حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علمی معجزات
تقریربر موقع جلسہ سالانہ یوکے ۲۰۲۳ء
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس دورِ آخرین میں احیائے اسلام اور غلبۂ اسلام کے لیے رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم کے غلامِ صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔ آپ کی مقدس زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے سایہ میں بسر ہوتا رہا۔ قدم قدم پر قادر خدا آپ کا معین و مددگار اور راہنما بنارہا۔ اس نے آپ کو اپنی جناب سے ایسا پُر معرفت علم و عرفان عطا فرمایاجس نے باطل عقائد کی دھجیاں بکھیر دیں اور اسلام کو نہ صرف ایک نئی زندگی دی بلکہ ادیان باطلہ پر غلبہ اور برتری بھی عطا فرمائی۔
خالق ِ کائنات نے آپ کی زبان اور قلم کو معجزانہ عظمت عطا فرمائی۔ آپ کے پُر زور اعجازی علم ِکلام کی برتری کا اعتراف غیروں نے بھی کیا اور آپ کو اسلام کا فتح نصیب جرنیل قرار دیا۔
آپ نے کیا خوب فرمایا:
صفِ دشمن کو کیا ہم نے بحُجّت پامال
سیف کا کام قلم سے ہی دکھایا ہم نے
معجزہ کیا ہے؟
لغات کے مطابق کارنامہ ایسے کام کو کہتے ہیں جو غیر معمولی شان اور عظمت کا مظہر ہو۔ اور اس سے بہت بڑھ کر معجزہ کا مقام آتا ہے۔ یہ لفظ اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی کام انسانی طاقت سے باہر ہو اور صرف خدا تعالیٰ کی غیر معمولی تائید و نصرت سے ظہور پذیر ہو اور دنیا کے لوگ اس کا مقابلہ کرنے اور اس کی نظیر لانے سے بالکل عاجز اور قاصر رہ جائیں۔
حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی زندگی اس قسم کے ایمان افروز اور اعجازی معجزات سے اس طرح بھری ہوئی ہے جس طرح آسمان روشن ستاروں سے بھرا ہُوا ہوتا ہے۔
قرآن مجید کے حقائق و معارف بیان کرنے کا اعجاز
قرآن مجید علم و حکمت سے بھر پور خدائے واحد کا کلام ہے۔ حکمت اور دانائی کی ہر بات اور نیکی کی ہر راہ کا ذکر اس میں ہے لیکن بہت سے ایسے امور ہیں جو دنیا کے لیے معمہ بنے ہوئے تھے۔
اللہ تعالیٰ سے علم پا کر اس زمانہ میں جس طرح حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے ان سب دینی امور کی حقیقت کو اپنی کتب میں بیان فرمایا وہ ایک عظیم الشان علمی معجزہ سے کم نہیں۔ مثال کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بن باپ پیدائش، صلیبی موت سے نجات اور طبعی وفات، عصمتِ ابنیاء، بعث بعد الموت، فرشتوں کا وجود، وحی و الہام کی حقیقت، طوفانِ نوح، فرعون کی غرقابی، معجزہ شق القمر، جنت دوزخ کا تصور، واقعہ معراج و اسراء، انسانی روح، گورو بابا نانک کا مسلمان ہونا، دعا کی حقیقت، عربی زبان کا ام الالسنہ ہونا اور اس نوعیت کے بے شمار دینی مسائل ہیں۔ آپ نے قرآنی دلائل سے ان سب مسائل کو جس طرح کھول کھول کر بیان فرمایا وہ یقیناً ایک لاثانی اعجاز اور عظیم الشان علمی معجزہ ہے۔
آپؑ نے کیا خوب فرمایا:
وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے
اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امیدوار
تصنیفی معجزات پر ایک نظر
حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی پہلی تصنیف براہین احمدیہ جو ۱۸۸۰ء میں منظر عام پر آئی۔ اس نے مذہبی دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا۔ اس کے بعد آپ نے ۱۹۰۸ء میں اپنی رحلت تک جو گرانقدر کتب تحریر فرمائیں ان کی تعداد ۸۰ سے زائدہے۔ یہ کتب اردو، عربی اور فارسی زبانوں میں ہیں۔ آپ کے ملفوظات کی دس جلدیں ہیں۔ اس کے علاوہ مجموعۂ اشتہارات کی ۳ اور مکتوبات احمدکی ۴جلد یں ہیں۔ دن رات کی محنتِ شاقہ اور الٰہی تائید و نصرت سے منصّۂ شہود پر آنے والایہ سارا علمی خزانہ مجموعی طور پر قریباً بیس ہزار (۲۰,۰۰۰) صفحات پر مشتمل ہے۔ جو علم و معرفت کا ایک عظیم بحرِ ذخّار ہے۔ یہ سب کتب جو روحانی خزائن کے نام سے معروف ہیں۔ صرف ۲۸ سال کے عرصہ میں اس قدر تحریر ی کام سر انجام دینا خدائی تائید و نصرت کا عظیم الشان معجزہ ہے۔ لاریب یہ آپ کے علمی معجزات کا ایسا شاہکار ہے جو بےمثال ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کی تاثیرات اور برکات کا ذکر کرتے ہوئے سید نا حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’جو کتابیں ایک ایسے شخص نے لکھی ہوں جس پر فرشتے نازل ہوتے تھے ان کے پڑھنے سے بھی ملائکہ نازل ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت صاحبؑ کی کتابیں جو شخص پڑھے گا اس پر فرشتے نازل ہوں گے۔ یہ ایک خاص نکتہ ہے کہ کیوں حضرت صاحبؑ کی کتابیں پڑھتے ہوئے نِکات اور معارِف کھلتے ہیں۔‘‘(ملائکۃ الله، انوار العلوم جلد ۵صفحہ ۵۶۰)
انقلابِ نو کا آغاز
۱۹ویں صدی کے آخر میں ہندوستان میں انگریزی دورِ حکومت پورے عروج پر تھا عیسائی مَنّاد پوری قوت سے عیسائیت کی تبلیغ میں دن رات مصروف تھے۔ اسلام اور بانیٔ اسلام کے خلاف لٹریچر کا ایک انبار لگ چکا تھا۔ ہندوستان میں اُس وقت عیسائیوں کی تعداد دن بدن تیزی سے بڑھتی جا رہی تھی۔ اسلام کی کمزوری کا یہ عالم تھا کہ بعض مساجد کے ائمہ بھی عیسائیت کی لپیٹ میں جا چکے تھے۔عیسائی برملا دعویٰ کر رہے تھے کہ اب عیسائیت سر زمین حجاز پر بھی چھا جائے گی اور اس کی منادی حرمِ کعبہ تک جا پہنچے گی۔
اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں جبکہ اسلام ہر طرف سے دشمنوں کے نرغہ میں آ چکا تھا، رحمتِ باری تعالیٰ جوش میں آئی اور قادیان کی بستی سے ایک ماہتابِ ہدایت طلوع ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت نے اپنے وعدہ وآخرین منھم کے مطابق رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے غلامِ صادق حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مسیح و مہدی کے طور پر مبعوث فرمایا۔
آپ نے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے سایہ میں اس شان اور قوت سے سب ادیان کے مقابل پر اسلام کی برتری ثابت کی اور غلبہ اسلام کی ایسی مضبوط بنیاد قائم کر دی جس نے مذہبی دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیا !
اس مقدس جہاد کا آغاز حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی شہرۂ آفاق کتاب براہین احمدیہ سے ہوا۔ اس کتاب کا شائع ہونا تھا کہ مسلمانوں کے حوصلے بڑھ گئے اور خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ مسلمانوں نے دیکھا کہ اسلام کا دفاع کرنے والا ایک عظیم مجاہد میدان مقابلہ میں اتر آیا ہے۔ نمونۃً چند حوالہ جات پیش ہیں :
۱۔ مشہور اہل ِ حدیث مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب نے براہینِ احمدیہ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا:
’’ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالات کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی۔‘‘(رسالہ اشاعت السنہ جلد ۷ نمبر ۶ صفحہ ۱۶۹)
۲۔ اخبار منشور محمدی نے لکھا:’’اس کتاب کی زیادہ تعریف کرنی ہماری حدِ امکان سے باہر ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جس تحقیق و تدقیق سے اس کتاب میں مخالفینِ اسلام پر حجتِ اسلام قائم کی گئی ہے وہ کسی تعریف و توصیف کی محتاج نہیں ہے۔(منشورِ محمدی بنگلور ۵ جمادی الآخر ۱۳۰۱ ھ صفحہ نمبر ۱۹۵)
تفسیر نویسی کا اعجازی نشان (اعجاز المسیح )
تفسیر نویسی کے اس اعجازی نشان کی تفصیل بہت لمبی ہے۔ خلاصۃً اس طرح پر ہے کہ ابتدائی طور پر حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے سب علماء کو عمو ماً اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کو خصوصاً عربی زبان میں تفسیر نویسی کے مقابلہ کی دعوت دی۔ لیکن گولڑوی صاحب مقابلہ کے لیے کسی طرح پر بھی تیار نہ ہوئے۔ اس پر حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے اتمامِ حجت کے طور پر سورۃ الفاتحہ کی تفسیر اپنی علالت اور کمزور صحت کے باوجود وقت مقررہ یعنی ۷۰ دن کے اندر اندر فصیح و بلیغ عربی زبان میں اعجاز المسیح کے نام سے اپنی طرف سے شائع فر ما دی اور پھر اس کے مقابلہ کے لیے اُن کو بلایا اور لکھا کہ وہ اس تفسیر نویسی کے لیے دنیا بھر کے علماء سے مدد لے لیں۔ عرب کے ادیب بھی طلب کر لیں اور میری تفسیر کے مقابل پر اپنی تفسیر شائع کر دیں۔
اس چیلنج پر ۱۲۲ سال کا عرصۂ دراز گزر چکا ہے لیکن آج تک دنیا کا کوئی عالِم اعجاز ُالمسیح کے مقابلہ پر سورہ فاتحہ کی تفسیر شائع نہیں کر سکا اور نہ کر سکے گا ! حضرت مسیح پا ک علیہ السلام کی یہ پیشگوئی بہت شان سے پوری ہوئی کہ :فَاِنّہُ کتابٌ لَیْسَ لَہُ جوابکہ یہ اعجاز المسیح ایسی کتاب ہے جس کا جواب کسی کے لئے ممکن نہیں!
