معجزہ کے معنی اور اس کی حقیقت
معجزہ عجزسے ماخوذہے بمعنی طاقت نہ ہونا،کمزوری ہونا،قدرت نہ رکھنا۔اورعجز کے لغوی معنی ہیںالعَجْزُ: نَقِیْضُ الحَزْمِ،… الضُّعْفُ، وَفِي حَدِيثِ عُمَرَ: وَلَا تُلِثُّوا بِدَارِ مَعْجِزَةٍ:أَي لَا تُقِيمُوا بِبَلْدَةٍ تَعْجِزُون فِيهَا عَنِ الِاكْتِسَابِ وَالتَّعَيُّشِ۔(لسان العرب-عجز) (أقرب الموارد-عجز)
عجزکےمعنی ہیں طاقت اور قوت کا نہ ہونا، کمزور ہونا۔ سیدناحضرت عمر فاروقؓ کی حدیث میں ہے: دارِمعجزہ میں نہ ٹھہرو۔ یعنی ایسے شہرمیں رہائش اختیار نہ کرو جس میں کسب و معا ش کے سلسلے میں کمزور ہو جا ؤ۔ (جہاں رزق و کمائی کاسلسلہ تمہیں عا جز کر دے اور تم معا شی معا ملہ میں کمزورہو جاؤ۔)
العَجْزِ:عَدْمُ الْقُدْرَۃِ وَفِی الحَدِیْثِ:کُلُّ شیءٍ بِقَدَرٍ حتّی العَجْزُ والکَیْسُ۔
العَجْزکے معنی ہیں قدرت نہ رکھنا۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہےکہ ہر چیز تقدیر الٰہی سے ہوتی ہے، یہاں تک کہ عاجزی اور مستعدی و دانائی بھی۔ (لسان العرب-عجز)
معجزہ دعویٰ نبوت میں لازم و ملزوم
اَلْمُعْجِزَۃُ :اَمْرٌخَارِقُ الْعَادَۃِ یَعْجَزُ الْبَشَرُ اَنْ یَّأْتُوْا بِمِثْلِہِ وَھُوَعَادَۃٌ مَقْرُوْنٌ بِدَعْوَی النَّبُوَۃِ وَالْھَاءُلِلْمُبَالغَۃِ ج : مُعْجِزَاتٌ۔ (اقرب الموارد۔عَجَزَ)
ترجمہ:معجزہ ایسا خارق عادت امر ہے کہ انسان عاجز آجائے کہ وہ اس کی مانند ومثال لے کر آئے اور معجزہ دعویٰ نبوت کے ساتھ لازم ملزوم ہےاور معجزہ میں ’’ہ‘‘مبالغہ پر دلالت کرتی ہے۔
علامہ احمد بن محمد القسطلانی نے معجزہ کے معانی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’اِنَّ الْمُعْجِزَةَ ھِیَ الْاَمْرُ الْخَارِقُ لِلْعَادَةِالْمَقْرُوْنِ بِالتَّحَدِّی الدَّالِّ عَلَی صِدْقِ الْاَنْبِیَاءِعَلَیْھِمُ الصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ ‘‘(المواھب اللد نیہ،الجز الثانی،المقصد الرابع،الفصل الاول فی معجزاتہ،تعریف المعجزۃ، صفحہ۴۵۰)
ترجمہ:معجزہ اس چیز کو کہتے ہیں جو مافوق العادت ہو اور انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کی پختہ دلیل کے طور پر صادر ہو۔
پس ان تعریفوں کی رو سے معجزہ کا اصطلاحی مطلب یہ بنے گا کہ مخالف جس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز آجائے اور معجزات مخالف کو کمزور کردیں اور معجزہ حق وباطل میں واضح فرق کردے اور صاحب معجزہ سے ایسے امور ظاہر ہوں جن کو انسانی عقل شناخت نہ کر سکے اور سطحی نظر والے اس کی کنہ کو نہیں پہنچ سکتے۔
معجزہ کی تعر یف بیان فرمودہ امام آخرالزمانؑ
حضر ت اقد س مسیح موعودعلیہ السلام فر ما تے ہیں: ’’سو اوّل جاننا چاہئے کہ معجزہ عادات الٰہیہ میں سے ایک ایسی عادت یا یوں کہو کہ اس قادر مطلق کے افعال میں سے ایک ایسا فعل ہے جس کو اضافی طور پر خارق عادت کہنا چاہئے پس امر خارقِ عادت کی حقیقت صرف اس قدر ہے کہ جو پاک لوگ عام طریق و طرز انسانی سے ترقی کرکے اور معمولی عادات کو پھاڑ کر قرب الٰہی کے میدانوں میں آگے قدم رکھتے ہیں تو خدائے تعالیٰ حسب حالت ان کے ایک ایسا عجیب معاملہ ان سے کرتا ہے کہ وہ عام حالاتِ انسانی پر خیال کرنے کے بعد ایک امر خارقِ عادت دکھائی دیتا ہے اور جس قدر انسان اپنی بشریت کے وطن کو چھوڑ کر اور اپنے نفس کے حجابوں کو پھاڑ کر عرصاتِ عشق و محبت میں دور تر چلا جاتا ہے اسی قدر یہ خوارق نہایت صاف اور شفاف اور روشن و تابان ظہور میں آتے ہیں۔‘‘(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد۲، صفحہ۶۸ حاشیہ)
یعنی جس قدر انسان اپنے نفس کو پاک کرے گا اسی قدر ایسے شخص سے خارقِ عادت امور سرزد ہوں گے۔
معجزہ کے لیے قرآنی اِصطلاحات
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’عربی زبان اور قرآن کریم کی یہ خصوصیت ہے کہ جو الفاظ وہ کسی مضمون کی طرف اشارہ کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے ان میں نہ صرف اشارہ پایا جاتا ہے بلکہ اس مضمون کی وضاحت بھی انہی الفاظ میں موجود ہوتی ہے۔مثلاً اُردو میں عام طور پر نشانات الٰہیہ کے متعلق معجزہ یا نشان وغیرہ الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔حالا نکہ اِن میں سے کوئی لفظ بھی ایسا نہیں جو معجزات کی غرض وغایت اور ان کے حقیقی مقصد کو واضح کرنے والا ہو معجزہ بھی یوں تو عربی زبان کا ہی لفظ ہے۔مگر قرآن کریم نے اس لفظ کو کہیں استعمال نہیں کیا۔اسی طرح حدیث میں بھی یہ لفظ استعمال نہیں ہوا۔ یہ لفظ لوگوں نے خود وضع کیا ہے۔ مگر یہ بھی اس مفہوم کو ادا نہیں کرتا جس کے لیے اسے تجویز کیا گیا ہے۔آیت کے معنی علامات اور نشان کے ہوتے ہیں۔ اسی سے نشان کا لفظ بنایا گیا ہے۔مگر نشان کا لفظ بھی وہ مضمون ادا نہیں کرتا جو آیت کا لفظ ادا کرتا ہے۔آیت کا لفظ اس با ت پر دلالت کرتا ہے کہ کوئی چیز کسی دوسری چیز کی طرف اشارہ کرتی اور اس کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔اس میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو نشان ظاہر کیے جاتے ہیں وہ بغیر کسی مقصد کے نہیں ہوتے۔کوئی نہ کوئی مقصد اور کوئی نہ کوئی غرض اُن کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے۔معجزہ کا لفظ صرف ایک طاقت کا اظہار کرتا ہے جیسے کسی کو ڈنڈامارا جائے اور وہ بھاگ جائےتو اس سےڈنڈا مارنےوالے کی طاقت کا اندازہ ہو جاتا ہے لیکن آیت یہ بتاتی ہےکہ کسی خاص مقصد کو سامنے رکھا گیا ہے اور اس مقصد کو واضح کرنے اور لوگوں کو سمجھانے کے لئے اسے ایک دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔‘‘ (تفسیر کبیر،سورۃ مریم،زیر آیت وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ… جلد۵،صفحہ۳۳۹)
قرآن کریم میں معجزےکےلیے اٰیَۃٌ،بُرْھَانٌ مُبْصِرَۃٌ، فُرْقَانٌ، سُلْطٰنٌکےالفاظ بھی مستعمل ہیں۔
معجزہ خارقِ عادت
