حقیقی تقویٰ اختیار کرنے والے پر الٰہی افضال
ایک دنیا دار شخص کو جب یہ کہا جائے کہ اگر کسی میں حقیقی تقویٰ پیدا ہو جائے تو اسے دنیا جہان کی سب نعمتیں مل جاتی ہیں تو وہ یقیناً یہ کہے گا کہ یہ سب فضول باتیں ہیں اور مذہب کے نام پر اپنے ارد گرد لوگوں کو جمع کرنے کے لئے لوگ یہ باتیں کرتے ہیں۔ ہاں یہ بھی ٹھیک ہے کہ آجکل مذہب کے نام پر بعض لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں اور ان کے ذاتی مفاد ہوتے ہیں لیکن نہ تو ان میں خود تقویٰ ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے پیچھے چلنے والوں میں تقویٰ ہوتا ہے۔ لیکن اس کے مقابلے پر ہم دیکھتے ہیں کہ انبیاء اور ان کی جماعتیں، حقیقی تعلیم پر چلنے والے یہ لوگ تقویٰ کا ادراک رکھتے ہیں۔ اس دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کے کاروباروں میں لگے ہونے کے باوجود تقویٰ کی تلاش کرتے ہیں اور تقویٰ پر چلتے ہیں۔ مجھے سینکڑوں خط آتے ہیں جن میں اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم میں اور ہماری اولادوں میں تقویٰ پیدا کرے۔ یہ تبدیلی یقیناً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے اور اپنا عہد بیعت نبھانے کے احساس کی وجہ سے ہے۔ اس خواہش نے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اس کی خشیت اور خوف نے انہیں دنیا کی چیزوں سے بے پرواہ تو کیا ہے لیکن دنیا کی نعمتوں سے وہ محروم نہیں رہے۔ اللہ تعالیٰ انبیاء کو بھی اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے اور ان کے حقیقی ماننے والوں اور تعلیم پر چلنے والوں کو بھی ان دنیاوی نعمتوں سے نوازتا ہے۔ بعض دفعہ بعض عارضی تنگیاں ہوتی ہیں لیکن پھر اللہ تعالیٰ کے فضل ہوتے ہیں اور حالات بہتر ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح متقی میں قناعت بھی ہوتی ہے اور قناعت کی وجہ سے وہ معمولی تنگیوں کو برداشت بھی کرتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے جو فضل ہوتے ہیں، جو نعمت ملتی ہے اس پہ اظہار بھی کرتا ہے۔ پھر جو اللہ تعالیٰ اس کو دیتا ہے اس کے تھوڑے پر بھی متقی کو خدا تعالیٰ کے شکر کی عادت پیدا ہوتی ہے اور جب خدا تعالیٰ کے شکر کی عادت پیدا ہو جائے تو پھر اللہ تعالیٰ مزید فضل فرماتا ہے اور انہی فضلوں کو دیکھتے ہوئے ایک حقیقی مومن پھر قربانیوں کے لئے تیار بھی رہتا ہے اور کرتا بھی ہے۔ آج اس زمانے میں اس مضمون کا حقیقی ادراک ہم احمدیوں کو ہے جن کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ بھی ہے اور آپؐ کے غلامِ صادق کا زمانہ اور اسوہ بھی ہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۴؍ ستمبر ۲۰۱۵ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۵؍ ستمبر ۲۰۱۵ء)