حضرت مسیح پاک علیہ السلام فرماتے ہیں:’’میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعا کی کہ اس کتاب کو علماء کے لئے معجزہ بنا دے… اور میری دعا اُسی رات خدا تعالیٰ کی جناب میں قبول ہوگئی۔‘‘ (اعجاز المسیح، روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۶۶، ترجمہ عربی عبارت)
آپؑ نے کیا خوب فرمایا ہے:
آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند
ہر مخالف کو مقابل پہ بلایا ہم نے
خطبہ الہامیہ
حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے علمی معجزات میں سے ایک اور انتہائی ایمان افروز مثال خطبہ الہامیہ کی ہے۔ آپؑ کے اپنے الفاظ میں اس کا ذکر کرتا ہوں۔ آپؑ نے فرمایا:
’’۱۱؍اپریل ۱۹۰۰ءکو عیدِ اضحی کے دن صبح کے وقت مجھے الہام ہوا کہ آج تم عربی میں تقریر کرو تمہیں قوت دی گئی۔ اور نیز یہ الہام ہوا۔
کَلَامٌ اُفصِحَتْ مِنْ لَّدُنْ رَبٍّ کَرِیْمٍیعنی اس کلام میں خدائے کریم کی طرف سے فصاحت بخشی گئی ہے۔
آپؑ فرماتے ہیں:تب میں عید کی نماز کے بعد عید کا خطبہ عربی زبان میں پڑھنے کے لئے کھڑا ہو گیا اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ غیب سے مجھے ایک قوت دی گئی اور وہ فصیح تقریر عربی میں فی البدیہ میرے مُنہ سے نکل رہی تھی کہ میری طاقت سے بالکل باہر تھی اور میں نہیں خیال کر سکتا کہ ایسی تقریر جس کی ضخامت کئی جزو تک تھی ایسی فصاحت اور بلاغت کے ساتھ بغیر اس کے کہ اوّل کسی کاغذ میں قلمبند کی جائے، کوئی شخص دنیا میں بغیر خاص الہام الٰہی کے بیان کر سکے… سبحان اللہ اُس وقت ایک غیبی چشمہ کھل رہا تھا مجھے معلوم نہیں کہ میں بول رہا تھا یا میری زبان سے کوئی فرشتہ کلام کر رہا تھا۔ کیونکہ میں جانتا تھا کہ اس کلام میں میرا دخل نہ تھا۔ خود بخود بنے بنائے فقرے میرے مُنہ سے نکلتے جاتے تھے اور ہر ایک فقرہ میرے لئے ایک نشان تھا.. یہ ایک علمی معجزہ ہے جو خدانے دکھلایا اور کوئی اس کی نظیرپیش نہیں کر سکتا۔‘‘(حقیقۃ الوحی،روحانی خزائن ۲۲ صفحہ ۳۷۶)
اس غیر معمولی اور محیر العقول اعجازی نشان کی عظمت اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے جب اس کو اس تناظر میں دیکھا جائے کہ حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے کبھی با قاعدہ طور پر کسی درسگاہ میں عربی کی تعلیم حاصل نہ کی تھی اور آپ نہ کبھی کسی عرب ملک میں گئے اور نہ ہی آپ نے اس سے پہلے کبھی عربی میں کوئی تقریر کی تھی۔ اچانک حکم ِالٰہی کی اتّباع میں آپ نے یہ طویل خطبۂ عید ارتجالاً زبانی ارشاد فرمایا۔ کوئی تحریر آپ کے ہاتھ میں نہ تھی۔ لا ریب ! یہ خدائے قادر کا ایک ایسا بے نظیر اعجازی معجزہ ہے جس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی!
اسلامی اصول کی فلاسفی
آپ کی ایک اورشہرۂ آفاق تقریر ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘کی مثال کو لیتا ہوں۔ علّامُ الغیوب قادرِ مطلَق خدا نے پہلے سے آپ کو بشارت دے دی تھی کہ ’’مضمون بالا رہا ‘‘۔ ۱۸۹۶ءمیں لاہور میں ایک عظیم الشان جلسہ اعظم مذاہب منعقد کیا گیا۔ اس میں حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے مقرر کردہ پانچوں اہم سوالات کے جوابات خدا داد بصیرت سے بہت عمدگی سے بیان فرمائے۔ سامعین اس محویت سے تقریر سن رہے تھے کہ جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔عمائدین رطب اللسان تھے کہ ہم نے اس جیسا خطاب ساری زندگی نہیں سنا۔ اخبارات نے برملا لکھا کہ یہ مضمون بالا رہا۔ انتظامیہ نے سامعین کے اصرار پر کانفرنس کا ایک دن بڑھا دیا اور ایک مقرر نے اپنی تقریر کا وقت اس لیکچر کے لئے دے دیا !
