ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب (جلسہ سالانہ یوکے ۲۰۱۶ء کے ایام کے چند واقعات۔ حصہ سوم)
ایک یادگار لطیفہ
جس دوران حضور انور ایم ٹی اے کے دفتر تشریف لائے تو آپ نے ایم ٹی اے کے ایک میزبان مکرم مبارک صدیقی صاحب کو بھی دیکھاجو جماعت میں اپنے دو اوصاف کی وجہ سے خوب اچھی طرح جانے جاتے ہیں۔ ایک انتخاب ِسخن کے میزبان کے طور پر اور دوسرے اپنی اردو اورپنجابی شاعری کے حوالےسے۔ مکرم مبارک صدیقی صاحب کو نہایت دلچسپ انداز میں لطیفے سنانے کی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے۔ خاص طور پر ایک لطیفہ ایسا ہے جو واٹس ایپ پر خوب شیئر ہوا۔ جس میں انہوں نے بیت الفتوح میں پیش آنے والے ایک واقعہ کا ذکر کیا ہے۔انہوں نے یہ لطیفہ حضور انور کی موجودگی میں ایک مشاعرہ پر مسجد فضل کے محمود ہال میں سنایا تھا۔
مکرم مبارک صاحب نے بتایا کہ ایک مرتبہ حضور انور نماز کی امامت فرما کر مسجد سے باہر تشریف لا کر طاہر ہال تشریف لے جا رہے تھے۔ مبارک صاحب کو ہال میں دیکھنے پر حضور انور نے فرمایا کہ آج آپ نے نماز نہیں پڑھی؟کیونکہ آپ شاعر ہیں اس لیے آپ کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ حضور انور نے فرمایا ہے کہ آپ نے نظم نہیں پڑھی؟اس کے جواب مبارک صدیقی صاحب نے عرض کی کہ جی نہیں حضور۔ یہ سماعت فرمانے پر حضور انور نے دوبارہ زیادہ فکر مندی سے فرمایا کہ نہیں پڑھی۔جس کے جواب میں مبارک صدیقی صاحب نے جواب دیا کہ حضور ایک لمبے عرصے سے نہیں پڑھی۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں نے پہلی مرتبہ یہ کلپ دیکھا تھا تو دیگر بے شمار احمدیوں کی طرح میں بھی اپنی ہنسی پر قابو نہیں رکھ پایا تھا۔ مکرم مبارک صاحب کو جلسہ کے معاینہ پر دیکھنے پر حضور انور نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ مبارک صاحب! جلسہ لطیفے سنانے کا وقت نہیں ہے۔
یہ ایک نہایت مختصر تبصرہ تھا جو حضور انور نے نہایت شفقت سے فرمایا تھا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ حضورِانور ہر وقت جلسہ کی تعظیم اور روحانیت کا کس قدر التزام فرماتے ہیں۔ اگرچہ دیگر مواقع پر لطیفوں سے لطف اٹھایا جاتا ہے اور حضور انور خود بھی محظوظ ہوتے ہیں لیکن حضور انور نے( اس تبصرہ سے) وضاحت فرما دی کہ جلسہ ایسی چیز ہرگز نہیں جسے معمولی سمجھا جائے۔
ماہ ِنو کا چاند نظر آنے کی دعا
جب ہم ایم ٹی اے کے سیکشن سے آگے بڑھے تو مکرم ناصر خان صاحب حضور انور کے ہمراہ جلسہ گاہ کی طرف بڑھے۔ عام طور پر حضور انور تیزتیز قدم اٹھاتے ہیں لیکن اس موقع پر حضور انور زیادہ معتدل رفتار سے چل رہے تھے۔مکرم ناصر خان صاحب حضور انور کی معمول کی رفتار کے مطابق تیز تیز چل رہے تھے،یہ دیکھنے پر حضور انور نے فرمایا کہ ناصر صاحب،آپ کو کیا جلدی ہے۔ میں کسی وجہ سے آہستہ چل رہا ہوں تاکہ ہر ایک کو نماز ادا کرنے کے لیے مناسب وقت میسر آ جائے۔
جب حضور انور جلسہ گاہ تشریف لا رہے تھے تو آپ نے آسمان پر چاند دیکھا۔ حضور انور نے استفسار فرمایا کہ کیا یہ نیا چاند ہے؟ اس پر صدر صاحب مجلس انصار اللہ یو کے، ڈاکٹر چودھری اعجاز الرحمان صاحب نے عرض کی کہ انہیں حتمی طور پر اس کاعلم نہیں ہے۔ حضور انور نے فرمایا کہ کیا یہ نیا چاند ہے یا نہیں، کیا ہم اسے پہلی مرتبہ دیکھ رہے ہیں؟
