نے ان نومبائعین کی تربیت کے لئے کوئی پلان بنایاہواہے تو آپ کو یہ پلان لجنہ کو بھی دیناچاہئے تاکہ لجنہ بھی اس پلان پر عملدرآمد کرواسکیں۔ اس پلان پر عملدرآمد تو لجنہ کی طرف سے ہی ہوگالیکن یہ پلان آپ ہی ان کو مہیاکریں گے۔

٭ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے استفسار فرمایاجن جماعتوں میں نومبائعین ہیں وہاں آپ خود بھی دورہ کرتے ہیں اور اُن سے ذاتی طور پر ملتے ہیں؟

سیکرٹری تربیت نومبائعین نے عرض کیاکہ بعض جماعتوں کے دورے کئے ہیں۔ اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ آپ کو اکثر جماعتوں کے دورے کرنے چاہئیں اور نومبائعین سے ذاتی طور پر مل کر اُن کے ساتھ واقفیت پیداکرنی چاہئے۔ نومبائعین کے علم میں ہونا چاہئے کہ آپ سیکرٹری تربیت نومبائعین ہیں تاکہ جب بھی انہیں کسی قسم کا مسئلہ درپیش ہوتو وہ آپ کے ساتھ رابطہ کرسکیں۔ اسی طرح مقامی سطح پر بھی مختلف جماعتوں میں نومبائعین کو اپنی جماعت کے سیکرٹری نومبائع کا علم ہوناچاہئے۔ لیکن صرف جماعتوں کے سیکرٹریانِ نومبائعین پر ہی بھروسہ نہ رکھیں بلکہ آپ کا خود بھی ان کے ساتھ مستقل رابطہ ہوناچاہئے۔ اسی طرح آپ ان کی بہتر طور پر تربیت کرسکیں گے۔

٭ اس کے بعد سیکرٹری تربیت نومبائعین نے عرض کیاکہ بعض جرمن احمدی لڑکیوں سے شادی کرنے کے لئے بیعت کرتے ہیں اور جب تک شادی نہیں ہوجاتی وہ رابطہ رکھتے ہیں لیکن شادی کے بعد پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔کیا ایسے لوگوں کو شادی کی اجازت دی جانی چاہئے؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ بعض خاص حالات میں شادی کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ لیکن یہ اجازت مَیں خود دیتاہوں۔ لیکن آپ کا کام ایسے لوگوں کی تربیت کرناہے۔ آپ تربیت کا کام جاری رکھیں۔ انہیں سورۃ الفاتحہ اور اسلام کے بارہ میں بنیادی باتیں وغیرہ سکھائیں۔ اسی طرح لجنہ کے ذریعہ لڑکی کو جس کی شادی ہوئی ہے اسے بھی توجہ دلاتے رہیں کہ اب یہ تمہاری بھی ذمہ داری ہے اسے اسلام کے بارہ میں سکھائے اور اس کو جماعت کا حصہ بنائے۔

شعبہ سمعی بصری

٭ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ: یادرکھیں کہ سمعی بصری کا شعبہ کوئی پروگرام ایئر نہیں کرسکتاجب تک مرکز کی طرف سے منظوری نہ ہوجائے۔ میں نے آپ کو لکھ کر بھی بھجوادیاتھا۔پہلے مرکز سے ڈائریکٹر پروگرامنگ سے منظوری لیں گے اس کے بعد ہی اسے ایئر کرسکتے ہیں چاہے اس کو ویب سائٹ پر دینا ہو یا کسی اور چیز پر دیناہو۔ آپ کے پاس اختیار بالکل نہیں ہے کہ خود پروگرام ایئر کردیں۔

٭ اس کے بعد شعبہ سمعی بصری کے سیکرٹری نے اپنے شعبہ کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایاکہ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطباتِ جمعہ کے جرمن تراجم کی sub-titling کا کام کرنے کی توفیق مل رہی ہے۔ اس کے لئے ہم ایک سافٹ ویئر بھی تیار کررہے ہیں جو ابھی ٹیسٹنگ فیز (Testing Phase) میں ہے۔

ایڈیشنل سیکرٹری وقفِ نَو

٭ ایڈیشنل سیکرٹری وقفِ نونے بتایاکہ ان کے ذمہ واقفینِ نَو کی کیریئر پلاننگ اور کوچنگ کا کام ہے۔اس کو تین حصوں میں تقسیم کیاہوا ہے۔ ساتویں جماعت سے ہی ہم شروع کردیتے ہیں۔ اس کے بعد پھر Real Schule والے ہوتے ہیں۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاReal Shcule والے تو میں نے دیکھاہے کہ عموماً پڑھائی چھوڑ ہی دیتے ہیں۔ اگرآپ انہیں بہتررنگ میں گائیڈ کریں تو یہ جماعت کے لئے اچھا asset بن سکتے ہیں۔