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نےنشان وخارقِ عادت کے الفاظ بھی استعمال کیے ہیں۔جو نشان ولی سے ظاہر ہوں کرامت کہلاتے ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’معجزہ کی حقیقت یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ ایک امر خارق عادت یا ایک امر خیال اور گمان سے باہر اور امید سے بڑھ کرایک اپنے رسول کی عزت اور صداقت ظاہر کرنے کے لئے اور اس کے مخالفین کے عجز اورمغلوبیت جتلانے کی غرض سے اپنے ارادہ خاص سے یا اس رسول کی دعا اوردرخواست سے آپ ظاہر فرماتا ہے مگر ایسے طور سے جو اس کی صفات وحدانیت وتقدّس وکمال کے منافی ومغائر نہ ہو اور کسی دوسرے کی وکالت یاکارسازی کا اس میں کچھ دخل نہ ہو۔‘‘(ازالہ اوہام حصہ اول،روحانی خزائن جلد۳،صفحہ۲۶۱،بقیہ حاشیہ)
نیزفرمایا:’’معجزہ کی اصل حقیقت یہ ہے کہ ایسے امر خارق عادت کو کہتے ہیں کہ فریق مخالف اس کی نظیر پیش کرنے سےعاجز آجائےخواہ وہ امر بظاہرنظر انسانی طاقتوں کے اندر معلوم ہو۔‘‘(براہین احمدیہ حصّہ پنجم،روحانی خزائن جلد ۲۱صفحہ۵۹)
معجزہ مثلِ چاندنی رات
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’درحقیقت معجزات کی مثال ایسی ہے جیسے چاندنی رات کی روشنی جس کے کسی حصہ میں کچھ بادل بھی ہو مگر وہ شخص جو شب کو ر ہو جو رات کو کچھ دیکھ نہیں سکتا اُس کے لئے یہ چاندنی کچھ مفید نہیں۔ ایسا تو ہرگز نہیں ہوسکتا اور نہ کبھی ہوا کہ اِس دنیا کے معجزات اُسی رنگ سے ظاہر ہوں جس رنگ سے قیامت میں ظہور ہوگا۔ مثلاً دو تین سو مردے زندہ ہو جائیں اور بہشتی پھل اُن کے پاس ہوں اور دوزخ کی آگ کی چنگاریاں بھی پاس رکھتے ہوں اور شہر بشہر دورہ کریں اور ایک نبی کی سچائی پر جو قوم کے درمیان ہو گواہی دیں اور لوگ اُن کو شناخت کرلیں کہ درحقیقت یہ لوگ مرچکے تھے اور اب زندہ ہوگئے ہیں اور واعظوں اور لیکچروں سے شور مچا دیں کہ درحقیقت یہ شخص جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے سچا ہے۔ سو یاد رہے کہ ایسے معجزات کبھی ظاہر نہیں ہوئے اور نہ آئندہ قیامت سے پہلے کبھی ظاہر ہوں گے۔ اور جو شخص دعویٰ کرتا ہے کہ ایسے معجزات کبھی ظاہر ہوچکے ہیں وہ محض بے بنیاد قصوں سے فریب خوردہ ہے اور اُس کو سنت اللہ کا علم نہیں اگر ایسے معجزات ظاہر ہوتے تو دنیا دنیا نہ رہتی اور تمام پردے کھل جاتے اور ایمان لانے کا ایک ذرّہ بھی ثواب باقی نہ رہتا۔‘‘(براہین احمدیہ حصّہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱،صفحہ ۴۳تا ۴۴)
مطلب یہ کہ معجزات میں اخفاء کا پہلو ہونے کے باوجودجن کو خدا نور دے انہیں معجزات واضح اور روشن نظر آتے ہیں۔
معجزہ کی غرض
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اصلی اور بھاری مقصد معجزہ سے حق اور باطل یا صادق اور کاذب میں ایک امتیاز دکھلانا ہے۔ اور ایسے امتیازی امر کا نام معجزہ یا دوسرے لفظوں میں نشان ہے۔ نشان ایک ایسا ضروری امر ہے کہ اُس کے بغیر خدائے تعالیٰ کے وجود پر بھی پورا یقین کرنا ممکن نہیں اور نہ وہ ثمرہ حاصل ہونا ممکن ہے کہ جو پورے یقین سے حاصل ہوسکتا ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ مذہب کی اصلی سچائی خدائے تعالیٰ کی ہستی کی شناخت سے وابستہ ہے۔ سچے مذہب کے ضروری اور اہم لوازم میں سے یہ امر ہے کہ اُس میں ایسے نشان پائے جائیں جو خدائے تعالیٰ کی ہستی پر قطعی اوریقینی دلالت کریں۔“(براہین احمدیہ حصّہ پنجم،روحانی خزائن جلد ۲۱صفحہ۵۹)
نیز فرمایا:’’یاد رہے کہ معجزہ صرف حق اور باطل میں فرق دکھلانے کے لیے اہل حق کو دیا جاتا ہے اور معجزہ کی اصل غرض صرف اس قدر ہے کہ عقلمندوں اور منصفوں کے نزدیک سچے اور جھوٹے میں ایک مابہ الامتیاز قائم ہوجائے اور اُسی حد تک معجزہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو مابہ الامتیاز قائم کرنے کے لئےکافی ہو۔ اور یہ اندازہ ہر ایک زمانہ کی حاجت کے مناسبِ حال ہوتا ہے اور نیز نوعیّتِ معجزہ بھی حسبِ حال زمانہ ہی ہوتی ہے۔ یہ بات ہرگز نہیں ہے کہ ہر ایک متعصب اور جاہل اور بدطبع گو کیسا ہی مصلحتِ الٰہیّہ کے برخلاف اور قدرِ ضرورت سے بڑھ کر کوئی معجزہ مانگے تو وہ بہرحال دکھلانا ہی پڑے۔ یہ طریق جیسا کہ حکمت الٰہیّہ کے برخلاف ہے ایسا ہی انسان کی ایمانی حالت کو بھی مضر ہے کیونکہ اگر معجزات کا حلقہ ایسا وسیع کردیا جائے کہ جو کچھ قیامت کے وقت پر موقوف رکھا گیا ہے وہ سب دنیا میں ہی بذریعہ معجزہ ظاہر ہوسکے تو پھر قیامت اور دنیا میں کوئی فرق نہ ہوگا۔ حالانکہ اسی فرق کی وجہ سے جن اعمال صالحہ اور عقائد صحیحہ کا جو دنیا میں اختیار کئے جائیں ثواب ملتا ہے وہی عقائد اور اعمال اگر قیامت کو اختیار کئے جائیں توایک رَتی بھی ثواب نہیں ملے گا۔ جیسا کہ تمام نبیوں کی کتابوں اور قرآن شریف میں بھی بیان فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے دن کسی بات کا قبول کرنا یا کوئی عمل کرنا نفع نہیں دے گا اور اُس وقت ایمان لانا محض بیکار ہوگا۔ کیونکہ ایمان اُسی حد تک ایمان کہلاتا ہے جبکہ کسی مخفی بات کو ماننا پڑے لیکن جب کہ پردہ ہی کھل گیا اور رُوحانی عالم کا دن چڑھ گیا اور ایسے امور قطعی طور پر ظاہر ہوگئے کہ خدا پر اور روزجزا پر شک کرنے کی کوئی بھی وجہ نہ رہی تو پھر کسی بات کواُس وقت ماننا جس کو دوسرے لفظوں میں ایمان کہتے ہیں محض تحصیل حاصل ہوگا۔ غر ض نشان اس درجہ پر کھلی کھلی چیز نہیں ہے جس کے ماننے کے لئے تمام دنیا بغیر اختلاف اور بغیر عذر اور بغیر چون و چرا کے مجبور ہو جائے۔ اور کسی طبیعت کے انسان کو اُس کے نشان ہونے میں کلام نہ رہے اور کسی غبی سے غبی انسان پر بھی وہ امر مشتبہ نہ رہے۔‘‘(براہین احمدیہ حصّہ پنجم، روحانی خزائن جلد۲۱صفحہ۴۴۔۴۵)
یعنی معجزہ حق و باطل میں فرق کر دیتا ہے اوریہ سچے اور جھوٹے میں تمیز کردیتا ہے۔
معجزہ کس کو فائدہ دے سکتا ہے؟