تائید الٰہی سے لکھا گیا یہ پُرمعارف اور معجزانہ خطاب آج بھی مذہبی دنیا کی مقبول ترین کتابوں میں شامل ہے۔ اب تک دنیا کی ۵۵ معروف زبانوں میں اس کتاب کے تراجم ہو چکے ہیں۔
اس معجزانہ کتاب کی مقبولیت کی ایک مثال بطور نمونہ پیش کرتا ہوں۔ مکرم بشیر احمد صاحب آرچرڈ کا نام اس کتاب کے عشاق کی فہرست میں سرِ فہرست رہے گا۔ آپ برطانوی فوج میں برما کے فرنٹ پر خدمت پر مامور تھے۔ بہت نیک دل انسان تھے۔ مسیح پاک علیہ السلام کا پیغام ان کے کانوں میں پڑا۔ لمبا سفر کر کے قادیان گئے جہاں ان کی زندگی میں انقلاب برپا ہو گیا۔ احمدیت کے نور سے منور ہوئے۔ اسلامی اصول کی فلاسفی اُن کی محبوب ترین کتاب بن گئی۔ ہر روز سونے سے پہلے یہ کتاب تکیہ کے نیچےسے نکالتے اور چند اوراق پڑھنے کے بعد سو یا کرتے تھے۔ یہ ان کی زندگی بھر کا معمول بن گیا۔ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ ایک بار میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے کتنی بار یہ کتاب پڑھی ہے ؟ اپنی خاکساری کی وجہ سے جواب نہ دیا۔ میں نے اصرار کیا تو بتایا کہ میں کم از کم ۵۰ مرتبہ یہ کتاب پڑھ چکا ہوں اور یہ سلسلہ جاری ہے اور آخری دم تک جاری رہے گا !
تراجم کا امتیازی نشان
حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی کتب صرف اردو زبان تک محدود نہیں رہیں بلکہ دنیا کی مختلف زبانوں میں ان کے تراجم ہوچکے ہیں اور بڑی کثرت سے پھیلتے چلے جا رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ ایک غیر معمولی اعزاز اور امتیاز ہے جو اللہ تعالیٰ نے مسیح پاک علیہ السلام کے لاثانی علم کلام کو عطا فرمایا۔ بطور مثال عرض کرتا ہوں کہ آپ کی جملہ کتب اور ملفوظات کے مکمل تراجم عربی اور جرمن زبانوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ متعدد کتب کے تراجم دیگر معروف زبانوں میں ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔ کیا یہ امتیاز بے مثال نہیں کہ قادیان کی ایک گمنام بستی میں پیدا ہونے والے خدائی فرستادہ کا پیغام اس کے اپنے الفاظ میں دنیا کے کناروں تک پہنچ چکا ہے! اور یہ غیر معمولی اعزاز اس الہام الٰہی کو بھی پورا کرنے والا ہے کہ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔‘‘
آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے ۲۱۳ ملکوں میں جماعت احمدیہ کا قیام ہو چکا ہے۔ الحمد للہ
گر نہیں عرشِ معلّٰی سے یہ ٹکراتی تو پھر
سب جہاں میں گو نجتی ہے کیوں صدائے قادیاں
اختلافی مسائل کا معجزانہ فیصلہ
جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت ہوئی اس وقت مسلمانانِ عالم بہت سے اختلافی مسائل میں الجھے ہوئے تھے۔ ان میں سر فہرست ختم نبوت کی حقیقت اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات و ممات کے مسائل تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہر دو مسائل پر قرآن و حدیث سے ایسے معجزانہ دلائل پیش کیے کہ سعادت مند لوگوں پر سچائی کھل گئی اور مذہبی دنیا میں ایک معجزانہ انقلاب بر پا ہوگیا !