اس پر ایڈیشنل سیکرٹری وقفِ نو نے بتایا کہ اس کے لئے ہم نے ایک mentor system بنایاہواہے کہ ایک یونیورسٹی میں پڑھنے والا واقفِ نو گیارہویں سے لے کر تیرہویں کلاس تک کے پانچ سٹوڈنٹس کو گائیڈ کرے گا اور ان کی Personal کوچنگ کرے گا۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ: اچھی بات ہے کہ آپ ان کی ٹیم بنادیں۔ لیکن میں نے یہ بھی دیکھاہے کہ یونیورسٹی میں پڑھنے والوں میں سے ایسے واقفین کی percentage بڑھنے لگ گئی ہےجو یونیورسٹی جاتے ہیں اور ایک مضمون میں بیچلر کرنے کے لئے داخلہ لیتے ہیں۔ دو سال پڑھتے ہیں اور فیل ہوتے رہتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہم کسی اور چیز میں switch کرناچاہتے ہیں۔ایسے سٹوڈنٹس کو جب mentor بنائیں گے تو پھر جن کے وہ mentor بنیں گے وہ بھی ایسے ہی نکلیں گے۔ اس لئے پہلے یہ چیک کرلیاکریں کہ آپ یونیورسٹی کے لڑکوں میں سے جوکونسلنگ اور کوچنگ کی ٹیم بنارہے ہیں وہ ایسے لڑکوں کی ہونی چاہئے جو ہوشیاربھی ہوں اور اپنی فیلڈ میں پوری information دے سکنے والے ہوں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اس کے علاوہ میں نے کہاتھاکہ باہر سے جو بعض خاص expert ہوتے ہیں اُن سے بھی سال میں ایک آدھ مرتبہ گیارہویں بارہویں کے لڑکوں کا سیمینارکرواسکتے ہیں۔ شاید اس کے لئے آپ کو پیسے بھی دینے پڑیں۔ لیکن بعض ایسے بھی ہیں جو خوشی سے بغیر معاوضہ لئے بھی کونسلنگ کرنے کے لئے تیارہوجاتے ہیں۔

٭ اس کے بعد ایڈیشنل سیکرٹری وقفِ نَو نے بتایاکہ ہمارے یونیورسٹی کے 232 واقفین سٹوڈنٹ ہیں۔ اس لئے ہم مختلف series بنارہے ہیں۔ اس وقت تک ہم 18 سیریز بناچکے ہیں تاکہ سٹوڈنٹس کی آپس میں نیٹ ورک بن جائے اور وہ مضامین کے حوالہ سے ایک دوسرے سے فائدہ بھی حاصل کرسکیں۔

سیکرٹری جائیداد

٭ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار فرمانے پر سیکرٹری جائیداد نے بتایاکہ جماعت کی پورے ملک میں اس وقت 77 پراپرٹیز ہیں۔ ان ساری پراپرٹیز کا ریکارڈ وغیرہ شعبہ جائیداد کے پاس موجودہے۔

٭ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ بیت العافیت کے بارہ میں میں نے سناہے کہ وہاں بعض تبدیلیاں کررہے ہیں اور بڑے ہال کی پارٹیشن کرکے اس میں کمرے بنارہے ہیں۔ اس کا کیافائدہ ہوگا؟ اگر بعد میں کسی وقت وہاں نمازوغیرہ پڑھنے کی اجازت مل جاتی ہے تو یہ جگہ تو استعمال نہیں ہوسکے گی۔

اس پر سیکرٹری جائیداد نے بتایاکہ کونسل والوں کا کہنا تھاکہ وہاں ایک محدود تعداد کی اجازت مل سکتی ہے لیکن آپ کے پاس گراؤنڈ فلو ر میں کافی زیادہ جگہ ہے۔چونکہ ہال بڑا تھااس لئے اس کو چھوٹا کیاگیاہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ آپ کو چاہئے تھاکہ وہاں بڑے بڑے کمرے بنادیتے۔ آپ کو پلان اس طرح کرناچاہئے تھاکہ اگر اس کو بعد میں کبھی استعمال کرنے کی ضرورت پڑے تو آرام سے ہوسکے۔ اگر تین چار ہزار آدمی یہاں جمعہ پڑھنے آجائے تو اس میں سے دو ہزار کے قریب تو بیت العافیت میں accommodate ہوجائے۔ اس طرح کا پلان کرتے کہ وہاں کم از کم دوہزار بندہ accommodate ہوجائے۔

٭ سیکرٹری جائیداد نے بتایاکہ اس کا سب سے اوپر کا حصہ کرایہ پر ہے جو کہ ایک ٹی وی چینل نے لیا ہوا ہے۔ لیکن یہ 18 مہینہ کا کنٹریکٹ ہے جو ختم ہوسکتاہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ٹھیک ہے۔اس کو تو terminate کیا جاسکتا ہے۔ ہم نے کرایہ پر دینے کے لئے تو یہ بلڈنگ نہیں لی تھی۔

٭ اس پر امیرصاحب جرمنی نے بتایاکہ کونسل نے کہاتھاکہ یہاں پر بہت بڑی gathering وغیرہ کے فنکشن منعقد نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ اس میں جو ہال ہیں وہ storage کے لئے بنائے گئے ہیں۔ یہ assembley ہال نہیں ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: لیکن سیکرٹری صاحب جائیداد کے مطابق اگر پارکنگ وغیرہ کے مسائل حل کرلئے جائیں تو ممکن ہے کہ ان ہالوں میں gathering کی اجازت مل جائے۔ اس لئے یہ تو negotiable ہے۔ بہرحال ابھی اجازت ملتی ہے یا نہیں لیکن اس کو اس طرح رہنے دیں تاکہ مستقبل میں استعمال میں لایاجاسکے۔ اس کی مزید Partitions وغیرہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ممکن ہے سال دو سال بعد اجازت مل جائے۔ ہوسکتاہے کہ چھوٹے فنکشن کی ہی اجازت مل جائے۔ یا کسی ایمرجنسی کی صورت میں اس کو استعمال کرناپڑجائے۔ مَیں یہ تو نہیں کہہ رہاکہ اس کو ہمیشہ ہی استعمال کرناہے۔ کم از انصاراللہ والے ہی دو ، تین سو لوگوں کا وہاں فنکشن منعقد کرسکتے ہیں۔ اسی طرح لجنہ بھی اپنے بعض چھوٹے فنکشن وہاں کرسکتی ہیں۔ اور جب اجازت مل جائے تو اسے جمعہ وغیرہ کے موقع پر بھی استعمال کیاجاسکتاہے۔

