سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ جرمنی (۲۹؍ اگست ۲۳ء بروز منگل)
٭… تیس سے زائد شہروں سے حاضر ہونے والی ۷۷ فیملیز کے ۲۸۴؍ افراد کی اپنے پیارے امام سے ملاقات ، ملاقات کے بعد جذبات کا اظہار
٭… میں اس ملاقات کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا نورہی نور تھا۔ حضور انور کے چہرہ پر اتنا نور تھا کہ نظر نہیں ٹھہرتی تھی
٭… احباب کرام کا خوشی کے جذبات کا ظہار: میری دعائیں قبول ہو گئیں، بہت خوشی ہوئی، ایسا لگتا ہے جیسے زندگی کا مقصد آج پورا ہوگیا۔ بہت دعائیں کی تھیں، جب ملاقات کی اطلاع ملی تو میں نے شکر انے کے نفل ادا کیے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بہت پیار کا سلوک فرمایا، انگوٹھیاں دیں، تبرک دیا۔ میں ۲۳ سال سے کام کر رہا ہوں، روزانہ تہجد کی نماز پڑھ کر کام پر جاتا ہوں، ہر نماز میں، میں پیارے حضور کے لیے پہلے دعا کرتا ہوں۔ اگر آپ کو کچھ چاہیے تو اللہ تعالیٰ سے مانگیں، اس کے آگے جھکیں، وہ آپ کی جھولی بھر دے گا، ورنہ تو اس دنیا کا سب مال اسباب ختم ہونے والا ہے
٭… حضور انور سے مل کر ایسے لگتا ہے جیسے دوبارہ دنیا میں آگیا ہوں۔ دل کو سکون مل گیا ہے۔ حضور انورکی خدمت میں دعا کے لیے عرض کی تو دل کو تسلی ہوگئی
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح پانچ بج کر چالیس منٹ پر تشریف لاکر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک، خطوط اور رپورٹس ملاحظہ فرمائیں اور ہدایات سے نوازا۔ حضور انور کی مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی۔
پروگرام کے مطابق صبح گیارہ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دفتر تشریف لائے اور فیملی ملاقاتیں شروع ہوئیں۔
آج صبح کے اس سیشن میں ۳۷؍ فیملیز کے ۱۴۸؍ افراد نے اپنے پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت پائی۔ ہر ایک نے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کا شرف پایا۔ حضور انور نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائیں۔
ملاقات کرنے والی یہ فیملیز جرمنی کی مختلف جماعتوں سے آئی تھیں۔ بعض فیملیز بڑے لمبے سفر طے کر کے اپنے آقا سے ملاقات کے لیے پہنچی تھیں۔
جماعت TRIER سے آنے والی ۲۰۸؍ کلومیٹر، FILDERSTADT سے آنے والی ۲۲۲؍ کلومیٹر آخن سے آنے والی ۲۶۳؍ کلومٹر،FREIBURGسےآنے والی اور جماعت BOCHOLT سے آنے والی فیملیز اور احباب ۳۰۲ کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے پہنچے تھے۔ جو فیملیز اور احباب HANNOVER سے آئے تھے وہ ۳۳۷؍ کلومیٹر اور WALDSHUT سے آنے والے ۳۶۸؍ کلومیٹر جب کہ LEIPZIG سے آنے والے ۳۷۸؍ کلومیٹر اور جماعت CHEMNITZ سے سفر کر کے آنے والے ۳۸۲؍ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے اپنے پیارے آقا سے شرف ملاقات کے لیے پہنچےتھے۔
تقریباً یہ سبھی فیملیز ایسی تھیں یا بعض فیملیز کا ایک حصّہ ایسا تھا جو اپنی زندگیوں میں پہلی مرتبہ اپنے پیارے آقا کے دیدار اور شرف ملاقات سے فیضیاب ہو رہا تھا۔ آج کا دن ان کی زندگی میں نہایت مبارک اور برکتوں اور اللہ کے فضلوں سے بھرپور دن تھا۔ پیارے آقا سے ملاقات کے ان لمحات کو یہ لوگ اور ان کی اولادیں ہمیشہ یاد رکھیں گی۔
