منظوم کلام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام
نسلِ انساں میں نہیں دیکھی وفا جو تجھ میں ہے
تیرے بن دیکھا نہیں کوئی بھی یارِ غمگسار
لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول
مَیں تو نالائق بھی ہو کر پا گیا درگہ میں بار
اِس قدر مُجھ پر ہوئیں تیری عنایات و کرم
جن کا مشکل ہے کہ تا روزِ قیامت ہو شمار
آسماں میرے لئے تو نے بنایا اِک گواہ
چاند اور سورج ہوئے میرے لئے تاریک و تار
تو نے طاعوں کو بھی بھیجا میری نُصرت کے لئے
تا وہ پورے ہوں نشاں جو ہیں سچائی کا مدار
ہو گئے بیکار سب حیلے جب آئی وہ بلا
ساری تدبیروں کا خاکہ اُڑ گیا مثلِ غبار
سرزمینِ ہند میں ایسی ہے شہرت مجھ کو دی
جیسے ہووے برق کا اِک دم میں ہرجا اِنتشار
پھر دوبارہ ہے اُتارا تو نے آدم کو یہاں
تا وہ نخلِ راستی اِس ملک میں لاوے ثمار
لوگ سَو بَک بَک کریں پر تیرے مقصد اور ہیں
تیری باتوں کے فرشتے بھی نہیں ہیں راز دار
ہاتھ میں تیرے ہے ہر خسران و نفع و عُسْر و یُسْر
تو ہی کرتا ہے کسی کو بے نوا یا بختیار
جس کو چاہے تختِ شاہی پر بٹھا دیتا ہے تو
جس کو چاہے تخت سے نیچے گرا دے کر کے خوار
مَیں بھی ہوں تیرے نشانوں سے جہاں میں اک نشان
جس کو تو نے کردیا ہے قوم و دیں کا افتخار
(در ثمین صفحہ ۱۲۶)