ایڈیشنل سیکرٹری جائیداد برائے تعمیرات سو مساجد

٭ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: مَیں نے جیساکہ پہلے ہدایت دی ہے کہ جب بھی مسجد وغیرہ کی تعمیر کا معاملہ لے کر آناہو تو آپ بھی سیکرٹری جائیداد کے ساتھ آسکتے ہیں۔

ایڈیشنل سیکرٹری امورِ خارجیہ

٭ ایڈیشنل سیکرٹری امورِ خارجیہ نے بتایاکہ ویزوں وغیرہ کے معاملات ان کے سپرد ہیں۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ باقی ساری دنیا میں احمدیوں کو انڈیا کے لئے ویزہ مل جاتاہے لیکن یہاں جرمنی والوں کے لئے کیوں مشکلات ہیں۔

ایڈیشنل سیکرٹری امورِخارجیہ نے بتایاکہ جن لوگوں نے دہلی، امرتسر وغیرہ کے ویزے اپلائی کئے تھے اُن سب کو ویزہ مل گیاتھا لیکن جو واہگہ بارڈر کے راستہ انڈیا جانا چاہتے تھے صرف انہیں بوجوہ ویزے نہیں مل سکے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آپ کو جماعتوں میں سرکلر کروانا چاہئے کہ اگر آئندہ آپ نے قادیان جانا ہے تو امرتسر یا دہلی کے حساب سے اپنا سفر پلان کریں۔ورنہ ویزوں میں مشکلات ہوں گی۔ کیونکہ لوگ جب شکایتیں کرتے ہیں تو بالکل اور رنگ میں کرتے ہیں۔ اس لئے آپ لوگ بھی explain کردیا کریں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آپ کے ایمبیسی کے ساتھ مستقل تعلقات ہونے چاہئیں۔ ان سے پہلے پوچھ لیاکریں کہ جلسہ کے ویزہ کے لئے آپ کی کیاشرائط ہیں۔ جو بھی وہ conditions بتاتے ہیں اس کے مطابق لوگوں کو پہلے سے گائیڈ کردیاکریں۔ اسی طرح وکالت تعمیل و تنفیذ کے ذریعہ قادیان سے بھی معلومات لے لیاکریں کہ وہ کیا recommend کرتے ہیں۔ وہ ہوم آفس سے پتہ کردیتے ہیں۔ لیکن یہ سارا کام ابھی سے شروع ہوجانا چاہئے تاکہ جب لوگوں نے ویزہ اپلائی کرناہوتو جماعتوں کو سرکلر کردیں کہ تم ان شرائط کے ساتھ ویزہ اپلائی کرو۔ اور پھر سرکلر کا فالواَپ بھی کیاکریں کہ کیا ہر شخص تک پیغام پہنچ گیاہے؟ متعلقہ سیکرٹری امورِ خارجیہ سے بھی پوچھا کریں کہ کیا تم نے ہر شخص تک سرکلر پہنچادیاہے؟ مختلف ذرائع سے انفارمیشن لے سکتے ہیں۔ جہاں جہاں مربیان ہیں وہاں مربیان سے پوچھ لیں کہ آپ کی جماعتوں میں یہ سرکلر پہنچ چکاہے؟ تاکہ بعد میں آپ پر کوئی الزام نہ آئے۔ جو بھی الزام ہو وہ انہی کے اوپر ہو۔

سیکرٹری وقفِ نَو

٭ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: مجھے پتہ لگاہے کہ بعض پڑھے لکھے لڑکیاں، لڑکے جو بیس اکیس سال کے ہوگئے ہیں وہ یہ کہنے لگ گئے ہیں کہ ہمارے پاس بہت علم ہے، اب ہمیں سلیبس وغیرہ پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔اس لئے یہ جو اکیس سال تک کا سلیبس ہے وہ ہرایک کو پڑھائیں اور جنہوں نے پڑھ لیاہے انہیں اور کتابیں دیں اور انہیں recommend کریں کہ یہ کتابیں پڑھیں۔دنیاوی علم حاصل کرکے علم کا اتنا زعم نہیں ہوناچاہئے۔