خلیفۃ المسیح سے قرب کی یہ چند گھڑیاں ان کی ساری زندگی کا سرمایہ ہیں۔ انسان کی زندگی میں چند لمحات ایسے آجاتے ہیں جو اس کی کایا پلٹ دیتے ہیں۔ خلیفۃ المسیح سے قرب کے یہ چند لمحات یقیناً ایسے ہی مبارک لمحات ہیں جو ایک انسان کا دین بھی سنوار جاتے ہیں اور اس کی دنیا بھی سنور جاتی ہے اور اسے ایک نئی زندگی عطا ہوتی ہے۔
ملاقات کرنے والوں میں سے ایک دوست کاشف سہیل صاحب (جن کا تعلق ربوہ سے ہے) نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ میں اپنے جذبات کا اظہار کرسکوں، میرے جذبات قابو میں نہیں ہیں۔ میں بول نہیں پا رہا تھا۔ حضور نے میری مشکلات کے لیے دعا کی ہے کہ سب ٹھیک ہوجائے گا، حضور نے مجھے انگوٹھی تبرک دی ہے۔
ربوہ سے آنے والے ایک اور دوست شیخ محمد ادریس صاحب نے بھی اپنی فیملی کے ساتھ حضور انور کے ساتھ پہلی ملاقات کی۔موصوف نے کہا کہ میں اس ملاقات کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا نورہی نور تھا۔ حضور انور کے چہرہ پر اتنا نور تھا کہ نظر نہیں ٹھہرتی تھی۔ ہم تو دعائیں لینے آئے تھے۔میرا جسم ابھی بھی کانپ رہا ہے۔ ہم ساری رات یہ سوچ کر سو نہیں سکے تھے کہ صبح حضور انور سے ہماری ملاقات ہے۔
ایک دوست صاحبزادہ نوید الرحمٰن صاحب جو چند ماہ قبل پشاور سے جرمنی آئے ہیں۔ بیان کرتے ہیں کہ اپنے پیارے آقا سے ملاقات واقعی ایک بہت بڑی سعادت ہے۔ میں اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے۔
ایک دوست خرم نوید صاحب جو جماعت DARMSTADT سے آئے تھے کہنے لگے میری نو سال بعد ملاقات ہوئی ہے ملاقات سے قبل ہی جذبات قابو میں نہیں تھے۔ اب مجھ سے کچھ بیان نہیں ہو رہا۔ ابھی بھی دل کی دھڑکن بہت زیادہ ہے۔ حضور نے ہمیں بہت وقت دیا یہ ملاقات اب میری زندگی بدل دے گی۔(ان شاء اللہ)
ایک صاحب بشیر احمد مجوکہ صاحب جن کا تعلق حویلی مجوکہ سرگودھا سے ہے اپنی اہلیہ کے ساتھ ملاقات کے لیے آئے تھے۔ کہنے لگے کہ ان کی زندگی میں حضور انور کے ساتھ پہلی ملاقات تھی۔ کہنے لگے کہ آج میرے لیے بہت ہی خوشی کا موقع تھا۔ میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ اللہ کرے کہ یہ موقع ہمیں بار بار ملتا رہے۔
بوریوالہ ضلع وہاڑی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک دوست منور احمد صاحب نے بیان کیا کہ یہ ان کی پہلی ملاقات تھی۔ میں اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر سکتا۔ مجھ میں بات کرنے کی طاقت نہیں ہے میں جذبات سے مغلوب تھا۔ خدا تعالیٰ کا بےانتہا فضل ہوا کہ آج مجھےیہ ملاقات نصیب ہوئی۔
ربوہ سے آنے والے ایک دوست مختار احمد صاحب نے بیان کیا کہ ان کی حضور انور سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ آج میرے لیے خوشی کا دن ہے۔ مجھے حضور انور سے مل کر اس قدر خوشی ہوئی ہے کہ میں بیان نہیں کرسکتا۔ ایک نوجوان احتشام مقصود صاحب جن کی عمر ۱۸ سال ہے جرمنی کی جماعت SPEYER سے آئے تھے۔ کہنے لگے کے یہ ان کی پہلی ملاقات تھی۔ میں جیسے ہی دفتر میں داخل ہوا میرے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ مجھ سے کوئی بات نہ ہوسکی، مجھ سے بولا نہیں جارہا تھا۔ حضور انور نے ازراہ شفقت مجھے تحفہ بھی عنایت فرمایا۔
ایک دوست محمد وسیم صاحب ملک یوکرین سے آئے تھے۔ زندگی میں پہلی ملاقات تھی کہتے ہیں میرے لیے بیان کرنا بہت مشکل ہے۔میر ا دل بہت دھڑک رہا تھا۔ حضور انور کو دیکھ کر رونا آجاتاتھا۔میرے لیے بات کرنی مشکل ہو رہی تھی۔
