حقوق کی ادائیگی ہی پُرامن معاشرے اور دنیا کے امن کا ضامن ہے (اختتامی خطاب جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۲۳ء)
٭…تجارت و لین دین، عوام الناس اور حکام و رعایا کے حقوق کا تفصیلی تذکرہ
٭…اسلام کی بیان فرمودہ یہ خوبصورت تعلیمات ہی وہ راہنما اصول ہیں جو معاشرے میں امن اور سلامتی کی ضمانت ہیں
٭…جماعت احمدیہ جرمنی کا ۴۷واں جلسہ سالانہ اپنی تمام تر اسلامی روایات اور برکات کو سمیٹتے ہوئے اختتام پذیر ہو گیا
٭…۴۷؍ہزار سے زائد افراد کی شمولیت
(جلسہ گاہ بمقام شٹٹگارٹ،۳؍ستمبر۲۰۲۳ء، نمائندگان الفضل انٹرنیشنل) حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ نماز ظہر و عصر کے بعد تین بج کر ۲۱منٹ پرجلسہ سالانہ جرمنی کے اختتامی اجلاس کے لیے کرسی صدارت پر رونق افروز ہوئے۔اجلاس کی کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ حافظ ذاکر مسلم صاحب کو سورۃ البقرہ کی آیات۱۹۶،۱۷۸سورۃ النساء آیت ۱۳۶،سورۃ الانعام آیت۱۵۳ سورۃ النحل آیت ۹۱ اور۹۲ کی تلاوت کرنے کی سعادت حاصل ہوئی جبکہ اس کا ترجمہ از تفسیر صغیر حامد اقبال صاحب کو پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ان آیات کا جرمن ترجمہ سٹیفن ہارٹرصاحب کو پیش کرنے کی سعادت ملی۔ بعد ازاں مرتضیٰ منان صاحب (مربی سلسلہ) کو حضرت مسیح موعودؑ کے منظوم کلام
اَے خدا اَے کارساز و عیب پوش و کردگار
اَے مرے پیارے مرے محسن مرے پروردگار
میں سے منتخب اشعار پیش کرنے کی سعادت ملی۔
اس کے بعد سیکرٹری صاحب تعلیم جماعت جرمنی نے گذشتہ چار سال میں تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والوں کے نام پڑھ کر سنائے۔
تقریباً پانچ بجے حضور انور منبر پر رونق افروز ہوئے اور اختتامی خطاب کا آغاز فرمایا۔
خطاب حضورانور
تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایدہ اللّہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
جیسا کہ اس سال برطانیہ کے جلسہ سالانہ اور بعض دیگر ممالک کے جلسہ ہائے سالانہ کے اختتامی خطابات میں مَیں اسلام کے مختلف طبقات کے قائم کردہ حقوق کے متعلق کچھ بیان کرتا رہا ہوں، اسی تسلسل میں آج بھی کچھ بیان کروں گا۔
اسلام کی بیان فرمودہ یہ خوبصورت تعلیمات ہی وہ راہنما اصول ہیں جو معاشرے میں امن اور سلامتی کی ضمانت ہیں۔
قرض اور تجارت کی لین دین کے متعلق اللّہ تعالیٰ نے بہت تفصیلی حکم دیا ہے تاکہ ہر طبقے کا حق ادا کیا جائے۔ حضورِ انور نے اس حوالے سے سورۃ البقرہ کی آیت ۲۸۳ کی تلاوت فرمائی اور ترجمہ پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ ایک بڑی تفصیلی آیت ہے۔ اس تفصیلی حکم سے واضح ہوتا ہے کہ اگر لین دین احسن طریق پرہوگا تو معاشرے میں امن بھی قائم ہوگا۔ بہت سے ایسے معاملات سامنے آتے ہیں جن میں ان امور کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ گواہوں کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ لکھنے والوں کو لکھنے سے روک دیا جاتا ہے یا لکھا ہی نہیں جاتا۔ معاہدے نہیں ہوتے جس وجہ سے لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں۔ آج کے ترقی یافتہ لوگوں کو تو اب یہ خیال آیا ہے کہ لکھت پڑھت ہونی چاہیے مگر اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے اس کا تفصیلی حکم دے دیا تھا تاکہ لین دین اور کاروبار اور تجارت میں بغیر کسی فتنے اور جھگڑے کے معاملات طے پاسکیں۔