سیکرٹری امورِ عامہ

٭ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ: قضاء کے فیصلوں پر عملدرآمد کروانا، اخراج اور معافی کی رپورٹیں ہی صرف امورِ عامہ کا کام نہیں ہے۔ امورِ عامہ کے اَور بھی بہت سے کام ہیں۔ جس طرح باقی شعبہ جات نے اپنے کاموں کا پلان بنایاہوا ہےاس طرح آپ بھی تیارکریں۔شعبہ صنعت و تجارت جس طرح لسٹیں بنارہاہے اس طرح آپ کو بھی بنانی چاہئیں۔ آپ کو بھی پتہ ہوناچاہئے کہ آپ کے کتنے لوگ فارغ بیٹھے ہوئے ہیں۔ فارغ ہونے کی وجہ سے ہی مسائل پیداہوتے ہیں۔ اس طرح مزید راستے explore کریں۔ خدام الاحمدیہ کو بھی توجہ دلائیں، انصاراللہ کو بھی توجہ دلائیں کہ یہ لوگ فارغ بیٹھے ہیں انہیں کام میں لائیں۔

٭ شعبہ جات کے جائزے لینے کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عاملہ کے ممبران اور صدرانِ جماعت کو بعض عمومی ہدایات سے نوازا۔

عمومی ہدایات

٭ اس کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

میں صدران کو بھی اور عاملہ کے ممبران کو بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے آپ کو خادمِ دین سمجھیں اور خادمِ دین سمجھ کر کام کیاکریں۔عہدیدارسمجھ کر کام نہ کیاکریں۔ عہدیداری یا افسری کا جو تصور پیداہوتاہے اس سے جماعت کے افراد کو شکوے پیداہوتے ہیں۔آپ ہرایک کے خادم ہیں۔ آپ نے ہر ایک تک پہنچناہے اور ان کے مسائل حل کرنے ہیں۔ نچلی سطح پر بھی یہ نظام اسی لئے بنایا گیاہے کہ ہر ایک کے ساتھ رابطہ ہو اور وہ پھر ریجنل لیول پر ہو اور پھر نیشنل لیول پر ہو، پھر مرکز سے ہو اور پھر خلیفۂ وقت سے ہو۔ جو انتظامی معاملات ہیں، تربیتی معاملات ہیں یا اور جماعت کے پروگرام ہیں ان کے لئے آپ کو لوگوں تک خود پہنچنے کی ضرورت ہے۔ یہ نہ انتظار کیا کریں کہ لوگ آپ تک پہنچیں۔ اور اپنے سیکرٹریانِ مال کو بھی ہر جگہ پر فعّال کریں۔

٭ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: خاص طور پر مربیان کی عزت کریں۔ بعض دفعہ یہ بھی شکایتیں آجاتی ہیں کہ مربیان کو جو عزت اور وقار اور احترام ملنا چاہئے وہ آپ لوگ نہیں دیتے۔ مربیان چاہے وہ یہاں کے پڑھے ہوئے لڑکے ہیں اور نوجوان ہیں اور چھوٹے ہیں یا بچے ہیں وہ بہرحال مربی ہیں۔ ان کی عزت کرنا، ان کاخیال رکھنا، ان کا احترام کرنا،اگر وہ آپ کی جماعت میں appointed ہے اس کی ضروریات پوری کرنا یہ آپ لوگوں کا کام ہے۔ اگر بعض ایسی باتیں ہیں جو نہیں ہوسکتیں تو آپ کا کام ہے کہ امیرجماعت کو لکھیں یا امیر جماعت کی وساطت سے مرکز کو لکھ دیں۔ ہم نے جس طرح سے بھی یا جو بھی سمجھانا ہوگا وہ کرلیں گے۔آپ کا یا کسی عہدیدار کا یہ کام نہیں ہے کہ کسی مربی کے ساتھ اس طرح بات کریں جو اس کی عزت اور وقار کے خلاف ہو۔ ہر ایک یہ لازم کرے کہ اس کی احتیاط ہو۔

٭ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اسی طرح نیشنل سطح پر جب مختلف شعبہ جات پلان بناتے ہیں تو اس کی approval عاملہ میں لیاکریں۔ عاملہ کی ڈسکشن کے بعد ہی جماعتوں میں implement کروائیں۔ بعض اوقات نئے مشورے آجاتے ہیں۔ اور پھر اس کے بعد اس کا باقاعدہ follow up بھی ہونا چاہئے۔ انفرادی طور پر کام کرنے کی عادت کو ختم کریں۔ مقامی جماعتوں میں افراد کو بھی، مقامی عہدیداروں کو بھی یہ احساس ہونا چاہئے کہ نیشنل عاملہ ہماری خدمت کے لئے بنائی گئی ہے نہ کہ افسری کرنے کے لئے بنائی گئی ہے۔

٭ میں نے پہلے بھی واضح کردیاہے ، پھر واضح کردیتاہوں کہ نیشنل عاملہ کے ممبران، صدران اور صدران کی عاملہ کے ممبران بھی یہ یاد رکھیں کہ آپ لوگ سردار نہیں، کوئی حکمران نہیں بلکہ آپ لوگ خادم ہیں۔ اس جذبہ کے تحت کام کرنا ہے تو کریں۔اگر نہیں کرنا تو معذرت کردیں۔ اپنے اندر عاجزی پیداکریں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہی فرمایاہواہے کہ تیری عاجزانہ راہیں اُسے پسند آئیں۔ عاجزی ہی اصل چیز ہے جو آپ کو اصل مقام اور مرتبہ دیتی ہے اور آپ کی عزت قائم کرتی ہے۔ آپ کی حقیقی عزت اُسی وقت قائم ہوگی جب عاجزی پیداہوگی۔ تکبر اور غرور سے عزت قائم نہیں ہواکرتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاہے:

بدتربنوہرایک سے اپنے خیال میں شایداسی سے دخل ہو دارالوصال میں

ہم تو دینی جماعت ہیں، کوئی دنیاوی جماعت تو نہیں ہیں۔ اس لئے اگر دینی جماعت ہیں تو پھر ہمیں وہی کرنا ہوگاجو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم ہے اور اس زمانہ میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہم سے توقعات ہیں۔ میں عہدیداروں کو خطبات میں بھی وقتاً فوقتاً توجہ دلاتا رہتا ہوں۔ یہ نہ سمجھاکریں کہ وہ باتیں فلاں عہدیدار کے لئے ہیں یا فلاں عہدیدار کے لئے ہیں۔ اگر ہر ایک یہی سمجھے کہ وہ باتیں میرے لئے ہیں تو پھر خود ہی ساتھ ساتھ اپنی اصلاح کی طرف توجہ پیداہوتی رہتی ہے۔ آپ یہ کرکے دیکھ لیں، اس سے جماعت کے افراد کا آپ کے ساتھ تعاون بھی بڑھے گا۔ بہت سارے نوجوان کہتے ہیں کہ بعض عہدیداران ، خاص طور پر بڑی عمر کے یا بعض دوسرے بھی، اُن کے رویّے ایسے ہیں کہ ہم پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ مسائل کو پیارسے ، محبت سے حل کرنا آپ کا کام ہے۔ مسائل کو رعب سے یاطاقت سے حل کرنا ہماراکام نہیں ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو ارشاد فرمایاکہ نرمی اور پیار سے بات کرو اور ان سے مشورے لو تو پھر مَیں اور آپ کون ہوتے ہیں جو رعب ڈالیں؟ سارے کام کرنے ہیں لیکن پیار اور محبت سے۔ ہاں اگرآپ دیکھتے ہیں کہ جماعتی مفاد میں کمی آرہی ہے یا نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے تو پھر رپورٹ کریں۔ اس کے بعد یہ مرکز یا خلیفۂ وقت کا کام ہے کہ وہ اُس مسئلہ کو جس طرح بھی deal کرنا ہے یا tackle کرناہے ، کرلے گا۔آپ لوگوں کا فرض پھر ختم ہوجاتاہے۔

٭ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: نیشنل عاملہ والے یہ بھی خیال رکھیں کہ بعض دفعہ جب میں معاملات کی تحقیق کرواتاہوں تو عاملہ کے عہدیداران یہ باتیں کرتے ہیں کہ میں لوگوں کی باتوں میں آجاتاہوں اور سنتاہوں۔اگر میں لوگوں کی باتوں میں آبھی جاتاہوں اور ان کی باتیں سنتاہوں تو یہ گناہ نہیں ہے بلکہ جائزہے۔ پہلی بات تو یہ ہے جب ایک ہی بات مختلف لوگوں سے پتہ چل رہی ہو تو اس میں بہرحال حقیقت ہوتی ہے۔یہ نہیں ہوسکتاکہ آپ لوگ صحیح ہوں اور باقی سب دنیا غلط ہوجائے۔اللہ تعالیٰ نے تو آنحضرت ﷺ کو بھی فرمایاہواہے۔ سورۃ توبہ میں ہے کہ لوگ آنحضرت ﷺ کے بارہ میں بھی کہتے ہیں کہ ’یہ کان رکھتاہے۔‘ یعنی لوگوں کی باتیں سنتاہے۔تواگرمیں لوگوں کی باتیں سنتاہوں تویہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ میں آنحضرت ﷺ کی سنّت پر عمل کرتاہوں۔لیکن میں کسی کو نقصان پہنچانے کے لئے نہیں ایسا کرتابلکہ جماعتی مفادات کے لئے ہی کرتاہوں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی وہاں یہی فرمایاکہ تم لوگوں کو کہہ دو کہ اگر تم کان رکھتے ہوتو کسی کو نقصان پہنچانے کے لئے یا کسی ذاتی دشمنی یا عناد کی وجہ سے نہیں بلکہ جماعت کی بہتری کے لئے ہی رکھتے ہو۔اور نہ ہی مجھے کسی سے کوئی ذاتی دشمنی یا عنادہے۔ اگر میں کچھ چاہتاہوں تو صرف جماعت اور آپ لوگوں کی اصلاح چاہتاہوں۔صرف یہی نہیں بلکہ جب بھی میں یہ کہتاہوں تو خود بھی بہت زیادہ استغفارکررہاہوتاہوں۔اس لئے اگر کوئی میرے بارے میں یہ کہتاہے کہ میں کان رکھتاہوں تو یہ تو میرے لئے بڑی اچھی بات ہے۔ میں تو سنّت پر عمل کررہاہوں اور اللہ تعالیٰ نے اس چیز کو appereciate کیاہے۔ لیکن خطرناک بات آپ لوگوں کے لئے ہے یا اُن لوگوں کے لئے جو اس قسم کے خیالات رکھتے ہیں کیونکہ یہ منافقوں کے بارہ میں بات کی گئی ہے۔ منافق ہی اس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ اگر آپ لوگوں نے صحیح بیعت کا حق اداکرناہے تو پھر اس قسم کی سوچوں کو اپنے دماغوں سے نکالیں۔ مجھے یہاں کسی کا نام لینے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی میں نے نام لینا ہے لیکن جس نے بھی یہ بات کی ہے اُسے خود سوچنا چاہئے۔ اگر لوگ عہدیداروں کے بارہ میں باتیں لکھتے ہیں، بعض غلط بھی لکھتے ہوں گے، ان کے بارہ میں مَیں تحقیق کرواتا ہوں۔اگر کسی مرکزی عہدیدار کے بارہ میں شکایت آتی ہے اور میں تحقیق کرواتاہوں تو اس بات میں پڑجانا کہ کس نے بات کی اور کس نے شکایت کی اور کیوں کی، یہ آپ لوگوں کا کام نہیں ہے۔ آپ لوگوں کا کام اصلاح کرناہے ورنہ اُن لوگوں میں شمار ہوں گے جن کے بارہ میں یہ آیت ہے۔ میرے لئے تو ایک اعزاز ہے کہ مَیں اللہ کے اُس حکم پرچل رہا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو دیا اور اس حکم پر چلنا ایک سنّت ہے۔ لیکن آپ لوگوں کے لئے یہ خطرناک بات ہے کیونکہ یہاں منافقین کا ذکرہورہاہے۔اس سے بچنے کی کوشش کریں ورنہ نقصان اُٹھائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو تو ترقی دینی ہے اور ترقی ضرورہوگی اور انشاء اللہ جماعت بڑھے گی۔لیکن اگر آپ لوگ اپنی اصلاح نہیں کریں گے تو آپ کی جگہ دوسرے لوگ آجائیں گے۔اس لئے ان باتوں کو چھوڑیں کہ کس نے کیا لکھااور کیوں لکھاہے۔ اگر کہیں غلطی ہے تو اس کی اصلاح ہونی چاہئے۔ اگرغلطی نہیں ہے تو اس کی وضاحت ہوجائے۔ مجھے تو دس جگہ سے کوئی بات پہنچتی ہے تو پھر آپ لوگوں سے پوچھتاہوں۔ایک آدھی شکایت پر تو میں پوچھتابھی نہیں ہوں اور بے نام شکایت پر بھی نہیں پوچھتا۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: پھر اس حد تک نکل جاناکہ لوگوں کو یہ احساس پیداہوجائے کہ عہدیدار تو یہ کہتے ہیں کہ خلیفہ وقت لوگوں کی باتوں میں آجاتاہے۔ میں لوگوں کی باتوں میں آتاہوں یا نہیں آتالیکن آپ لوگوں کا یہ کام ہے کہ اگر آپ نے بیعت کا حق اداکرناہے تو کامل اطاعت کا نمونہ دکھائیں۔

