جامعۃ المبشرین برکینا فاسو کے طلبہ کی ۱۶۵؍ کلومیٹرز پیدل سفر کی دلچسپ اور ایمان افروز روئیداد
آخری دن تک تقریباً سب کے پاؤں زخمی ہو چکے تھے۔ کئی دفعہ آبلے بنے اور کئی دفعہ پھٹے۔ لیکن سلام ہے احمدیت کے ان باہمت جوانوں کو جو منزل تک پہنچنے کا تہیہ کر چکے تھے تو پھر راستے کی کوئی رکاوٹ،کوئی مشکل، کوئی تکلیف ان کا راستہ نہ روک سکی۔ قدم قدم منزل قریب ہوتی گئی۔
جامعۃ المبشرین برکینا فاسو کے سال ۲۳-۲۰۲۲ء کے ورزشی پروگرام میں پیدل سفر بھی رکھا گیا تھا لیکن ملکی حالات اور دیگر مشکلات کے پیش نظر اسے منعقد نہ کیا جاسکا۔
ہفتہ ۸؍ جولائی کو مکرم امیر صاحب برکینا فاسو محمود ناصر ثاقب صاحب کے ساتھ ایک میٹنگ میں جامعہ احمدیہ ربوہ کے پیدل سفر کا تذکرہ ہوا تو ایک بار پھر اس روایت کو تازہ کرنے کی بات چلی۔چنانچہ وہیں بیٹھے بیٹھے جامعۃ المبشرین برکینا فاسو کی فائنل کلاس کو اسی سال پیدل سفر کروانے کا پروگرام بن گیا۔ فوری تعمیل اور اطاعت کا بہترین نمونہ دکھاتے ہوئے اساتذہ اور طلبہ سفر کی تیاری میں لگ گئے۔ لیکن وقت بہت ہی کم تھا،یعنی صرف سات دن، اور کام بہت زیادہ۔ راستے کا جائزہ لینا، انتظامیہ سے سیکورٹی کلئیرنس لینا، جس علاقے سے گزرنا تھا وہاں کی حکومتی انتظامیہ کو اطلاع کرنا، راستے کی تمام پولیس چیک پوسٹس کو اطلاع پہنچانا،جس شہر میں جانا تھا وہاں کی اتھارٹیز کو باقاعدہ اطلاع دینا، راستے میں رات کے قیام کے لیے جگہ تلاش کرنا، طلبہ کو ذہنی طو رپر تیار کرنا جسمانی ٹریننگ تو اتنے کم وقت میں ممکن نہیں تھی۔ طلبہ کو راستے میںضرورت کی چیزیں بتا کر انتظام کرنے کی طرف توجہ دلا کر چیک کرنا کہ ہر ایک نے کم از کم انتظام کر لیا ہے یا نہیں۔ جب سفر کی تیاری شروع کی تواس دوران کئی دفعہ ایسے مراحل آئے کہ اس سال یہ سفر ترک کر دیا جائے۔لیکن مصمم ارادے کے ساتھ آخری وقت تک کوشش کرتے رہے تو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی فضل فرمایا اور تمام کام سدھرتے گئے مشکلات دور ہوتی گئیں۔
پہلا روز
اتوار ۱۶؍ جولائی۲۰۲۳ءکی صبح نماز فجر کے فوراً بعد جامعہ کے تمام طلبہ پرنسپل آفس کے سامنے جمع تھے۔ سفر پر جانے والے پُرعزم تھے تو باقی کلاسز والے اپنے بھائیوں کی مدد میں پیش پیش۔صبح پانچ بج کر پچیس منٹ پر دعا کے بعد روانگی ہوئی۔ ایک ناممکن نظر آنے والے سفر کا آغاز ہو چکا تھا۔
امن کا پیغام
اس سفر کوجماعت کا پیغام پہنچانے اور ملک میں امن کی اہمیت کو اجاگر کرنے کا بھی ذریعہ بنا لیا گیا۔ سفر میں شامل ہر فرد نے جو شرٹ پہن رکھی تھی اس پر سامنے کی طرف جامعۃ المبشرین کے لوگو کے ساتھ جلی حروف میں Islam, Ahmadiyya pour la Paix ’’اسلام، احمدیت فار پیس ‘‘ لکھا ہو اتھا جبکہ پشت پر
Messie (as) est arrivé
’’مسیح موعود آگئے ہیں‘‘ کے الفاظ درج تھے۔جہاں جہاں سے یہ طلبہ گزرے وہاں وہاں احمدیت کا پیغام پہنچتا گیا۔اس قافلے نے راستےمیں اتنا اثر چھوڑا تھا کہ سفر کے اختتام پر اگلےروز جب ہم لیو شہر سے واپس آرہے تھے تو ایک چیک پوسٹ پر پولیس نےہماری گاڑی کو چیکنگ کے لیے روکا۔ ان کو صرف اتنا بتایا کہ دو دن پہلے جو پیدل سفر والے یہاں سے گزرے تھے ہم وہی لوگ ہیں اور اب واپس جا رہے ہیں۔ پولیس اہلکار نے سلیوٹ کیا اور ہمیں جانے کی اجازت دے دی۔
