جلسہ میں شامل ہونے والوں کی ذمہ داریاں
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۳۱؍ اگست ۲۰۰۷ء)
آج اس خطبہ کے ساتھ ہی جماعت احمدیہ جرمنی کاجلسہ سالانہ شروع ہورہا ہے۔ ہم پر اللہ تعالیٰ کے انعاموں میں سے یہ بھی ایک بہت بڑا انعام ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمایا کہ سال میں ایک دفعہ ہم جمع ہو کر اپنی روحانی اور اخلاقی ترقی کے سامان بہم پہنچائیں۔ ایسے پروگرام بنائیں جو ہمیں خداتعالیٰ سے قریب کرنے والے اور تقویٰ میں بڑھانے والے ہوں۔ اس ارادے اور اس نیت سے یہ دن گزاریں کہ ہم نے اعلیٰ اخلاق اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کے بھی اعلیٰ معیار قائم کرنے ہیں۔ آپس میں محبت، پیار اور تعلق کو بڑھانا ہے، رنجشوں کو دورکرنا ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کرنی ہے، ہر قسم کی لغویات سے اپنے آپ کو پاک کرنا ہے۔ بظاہر یہ چند باتیں ہیں جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسہ کے مقاصد میں سے بیان فرمایا۔ لیکن یہی باتیں ہیں جو انسان کے مقصد پیدائش کو پورا کرنے والی ہیں۔ پس جلسہ پر آنے والے ہر احمدی کو ہمیشہ یہ بات اپنے پیشِ نظر رکھنی چاہئے کہ اس جلسہ میں شامل ہونا اپنے اندر ایک بہت بڑا مقصد رکھتا ہے۔ اگر خدا کی رضا کے حصول کی کوشش نہیں ہورہی، اگر تقویٰ میں ترقی کرنے کی کوشش نہیں ہورہی، اگر اخلاق کے اعلیٰ نمونے قائم کرتے ہوئے بندوں کے حقوق ادا نہیں ہورہے تو پھر جلسہ پر آنے کا مقصد پورا نہیں ہورہا اور اگر یہ مقصد پورا نہیں کرنا تو پھر اس جلسہ پر آنے کا فائدہ بھی کوئی نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعائیں بھی صرف انہی کے حق میں پوری ہوں گی جو اس مقصد کو سمجھ رہے ہوں گے، اس غرض کو سمجھ رہے ہوں گے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس جلسہ کا اجراء فرمایا تھا۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’مَیں ہرگز نہیں چاہتا کہ حال کے پیرزادوں کی طرح صرف ظاہری شوکت دکھانے کے لئے اپنے مبائعین کو اکٹھا کروں۔ بلکہ وہ علّتِ غائی‘‘ یعنی وہ بنیادی وجہ وہ مقصد’’ جس کے لئے میں حیلہ نکالتاہوں، اصلاح خلق اللہ ہے‘‘۔
پس ہر احمدی جو دنیا میں کسی بھی جگہ بسنے والاہے۔ جب اپنے ملک کے جلسہ سالانہ میں شریک ہوتا ہے یا اب بعض ذرائع اور سہولتوں کی وجہ سے بعض احمدی جن کو اللہ تعالیٰ نے آسانی اور وسائل مہیا فرمائے ہوئے ہیں دوسرے ممالک کے جلسوں میں بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ (یہاں بھی اس وقت بہت سے مختلف ممالک سے بعض احمدی آئے ہوئے ہیں جو جلسہ میں شمولیت کی نیت سے آئے ہیں )۔ ان سب شامل ہونے والوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جلسہ کے انعقاد کا جو مقصد تھا اسے پیش نظر ر کھنا چاہئے۔ اگر یہ مقصد پیش نظر نہیں، اگر جلسہ کے پروگراموں نے ایک احمدی کی روحانی اور اخلاقی حالت میں کوئی بہتری پیدا نہیں کی تو ایسے شامل ہونے والوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کراہت کا اظہار فرمایا ہے۔ اگر تقویٰ میں ترقی نہیں تو 20 ہزار یا 25 ہزار یا 30 ہزار کی حاضری بے مقصد ہے۔ تعداد بڑھنے سے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ آپؑ کی بعثت کا مقصد تو تب پورا ہوگا جب ہم تقویٰ میں ترقی کریں گے۔
آپؑ فرماتے ہیں :’’ تمام مخلصین، داخلین سلسلہ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور اپنے مولا کریم اور رسول مقبولﷺ کی محبت دل پر غالب آجائے اور ایسی حالت انقطاع پیدا ہوجائے جس سے سفر آخرت مکروہ معلوم نہ ہو‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 248 جدید ایڈیشن)
یہ کتنی بڑی ذمہ داری ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہم پر ڈالی ہے اور یہ کتنی بڑی توقع ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہم سے کی ہے۔ آپؑ تمام محبتوں پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ سے محبت ہم پر غالب دیکھنا چاہتے ہیں۔ کوئی ایسی محبت نہ ہو جو اس محبت کا مقابلہ کرسکے۔ اللہ اور رسولؐ کی محبت تمہارے دل میں قائم ہونی چاہئے۔ دنیا کی محبت آپؑ ہمارے دلوں سے مٹا دینا چاہتے ہیں لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں ہے کہ دنیا سے لاتعلق ہوجاؤ اور بالکل ہی جنگلوں میں جا کے بیٹھ جاؤ۔ آپ نے ایک جگہ یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتے تو یہ بھی کفران نعمت ہے۔ اگر کوئی زمیندار ہے اور اپنے کھیت کا حق ادا نہیں کرتا، اپنی زمینداری کا حق ادا نہیں کرتا تو یہ بھی کفران نعمت ہے۔ اگر کوئی تاجر ہے یا کسی کاروبار میں ہے یا ملازم ہے اور ان کاموں کی طرف توجہ نہیں دیتا جو اس کے سپرد ہیں، جن کی اس پر ذمہ داری ڈالی گئی ہے تو یہ بھی غلط ہے۔ لیکن اس کے باوجود ایک احمدی کے دل میں سب سے زیادہ محبت خدا کی ہو، اس کے رسولؐ کی ہو۔ دنیا کی یہ نعمتیں ایک احمدی کو دنیادار بنانے والی نہ ہوں، اس کو اللہ تعالیٰ کے احکامات سے دور لے جانے والی نہ ہوں۔ یہ کاروبار، یہ دنیاوی نعمتیں ایک احمدی کو تقویٰ سے دور ہٹانے والی نہ ہوں، اللہ تعالیٰ کی عبادت سے دور لے جانے والی نہ ہوں، عبادتوں کو بھلانے والی نہ ہوں، اعلیٰ اخلاقی قدروں کو ہم سے چھیننے والی نہ ہوں۔ یہ کاروبار اور یہ دنیاوی نعمتیں جو خداتعالیٰ نے ہمیں دی ہیں یہ ہمیں اللہ کی مخلوق کے حقوق غصب کرنے والی نہ بنائیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا غلبہ اور رسولﷺ کی محبت کا غلبہ ہمیں اس تعلیم پر چلانے والا ہو جو تعلیم ہمیں قرآن کریم نے دی ہے۔ اس محبت کی وجہ سے ہم اس اُسوہ پر چلنے والے ہوں جو آنحضرتﷺ نے قائم فرمایا ہے۔