سوالوں کے جوابات

بعدازاں وہاں پر موجود بعض صدران نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے بعض سوالات کرنے کی اجازت طلب کی جس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہِ شفقت اجازت عطافرمائی۔

٭ سب سے پہلے ویزبادن کے صدرجماعت نے عرض کیاکہ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 2014ء میں ہماری مسجد کا سنگِ بنیاد رکھاتھا۔ وہاں ساڑھے سات لاکھ یورو میں پلاٹ خریداگیاتھا جس میں سے چھ لاکھ مقامی جماعت نے اداکئے تھے۔ اسی طرح تعمیر کے حوالہ سے جو دو لاکھ کے وعدہ جات تھے اُن کی بھی ادائیگی ہوچکی ہے۔ ایک لمبے انتظار کے بعد کل contractor کی شعبہ جائیداد کے ساتھ میٹنگ ہے۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تازہ ارشاد فرمایا ہے کہ اس قسم کی تمام منظوریوں کے لئے مرکز جایا جائے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سیکرٹری جائیداد کو فرمایا: اگر تو کل contractor آرہا ہے اور باقی ساری بات چیت ہوچکی ہے تو پھر ٹھیک ہے اس کو بیشک ساراجائزہ لے کر فائنل کرلیں۔ اسی طرح جن جگہوں پر کنٹریکٹ وغیرہ ہوچکے ہیں اور پراجیکٹ چل رہے ہیں وہ تو اسی طرح جاری ہیں لیکن باقی وہ جگہیں جہاں کنٹریکٹ وغیرہ ابھی دینے ہیں اور کوئی سائن وغیرہ نہیں ہوئے اورایڈوانس سٹیج تک نہیں چلے گئے وہ سارے پلان مجھے دکھانے ہیں۔ لیکن جو اس وقت زیرِ تعمیر ہیں، یا ان کی مسجد کا جو بھی کنٹریکٹ وغیرہ ہو اس کی ساری تفصیلات بھی مجھے بتانی ہیں۔

٭ اس کے بعد ایک دوست نے عرض کیاکہ مجھے ربوہ میں تعمیرات کا کام کرنے کا موقع ملاہے۔ اگر مجھے ان کے ساتھ خدمت کا موقع مل جائے اور یہ چاہیں تو خاکسار تین سے پانچ فیصد low cost کروانے میں مدد کرسکتا ہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا آپ ان کو مشورہ دے دیں۔ اس کے بعد ان کا کام ہے کہ وہ آپ کو شامل کرنا چاہتے ہیں یا صرف advisor کے طور پر ہی آپ سے مشورہ لینا چاہتے ہیں۔ آپ کے ذہن میں جو بھی پلان ہے وہ ان کو دیں۔ وہاں کھڑے ہو کر مسجد پر صرف پھونک مارنے سے تو تین چار پرسنٹ کم نہیں ہوگا۔ اس کے لئے آپ کے پاس جو بھی پلان ہے وہ انہیں دیں۔ اگر قابل عمل ہوا تو دیکھ لیں گے اور اگر مزید information کی ضرورت ہوئی تو وہ بھی لے لیں گے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سیکرٹری جائیداد کو فرمایا: آپ لوگ بھی ایسے لوگ تلاش کریں جن کے پاس کوئی technical skill ہے اور اگر کوئی مشورہ دے تو لے لیا کریں۔ مشورہ کی عادت ڈالیں ، مشورے لینے کی عادت بہت کم ہے۔