ختم نبوت کے بارے میں آپ نے اپنی کتب میں اس قدر تفصیل بیان فرمائی ہے کہ اس مسئلہ کے ایک ایک پہلو کو روز ِروشن کی طرح واضح کر دیا ہےاور بحث کا کوئی پہلو تشنہ نہیں رہا۔
وفات ِمسیح علیہ السلام کے سلسلہ میں حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ازالہ اوہام میں ۳۰ قرآنی آیات پیش فرمائیں اور اس مسئلہ کو اس قدر واضح کر دیا کہ انحراف کی کوئی بھی گنجائش باقی نہیں۔ بلاشبہ یہ آپ کا ایک معجزانہ کارنامہ ہے۔
سلطان القلم
اللہ تبارک و تعالیٰ نے الہاماً مسیح موعود علیہ السلام کو سلطان القلم کے خطاب سے نوازا۔ مسیح پاک علیہ السلام نے اپنی زندگی میں روحانی خزائن کا جو علمی ورثہ یادگار چھوڑا وہ سارے کا سارا اس الہام کی سچائی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آپ شاعر نہ تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو شعری زبان میں بھی اظہارِ بیان کا جو مَلِکہ عطا فرمایا وہ علمی اعجاز کا ایک مسحور کن نمونہ ہے۔ مقصد شاعری نہ تھا بلکہ ابلاغ ِحق کی خاطر آپ نے اس طریق کو اختیار فرمایا۔ عربی، فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں آپ کے لکھے ہوئے شعری مجموعے آج بھی دلوں میں اتر جانے والی نیک تاثیرات کے لحاظ سے علمی معجزہ کا شاندار نمونہ ہیں۔
جماعت کے ایک مشہور شاعر رشید قیصرانی صاحب نے کیا خوب خراجِ تحسین پیش کیا ہے:
وہی تو تھا کہ جو سلطانِ حرف و حکمت تھا
قلم کرشمہ تھا اور حرف معجزے اس کے
رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی شانِ اقدس میں آپ کے عربی قصیدہ کے بارے میں ایک معروف عالِم علامہ نیاز فتح پوری کا تبصرہ سننے کے لائق ہے۔ آپ نے لکھا:’’مرزا صاحب کا یہ مشہور قصیدہ اپنے تمام لسانی محاسن کے لحاظ سے ایسی عجیب و غریب چیز ہے کہ سمجھ میں نہیں آ تا ایک ایسا شخص جس نے کسی مدرسہ میں زانوئے ادب تہہ نہ کیا تھا کیونکر ایسا فصیح و بلیغ قصیدہ لکھنے پر قادرہو گیا !‘‘(رسالہ نگار لکھنؤ اپریل ۱۹۶۰ء صفحہ نمبر ۵۲)
آپؑ کی کتابوں پر غیروں کے مزید تبصرے
عربی زبان کا مقولہ ہے کہ اَلفَضْلُ ما شَھِدَتْ بہِ الاعداء کہ خوبی اور فضیلت وہ ہے جس کا دشمن بھی اعتراف کرے۔ اس حوالہ سے حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے قلمی جہاد کے بارےمیں غیروں کے اعترافات کے چند نمونے پیش کرتا ہوں۔
۱.مولانا ابو الکلام آزاد ایڈیٹر اخبار وکیل امرتسر نے لکھا:’’وہ شخص، بہت بڑا شخص، جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو۔ وہ شخص جودماغی عجائبات کا مجسمہ تھا…جس کی انگلیوں سےانقلاب کے تار اُلجھے ہوئے تھے…وہ اسلام کے مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے….مرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کےمقابلہ پر ان سے ظہور میں آیا قبولِ عام کی سند حاصل کرچکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔‘‘(اخبار وکیل امرتسر بحوالہ تاریخ احمدیت جلد ۲صفحہ ۵۶۰)