ملاقاتوں کا یہ پروگرام ایک بج کر چالیس منٹ تک جاری رہا۔ بعد ازاں حضور انور اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
بعد ازاں دو بج کر پانچ منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشریف لاکر عزیزم سرمد احمد ابن مکرم ضیاء اللہ آف روڈل ہائم فرنکفرٹ کی نماز جنازہ حاضر اور تین مرحومین کی نماز جنازہ غائب پڑھائی۔
عزیزم سرمد احمد مورخہ ۲۴؍ اگست کو ناگہانی طور پر وفات پا گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وفات کے وقت مرحوم کی عمر گیارہ سال تھی اور چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔ مرحوم نے والدین کے علاوہ ایک بڑا بھائی اور ایک بڑی بہن یادگار چھوڑی ہیں۔ عزیزم سرمد نے ۸؍ سال کی عمر میں ناظرہ قرآن کریم پڑھ لیا تھا اور نویں پارے تک ترجمہ کے ساتھ پڑھ چکا تھا۔ مرحوم کو قرآن مجید سے بہت لگائو تھا۔گذشتہ دو سالوں سے رمضان المبارک میں قرآن کریم کا ایک دور مکمل کر لیا تھا۔ اب دو مہینوں سے آن لائن قرآن پاک ترتیل سے سیکھ رہا تھا۔ قرآن کریم کی ۲۱ سورتیں اور ۲۲؍احادیث زبانی یاد کی ہوئی تھیں اور ۵ کا ترجمہ بھی سیکھ لیا تھا۔ ۹ دعائیں ترجمے کے ساتھ یاد تھیں اور ۵ اشعار قصیدے کے بھی یاد تھے۔ مرحوم کو خلافت سے بے حد محبت تھی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی جرمنی تشریف آوری پر ترانہ پیش کرنے والوں کے ساتھ تھا اور وفات سے ایک دن پہلے بیت السبوح میں ترانے کی تیاری کےلیے آیا تھا۔
نماز جنازہ غائب:
٭…مکرم فضل احمد صاحب ابن مکرم نور احمد صاحب (الطاف پارک، امارت دہلی گیٹ لاہور)
۸؍ جون ۲۰۲۳ء کو ۷۸ سال کی عمر میں بقضائے الٰہی وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم نہایت مخلص، سادہ مزاج اور جماعت کے ساتھ وفا کا تعلق رکھنے والے انسان تھے۔ خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتے رہتے تھے۔اپنے حلقہ میں سیکرٹری رشتہ ناطہ اور سیکرٹری تعلیم القرآن بھی تھے۔ تلاوت قرآن کریم کے پابند تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔
٭…مکرم محمد ریاض صاحب ابن مکرم سادہ خان صاحب (موضع ادر حماں تحصیل کوٹ مومن ضلع سرگودھا)
۲۵؍ مئی ۲۰۲۳ء کو ۶۳ سال کی عمر میں بقضائے الٰہی وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم مخلص احمدی تھے۔ جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ نئی بیت الذکر کی تعمیر اور جماعتی سکول بنانے میں اپنے آپ کو اس طرح وقف کیے رکھا جیسے اپنا ذاتی کام ہو۔ جماعتی لحاظ سے جب بھی کسی خدمت کی ضرورت ہوتی اپنا کام چھوڑ کر فوری حاضر ہوجاتے تھے۔ نماز باجماعت کے پابند تھے۔ اپنی طاقت کے مطابق ہر ایک کی مدد کرنے والے تھے۔ مرحوم موصی تھے۔
٭…مکرمہ فرزانہ مقصود صاحبہ زوجہ مکرم مقصود احمد صاحب (گاؤں غلام حیدر ضلع عمر کوٹ)
۱۳؍ مئی۲۰۲۳ءکو بعمر ۴۳؍ سال بقضائے الٰہی وفات پاگئیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحومہ صوم وصلوٰۃ کی پابند، مہمان نواز اور خوش اخلاق، غریبوں اور مساکین کا خاص خیال رکھتی تھیں۔ خلیفہ وقت اور جماعت سے عشق و وفا کا تعلق تھا۔ مرحومہ جماعتی عہدیداران اور مرکزی نمائندگان کی دل وجان سے خدمت کرتی تھیں۔ ان کا ایک بٹیا جامعہ احمدیہ میں زیر تعلیم ہے۔
نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے لواحقین سے اظہار تعزیت فرمایا۔
بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد میں تشریف لا کر نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائیں۔ نماز کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
پچھلے پہر بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دفتری امور کی انجام دہی میں مصروف رہے،
پروگرام کے مطابق چھ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لائے اور فیملی ملاقاتیں شروع ہوئیں۔
آج شام کے اس سیشن میں پروگرام کے مطابق ۴۰ فیملیز کے ۱۳۶؍ افراد نے اپنے پیارے آقا سے ملاقات کی سعادت پائی۔ ان سبھی فیملیز نے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت بھی پائی۔ حضور انور نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اور طالبات کو قلم عطا فرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطا فرمائے۔
آج شام کے اس سیشن میں بھی جرمنی کی مختلف ۳۱ جماعتوں اور شہروں سے فیملیز اور احباب جماعت ملاقات کے لیے پہنچے تھے۔ بعض احباب اور فیملیز بڑے لمبے سفر طے کر کے آئی تھیں۔
جماعت EBINGEN اور ULM. DONAU سے آنے والے قریباً ۳۰۰؍ کلومیٹر اور جماعت HANNOVER سے آنے والے ۳۳۷؍ کلومیٹر، اوسنابُروک(OSNABRUCK) سے آنے والے ۳۴۳؍ کلومیٹر، CHEMINITZ سے آنے والے ۳۸۲؍ کلومیٹر، جب کہ JESTEBURG سے آنے والے ۴۶۲؍ کلومیٹر لمبا سفر طے کر کے پہنچے تھے۔
ملاقات کرنے والی ان فیملیز میں سے بڑی تعداد اور اکثریت ان لوگوں کی تھی جو پاکستان سے یہاں آئے تھے اور اپنی زندگی میں پہلی بار اپنے پیارے آقا سے مل رہے تھے۔
ایک نوجوان ارسلان احمد صاحب نے جو سیالکوٹ سے آئے تھے اور یہاں جماعت CHEMNITZکے ممبر ہیں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دل کی کیفیت کا نہ ہی پوچھیں۔ جب باہر تھا تو صبر نہیں ہو رہا تھا۔ بہت کچھ سوچا ہوا تھا مگر جب اندر گیا تو بات نہ کر پایا مگر دل کو تسلیّ ہوگئی۔ ان کی والدہ بھی ساتھ تھیں اور وہ جذبات سے مغلوب تھیں اور ان کی آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے۔
ایک دوست صدیق احمد صاحب پشاور سے آئے تھے ویسے ان کا تعلق افغانستان سے ہے۔ ان کی فیملی کے ساتھ حضور انور سے پہلی ملاقات تھی۔ یہ بھی جذبات سے مغلوب تھے اور بات نہیں کر پا رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے بہت دعائیں کیں کہ ہماری ملاقات ہوجائے۔ جب فون آیا تو بہت خوشی ہوئی۔
بہاولنگر پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک دوست نوید احمد صاحب نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھ سے تو بولا نہیں جا رہا تھا۔ میری بیٹی بھی ساتھ تھی۔ حضور نے بہت پیار کا سلوک فرمایا اور میری اہلیہ کو انگوٹھی عنایت فرمائی۔
ایک دوست رانا خالد محمود صاحب کی اپنی فیملی کے ساتھ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پہلی ملاقات تھی۔ انہوں نے بتایا کہ میری دعائیں قبول ہو گئیں، بہت خوشی ہوئی، ایسا لگتا ہے جیسے زندگی کا مقصد آج پورا ہوگیا۔ بہت دعائیں کی تھیں، جب ملاقات کی اطلاع ملی تو میں نے شکرانے کے نفل ادا کیے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بہت پیار کا سلوک فرمایا، انگوٹھیاں دیں، تبرک دیا۔ میں ۲۳ سال سے کام کر رہا ہوں، روزانہ تہجد کی نماز پڑھ کر کام پر جاتا ہوں، ہر نماز میں، میں پیارے حضور کے لیے پہلے دعا کرتا ہوں۔ اگر آپ کو کچھ چاہیے تو اللہ تعالیٰ سے مانگیں، اس کے آگے جھکیں، وہ آپ کی جھولی بھر دے گا، ورنہ تو اس دنیا کا سب مال اسباب ختم ہونے والا ہے۔