پھر حضور انور نے چاند کی طرف رخ کیا اور آ نحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی پیروی میں نیا چاند دیکھنے پردونوں ہاتھ بلند فرما کر دعا کی۔
ایک پُر شفقت لمحہ
جس دوران حضور انور منتظر تھے کہ تمام موجوداحمدی احباب مغرب کی نماز کے لیے تیار ہو جائیں تو حضور انور نے اپنے پوتے عزیزم سعد (جو صاحبزادہ مرزا وقاص احمد صاحب کے بیٹے ہیں) کی طرف دیکھا اور استفسار فرمایا کہ کیا وہ اس معائنہ کے دوران قافلے کے ساتھ چل چل کر تھک گیا ہے؟جواب میں عزیزم سعد نے اپنے دادا جان کی طرف دیکھا اور نفی میں سر ہلایا کہ وہ تھکا نہیں ہے۔ یہ ایک نہایت پُر شفقت لمحہ تھا۔
احمدیوں کے جذبات
ہر گزرتے دن کے ساتھ جبکہ جلسہ قریب آرہا تھا مسجد فضل لندن میں احباب کے رش کے ساتھ ساتھ روحانی ماحول میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ ہر روزفیملی ملاقاتوں کی تعداد بھی بڑھ رہی تھی۔ لندن میں روز مرہ معمول کے مطابق حضورِانور قریب پچیس فیملیز کو ملاقات کا شرف بخشتے ہیں تاہم جلسہ کے دنوں میں حضور انور روزانہ ستّر سے اسّی فیملیز سے ملاقات فرماتے ہیں اور بعض دنوں میں یہ تعداد سو فیملیز تک جا پہنچتی ہے۔
مجھے بعض ایسے احباب سے بھی ملنے کا موقع ملا جو ان خوش نصیبوں میں شامل تھے جنہیں حضور انور سے ملاقات کرنے کی سعادت نصیب ہوئی تھی۔ میں نے اُن سے حضورِانور کے ساتھ ملاقات کے روحانی تجربہ سے متعلق معلومات حاصل کیں۔
میری ملاقات مکرمہ صالحہ ملک صاحبہ سے ہوئی جوصدر لجنہ اماء اللہ امریکہ ہیں۔ مکرمہ صالحہ صاحبہ نو مبائعہ ہیں اور ۸؍اگست کو ان کی اپنی بیٹی کے ہمراہ حضور انور سے ملاقات ہوئی تھی۔اس ملاقات کے بارے میں مکرمہ صالحہ صاحبہ نے بتایا کہ جب بھی آپ کو حضور انور سے ملاقات کا شرف ملتا ہے تو آپ کو اطمینان کا احساس ہوتا ہے۔ خلیفہ کو دیکھنا روحانی تر وتازگی کا ایک ذریعہ ہے جو آپ کو تقویت بخشتا ہے۔ بطور صدر لجنہ مجھے مستقل حضور انور سے ملاقات کا شرف ملتا رہتا ہے اور میں خوش نصیب ہوں کہ مجھے حضور سے براہِ راست راہنمائی حاصل کرنے اور بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ ایک بات جو حضور نے خاص طور پر مجھے سکھائی ہے وہ یہ ہے کہ خواہ کیسے بھی حالات یا مسائل ہوں توکل ہمیشہ اللہ پر کرنا ہے۔
ایک اور دوست جن سے میری ملاقات ہوئی وہ مکرم ح۔ احمد (عمر۲۱؍سال) تھے جو (۔)سے تشریف لائے تھے۔ وہ جذبات سے بے حد مغلوب تھے کیونکہ کچھ دیر قبل زندگی میں پہلی مرتبہ حضور انور سے ملاقات کا شرف پایا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ میری دیرینہ دلی خواہش تھی کہ اپنے خلیفہ سے ملوں جو پوری ہو گئی ہے اور میرے پاس اپنے جذبات کے اظہار کے لیے الفاظ نہیں ہیں۔ میں اس غم میں مبتلا رہتا تھا کہ میں اپنے محبوب سے دور رہتا ہوں جس سے میں سب سے زیادہ محبت کرتا ہوں اور اب میرے محبوب نے ہی مجھے یہاں بلایا ہے۔ دورانِ ملاقات میری بات کرنے کی ہمت نہ ہوئی پھر بھی حضور انور جانتے تھے کہ میں کون ہوں اور فرمایا تم وہ ہو جو مجھے اکثر خط لکھتے رہتے ہو اور جس نے سیڑھیوں پر بیٹھ کر ایم ٹی اے کے پروگرامز پیش کیے ہیں۔ اس بات کا احساس کہ حضور انور مجھے جانتے ہیں ناقابل بیان ہے۔
میری ملاقات ایک خاتون مکرمہ ف۔ منصور صاحبہ (عمر ۵۸؍سال) سے ہوئی جو (۔)سے تشریف لائی ہوئی تھیں۔ ان کی کسی بھی خلیفۃ المسیح سے یہ پہلی ملاقات تھی۔
اپنی ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے جو چند لمحات قبل ہوئی تھی انہوں نے بتایا کہ میں نے ۵۸؍سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے روحانی جانشین کو دیکھنے اور ملنے کا انتظار کیا ہے اور بالآخر آج وہ دن آ گیا ہے۔ حضور انور کے دفتر میں داخل ہونے سے قبل مجھے یقین تھا کہ میری زبان میرا ساتھ نہیں دے گی اور آپ کی موجودگی میں، مَیں ایک لفظ بھی نہیں بول سکوں گی۔ تاہم حضور انور اس قدر شفیق اور محبت کرنے والے ہیں کہ میں نہایت پُرسکون رہی اور الحمدللہ آپ سے دعا کی درخواست کرنے کی توفیق ملی۔ حضور انور کے دفتر میں آپ کو محض امن اور محبت کا احساس ہوتا ہے۔
مکرمہ فوزیہ صاحبہ نے مزید بتایا کہ اب مجھے جلسہ کا انتظار ہے کیونکہ میں نے ایم ٹی اے پر دیکھا ہے کہ کس طرح حدیقۃ المہدی ایک زرعی فارم ہے لیکن جماعت نہایت جانفشانی کے ساتھ اس جنگل کو ایک عارضی شہر میں بدل دیتی ہے۔ اس منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لیے میں کئی سالوں سے منتظر تھی۔
مخصوص اصطلاحوں کا استعمال
اس ہفتے ملاقات کے دوران ایک خبر آئی کہ دبئی میں ایک بڑے مسافر طیارے کو ہنگامی طور پر اتارا گیا۔ دفترپرائیویٹ سیکرٹری میں بیٹھے ہوئے میں نے پڑھا کہ کس طرح اس طیارے کی belly landing ہوئی ہے یعنی پیٹ کے بل اتارا گیا ہے۔ یہ اصطلاح میرے لیے بالکل نئی تھی۔اس دن حضور انور سے ملاقات کے دوران میں نے یہ خبر حضور انور کو سنائی اور بجائے اس عجیب اصطلاح کے استعمال کرنے کے میں نے اس کا تفصیلی ذکر کیا۔ جس دوران میں اس کی تفصیل بیان کر رہا تھا تو حضور انور نے میری طرف دیکھا اور فرمایاکہ تمہارا مطلب ہے کہ اس نے belly landing کی ہے۔
میں نے حضورِ انور کی خدمت میں عرض کی کہ میرا خیال تھا کہ حضور انور کو شاید اس اصطلاح کا علم نہ ہو اور یوں میں نے اس کی تفصیل بیان کرنے کے لیے بلاوجہ وقت ضائع کیا۔ اس پر حضور انور نے فرمایا کہ پاکستان میں ہمیں اس طرز پر انگریزی پڑھاتے ہیں کہ ہمیں کئی اصطلاحوں کی سمجھ آجاتی ہے۔ یہ سننے پر مجھے یاد آیا کہ کس طرح حال ہی میں حضور انور نے ایک انٹرویو کے دوران camera۔in کی اصطلاح استعمال فرمائی تھی۔
خاکسار نے یہ اصطلاح پہلے کبھی نہ سنی تھی اس لیے مجھے لگا کہ شاید میں نے غلط سنا ہے اور حضور انور نے ضرورon-camera کا لفظ استعمال فرمایا ہوگا۔
بعد ازاں جب حضور انور نے میرے نوٹس ملاحظہ فرمائے تو فرمایا کہ آپ نے on-camera کیوں لکھا ہے جبکہ میں نے تو in-camera کا لفظ استعمال کیا تھا جو ایک مستعمل اصطلاح ہے جس کے معنی on-camera کے متضاد ہیں اور اس سے مراد کسی کی ذاتیات کا خیال رکھنا ہے۔
باوجود اس کے کہ میں نے یونیورسٹی سے قانون پڑھا ہے میں نے بھی کبھی یہ اصطلاح اس سے پہلے نہ سنی تھی اور میں نے یہ بات حضور کی خدمت میں عرض بھی کی جس پر آپ نے اپنا آئی پیڈ نکالا اور ایک آن لائن ڈکشنری پر اس اصطلاح کی تفصیلات دیکھیں۔ یقینی طور پر حضور انور بجا فرما رہے تھے کہ اس اصطلاح in-camera تفصیل میں لکھا تھا کہ یہ قانونی طور پر بکثرت استعمال ہونے والی ایک اصطلاح ہے۔
(مترجم:’’ابو سلطان‘‘ معاونت :مظفرہ ثروت)