۲.اخبار کرزن گزٹ کے ایڈیٹر مرزا حیرت دہلوی نے یوں خراجِ تحسین پیش کیا:’’ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے ا ٓریہ اور بڑے سے بڑے پادری کو یہ مجال ہی نہ تھی کہ وہ مرحوم کےمقابلہ میں زبان کھول سکتا…اگرچہ مرحوم پنجابی تھا مگر اس کےقلم میں اس قدر قوّت تھی کہ آج سارے پنجاب بلکہ بلندی ہند میں بھی اس قوت کا کوئی لکھنے والا نہیں… اُس کاپُر زور لٹریچر اپنی شان میں بالکل نرالہ ہے اور واقعی اس کی بعض عبارتیں پڑھنے سے ایک وجد کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے!‘‘(کرزن گزٹ دہلی یکم جون ۱۹۰۸ء)
عربی زبان پر ہر لحاظ سے قدرت معجزاتِ انبیاء میں سے ہے
حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے ایک جگہ عربی زبان پر قدرت عطا ہونے کے حوالے سے فرمایا:’’امام شافعی رحمۃاﷲ کا یہ مقولہ بالکل صحیح ہے کہ لَایَعلَمُہُ اِلّا نَبِیُّ یعنی اس زبان کو اوراس کے انواع اقسام کے محاورات کو بجُز نبی کے اَور کوئی شخص کامل طور پر معلوم ہی نہیں کرسکتا۔
اس قول سے بھی ثابت ہوا کہ اِس زبان پر…پُورا احاطہ کرنا معجزاتِ انبیاء علیہم السلام سے ہے۔‘‘(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۴۳۷)
اس اصول کی روشنی میں یہ حقیقت کس قدر ایمان افروز ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ عرب سے بہت دور افتادہ گاؤں میں پیدا ہوئے اور خدا نے اپنے اس فرستادہ کو براہ ِراست عربی زبان کا اور قرآن مجید کا اس قدر گہرا علم عطا فرمایا کہ جب آپ نے اعجاز المسیح کتاب لکھی اور اس کا جواب لکھنے کے لیے عرب علماء کو بھی دعوت دی تو کوئی ایک عالم بھی میدان ِ مقابلہ میں نہ آیا۔ مزید ایمان افروز بات یہ ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وفاتِ مسیح کا ثبوت قرآن و حدیث سے پیش کیا تو عرب دنیا کے عالمی شہرت کے علماء مثلاً شیخ محمد عبدَ ہْ، علامہ رشید رضا، علامہ محمود شلتوت، علامہ عدنان ابراھیم اور بہت سے علماء نے وفاتِ مسیح کی کھل کر تائید کی ہے۔ایسے علماء کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ اسی طرح جب آپ نےدنیا کی تاریخ میں سب سے پہلے عربی زبان کے ام الالسنہ ہونے کا الہامی انکشاف پیش فرمایا تو عربی زبان کے عالمگیر شہرت رکھنے والے علماء نے اس نظریہ کی تائید کی۔ مثلاً:
٭… مصر کے فلاسفر، مصنف اور ڈاکٹر : مصطفیٰ محمود
٭… لبنانی مصنف اور شاعر: رفیق المعلوف
٭… عرب کے ڈاکٹر : سعید شربینی
٭… شام کے عالِم ڈاکٹر : عبد المجید الحمیدی
٭… مراکش کے عالِم : عبد اللہ بو فیم
اور دیگر عرب علماء نے اس سے اتفاق کیا ہے۔ حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے ان علمی انکشافات کی عالمگیر مقبولیت اور پذیرائی دیکھ کر آپ کا یہ شعر نوکِ زبان پر آ جاتا ہے۔
دیکھو خدا نے ایک جہاں کو جھکا دیا
گمنام پا کے شہرۂ عالَم بنا دیا
جدید تاریخی انکشافات
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں جو انکشافات بیان فرمائے ہیں، جدید تحقیقات کی روشنی میں آج دنیا کے علمی اور تحقیقاتی حلقوں میں ان کی مقبولیت بڑھتی جا رہی ہے۔ چند مثالیں عرض کرتا ہوں۔