ایک دوست عرفان اللہ صاحب کی بھی فیملی کے ساتھ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ پہلی ملاقات تھی۔ موصوف کا تعلق پاکستان میں گجرات سے ہے۔ یہ کہنے لگے کہ جذبات کی تو بات ہی نہ کریں، دل ۱۰۰ سے زیادہ کی رفتارسے دھڑک رہا ہے۔ حضورنے بہت پیار کاسلوک فرمایا۔ بچوں کو چاکلیٹس دیں، مجھے انگوٹھی دی۔ بہت زیادہ خوشی ہوئی۔
ایک دوست ماجد احمد صاحب کا تعلق بستی شکرانی،ضلع بہاولپور سے تھا۔ یہ ۲۰۱۸ء میں جرمنی آئے تھے۔ آج ان کی پہلی ملاقات تھی۔ آپ تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے پر نور چہرے کو دیکھ کر میں بول نہیں پایا۔ حضور کی شفقت میرے اور میری فیملی کے لیے بے شمار برکات کا موجب ہے۔ پاکستان میں بستی شکرانی کے حالات بہت خراب ہیں، جماعت کی بہت مخالفت ہے، میں نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دعا کی درخواست کی، تو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں دعا کروں گا، اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔ آمین
ایک دوست محمد اکرم صاحب جو بہاولپور سے آئے تھے کہنے لگے کہ آج حضور سے میری پہلی ملاقات تھی۔ حضور انور سے مل کر ایسے لگتا ہے جیسے دوبارہ دنیا میں آگیا ہوں۔ دل کو سکون مل گیا ہے۔ حضور انورکی خدمت میں دعا کے لیے عرض کی تو دل کو تسلی ہوگئی۔ شہد بھی تبرک کروایا۔
احسان احمد صاحب کا تعلق ربوہ سے ہے۔ ان کی بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پہلی ملاقات تھی۔ یہ بیان کرتے ہیں کہ میں بہت خوش ہوں۔ میں نے سارے دل کی بات کی۔ ان کے ساتھ ان کا ۹ سال کا بیٹا شاہ زیب تھا، کہنے لگا کہ مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھا، ایسا تھا جیسے کوئی خواب دیکھ رہا ہوں اور بس۔ پیارے حضور نے میری آمین کروائی اور مجھے گفٹس بھی دیے۔ حضور نے بہت پیار کیا۔
ایک نوجوان شہاول بلال جن کا تعلق پنڈی بھاگو سیالکوٹ سےہے ڈیڑھ سال قبل جرمنی آئے تھے، یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں کتنے احمدی پیارے حضور سے ملاقات کے لیے ترستے ہیں، میں بہت خوش قسمت ہوں کہ مجھے آج یہ موقع مل گیا ہے۔ پاکستان کے حالات کے بارہ میں پیارے حضور کو دعا کی درخواست کی، حضور نے فرمایا دعا کریںگے۔ میں نے انگوٹھی تبرک کروائی۔
سفیر احمد صاحب ۲۳ سال کے نوجوا ن ہیں۔ یہ بیان کرتے ہیں کہ سمجھ ہی نہیں آرہی اور یقین ہی نہیں آرہا کہ میری ملاقات ہوگئی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم ان لوگوں میں سےہیں جن کی ملاقات ہوئی ہے۔ میں قائد کے طور پر خدمت کی توفیق پا رہا ہوں، حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ میں جماعت کی جو خدمت کر رہا ہوں اسے جاری رکھوں۔
ایک دوست نوید احمد صاحب جن کا تعلق گنڈا سنگھ والا، ضلع فیصل آباد سے ہے۔ ان کی بھی فیملی کے ساتھ پہلی ملاقات تھی۔ انہوں نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور کے چہرہ کو نور سے بھرا ہوا ہے، میں دیکھ نہیں پارہا تھا۔ میرا بیٹا ۲ ماہ کا ہو رہا ہے۔ حضور نے پیارسے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔ یہ جذبات سے مغلوب تھے اور بات نہیں کر پا رہے تھے، کہنے لگے کہ یہ میرا بیٹا وقف نو میں ہے، اب میں بھی اور میرا یہ بیٹا بھی جماعت کی ہر لحاظ سے خدمت کریں گے۔
رفیق احمد باجوہ صاحب کی عمر ۷۱؍ سال ہے اور ان کا تعلق فاروق آباد سے ہے۔ یہ دو سال سے جرمنی میں ہیں۔ ان کی بھی یہ پہلی ملاقات تھی۔ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو آنحضرت ﷺ کا سلام پہنچایا ہے کیونکہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جانشین ہیں۔ ملاقات کی تمنا بہت دیر سے تھی۔ حضور انور کو ٹی وی میں دیکھنا اور آمنے سامنے دیکھنا زمین و آسمان کا فرق ہے۔ حضور انور نے بہت شفقت سے باتیں کی۔ یقیناً آپ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ وجود ہیں۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے راشد مرزا صاحب کی خلیفہ وقت سے پہلی ملاقات تھی۔ وہ اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے روپڑے اور ان کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ کہنے لگے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا پر نور چہرہ دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا، اتنا نورانی چہرہ۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو دعا کے لیے لکھتے ہیں تو سب کام ٹھیک ہوجاتے ہیں۔
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ایک دوست منعم آفتاب صاحب بیان کرتے ہیں کہ یہ میری پہلی ملاقات تھی،میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ بہت خوشی ہوئی، میری والدہ کو کچھ دن ہوئے ہارٹ اٹیک ہوا تھا، دعا کے لیے عرض کیا، تو اب ان شاء اللہ وہ ٹھیک ہوجائیں گی۔ میری بیٹی کو بہت خوشی ہوئی کہ پیارے حضور نے مجھے چاکلیٹ دی تو میں نے جزاکم اللہ کہا، بہت اچھا لگا۔
رضوان احمد صاحب جرمنی کی جماعت Chemnitz سے آئے تھے۔ ان کی اور ان کی فیملی کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ کہتے ہیں کہ بہت ساری باتیں تھیں جو ہم حضور سے کرنا چاہتے تھے مگر جیسے ہی ہم حضور کے دفتر میں داخل ہوئے تو حضور کی روحانیت کے رعب سے ہم سب باتیں بھول گئے۔ ہمارا سب سے چھوٹا بچہ اتنا بیمار تھا کہ ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا مگر حضور انور کی دعائوں سے الحمد للہ زندہ ہے اور بہتر ہوتا چلا جا رہا ہے اور آج حضور نے اس کے بارہ میں دریافت فرمایا اور پھر مزید دوائی وغیرہ لینے کا ارشاد فرمایا۔
محمد اکرام صاحب اور ان کی اہلیہ جن کا تعلق میر پور خاص سے ہے اور ابھی کچھ مہینے قبل ہی جرمنی منتقل ہوئے ہیں۔ ان کی آخری ملاقات حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ سے ہوئی تھی اور اُس کے بعد آج حضور انور سے اپنی زندگی میں پہلی ملاقات کی سعادت پارہے تھے۔ دونوں میاں بیوی کہنے لگے کہ حضور کو دیکھ کر اور آپ سے گفتگو کرکے دل بھر آیا اور ہمیں جو پریشانیاں لاحق تھیں وہ سب اب پریشانیاں نہیں لگتیں اور ہمارے دل میں سکون پیدا ہوگیا ہے۔
ملاقاتوں کا یہ پروگرام آٹھ بج کر پچیس منٹ تک جاری رھا۔ بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کچھ دیر کے لیے اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
نو بجے حضور انور نے تشریف لا کر نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور اپنی قیام گاہ پر تشریف لے گئے۔