پہلا سٹاپ
ان شاملین پیدل سفر نے پہلا سٹاپ پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر واگادوگو کی ایک جماعت Talafmengaمیں کیا۔ یہ جماعت شاہراہ سے کچھ ہٹ کر ہے تاہم ا س جماعت کے احباب اپنے معلم صاحب اور ریجنل مبلغ ناصر اقبال صاحب کے ساتھ سٹرک پر طلبہ کا استقبال کرنے کےلیے موجود تھے۔ یہا ں اس جماعت کی طرف سے سب طلبہ کو ناشتہ کروایا گیا۔فجزاھم اللہ احسن الجزاء۔
اگلا سٹاپ پچاس کلومیٹرز کے فاصلے پر ای پیلسے (Ipelce) شہر میں کیا گیا۔اس وقت تک طلبہ تھک چکے تھے۔ دو لڑکے تو شدید درد میں مبتلا تھے ان کو میڈیکل ایڈ دی گئی۔ دوپہر کے وقفہ کے بعد کسی میں چلنے کی بظاہر ہمت نہ تھی لیکن پھر اٹھے اور مزید بارہ کلومیٹرز کا فاصلہ طے کرکے رات راکائی(Rakai) گاؤں میں ٹھہرے۔ یہاں ایک سکول میں قیام کیا گیا۔رات کو طلبہ کی حالت دیکھتے ہوئے یوں لگ رہا تھا کہ شاید کل ان میں سے کچھ سفر جاری نہ رکھ سکیں۔ بہر حال صبح کا انتظار کیا گیا۔
دوسرا روز
اگلی صبح یعنی ۱۷؍ جولائی صبح ساڑھے پانچ بجے تازہ دم ہوکر تمام قافلہ اگلی منزل کی طرف گامزن ہو چکا تھا۔ جن کے چلنے کی امید نہیں تھی وہ بھی چل پڑے تھے۔بہت اچھا آغاز ہوا لیکن تھوڑی ہی دیر بعد بارش نے آ لیا۔جس جگہ بارش شروع ہوئی وہاں قریب کوئی پناہ گاہ نہیں تھی اس لیے صرف چلتے ہی رہ سکتے تھے۔ یوں ایک گھنٹہ بارش میں سفرجاری رہا۔تاہم اس کے بعد موسم بہت اچھا ہو گیا۔اور طلبہ نے ارد گرد خوبصورت قدرتی مناظر کو دیکھتے ہوئے بہت اچھے موسم میں یہ سفر جاری رکھا۔
دوسرے دن دوپہر کو Sapouyشہر میں سٹاپ کیا گیا۔ کھانے اور نمازوں کے وقفہ کے بعد سہ پہر تین بجے پھر آگے روانگی ہو گئی۔سارا قافلہ شام ساڑھے چھ بجے تک چلتا رہااور مزید پندرہ کلومیٹرز کا فاصلہ طے کر کے تارے(Tare) نامی ایک گاؤں کے سکول میں قیام کیا۔ اس سفر میں طلبہ کے ساتھ ہر وقت کوئی نہ کوئی استاد ضرور چلتا رہا۔ محمد اظہار احمد راجہ صاحب نے تقریباً سارا سفر پیدل مکمل کیا۔ محمد بلا ل طارق صاحب نے تینوں دنوں میں پچاس کلومیٹرز سے زائد سفر کیا۔ جبکہ خاکسار نے دو دن طلبہ کا ساتھ دیا اور چالیس کلومیٹرز کے قریب فاصلہ طے کر کے ان کی حوصلہ افزائی کی۔
تیسرا اور آخری دن
ایک دم پھر تازہ دم ہو کر صبح چھ بجے تارے گاؤں سے آگے روانہ ہوئے۔ آج سفر کا آخری دن تھا اورہم دوپہر کے وقفہ سے پہلے ہی منزل پر پہنچنے کا تہیہ کیے ہوئے تھے۔ ہمارے جوش و جذبے کے ساتھ دھوپ کی تپش بھی اپنا رنگ دکھا رہی تھی۔ طلبہ نے بہت ہمت کی۔ آخری دن تک تقریباً سب کے پاؤں زخمی ہو چکے تھے۔ کئی دفعہ آبلے بنے اور کئی دفعہ پھٹے۔ لیکن سلام ہے احمدیت کے ان باہمت جوانوں کو جو منزل تک پہنچنے کا تہیہ کر چکے تھے تو پھر راستے کی کوئی رکاوٹ،کوئی مشکل، کوئی تکلیف ان کا راستہ نہ روک سکی۔ قدم قدم منزل قریب ہوتی گئی۔