٭ اس کے بعد Steinberg جماعت کے صدر صاحب نے کہاکہ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایسٹ جرمنی میں Erfurt میں تعمیر ہونے والی مسجد کے بارہ میں جو ارشاد فرمایاہے اس کے لئے ہم نے بہت محنت کی ہے اور پوری دنیا میں اس کی مشہوری ہوئی ہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: مجھے اس سے غرض نہیں کہ کتنی مشہوری ہوئی ہے۔ وہاں چار آدمی رہتے ہیں۔ باقی بڑی جماعتوں کو چھوڑ کر وہاں ابھی مسجد بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب وہاں بننی ہوگی ، آپ کو منظوری مل جائے گی۔

٭ اس کے بعد Ausberg جماعت کے صدر صاحب نے کہاکہ ہماری جماعت میں مسجد کا افتتاح حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمادیاہے۔ اب وہاں مبلغ بھجوانے کی درخواست کرنی ہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:آپ کو مبلغ بھی مل جائے گا۔

نیز حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ آپ اپنی جماعت سے بھی جامعہ احمدیہ میں سٹوڈنٹ بھیجیں۔ پہلے تو اُن جماعتوں کو مبلغین ملیں گے جنہوں نے اپنی جماعتوں سےطالبعلم تیارکرکے جامعہ بھجوائے ہوئے ہیں۔

٭ ایک جماعت کے صدرصاحب نے عرض کیاکہ جن جگہوں پر مساجد تعمیر ہورہی ہیں وہاں ساتھ ہی مربی ہاؤس بھی تعمیر ہوجائیں۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا ٹھیک ہے اگر تو اتنا بجٹ ہے تو پھر مربی ہاؤس بھی بن سکتاہے،ورنہ کرایہ پر کوئی گھر لے لیں۔ بہت سی جگہوں پر ایک کمرہ بن جاتاہے وہاں چھوٹی فیملی والے مبلغ کو جن میں صرف میاں بیوی ہوں اُن کوبھیجا جاسکتا ہے۔

٭ ایک جماعت کے صدر صاحب نے سوال کیاکہ ہماری عاملہ کے بعض خدام ممبران بڑااچھا کام کررہے ہوتے ہیں لیکن اُن کے پاس ذیلی تنظیموں کی بھی ذمہ داری آجاتی ہے۔اس وجہ سے صدرجماعت کو بعض اوقات مشکل پڑجاتی ہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: سب سے پہلے تو جماعت کا کام ہی ہوتاہے۔ جماعت کا کام پہلی پریفرنس (preference) ہے اس کے بعد جو زائد وقت ہے اُس میں وہ بے شک خدام کا کام کریں۔ آپ صدر خدّام الاحمدیہ کو لکھ کر دے سکتے ہیں کہ اگر کوئی خاص مجبوری نہیں ہے تو آپ اس کی جگہ کسی اور کو یہ ذمہ داری دے دیں۔ آپ صدر خدام الاحمدیہ کو لکھ کر دے سکتے ہیں کہ اِن لوگوں سے ہم نے کام لینا ہے اور یہ ہمارے کام میں پہلے ہی مصروف ہیں یاان کے پاس فلاں جماعتی عہدہ ہے اس لئے ان سے دوسرے کام نہ لئے جائیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: کام کرنے والے لوگ تو تھوڑے ہی ہوتے ہیں اور کام زیادہ ہوتاہے۔ اس لئے اس چیز کو ہم نے خود ہی adjustکرنا ہے۔ہم نے بھی تین تین جگہوں پر کام کیا ہے۔ جماعتی کام کے علاوہ خدام الاحمدیہ اور دوسری تنظیموں کا کام بھی کرتے تھے۔ یہ تو ہمت کی بات ہے۔ لیکن یہاں پر چونکہ اپنے کام بھی کرنے ہوتے ہیں ، بعض دفعہ جاب سے لیٹ آتے ہیں ، پھر تھکے بھی ہوتے ہیں اور بعض دفعہ نہیں کرسکتے۔ اس لئے کوئی خاص ایسا آدمی ہو جس سے کوئی کام لینا ہے اس کے بارہ میں خدام الاحمدیہ کو لکھ سکتے ہیں لیکن عمومی طور پر تو بہر حال کسی نہ کسی طرح مل جل کر adjust کرناپڑتاہے۔

