تمام کمالاتِ انسانی آنحضرتﷺ کو ملے اور ان میں ہمیشہ اضافہ ہوتا رہتا ہے(قسط اول)
حضرت مصلح موعودؓ نے اس خطبہ جمعہ میں نبی کریمﷺ کے کمالات کے بارے میں روشنی ڈالی ہے نیز اس کے ساتھ اس بات کی بھی جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ نبی کریمﷺ کی شان میں غلو نہ کیا جائے۔ قارئین کے استفادہ کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جارہا ہے۔(ادارہ)
(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۲۲؍دسمبر ۱۹۳۹ء)
حضور انور نے تشہد و تعوّذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
تھوڑے ہی دن ہوئے ایک شخص نے مجھ سے ایک سوال کیا تھا جو سوال و جواب غالباً ’’الفضل‘‘میں شائع ہوچکے ہیں اس وقت اختصار کے ساتھ مَیں نے اس سوال کا جواب دے دیا تھا۔ آج جس وقت مَیں خطبہ کے لئے کھڑا ہوا تو اذان سنتے ہی میرا ذہن اس سوال اور اس کے ایک اَور جواب کی طرف چلا گیا جو خود رسولِ کریمﷺ نے اس سوال کا دیا ہے اور مَیں نے سوچا کہ
آج اسی سوال کے جواب کو خطبہ کے ذریعہ سے اس روشنی میں جو رسول کریمﷺ کی سند سے حاصل ہوئی ہے بیان کردوں۔
یہ سوال غالباً میرے کسی خطبہ کی بنا پر کیا گیا تھا جو ’’الفضل‘‘میں شائع ہوچکا ہے اور سوال یہ تھا کہ آپ بتائیں
کیا آنحضرتﷺ تمام کے تما م کمالات اس دنیا میں حاصل نہیں کر چکے تھے؟
غالباً میرا کوئی مضمون یا خطبہ کسی ایسے موضوع کے متعلق تھا کہ جس سے سائل کو یہ شبہ ہوا کہ شاید میرے نزدیک رسول کریمﷺ کو تمام کمالات حاصل نہ تھے۔ مَیں نے جو جواب دیا اس کا مفہوم یہ تھا کہ اگر تو تمام کمالات سے مراد یہ ہے کہ جو ترقیات کوئی انسان حاصل کر سکتا ہے اور جو کمالات انسان کو حاصل ہوسکتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کئے تو یہ ٹھیک ہے لیکن اگر تمام کمالات اللہ تعالیٰ کی نسبت سے ہیں اور اس کے یہ معنے لئے جائیں کہ اب یہ معاملہ ختم ہے اور مزید کسی ترقی کی گنجائش نہیں تو یہ غلط ہے جتنے فضل آپؐ پر نازل ہوئے ہیں وہ ان سب سے زیادہ ہیں جو آپ سے پہلوں پر ہوئے یا پچھلوں پر ہوں گے اور اگر اس نسبت سے کہا جائے کہ رسول کریمﷺ کو تمام کمالات حاصل تھے تو یہ ٹھیک ہے۔ کیونکہ جو کمالات حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حاصل ہوئے، حضرت نوح علیہ السلام کو حاصل ہوئے، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حاصل ہوئے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حاصل ہوئے وہ آنحضرتﷺ کو بھی حاصل ہوئے۔ اسی طرح دوسرے ملکوں کے نبیوں کو جن کے نام قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں یا نہیں ہوئے جو کمالات حاصل ہوئے وہ آ پ کو بھی حاصل ہیں اور نہ صرف انبیاء کے کمالات بلکہ دوسرے لوگ بھی جن کو کوئی نہ کوئی ایسا کمال حاصل تھا جو کسی نہ کسی رنگ میں مذہب پر اثر انداز ہوتا ہے۔
وہ خواہ آپ سے پہلے ہوئے ہیں یا بعد میں پیدا ہوں گے ان کے سب کمال آنحضرتﷺ کو حاصل ہیں بلکہ آپ کے بعد آنے والوں کو جو کمال بھی حاصل ہوگا ظلّی طور پر حاصل ہوسکے گا۔
یہ ہمارا عقیدہ ہے اور اگر کوئی اس کے خلاف عقیدہ رکھتا ہے تو اس کے یہ معنے ہیں کہ اس نے آنحضرتﷺ کے دعویٰ پر غور ہی نہیں کیا لیکن اگر تمام کمالات کے معنے یہ لئے جائیں کہ خدا تعالیٰ کے قرب کی تمام راہیں اپنی انتہا ء تک آپ کو حاصل ہوگئیں اور اب کوئی اَور راہ باقی نہیں۔اور کوئی اَور درجہ باقی ہے جو رسول کریمﷺ کو حاصل ہوسکتا ہو تو یہ بالکل غلط بات ہے اور یہ جواب مختصر الفاظ میں میری طرف سے ’’الفضل‘‘میں شائع ہوا تھا۔ پہلے بھی یہ مضمون مَیں نےکئی بار بیان کیا ہے لیکن انسان کو جس سے محبت ہوا س کے متعلق ظاہری شان و شوکت کے الفاظ کے استعمال پر وہ بڑا حریص اور دلیر ہوتا ہے اور مسلمانوں کو آنحضرتﷺ سے جو محبت ہے اس کے ماتحت وہ چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا لفظ آپ کے متعلق نہ بولا جائے جس سے معلوم ہو کہ آپ کے لئے ابھی کوئی مقام طے کرنا باقی ہے۔ اس لئے مسلمانوں میں سے جو لوگ عارف نہیں ہیں ان کو یہ بات ناگوار گزرتی ہے اگر یہ کہا جائے کہ رسول کریمﷺ نے جو مراتب حاصل کئے ہیں ان سے آگے بھی ابھی مدارج باقی ہیں لیکن اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیےکہ کسی ترقی کرنے والی چیز کا کسی مقام پر جا کر رک جانا اس کے تنزل کی دلیل ہوا کرتی ہے۔
پھر اس امر کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ
رسول کریمﷺ کی شان خواہ کتنی بلند ہو اور آپﷺ سے ہمیں خوا ہ کتنی محبت ہو اللہ تعالیٰ کی شان بہرحال آپؐ کی شان سے بہت بالا ہے
خدا تعالیٰ ازلی ابدی ہے اور محمد رسول اللہﷺ آپ کے فیضانوں میں سے ایک بہت بڑا فیضان ہیں اور یہ آپ کی ذات سے دشمنی ہوگی کہ ہم آپ کو کوئی ایسا مقام دےدیں جس کے دینے سے خدا تعالیٰ کا مقام چھنتا ہو۔رسول کریمﷺ خود بھی اس شان کو کبھی پسند نہیں کر سکتے بلکہ ایسا خیال کرنے والے کو اپنا بدخواہ سمجھیں گے۔آپ کا اپنا عمل اس بات پر شاہد ناطق ہے۔ آپ نہایت زبردست قوتوں کے مالک تھے اور آپ کو ایسے ایسے کاموں کی توفیق ملی جو بڑے بڑے قوی انسان بھی نہیں کر سکتے اور
جس کے قویٰ زیادہ مضبوط ہوں اسے جان کنی کی تکلیف زیادہ ہوا کرتی ہے۔اس لئے آپ کو یہ تکلیف بہت زیادہ تھی۔
حضرت عائشہ ؓفرماتی ہیں کہ میں پہلے سمجھا کرتی تھی کہ جسے جان کنی کی تکلیف زیادہ ہو وہ اچھا آدمی نہیں ہوتا مگر جب میں نے آنحضرتﷺ کو دیکھا تو اپنی رائے بدلنی پڑی۔ اس انتہائی تکلیف کےوقت بھی آپ کو اللہ تعالیٰ کے مقام کا اتنا خیال تھا کہ آپ چونکہ جانتے تھے کہ میرے اتباع کو مجھ سے اتنا عشق ہے کہ ممکن ہے میرے مرتبہ کے متعلق غلو سے کام لیں اس لئے اس تکلیف کے وقت میں بار بار آپ کے منہ سے یہ الفاظ نکلتے تھے کہ خدا تعالیٰ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنا لیا۔ آپ بار بار یہی فرماتے تھے۔ گویا اپنی قوم کو آخری سبق جو آپ نے دیا وہ یہی تھا کہ مجھے کوئی مشرکانہ مقام نہ دینا اور اگر تم نے ایسا کیا تو یہ خیال مت کرنا کہ میں اس سے خوش ہوں گا بلکہ میری روح ایسا کرنے والوں پر لعنت کرے گی۔ پس خواہ رسول کریمﷺ ہی ہوں آپ کی طرف ایسا مقام منسوب کرنا جو اللہ تعالیٰ کے درجہ کی تنقیص کا موجب ہو آپ کے لئے خوشی کا موجب نہیں بلکہ ایسا کرنے والے پر آپ کی لعنت ہوتی ہے اور موت کے وقت کی لعنت تو بہت خطرناک ہوتی ہے۔ جو لوگ سچے مذہب کے پیرو نہیں مثلاً ہندو وغیرہ قومیں وہ بھی موت کےوقت کی بددعا سے بہت ڈرتی ہیں۔ کسی کے ماں باپ فوت ہو رہے ہوں تو ان کی اس وقت کی دعایابددعا کو بہت اہمیت دی جاتی ہے تو
خدا تعالیٰ کا وہ رسول جو سب پہلے اور پچھلے انبیاء کا سردار ہے اس کے مرنے کے وقت کی بددعا کو کس قدر اہمیت حاصل ہونی چاہیے اور یہ لعنت کتنی بڑی لعنت ہے۔
یاد رکھو اللہ تعالیٰ غیر محدود ہے۔ باقی سب محدود ہیں۔ غالباً اسی سلسلہ میں مَیں نے ایک قصہ بھی سنایا تھا کہ ایک دفعہ جمعہ کے روز ایک شخص مجھے ملنے آیا اور کہا کہ میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔ میں نماز کے بعد مسجد ہی میںبیٹھ گیا۔ وہ فقیری طرز کا آدمی تھا اور اباحتی طریق رکھتا تھا۔ان کا خیال ہے کہ جب انسان خدا کو پا لے تو اسے نماز روزہ کی ضرورت نہیں کیونکہ نماز روزہ بطور سواری کے ہیں اور جب کوئی سالک یار کے دَر پر پہنچے جائے تو پھر اسے کسی سواری کی کیا ضرورت۔ اس وقت سوار رہنا تو گستاخی ہے۔ اسی عقیدہ کو مدّ نظر رکھ کر اس نے مجھ سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص کشتی میں بیٹھ کر دریا کے پار جانا چاہے تو جب وہ دوسرے کنارے پر پہنچ جائے اس وقت بیٹھا رہے یا اُتر جائے؟ مجھے اس وقت تک معلوم نہ تھا کہ وہ کن خیالات کا آدمی ہے مگر
جونہی اس نے سوال کیا اللہ تعالیٰ نے معاً میرے دل میں ڈال دیا کہ یہ اباحتی طریق کا آدمی ہے۔
یہ سوال سُن کر لازماً ہر شخص یہی کہے گا کہ جب کنارہ آگیا تو کشتی سے اتر جانا چاہیے لیکن اگر میں اُسے یہ جواب دیتا تو وہ کہتا کہ نماز روزہ وغیرہ تو خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے ذرائع ہیں جب انسان پہنچ جائے تو پھر ان کا کیا فائدہ؟ مگر اللہ تعالیٰ نے معاً میرے دل میں اس کے ارادہ کو ظاہر کر دیا اور میں نےجواب دیا کہ جس دریا کو پار کرنے کے لئے وہ کشتی میں بیٹھا ہے اگر تو وہ محدود ہے تو کنارہ پر پہنچ کر اُتر جانا چاہیے لیکن اگر غیر محدود ہے تو جہاں اس کو خیال ہو کہ کنارہ آگیا وہ سمجھے یہ میری نظر کا قصور ہے۔ وہ جہاں اتُرا وہیں ڈوبا کیونکہ غیر محدود دریا کا کنارہ آہی نہیں سکتا۔میں نے کہا آپ جس دریا کا ذکر کر رہے ہیں وہ محدود ہے یا غیر محدود؟ اگر تو غیر محدود ہے تو جہاں یہ خیال کیا کہ کنارہ آگیا ہے وہیں ڈوبے گا کیونکہ غیر محدود دریا کے متعلق یہ خیال کہ کنارہ آگیا نفس کا دھوکا ہے۔ پس ہمارا خدا غیرمحدود ہے اور جب رسولِ کریمﷺ کی ترقی خدا تعالیٰ کے مقام کے لحاظ سے دیکھی جائے تو ماننا پڑے گا کہ ابھی کنارہ نہیں آیا۔ بلکہ پہلے تو میں نے کہا تھا کہ نہیں آیا مگر اب یہ کہتا ہوں کہ نہیں آسکتا۔ اگر دس ارب سال بھی گزر جائیں بلکہ دس ارب x دس ارب سال بھی گزر جائیں اور ایسا سُبک رفتار انسان ہو جیسے محمد مصطفیٰﷺ ہیں تب بھی وہ کنارہ نہیں آسکتا۔(الفضل۱۲؍جنوری۱۹۴۰ء)
(باقی آئندہ)