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’غرض نشان اور معجزہ ہر ایک طبیعت کے لئے ایک بدیہی امر نہیں جو دیکھتے ہی ضروری التسلیم ہو بلکہ نشانوں سے وہی عقلمند اور منصف اور راستباز اور راست طبع فائدہ اٹھاتے ہیں جو اپنی فراست اور دوربینی اور باریک نظر اور انصاف پسندی اور خدا ترسی اور تقویٰ شعاری سے دیکھ لیتے ہیں کہ وہ… ایسے امور ہیں جو دنیا کی معمولی باتوں میں سے نہیں ہیں اور نہ ایک کاذب اُن کے دکھلانے پر قادر ہوسکتا ہے اور وہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ امور انسانی بناوٹ سے بہت دور ہیں اور بشری دسترس سے برتر ہیں اور اُن میں ایک ایسی خصوصیت اورامتیازی علامت ہے جس پر انسان کی معمولی طاقتیں اور پُرتکلف منصوبے قدرت نہیں پاسکتے اور وہ اپنے لطیف فہم اور نُورِ فراست سے اس تہ تک پہنچ جاتے ہیں کہ اُن کے اندر ایک نُور ہے اور خدا کے ہاتھ کی ایک خوشبو ہے جس پر مکر اور فریب یا کسی چالاکی کا شُبہ نہیں ہوسکتا۔ پس جس طرح سورج کی روشنی پر یقین لانے کے لئے صرف وہ روشنی ہی کافی نہیں بلکہ آنکھ کے نور کی بھی ضرورت ہے تا اُس روشنی کو دیکھ سکے اِسی طرح معجزہ کی روشنی پر یقین لانے کیلئے فقط معجزہ ہی کافی نہیں ہے بلکہ نورِ فراست کی بھی ضرورت ہے اور جب تک معجزہ دیکھنے والے کی سرشت میں فراستِ صحیحہ اور عقل سلیم کی روشنی نہ ہو تب تک اس کا قبول کرنا غیر ممکن ہے۔‘‘(براہین احمدیہ حصّہ پنجم،روحانی خزائن جلد۲۱صفحہ۴۵)
معجزہ اور شعبدہ میں فرق
حضرت مسیح موعودؑ سے ایک موقع پر پوچھا گیا کہ معجزہ کی قسم کے بعض امور اَور لوگ بھی دکھاتے ہیں؟
آپؑ نے فرمایا کہ ’’میں قصوں کو نہیں سنتا یہ جو فرانس یا کسی اور جگہ کے قصے سنائے جاتے ہیں یہ کافی نہیں سب سے پہلے معجزہ تو یہ ہے کہ انسان پاک دل ہو۔ بھلاپلید دل کیا معجزہ دکھاسکتاہے جب تک خداتعالیٰ سے ڈرنے والا دل نہ ہو توکیا ہے ؟ ضروری ہے کہ متقی ہو اور اس میں دیانت ہو۔ اگر یہ نہیں تو پھر کیا ہے ؟ تماشے دکھانےوالے کیا کچھ نہیں کر تے جالندھر میں ایک شخص نے بعض شعبدےدکھائے اوراس نے کہا کہ میں مولویوں سے ان کی بابت کرامت کافتویٰ لے سکتاہوں مگر وہ خود جانتاتھا کہ ان کی اصلیت کیا ہے بعد میں وہ اس سلسلہ میں داخل ہوگیا اس نے توبہ کی۔ جن ملکوں کے قصے بیان کئے جاتے ہیں وہاں اگر معجزے دکھانے والے ہوتے تو یہ فسق و فجور کے دریاوہاں نہ ہوتے۔ خداتعالیٰ کے نشانات دل پرایک پاک اثر ڈالتے ہیں اور اس کی ہستی کایقین دلاتے ہیں مگر یہ شعبدے انسان کو گمراہ کرتے ہیں ان کاخدا شناسی اور معرفت سے کوئی تعلق نہیں ہے اورنہ ہی یہ کوئی پاک تبدیلی پیدا کر سکتے ہیں اس لئے کہ یہ خداتعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوتے۔‘‘ (ملفوظات جلد۲صفحہ ۵۱۹تا۵۲۰)
معجزات کی شرائط
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب ایم۔اےمعجزات کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’…حضرت مسیح موعودؑ نے معجزہ کے لئے تین شرائط ضروری قرار دیں:
اوّل:یہ کہ اس میں کوئی نہ کوئی بات ایسی ہو جو دوسروں کو نبی کے مقابل پر عاجز کر دے اور اس کی تہ میں خدا کا ہاتھ نظر آئے۔
دوم:یہ کہ اس میں کوئی بات ایسی نہ ہو کہ جو نبی کی سچائی کو روز روشن کی طرح ظاہرکر دے اور تاریکی کا کوئی پہلو بھی باقی نہ رہے بلکہ اس کا کوئی نہ کوئی پہلوایسا رہنا چاہیے کہ ایک شخص جو اسے صحیح اور کھلی ہوئی نظر کے ساتھ دیکھنے کے لیے تیار نہیں شک میں مبتلا رہے۔
سوم:یہ کہ اس میں کوئی بات خدا تعالیٰ کی سنت اور وعدہ کے خلاف نہ ہو۔
یہ شرائط ایسی معقول اور قرآن و حدیث کےایسی مطابق تھیں کہ ا نہوں نے اس پیچیدہ مسئلہ پر گویا ایک سورج چڑھا دیا اور دونوں قسم کےلوگوں کا منہ بند کر دیا جن میں سے ایک نئی روشنی سے متاثر ہو کر معجزات کے وجود سے بالکل ہی منکر ہو رہا ہے اور دوسرا ہر قسم کےفرضی اور خلاف عقل اور خلاف سنت معجزات کو سچ سمجھ کر سینہ سے لگائے بیٹھاہے اور بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ دونوں قسم کے گروہ مسلمانوں میں کثرت کے ساتھ پائے جاتے ہیں یعنی ایک گروہ وہ ہےجو معجزہ کے معاملہ میں ہر قسم کے رطب و یابس کے ذخیرہ کو سچا سمجھ رہا ہے اور اس گروہ کے لیے معجزہ کی کوئی حدود نہیں اور دوسرا گروہ وہ ہے جو دہریت کے مخفی اثر کے نیچے آ کر معجزہ کےوجود سے ہی منکر ہو گیا ہےاور صرف خشک فلسفیانہ باتوں پر دین کی بنیاد رکھتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑنے ان دونوں گروہوں کی تردید فرما کر ایک نہایت سچا اور وسطی رستہ کھول دیا۔‘‘(سلسلہ احمدیہ،معجزات کی حقیقت،جلداول،صفحہ۲۸۰۔۲۸۱)
سائنسدان معجزات کے منکر نہیں
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب ایم اےفرماتے ہیں : ’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ سائنس کے ساتھ مذہب کا کوئی حقیقی ٹکراؤ ممکن نہیں کیونکہ سائنس خدا کا فعل ہے جو دنیا میں عمل کی صورت میں ظاہر ہوا ہے اور مذہب اس کا قول ہے۔جو وحی و الہام کے ذریعے اس کے منشاء کو ظاہر کرتا ہے اور جب ایک معمولی عقلمند انسان کے قول و فعل میں بھی تضاد نہیں ہو سکتا۔تو خدا جیسی علیم و حکیم ہستی کے قول و فعل میں تضاد کس طرح ممکن ہے۔پس اگر کسی بات میں مذہب اور سائنس کے درمیان بظاہر تضاد نظر آئے تو اسے حقیقی تضاد نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ ایسا تضاد صرف اس وجہ سے نظر آتا ہے کہ بعض اوقات کوتاہ بین لوگ ایسی باتوں کو بھی سائنس کے ثابت شدہ حقائق سمجھنے لگ جاتے ہیں جو دراصل ثابت شدہ حقائق نہیں ہوتے بلکہ محض تھیوریاں یعنی سائنسدانوں کی خیال آرائیاں ہوتی ہیں۔جن کی بنیاد مشاہدہ پر نہیں ہوتی بلکہ صرف تخیل پر ہوتی ہے۔جس میں بعض اوقات سائنسدان بھی مبتلا ہو جاتے ہیں۔کیونکہ ان کے دل میں بھی کبھی کبھی فلسفیوں کی طرح دماغی خیال آرائی کا شوق چراتا ہے۔اس حصہ کو تھیوری کہتے ہیں۔جسے کسی عقلمند کے نزدیک وہ وزن حاصل نہیں ہوتا جو ایک ثابت شدہ حقیقت کو حاصل ہے لیکن بعض اوقات نا واقف لوگ غلطی سےسائنسدانوں کے اس قسم کے خیالات کو بھی سائنس کے ثابت شدہ حقائق سمجھنے لگ جاتے ہیں۔اور پھر انہیں مذہب کے خلاف پا کر شکوک میں مبتلا ہونے لگتے ہیں۔ورنہ در اصل سائنس اور مذہب میں کوئی حقیقی ٹکراؤ نہیں کیونکہ دونوں کی بنیاد مشاہدہ پر ہےاور مشاہدہ میں ٹکراؤ نا ممکن ہوتا ہے۔‘‘ (مضامین بشیر، سائنسدان معجزات کے منکر نہیں…،جلد اول صفحہ۶۳۹)
معجزاتِ رسول کی وسعت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’آنحضرتﷺکے معجزات تو چاروں طر ف سے چمک ر ہے ہیں وہ کیونکر چھپ سکتے ہیں صرف معجزات جو صحا بہ کی شہا د تو ں سے ثا بت ہیں وہ تین ہزار معجزہ ہے اور پیشگو ئیا ں تو شا ید دس ہزار سے بھی زیادہ ہوں گی جو اپنے وقتوں پر پو ری ہو گئیں اور ہوتی جاتی ہیں۔ ‘‘(ایک عیسا ئی کے تین سو ال اور ان کے جوابات،روحا نی خزائن جلد۴صفحہ ۴۴۵)
معجزات خدا کی ہستی پر شاہد
حضر ت مسیح موعو دعلیہ السلام فر ما تے ہیں:’’معجزات سے مراد فرقان ہے جو حق اور باطل میں تمیز کر کےدکھا دےاور خدا کی ہستی پر شاہدِ ناطق ہو‘‘۔(ملفوظات جلد۴صفحہ ۲۳۶)
معجزہ تو اسلام کی پہلی اینٹ ہے
حضر ت مسیح موعو دعلیہ السلام فر ما تے ہیں:’’معجزات اور مکالماتِ الٰہیہ ہی ایسی چیزیں ہیں جن کا مردہ ملِتوں میں نام و نشان نہیں ہے اور معجزہ تو اسلام کی پہلی اینٹ ہے۔‘‘(ملفوظات جلد۱صفحہ ۵۷۸)
حضر ت مسیح موعو دعلیہ السلام فر ما تے ہیں:’’اور منجملہ دلائل نبوت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ایک یہ ہے کہ وہ عین ضرورت کے وقت میں آئے اور اس دنیا سے کوچ نہ کیا جب تک کہ دین کے امر کو کمال تک نہ پہنچا د یا۔ اور اگر دوسرے معجزات کا حال پوچھو تو بخدا کہ وہ اِس قدر ہیں کہ ہم گن نہیں سکتے اور اسلامی کتابیں اُن میں سے بہت سے معجزات سے بھری پڑی ہیں اور قوم میں مشہور اور متواتر ہیں۔ پھر یہ بھی بات ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے معجزات جیساکہ اوّل زمانہ میں ظاہر ہوئے تھے۔ ایسا ہی وہ اس زمانہ میں بھی ظاہر ہو رہے ہیں اور یہ امر ایک ایسا ثابت ہے جس میں کوئی رخنہ نہیں اور نہ اس کی صحت میں کچھ نقص ہے اور بخدا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت اجلیٰ بدیہیات ہے۔ اور کسی زمانہ میں نشانوں کے نور اُس سے علیحدہ نہیں ہوتے اور ان سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا۔‘‘(نجم الھدیٰ،روحانی خزائن جلد۱۴صفحہ۴۵۔۴۶)
پس ان تعریفوں کی رو سے معجزات کے معنی واضح ہو گئے ہیں کہ ایسے نشانات، برہان اورآیات جن کے آگے مخالف سرنگوں ہو جائے اور ان نشانات اور معجزات سے صاحب معجزہ کے سچے ہونے کے دلائل ظاہر ہوں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اس کے پیچھے کوئی بالا ہستی کام کررہی ہے۔-