ڈاکٹر نصرت جہاں صاحبہ
خدمت دین کو اک فضل الٰہی جانو
اس کے بدلہ میں کبھی طالب انعام نہ ہو
کچھ اللہ کے پیارے لوگ مندرجہ بالا شعر کو مقصد زندگی بنا کر اپنے شب و روز گزارتے ہیں۔ پھر اسی پر عمل کرتے کرتے ابدی نیند سو جاتے ہیں۔محترمہ ڈاکٹر نصرت جہاں صاحبہ مرحومہ بھی بلاشبہ اُنہی لوگوں میں سے تھیں۔بتایا کرتی تھیں کہ جب میں نے MRCOGکر لیا تو سوال تھا کہ اب کہاں کام کیا جائے؟ ایک طرف امریکہ کی جگمگاتی روشنیاں تھیں تو دوسری جانب دبئی کی انتہائی پُر کشش تنخواہ اور بر طانیہ میں تو سلسلہ چل ہی رہا تھا۔مگر کوئی روشنی آپ کی آنکھوں کو خیرہ نہ کر سکی اور آپ کا محبت الٰہی سے بھرا دل آپ کو امن کی بستی ربوہ میں کھینچ لایا۔بتایا کرتی تھیں کہ جب میں فیصلہ کرنے کے مرا حل میں تھی ایک دن میرے ابا (مولا نا عبدالمالک خان صاحب مرحوم) نے مجھے فون پہ کہا بیٹی!جماعت کا بھی ایک ہسپتال ہے۔ کہنے لگیں یہ بات ایسی دل میں بیٹھی کہ اَور کہیں کا خیال ہی نہیں آیا اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ربوہ پہنچ گئی۔اُن کی رگ رگ میں خدا تعالیٰ کی محبت ایسے جوش مارتی تھی جیسے وہ گویا ایک نشے میں چُور ہوں اسی لیے کبھی تھکتی نہ تھیں۔کہتی تھیں کہ میرے دادا (ذوالفقار علی خان گوہر صاحب مرحوم) نے ریٹائر منٹ کے بعد وقف کیا تھا اور اس بات پہ وہ بہت اُداس ہوتے تھے کہ عمر کا بہترین حصہ دنیا کے پیچھے ضائع کردیا یعنی جوانی میں وقف کرنا چاہیےتھا۔
بلا شبہ آپ نہ صرف گائنی ڈیپارٹمنٹ بلکہ فضل عمر ہسپتال کی روح و رواں تھیں۔ شام کے وقت بھی مریضوں کو دیکھنے کے لیے راؤنڈ لگاتیں۔۱۹۹۳ءمیں آپ کے ساتھ کام شروع کیا تھا۔ پڑھائی اور ہاؤس جاب کے دوران مشاہدہ کیا تھاکہ ان کی سطح کے ڈاکٹر صبح کے وقت مریضوں کو نہیں دیکھتے تھے کجا شام کے ذاتی وقت میں سے وقت نکالنا۔وہ ہسپتال کو اپنے بچے کی طرح سمجھتی تھیں اورجیسے ماں ہر وقت اپنے بچے کا خیال رکھتی ہے ویسے ہی ہسپتال کا بھی خیال رکھتیں۔
ایک مرتبہ ہسپتال کے لیے الٹرا ساؤنڈ مشین کی ضرورت تھی جسے دیکھنے کے لیے مجھے ا ن کے ساتھ لاہور کی مختلف میڈیکل سپلائرز کی دکانوں میں جانے کا موقع ملا۔بہت سوچ بچار کے بعد آپ نےفیصلہ کیا تا کہ جماعت کا پیسہ صحیح جگہ پہ خرچ ہو۔
ان سے پہلی ملاقات ۱۹۸۹-۱۹۸۸ء میں ہوئی جب میں اپنے گاؤں سے آئی ہوئی ایک غریب مریضہ کو لے کر اُن کے پاس گئی۔ اُنہوں نے بتایا کہ TB کا مرض ہے اور اس کے لیے گلاب دیوی ہسپتال میں داخل ہوناپڑے گا۔ فوراً ایک دوست ڈاکٹر کے نام خط لکھ کر دیا کہ اس مریضہ کی مدد کریں اور یوں اس غریب کا بھلا ہوا۔ وہ خدمت خلق کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی تھیں۔