قرض کے اتارنے کی کس قدر فکر ہونی چاہیے اس حوالے سے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ایک واقعہ یوں بیان فرمایا کہ بنی اسرائیل کے ایک شخص نے کسی دوسرے شخص سے ایک ہزار اشرفیاں قرض مانگیں۔ اس شخص نے گواہ کا مطالبہ کیا، اس پر قرض لینے والے نے کہا کہ اللہ ہی کافی گواہ ہے۔ اس پر اس شخص نے کہا کہ اچھا! پھر اپنا کوئی ضامن پیش کرو۔ اس پر قرض لینے والے نے کہا کہ اللہ ہی میرا ضامن ہے۔ اس نے کہا کہ تم نے خوب بات کہی اوراللہ کو گواہ بنانے پر اسے ایک ہزار اشرفیاں قرض دے دیں۔ جس نے قرض لیا تھا اس نے سمندر کا سفر کیا اور اپنا کام کیا۔ پھر قرض کی واپسی کے لیے جہاز کی تلاش شروع کی کہ جس پر سوار ہوکر مقررہ میعاد میں قرض کی ادائیگی کے لیے واپس پہنچ سکے، مگر اسے کوئی جہاز نہ ملا۔ بالآخر اس نے ایک لکڑی لی اور اسے کرید کر اس میں ایک ہزار اشرفیاں اور ایک خط رکھ دیا۔ پھر اس نے اس لکڑی کو یہ دعا کرتے ہوئے سمندر میں بہا دیا کہ اے اللہ! تُو جانتا ہے کہ مَیں نے فلاں شخص سے تجھے گواہ بناتے ہوئے قرض لیا تھا اور وہ شخص تیرے نام پر راضی ہوگیا تھا۔ پس مَیں نے تو بہت کوشش کی کہ کوئی جہاز مل جائے اور مَیں اس کے ذریعے اس کا مال اسے بھیج دوں، مگر مَیں کامیاب نہ ہوسکا۔ اب مَیں یہ مال تیرے سپرد کرتا ہوں۔
وہ لکڑی تیرتے ہوئے آگے چلی گئی۔ پھر وہ شخص واپس آگیا اور جہاز کی تلاش میں دوبارہ مصروف ہوگیا۔ وہ شخص جس نے قرض دیا تھا، ایک روز باہر نکلا کہ دیکھے کہ شاید کوئی جہاز مال یا روپیہ لے کر آیا ہو۔ اس کی نظر اس لکڑی پر پڑی جس میں مال رکھا ہوا تھا، وہ اس لکڑی کو گھر لے آیا تاکہ ایندھن کے کام آسکے۔ جب اس نے گھر پہنچ کر اس لکڑی کو چیرا تو اس میں اپنا مال اور ایک خط موجود پایا۔ کچھ عرصے بعد قرض لینے والا شخص بھی واپس آگیا اور ایک ہزار اشرفیاں واپس کرتے ہوئے کہنے لگا کہ اللہ کی قسم! مَیں نے جہاز کو بہت تلاش کیا تھا مگر مجھے کوئی جہاز نہ ملا تاکہ مَیں وقت پر تیرے پاس پہنچ سکتا۔ قرض دینے والے نے پوچھا کیا تُو نے میرے لیے کوئی رقم بھیجی تھی؟ اس نے کہا کہ مَیں نے ایک لکڑی میں اشرفیاں اور خط رکھ کر سمندر میں بہادیا تھا۔ قرض دینے والے نے کہا کہ اللّہ نے تیرا قرض اور خط مجھے پہنچا دیا تھا۔
یہ دو طرفہ دیانت کے وہ معیار ہیں جو ہمیں قائم کرنے ہیں۔ اس معیار کو سامنے رکھتے ہوئے ہم سب کو اپنے جائزے لینے چاہئیں۔
پھر قرض دار کو سہولت دینے کا حق بھی اسلام قائم کرتا ہے چنانچہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص تنگ دست قرض دار کو مہلت دے یا اسے قرض میں سے کچھ چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے عرش کے سائے تلے جگہ دے گا اور اس روز عرش کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم قرض داری سے بہت پناہ مانگتے تھے۔ ایک مرتبہ مَیں نے عرض کیا کہ آپ کیوں قرض سے پناہ مانگتے ہیں تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو قرض دار ہوگا وہ جھوٹی بات کہے گا اور وعدہ خلافی کرے گا۔
بہت سے لوگ توفیق ہوتے ہوئے بھی قرض کی ادائیگی میں لیت و لعل سے کام لیتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں پس ہر قرض دار کو قرض کی ادائیگی کی فکر ہونی چاہیے۔
قرض کی جلد ادائیگی کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک نسخہ بیان فرمایا ہے۔ آپ علیہ السلام سے ایک شخص نے عرض کیا کہ مجھ پر بہت قرض ہے۔ دعا کریں کہ قرض اتر جائے۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ استغفار بہت پڑھا کرو۔ انسان کے واسطے غموں سے سرخرو ہونے کے لیے یہی طریق ہے نیز استغفار کلیدِ ترقیات ہے۔
قرض کی ادائیگی کی پابندی کی اہمیت کا اندازہ اس روایت سے ہوتا ہے کہ آنحضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے ایک شخص کا جنازہ پڑھانے کی درخواست کی گئی تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص کے ذمے کوئی قرض تو نہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ صرف دو دینار قرض ہیں۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے جنازہ پڑھانے سے انکار کیا اور فرمایا کہ تم لوگ خود ہی جنازہ پڑھ لو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہ دو دینار مَیں ادا کردوں گا اس پر حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس شخص کا جنازہ پڑھایا۔
اسی طرح عامۃ الناس کے حقوق بھی اسلام قائم فرماتا ہے۔ خدا تعالیٰ بنی اسرائیل کی مثال بیان کرتے ہوئے مسلمانوں کو توجہ دلاتا ہے فرمایا اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین سے حسنِ سلوک کرو۔ اور قریبی رشتے داروں اور یتیموں اور مسکینوں سے عمدہ سلوک کرو اور لوگوں سے نیک بات کہا کرو۔
اس آیتِ کریمہ میں ہر طبقے کے حقوق قائم فرمائے گئے ہیں۔ خوبصورتی یہ ہے کہ صرف رشتے داروں یا محروم طبقے تک بات نہیں رکھی بلکہ تمام انسانوں سے حسنِ سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
اسلام بلا تفریق مذہب و ملت عوام الناس کے حقوق کی کس طرح حفاظت کرتا ہے، اس حوالے سے روایات میں ذکر ملتا ہے کہ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک جنازہ گزرا تو نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم احتراماً کھڑے ہوگئے۔ ہم نے عرض کی کہ یارسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یہ یہودی کا جنازہ تھا۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم لوگ جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجایا کرو قطع نظر اس سے کہ کس کا جنازہ ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ پاکستان میں مولوی اسلام اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا نام لے کر احمدیوں کے جنازوں کو روکتے ہیں ان کو دفن کرنے میں روکیں ڈالتے ہیں۔ یہ سب زیادتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر کرتے ہیں جبکہ آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تعلیم اور اسوہ تو یہ تھا جو اس روایت میں مذکور ہے۔ یہ ان لوگوں کا حال ہے اسی لیے اس ملک کا بھی یہ حال ہوگیا ہے۔ خدا کرے کہ ان لوگوں کو عقل آجائے۔
ایک موقع پر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہ پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی عربی کو عجمی پر کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں۔
شرائط بیعت کی چوتھی شرط میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی یہی بات رکھی ہے۔ جہاں فرمایا کہ عام خلق اللّہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی تکلیف نہیں دے گا۔ نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا نوع انسان سے شفقت اور ہمدردی کرنا بہت بڑی عبادت ہے۔ اخلاق ہی ساری ترقیات کا زینہ ہے۔ میری دانست میں یہی پہلو حقوق العباد کا ہے جو حقوق اللّہ کو تقویت دیتا ہے۔
حدیث میں ذکر آتا ہے کہ ایک صحابی نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ ایامِ جاہلیت میں مَیں نے بہت خرچ کیا تھا کیا وہ میرے کام آئے گا؟ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اسی صدقہ و خیرات کا ثمرہ ہے کہ تو مسلمان ہو گیا۔ خدا تعالیٰ کسی کے ادنیٰ فعل اخلاق کو بھی ضائع نہیں کرتا۔ پس مخلوق کی ہمدردی خدا تعالیٰ کے حقوق کی حفاظت کا باعث ہو جاتی ہے۔انسان تب تک انسان ہے جب تک وہ اپنے بھائی سے مروت کا سلوک کرتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے ایسے شخص کو قتل کیا کہ جو نہ بغاوت کرتا تھا نہ فساد کرتا تھا تو گویا اس نے تمام بنی آدم کو قتل کردیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ناحق قتل کرنا کس قدر بڑا جرم ہے۔
آج کل ملّاں نے جس قدر قتل و غارت گری کا بازارا گرم کیا ہوا ہے یا طالبان ہیں یا دوسرے ہیں تو کیا وہ اسلام کی خدمت کر رہے ہیں؟ بلکہ یہ فساد کے ذریعہ حقوق غصب کر رہے ہیں اور اس طرح خدا کی پکڑ کے نیچے ہیں، خواہ وہ اس بات کو نہ سمجھیں مگر وہ پکڑ کے نیچے آ چکے ہیں۔
حضر ت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ درجہ کمال کے دو ہی حصہ ہیں ایک تعظیم لامر اللہ دوسرا شفقت علیٰ خلق اللہ۔ اللہ کے حکموں کی عظمت کا تعلق خدا سے ہے۔ دوسرا پہلو خلقت سے تعلق رکھتاہے۔ اس کا کمال بڑا بھاری اور شاندار معجزہ ہے۔
رسول اللہﷺ کی زندگی میں ایسے بے شمار معجزے ہیں۔ ایک مشرک کو رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاں مہمان رکھا۔ اس کو اچھا بستر دیا۔ رات بھر وہ زیادہ کھانے کے سبب اسی کمرے میں رفع حاجت کرتا رہا۔ جس کے بعد وہ چلا گیا۔ رسول اللہﷺ نے صبح اسے تلاش کیا لیکن نہ ملا۔ اتنے میں وہ واپس آگیا اور دیکھا کہ آپﷺ خود اسے صاف کر رہے تھے ۔ رسول اللہﷺ غصہ نہ ہوئے بلکہ مزید خاطر مدارت کی۔ چنانچہ وہ شخص مسلمان ہوگیا۔ غرض یہ ہے اخلاقی معجزہ اور یہی صداقت کی دلیل ہوتی ہے۔ یہی اخلاقی معجزہ ہر احمدی کو دکھانا چاہیے۔ یہی وہ معیار ہیں جو ہر احمدی کو اپنانے چاہئیں۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ہمارا یہ اصول ہے کہ کل بنی نوع کی ہمدردی کرو۔ اگرایک ہمسایہ دیکھے کہ ہندو ہمسائے کے گھر میں آگ لگ گئی ہے اور وہ مدد نہیں کرتا تو وہ ہم میں سے نہیں۔
ہماری جماعت جو نیکی و پرہیز گاری سیکھنے کے لیے میرے پاس جمع ہے وہ اس لیے نہیں آتے کہ ڈاکو بنیں۔ مجھے کسی قوم سے دشمنی نہیں بلکہ ان کے اخلاق کی اصلاح چاہتا ہوں۔ اگر کو ئی گالیاں دے تو ہمارا شکوہ خدا کی عدالت میں ہے۔
اسلام کی تاریخ میں عوام الناس کے حقوق ادا کرنے کی کیا کوششیں کی گئیں؟ حضرت عمرؓ نے عوام الناس کی بہتری و بھلائی کے لیے کئی کام کیے۔ زراعت و پانی کی فراہمی کے لیے نہریں کھدوائیں۔ نہر ابو موسیٰ، نہر معقل، نہر امیر المومنین، کھدوائی۔ عمارتیں تعمیر کروائیں۔ مساجد، عدالتیں، فوجی چھاؤنیاں، بیرکس، دفاتر، سڑکیں، پل، چوکیاں، سرائے وغیرہ تعمیر کروائے۔ عوام الناس کے حقوق میں سے مارکیٹ کے حقوق میں حکومت کا عمل دخل ایک حد تک جائز ہے تاہم مال کی قیمت گرانے کی ممانعت ہے کیونکہ اس سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس ضمن میں حضور انور نے حضرت مصلح موعودؓ کا ایک ارشاد بیان فرمایا۔
پھر حکومت و رعایا کے حقوق کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اَطِیْعُوْا اللہَ وَ اطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَ اولِی الاَمْرِ مِنْکُمْ۔ یعنی اللہ اور رسول اور اولی الامرکی اطاعت کرو۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ اولی الامرسے جسمانی طور پر مراد بادشاہ ہے اور روحانی طور پر امام الزمان ہے۔
اس کی مزید وضاحت میں حضور انور نے فرمایا کہ مغربی حکومتیں بھی ہمارے حقوق دیتی ہیں۔ جو قوانین واضح اسلامی احکامات کے خلاف نہیں ہیں ان کی پابندی کرنی ضروری ہے۔ یہ نہیں کہ کافر حکومت ہے تو جو چاہے کر لو۔
امیر کی اطاعت کا حکم ہے۔ لیکن اس بات کو یقینی بنایا کہ اسلام کی بنیادی تعلیم کی روگردانی نہ ہو۔ حضور انور نے حدیث بیان فرمائی کہ ایک قافلہ کے امیر نے آگ میں داخل ہونے کا حکم دیا تو وہ نہ داخل ہوئے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو داخل ہوجاتے تو وہ اس میں قیامت تک رہتے۔
امیر کی اطاعت معروف میں ہے۔ جہاں اللہ اور رسول کے احکام کے تابع ہو۔ خودکشی حرام ہے۔ اس لیے آگ میں داخل ہونا حرام ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ نے حکومت کے فرائض پرایک خطاب میں فرمایا کہ سب سے پہلا فرض یہ ہے کہ حکومت رعایا کے فوائد، منافع، ضرورت، اتفاق، اخلاق، حفاظت، معیشت اور مسکن کی ذمہ دار ہے۔ یہ باتیں حکومت کی ذمہ داری ہے۔
ہر ایک کی مثال گڈریے کی سی ہے۔ وہ ہر ایک کا ذمہ دار ہے جو اس کے تحت ہے۔ بادشاہ جماعت کا ذمہ دار ہے۔ مرد گھر کا ذمہ داراورجوابدہ ہے۔ ملازم پیشہ اپنے مالک کا ذمہ دار اور جوابدہ ہے۔ ہر ایک اپنے حلقہ میں گڈریا یا نگران ہے۔ نوکر سے بادشاہ تک ہر کوئی نگران اور جوابدہ ہے۔ جیسے گڈریا کی طرح وہ حفاظت کرتا ہے اسی طرح حکومت اسلامی ہر قسم کے حقوق کا خیال رکھے۔ اگر سب اسلامی ممالک اس طرح خیال رکھیں تو اس طرح آئے دن کی لڑائیاں نہ ہوں۔
اسلامی حکومت ہر کسی کے لیے لباس، خوراک اور مکان مہیا کرے۔ یہ ادنیٰ سے ادنیٰ ضرویات ہیں جس کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ عوام الناس کو سوشل مدد دینا مسلمان حکومتوں کو حکم دیا ہے جس کو اب یورپ نے اپنا لیا ہے۔
ایک صحابی نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ جب کسی کو رعایا کا نگران بناتا ہے اور وہ اس حال میں مر جاتا ہے کہ وہ رعایا کو دھوکا دیتاہے تو جنت اس پر حرام کر دی جاتی ہے۔
حضرت عمرؓ نے قحط کے زمانے میں لوگوں کی ڈیوٹی لگائی جو اردگرد کی خبر دیتے۔ لوگ مدینہ آ گئے۔ چالیس ہزار کی تعداد میں لوگوں کا کھانا پکتا۔ کچھ روز بعد یہ تعداد ساٹھ ہزار تک پہنچ گئی۔ وہ وہاں رہے جب تک کہ بارش نہ ہوگئی۔ بعد میں ان کو رخصت کیا اور زادِ راہ بھی دیا۔
عہد نبوت میں جو لوگ معاہد تھے ان سے حضرت ابو بکرؓ نے از سر نو معاہدے کیے۔ حضرت ابوبکرؓ نے ذمی رعایا کو وہی حقوق دیے جو مسلمانوں کو دیے۔ ان کے معابد اور خانکاہوں کی حفاظت کا کہا۔ آج مسلمانوں کے عمل دیکھیں گرجے، خانکاہیں تو کیا وہ تو ہماری مساجد بھی گرا دیتے ہیں۔ جزیہ کی شرح آسان تھی اور صرف ان پر لاگو تھا جو ادا کر سکتے تھے۔
