اسلامی تعلیمات محبت، رواداری، امن اور سلامتی کی ضامن ہیں (زیر تبلیغ جرمن مہمانوں سے خطاب)
٭…اسلام پر کیے جانے والے بعض اعتراضات کے بصیرت افروز جواب
(جلسہ گاہ بمقام شٹٹگارٹ،۲؍ستمبر۲۰۲۳ء، نمائندگان الفضل انٹرنیشنل) جلسہ سالانہ جرمنی کے دوسرے روز حسبِ روایت امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز زیر تبلیغ افراد سے خطاب فرماتے ہیں۔ عموماً یہ اجلاس جلسہ گاہ میں ہی منعقد ہوتا ہے تاہم امسال نئی جلسہ گاہ میں وسعت کے باعث اس تقریب کا انعقاد ایک علیحدہ ہال میں کیا گیا تھا۔
مقامی وقت کے مطابق پانچ بج کر پانچ منٹ پر حضور انور ہال میں پُر جوش نعروں کی گونج میں داخل ہوئے۔ کرسیٔ صدارت پر رونق افروز ہونے کے بعد اجلاس کی باقاعدہ کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ خواجہ عبد النور صاحب نے سورۃ النساء کی آیت ۳۷، سورۃ النحل کی آیت ۹۱ اور سورۃ الحجرات کی آیت ۱۴ کی تلاوت اور جرمن میں ترجمہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔
پانچ بج کر بارہ منٹ پر حضور انور منبر پر رونق افروز ہوئے اور خطاب کا آغاز فرمایا۔
خطاب حضور انور
تشہد،تعوذ اور تسمیہ کے بعد حضورِ انور ایدہ اللّہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
معزز مہمانانِ گرامی السلام علیکم ورحمۃ اللّہ وبرکاتہ
مَیں آپ سب کا تہ دل سے شکرگزار ہوں کہ آپ سب ہماری دعوت پر یہاں ہمارے جلسہ سالانہ میں تشریف لائے۔ آپ سب کا یہاں تشریف لانا آپ کی وسعتِ قلبی اوراسلام کے بارے میں جاننے کی لگن کا عکاس ہے۔
آج مَیں اپنے اس مختصر تقریر میں اسلام پر کیے جانے والے بعض اعتراضات کاجواب دوں گا۔
اسلام پر شدت پسندی اور دوسروں کے حقوق غصب کرنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ سمجھا جاتا ہے کہ مسلمان غیرمسلم لوگوں کو اپنے سے کم تر سمجھتے ہیں۔ پھر عورتوں سے متعلق اسلام پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا۔
اسلام کی تعلیمات کا اصل ماخذ قرآن کریم ہے اور قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے بڑا واضح اعلان فرمایا ہے کہ اگر خدا چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی عقیدے پر قائم کرسکتا تھا لیکن خدا نے انسان کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اپنے عقیدے کا خود انتخاب کرے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام زور زبردستی اور جبر کے ساتھ دینی معاملات میں کسی کو مجبور نہیں کرتا۔ ہر شخص کو اپنا راستہ خود چننے کا حق حاصل ہے۔
قرآن کریم نے تو بڑا واضح فرمایا کہ خدا کی طرف سے جو کچھ نازل کیا گیا وہ حق ہے تاہم یہ ہر کسی کا اختیار ہے کہ وہ اس پر ایمان لائے یا نہ لائے۔
اسلام تلوار یا بندوق کے ذریعے نہیں بلکہ دلیل اور منطق اور پیار و محبت کے ذریعے لوگوں کو اپنی طرف راغب کرتا ہے۔ اسلام تو اس بات کا خواہاں ہے کہ لوگوں کے درمیان باہمی احترام کا تعلق پروان چڑھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بارہا بلند اخلاقی معیار قائم کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور حکم دیا ہے کہ معاشرے میں سب سے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ مسلمانوں کی جانب سے کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح اسلام نے اپنی رحم اور ہمدردی کی تعلیم کو صرف مسلمانوں تک مخصوص نہیں کیا بلکہ یہ تعلیم دی ہے کہ تمام بنی نوع انسان کے ساتھ عدل و انصاف، رواداری اور محبت کا سلوک کیا جائے۔ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ کسی قوم کی دشمنی بھی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف سے کام نہ لو۔ انصاف کرو کہ یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔
عدل و انصاف کی یہ تعلیم بدلہ لینے میں زیادتی کرنے سے منع کرتی ہے۔ اگر اس زمانے میں اسلام کی اس خوبصورت تعلیم پر عمل کیا جائے تو کسی قسم کی بدامنی نظر نہ آئے۔
ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اسلام خون خرابے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ قرآن کریم میں تو کہیں ظلم ڈھانے کے لیے تلوار اٹھانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ قرآن کریم تو اس حوالے سے بڑی کڑی شرائط کے ساتھ، انتہائی مخصوص حالات میں تلوار کا جواب تلوار سے دینے کی مشروط اجازت دیتا ہے۔ اگر اسلام کی ابتدائی تاریخ کا منصفانہ جائزہ لیا جائے تو انسان اس بات کو بڑی آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ جن جنگوں میں بانی اسلام آنحضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے شرکت فرمائی وہ تمام کی تمام صرف اور صرف دفاعی جنگیں تھیں۔ جو انتہائی مظالم کفارِ مکّہ نے تیرہ برسوں میں مسلمانوں پر ڈھائے تھے ان کی وجہ سے مسلمان پہلے تو مدینہ ہجرت کرگئے مگر اس ہجرت کے باوجود جب کفار کی ریشہ دوانیوں میں کمی نہ آئی اور وہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے قتل کے درپے ہوگئے تب ایسے شدید حالات میں خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو جہاد بالسیف کی مشروط اجازت عنایت فرمائی۔
سورہ حج کی آیات ۴۰ اور۴۱ میں خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ جنگ کی یہ اجازت ان لوگوں کو دی گئی ہے کہ جن پر صرف اس لیے ظلم کیا گیا کہ انہوں نے کہا کہ اللّہ ہمارا رب ہے۔ انہیں ان کے گھروں سے بےگھر کیا گیا۔ اگر خدا یہ انتظام نہ فرماتا تو نہ کوئی گرجا گھر باقی رہتا نہ کوئی یہود کا معبد خانہ قائم رہتا۔ نہ مساجد سلامت رہتیں۔
اس آیت میں صرف اسلامی مساجد کی حفاظت کا ذکر نہیں بلکہ تمام مذاہب کی عمارات اور مذہبی آزادی کے قیام کا انتظام فرمایا گیا ہے۔ اسلام کی تعلیم مذہبی آزادی اور آزادی اظہار رائے کی بہترین تعلیم ہے۔
دورِ حاضر میں نام نہاد شدت پسند مسلمان تنظیموں کا اسلام کی حقیقی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ انتہا پسند لوگ قرآن کریم کی بعض آیات اور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی چند احادیث کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرتے ہوئے اپنے مفیدِ مطلب باتیں وضع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو صرف عدل کا ہی حکم نہیں دیا بلکہ احسان کا حکم دیا ہے اور پھر اس سے بھی بڑھ کر ایتاءِ ذی القربیٰ کا درس دیا ہے یعنی ایسا بےنفس محبت کا اظہار کیا جائے جیسے عزیز و اقارب آپس میں معاملہ کرتے ہیں۔ پھر اسی جگہ مسلمانوں کو ہر طرح کی بغاوت سے منع کیا گیا ہے۔
قرآن کریم نے مسلمانوں کو عہدوں کی پاسداری کرنے اور وعدے نبھانے کی تعلیم دی ہے اور اس پر بڑا زور دیا ہے۔ اگر مسلمان کسی معاہدے کو توڑتا ہے تو وہ خدا کو جواب دہ ہے۔
مسلمانوں کی وفاداری اور ملک سے وفا کے متعلق بھی مغرب میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ وفادار اور ملکی قوانین کا پابند ہونا قرآنی تعلیم کی روشنی میں ملک کی خدمت ہے۔ مشہور حدیث ہے کہ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے۔ اس حدیث کی روشنی میں کیسے ممکن ہے کہ ایک مسلمان اپنے ملک کے لیے وفا دار نہ ہو؟ جبکہ عہدوں کی پاسداری اسلامی تعلیم کا حصہ ہے۔ چاہے کوئی قربانی دینی پڑے۔ میرا بھی واضح موقف ہے کہ کوئی کسی دوسرے ملک میں رہتا ہواور مادر وطن اَور ہو تو جس ملک میں رہ رہا ہے اس سے وفادار رہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسلمان معاشروں میں ضم نہیں ہوتے ۔ اگریہ اعتراض اس لیے ہے کہ مسلمان شراب خانوں میں نہیں جاتے۔ بے حیائی میں شامل نہیں ہوتے تو یہ ضم ہونا نہیں بلکہ ضم ہونے سے مراد ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کام کرنا اور ملک و قوم کو فائدہ پہنچانا ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مالی قربانی کا حکم دیا ہے کہ حقیقی مسلمان وہ ہے جو اللہ کی مخلوق کا اسی طرح خیال رکھے کہ جیسے اپنوں کا خیال رکھتاہے اور معاشرے میں ضرورت مند لوگوں کو ڈھونڈ کر مدد کرے۔ اس حکم میں جانوربھی شامل ہیں کیونکہ وہ اپنی مشکلات بیان نہیں کر سکتے۔ قرآن تعلیم دیتا ہے کہ معاشرے کے کمزور طبقوں کا خیال رکھو جو بھوک اور افلاس کا شکار ہیں۔ قرآن کریم ایسے لوگوں کوڈھونڈ کر ان کی مدد کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اگر تمام مسلمان اس پرعمل کریں اورمعاشرے کے کمزور ترین طبقوں کی مدد کریں تو وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں۔
قرآن کریم کی تعلیم کی رو سے انسانیت کی خدمت روحانی ترقیات کے حصول کے لیے لازمی ہے۔ دوسروں کے حقوق ادا کرنا بنیادی امر ہے۔ قرآن کریم فرماتا ہے کہ ہر شخص کا اپنا مطمح نظر ہےاور مسلمان کا مطمح نظر تقویٰ میں ترقی کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لوگوں سے محبت اور احترام سے پیش آیا جائے۔ بوڑھے والدین کے سامنے اُف نہ کہیں۔ اسلام ہمسائے کے حقوق ادا کرنے پر زور دیتا ہے اور ہمسائے کا دائرہ چالیس گھروں تک ہے۔ بے شک وہ ہم جلیس یا ہم سفر ہو۔ اگر انسان ان کے حقوق ادا کرنے لگ جائے تو کسی قسم کے مسائل پیدا نہ ہوں۔
قرآن کریم کی تعلیم ہے کہ یہ غلط ہے کہ دوسری اقوام سے تضحیک کی جائے۔ سویڈن میں قرآن کریم کو جلا کراس پر فخر کیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ کے خاکے بنائے گئے۔ ہمارا تو عقیدہ ہے کہ کسی بھی مذہب کے پیشوا اور شعائر کی تضحیک کرنا بدتہذیبی اور معاشرے کے امن کو برباد کرنے والا عمل ہے۔ اسلام دوسروں کے جذبات کا خیال رکھنے کی تعلیم دیتاہے۔
عورتوں سے متعلق اسلام کی تعلیم کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتاہے۔ اسلام عورتوں کے حقوق تب سے دے چکا ہے جب کوئی اس بارہ میں بات نہیں کرتا تھا۔ عورتوں کو تعلیم اور وراثت کا حق دیا گیا ہے۔ رسول اللہﷺ نے عورت کی مثال دی کہ عورت کمزرو پسلی ہے اگر سیدھا کریں توٹوٹ جائے گی۔ اسلام نے عورتوں کے جذبات کا خیال رکھا ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ ماؤں کے قدموں تلے جنت ہے۔ اگرعورت اپنی ذمہ داری پورا کرے تو وہ بھی جنت میں رہنے کی حقدار ہے۔ ایسی عورت بچوں کے لیے بھی جنت کا راستہ ہموار کرنے والی ہے۔
قرآن کریم کہتا ہے کہ عورتوں سے محبت سے پیش آؤ۔ عورت کو خود مختاری دی اور کہا کہ اس کی کمائی اس کا حق ہے۔ طلاق کی صورت میں تحفے اس کے پاس رہیں۔ دنیا میں جب طلاق تک بات جاتی ہےتو مالی معاملات تک بات جاتی ہے۔ پھر کہا کہ عورت اور مرد ایک دوسرے کا لباس ہیں۔ یعنی ان کا ایک جیسا مقام ہے۔ ان کا فرض ہے کہ ایک دوسرے سے محبت کریں، عزت سے پیش آئیں اورتکلیف نہ دیں۔
حضور نے فرمایا کہ مَیں نے مختصراً بتایا ہے کہ اسلام پر جو الزامات لگائے جاتےہیں وہ بالکل غلط ہیں۔ اسلام نے جو انقلابی تعلیم دی وہ کسی اور مذہب میں دکھائی نہیں دیتی۔ اسلام کو شدت پسندی کا مذہب قرار دینا بھی بالکل غلط ہے۔ اسلام محبت، رواداری، امن و سلامتی کی تعلیم دیتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ کے ذہن میں جو سوال تھے ان کے جواب آپ کو مل چکے ہوں گے۔ اگر ابھی بھی کوئی سوال ہے تو ہمارے مبلغین سے رابطہ کرلیں۔
مَیں دعا کرتا ہوں کہ تمام بنی نوع انسان اپنے خالق کو پہچانیں اور آپس میں محبت اور رواداری کے جذبات کو دلوں میں جگہ دیں۔ آخر پرمیں ایک مرتبہ پھر شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ اس تقریب میں شامل ہوئے۔
حضور انور کا یہ خطاب تقریباً پونے چھ بجے تک جاری رہا۔ اس کے بعد حضورانور نے دعا کروائی۔ جس کے بعد حضور انور ہال سے تشریف لے گئے۔
٭…٭…٭