قادیان اور لندن کے جلسے آپ کی تفریح کا سامان ہوتے۔ پورا سال گویا اُن کا انتظار کرتیں کہ کب وقت آئے اور میں اُڑ کر پہنچ جاؤں۔ خلافت سے انتہا ئی عقیدت کا تعلق تھا۔خلفاء کے خطوط کو بڑے قرینے سے سنبھال کر رکھا ہوا تھا۔ بلکہ جب بھی میں کسی معاملے میں آپ سے بات کرتی آپ ہمیشہ کہتیں ٹھہرو میں تمہیں حضور کے خط سے سمجھا تی ہوں۔اپنے شعبے کے متعلق ہر چھوٹی بڑی بات میں خلفاء سے راہنمائی لیتیں۔
آپ کو آہستہ چلنا نہیں آتا تھا۔ خدمت کے جذبہ سے سر شار بھاگتی دوڑتی دکھائی دیتی تھیں۔ لیبر وارڈ سے آپریشن تھیٹر اور وہاں سے آؤٹ ڈور تک آپ چلتی نہیں بھاگتی تھیں۔ سچ ہے جو لوگ اس دنیائے فانی میں خدا کی رضا حا صل کرنا چا ہتے ہیں اُنہیں واقعی جلدی ہوتی ہے۔ محبوب حقیقی کو راضی کر نے کی جلدی کیونکہ اگلی سانس کا کیا بھروسا آئے نہ آئے۔ ہمیشہ کہتی تھیں کہ چند روزہ دنیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہماری زندگی کا مقصد ہے۔ ہاتھ کے اشارے سے کہتی تھیں کہ اصل ٹھکانہ تو سڑک کے اس پار ہے۔جن لوگوں کو فضل عمر ہسپتال کا پتا ہے وہ جا نتے ہیں کہ سڑک کے پار بہشتی مقبرہ ہے۔
فضل عمر ہسپتال کے گائنی ڈیپارٹمنٹ میں آپ نے ۱۹۸۵ءمیں کام کا آغاز کیا جو ایک کمرے سے ہوتا ہوا ایک ڈیپارٹمنٹ اور پھر ایک بلڈنگ میں بدل گیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخا مس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۱؍اکتوبر ۲۰۱۶ء میں درج ذیل الفاظ میں آپ کا ذکر خیر فرمایا: ’’اخلاص اور وفا کا جذبہ تھا جو ڈاکٹر نصرت جہاں میں بھی تھا۔ یوکے(UK) سے انہوں نے تعلیم حاصل کی۔ پہلے ایم بی بی ایس پاکستان سے کیا پھر یوکے (UK) سے سپیشلائز کیا۔ اَور کہیں بھی وہ جاتیں تو لاکھوں روپیہ روزانہ کما سکتی تھیں۔ لیکن دین کی خدمت کے لیے، انسانیت کی خدمت کے لیے چھوٹے سے شہر میں، ربوہ میں آ کر آباد ہو گئیں اور ہسپتال کی اُس وقت جو بھی ضرورت تھی اُس ضرورت کو پورا کیا اور پھر تمام عمر بے نفس ہو کر ایسی خدمت کی جو انتہادرجہ پر پہنچی ہوئی تھی۔…
اللہ تعالیٰ فضل عمر ہسپتال کو خدمت کرنے والی اور وفا کے ساتھ اپنے کام کو پورا کرنے والی، وفا کے ساتھ جماعت سے وابستہ رہنے والی اور خلافت کی اطاعت گزار مزید ڈاکٹریں بھی عطا فرماتا رہے اور جو موجود ہیں ان کو اللہ تعالیٰ اس کام میں بڑھاتا چلا جائے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۱؍اکتوبر۲۰۱۶ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۱؍نومبر۲۰۱۶ء)
اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے اور اپنے پیاروں کے قدموں میں جگہ دے۔ آمین