مکرم امیرصاحب نے پیدل سفر کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے اپنی نمائندگی میں مکرم ناصر اقبال صاحب مبلغ سلسلہ کو بھجوایا۔آپ کے ساتھ محب اللہ صاحب مبلغ سلسلہ بھی تھے۔ یہ وفد ساڑھے گیارہ بجے لیو شہر سے کچھ کلومیٹرز پہلے ہمیں مل گیا۔ اور طلبہ کی حوصلہ افزائی کے لیے چند کلومیٹرز ان کے ساتھ پیدل چلا۔
لیو شہر میں استقبال
لیو کے ریجنل مبلغ عبدالرزاق صاحب نے اس کارروان کے استقبال کے انتظامات کیے ہوئے تھے۔آپ نے مقامی اتھارٹیز کو مطلع کیا اور ڈی سی سے میٹنگ کرکے سارے پروگرام سے آگاہی دے رکھی تھی۔ ڈپٹی کمشنر صاحب نے ڈی سی آفس کے وسیع لان میں وفد کا استقبال کرنے کی حامی بھر لی۔
جب پیدل سفر کے شرکاء لیو شہر کی حدود میں پہنچے تو ریجنل مبلغ صاحب احمدی و غیر احمدی احباب کی ایک قابل ذکر تعداد کے ساتھ استقبال کے لیے موجود تھے۔ایک موٹرسائیکل پر لاؤڈ اسپیکر اور مائک کا انتظام کر رکھا تھا۔ فلک شگاف نعروں اور لاالہ الاللہ کے ورد کے ساتھ پیدل سفر کے شرکاء کا استقبال کیا گیا۔ یہاں سے مقامی احباب کا قافلہ اور امیر صاحب کی نمائندگی میں واگا دوگو سے آنے والا وفد بھی ساتھ ہو گیا اور تین کلومیٹرز شہر کے اندر سے چلتے ہوئے، مسلسل مائک پر نعرہائے تکبیر بلند کرتے ہوئے ہم ڈی سی آفس پہنچے۔ڈی سی صاحب نے اپنے دفتر سےباہر آکر وفد کا استقبال کیا۔ پھر مختصر سی تقریب منعقد ہوئی۔ تلاوت کے بعد خاکسار پرنسپل جامعۃ المبشرین برکینا فاسو نے سفرکے متعلق چندکلمات کہے۔ پھر ڈی سی صاحب نے تقریر کی اور طلبہ کی غیر معمولی کاوش کو بہت سراہا۔ اس موقع پر ڈی سی صاحب کے ساتھ دیگر مقامی عہدیداران بھی موجود تھے۔علاقے کے نوجوانوں کے صدر بھی اپنی ٹیم کے ساتھ استقبال کے لیے موجود تھے۔ ڈپٹی کمشنر صاحب اسی روز شام ساڑھے چار بجے احمدیہ مشن ہاؤس بھی اپنی پوری ٹیم کے ساتھ تشریف لائے اور طلبہ کی حوصلہ افزائی کی۔
ریڈیو پر براہ راست پروگرام
لیو پہنچ کر رات آٹھ بجے ریڈیو اسلامک احمدیہ پر پینتیس منٹ کی لائیو نشریات کی گئیں۔ جس میں اس تاریخی سفر کےحوالے سے بات کی گئی اورسفر کا پس منظر، فوائد اور طلبہ کی جانفشانی اور اطاعت کے حوالے سے تفصیلات بتائی گئیں۔ انٹرویو میں طلبہ میں سےنائے حمیدو، تنگارا عبدالوہاب اور اساتذہ میں سے حافظ محمد بلال طارق صاحب، سانیو منیر صاحب اور خاکسارنےشرکت کی۔
بے سروسامانی کے باوجود جس اطاعت، وفاداری اور اخلاص کے ساتھ ان طلبہ نے اس تاریخی سفر کو مکمل کیا وہ جامعہ کی تاریخ بلکہ احمدیت کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائےگا۔ دعا ہے کہ رب کریم ان کے ہر قدم پر ان کو اجر عظیم عطافرمائے۔ اس سفر کے اثرات ان کی زندگیوں پر ہمیشہ رہیں۔ اور آنے والی نسلیں عشق و وفا اور اطاعت کے نمونے پہلوں سے بڑھ کر دکھانے والی ہوں۔ اس سفر کو ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاتا رہے گا۔ان شاء اللہ
اللہ تعالیٰ ہر اس فرد کو جزائے خیر سے نوازے جس نے شاملین سفر کے لیے دعائیں کیں اور حوصلہ افزائی فرمائی۔ ہم دل کی گہرائیوں سے ہر ایک کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
(رپورٹ: چودھری نعیم احمد باجوہ۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل)