اس مسجد سے آپ کو ہمیشہ امن اور محبت کا پیغام ملے گا (حضور انور کا مسجد ناصر وائبلنگن کی افتتاحی تقریب سے پُر معارف خطاب)
سیّدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آج مورخہ ۵؍ستمبر ۲۰۲۳ء بروز منگل جرمنی کے شہر وائبلنگن (Waiblingen) میں ’سو مساجد سکیم‘ کے منصوبے کی تحت تعمیر ہونے والی ’مسجد ناصر‘ کا افتتاح فرمایا نیز اس حوالے سے علاقے کے معزّزین کے ساتھ منعقد ہونے والی افتتاحی تقریب کو رونق بخشی اور بصیرت افروز خطاب فرمایا۔
خطاب حضورِ انور
تشہد، تعوذ اور تسمیہ کے بعد حضورِانورایدہ اللّہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: میں سب سے پہلے آپ سب مہمانوں کا شکر گزار ہوں کہ آپ سب ہماری دعوت پر آج اس تقریب میں شریک ہو رہے ہیں۔
یہاں اس شہر میں مسجد کی تعمیر سے ہم احمدیوں کو ایک جگہ میسر آگئی ہے جہاں ہم اسلام کی تعلیمات کے مطابق اپنی عبادات بجا لاسکیں گے۔ مسجد صرف عبادت کی جگہ نہیں بلکہ یہ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانے کا مقام بھی ہے۔ پس یہاں پر مسجد کی تعمیر سے آپ سب یہ دیکھیں گے یہ آپ کے معاشرے میں امن کی طرف ایک مثبت قدم ثابت ہوگی۔
حضورِانور نے فرمایا کہ میں آپ سب کو بتاتا چلوں کہ حقوق العباد کی ادائیگی اور بنی نوع انسان کے لیے آسانی اور سہولت کا باعث بننا یہ اسلام کی بنیادی تعلیم ہے۔ اسی لیے انسانیت کی فلاح کے منصوبوں پر کام کرنا جماعت احمدیہ کا نمایاں وصف ہے۔ ہم دنیا کے پسماندہ علاقوں میں سکولوں کے ذریعے غریب اور مفلس طبقے تک تعلیم پہنچاتے ہیں۔ ہمارے سکولوں میں پڑھنے والے اکثر بچے احمدی بلکہ مسلمان بھی نہیں ہوتے، ہم صرف انسانیت کی خدمت کی خاطر سکول تعمیر کرتے ہیں۔
آج کی اس دنیا میں جہاں تمام مذاہب سے وابستہ لوگوں کو یہ شکوہ ہے کہ دنیا مذہب سے دور ہوتی جارہی ہے۔ دنیا میں مصائب اور مشکلات اس قدر ہیں کہ لوگ ان سے بےحد پریشان ہیں۔ جہاں تک کورونا وبا یا طوفان اور سیلاب جیسی تباہ کاریوں کا تعلق ہے یہ تو آسمانی آفات ہیں جبکہ ان کے علاوہ جنگ اور ایسے بہت سے مسائل انسانوں کے اپنے پیدا کردہ بھی ہیں۔ دراصل یہ تمام مسائل اس لیے پیدا ہورہے ہیں کیونکہ ہم یہ بھول گئے ہیں کہ ہم سب ایک آدم کی اولاد ہیں۔ قرآن کریم تو فرماتا ہے کہ یہ اقوام اور قبائل صرف تعارف کے لیے ہیں۔ ہر مذہب کے بانی نے لوگوں کو امن اور محبت کی ہی تعلیم دی ہے۔
ابھی یہاں بھی معزز معمانوں نے امن اور ملکی قانون کی پاسداری کی بات کی ہے۔ یہ بات ہمیں اسلام بھی سمجھاتا ہے، اسلام یہی کہتا ہے کہ جس ملک نے مذہبی آزادی دی ہے اس کے قوانین کی مکمل پابندی کی جائے۔ اسلام نے کہا کہ وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے۔
پھر تعلیم کی بات کی گئی تو میں یہ بتاتا چلوں کہ پیغمبرِاسلام صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا ہے کہ پنگھوڑے سے لے کر قبر تک علم حاصل کرو۔ اسی طرح اسلام عورتوں کی تعلیم پر بھی بہت زور دیتا ہے۔ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی اچھی تربیت کرے، انہیں تعلیم دلائے تو اس کا ٹھکانہ جنت میں ہوگا۔
حضورِانور نے فرمایا کہ یہاں آنے والے بیشتر احمدیوں سے ان کے اپنے ملک میں مذہبی آزادی چھین لی گئی تھی لیکن یہاں جرمنی کی ریاست نے انہیں مذہبی آزادی دی ہے۔ اس کے لیے ہم جرمن قوم اور انتظامیہ کے شکر گزار ہیں۔
اسلام ہمیں پڑوسیوں کے حقوق کی طرف بھی بہت توجہ دلاتا ہے۔ یہاں تک کہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چالیس گھروں تک تمہارا پڑوس ہے اور تمہارے لیے لازم ہے کہ ان کے حقوق ادا کرو۔ اسلام اوربانی اسلام نے پڑوسیوں کے اس قدر حقوق بیان کیے ہیں کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کہتے ہیں کہ ہمیں یہ خیال پیدا ہونے لگا کہ پڑوسیوں کا ہماری وراثت میں بھی حصہ ہوگا۔ پس یہاں مسجد کے قریب رہنے والے مقامی لوگ ہوسکتا ہے کہ اس مسجد کی تعمیر سے کچھ پریشان ہوں، آج بھی یہاں جب نعرے لگ رہے تھے یا گہما گہمی تھی تو اس سے ہوسکتا ہے کہ وہ کچھ تنگ ہوئے ہوں، لیکن مَیں آپ سب کو یقین دہانی کراتا ہوں کہ اس مسجد سے آپ کو ہمیشہ امن اور محبت کا پیغام ملے گا اور ان شاءاللہ کسی قسم کی کوئی تکلیف آپ کو ہماری طرف سے نہیں پہنچے گی۔
مَیں امید کرتا ہوں کہ اس مسجد کی تعمیر کے بعد یہاں کے احمدی اب پہلے سے بڑھ کر لوگوں کے حقوق ادا کریں گے اور اس طرح اسلام کی خوبصورت تعلیم کا عملی اظہار یہاں کے لوگوں کے سامنے ہوگا۔ خدا کرے کہ اس مسجد کی تعمیر آپ کے شہر اور علاقے کے لیے بہت اچھا اضافہ ثابت ہو۔
استقبالیہ تقریب
یاد رہے کہ افتتاحی تقریب کا آغازجرمن وقت کے مطابق سوا تین بجے کے قریب ہوا۔ اس تقریب کے ماڈریٹر خالد ساجد نے پروگرام کا تعارف کروایا اور پھرآفاق احمد نے سورة البقرہ کی آیات۱۲۸ تا۱۳۰کی تلاوت کی جبکہ محمد آفاق ریاض نے ان آیات کا جرمن ترجمہ پیش کیا۔
عبد اللہ واگس ہاؤزر صاحب امیرجماعت جرمنی نے Waiblingen شہر اور اس جماعت کا تعارف پیش کرتے ہوئے بتایا کہ یہ میرے لیے خوشی کا باعث ہے کہ مَیں یہاں آپ کے سامنے ہوں اور امام جماعت احمدیہ کی اقتدا میں نماز ادا کی۔ مجھے یاد آگیا کہ یہاں آٹھ سال قبل سنگِ بنیاد رکھا گیا اوردل سے نکلنے والے آنسو اور خون پسینہ لگا کر اس مسجد کو تعمیرکیا گیا۔ ۳؍اکتوبرکو خصوصی طور پر ہماری مسجد کے دروازے سب کے لیے کھلتے ہیں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک بار فرمایا تھا کہ مسجد کے دروازے سب کے لیے کھلے ہونے چاہیئں۔
Waiblingen تقریباً ۵۶؍ہزار باشندوں کا شہرہے اور شٹٹگارٹ سے شمال مشرق میں ہے۔ یہاں کی تعمیرات congested ہیں۔ یہ ایک خوبصورت اور معاشی لحاظ سے بھی اچھا شہر ہے۔
۱۹۸۸ء میں دس افراد پر مشتمل جماعت اس وقت قائم ہوئی جب پاکستان سے احمدی آکر یہاں آباد ہوئے۔ اب یہ ۴۰۰/ افراد پر مشتمل جماعت ہے۔ ابتدا میں نماز سینٹرز میں نماز اورجمعہ اور اجلاسات ہوتے تھے۔ پھر کوئی پانچ سال بعد ایک کیتھولک چرچ نے ہمیں بلامعاوضہ جگہ دی جس کے ہم شکر گزارہیں۔ پھر یہاں مخلتف جگہوں پر مختلف سینٹرز رہے۔ شروع سے ہی جماعت نے یہاں یومِ صفائی اور دیگر فلاحی پروگرام بنائے اور شہر کی طرف سے منعقد کیے جانے والے پروگرامز میں بھی شامل ہوتے رہے۔
یہاں مسجد بنانے کی خواہش ایک عرصہ سے تھی۔ ۲۰۰۶ء میں ایک جگہ سامنے آئی جو ۱۵۰۰؍مربع میٹر تھی۔ لارڈ میئر نے شہر میں مسجد بنانے کی تجویز دی اور صنعتی علاقے میں بنانے سے روکا کیونکہ ایسے علاقوں میں جانا مشکل ہوتا ہے۔ ۳؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کو ۵۷۵؍ مربع میٹر پر مشتمل پلاٹ شہر کے قریب خریدا گیا۔ میئر نے مسجد کی تعمیر کے حوالے سے جن منظوریوں کی ضرورت تھی ان کے حصول میں مدد فراہم کی۔ اس پر۱۔۵ ملین یوروز خرچ ہوئے۔
یکم دسمبر ۲۰۱۶ء کو اس مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا گیا، ۲۰۱۹ء میں یہاں تعمیراتی کام شروع ہوا۔ ۳۱؍مئی ۲۰۲۱ء کو تعمیرمکمل ہوئی۔ اس مسجد کا مسقف حصہ ۶۹۹؍ مربع میٹر پر مشتمل ہے۔ اوپر لائبریری، ملٹی پرپز ہال وغیرہ ہیں۔ اس میں مربی ہاؤس بھی بنایا گیا ہے۔
محترم امیر صاحب کے بعد مسٹر Seigfried Lorek (سٹیٹ سیکرٹری) نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایسے زمانہ میں رہتے ہیں جہاں ہمیں مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ کورونا، جنگ، افراطِ زَر، مہاجرین کے مسائل کے علاوہ دنیا کے معاشی واقتصادی حالات بھی کوئی اتنے اچھے نہیں۔ لوگوں کو فکر ہے کہ ان کے بچوں کا کیا مستقبل ہوگا؟ لوگ مذہب کی تلاش میں ہیں۔ مذہبی آزادی جرمنی کےآئین میں ایک بنیادی حق ہے۔ ہم نے مختلف مذاہب کے ساتھ مل کر زندگی گزارنی ہے۔ میں نے تین ماہ قبل اس مسجد کو دیکھا تھا۔ اس مسجد کے لیےآپ نے بہت سارے گھنٹے، بہت سا کام طوعی طور پر کیا ہے۔ یہ جماعت کا خاصہ ہے کہ طوعی خدمت بجا لانے والے بہت سے افراد آپ کے پاس موجود ہیں۔ ۱۹۸۸ء سے آپ اس شہر کے لیے اچھا نمونہ پیش کر رہے ہیں۔ آپ ہمیں اپنی تقریبات میں مدعو کرتے ہیں۔ آپ کے دروازے ہمارے لیے کھلے ہوتے ہیں۔ آپ لوگ خون کے عطیات دیتے ہیں۔ اب اس مسجد کے ذریعہ آپ بہتر خدمت کر سکتے ہیں۔ میری نیک تمنائیں ہیں کہ اس شہر میں آپ مثبت کردار اداسکیں۔ حضورِ انور کی تشریف آوری ہمارے لیے باعث اعزاز ہے۔
اس کے بعد Petra Haffner صاحبہ (ممبر صوبائی پارلیمنٹ، سیکیورٹی کونسل کی ممبر) نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سب افراد کو اس مسجد کے قیام پر مبارک ہو۔ مَیں پہلی بار کسی مسلمان تنظیم کے سامنے کھڑی ہو کر بات کر رہی ہوں۔ آپ کا سب کو کھلے دل سے خوش آمدید کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ ڈائلاگ کرنے کے خواہشمند ہیں۔ ہمارا آئین ہر باشندے اور تنظیم کو مذہبی آزادی دیتا ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ قانون کی پابندی کی جائے۔ بعض جگہ پر لوگوں کو مذہبی آزادی کی اجازت نہیں۔ لیکن یہاں سب کو اجازت ہے۔ میں آپ کی فلاحی کاموں پر ممنون ہوں۔ موصوفہ نے کہا کہ تعلیم کسی کے لیے مخصوص نہیں بلکہ یہ سب کا حق ہے۔ احمدی احباب مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ مَیں آپ کی آج کی تقریب میں دعوت پر ممنون ہوں اور آپ کو بھی پارلیمنٹ میں دعوت دینا چاہتی ہوں۔
اس کے بعد اگلے مہمان نے اظہار خیال کرتے ہوئےکہا کہ میں ضلع کی جانب سے آپ کو جوبلی کی مبارک باد دیتا ہوں۔ جلسہ پہلی بار یہاں منعقد ہوا۔ اس مسجد کی تعمیرپربھی مبارک باد۔ اب آپ کے پاس مسجد ہے جوشہر کے وسط میں ہے اوریہاں آسانی سے پہنچا جا سکتا ہے۔ میں اسائلم سیکرز کی بہتری کے لیے بھی کام کرتا ہوں۔ پاکستان میں آپ کی جماعت مسائل کا شکار ہے۔ ہم یہاں اور پورے جرمنی میں آپ کو رہائش دینے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ اپنے دروازے ہمارے لیے کھولتے ہیں۔ آپ ہر قسم کے تشدد کے خلاف ہیں۔ بزرگوں کی مدد کرتے ہیں فلاحی کاموں میں حصہ لیتے ہیں۔ کئی سالوں کے بعد یہاں مسجد کا افتتاح کرنا خوش آئند بات ہے۔ میری نیک تمنائیں آپ کے ساتھ ہیں۔
اس کے بعد مسٹر Bennedikt Paulowitch میئر آف Komen نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں مسجد کی تعمیر پر مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ یہ ایک خواب ہے جو پورا ہوا۔ یہ صرف آپ کے لیے خوشی کا باعث نہیں بلکہ پورے شہر کے لیے خوش کن امر ہے۔ جرمنی میں مذہب اور سیاست الگ الگ ہیں۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم مل کر کام کریں۔ آپ فلاحی منصوبوں اور امن کے لیے کام کرتے ہیں۔ اس زمانہ میں امن کے لیے کام کرنا بہت ضروری ہے۔ اس وقت کئی قومیں جنگ اور لڑائی میں مصروف ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم امن کے لیے اس وقت کام کر سکتے ہیں جب ہمارے دلوں میں امن ہو۔ یہ خوش کن امر ہے کہ یہاں مسجد تعمیر ہوئی ہے۔ مستقبل کے لیے میں اپنی نیک تمنائیں پیش کرنا چاہتا ہوں۔
٭…٭…٭