حضر ت عمرؓ نے امیر اور رعایا کے فرائض کو اس طرح بیان فرمایا کہ اے رعایا! ہمارے تم پر حقوق ہیں۔ ہماری غیر موجودگی میں بھی حکومت کی خیرخواہی چاہو۔ امام کا کام ہے کہ اس کی طبیعت میں ںرمی ہو۔ جہاں لوگوں کو خیرخواہی کا کہا وہاں امراء کو بھی توجہ دلائی۔ ایک شخص کو مقرر کیا گیا تھا جو نومولودوں کو رجسٹرڈ کرتا اور ان کے رزق کا انتظام کرتا۔ کاش کے آج مسلمان بجائے ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے کےاس تعلیم پر عمل کریں تو امن قائم ہو۔ اپنے قول و فعل سے اسلام کی تعلیم دکھانے والے ہوں لیکن ان لوگوں کو عقل نہیں آسکتی جب تک کہ زمانے کے امام کو نہیں مانیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کو عقل بھی عطا کرے۔
خدا تعالیٰ ہمیں اسلام کی تعلیم کے مطابق ان تعلیمات کو سمجھنے اور ہمارے ذمہ حقوق کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے۔
حضور انور نے فرمایا کہ مختلف وقتوں میں اب تک مَیں ۲۵؍قسم کے حقوق بیان کر چکا ہوں۔ یہ حقوق کی ادائیگی وہ بنیادی اصول ہے جو ہر پُرامن معاشرے اور دنیا کے امن کا ضامن ہے۔ اسلام ہی وہ دین ہے جس نے اس باریکی سے اس کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ہر احمدی کو اپنے اندر تبدیلی پیدا کرتے ہوئے اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ اس تعلیم کو پھیلانے کی ضرورت ہےاور مسلمانوں اور غیروں کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔
اللہ تعالیٰ تمام شاملین جلسہ کو خیریت سے اپنے گھروں کو واپس لے کر جائے جو بھی سیکھا، سنا اور سمجھا ہے اس کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔
خطاب کے آخر پر حضور نے فرمایا کہ گوحکومت کی طرف سے اعلان ہے کہ کورونا کی بیماری ختم ہوگئی ہے لیکن میرے علم میں چند ایک ایسے لوگ آئے ہیں جن کو ہوئی ہے۔ حضور انور نے مزید حفظ ماتقدم کے طورپر ہومیو پیتھک دوائیاں استعمال کرنے کی تلقین فرمائی اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔
حضور انور کا خطاب تقریباً چھ بجے تک جاری رہا۔اس کے بعد حضور انور نے دعا کروائی۔ دعا کے بعد حضور انور نے جلسہ سالانہ کی حاضری کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ امسال ۲۳۶۱۵؍خواتین ۲۳۶۲۲؍مرد اور۹۷۰؍ تبلیغی مہمان۔ اس طرح کُل حاضری۴۷۲۳۷؍ ہے۔
اس کے بعد مختلف گروپس کی صورت میں عربی، اردو، جرمن، ترکش، مقدونین اور افریقی زبانوں میں ترانے پیش کیے گئے۔ تقریباً سوا چھ بجے حضور انور فلک شگاف نعروں کی گونج میں جلسہ گاہ سے اپنی رہائش گاہ کی طرف تشریف لے گئے۔ راستہ میں دونوں طرف احباب جماعت اپنے محبوب آقا کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے کھڑے تھے۔ حضور انور بھی احباب جماعت کی طرف ہاتھ بلند کرکے ان کے سلام کا جواب دیتے۔
ادارہ الفضل کی جانب سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز، احباب جماعت احمدیہ جرمنی اوراحباب جماعت احمدیہ عالمگیر کو جلسہ سالانہ جرمنی کی مبارکباد پیش ہے۔ اللہ تعالیٰ اس تاریخی جلسے کو مثمر بثمراتِ حسنہ فرمائے اور تمام احمدی اپنے پیارے امام کے ارشادات پر عمل درآمد کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں۔
(خلاصہ تیار کردہ: حافظ نعمان احمد خان، ذیشان محمود)
٭…٭…٭