٭ اس کے بعد جماعت Neubid کے صدر صاحب نے عرض کیاکہ ہمارے پاس اللہ کے فضل سے مسجد موجودہے۔ ہم نے مربی ہاؤس کے لئے درخواست دی ہوئی ہے اور ہم نے وعدہ کیاہے کہ مربی ہاؤس کے لئے جتنی بھی ضرورت ہے وہ ہم اداکریں گے۔ مسجد کے ساتھ مربی ہاؤس بنانے کے لئے جگہ بھی موجود ہے۔ اسی طرح اللہ کے فضل سے ہماری جماعت سے دوبچے جامعہ احمدیہ بھی گئے ہیں۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا اگرآپ نے خود ہی ادا کرنا ہے اور آپ کے پاس گنجائش ہے تو بنالیں۔ آپ کو کس نے روکا ہے۔ آپ کے پاس جگہ بھی ہے، پیسے بھی ہیں تو سیکرٹری جائیداد کو لکھ دیں کہ ہم مربی ہاؤس بنانا چاہتے ہیں اور بنالیں۔

٭ ایک جماعت کے صدر نے عرض کیاکہ مسجدیں بننے کے بعد مسجدوں میں کثرت سے پروگرام ہورہے ہیں اور جرمن بھی شامل ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے پاس ضیافت کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے تاکہ مہذب طریقے سے کھانا کھلایاجاسکے۔ میں نے تجویز دی تھی کہ کوئی لکڑی کا شیڈ وغیرہ بنایا جائے لیکن مجھے کوئی رسپانس نہیں ملا۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا: مقامی جماعت مہذب طریقے سے ہی کھانا کھلاتی ہوگی۔ فی الحال جو چیزیں available ہیں انہی سے استفاہ کریں۔ دقّتیں تو ہیں۔ اگر ہمارے پاس وسائل ہوتے تو ساری چیزیں ایک ہی دفعہ بنادیتے۔ لیکن جتنے جتنے پیسے ہیں اس کے مطابق حصہ ملتا جا رہا ہے۔ ہر ہفتہ توغیروں کے ساتھ پروگرام نہیں ہوتے اور جب بھی ہوتے ہیں تو ٹینٹ لگوالیاکریں۔ یا کوئی بہت مجبوری ہو اور مہمان آجائیں تو مسجد میں ہی نیچے پلاسٹک بچھا کر وہا ں انتظام کرسکتے ہیں۔ میں نے یوکے میں اس چیز کو روکا تھا لیکن سال میں اگر ایک دو مرتبہ ایسی مجبوری آجاتی ہے تو مسجد میں پلاسٹک بچھا کر وہاں چائے وغیرہ پلا سکتے ہیں۔ لیکن بعد میں اچھی طرح صفائی کا انتظام کریں۔ کھانوں میں مسالوں وغیرہ کی خوشبوئیں اٹھتی ہیں اس لئے وہ مسجد میں نہیں لانا چاہئے۔ اگر چائے یا snack وغیرہ لارہے ہیں تو اس حد تک ٹھیک ہے۔مسائل تو ہیں لیکن ہمارے پاس جو وسائل ہیں ان کے اندر رہتے ہوئے ہی ان مسائل کو حل کرناہے۔ سال میں ایک دو جو بڑے پروگرام ہوتے ہیں اُن میں ٹینٹ لگوالیاکریں اور باقی چائے پانی کی حد تک مسجد میں ٹھیک ہے۔ جیساکہ میں نے کہاہے کہ کھانوں میں مصالحوں کی خوشبو ہوتی ہے اور وہ مسجد میں رَچ بس جاتی ہے اور بڑی دیر تک رہتی ہے۔اس لئے کھانا نہیں ہوناچاہئے۔

٭ ایک صدر صاحب جماعت نے عرض کیاکہ فیلڈز میں ہماری جو میٹنگز یا اجلاسات وغیرہ ہوتے ہیں ان میں پُرتکلف کھانے کے انتظام کا بڑی تیزی سے رواج بن رہاہے۔

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اگر اپنے پیسوں سے کوئی پُرتکلف کھانے کھلارہے ہیں تو کھلانے دیں۔ لیکن بعض دن ہیں جیسے یومِ مسیح موعود، سیرت النبی ﷺ یا اس طرح کے دن ہوتے ہیں جب جماعتی جلسے اور پروگرام ہوتے ہیں تو ان میں جماعت کی طرف سے سادہ سا کھانا بنادیاکریں۔ اتنے پُرتکلف کھانوں کی کیاضرورت ہے۔ سالن روٹی کردیں یا چاول کردیں۔ یا صرف بریانی اور دہی ہوجائے۔زیادہ کھانوں کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں اگر مقامی انتظامیہ خود خرچ کررہی ہے تو ٹھیک ہے لیکن مرکزی بجٹ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔

اس کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مبلغ انچارج صاحب کو مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: مبلغین کی ماہانہ میٹنگ کرتے ہیں تو جگہیں بدل بدل کرکیاکریں۔ دُور دُور کی جماعتوں میں کیاکریں۔ میٹنگ کے ساتھ دوسرے تربیتی پروگرام بھی ہوجاتے ہیں۔ دُور دُور کی بڑی جماعتوں میں جایا کریں تاکہ جماعتوں کو بھی پتہ لگے کہ مربیان کام کر رہے ہیں اور مربیان کوبھی پتہ ہوکہ کہاں کہاں جماعتیں ہیں اور کس طرح ان کے کام ہو رہے ہیں۔ اس سے آپس میں ایک رابطہ اور تعلق بھی قائم ہوتا ہے۔

٭ 8 بجکر45 منٹ پر یہ میٹنگ اپنے اختتام کو پہنچی۔.


(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button