٭…حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت عیسائی عقیدہ کفّارہ کا مرکزی نقطہ ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے قرآن مجید اور بائبل سے ایسے واضح ثبوت بڑی تحدی اور جلال سے پیش فرمائے جنہوں نے اس عقیدہ کو جڑ سے اکھیڑ کر رکھ دیا۔ کسرِ صلیب کا یہ کارنامہ آپ کا ایسا شاندار علمی معجزہ ہے جس کا کوئی جواب کسی نے آج تک نہیں دیا اور نہ کبھی دیا جا سکتا ہے ! صرف اسی پر بس نہیں۔ مسیح پاک علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’مسیح ہندوستان میں ‘‘میںحضرت عیسیٰ کی صلیبی موت سے نجات کے بعد مشرق کی طرف سفر کرنے اور با لآ خر کشمیر میں طبعی وفات پانے اور سرینگر میں قبرِ مسیح کی نشاندہی کر کے گویا اس موضوع کا حتمی فیصلہ کر دیا۔ کسرِ صلیب کے حوالہ سے آپ کا یہ عظیم انکشاف ایک عالمگیر علمی معجزہ کی شاندار مثال ہے۔ اس نظریہ کی مزید تائید میں کفنِ مسیح اور مرہمِ عیسیٰ کے تائیدی نشانات پر مزید تحقیقات جاری ہیں۔
علمی میدان میں جو معجزانہ خدائی تائید و نصرت مسیح پاک علیہ السلام کو نصیب ہوئی اس کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ نے کیا خوب فرمایا ہے :
’’میری زبان کی تائید میں ایک اور زبان بول رہی ہے اور میرے ہاتھ کی تقویت کے لئے ایک اور ہاتھ چل رہا ہے جس کو دنیا نہیں دیکھتی مگر میں دیکھ رہا ہوں۔ میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے۔ جو میرے لفظ لفظ اور حرف حرف کو زندگی بخشتی ہے۔‘‘(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۴۰۳)
علمی معجزات کے اثرات
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جن عظیم الشان علمی معجزات سے نوازا۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کے بیان فرمودہ دلائل و براہین نے ساری دنیا میں ایک عظیم الشان انقلاب برپا کر دیا ہے جس کی تاثیرات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ ان معجزات نے ساری دنیا کو خدائے واحد کی طرف متوجہ کیا ہے اور مذہب کی دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہو گیا ہے۔ اسلام کی عالمگیر فتح کے دن قریب سے قریب تر آرہے ہیں۔ اس آبشارِحیات کے فیض سے ایک دنیا نئی روحانی زندگی پا رہی ہے۔ خدا کا انکار کرنے والے خدائے واحد کے سامنے جھک رہے ہیں۔ فیض کا چشمہ جاری ہے یہ آبِ حیات دنیا کو ایک نئی زندگی عطا کر رہا ہے۔ حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے مقدس الفاظ آج بھی اکنافِ عالم میں گونج رہے ہیں۔ آپ کس تحدی اور جلال سے فرماتے ہیں:’’اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا۔ یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا۔‘‘(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۱، ۲۲)
اختتامیہ
اللہ تبار ک وتعالیٰ نے اپنے لطف و احسان سے ہمارے حضرت مسیح پاک علیہ السلام کو اپنی جناب سے جو عظیم الشان اور لازوال علمی معجزات عطا فرمائے ان میں سے بعض کا ایک بہت مختصر تذکرہ آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ یہ تذکرہ تو ابد الآباد تک جاری و ساری رہے گا۔ خدا کرے کہ ان علمی معجزات کا فیض ساری دنیا کے لوگوں کو ہمیشہ نصیب ہوتا رہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ دنیا ان فیوض سے فائدہ اٹھانے والی ہو اور اس کی بے پایاں رحمتوں اور برکتوں کو پانے والی ہو۔آمین
وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین